رونا لیلیٰ
نے صرف آٹھ برسوں میں
دوسو کے قریب فلموں میں
چار سو کے قریب گیت گائے تھے
رونا لیلیٰ
- ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا
دل یہ سمجھا کہ چھلکتا ہوا اک جام ملا۔۔
ہدایتکار الحامد کی اردو فلم ہم دونوں (1966) میں موسیقار ناشاد کی دھن اورنغمہ نگار کلیم عثمانی کی لکھی ہوئی ایک سپرہٹ غزل سے فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والی اس انتہائی باصلاحیت گلوکارہ کا نام رونا لیلیٰ تھا جس نے صرف چودہ برس کی عمر میں ملکہ ترنم نورجہاں ، مالا ، نسیم بیگم اور آئرن پروین جیسی بڑی بڑی گلوکاراؤں کی موجودگی میں اپنا نام و مقام بنایا اور صرف آٹھ برسوں میں دو سو کے قریب فلموں میں چار سو کے قریب گیت بھی گائے جو اس کی قابلیت ، مقبولیت اور مصروفیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔!
رونا لیلیٰ کا فلمی کیرئر
رونا لیلیٰ نے صرف بارہ برس کی عمر میں ریڈیو پاکستان کراچی سے گائیکی کا آغاز کیا تھا ۔ 1967ء میں کراچی میں ٹیلیویژن کی آمد کے بعد وہ ، ایک شوخ و چنچل ، ماڈرن ڈریسڈ اور مغربی گائیکی سٹائل کی گلوکارہ کے طور پرچھوٹی سکرین پر نظر آئی جو گانے کے ساتھ رقص اور اداکاری بھی کرتی تھی ۔ اہل کراچی کو اس کی یہ ادا لبھا گئی اور وہ احمدرشدی کی طرح ان کی پسندیدہ ترین گلوکارہ بن گئی تھی۔
اس کا گایا ہوا پہلا فلمی گیت بھی کراچی میں بننے والی ایک گمنام فلم جگنو (1968) میں تھا "گڑیا سی منی میری ، بھیا کی پیاری۔۔" اسی فلم میں اس کی بڑی بہن دینا لیلیٰ نے بھی اپنا پہلا گیت گایا تھا جوان دونوں بہنوں کا پہلا دوگانا بھی تھا۔ یہ فلم کافی دیر سے ریلیز ہوئی تھی۔
زیر نظر مضمون میں رونالیلیٰ کے سال بہ سال فلمی کیرئر پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جارہی ہے اور خاص خاص واقعات کا ذکر کیا جارہا ہے۔ رونا لیلیٰ کے مقبول عام گیتوں کی ایک فہرست آخر میں دی گئی ہے۔
اپنے پہلے سال یعنی 1966ء میں رونا لیلیٰ ٰ کی صرف ایک فلم ریلیز ہوئی تھی لیکن دوسرے سال یعنی 1967ء میں پانچ فلموں کے لیے نغمہ سرائی کی تھی۔ ان میں سے فلم پھر صبح ہوگی (1967) کا گیت "پیار ہوتا نہیں ، زندگی سے جدا۔۔" سپرہٹ ہوا تھا جبکہ فلم رشتہ ہے پیار کا (1967) میں احمدرشدی کے ساتھ گایا گیا یہ دوگانا کانوں میں رس گھولتا ہے "معصوم سا چہرہ ہے ، ہم جس کے ہیں دیوانے۔۔"
رونا لیلیٰ کا پہلا پنجابی گیت
رونا لیلیٰ ٰ کو اپنے تیسرے ہی سال یعنی 1968ء میں کچھ کم نہیں ، دو درجن فلموں میں پچاس سے زائد گیت گانے کا موقع ملا تھا جس سے اس کی مقبولیت اور مصروفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 1968ء میں پہلی بار پاکستان میں ایک کیلنڈر ایئر میں سو سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔
اس سال کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ رونا لیلیٰ ٰ نے ہدایتکار ایم جے رانا کی فلم جگ بیتی (1968) میں اپنا پہلا پنجابی گیت گایا تھا۔ بابا جی اے چشتی جیسے جہاندیدہ اور گوہرشناس موسیقار نے رونا لیلیٰ کے لیے ایک بڑی منفرد اور دلکش دھن تخلیق کی تھی جو سپرہٹ رہی:
- ماہیا وے ، بنگلہ پوا دے ایتھے ، تے اتے پا دے پھل پتیاں
پیری پا کے پاجیباں نچیاں ، وے دس تیری کی مرضی ، بنگلہ پوا دیں گا کہ ناں۔۔؟
پنجابی فلموں کے عظیم مصنف
حزیں قادری کے زرخیز ذہن سے نکلنے والے ایک ایک بول کو بنگال کی ساحرہ ،
رونا لیلیٰ ٰ نے اتنا ڈوب کر گایا تھا کہ جیسے پنجابی ، اس کی مادری زبان ہو۔ یہی ایک بڑے فنکار کی پہچان ہوتی ہے کہ جو ہر رنگ میں اپنا رنگ جمادیتا ہے۔ پاکستان کی فلمی تاریخ میں
رونا لیلیٰ ٰ کو میڈم
نورجہاں کے بعد یہ اعزاز حاصل ہےکہ اس کی پہلی اردو اور پہلی پنجابی فلموں کے گیت مقبول ہوئے تھے۔
رونا لیلیٰ اور مسعودرانا کا ساتھ
اسی سال ، رونا لیلیٰ ٰ نے مسعودرانا کے ساتھ اپنا پہلا فلمی گیت فلم کمانڈر (1968) میں گایا تھا :
- پھول مہکے ہیں ، بہاروں پہ نکھار آیا ہے ، میرا محبوب ہے یا جان بہار آیا ہے۔۔
اسی فلم میں
رونا لیلیٰ ٰ نے اپنا سولو سپرہٹ گیت بھی گایا تھا "جان من ، اتنا بتا دو ، محبت ہے کیا۔۔" ماسٹرعبداللہ کی موسیقی میں بول مشیر کاظمی کے تھے۔ اسی سال کی فلم
چن چوہدویں دا (1968) میں
رونا لیلیٰ نے
مسعودرانا کے ساتھ اپنا پہلا پنجابی دوگانا بھی گایاتھا :
- کرنی آں اج اقرار تیرے سامنے ، لکیا نئیں رہندا ہن پیار تیرے سامنے۔۔
دستیاب معلومات کے مطابق ، رونا لیلیٰ ٰ اور مسعودرانا کے گائے ہوئے بیس سے زائد دوگانوں میں سے 11 پنجابی دوگانے تھے جو دیگر (مرد) گلوکاروں کے ساتھ گائے ہوئے رونا لیلیٰ کےمجموعی پنجابی دوگانوں سے بھی زیادہ ہیں۔
رونا لیلیٰ نے سب سے زیادہ اردو دوگانے احمدرشدی کے ساتھ گائے تھے لیکن ان دونوں کا کوئی پنجابی دوگانا نہیں ملتا۔ اس کی بنیادی وجہ تو یہی تھی کہ احمدرشدی ، پنجابی فلموں میں ناکام رہے تھے۔ وہ مسعودرانا کی طرح آل راؤنڈ گلوکار نہیں تھے جو بیک وقت اردو اور پنجابی فلموں کی ضرورت ہوتے تھے۔ اپنی انھی خوبیوں کی بدولت مسعودرانا کو 'پاکستانی رفیع' بھی کہتے تھے۔ اس دور میں یہ کہا جاتا تھا کہ برصغیر کی فلمی گائیکی میں دو ہی گلوکار ہیں ، ہندوستان میں محمدرفیع اور پاکستان میں مسعودرانا۔۔!
رونا لیلیٰ اور نثار بزمی
1969ء میں موسیقار نثاربزمی نے رونا لیلیٰ ٰ سے فلم آسرا (1969) کے بیشتر گیت گوائے جو بڑے پسند کیے گئے تھے۔ "نیناں ترس کر رہ گئے ، پیا آئے نہ ساری رات۔۔" یہ ایک سپرہٹ گیت تھا۔
دوسری طرف موسیقار ایم اشرف نے پنجابی فلم یملاجٹ (1969) میں بھی رونا لیلیٰ سے بیشتر گیت گوائے تھے جو بڑے مقبول ہوئے تھے۔ "ذرا ٹھہر جا وے چوری چوری جان والیو ، کجھ اسیں وی آں چناں تیرے لگدے ، تیرا ناں لے کے طعنے سن جگ دے۔۔" یہ گلی گلی گونجنے والا گیت تھا۔
1970ء میں رونا لیلیٰ کی سب سے بڑی نغماتی اردو فلم انجمن (1970) تھی جس میں متعدد سپرہٹ گیت تھے جن میں "آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آگئے۔۔" ایک مقبول گیت تھا۔
اس سال کی یادگار پنجابی فلم بھولے شاہ (1970) تھی جس میں رونا لیلیٰ کا گایا ہوا گیت "لائل پوروں منگوایا جھمکا چاندی دا ، مینوں لبھ دے بابولبھ دے ، ہائے ڈگ پیا ، تیری سونہہ ڈگ پیا پیلاں پاندی دا۔۔" بابا چشتی کا ہاتھ واقعی فلم بینوں کی نبض پر ہوتا تھا ۔ غالباً اسی گیت سے متاثر ہو کر مسرت نذیر کا مشہور زمانہ گیت"میرا لونگ گواچہ۔۔" بھی گایا گیا تھا۔
1971ء میں رونا لیلیٰ کی اردو فلم تہذیب زیادہ مشہور ہوئی تھی جس کے کئی ایک گیت سننے میں آتے تھے جن میں "کیسا جادوگر ، دلبر ، مستانہ ہے۔۔" بھی شامل تھا۔ پنجابی فلموں میں فلم بازی گر (1971) کا یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا "نی سیو ، کونج وچھڑ گئی ڈاروں تے لبھدی سجناں نوں۔۔" حیرت کی بات ہے کہ اس گیت کی دھن ایک بنگالی موسیقار دیبو بھٹاچاریہ کے نام سے منسوب ہے جس کی یہ اکلوتی پنجابی فلم تھی۔
رونا لیلیٰ اور ایم اشرف
1972ء میں رونا لیلیٰ کی سب سے بڑی نغماتی فلم موسیقار ایم اشرف کی من کی جیت (1972) تھی جس کے بیشتر گیت بڑے مقبول ہوئے تھے۔ ان میں "میرا بابو چھیل چھبیلا ، میں تو ناچوں گی۔۔" بے حد مقبول ہوا تھا۔
فلم امراؤ جان ادا (1972) کے گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے جن میں "کاٹے نہ کٹے رے۔۔" خاص طور پر پسند کیا گیا تھا۔
اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ موسیقار نثاربزمی ، سبھی گیت رونا لیلیٰ سے گوانا چاہتے تھے جن میں آخری گیت "جو بچا تھا ، وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں۔۔" بھی شامل تھا لیکن ہدایتکار حسن طارق کا اصرار تھا کہ یہ گیت میڈم نورجہاں گائیں گی۔ اس سے قبل فلم انجمن (1970) کے بیشتر گیت رونا لیلیٰ ٰ نے گائے تھے جو سپرہٹ ہوئے تھے لیکن میڈم نورجہاں کا گایا ہوا آخری گیت "اظہار بھی مشکل ہے ، چپ رہ بھی نہیں سکتے ، مجبور ہیں اف اللہ ، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔۔" مقبولیت میں دیگر سبھی گیتوں پر بھاری تھا۔ اسی تجربے کو حسن طارق دھرانا چاہتے تھے ۔
نثاربزمی نےطوعاً و کرہاً مان تو لیا لیکن ان کی انا کو خاصی ٹھیس پہنچی تھی۔ ریکارڈنگ کے بعد انھوں نے اپنے اس گیت کے بارے میں منفی ریمارکس دیے جو میڈم کے کانوں تک پہنچ گئے تھے۔ بس پھر کیا تھا ، بزمی صاحب کوعزت بچا کر لاہور سے بھاگنا پڑا تھا۔ ان کی اعلیٰ ظرفی دیکھیے کہ بعد میں انھوں نے میڈم سے معافی مانگ لی تھی اور اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے یہ گیت بہت اچھا گایا تھا۔
1972ء میں
رونا لیلیٰ ٰ کے جس پنجابی گیت نے دھوم مچا دی تھی وہ فلم
ذیلدار (1972) میں ایکبار پھر
بابا چشتی کا کمپوز کیا شاہکار گیت تھا "دو دل اک دوجے کولوں دور ہوگئے ، ویری دنیا دے ہتھوں مجبور ہوگئے۔۔" نغمہ نگار خواجہ پرویز کا دعویٰ تھا کہ اس گیت کے ایک لاکھ سے زائدگرامو فون ریکارڈز فروخت ہوئے تھے جو اس دور میں بہت بڑی بات تھی۔
رونا لیلیٰ کا پاکستان میں آخری سال
1973ء کا سال رونا لیلیٰ ٰ کا پاکستان میں آخری سال تھا۔ اس سال کی ایک ناکام ترین فلم پروفیسر (1973) میں یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا "جنم جنم تیرا میرا ساتھ رہے گا ، او من چاہے پیا۔۔" البتہ اس سال کی کسی پنجابی فلم میں کوئی قابل ذکر گیت نہیں ملتا۔
1974ء میں بھی اردو فلم چاہت (1974) کا گیت "ساون آئے ، ساون جائے۔۔" مقبول ہوا تھا لیکن کسی پنجابی فلم کا کوئی گیت ہٹ نہیں ہوا۔ 1975/76ء میں کوئی خاص گیت نہیں ملتا۔ رونا لیلیٰ کی آخری فلم حسینہ مان جائے گی (1980) میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد نوے کے عشرہ میں چند فلموں میں رونا لیلیٰ ٰ کے گیت شامل کیے گئے تھے۔
رونا لیلیٰ اور میڈم نورجہاں کا قصہ
رونا لیلیٰ ، 8 جنوری 1974ء کو پاکستان کو خیرآباد کہہ کر اپنے آبائی وطن بنگلہ دیش چلی گئی تھی جہاں اس کی کامیابیوں کا سفر جاری رہا۔
اس کی پیدائش ، 1952ء میں سلہٹ ، سابقہ مشرقی پاکستان میں ہوئی تھی۔ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں مقیم تھی جہاں اسے صرف بارہ برس کی عمر میں ریڈیو پر گانے کا موقع ملاتھا۔
وہ کراچی کے میڈیا کی ڈارلنگ تھی جس کے قصیدوں نے اس کا دماغ خراب کردیا تھا۔ جب وہ ریکارڈنگ کے لیے لاہور گئی تو ادب و آداب سے ناواقف تھی۔ ایک فلم سٹوڈیو میں میڈم نورجہاں کو نظرانداز کیا تو ملکہ کا پارہ چڑھ گیا اور انھوں نےاس ٹین ایج نوجوان لڑکی کے تھپڑ رسید کردیا تھا۔ اس پر پاکستان کی سستی فلمی صحافت اور اس کے گماشتوں نے طرح طرح کے افسانے گھڑے اور عام لوگوں کو گمراہ کیا تھا۔
رونالیلیٰ کبھی بھی میڈم نورجہاں کے لیے خطرہ نہیں بن سکی تھی اور نہ ہی میڈم کو اس کے خلاف کسی سازش کی ضرورت تھی ۔ حقیقت یہ تھی کہ جس سال رونالیلیٰ کی آمد ہوئی اسی سال سے میڈم نورجہاں کے عروج کا دور بھی شروع ہوا تھا۔ دونوں نےایک ساتھ آٹھ سال تک فلمی دنیا میں کام کیا تھا اور خوب ڈٹ کر کیا تھا۔ اگر بنگلہ دیش نہ بنتا تو رونا لیلیٰ ٰ شاید کبھی بھی پاکستان سے نہ جاتی۔
رونا لیلیٰ ٰ کی بڑی بہن دینا لیلیٰ نے فلموں کے لیے زیادہ نہیں گایا اور 7 اگست 1970ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم سے شادی کر کے فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔ وہ ، 27 دسمبر 1976ء کو خون کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئی تھی اور ہالہ ، سندھ میں دفن ہوئی تھی۔
رونا لیلیٰ کے مقبول عام گیت
- ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا۔۔ (فلم ہم دونوں 1966)
- پیار ہوتا نہیں ، زندگی سے جدا۔۔ (فلم پھر صبح ہوگی 1967)
- دیا رے موہے کانٹا چبھا۔۔ (مع رفیق چوہدری ، فلم پھر صبح ہوگی 1967)
- معصوم سا چہرہ ہے۔۔ (مع احمدرشدی ، فلم رشتہ ہے پیار کا 1967)
- آجا ، تیرے پیار میں ہے دل بے قرار۔۔ (فلم صاعقہ 1968)
- کھلتی کلیو ، رنگ بکھیرو۔۔ (مع احمدرشدی ، فلم ایک مسافر ایک حسینہ 1968)
- ماہیا وے ، بنگلہ پوا دے ایتھے تے اتے پا دے۔۔ (فلم جگ بیتی 1968)
- سنا ہے کہ دل لے کے دیتے ہیں دھوکہ۔۔ (مع احمدرشدی ، فلم محل 1968)
- کرنی آن اج اقرار تیرے سامنے۔۔ (مع مسعودرانا ، فلم چن 14ویں دا (1968)
- جان من ، اتنا بتا دو ، محبت ہے کیا۔۔ (فلم کمانڈر 1968)
- میرا محبوب ہے یا جان بہار آیا ہے۔۔ (مع مسعودرانا فلم کمانڈر 1968)
- ماہی تکیا تے میں شرمائی ، ہائے نی شرمائی اڑیو ۔۔ (فلم پنچھی تے پردیسی 1969)
- نیناں ترس کر رہ گئے ، پیار آئے نہ ساری رات۔۔ (فلم آسرا 1969)
- موسم بہار کا ہے ، من کے سنگھار کا ہے۔۔ (فلم آسرا 1969)
- جنگل میں مور ناچا ، کس نے دیکھا۔۔ (فلم آسرا 1969)
- تو جیسا بھی ہے سانوریا۔۔ (فلم آسرا 1969)
- ننھی منی گڑیا رانی ، ایک پہیلی بوجھو نا۔۔ (فلم عندلیب 1969)
- ہولے ہولے ، پون چلے ، ڈولے جیا رے۔۔ (فلم السلام علیکم 1969)
- ذرا ٹھہر جا وے چوری چوری جان والیو۔۔ (فلم یملا جٹ 1969)
- اگر میں بتا دوں ، میرے دل میں کیا ہے۔۔ (فلم آنسو بن گئے موتی 1970)
- آپ دل کی انجمن میں ، حسن بن کر آگئے۔۔ (فلم انجمن 1970)
- دل دھڑکے ، میں تم سے یہ کیسے کہوں۔۔ (فلم انجمن 1970)
- دو جوانیاں ، ملیاں تے پیاں پکاراں۔۔ (مع مسعودرانا ، فلم ات خدا دا ویر 1970)
- تو چندا ہے میرا ، میں تیرا اجیارا۔۔ (مع مجیب عالم ، فلم بے قصور 1970)
- لائل پوروں منگوایا جھمکا چاندی دا۔۔ (فلم بھولے شاہ 1970)
- ملی گل کو خوشبو ، مجھے مل گیا تو۔۔ (فلم نصیب اپنا اپنا 1970)
- زندگی تو آپ کی رعنائیوں۔۔ (مع احمدرشدی ، سلیم شہزاد ، فلم سوغات 1970)
- تو پھل تے میں خوشبو ، تیری میری اک جندڑی۔۔ (فلم بابل 1971)
- نی سیو ، کونج وچھڑ گئی ڈاروں تے لبھدی۔۔ (فلم بازی گر 1971)
- چمپا اور چنبیلی ، یہ کلیاں نئی نویلی۔۔ (فلم دل اور دنیا 1971)
- تیرا جہیڑی کڑی تے دل اے او میں تے نئیں۔۔ (فلم جی او جٹا 1971)
- مجھے پیار سے جب بھی آواز دو۔۔ (مع مجیب عالم ، فلم یہ امن 1971)
- اڑتا ہوا وقت تھام لو۔۔ (مع مجیب عالم ، فلم یہ امن 1971)
- گھر آنے والا ہے ، اک انجانا۔۔ (فلم تہذیب 1971)
- تو نے کیا شے مجھے پلا دی ہے۔۔ (فلم تہذیب 1971)
- تکلف برطرف ہم تو سربازار ناچیں گے۔۔ (فلم بازار 1972)
- کسی کی ایک نظر نے دل چرا لیا۔۔ (مع مسعودرانا ، فلم دل اک آئینہ 1972)
- ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے۔۔ (فلم احساس 1972)
- بھیگی بھیگی ، ٹھنڈی ہوا۔۔ (مع مسعودرانا ، فلم احساس 1972)
- پچھ پچھ ہاریاں اکھیاں دل توں۔۔ (فلم دل نال سجن دے 1972)
- اک بات کہوں ، دل کا راز کہوں۔۔ (مع احمدرشدی ، فلم الزام 1972)
- اک بہن دی دعا ، شالا سن لے خدا۔۔ (فلم خون پسینہ 1972)
- جب بھی سنوں گی تیری بانسریا۔۔ (مع رجب علی ، فلم میں بھی تو انسان ہوں 1972)
- ناچوں گی سانوریا ، گاؤں گی سانوریا۔۔ (مع رجب علی ، فلم میں بھی تو انسان ہوں 1972)
- میرا بابو چھیل چھبیلا ، میں تو ناچوں گی۔۔ (فلم من کی جیت 1972)
- دنوا دنوا میں گنوں ، کب آئیں گے سانوریا رے۔۔ (فلم من کی جیت 1972)
- مٹی کے کھلونے بابو لے جا۔۔ (فلم من کی جیت 1972)
- تجھ جیسا دغا باز میں نے دیکھا نہیں رے۔۔ (فلم میرے ہمسفر 1972)
- اگر کوئی پوچھے بہاروں کا مطلب۔۔ (فلم محبت 1972)
- تیرے ملنے دی آس لے کے میں ٹر پئی۔۔ (مع مسعودرانا ، فلم پنوں دی سسی 1972)
- میری وفا کا آج ہوا ہے ، کتنا حسین انجام۔۔ (فلم سوداگر 1972)
- کاٹے نہ کٹے رے رتیا ، سیاں انتظار میں۔۔ (فلم امراؤجان ادا 1972)
- آپ فرمائیں ، کیا خریدیں گے۔۔ (فلم امراؤجان ادا 1972)
- دو دل ، اک دوجے کولوں دور ہوگئے۔۔ (فلم ذیلدار 1972)
- ساڈے دل نے گواہ ماہیا۔۔ (مع مسعودرانا ، فلم ذیلدار 1972)
- میری مرضی ، میں تو گاؤں گی۔۔ (فلم آس 1973)
- ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے۔۔ (مع احمدرشدی ، فلم انمول 1973)
- تختی پہ تختی ، تختی پہ تل کا دانا ہے۔۔ (فلم انمول 1973)
- جب پیار کسی سے ہوتا ہے تو ہوتا یہ انجام۔۔ (فلم بے ایمان 1973)
- ایک آنے کی چڑیا اور دو آنے کا مور۔۔ (مع احمدرشدی ، فلم گھرانہ 1973)
- دل کی دھڑکن مدھم مدھم۔۔ (مع احمدرشدی ، فلم جال 1973)
- کل بھی تم سے پیار تھا مجھ سے۔۔ (مع مسعودرانا ، فلم خواب اور زندگی 1973)
- جنم جنم ، تیرا میرا ساتھ رہے گا ، او من چاہے پیا۔۔ (فلم پروفیسر 1973)
- جاؤ ، دنیا سے کہہ دو ، ہمیں پیار ہے۔۔ (فلم پیاسا 1973)
- ساون آئے ، ساون جائے ، تجھ کو پکاریں۔۔ (مع اخلاق احمد ، فلم چاہت 1974)
- جانے والے نے یہ بھی نہ سوچا۔۔ (فلم دشمن 1974)
- تو جہاں لے چلے رے۔۔ (مع مسعودرانا ، فلم مٹی کے پتلے 1974)
- اک سایہ روز نکلتا ہے۔۔ (فلم شرافت 1974)
- بچپن کی وادیوں سے کس نے ہمیں پکارا۔۔ (مع مسعودرانا ، فلم گھروندا ، غیرریلیزشدہ)
9 اردو گیت ... 12 پنجابی گیت