موسیقار طافو
کی پہلی ہی فلم نے
کراچی میں پلاٹینم جوبلی کی تھی
موسیقار طافو کی پہلی فلم ، ایک بہت بڑی میوزیکل فلم تھی۔۔!
ہدایتکار خلیفہ سعید احمد کی پنجابی فلم انورا (1970) میں خواجہ پرویز کے لکھے ہوئے گیتوں کو موسیقار طافو نے ایسی دلنواز دھنوں سے سنوارا تھا کہ کراچی سے خیبر تک اس فلم کے گیتوں کی دھوم مچ گئی تھی۔ ملکہ ترنم نورجہاں کے گائے ہوئے سپرہٹ گیت
نے تو مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے۔
یہ گیت وقت کی سپرسٹار ہیروئن ، نغمہ پر فلمایا گیا تھا جس کے مغربی لباس ، سٹائل اور رقص نے فلم بینوں کی نیندیں حرام کردی تھیں۔
کراچی کی پہلی پلاٹینم جوبلی پنجابی فلم
اہل کراچی کو یہ فلم اتنی پسند آئی تھی کہ فلمی تاریخ کی پہلی پنجابی فلم ثابت ہوئی جس نے کراچی میں پلاٹینم جوبلی یعنی 75 ہفتے چلنے کا عظیم الشان ریکارڈ قائم کیا تھا۔ ایک فارمولا ٹائپ عام سی فلم ہونے کے باوجود لاہور اور پنجاب سرکٹ میں بھی سپرہٹ ہوئی تھی۔
ٹائٹل رول وقت کے مقبول اداکار ساون نے کیا تھا۔ نغمہ اور اعجاز فرسٹ جبکہ سلونی اور اقبال حسن سیکنڈپیئر تھے۔ مظہرشاہ اور سلطان راہی ولن تھے جبکہ منورظریف اور خلیفہ نذیر مرکزی کامیڈین تھے۔
فلم انورا (1970) کے دیگر گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔
- لاج محبتاں دی رکھ وے میرے پنڈ دیا چھوروآ۔۔
- میرا پیار نہ دلوں بھلاویں ، میرے سوہنیا سجناں ، لگیاں دی لاج نبھاویں ، میرے سوہنیا سجناں۔۔
- پیارا ، ماہی وے مینوں پیار لگنا ایں ، میرے ہر ساہ وچ وسناایں ، دیویں نہ دغا۔۔
1970ء کی نغماتی فلمیں
موسیقار طافو کے لیے یہ ایک غیرمعمولی کامیابی تھی کیونکہ انھوں نے ایک ایسے وقت میں دھماکہ خیز آغاز کیا تھا جب پاکستانی فلمی تاریخ کے بڑے بڑے موسیقار اپنے اپنے فنی کیرئر کے عروج پر تھے۔
اسی سال ، جی اے چشتی کی ماں پتر اور وچھوڑا (1970) ، خواجہ خورشیدانور کی ہیررانجھا (1970) ، ماسٹرعنایت حسین کی نجمہ اور دل دیاں لگیاں (1970) ، نثاربزمی کی شمع اور پروانہ اور انجمن (1970) ، ناشاد کی چاند سورج (1970) ، سہیل رعنا کی بازی اور سوغات (1970) ، ا یم اشرف کی انسان اور آدمی (1970) ، نذیرعلی کی سجناں دوردیا (1970) ، کمال احمد کی رنگیلا (1970) ، کریم شہاب الدین کی نصیب اپنا اپنا (1970) ، بخشی وزیر کی ات خدا دا ویر (1970) اور رحمان ورما کی چور نالے چتر (1970) بہت بڑی نغماتی فلمیں تھیں۔ ان تمام بڑے بڑے ناموں میں اپنا نام و مقام پیدا کرنا معمولی کام نہیں تھا۔
منڈا شہرا لاہور دا
خلیفہ برادران نے فلم انورا (1970) کی مقبولیت کو کیش کروانے کے لیے اسی سٹائل اور کاسٹ کی ایک اور فلم اصغرا (1971) بھی بنائی تھی لیکن کامیابی نہیں ہوئی تھی حالانکہ اس فلم میں بھی نغمہ کو ویسے ہی انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ موسیقار طافو نے اس فلم میں بھی دو سپرہٹ گیت دیے تھے
- منڈا شہر لاہور دا ، میرے دل تے تیر چلاوے۔۔
- کیویں میں کجلا پاواں وے اکھیاں چہ تو وسناایں۔۔
فلم رب دی شان (1970) میں بھی طافو نے میڈم نورجہاں سے ایک سپرہٹ گیت گوایا تھا
- میں الہڑ پنجاب دی ، ماہیا گبھرو پاکستان دا ، جہیڑا مینوں جان توں پیارا ، اوہ وی مینوں جان دا۔۔
طافو اور مسعودرانا کی پہلی فلم
طافو کی مسعودرانا کے ساتھ پہلی فلم گرہستی (1971) تھی جو بطور موسیقار ، ان کی پہلی اردو فلم بھی تھی۔ اس فلم کا ٹائٹل رول پاکستانی فلمی تاریخ کی سب سے بہترین اداکارہ صبیحہ خانم نے کیا تھا ، ہیرو سنتوش تھے۔ مرکزی کرداروں میں اس کلاسک جوڑی کی یہ آخری فلم تھی۔
اس فلم میں ایک نوجوان جوڑی بھی تھی۔ سنگیتا کے ساتھ ایک نئے خوبرو اداکار جمال کو ہیرو کے طور پر موقع دیا گیا تھا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا تھا۔ جمال پر مسعودرانا کا یہ گیت فلمایا گیا تھا
- نہ جا میرے دلربا ، سن لے دل کی صدا۔۔
اسی دھن پر طافو نے اپنی فلم جاسوس (1977) میں ناہیداختر اور اے نیر سے یہ گیت گوایا تھا
- ساتھی مجھے مل گیا ، مل گیا مل گیا۔۔
فلم گرہستی (1971) ہی میں مسعودرانا نے مالا کے ساتھ ایک مزاحیہ گیت گایا تھا جو لہری اور ناصرہ پر فلمایا گیا تھا
- میری سرکار ذرا پاس آ نہ ، اتنی بھی جلدی کیا ہے ، نہ نہ نہ۔۔
فلم پہلوان جی ان لندن (1971) میں طافو نے مسعودرانا سے ایک بڑا دلکش گیت گوایا تھا
- چوڑیاں چڑھا لو سوہنی سوہنی چوڑیاں۔۔
دیسی گیت ، ولائتی کڑی
اس فلم میں طافو نے ایک بہت بڑا بلنڈر کیا تھا جب برطانیہ میں پلی بڑھی نغمہ پر ایک ٹھیٹھ پنجابی گیت فلمایا گیا تھا جو اس کے لباس ، رقص اور ماحول سے میچ نہیں کرتا تھا۔
موسیقار طافو کے ابتدائی دور کی فلموں میں فلم اچا ناں پیاردا (1971) بھی ایک یادگارنغماتی فلم تھی۔ اس فلم میں مالا کا گایا ہوا یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا
- دلوں من لئی ، تیری بن گئی ، میرے ہانیا ، اساں لانی آ ، تو نبھانی آ ، میرے ہانیاں ، اے محبتاں ، اساں دل توں نئیں بھلانیاں۔۔
اس گیت کی فلمبندی بھی بڑے کمال کی تھی۔ رانی اور اعجاز کو بڑا خوبصورت فلمایا گیا تھا۔ اسی فلم میں رجب علی اور مالا کا یہ سنجیدہ گیت بھی بڑا پسند کیا گیا تھا
- پہلے کدی میں جان دا، جھوٹھا اے تیرا پیار نی ۔۔
فلم سجاول (1971) کے میڈم نورجہاں کے یہ گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے
- ماہی کہہ گیا ملاں گا میں فیر آکے ، تے دس کے تاریخ نہ گیا۔۔
- نی جنڈریے ، کیویں میں مناواں ڈھول نوں۔۔
- قسم خدا دی روے ، تیراای خیال وے۔۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے مقامی سینما پر یہ فلم عید کے دن دوبارہ لگائی گئی تھی حالانکہ چند ماہ قبل چل چکی تھی۔
موسیقار طافو کی ایک یادگار فلم وحشی گجر (1979) بھی تھی جس کے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ اس فلم کا پہلا نام 'جگا ٹیکس' سنسر کی نذر ہوگیا تھا۔
حزیں قادری کے لکھے ہوئے سبھی گیت ملکہ ترنم نورجہاں نے گائے تھے جو کچھ اس طرح سے تھے
- تیرے آن دے کھڑاک بڑے ہون گے ، مزے تے ماہیا ہن آن گے۔۔
- لاہور شہر توں جنج چڑھی تے تار پشوروں کھڑکے ، کراچی تک دل دھڑکے۔۔
- تیری ہک تے آہلنا پاواں گی ، نت گٹکوں گٹکوں گاواں گی۔۔
- وے جگیا ، تیری اکھ دا پٹک تیر وجیا ، نشانہ بڑا ٹچ لگیا۔۔
گلی گلی گونجنے والے گیت
ایکشن فلموں سے عدم دلچسپی کے باوجود یہ گیت مجھے اس لیے یاد رہے کہ گلی گلی گونجتے تھے۔
جب 'گلی گلی گونجنے' کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسے گیت لوگ گراموفون ریکارڈز پر گھروں ، ہوٹلوں ، بسوں اور میلوں ٹھیلوں وغیرہ میں خوب بجاتے تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے گیت سن سن کر زبانی یاد ہوجاتے تھے۔
آئیڈیو کیسٹوں کی آمد کے بعد تو حالات مزید خراب ہوئے تھے۔ ریڈیو بھی ہر گلی محلے میں اونچی آواز میں بجتا تھا اور اس پر نشر ہونے والے گیت اور پروگرام نہ چاہتے ہوئے بھی سننا پڑتے تھے۔
بھارتی فلموں سے عدم دلچسپی کے باوجود ان کے بے شمار گیت زبانی یاد ہوگئے تھے کیونکہ ریڈیو پاکستان لاہور کے علاوہ ہمیں دو بھارتی ریڈیو دن بھر سنائی دیتے تھے جن میں آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس کے علاوہ جموں ریڈیو بھی ہوتا تھا۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کسی کے آرام وسکون کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ٹریفک اور مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں کا شوروغوغا ہی کیا کم ہوتا تھا کہ ایسے ایسے بے ہودہ گیت بھی سننے پر لوگ مجبور ہوتے تھے جو عام طور کوئی شریف آدمی سننا پسند نہیں کرتا۔
اس کے برعکس یہاں ڈنمارک میں سڑکوں پر رواں دواں ٹریفک میں شاذونادر ہی ہارن کی آواز آتی ہے اور وہ بھی صرف اس وقت جب کوئی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہوتا ہے۔
دن رات ، بڑے شہروں میں بھی اس قدر سکون اور خاموشی ہوتی ہے کہ پولیس ، ایمبولینس یا فائربریگیڈ کی گاڑیاں کہیں دور سے سائرن بجاتی ہوئی آتی ہیں تو لوگ چونک اٹھتے ہیں۔ شام آٹھ بجے کے بعد اگر پڑوسی کے گھر سے شور آرہا ہو تو پولیس دروازے پر آجاتی ہے۔
پاکستان کی طرح سرعام اونچی آواز سے میوزک سننے کا موقع صرف ساؤنڈ پروف کنسرٹ ہالز میں ملتا ہے یا صرف ویک اینڈ کو گھروں کی چاردیواری میں۔ ایسے حالات میں بھی پڑوسی خبردار کردیتے ہیں کہ ہم کوئی پارٹی کررہے ہیں ، اس لیے اگر دیر تک شور رہا تو پیشگی معذرت ، البتہ ہفتے کے باقی دنوں میں معذرت نہیں چلتی ، صرف قانون چلتا ہے۔۔!
طافو کی یادگار فلم دوستانہ (1982)
موسیقار طافو کی ایک یادگار فلم دوستانہ (1982) تھی جو پاکستان میں دیکھی ہوئی میری آخری فلم تھی۔ یہ واحد فلم ہے جس میں طافو نے مسعودرانا سے ایک سے زائد گیت گوائے تھے۔ اس فلم کا ایک گیت
- نی میں 15 مربعیاں والا ، کچہری وچ ملے کرسی۔۔
- مسعودرانا نے آخری بار خود سٹیج پرآکر گایا تھا۔ اسی فلم میں پہلی اور آخری بار اے نیر نے بھی اپنا گیت خود سٹیج پر گایا تھا
- تیرا لونگ مارے لشکارا ، مینوں دنیا بھل جائے یارا۔۔
جبکہ شوکت علی بھی سٹیج پر اپنا گیت خود ہی گاتے ہیں
میرا خیال ہے کہ ان تینوں گلوکاروں کے ساتھ ناہیداخترکے بول
ایک ہی ریکارڈنگ ہے۔ اسی فلم کا تھیم سانگ
- دنیا گورکھ دھندہ ایتھے بھل جاندا انسان۔۔
بھی مسعودرانا کی آواز میں تھا جبکہ ننھا اور علی اعجاز پر فلمایا ہو ایہ گیت
- یارا ، تیری یاری اتوں کل دنیا قربان۔۔
کے انترے اکیلے مسعودرانا کی آواز میں ہیں لیکن باقی گیت میں ان کے ساتھ کوئی دوسرا گلوکار بھی ہے جو فلم کے ٹائٹل پر نہیں تھا۔
طافو کے خاص خاص گیت
موسیقار طافو کا فلمی کیرئر پچاس برسوں پر محیط ہے۔ ان کے خاص خاص گیتوں کا احوال کچھ اس طرح سے ہے:
فلم جی او جٹا (1971) میں عنایت حسین بھٹی اور میڈم نورجہاں کے الگ الگ گائے ہوئے گیت
- او مرن ذرا نئیں ڈردے جناں نین ملا لے نیں۔۔
فلم سجن ملدے کدی کدی (1972) میں مہدی حسن کا اداس گیت
- سجناں وچھوڑے تیرے مار سٹیا ، ویریاں نیں دل دا قرار لٹیا۔۔
فلم سکندرا (1974) میں ملکہ ترنم نورجہاں اور مہدی حسن کا رومانٹک گیت
- رُتاں پیار دیاں آیاں ، ہن مکیاں جدائیاں۔۔
اور مسعودرانا کا یہ سوشل گیت
- برا ہوندا اے جواریاں دا حال دوستو ۔۔
فلم نوابزادہ (1975) میں مسعودرانا کا ایک اور سماجی گیت
- اک بچہ اکھیاں دا تارا ،دوجا بچہ دل کا سہارا ، تیجا چوتھا ایک مصیبت پنجواں نرا پواڑا ، بہتے بچے ہون تے ہوندا فاقیاں نال گزارا۔۔
فلم غیرت (1976) میں ناہیداختر کا گیت
- کنڈلاں دے والاں والیا ، تیرے نال پیار پا لیا۔۔
فلم دوچور (1977) میں ناہیداختر کا یہ شوخ گیت
- اکھ جدوں کردی اے وار سجناں ، توتوروروتو رو، ہووے پیار سجناں۔۔
فلم دادا (1977) میں میڈم کا یہ ذومعنی اور فحش گیت
- تھوڑی پِھس گئی اے ، تھوڑی پاٹ گئی اے ، میری ویل دی قمیض اج پاٹ گئی اے۔۔
فلم جیراسائیں (1977) میں مسعودرانا کا یہ معصوم گیت
- تسی ساریاں بہناں ماواں ، اک کڑی نوں چھڈ کے ، کسے تے بھیڑی نظر نہ پاواں ، اک کڑی نوں چھڈ کے۔۔
فلم جینے کی راہ (1977) میں میڈم نورجہاں اور مہدی حسن کا یہ رومانٹک گیت
- میں ہوں وفا ، تو ہے جان وفا ، کرنہ سکے گی یہ دنیا جدا۔۔
فلم ٹکراؤ (1978) میں مہدی حسن اور ناہیداختر کا الگ الگ گایا ہوا یہ گیت
- تم کو قسم محبوب میرے ، میرا پیار بھلانا نہ۔۔
فلم خدااورمحبت (1978) میں اے نیر کا گیت
- اک بات کہوں دلدارا ، تیرے عشق نے ہم کو مارا۔۔
فلم عداوت (1979) میں مہناز کا گیت
- نیلی نیل اکھ میری ، دنیا پسند کرے۔۔
فلم مسٹرافلاطون (1981) میں میڈم نورجہاں کا گیت
- سونے دی نتھلی ، اصلی تے نقلی۔۔
اور فلم سخی بادشاہ (1996) میں ملکہ ترنم نورجہاں کا آخری ہٹ گیت
کی دم دا بھروسہ یار ، دم آوے نہ آوے۔۔
موسیقار استاد طافو نے دو سو سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی جو ایم اشرف اور وجاہت عطرے کے بعد تیسرا بڑا ریکارڈ ہے۔
گزشتہ دو دھائیوں سے مقبول ترین موسیقار رہے ہیں لیکن لچر اور بے ہودہ گیت کمپوز کرنے میں بھی خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ میڈم نورجہاں کے فلم دادا (1977) میں "ویل دی قمیض" سے لے کر نصیبولال کے بدنام زمانہ گیتوں تک ، 'فلمسازوں کی مرضی' سے کام کرنے کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔
یہ مضمون لکھتے وقت سوچتا ہی رہا کہ نیٹ پر سرچ کیے بغیر نصیبولال کا کوئی ایک ہی گیت یاد آجائے ، نہیں آیا ۔۔!
3 اردو گیت ... 15 پنجابی گیت