آسیہ ، 70 کی دھائی کی ایک انتہائی مقبول ، مصروف اور باصلاحیت اداکارہ تھی۔۔!
صرف ایک دھائی میں آسیہ نے ڈیڑھ سو فلموں میں کام کیا تھا۔ اپنے عین عروج کے دور میں جب فلمی دنیا کو خیرآباد کہا تو چالیس کے قریب فلمیں زیرتکمیل تھیں۔ آج کی نشست میں آسیہ کے سال بہ سال فلمی کیرئر کے علاوہ دیگر اہم ترین فلمی واقعات پر بات ہوگی۔
آسیہ کی پہلی فلم
ہدایتکار شباب کیرانوی کی شاہکار فلم انسان اور آدمی (1970) ، اداکارہ آسیہ کی پہلی ریلیز شدہ فلم تھی۔ کردارنگاری میں زیبا اور محمدعلی کی یہ ایک بہت بڑی فلم تھی۔
آسیہ کی جوڑی لیجنڈ ٹی وی اداکار طلعت حسین کے ساتھ تھی جن پر رنگیلا کا گایا ہوا ایک گیت بھی فلمایا گیا تھا۔ آسیہ پر اس فلم میں ملکہ ترنم نورجہاں کے دو گیت فلمائے گئے تھے جن میں سے یہ گیت بڑا مشہور ہواتھا "خط پڑھ کے اب دل بہلتا نہیں ، ساجنا۔۔" آسیہ کی اس سال ریلیز ہونے والی یہ اکلوتی فلم تھی۔
آسیہ کی بطور ہیروئن پہلی سپرہٹ اردو فلم
1971ء میں اپنے دوسرے فنی سال میں آسیہ کی چھ فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے بطور سولو ہیروئن اکلوتی فلم دل اور دنیا (1971) تھی۔ اس سپرہٹ فلم نے آسیہ کو صف اول کی اداکارہ بنا دیا تھا۔ فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف ، گلوکار اور ہیرو رنگیلا کے فلمی کیرئر کی یہ کامیاب ترین اردو فلم تھی۔
اس فلم کے روایتی ہیرو حبیب تھے جو اپنے ایک انٹرویو میں یہ بتاتے تھے کہ جب رنگیلا نے اپنی پہلی فلم دیا اور طوفان (1969) بنائی تو انھیں ، نغمہ کے ساتھ کاسٹ کرنا چاہتے تھے لیکن انھوں نے رنگیلا کا مذاق اڑا دیا تھا کہ وہ کیا فلم بنائے گا؟
جب فلم سپرہٹ ہوگئی اور ناقدین دنگ رہ گئے تو حبیب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔ انھوں نے باقاعدہ معافی مانگی تھی۔ رنگیلا کی اعلیٰ ظرفی دیکھئے کہ انھوں نے برا نہیں مانا اور حبیب کو ایک اور اردو فلم کا فرسٹ ہیرو کاسٹ کرلیا حالانکہ اس وقت تک وہ اردو فلموں میں اپنی مارکیٹ ویلیو کھو چکے تھے۔
اسی فلم میں آسیہ پر رونالیلیٰ کا یہ سپرہٹ گیت بھی فلمایا گیا تھا "چمپا اور چنبیلی ، یہ کلیاں نئی نویلی ، تحفہ پھولوں کا یہ انمول ، لیتے جانا بابو جی بن مول۔۔" اس سال کی دیگر فلموں میں سے ایک فلم غرناطہ (1971) بھی تھی جو اصل میں آسیہ کی بطور اداکارہ پہلی فلم تھی لیکن دیر سے ریلیز ہوئی تھی۔
آسیہ کی پہلی سپرہٹ پنجابی فلم
آسیہ نے نغمہ اور فردوس
کی یاد بھلا دی تھی
1972ء میں بھی آسیہ کی چھ ہی فلمیں منظرعام پر آئی تھیں۔ اس سال کی سب سے بڑی فلم دورنگیلے (1972) تھی جو آسیہ کی بطور ہیروئن پہلی سپرہٹ پنجابی فلم تھی۔
فلم کے نام کی طرح ہر طرف رنگیلا ہی رنگیلا تھے جو فلم کے ٹائٹل کے علاوہ ہیرو اور ولن بھی تھے ، فلمساز ، ہدایتکار اور متعدد گیتوں کے گلوکار اور موسیقار بھی تھے۔
اس فلم میں آسیہ پر ایک اکلوتا گیت فلمایا گیا تھا "تینوں لبھیا گوا کے جگ سارا ، وے دلوں نہ بھلائیں سوہنیا۔۔" رونالیلیٰ کا گایا ہوا یہ گیت فلم کی ریلیز کے کئی ہفتے بعد فلم میں شامل کیا گیا تھا۔
اس پلاٹینم جوبلی فلم کا سب سے مقبول گیت تھا "سجناں اے محفل ، اساں تیرے لئی سجائی اے ، پیار بلاوے آجا ، کاہنوں ضد لائی اے۔۔" گراموفون ریکارڈ اور فلم ورژن میں نمایا ں فرق تھا جس میں مسعودرانا کی دلکش لمبی تانیں آسیہ کو ضد توڑ نے پر مجبور کردیتی تھیں۔
آسیہ پر مسعودرانا کا پہلا دو گانا فلمایا گیا
اسی سال کی فلم میں اکیلا (1972) میں آسیہ اور شاہد پر نسیم بیگم اور مسعودرانا کا پہلا دوگانا فلمایا گیا تھا "کہتا ہے پیار ، میری جان نثار ، نی بلیے تیرے لیے۔۔"
آسیہ اور منورظریف
1973ء تک آسیہ ایک مصروف ترین اداکارہ بن چکی تھی۔ سوا درجن فلموں میں سے بیشتر پنجابی فلمیں تھیں۔
سب سے کامیاب فلم جیرابلیڈ (1973) تھی جس میں آسیہ کی جوڑی تنظیم حسن کے ساتھ تھی لیکن ٹائٹل رول منورظریف کا تھا۔ اس فلم میں"پیار جے ہویا نال تیرے ، تیرے وے ماہی میرے۔۔" ، فلم بے ایمان (1973) میں "دل کو جلائے میرا سوہنا ماہی۔۔" اور فلم غلام (1973) میں "وقت گزردا جائے ، جاکے مڑ نہ آئے۔۔" جیسے میڈم نورجہاں کے گائے ہوئے مشہور گیت بھی آسیہ پر فلمائے گئے تھے۔
اردوفلم مستانہ (1973) میں مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر پہلی اور آخری بار ہیرو آئے تھے اور ان کی ہیروئن آسیہ تھی۔ اس فلم میں مسعودرانا کے سات گیت تھے جو سبھی خلیفہ نذیر پر فلمائے گئے تھے جن میں سے متعدد دوگانے بھی تھے جو مقبول نہیں ہوئے تھے۔ فلم چار خون دے پیاسے (1973) میں آسیہ نے ینگ ٹو الڈ رول کیا تھا۔
1974ء کا سال آسیہ کے انتہائی عروج کا سال تھا جب ایک کیلنڈر ائیر میں اس کی دو درجن کے قریب فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔
سال کی سب سے بڑی فلم نوکرووہٹی دا (1974) تھی جو منورظریف کی بطور ہیرو کامیاب ترین فلم تھی۔ آسیہ پر میڈم نورجہاں کا گیت "چپ کر دھڑ وٹ جا ، نہ عشق دا کھول خلاصہ۔۔" فلمایا گیا تھا جو مسعودرانا کی آواز میں منورظریف پر بھی فلمایا گیا تھا۔
فلم سستا خون مہنگا پانی (1974) میں شاہد پرفلمایا ہوا مسعودرانا کا یہ مشہور گیت "جا چڑھ جا ڈولی نی۔۔" بھی آسیہ ہی کے لیے گایا گیا تھا۔ اسی سال کی فلم ہاشو خان (1974) میں آسیہ کی جوڑی اداکار فاضل بٹ کے ساتھ تھی جو ایک سی کلاس ولن تھے لیکن لاہور کے ایک وکیل تھے اور اس فلم کے فلمساز بھی تھے۔ فلم یار مستانے (1974) میں میڈم نورجہاں کا یہ سپرہٹ گیت بھی آسیہ پر فلمایا گیا تھا "تو قرار ، میرا پیار ، میرے ہانیا ، تینوں ایویں تے نئیں کول پئی بٹھانی آں۔۔"
جب آٹھ سال بعد محمدعلی اور وحیدمراد اکٹھے ہوئے
اسی سال کی فلم تم سلامت رہو (1974) ، آسیہ کی ہیروئن کے طور پر کامیاب ترین اردو فلم تھی۔ اس فلم میں بھی میڈم نورجہاں کا یہ سپرہٹ گیت "محبت زندگی ہے اور تم میری محبت ہو۔۔" فلمایا گیا تھا۔
اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اردو فلموں کے دونوں سپرسٹارز ، محمدعلی اور وحیدمراد کی عرصہ آٹھ سال بعد یہ پہلی مشترکہ فلم تھی۔ یہ وہ دور تھا جب اردو فلموں میں ندیم اور شاہد جیسے منی سٹارز کا دور شروع ہوچکا تھا اور ان کے مقابلے میں وقت کے دونوں سپرسٹارز کو فلمساز ایک ساتھ کاسٹ کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ ڈھاکہ کی اردو فلموں کے سپرسٹار اداکار رحمان بھی اس فلم میں تھے جن کی اس جوڑی کے ساتھ یہ واحد فلم تھی۔
آسیہ کی بطور فلمساز اکلوتی فلم
آسیہ نے بطور فلمساز اپنی اکلوتی فلم پیار ہی پیار (1974) بنائی تھی جو ناکام رہی تھی۔ آسیہ کے ساتھ وحیدمراد ہیرو تھے جن کا اس وقت زوال شروع ہو چکا تھا اور سولو ہیرو کے طور پر ان کی زیادہ تر فلمیں ناکام ہورہی تھیں۔
نثاربزمی کی دھن میں ممتاز غزل گلوکار استاد امانت علی خان کا یہ گیت بڑا مشہور ہوا تھا "بن تیرے یار ، مورا جیا نہ لاگے۔۔" اپنے پورے فلمی کیرئر میں استاد امانت علی خان کی بطور گلوکار یہ چھٹی اور آخری فلم تھی اور جتنا بڑا نام تھے ، فلموں میں ویسی کامیابی سے محروم رہے تھے۔
1975ء میں بھی آسیہ کی بیس سے زائد فلمیں سینماؤں کی زینت بنی تھیں جن میں سے کوئی ایک بھی اردو فلم نہیں تھی۔
جب "جٹ سیریز" کا آغاز ہوا
سب سے کامیاب فلم وحشی جٹ (1975) تھی جس نے پنجابی فلموں کا ٹرینڈ ہی بدل کررکھ دیا تھا۔ معروف ادیب احمدندیم قاسمی کے افسانے 'گنڈاسہ' سےماخوذ ، ناصر ادیب کی لکھی ہوئی اس سفاک ایکشن پنجابی فلم کے ہدایتکار حسن عسکری تھے اور ٹائٹل رول سلطان راہی نے کیا تھا۔
اس فلم میں گھاس کاٹنے والے آلے 'ٹوکے' کا بھرپور استعمال ہوا تھا۔ اس سے پہلے بات گھونسوں اور مکوں تک ہوتی تھی ، پھر ڈانگ سوٹا آیا ، بندوق وغیرہ بھی استعمال ہوئی لیکن ٹوکے کے بعد گنڈاسا ایک مدت تک ایکشن پنجابی فلموں کا ٹریڈ مارک بنا رہا۔
کرخت اور مکروہ چہروں پر بڑی بڑی خوفناک مونچھیں ، پرندوں کے غلیظ گھونسلوں جیسے بال ،بھنگیوں جیسا بے ہنگم اور بھونڈا لباس ، کانوں کے پردے پھاڑ دینے والے لاؤڈ ، بے تکے اور گھٹیا مکالمے اور حددرجہ کی جہالت ، بدمعاشی اور غنڈہ گردی دیکھ کر ایک شریف آدمی کو سخت کراہت ہوتی تھی لیکن تماش بینوں کو یہ فلمی انداز اتنا پسند آیا کہ ایسی فضول ، بے ہودہ اور باعث شرم فلمیں ، باکس آفس کی ضرورت بن گئی تھیں۔
آسیہ اور سلطان راہی کی جوڑی
اسی فلم سے آسیہ کی جوڑی سلطان راہی کے ساتھ ہٹ ہوگئی تھی اور ان دونوں نے ستر سے زائد فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔ شریف بدمعاش (1975) بھی ان دونوں کی ایک کامیاب فلم تھی۔ فلم سرعام (1975) میں ملکہ ترنم نورجہاں کا یہ لازوال گیت بھی آسیہ پر فلمایا گیا تھا "جاجا وے تینوں دل دتا ، دے دتا ، اللہ واسطے۔۔"
آسیہ کی ایک اور فلم خانزادہ (1975) ، ایک انتہائی لچر اور بے ہودہ فلم تھی جس میں اداکارہ نجمہ کو سیکس سمبل کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ آسیہ نے نغمہ ، فردوس اور عالیہ کی طرح ایسے فحش اور عریاں کرداروں سے اجتناب کیا تھا اور کامیاب رہی تھی۔ اس فلم میں آسیہ پر روبینہ بدر کا یہ گیت فلمایا گیا تھا "رس کے ٹر پیو سرکار ، توڑ کے میرا سجرا پیار ، وخا لو اپنی شان حضور ، کرالو منتاں سو سو وار۔۔" مسعودرانا کی آواز میں یہ گیت زیادہ مقبول ہوا تھا اور اسدبخاری پر فلمایا گیا تھا جو آسیہ کے ہیرو اور ٹائٹل رول میں تھے۔
اسی سال کی فلم جوگی (1975) میں آسیہ کی جوڑی وحیدمراد کے ساتھ تھی جو پنجابی فلموں میں کامیاب نہیں ہوپائے تھے۔ ہتھکڑی (1975) ایک اور کامیاب فلم تھی جس میں یوسف خان ، آسیہ کے ہیرو تھے۔ فلم شوکن میلے دی (1975) میں مسعودرانا اور روبینہ بدر کی ایک قوالی "ہن میری وی فریاد سنو ، میری وار کیوں دیراں لاندے او۔۔" آسیہ اور ساتھیوں پر فلمائی گئی تھی۔
فلم مولا جٹ کی مکھو جٹی
کے رول میں آسیہ نے فلم بینوں کے دل جیت لیے تھے
1976ء میں آسیہ کی دودرجن سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں صرف دو اردو فلمیں تھیں اور دونوں فلمیں ، وحیدمراد کے ساتھ تھیں۔ ان میں فلم وعدہ (1976) ایک اچھی رومانٹک فلم تھی لیکن اوسط درجہ کی رہی۔ آسیہ کو اردو فلموں میں کامیابی نہیں ملی تھی۔
فلم حکم دا غلام (1976) میں آسیہ کے ہیرو منورظریف تھے اور ان پر دو گیت فلمائے گئے تھے جن میں سے ایک ملکہ ترنم نورجہاں اور مسعودرانا کا یہ شاہکار گیت تھا "کی دسئیے ککن ٹُٹی تے کیوں مکی ، سانجھ پیاراں دی ، کجھ مہر میرے محبوباں دی ، کجھ کرم نوازی یاراں دی۔۔" دوسرا گیت روبینہ بدر اور مسعودرانا کا یہ شوخ گیت تھا "اج دے مرداں نوں مٹیاراں نے کجھ کہنا اے۔۔" فلم وارنٹ (1976) میں مسعودرانا اور مہناز کا یہ مشہورزمانہ گیت بھی یوسف خان اور آسیہ پر فلمایا گیا تھا "نی چپ کر کے گڈی دے وچ بہہ جا ، جے بولیں گی چپیڑ کھائیں گی۔۔" اکھڑ ، الٹی میٹم ، طوفان ، جگا گجر اور حشرنشر (1976) وغیرہ کامیاب فلمیں تھیں۔
اس سال کی فلم موت کھیڈ جواناں دی (1976) وقت کے مقبول ترین فلمی ہیرو اعجاز کی روایتی ہیرو کے طور پر آخری فلم تھی جس میں ان پر مسعودرانا کا یہ دلکش گیت فلمایا گیا تھا "تینوں تکناں واں ، سوچی پے جاناں واں۔۔"
فلم جانو کپتی (1976) کا ٹائٹل رول منورظریف نے کیا تھا جو آدھی فلم میں لڑکی اور باقی فلم میں لڑکے ہوتے ہیں اور اس فلم میں آسیہ کے ساتھ رقص کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔
آسیہ ، طارق شاہ کی ہیروئن بھی۔۔!
1977ء میں بھی آسیہ نے ڈیڑھ درجن فلموں میں کام کیا تھا۔ لاہوری بادشاہ اور قانون (1977) بڑی کامیاب فلمیں تھیں۔ اردو فلم اپریل فول (1977) میں آسیہ کے ہیرو ، نامور ولن اداکار طارق شاہ تھے جن کی یہ پہلی فلم تھی۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وقت کے کامیاب ہیرو اعجاز ، اس فلم میں ولن کے رول میں تھے اور ریلیز کے اعتبار سے ان کی لندن کی جیل یاترا سے پہلے دور کی یہ آخری فلم تھی۔
اسی سال کی فلم پہلی نظر (1977) میں آسیہ نے طوائف کا ایک سائیڈ رول کیا تھا اورمیڈم نورجہاں کے دو شاہکار گیت اسی پر فلمائے گئے تھے "سجناں رے ، کیوں بھیگے تورے نین۔۔" اور "دنیا کب چپ رہتی ہے ، کہنے دے جو کہتی ہے۔۔"
1978ء کی ایک درجن سے زائد فلمیں روایتی ایکشن فلمیں تھیں جن میں آسیہ زیادہ تر سلطان راہی اور یوسف خان کے ساتھ ہیروئن تھی۔ ایسی ایکشن فلموں میں ہیروئن کا مصرف صرف ہیرو کو خوش کرنا یا اس کی بہادری کے ترانے گانا ہوتا تھا۔
اگلے سال کی ڈیڑھ درجن فلموں میں سے سب سے بڑی فلم مولا جٹ (1979) تھی جو ایک تاریخ بن چکی ہے۔ اس فلم کے سبھی کردار بڑے مقبول ہوئے تھے۔ آسیہ ، مکھو جٹی کے کردار میں انتہائی خوبصورت نظر آئی۔ آسیہ نے اپنے پورے فلمی کیرئر میں اپنے خدوخال کا بڑا خیال رکھا تھا اور بڑی کامیاب رہی تھی۔
اسی سال کی ایک اور فلم وحشی گجر (1979) بھی ایک بہت بڑی فلم تھی جس کا پہلا نام 'جگا ٹیکس' تھا۔ اس فلم میں میڈم نورجہاں کے کئی ایک سپرہٹ گیت گلی گلی گونجتے تھے جن میں "تیرے آن دے کھڑاک بڑے ہون گے۔۔" ، "تیری ہک تے آہلنا پاواں گی۔۔" اور "سے جگیا ، تیرے اکھ دا پٹک تیر وجیا ، نشانہ بڑ ا ٹچ لگیا۔۔" یہ سبھی گیت آسیہ پر فلمائے گئے تھے۔
آسیہ کا فلمی دور
یہی وہ دور تھا جب آسیہ نے اپنا جیون ساتھی ڈھونڈ لیا تھا اور باقی ماندہ فلموں کو مکمل کرواکے مستقل طور پر بیرون ملک چلی گئی تھی۔ 1980ء کے بعد اس کی چالیس کے قریب فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں اتھراپتر (1981) اور یہ آدم (1986) جیسی مشہور فلمیں بھی تھیں۔ چن میرے (1991) آخری فلم تھی۔ آسیہ کی جگہ انجمن نے لے لی تھی جبکہ ممتاز اور رانی بھی پنجابی فلموں میں ہیروئن کے طور نظرآتی رہیں۔ آسیہ کی پیدائش 1952ء میں کراچی میں ہوئی تھی۔ اس کا تعلق بھی اسی بازار سے تھا جہاں سے زیادہ تر فلمی اداکارائیں آتی تھیں۔ 9 مارچ 2013ء کو کینیڈا میں انتقال ہوگیا تھا۔
(4 اردو گیت ... 9 پنجابی گیت )