A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
پاکستان کے بڑے مزاحیہ اداکاروں میں ایک بڑا نام آصف جاہ کا تھا۔۔!
پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) میں نذر نے پہلے مزاحیہ اداکار کے طور پر اپنا نام تاریخ میں محفوظ کروا لیا تھا۔ وہ ڈیڑھ عشروں تک فلموں کی ضرورت بنے رہے تھے۔
ظریف ، دوسرے بڑے مزاحیہ اداکار تھے جنھوں نے فلم ہماری بستی (1950) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ وہ پہلے مزاحیہ اداکار تھے جو مرکزی کرداروں تک پہنچے تھے لیکن عین عروج پر پہنچ کر انتقال کر گئے تھے۔
ظریف کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون سابقہ ویب سائٹ میں لکھا جا چکا ہے۔
آصف جاہ ، تیسرے بڑے مزاحیہ اداکار تھے جنھوں نے ظریف کے ایک ہفتے بعد ریلیز ہونے والی ہدایتکار انور کمال پاشا کی فلم دوآنسو (1950) سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا تھا لیکن انھیں کامیابی کے لیے کئی سال تک انتظار کرنا پڑا تھا۔
اس دوران دیگر مزاحیہ اداکاروں میں سلطان کھوسٹ فلم چن وے (1951) ، امدادحسین فلم سیلاب (1953) ، دلجیت مرزا فلم قاتل (1955) اور اے شاہ فلم نوکر (1955) میں متعارف ہوئے تھے۔
آصف جاہ کو اردو فلموں میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی تھی جس کی بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ شروع میں انھوں نے نورمحمدچارلی کو کاپی کرنے کی کوشش کی تھی جو خود ہالی وڈ لیجنڈ چارلی چپلن سے متاثر تھے۔ ابتدائی دور میں چند فلموں میں چھوٹے موٹے کرداروں کے علاوہ فلم گمنام (1954) میں آصف جاہ پر گلوکار فضل حسین کا یہ گیت فلمایا گیا تھا "بھاگ یہاں سے بھاگ رے ، ڈگر ڈگر پر اس نگری میں آگ لگی ہے۔۔"
آصف جاہ کو فلم دلابھٹی (1956) نے اس کامیابی سے ہمکنار کر دیا تھا جس کے وہ حقدار تھے۔
یہ فلم ، پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم تھی جس کی کمائی سے لاہور کا جدید ترین فلمی سٹوڈیو ، ایورنیوسٹوڈیو ، قائم ہوا تھا۔ اس فلم نے بزنس کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس پنجابی فلم نے بھارتی دارالحکومت دہلی میں بھی گولڈن جوبلی بزنس کیا تھا۔
فلم دلابھٹی (1956) کی ہائی لائٹ تو اس کا وہ لافانی گیت تھا
منور سلطانہ کے گائے ہوئے اس گیت کی دھن بابا جی اے چشتی نے بنائی تھی اور بول طفیل ہوشیارپوری نے لکھے تھے۔
اس فلم کا کامیڈی سیکوئنس فلم کی جان تھا۔ آصف جاہ ، آشا پوسلے سے اپنے عشق کی روزانہ داستان بڑے مزے لے لے کر اپنے دوست شیخ اقبال کوسناتا ہے ، یہ جانے بغیر کہ یہی مٹھائی فروش اس کی معشوقہ کا وہ خاوند ہے جس کے عتاب سے وہ متعدد بار بال بال بچ چکا ہے۔
بابا عالم سیاہ پوش کے لکھے ہوئے اسی مزاحیہ منظر نامے کو بعد میں دو اور پنجابی فلموں دلاحیدری (1969) میں رنگیلا ، منورظریف اور رضیہ نے جبکہ فلم دلابھٹی (1984) میں غالباً عرفان کھوسٹ ، خالد عباس ڈار اور رومانہ نے دھرایا تھا۔
آصف جاہ کی مزاحیہ اداکاری کے لحاظ سے چن ماہی (1956) ایک بہت بڑی نغماتی اور اصلاحی فلم تھی جس میں اداکارہ بہار کو پہلی بار ہیروئن کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
اس فلم کے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے جن میں
قابل ذکر ہیں۔ اردو فلم سات لاکھ (1957) میں وہ ایک وکیل کے رول میں تھے۔
فلم شیخ چلی (1957) کا نہ صرف ٹائٹل رول کیا تھا بلکہ اس فلم کی کہانی بھی آصف جاہ کی تھی اور بطور ہدایتکار بھی یہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں بھی زبیدہ خانم کا گیت
فلم کی پہچان تھا۔
1962ء کی فلم چوہدری میں آصف جاہ نے ٹائٹل رول کیا تھا۔ اصل میں یہ رول ظریف کر رہے تھے لیکن ان کی اچانک موت کے بعد یہ رول آصف جاہ کو ملا جو انھوں نے خوب نبھایا تھا۔
اس فلم میں ان کی جوڑی لیلیٰ کے ساتھ تھی جبکہ اداکارہ نغمہ کی یہ بطور ہیروئن پہلی فلم تھی جس میں اس کی جوڑی اکمل کے ساتھ تھی۔
اسی فلم میں پہلی بار احمدرشدی نے کوئی پنجابی گیت گایا تھا
نذیربیگم کے ساتھ گائے ہوئے اس دوگانے کو لیلیٰ اور آصف جاہ پر فلمایا گیا تھا۔
1963ء میں تین بڑی فلمیں آصف جاہ کے کریڈٹ پر تھیں جن میں فلم چوڑیاں (1963) ایک اعلیٰ پائے کی فلم تھی جس میں وہ ہیرو کا دایاں ہاتھ تھے جبکہ فلم چاچا خوامخواہ (1963) میں انھوں نے ایک ' لہوڑی پہلوان ' کا کردار کیا تھا۔
ان کے علاوہ فلم تیس مار خان (1963) بھی تھی جو میری پسندیدہ ترین فلموں میں سے ایک رہی ہے۔ اس فلم میں آصف جاہ کا رول ' منشی علم الدین ' ، فلم کی ہائی لائٹ تھا۔ ایک عاشق مزاج منشی گنوار خواتین کو ان کے خاوندوں کے نام خط لکھتے لکھتے خود جذباتی ہو جاتا ہے جو اس کی بیوی ' جیم بیگم' (نسرین) کو برداشت نہیں ہوتا اور وہ روٹھ کر میکے چلی جاتی ہے۔ پھر منشی صاحب کس طرح اسے مناتے ہوئے احمدرشدی اور نذیربیگم کا یہ کامیڈی گیت گاتے ہیں
یہ ایک بڑے کمال کا گیت تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ احمدرشدی جیسا عظیم گلوکار پنجابی فلموں میں کیوں ناکام ہوا؟
اس گیت کے یہ بول میں اکثر گنگناتا ہوں "علم دیاں گلاں تیرا علم دین جان دا اے ، عشق نوں پیچھان دا تے حسن نوں سیان دا اے ، باقی تے زمانہ سارا گھٹا پیا چھان دا اے۔۔"
بابا عالم سیاہ پوش نے کیا بول لکھے تھے اور کتنی عمدہ دھن تھی منظور اشرف صاحبان کی۔
1964ء کا سال آصف جاہ کے فلمی کیرئر کا سب سے یادگار سال تھا جب ان کی فلموں کی تعداد 13 تک جا پہنچی تھی۔ ان تمام فلموں میں وہ مرکزی کامیڈین تھے۔
فلم ولایت پاس (1964) میں ان کا ٹائٹل رول بھی تھا۔ لیکن عروج کا یہی سال ، زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوا تھا کیونکہ پنجابی فلموں میں رنگیلا اور منورظریف کو بریک تھرو مل گیا تھا اور انھیں دھڑا دھڑ کاسٹ کیا جانے لگا تھا۔
1965ء کی ریلیز شدہ فلموں میں آصف جاہ کے حصے میں صرف چھ فلمیں آئی تھیں جن میں وہ مین کامیڈین تھے۔
اسی سال کی فلم من موجی (1965) میں ان پر پہلی بار مسعودرانا کا مزاحیہ گیت
فلمایا گیا تھا۔
اس سال کی فلم ہیرسیال (1965) میں آصف جاہ نے سیدا کھیڑے کا رول کیا تھا اور خوب کیا تھا لیکن فلم ہیررانجھا (1970) میں منورظریف نے اس کردار کو فائنل کردیا تھا۔
1966ء میں بھی آصف جاہ ، چھ فلموں میں نظر آئے تھے جن میں ایک فلم میم صاحب (1966) بھی تھی جس کے ہدایتکار اور مصنف بھی وہ خود تھے۔ اس سے اگلے سال 1967ء میں ان کی فلموں کی تعداد صرف تین رہ گئی تھی جن میں فلم مرزاجٹ (1967) میں وہ منورظریف کے مقابل ثانوی کردار میں تھے۔
فلم چن جی (1967) میں آصف جاہ پر مسعودرانا اور نذیربیگم کا یہ مزاحیہ گیت فلمایا گیا تھا
یہ ایک بہت اچھی فلم تھی لیکن گمنام رہی۔
اگلے دو برسوں میں ان کی فی سال صرف دو دو فلمیں منظر عام پر آئی تھیں جن میں فلم لنگوٹیا (1969) میں مسعودرانا اور آئرن پروین کا گایا ہوا یہ دلچسپ مزاحیہ دوگانا ان پر اور اداکارہ رضیہ پر فلمایا گیا تھا
1970ء میں آصف جاہ کی صرف ایک فلم ڈیرا سجناں دا ریلیز ہوئی تھی جس میں اداکاری کے علاوہ فلم کی کہانی اور ایک آدھ گیت بھی انھوں نے لکھا تھا۔
اس فلم میں ملکہ ترنم نورجہاں کا یہ گیت بے حد مقبول ہوا تھا
اس فلم کے علاوہ انھوں نے فلم بشیرا ، دو رنگیلے (1972) ، زرق خان (1973) اور سہاگ میرا لہو تیرا (1974) میں بھی نغمہ نگاری کی تھی۔
1972ء میں بطور ہدایتکار ان کی آخری فلم مان بھرانواں دا (1972) ریلیز ہوئی تھی جس میں انھوں نے اداکاری بھی کی تھی لیکن اب وہ فلموں میں معاون اداکار ہوتے تھے اور اسی حیثیت سے انھوں نے مزید آدھ درجن کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔
ایسی فلموں میں خداتے ماں (1973) میں وہ منورظریف کے ' فادر ان لاء ' بنے تھے جن کا ذکر مسعودرانا اور آئرن پروین کے اس مزاحیہ گیت میں بھی ہوتا ہے
فلم خوشیا (1973) میں آصف جاہ مہمان اداکار تھے اور فلم کے ہیرو اور لیڈنگ گلوکار منورظریف کے علاوہ ننھا ، البیلا وغیرہ پر یہ کورس گیت فلمایا گیا تھا جس میں مسعودرانا کی آواز بھی شامل تھی
آصف جاہ پر مسعودرانا کا آخری گیت فلم سکندرا (1974) میں فلمایا گیا تھا جس کے بول بڑے بامقصد تھے
ان کی آخری فلم غیرت دی موت (1977) تھی اور انتقال 1994ء میں ہوا تھا۔
1 | آنے دا گلاس پیو ، شربت باداماں والا ، سارےگاماپاما والا..فلم ... من موجی ... پنجابی ... (1965) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: طفیل فاروقی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: آصف جاہ |
2 | جماں جنج نال کیوں اے..فلم ... چن جی ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: نذیر بیگم ، مسعود رانا ... موسیقی: منظور اشرف ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: رضیہ ، آصف جاہ |
3 | لوکو ، میں شادی کی کیتی ، گل وچ پا لئی پھائی..فلم ... لنگوٹیا ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: وارث لدھیانوی ... اداکار: آصف جاہ ، رضیہ |
4 | گھڑی پل دی ہووے یا سو سال ، زندگی گذارو ہس کے..فلم ... خوشیا ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: منور ظریف ، مسعود رانا البیلا مع ساتھی ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: ؟ ... اداکار: منور ظریف ، ننھا ، آصف جاہ ، البیلا ، امداد حسین مع ساتھی |
5 | برا ہوندا اے جواریاں دا حال دوستو..فلم ... سکندرا ... پنجابی ... (1974) ... گلوکار: مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: طافو ... شاعر: ؟ ... اداکار: آصف جاہ مع ساتھی |
1 | آنے دا گلاس پیو ، شربت باداماں والا ، سارےگاماپاما والا ...(فلم ... من موجی ... 1965) |
2 | جماں جنج نال کیوں اے ...(فلم ... چن جی ... 1967) |
3 | لوکو ، میں شادی کی کیتی ، گل وچ پا لئی پھائی ...(فلم ... لنگوٹیا ... 1969) |
4 | گھڑی پل دی ہووے یا سو سال ، زندگی گذارو ہس کے ...(فلم ... خوشیا ... 1973) |
5 | برا ہوندا اے جواریاں دا حال دوستو ...(فلم ... سکندرا ... 1974) |
1 | آنے دا گلاس پیو ، شربت باداماں والا ، سارےگاماپاما والا ...(فلم ... من موجی ... 1965) |
2 | برا ہوندا اے جواریاں دا حال دوستو ...(فلم ... سکندرا ... 1974) |
1 | جماں جنج نال کیوں اے ...(فلم ... چن جی ... 1967) |
2 | لوکو ، میں شادی کی کیتی ، گل وچ پا لئی پھائی ...(فلم ... لنگوٹیا ... 1969) |
1 | گھڑی پل دی ہووے یا سو سال ، زندگی گذارو ہس کے ... (فلم ... خوشیا ... 1973) |
2 | برا ہوندا اے جواریاں دا حال دوستو ... (فلم ... سکندرا ... 1974) |
1. | 1964: Mama Ji(Punjabi) |
2. | 1964: Bharjai(Punjabi) |
3. | 1964: Landa Bazar(Urdu) |
4. | 1965: Doli(Punjabi) |
5. | 1965: Heer Syal(Punjabi) |
6. | 1965: Mann Mouji(Punjabi) |
7. | 1966: Govandhi(Punjabi) |
8. | 1966: Mr. Allah Ditta(Punjabi) |
9. | 1967: Chann Ji(Punjabi) |
10. | 1967: Lut Da Maal(Punjabi) |
11. | 1967: Mirza Jatt(Punjabi) |
12. | 1969: Nikkay Hundian Da Pyar(Punjabi) |
13. | 1969: Langotia(Punjabi) |
14. | 1970: Matrei Maa(Punjabi) |
15. | 1973: Khuda Tay Maa(Punjabi) |
16. | 1973: Khushia(Punjabi) |
17. | 1973: Billa Champion(Punjabi) |
18. | 1974: Sikandra(Punjabi) |
19. | 1975: Mera Naa Patay Khan(Punjabi) |
20. | 1976: Dukki Tikki(Punjabi) |
1. | Punjabi filmMann Moujifrom Friday, 12 November 1965Singer(s): Masood Rana, Music: Tufail Farooqi, Poet: Hazin Qadri, Actor(s): Asif Jah |
2. | Punjabi filmChann Jifrom Friday, 5 May 1967Singer(s): Nazir Begum, Masood Rana, Music: Manzoor Ashraf, Poet: Baba Alam Siaposh, Actor(s): Razia, Asif Jah |
3. | Punjabi filmLangotiafrom Friday, 11 July 1969Singer(s): Masood Rana, Irene Parveen, Music: G.A. Chishti, Poet: Waris Ludhyanvi, Actor(s): Asif Jah, Razia |
4. | Punjabi filmKhushiafrom Friday, 16 November 1973Singer(s): Munawar Zarif, Masood Rana, Albela & Co., Music: Wajahat Attray, Poet: ?, Actor(s): Munawar Zarif, Nanha, Asif Jah, Albela, Imdad Hussain & Co. |
5. | Punjabi filmSikandrafrom Friday, 29 March 1974Singer(s): Masood Rana, Music: Tafu, Poet: Khawaja Parvez, Actor(s): Asif Jah |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.