A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
ظہیرریحان ، پاکستان کی فلمی تاریخ کے ایک جدت پسند فنکار تھے۔۔!
وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بنگالی ادیب ، صحافی اور ایک سیاسی ورکر تھے۔ انھوں نے ناول اور افسانہ نگاری میں نام پیدا کیا ، مختلف اخبارات و جرائد میں لکھتے رہے اور پھر فلمسازی کی طرف آئے۔ ڈھاکہ میں بننے والی ہدایتکار اجے کاردار کی پہلی اردو فلم جاگو ہوا سویرا (1959) میں معاون ہدایتکار کے طور پر تجربہ حاصل کیا اور پھر متعدد بنگالی اور اردو فلمیں بنائیں جن میں کچھ منفرد اعزازات بھی حاصل کئے۔
ظہیرریحان کو پاکستان کی پہلی مکمل رنگین فلم سنگم (1964) بنانے کا اعزاز حاصل ہے جو ڈھاکہ (سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش) میں بنائی گئی تھی۔ بطور فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف یہ ان کی پہلی اردو فلم تھی جس میں ان کی پہلی اداکارہ بیوی سمیتا دیوی نے بھی کام کیا تھا۔ یہ کامیاب فلم 23 اپریل 1964ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
اسی سال 20 نومبر 1964ء کو مغربی پاکستان کی پہلی مکمل رنگین فلم ایک دل دو دیوانے بھی ریلیز ہوئی تھی۔ اس سے قبل چار فلمیں ، گل بکاؤلی ، ہم ایک ہیں (1961) ، عذرا (1962) اور تانگے والا (1963) جزوی رنگین فلمیں تھیں۔
پاکستان میں اگلے دو عشروں تک بلیک اینڈ وہائٹ فلمیں بنتی رہی تھیں کیونکہ محدود فلمی سرکٹ کی وجہ سے فلمسازی کے جدید آلات خریدنا ہر دور میں بڑا مشکل رہا ہے۔
اسی سال ان کی دوسری اردو فلم بندھن (1964) بھی ریلیز ہوئی تھی جو ایک اوسط درجہ کی فلم تھی۔ اس فلم میں وہ ہدایتکار اور مصنف تھے اور مرکزی کرداروں میں چتراسنہا ، مصطفیٰ اور انورحسین تھے۔
ظہیرریحان کی بطور فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف ، تیسری اردو فلم بہانہ (1965) تھی جو پاکستان کی پہلی سینما سکوپ بلیک اینڈ وہائٹ فلم تھی۔ اس فلم میں کابوری اور رحمان مرکزی کرداروں میں تھے۔
اس فلم کی آؤٹ ڈور شوٹنگ کراچی میں کی گئی تھی اور دو گیت صرف کراچی شہر کے بارے میں گائے گئے تھے۔
یہی پہلی فلم تھی جس میں ظہیرریحان اور مسعودرانا کا ساتھ ہوا تھا جنھوں نے اس فلم کے تین گیت گائے تھے۔
اس فلم کے موسیقار خان عطاالرحمان تھے جبکہ گیت سروربارہ بنکوی نے لکھے تھے۔ مسعودرانا اور آئرن پروین کا ایک رومانٹک گیت تھا:
اس کے علاوہ باقی دونوں گیت شہر کراچی کے بارے میں تھے۔ ان میں پہلا گیت:
تھا جو احمدرشدی ، آئرن پروین اور مسعودرانا کی آوازوں میں تھا۔ اس گیت میں بتایا گیا تھا کہ اس شہر کی رنگینیوں سے بچ کے رہنا ورنہ گم ہو جاؤ گے۔
اس گیت میں بنگالیوں کی معاشی محرومیوں کا اشارہ بھی ملتا ہے جو اس وقت کے مشرقی پاکستان میں ایک عمومی سوچ بن چکی تھی۔
کراچی ، اس وقت خوابوں ، امیدوں اور امنگوں کا شہر ہوتا تھا جہاں امن و سکون اور ترقی و خوشحالی کا دور دورہ تھا۔ پورے پاکستان سے لوگ بہتر مستقبل کی تلاش میں کراچی کا رخ کرتے تھے جس کی ایک جھلک اس گیت میں بھی ملتی ہے:
اس گیت میں پہلے منیر حسین ، اپنا تعارف کراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ ایک بنگالی ہیں اور ڈھاکہ سے بہتر مستقبل کی تلاش میں کراچی آئے ہیں۔ ان کے بعد مسعودرانا بتاتے ہیں کہ وہ ایک پنجابی ہیں اور گوجرانوالہ سے آئے ہیں۔
تیسرے گلوکار احمدرشدی ہوتے ہیں جو یہ دلچسپ تعارف کراتے ہیں کہ وہ خود نہیں آئے بلکہ ان کے ابا انھیں لائے تھے ، یعنی مقامی تھے۔ البتہ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ہندوستانی تھے یا سندھی کیونکہ اس وقت پاکستان کی اپنی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔
ان تینوں کی تان البتہ اس بات پہ ٹوٹتی ہے کہ ایک عام آدمی کے لیے حالات ہمیشہ بڑے کٹھن رہے ہیں اور بہتر مستقبل کی تلاش میں کہاں کہاں سے دھکے کھانا پڑتے ہیں جو ملک میں غیرمتوازی دولت کی تقسیم کی طرف ایک اشارہ بھی تھا۔
ظہیرریحان اپنی تحریروں اور فلموں کی زبانی جہاں معاشرتی اور سماجی ناہمواریوں کو اجاگر کیا کرتے تھے وہاں ان کی فلمی کہانیوں میں سیاسی پیغامات بھی بڑے واضح ہوتے تھے۔
ظہیرریحان کی بطور ہدایتکار چوتھی اردو فلم بھیا (1966) تھی جو وحیدمراد کی ڈھاکہ میں بنائی گئی اکلوتی فلم تھی ، چتراسنہا ہیروئن تھی جبکہ ٹائٹل رول شوکت اکبر نے کیا تھا۔
اس کامیاب فلم کے موسیقار روبن گھوش تھے جن کی دھن میں مسعودرانا کا انتہائی دھیمی سروں میں گایا ہوا یہ دلکش گیت تھا:
عشرت کلکتوی کا لکھا ہوا یہ گیت وحیدمراد پر فلمایا گیا تھا۔ اس فلم کی پہچان ایک مشہور زمانہ قوالی تھی:
شاعرصدیقی کی لکھی ہوئی اس قوالی میں مسعودرانا کے علاوہ احمدرشدی اور محمدصدیق کی نمایاں آوازیں تھیں۔ یہ قوالی ، فلم کی ہیروئن چتراسنہا اور شوکت اکبر کے پس منظر میں گائی گئی تھی اور واحد فلمی قوالی تھی جس کی دھن روبن گھوش نے بنائی تھی۔
ہدایتکار ظہیرریحان کی پانچویں اردو فلم مینا (1970) تھی جس کی فلم ساز چتراسنہا تھی ، کابوری اور رزاق مرکزی کرداروں میں تھے۔
ان کی چھٹی اردو فلم مہربان (1971) ، ڈھاکہ کی آخری اردو فلم تھی جو مغربی پاکستان میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں شبانہ اور رزاق کی جوڑی تھی۔
اسی سال مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند تنظیم مکتی باہنی کے خلاف ایک بڑا فوجی ایکشن ہوا جس کی وجہ سے ڈھاکہ میں فلمسازی کا کام معطل ہوکر رہ گیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ فلم جلتے سورج کے نیچے (1971) بھی ظہیرریحان نے بنائی تھی لیکن جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو اس کے ٹائٹل پر سے ان کا نام ہٹا کر ایک فرضی نام دے دیا گیا تھا۔
وہ ، بنگلہ دیش کی جدوجہد آزادی میں حصہ لینے اور پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے غدار قرار پائے۔ بھارت فرار ہونے کے بعد کلکتہ ریڈیو سے پاکستان کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ کرتے رہے۔ اس دوران انھوں نے پاک فوج کے مبینہ جنگی جرائم پر ایک ڈاکومنٹری فلم Stop Genocide بنائی جو دنیا بھر کے ٹی وی چینلوں پر دکھائی گئی جس سے عالمی رائے عامہ پاکستان کے سخت خلاف ہوگئی تھی۔
ظہیرریحان ، زمانہ طالب علمی سے قومی اور سیاسی معاملات میں بڑے سرگرم تھے۔ پہلے کمیونسٹ نظریات سے متاثر تھے پھر بنگالی قوم پرستی کا شکار ہوئے۔
21 فروری 1952ء کو بنگالی زبان کی تحریک میں ڈھاکہ میں لسانی فسادات ہوئے جن میں چند ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ اس دن نافذ کیے گئے کرفیو کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں گرفتار ہونے والوں میں بھی شامل تھے۔
ظہیرریحان نے اسی موضوع پر ایک فلم جبان ٹھیکے نیا (1970) بنائی تھی جسے کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اسی دن کی یاد میں 21 فروری کو دنیا بھر میں مادری زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہے ، سوائے پاکستان کے۔۔!
1935ء میں نواکھلی میں پیدا ہونے والے ظہیرریحان 30 جنوری 1972ء کو اچانک لاپتہ ہوگئے تھے۔ ان کی دوسری بیوی بھی ایک نامور بنگالی اداکارہ سچندا تھی۔ انھیں بنگلہ دیش کا دوسرا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا گیا اور ایک قومی ہیرو کا درجہ بھی حاصل ہے۔
1 | فلم ... بہانہ ... اردو ... (1965) ... گلوکار: احمد رشدی ، مسعود رانا ، آئرن پروین مع ساتھی ... موسیقی: عطا الرحمان خان ... شاعر: سرور بارہ بنکوی ... اداکار: ؟ |
2 | فلم ... بہانہ ... اردو ... (1965) ... گلوکار: منیر حسین ، مسعود رانا ، احمد رشدی ... موسیقی: عطا الرحمان خان ... شاعر: سرور بارہ بنکوی ... اداکار: ؟ |
3 | فلم ... بہانہ ... اردو ... (1965) ... گلوکار: آئرن پروین ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: عطا الرحمان خان ... شاعر: سرور بارہ بنکوی ... اداکار: ؟ |
4 | فلم ... بھیا ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ، محمد صدیق ، احمد رشدی مع ساتھی ... موسیقی: روبن گھوش ... شاعر: شاعر صدیقی ... اداکار: (پس پردہ ، شوکت اکبر ، چترا) |
5 | فلم ... بھیا ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: روبن گھوش ... شاعر: عشرت کلکتوی ... اداکار: وحید مراد |
1. | 1965: Bahana(Bengali/Urdu double version) |
2. | 1966: Bhayya(Urdu) |
1. | Urdu filmBahanafrom Monday, 12 April 1965Singer(s): Irene Parveen, Masood Rana & Co., Music: Khan Ataur Rahman, Poet: , Actor(s): ? |
2. | Urdu filmBahanafrom Monday, 12 April 1965Singer(s): Munir Hussain, Masood Rana, Ahmad Rushdi, Music: Khan Ataur Rahman, Poet: , Actor(s): ? |
3. | Urdu filmBahanafrom Monday, 12 April 1965Singer(s): Ahmad Rushdi, Masood Rana, Irene Parveen & Co., Music: Khan Ataur Rahman, Poet: , Actor(s): ? |
4. | Urdu filmBhayyafrom Friday, 14 October 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Robin Ghosh, Poet: , Actor(s): Waheed Murad |
5. | Urdu filmBhayyafrom Friday, 14 October 1966Singer(s): Masood Rana, Mohammad Siddiq, Ahmad Rushdi & Co., Music: Robin Ghosh, Poet: , Actor(s): (Playback - Shoukat Akbar, Chitra) |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.