A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
اداکارہ روزینہ ایک پرکشش اور مشہور معاون اداکارہ تھی۔۔!
فلم ہمیں بھی جینے دو (1963) میں پہلی بار ایک معاون اداکارہ کے طور سامنے آنے والی روزینہ کو اپنا آپ منوانے کے لیے خاصی جدوجہد کرنا پڑی۔ گو وہ اپنی تیسری فلم عشق حبیب (1965) میں فرسٹ ہیروئن تھی لیکن اس مذہبی نوعیت کی قابل تعریف فلم کی کہانی طلعت صدیقی اور ابراہیم نفیس کے گرد گھومتی تھی جو کامیاب تو رہی مگر روزینہ کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکی۔
اسی سال کراچی کی فلم چوری چھپے (1965) میں بھی روزینہ ، سیٹھی نامی گمنام ہیرو کے ساتھ فرسٹ پیئر میں تھی لیکن یہ فلم ناکام رہی تھی۔
روزینہ کو پاکستان کی پہلی اردو پلاٹینم جوبلی فلم ارمان (1966) میں مزاحیہ اداکار نرالا کے مقابل کاسٹ کیا گیا تھا۔ اس مشہورزمانہ نغماتی اور رومانٹک فلم میں زیبا ، وحیدمراد اور ترنم مرکزی کردار تھے۔
اسی سال کی فلم جوش (1966) میں روزینہ کی جوڑی پہلی بار وحیدمراد کے ساتھ بنی تھی جو اس فلم میں سیکنڈ ہیرو تھے۔ ان دونوں پر احمدرشدی اور ناہیدنیازی کا یہ دلکش گیت فلمایا گیا تھا
ایک درجن سے زائد فلموں میں معاون اداکارہ اور ایک ناکام فرسٹ ہیروئن کے کردار کرنے کے بعد روزینہ کی سیکنڈ ہیروئن کے طور پر پہلی بڑی فلم سنگدل (1968) تھی۔ یہ سپرہٹ گولڈن جوبلی فلم ندیم کی مغربی پاکستان میں بننے والی پہلی فلم تھی جس کی ہیروئن دیبا تھی۔
اس نغمہ بار فلم میں روزینہ پر جو اکلوتا گیت فلمایا گیا تھا وہ ندیم کے ساتھ ایک دوگانا تھا جس میں وہ ، مسعودرانا کی آواز میں ، روزینہ کو سرسنگیت کے گر سکھا رہے ہوتے ہیں اور سیکھنے والی ساتھی آواز مالا کی ہوتی ہے۔ ایم اشرف کے اس گیت کے بول تھے
اسی سال کی فلم سمندر (1968) میں موسیقار دیبو نے آئرن پروین اور نذیربیگم سے ایک گیت گوایا تھا "ہمارے دلوں کی انوکھی خوشی کو نظر نہ لگے۔۔" یہ گیت روزینہ کے ساتھ ایک راحیلہ نامی اداکارہ پر فلمایا گیا تھا جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ روزینہ کی بہن تھی۔
اسی سال کی ایک ناکام فلم منزل دور نہیں (1968) میں بھی روزینہ تھی۔ اس فلم کی خاص بات صرف یہ تھی کہ اس میں چائلڈسٹار کے طور پر پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے کام کیا تھا۔
فلم سنگدل (1968) کی کامیابی کے بعد روزینہ کے لیے فلموں کے دروازے کھل گئے تھے اور 1969ء میں وہ پہلی بار دس فلموں میں نظر آئی۔ ان میں سے تین فلموں میں وہ فرسٹ ہیروئن تھی۔
اس سال کی سب سے یادگار فلم سزا (1969) تھی جس میں روزینہ کو انتہائی دلکش فلمایا گیا تھا۔ ہدایتکار ہمایوں مرزا کی یہ ایک کامیاب نغماتی فلم تھی جس میں جہاں مہدی حسن کا مشہور گیت
تھا وہاں مالا کے گائے ہوئے تین سپرہٹ گیت بھی تھے جو روزینہ پر فلمائے گئے تھے
قتیل شفائی کے لکھے ہوئے ان سدا بہار گیتوں کی دھنیں ناشاد صاحب نے بنائی تھیں۔
اسی سال کی فلم پیار کی جیت (1969) میں روزینہ نے عابد نامی ہیرو کے ساتھ پہلی اور آخری بار کام کیا تھا۔ یہ صاحب روزینہ کے خاوند ساؤنڈ ریکارڈسٹ رفعت قریشی کے بھائی تھے۔
عابدقریشی نے ٹی وی اور فلم کی معروف معاون اداکارہ افشاں قریشی سے شادی کی تھی اور ان کا بیٹا ٹی وی کا معروف اداکار فیصل قریشی ہے۔ روزینہ کی اپنی اکلوتی بیٹی صائمہ قریشی ہے جو ایک نامور ماڈل اور ٹی وی اداکار ہے۔
فلم پیار کی جیت (1969) میں مسعودرانا اور آئرن پروین کا گایا ہوا ایک انتہائی دلکش رومانٹک گیت تھا
یہ گیت روزینہ اور عابد پر یعنی دیور بھابھی پر فلمایا گیا تھا۔ یہ فلم ناکام رہی تھی۔
اسی سال کی ایک اور ناکام فلم السلام علیکم (1969) میں روزینہ فلم کے ہدایتکار اور ہیرو فیروز کے ساتھ ہیروئن تھی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں مسرورزیدی کا لکھا ہوا ، موسیقار نذرصابر کا کمپوز کیا ہوا اور احمدرشدی کا گایا ہوا بچوں کا ایک مشہور گیت ریڈیو پر اکثر سنا کرتے تھے
1969ء کی دیگر ساتوں فلموں میں روزینہ ، سیکنڈ ہیروئن کے طور نظر آئی۔ ان میں سب سے یادگار فلم بہاریں پھر بھی آئیں گی (1969) تھی۔
اپنے وقت کی بہت بڑی گلوکارہ مالا کی بطور فلمساز یہ اکلوتی ریلیز شدہ فلم تھی۔ اس فلم میں اس نے پہلی بار اپنی بہن شمیم نازلی کو موسیقار کے طور متعارف کرایا تھا جو پاکستان کی پہلی خاتون موسیقار ثابت ہوئی تھی۔ شمیم نازلی نے مزید دو فلموں نائٹ کلب (1971) اور بن بادل برسات (1975) کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔
اس فلم میں گلوکار احمدرشدی نے ایک شوخ گیت گایا تھا "جینا ہے پیارے تو پیار کیجئے۔۔" یہ گیت انھی پر فلمایا گیا تھا۔ اس فلم کا سب سے مقبول گیت مالا کا گایا ہوا تھا
یہ گیت روزینہ پر فلمایا گیا تھا۔
اس فلم کا پبلسٹی بورڈ پوسٹر سمیت آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے جو راوی روڈ لاہور کے ایک کھمبے سے لٹکا ہوا تھا۔ اس وقت میں دوسری جماعت کا طالب علم تھا اور اردو میں جو لکھا نظر آتا تھا ، وہ پڑھنا مجھ پر لازم ہوتا تھا۔
1970ء کا سال روزینہ کے انتہائی عروج کا سال تھا جب اس کی ایک کیلنڈر ائیر میں پہلی بار 13 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں لیکن بدقسمتی سے کوئی ایک بھی فلم کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھی۔ ان میں سے بطور فرسٹ ہیروئن چھ فلمیں تھیں۔
اس سال کی سب سے اہم فلم سوغات (1970) تھی جس میں روزینہ کی جوڑی ندیم کے ساتھ تھی جن پر مسعودرانا کا یہ خوبصورت گیت فلمایا گیا تھا
فلم مجرم کون (1970) میں پہلی اور آخری بار ٹی وی کے معروف اینکر اور دانشور ضیاء محی الدین کو کسی فلم میں دیکھا گیا تھا۔ وہ ہیرو تھے اور روزینہ ان کی ہیروئن تھی۔ ان دونوں پر مالا اور احمدرشدی کا یہ شوخ گیت فلمایا گیا تھا
فلم لوان یورپ (1970) میں روزینہ کی جوڑی کمال کے ساتھ تھی اور ان پر مالا اور مسعودرانا کا ایک انتہائی دلکش گیت
اٹلی کے تاریخی شہر وینس کی نہروں میں کشتی رانی کرتے ہوئے فلمایا گیا ایک خوابناک ماحول تھا جو فلم بینوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا تھا۔
فلم چاند سورج (1970) میں گو اداکارہ شبانہ بھی تھی جو روزینہ کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ادکارہ بن چکی تھی لیکن وحیدمراد کی وجہ سے روزینہ ، فرسٹ ہیروئن شمار کی گئی تھی۔
1970ء کی ایک خاص بات یہ تھی کہ روزینہ کو بھی دیبا کی طرح پہلی بار کسی پنجابی فلم میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر مکمل پابندی کے بعد سے پنجابی فلموں کی پروڈکشن میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
ہیروز کی کمی نہ تھی ، اکمل کی بے وقت موت کے باوجود سدھیر ، حبیب اور اعجاز کے علاوہ یوسف خان ، اقبال حسن اور بھٹی برادران کو بھی بھرپور مواقع مل رہے تھے لیکن ساٹھ کی عشرہ کی سب سے مقبول پنجابی فلمی ہیروئن نیلو کے شادی کے بعد فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دینے اور لیلیٰ اور شیریں کی عدم موجودگی میں پنجابی فلموں کا سارا بوجھ نغمہ اور فردوس کے کاندھوں پر ہوتا تھا۔ رانی کے علاوہ سلونی ، حسنہ ، ناہید اور عالیہ کو بھی بھرپور مواقع دیے جارہے تھے۔
ایسے میں فلمساز ریاض احمدراجو نے اپنی پنجابی فلم پردیسی (1970) میں روزینہ کو اعجاز کے مقابل ہیروئن کاسٹ کیا تھا۔ روزینہ کی مادری زبان اردو تھی لیکن اس نے پنجابی زبان میں خاصی مہارت حاصل کر لی تھی۔
1971ء میں روزینہ کی صرف 5 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان میں سے واحد فلم رم جھم (1971) تھی جس میں روزینہ ، سیکنڈ ہیروئن کے طور پر نظر آئی۔ اس پر فلمایا ہوا ملکہ ترنم نورجہاں کا یہ سپرہٹ گیت
فلم کا حاصل تھا۔
ریاض شاہد کی سپین میں مسلمانوں کے زوال پر مبنی فلم غرناطہ (1971) کی ہیروئن بھی روزینہ ہی تھی جس پر میڈم کا ایک اور سپرہٹ گیت فلمایا گیا تھا
وحیدمراد کے ساتھ روزینہ کی ناکام فلم خاموش نگاہیں (1971) میں احمدرشدی اور مالا کا یہ شوخ گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا
اس فلم میں منورظریف پر فلمایا ہوا احمدرشدی کا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا
فلم جلتے سورج کے نیچے (1971) میں روزینہ کی جوڑی ندیم کے ساتھ تھی جن کا اس فلم میں ٹرپل رول تھا۔
وارث (1971) ، اس سال کی واحد پنجابی فلم تھی جس میں روزینہ کے ہیرو اعجاز تھے۔
1972ء میں روزینہ کی دس فلمیں منظرعام پر آئیں اور کتنی عجیب بات تھی کہ ان میں صرف دو اردو فلمیں تھیں جبکہ باقی سبھی پنجابی فلمیں تھیں۔
اس سال روزینہ کی بطور فرسٹ ہیروئن سب سے بڑی فلم بشیرا (1972) ریلیز ہوئی تھی ، حبیب روایتی ہیرو تھے۔ یہ فلم سلطان راہی کی وجہ سے جانی جاتی ہے لیکن حقیقت میں یہ فلم ایک ماسٹرپیس تھی۔ روزینہ کا تکیہ کلام 'میں ٹوٹے کر دیاں گی' اور عالیہ کے ساتھ زنانہ دنگل فلم بینوں کو کبھی نہیں بھول سکا۔
کمال احمد کی موسیقی میں روزینہ پر فلمائے ہوئے میڈم نورجہاں کے سبھی گیت بڑے مقبول ہوئے تھے
اسی سال کی ایک اور پنجابی فلم ٹھاہ (1972) بھی ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی جس میں روزینہ کے ہیرو سدھیر اور شاہد تھے۔ اس فلم میں میڈم نورجہاں کا یہ گیت تو ایک ضرب المثل بن گیا تھا کہ
روزینہ پر فلمائے ہوئے میڈم کے دیگر گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے جن میں
بھی شامل ہیں۔ اس فلم میں معروف غزل گلوکار غلام علی کا یہ پنجابی گیت
شاہد پر فلمایا گیا تھا جو روزینہ ہی کے لیے گاتے ہیں۔
اس سال کی ایک یادگار فلم جاپانی گڈی (1972) بھی تھی جو اصل میں پچھلے سال کی فلم خاموش نگاہیں (1971) سے متاثر ہوکر بنائی گئی تھی۔ اس میں ٹائٹل رول روزینہ نے کیا تھا لیکن فرسٹ ہیروئن فردوس تھی۔ منورظریف نے ڈبل رول کیا تھا اور ان پر احمدرشدی کے دو شوخ گیت فلمائے گئے تھے جن میں
1972ء کی دونوں اردو فلموں میں سے فلم آؤ پیار کریں (1972) میں روزینہ ایک بار پھر دیبا کے مقابل سائیڈ ہیروئن تھی جبکہ فلم دولت اور دنیا (1972) میں وحیدمراد کے مقابل فرسٹ ہیروئن تھی۔ ان دونوں پر فلمایا ہوا میڈم نورجہاں اور مہدی حسن کا یہ دوگانا بڑا پسند کیا گیا تھا
1973ء میں ایکبار پھر روزینہ کی فلموں کی تعداد دس تھی جن میں سے چار اردو اور چھ پنجابی فلمیں تھیں۔
اردو فلموں میں سادھو اور شیطان (1973) واحد فلم تھی جس میں روزینہ فرسٹ ہیروئن تھی ، ہیرو سلطان راہی تھے جن کی بطور ہیرو یہ پہلی اردو فلم تھی۔ پنجابی فلموں میں
فلم غیرت دا نشان (1973) میں روزینہ کی جوڑی یوسف خان کے ساتھ تھی۔ اس فلم میں روزینہ پر حمیرا نامی گلوکارہ کا یہ مشہور زمانہ گیت فلمایا گیا تھا
بتایا جاتا ہے کہ گلوکارہ حمیرا ، معروف ٹی وی اداکار عابدعلی کی بیوی تھی۔
فلم خون دا بدلہ خون (1973) میں روزینہ کے لیے یوسف خان ، مسعودرانا کا یہ شوخ گیت گاتے ہیں
1974ء میں روزینہ کی صرف پانچ فلمیں منظرعام پر آئیں اور کوئی بھی فلم کامیابی حاصل نہ کر سکی تھی۔
اردو فلم اللہ میری توبہ (1974) میں روزینہ کی جوڑی شاہد کے ساتھ تھی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی احمدرشدی نے اس فلم میں چھ گیت گائے تھے جو ان کے فلمی کیرئر کا شاید واحد موقع تھا۔
وحیدمراد کے ساتھ فلم اسے دیکھا اسے چاہا (1974) بھی ایک ناکام فلم تھی۔ پنجابی فلموں میں صرف فلم بڈھا شیر (1974) ہی کسی حد تک قابل ذکر فلم تھی جس میں میڈم نورجہاں کا ایک اور سپرہٹ گیت
بھی روزینہ پر فلمایا گیا تھا۔ پنجابی فلموں کے عظیم مصنف حزیں قادری کی بطور ہدایتکار یہ اکلوتی فلم تھی جس کا ٹائٹل رول ساون نے کیا تھا اور روزینہ کی جوڑی کیفی کے ساتھ تھی۔
اس کے بعد اگلی دو درجن فلموں میں روزینہ کی کوئی قابل ذکر فلم نہیں ملتی۔ وہ زیادہ تر ثانوی اور غیر اہم کرداروں میں نظر آئی۔ آخری فلم مشرق و مغرب (1985) تھی۔ دو فلمیں ریلیز نہ ہو سکی تھیں۔ کل 90 فلموں میں سے 59 اردو اور 31 پنجابی فلمیں تھیں۔ آدھی سے بھی کم فلموں میں فرسٹ ہیروئن تھی۔
روزینہ نے سب سے زیادہ وحیدمراد کے ساتھ 14 اور دیبا کے سات 13 فلموں میں کام کیا تھا۔
روزینہ کی پیدائش 1948ء میں کراچی میں ایک کرسچن گھرانے میں آئی وی سینتھیا کے نام سے ہوئی تھی۔ شادی کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔ روزینہ کو لپٹن چائے کے ایک ریڈیو اور ٹی وی کمرشل سے بھی بڑی شہرت ملی تھی۔
1 | بادشاہ عشق ہیں ہم اور حسن کے سائل ہیں ہم..فلم ... سنگدل ... اردو ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: ایم اشرف ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: ندیم ، روزینہ |
2 | چاند بھی سامنے آتے ہوئے شرماتا ہے..فلم ... پیار کی جیت ... اردو ... (1969) ... گلوکار: آئرن پروین ، مسعود رانا ... موسیقی: دیبو ... شاعر: واجد چغتائی ... اداکار: عابد ، روزینہ |
3 | شبنمی فضائیں ہیں ، نیلمی نظارے ہیں ، بے خودی کے یہ لمحے ، زندگی سے پیارے ہیں..فلم ... لو ان یورپ ... اردو ... (1970) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: ایم اشرف ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: روزینہ ، کمال |
1 | بادشاہ عشق ہیں ہم اور حسن کے سائل ہیں ہم ...(فلم ... سنگدل ... 1968) |
2 | چاند بھی سامنے آتے ہوئے شرماتا ہے ...(فلم ... پیار کی جیت ... 1969) |
3 | شبنمی فضائیں ہیں ، نیلمی نظارے ہیں ، بے خودی کے یہ لمحے ، زندگی سے پیارے ہیں ...(فلم ... لو ان یورپ ... 1970) |
1 | بادشاہ عشق ہیں ہم اور حسن کے سائل ہیں ہم ...(فلم ... سنگدل ... 1968) |
2 | چاند بھی سامنے آتے ہوئے شرماتا ہے ...(فلم ... پیار کی جیت ... 1969) |
3 | شبنمی فضائیں ہیں ، نیلمی نظارے ہیں ، بے خودی کے یہ لمحے ، زندگی سے پیارے ہیں ...(فلم ... لو ان یورپ ... 1970) |
1. | 1963: Hamen Bhi Jeenay Do(Urdu) |
2. | 1964: Chhoti Behan(Urdu) |
3. | 1967: Meray Bachay Meri Ankhen(Urdu) |
4. | 1968: Doosri Maa(Urdu) |
5. | 1968: NaKhuda(Urdu) |
6. | 1968: Sangdil(Urdu) |
7. | 1968: Alf Leila(Urdu) |
8. | 1968: Samundar(Urdu) |
9. | 1969: Tumhi Ho Mehboob Meray(Urdu) |
10. | 1969: Pyar Ki Jeet(Urdu) |
11. | 1970: Honeymoon(Urdu) |
12. | 1970: BeQasoor(Urdu) |
13. | 1970: Love in Europe(Urdu) |
14. | 1970: Pardesi(Punjabi) |
15. | 1970: Phir Chand Niklay Ga(Urdu) |
16. | 1970: Soughat(Urdu) |
17. | 1970: Chand Suraj(Urdu) |
18. | 1972: Basheera(Punjabi) |
19. | 1972: Sir Dhar Di Bazi(Punjabi) |
20. | 1973: Zarq Khan(Urdu) |
21. | 1973: Khoon Da Badla Khoon(Punjabi) |
22. | 1973: Sohna Babul(Punjabi) |
23. | 1974: Budha Sher(Punjabi) |
24. | 1974: Sikandra(Punjabi) |
25. | 1975: Haku(Punjabi) |
26. | 1976: Sohni Mehinval(Punjabi) |
27. | 1977: Dharti Lahu Mangdi(Punjabi) |
28. | 1978: Jashan(Punjabi) |
29. | 1985: Mashriq Maghrib(Urdu) |
1. | Urdu filmSangdilfrom Tuesday, 2 January 1968Singer(s): Masood Rana, Mala, Music: M. Ashraf, Poet: Khawaja Parvez, Actor(s): Nadeem, Rozina |
2. | Urdu filmPyar Ki Jeetfrom Friday, 19 September 1969Singer(s): Irene Parveen, Masood Rana, Music: Deebo, Poet: Wajid Chughtai, Actor(s): Abid, Rozina |
3. | Urdu filmLove in Europefrom Friday, 26 June 1970Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: M. Ashraf, Poet: Tanvir Naqvi, Actor(s): Rozina, Kemal |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.