A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
بعض فنکار انتہائی با صلاحیت ہونے کے باوجود کامیابی سے محروم رہتے ہیں ، ان میں فلم ہمراہی (1966) میں متعارف ہونے والا اداکار حیدر بھی تھا جو نہ صرف ایک بہترین اداکار بلکہ فلمساز اور ہدایتکار بھی تھا۔۔!
تقریباً دو درجن فلموں میں بطور اداکار کام کیا اور ایک درجن کے قریب فلمیں بھی بنائیں لیکن پہلی فلم ہمراہی (1966) کے سوا کوئی فلم قابل ذکر نہیں۔
حیدر نے اس فلم میں ایک اپاہج کا رول بڑی خوبصورتی سے کیا اور ایک مشہور زمانہ ترانہ بھی فلمایا گیا تھا:
اپنی دوسری فلم عدالت (1968) میں رانی اور زیبا جیسی بڑی اداکاراؤں کے ساتھ ہیرو آیا لیکن ناکامی ہوئی۔
فلم کمانڈر (1968) میں رانی کے ساتھ ہیرو تھا اور ان پر رونالیلیٰ اور مسعودرانا کا یہ سریلا رومانٹک گیت بھی فلمایا گیا تھا:
فلم پردیس (1972) میں ولن کے رول میں بھی قسمت آزمائی کی۔ پنجابی فلم نظام (1972) سدھیر کی وجہ سے کامیاب رہی لیکن حیدر کو بطور اداکار فائدہ نہ پہنچا سکی۔
لیلیٰ مجنوں (1973) کی کلاسیک کہانی پر بنائی گئی اکلوتی پنجابی فلم میں حیدر کو دیبا کے ساتھ ٹائٹل رول ملا لیکن بری طرح سے ناکامی ہوئی۔
ایک بڑی بامقصد فلم بدل گیا انسان (1975) بھی بنائی جس میں مسعودرانا کا یہ شاہکار گیت:
بھی تھا لیکن یہ فلم بھی کامیابی سے محروم رہی۔
فلموں کے 'سلطانی دور' میں ضدی جٹ (1985) جیسی ایکشن فلم بھی بنائی اور اس میں مسعودرانا کا ایک بڑا بامقصد اور خوبصورت گیت:
ایک بڑے منفرد انداز میں پکچرائز کروایا تھا لیکن مختلف اردو ، پنجابی اور پشتو فلموں میں اداکاری ، فلمسازی اور ہدایتکاری کے باوجود کوئی بریک تھرو نہ مل سکا۔
حیدر کی بطور اداکار ، فلمساز اور ہدایتکار ایک یادگار فلم غازی علم الدین شہید (1978) تھی جس کا ٹائٹل رول اس نے بڑی عمدگی سے کیا تھا۔ یہ فلم ایک سچے واقعہ پر مبنی تھی۔
6 اپریل 1929ء کو لاہور میں ایک 19 سالہ نوجوان علم الدین نے ایک ہندو پبلشر راج پال کو چھری کے پے در پے وار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس ملعون نے پیغمبر اسلام ﷺ کی نجی زندگی کے بارے میں ایک گستاخانہ کتاب شائع کی تھی۔
انگریز حکومت نے فرقہ وارانہ فسادات اور امن عامہ کی وجہ سے کتاب کو ضبط کر لیا تھا اور اس جرم کی پاداش میں راج پال کو چھ ماہ قید کی سزا دے دی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپیل کے بعد سزا معاف کر دی تھی کیونکہ اس کا یہ موقف تسلیم کرلیا گیا تھا کہ اس نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا ، سب کچھ مسلمانوں کی مذہبی کتابوں سے ماخوذ ہے۔ اس قانونی شکست پر مسلمان بے حد مشتعل تھے۔
راج پال کے قتل کے الزام میں علم الدین کو 31 اکتوبر 1929ء کو میانوالی جیل میں پھانسی دے کر وہیں دفنا دیا گیا لیکن لاہور کے مسلمانوں کی درخواست پر لاش ان کے حوالے کی گئی۔ بالآخر 14 نومبر 1929ء کو نماز جنازہ کے بعد علم الدین کو میانی صاحب قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ لاہور کی تاریخ میں اتنا بڑا جنازہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے ہاتھ سے علم الدین کی لاش کو لحد میں اتارا اور تدفین کے بعد ان کا ایک جملہ بڑا مشہور ہے کہ
"لوکو ، اسیں گلاں ہی کردے رہ گئے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا۔۔"
اس کے بعد علم الدین کو ہماری تاریخ میں 'غازی علم الدین شہید' کے نام سے یاد کیا گیا اور مذہبی حلقوں کے مطابق وہ ایک سچا عاشق رسولﷺ تھا جس کے بارے میں بڑے ایمان افروز واقعات سنائے جاتے ہیں۔
فلمساز اور ہدایتکار حیدر کی فلم غازی علم الدین شہید (1978) کا آغاز اداکار محمدعلی کی پس پردہ آواز میں اس جملے کے ساتھ ہوتا ہے "بعد از بزرگ توہی قصہ مختصر۔۔" جس کے بعد مسعودرانا کی آواز میں یہ شعر گونجتا ہے:
حزیں قادری کے اوسط درجے کے اس فلمی منظر نامے میں حیدر (علم الدین) ، حبیب اور نجمہ محبوب کا بیٹا ہے جس کی پیدائش پر جب اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے تو وہ بڑی خاموشی سے سنتا ہے جس پر مولوی صاحب بڑے متاثر ہوتے ہیں اور اسے عاشق رسول ﷺ قرار دے کر اس کا نام علم الدین تجویز کرتے ہیں۔
بچپن ہی سے اس کا تکیہ کلام 'نبی وارث ' ہوتا ہے لیکن فلم کی کہانی میں خاصا تضاد ہے کیونکہ وہ کوئی غیر معمولی بچہ نہیں ہوتا بلکہ دیگر بچوں میں کھیلتے ہوئے اخروٹ چوری کر کے لے آتا ہے اور اپنی شرارتوں اور پڑھائی سے جی چرانے پر باپ سے مار بھی کھاتا ہے۔ وہ ، بڑا ہوکر مونچھیں تو رکھتا ہے لیکن سنت رسولﷺ کہیں نظر نہیں آتی اور نہ پنجگانہ نماز کی پابندی کہیں نظر آتی ہے۔ وہ ، راج پال (افضال احمد) کے قتل کا ارتکاب بھی علمائے کرام کی اشتعال انگیز تقاریر سے متاثر ہوکر کرتا ہے۔
تاریخی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ عدالت میں جاکر علم الدین ، راج پال کے قتل سے منحرف ہوجاتا ہے لیکن فلم میں عدالت میں وہ اعلانیہ اقبال جرم کرتا ہے۔
ایک تضاد یہ بھی ہے کہ فلم میں ایک طرف تو اس کی متوقع شہادت پر فخر کیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف قائداعظمؒ کو علم الدین کا مقدمہ لڑنے کے لیے بمبئی سے لاہور بلایا جاتا ہے اور اسکے لیے چندہ بھی جمع کیا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک مہنگے وکیل تھے۔
فلم میں اداکار قوی کو قائداعظمؒ بنایا گیا جو وہ کسی طور بھی نہیں لگتے تھے ، اور تو اور ، کم از کم اپنے لمبے بال ہی کٹوا لیتے۔
قائد اعظمؒ ، مقدمہ ہار جاتے ہیں اور تاجدار برطانیہ سے رحم کی اپیل بھی مسترد ہو جاتی ہے۔ تمام عدالتی مراحل طے کرنے کے بعد علم الدین کو پھانسی دے دی جاتی ہے۔
اس فلم میں حیدر کی منگیتر کا رول کرنے والی اداکارہ نوین تاجک تھی جو چند ایک فلموں میں نظر آنے کے بعد گمنام ہو گئی تھی۔
فلم کے بیشتر فنکار ، مہمان اداکاروں کے طور پر چھوٹے چھوٹے کرداروں میں نظر آئے جن میں نجمہ ، اقبال حسن ، بدرمنیر ، آصف خان ، علی اعجاز ، عالیہ ، بہار ، ریحان ، جمیل فخری اور الیاس کاشمیری وغیرہ تھے۔
ایکسٹرا اداکار ابو شاہ پر فلمائی ہوئی مسعودرانا کی ایک نعت:
پوری فلم میں پس منظر میں چلتی ہے لیکن اس نعت میں مسعودرانا کی آواز بڑی کرخت ہے ، نجانے موسیقار ماسٹر عبداللہ نے یہ گیت کیسے پاس کر دیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب مسعودرانا وقتی زوال کا شکار تھے اور ان کی آواز کی کوالٹی میں بھی بڑا فرق پڑا تھا۔
فلم کا اختتام بھی محمدعلی کی آواز میں علامہ اقبالؒ کے اس شعر سے ہوتا ہے:
"کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں ، یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں۔۔"
حیدر کی اس فلم کی ایک بھونڈی نقل 2002ء میں ہدایتکار رشید ڈوگر نے اسی نام سے بنائی تھی جس میں معمررانا نے ٹائٹل رول کیا تھا۔
حیدر کی فلم غازی علم الدین شہید (1978) جن حالات میں دیکھی ، وہ آج تک نہیں بھلا سکا۔
5 ستمبر 1978ء کو عیدالفطر کا دن تھا جس پر کل دس فلمیں ، حیدرعلی ، پلے بوائے ، سیتا مریم مارگریٹ ، دو ڈاکو (اردو) ، غازی علم الدین شہید ، اکبر امر انتھونی ، باڈی گارڈ ، عبرت ، راجو راکٹ (پنجابی) اور دوست دشمن (پشتو) ریلیز ہوئی تھیں۔
گجرات کے سنگیت سینما نے عید کی فلموں کے لیے رائے شماری کروائی تھی کہ مولا جٹ (1979) یا اکبر امر انتھونی (1978) میں سے کون سی فلم لگائی جائے۔
مجھے یاد ہے کہ میں اور میرے دوستوں نے اکبر امر انتھونی (1978) کے حق میں وؤٹ دیا تھا۔ یہ اور بات تھی کہ یہ فلم ہم نے جہلم کے پیراڈائز سینما میں دیکھی تھی۔ سنگیت سینما پر یہی فلم لگائی گئی تھی کیونکہ مولا جٹ (1979) کی ریلیز ملتوی کر دی گئی تھی۔
عید پر جب فلم دیکھنے کا موقع آیا تو میری اور میرے دوستوں کی پسند بدل گئی تھی کیونکہ دو تاریخی فلمیں غازی علم الدین شہید (1978) اور حیدرعلی (1978) بھی ریلیز ہورہی تھیں جو ہمارے لیے زیادہ دلچسپی کی حامل تھیں۔
میرے حلقہ احباب میں ہمارا زیادہ تر فالتو وقت مطالعہ اور فلم بینی کی نظر ہوتا تھا۔ میں روزانہ کے اخبار جنگ کے علاوہ تین ماہانہ رسالے حکایت ، اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ بڑی باقاعدگی سے پڑھتا تھا جو عام طور پر زمینی حقائق یعنی قومی ، سیاسی ، تاریخی اور حالات حاضرہ کے بارے میں ہوتے تھے۔
میرے دوست ، کراچی سے شائع ہونے والے ڈائجسٹ رسالوں کے دلدادہ تھے جو زیادہ تر خیالی دنیا یا فکشن ہوتا تھا جن کا ہم تبادلہ کیا کرتے تھے۔
سب رنگ ڈائجسٹ میں ہندو دیومالائی داستانوں پر مبنی لامتناعی سلسلہ 'امربیل' ہو یا سسپنس ڈائجسٹ میں ٹیلی پیتھی کے علم پر مبنی طویل ایکشن سلسلہ 'دیوتا' ، دوشیزہ ڈائجسٹ میں ایک ہم جنس پرست عورت کی سلسلہ وار کہانی 'چھلاوہ' ہو یا جاسوسی ڈائجسٹ میں تاریخ کو منفرد انداز میں بیان کرنے والا 'صدیوں کا بیٹا' ، الیاس سیتاپوری کی مغلیہ دور کی تاریخی کہانیاں بھی ناقابل فراموش ہوتی تھی جن کا بڑی شدت سے انتظار ہوتا تھا۔
ان کے علاوہ اس دور کا شاید ہی کوئی ایسا اخبار رسالہ ہوگا ، جو ہمارے زیر مطالعہ نہیں ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارا پسندیدہ موضوع بحث بھی تاریخی ، سیاسی ، ادبی اور فلمی موضوعات ہوتے تھے۔
عید کی ان دس فلموں میں سے جو فلمیں ہم دیکھنا چاہتے تھے وہ قریب کے سینما گھروں میں کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھیں۔ اس دور میں لاہور سے شائع ہونے والے روزنامہ مشرق میں بڑی تعداد میں چھپنے والے فلمی اشتہارات سے علم ہو جاتا تھا کہ کس شہر کے کس سینما پر کونسی فلم چل رہی ہے۔
میرے آبائی شہر کھاریاں میں اس وقت چار سینما گھر تھے جن میں سنگم ، شہر کا واحد سینما تھا جس پر عید کے دن فلم راجو راکٹ (1978) لگ رہی تھی۔ باقی تینوں سینما ، قیصر ، گیریژن اور 17 ڈویژن ، کینٹ کی حدود میں تھے جن پر پرانی فلمیں چلتی تھیں۔ کھاریاں کا پانچواں سینما ، سازین بند ہو چکا تھا۔
ہمارا دوسرا آپشن جہلم تھا جو کھاریاں سے 17 کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا۔ وہاں سے ہم کئی بار فلم کا آخری شو دیکھ کر آجاتے تھے۔ جہلم میں بھی چار سینما گھر ہوتے تھے۔ پیراڈائز ، ناز اور ریجنٹ قریب قریب تھے لیکن پرنس سینما ، جی ٹی روڈ پر ذرا فاصلے پر تھا۔ ان چاروں سینماؤں پر بھی ہماری مطلوبہ فلمیں نہیں تھیں۔
ہمارا تیسرا آپشن گجرات تھا جو کھاریاں سے 35 کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا اور جہاں آٹھ سینما گھر ہوتے تھے۔ ہم ان سبھی سینماؤں سے واقف تھے کیونکہ وہاں کالج بھی جاتے تھے اور زیادہ تر فلمیں ریلوے روڈ کے کرن سینما میں دیکھتے تھے جو عمر کے تقاضے کے مطابق غیر سنسر شدہ انگلش فلمیں ہوتی تھیں۔
جی ٹی روڈ پر تین سینما ہوتے تھے جن میں فیصل (جس پر پلے بوائے دیکھی تھی) کے علاوہ ترنم اور شمع بھی تھے جبکہ سنگیت ، سازینہ ، ریکس اور ناز سینما ، اندرون شہر ہوتے تھے۔
ان سینماؤں پر بھی اپنی مطلوبہ فلمیں نظر نہ آئیں تو ہم نے عہد کر لیا کہ دیکھنی ہیں تو یہی فلمیں دیکھنی ہیں ، چاہے ہمیں چین ہی جانا پڑے۔ اس کے بعد ہمارے نزدیک ترین شہر گوجرانوالہ تھا جو کھاریاں سے 85 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا جہاں نشاط سینما پر فلم غازی علم الدین شہید (1978) اور راکسی سینما پر حیدرعلی (1978) لگی ہوئی تھیں۔
عید کے دن ہم سبھی دوست بس میں سوار ہوئے ، اتفاق سے ڈرائیور کو علم تھا کہ ہمارا مطلوبہ سینما کہاں ہے ، اس نے عین نشاط سینما کے سامنے اتار دیا۔ فلم دیکھنے کے بعد کچھ مقامی لوگوں سے پوچھا کہ راکسی سینما کہاں ہے تو پتہ چلا کہ وہ بھی جی ٹی روڈ پر تھوڑے فاصلے پر تھا۔ وہاں پہنچے تو ایک ساتھ دو بڑے خوبصورت سینما گھر دیکھے۔ بائیں طرف کیپری سینما تھا جس پر سیتا مریم مارگریٹ (1978) لگی ہوئی تھی جبکہ دائیں طرف راکسی سینما تھا جس پر حیدرعلی (1978) زیر نمائش تھی۔
اس طرح عیدالفطر کے دن ہم نے اپنی دونوں مطلوبہ فلمیں دیکھیں اور رات گئے تک گھر پہنچے۔ فلم بینی کے شوق میں یہ میری زندگی کا طویل ترین سفر تھا۔۔!
1 | فلم ... نظام ... پنجابی ... (1972) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عبد اللہ ... شاعر: سلیم کاشر ... اداکار: (پس پردہ ، تھیم سانگ ، مراد) |
2 | فلم ... بدل گیا انسان ... اردو ... (1975) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عبد اللہ ... شاعر: احمد راہی ... اداکار: (پس پردہ ، محمد علی) |
3 | فلم ... غازی علم الدین شہید ... پنجابی ... (1978) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عبد اللہ ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: (پس پردہ) |
4 | فلم ... غازی علم الدین شہید ... پنجابی ... (1978) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عبد اللہ ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: ابو شاہ (بدرمنیر ، اقبال حسن ، حیدر) |
5 | فلم ... ضدی خان ... پنجابی ... (1985) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عبد اللہ ... شاعر: ؟ ... اداکار: حیدر |
6 | فلم ... شوکا ... پنجابی ... (1991) ... گلوکار: سائرہ نسیم ، مسعود رانا ... موسیقی: طافو ... شاعر: سعید گیلانی ... اداکار: ؟ ، سلطان راہی |
1. | 1972: Nizam(Punjabi) |
2. | 1975: Badal Geya Insan(Urdu) |
3. | 1978: Ghazi Ilmuddin Shaheed(Punjabi) |
4. | 1981: Chhanga Tay Manga(Punjabi) |
5. | 1985: Ziddi Khan(Punjabi) |
6. | 1991: Shooka(Punjabi) |
1. | Punjabi filmNizamfrom Wednesday, 8 November 1972Singer(s): Masood Rana, Music: Master Abdullah, Poet: , Actor(s): Abbu Shah, (Murad, Mehboob Kashmiri) |
2. | Urdu filmBadal Geya Insanfrom Friday, 5 December 1975Singer(s): Masood Rana, Music: Master Abdullah, Poet: , Actor(s): (Playback - Mohammad Ali) |
3. | Punjabi filmGhazi Ilmuddin Shaheedfrom Tuesday, 5 September 1978Singer(s): Masood Rana, Music: Master Abdullah, Poet: , Actor(s): (Playback) |
4. | Punjabi filmGhazi Ilmuddin Shaheedfrom Tuesday, 5 September 1978Singer(s): Masood Rana, Music: Master Abdullah, Poet: , Actor(s): Abbu Shah (Badar Munir, Iqbal Hassan, Haidar) |
5. | Punjabi filmZiddi Khanfrom Friday, 15 November 1985Singer(s): Masood Rana, Music: Master Abdullah, Poet: , Actor(s): Haidar |
6. | Punjabi filmShookafrom Friday, 6 December 1991Singer(s): Saira Naseem, Masood Rana, Music: Tafu, Poet: , Actor(s): ?, Sultan Rahi |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.