اداکارہ ناصرہ ، ایک نامور ویمپ اداکارہ تھی
دو سو کے قریب اردو اور پنجابی فلموں میں کام کرنے والی اداکارہ ناصرہ ، ایک آل راؤنڈ اداکارہ تھی جو ایک معاون اداکارہ ، ڈانسر ، ویمپ اور بوڑھے کرداروں کے علاوہ دو فلموں میں فرسٹ ہیروئن بھی آئی تھی۔۔!
ناصرہ کا فلمی کیرئر
ناصرہ کے فلمی کیرئر کی ابتداء ایک انتہائی منفرد اسلامی اور اصلاحی فلم توحید (1958) سے ہوئی تھی جس میں وہ ، فلم کے ہیرو طالش کی بہن ہوتی ہے۔ اس یادگار فلم پر 2008ء میں 'پاکستانی فلموں کے ساٹھ سال' کے سلسلے میں پاکستان فلم میگزین کے سابقہ ورژن پر ایک تفصیلی تبصرہ لکھا گیا تھا۔
ناصرہ کی پہچان ، فلم بودی شاہ (1959) سے ہوئی تھی جس کے ٹائٹل رول میں وقت کے مقبول مزاحیہ اداکار ظریف کے ساتھ اس کی جوڑی تھی اور ان پر دو مزاحیہ گیت بھی فلمائے گئے تھے۔
فلم خیبرمیل (1960) میں بابا چشتی نے نسیم بیگم ، زاہدہ پروین ، نورجہاں بیگم اور ساتھیوں کی آوازوں میں بہزاد لکھنوی کی یہ مشہور غزل ، قوالی کےانداز میں گوائی تھی جو نیلو ، ناصرہ اور ساتھیوں پر فلمائی گئی تھی
- اے جذبہ دل ، گر میں چاہوں ، ہر چیز مقابل آجائے۔۔
اس غزل کو بعد میں ٹی وی پر گا کر نیرہ نور نے بھی خاصی شہرت حاصل کی تھی۔
فلم ثریا (1961) میں ناصرہ پر آئرن پروین کا گایا ہوا ایک مقبول عام گیت فلمایا گیا تھا
- آج میرے منے کی سالگرہ ہے ، لب پہ دعا ہے ، جیو جیو رے۔۔
فلم عجب خان (1961) میں بابا چشتی نے اپنے ہی لکھے ہوئے گیت میں اداکارہ ناصرہ کا نام استعمال کیا تھا "میرا نام قندھار خان اور تو ہے گل اندام ناصرہ۔۔"
نورجہاں ، نورجہاں بیگم اور نورجہاں جونئیر
نذر اور ناصرہ پر فلمائے ہوئے اس مزاحیہ گیت کو باتش کے علاوہ ایک نورجہاں جونیئر نامی گلوکارہ نے گایا تھا۔ اس طرح ایک ہی نام کی تین گلوکارائیں سامنے آتی ہیں ، پہلی ملکہ ترنم نورجہاں ، دوسری نورجہاں بیگم اور تیسری نورجہاں جونئیر۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ناصرہ نے ان تینوں ہم نام گلوکاراؤں کے گائے ہوئے گیت گائے تھے۔ مندرجہ بالا دونوں گیتوں کے علاوہ میڈم نورجہاں کا فلم جنگ آزادی یا مفرور (1968) میں ناصرہ کے لیے گایا ہوا یہ اکلوتا گیت بھی تھا
- ارمان تو بہت ہیں دل میں ، پر عرض کیسے ہو۔۔
ناصرہ کی شاہکار فلم چوڑیاں (1963)
ہدایتکار امین ملک کی شاہکار پنجابی فلم چوڑیاں (1963) میں ناصرہ کو پہلی بار ویمپ کا بھرپور کردار ملا تھا۔
یہ ایک انتہائی اعلیٰ پائے کی فلم تھی جس کا ہر شعبہ قابل تعریف تھا اور ہر کردار انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ تھا۔ شہری ماحول کی بناوٹ اور دیہاتی ماحول کی سادگی پر بنائی گئی اس سبق آموز فلم میں بابا عالم سیاہ پوش کی کہانی اور مکالمے لاجواب تھے۔
اکمل کی تمام فلموں میں سے یہ میری پسندیدہ ترین فلم تھی ، جسے جتنی بار دیکھا ، اتنی ہی بار نیا لطف آیا۔
لیلیٰ ، روایتی ہیروئن تھی جبکہ ناصرہ نے ویمپ کے طور پر ایک "ٹیڈی گرل" کا رول کیا تھا۔
ٹیڈی بالم ، ہائے ظالم
پاکستان کے پہلے تین عشروں یعنی پچاس ، ساٹھ اور ستر کی دھائیوں میں بڑا لبرل ماحول ہوتا تھا۔ اس دور میں ان لڑکوں اور لڑکیوں کو "ٹیڈی" کہا جاتا تھا جو ماڈرن یا مغربی رنگ میں رنگے ہوئے ہوتے تھے۔ لڑکیاں ، عام طور پر چست، اور نیم عریاں لباس میں نظر آتی تھیں اور بعض ایسی بے ہودہ حرکتیں کرتی تھیں کہ جیسی آج کل کی " ٹک ٹاک گرلز" کرتی ہیں۔ اسی موضوع پر نذیربیگم کا گایا ہوا ایک شوخ گیت ناصرہ پر فلمایا گیا تھا
- میرے فیشن نوں ، پوزیشن نوں ، سب کہندے نیں ویلکم ، ٹیڈی بالم ، ہائے ظالم۔۔
اس فلم میں ناصرہ ، اپنے فلمی باپ ، اے شاہ شکارپوری کے ساتھ مل کر اپنا مصنوعی معیارزندگی برقرار رکھنے کے لیے امیر "مرغوں" کو اپنے حسن کے جال میں پھنسانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہے۔ ایک موقع پر ناصرہ کا یہ مکالمہ اس ماحول کا نقشہ کچھ اس طرح سے کھینچتا ہے کہ "جب سے ٹیڈی ازم کی بیماری پھیلی ہے ، لڑکیاں ، جاپانی کھلونوں کی طرح سستی ہوگئی ہیں۔۔"
اس فلم میں ولن مظہرشاہ ، ناصرہ کے لیے یہ مدھ بھرا گیت گاتے ہیں
- کیا رات سہانی اے ، میں راجہ واں ، تو رانی ایں۔۔
احمدرشدی ، پنجابی فلموں میں ناکام کیوں ہوئے؟
اس گیت کو اردو فلموں کے عظیم گلوکار احمدرشدی نے گایا تھا جن کے فلمی کیرئر کی یہ واحد پنجابی فلم تھی جس میں انھیں تین گیت گانے کا موقع ملا تھا۔ اردو فلموں میں تھوک کے حساب سے گیت گانے کے باوجود پنجابی فلموں میں ویسی کامیابی حاصل نہ کر سکے تھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مسعودرانا تھے جنھیں اردو فلموں میں مہدی حسن اور احمدرشدی کے بعد تیسرا بڑا مقام دیا جاتا تھا۔ پنجابی فلمی گائیکی پر البتہ انھیں مکمل اجارہ داری حاصل ہوتی تھی۔
اعدادوشمار کے مطابق اکیلے مسعودرانا کی پنجابی فلموں اور پنجابی گیتوں کی تعداد ان کےدیگر ہم عصر پانچ بڑے گلوکاروں یعنی عنایت حسین بھٹی ، سلیم رضا ، منیر حسین ، مہدی حسن اور احمدرشدی کی پنجابی فلموں اور پنجابی گیتوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ تھی۔
ناصرہ کی بطور فرسٹ ہیروئن فلمیں
ناصرہ کی کارکردگی سے متاثر ہوکر کراچی کے فلمساز عثمان کیتھانی نے اسے فلم مسٹرایکس (1963) میں پہلی بار فرسٹ ہیروئن کے طور پر پیش کیا گیا تھا ۔ محمدعلی ، ہیرو تھے جو ایک سال قبل ولن کے طور پر فلموں میں متعارف ہوئے تھے اور بطور ہیرو یہ ان کی دوسری فلم تھی۔
اس ناکام فلم میں مسعودرانا کا یہ دلکش رومانٹک گیت تھا
- کس کے قدموں کی یہ آہٹ ہے ، بھلا یہ کون آیا ہے۔۔؟
اس گیت میں یقیناً ناصرہ ہی کے قدموں کی آہٹ کا ذکر ہوا ہو گا۔
اگلے سال شباب کیرانوی نے بھی اپنی پنجابی فلم لاڈلی (1964) میں ناصرہ کو اکمل کے مقابل فرسٹ ہیروئن کے طور پر پیش کیا تھا لیکن فلم بینوں نے ناصرہ کو ہیروئن کے طور پر قبول نہیں کیا تھا۔ ناصرہ کے خدوخال ، ایک ہیروئن کے بجائے ایک ویمپ کے طور پر موزوں تھے۔ پچاس کے عشرہ کی ممتاز ویمپ اداکارہ آشا پوسلے کے بعد ناصرہ دوسری مقبول ترین ویمپ اداکارہ تھی جبکہ اب تک کی آخری مستند ویمپ اداکارہ تمنا تھی لیکن وہ صرف اردو فلموں تک محدود رہی تھی۔
ناصرہ کی دیگر یادگار فلمیں
ناصرہ کی دیگر خاص خاص فلموں میں فلم لائی لگ (1964) ، ایک اعلیٰ پائے کی سماجی اور اصلاحی فلم تھی جس میں وٹہ سٹہ کی شادی کو موضوع بنایا گیا تھا۔ اس فلم کا ٹائٹل رول وقت کے مقبول ترین اداکار علاؤالدین نے کیا تھا جس کی بیوی کا رول ناصرہ نے کیا تھا۔ ایک جوڑی میں ناچاقی کی وجہ سے دوسری جوڑی یعنی فردوس اور اعجاز میں بھی دوری ہوجاتی ہے جو آپس میں بڑی گہری محبت رکھتے ہیں۔
فلم ہیرسیال (1965) میں ناصرہ نے سہتی کا ویمپ کا یادگار رول کیا تھا۔
فلم پلپلی صاحب (1965) میں ناصرہ نے ایک بار پھر ویمپ کا رول کیا تھا جو گاؤں کی مالکن کی بیٹی ہے اور انسان کو انسان نہیں سمجھتی لیکن گاؤں کے ایک گبھرو جوان اکمل کو حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ اس موقع پر مسعودرانا کے اس بامقصد گیت
- نئیں بکھا شہر گراں دا ، نئیں چاہ زلفاں دی چھاں دا ، میں تیتھوں ربا میریا ، سکھ منگناں دکھی ماں دا۔۔
میں 'زلفاں دی چھاں' ، ناصرہ کی ہوتی ہے جس کی اکمل کو کوئی خواہش نہیں ہوتی۔
ہدایتکار اور اداکار آصف جاہ کی فلم میم صاحب (1966) کا ٹائٹل رول بھی ناصرہ نے کیا تھا۔ فلم جگ بیتی (1968) ایک اور لاجواب فلم تھی جس میں ناصرہ نے رنگیلا کی لڑاکی اور کپتی بیوی کا رول بڑی مہارت سے کیا تھا۔
بھٹی برداران کی سپرہٹ فلم جندجان (1969) میں ناصرہ نے کیریکٹرایکٹر رول کیا تھا اور اس کے پس منظر میں عنایت حسین بھٹی کا یہ تھیم سانگ فلمایا گیا تھا
- اک ٹہنی دے دو پھل سجرے ، اک جند تے اک جان۔۔
فلم زرقا (1969) جیسی عظیم فلم میں ناصرہ نے یہودی میجر ڈیوڈ کا لافانی کردار کرنے والے طالش کی بیوی کا کردار کیا تھا جو اپنے ہی ایک آفیسر کے ہاتھوں اپنی عزت لٹوا بیٹھتی ہے۔
فلم ہم لوگ (1970) میں ایک انتہائی سنگدل عورت کا کردار بھی ناصرہ کے فلمی کیرئر کا ایک اہم رول تھا۔ ناصرہ کی آخری فلموں میں فلم پاکیزہ (1979) میں شبنم کی سوتیلی ماں کا مختصر سا رول بھی تھا۔
ناصرہ کے لیے مسعودرانا کے گیت
ناصرہ کی پنجابی فلم لارالپا (1970) ایک حیران کن فلم تھی۔ معروف ہدایتکار اسلم ڈار کے والدگرامی ، پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم دلابھٹی (1956) فیم ، ایم ایس ڈار کی یہ آخری فلم تھی جس میں انھوں نے پہلی اور آخری بار فرزانہ نامی اداکارہ کو اعجاز جیسے تجربہ کار ہیرو کی ہیروئن بنایا تھا لیکن وہ ناکام رہی تھی اور عام طور پر چھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آتی تھی۔
دوسری حیرت کی بات یہ تھی کہ ناصرہ کو سیکنڈ ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا گیا تھا اور وہ بھی نامور ولن مظہرشاہ کے ساتھ۔۔!
تیسری حیرت کی بات یہ تھی ان دونوں پر مالا اور مسعودرانا کا یہ خوبصورت رومانٹک دوگانا فلمایا گیا تھا
- اج گیت خوشی دے گاواں ، نی میں نچ نچ پیلاں پاواں ، صدقڑے جاواں۔۔
چوتھی حیرت کی بات یہ تھی کہ مسعودرانا کے منفرد فلمی ریکارڈز میں ایک اور اضافہ ہوا تھا۔ ہدایتکار ایم ایس ڈار اور ان کے دونوں ہدایتکار بیٹوں وحیدڈار اور اسلم ڈار کے علاوہ شباب کیرانوی اور ان کے دونوں ہدایتکار بیٹوں ظفرشباب اور نذرشباب کی فلموں میں گائیکی کا مظاہرہ کرنے والے واحد گلوکار ، مسعودرانا تھے۔
ناصرہ پر فلم گرہستی (1971) میں بھی مسعودرانا اور مالا کا یہ مزاحیہ دوگانا بھی فلمایا گیا جس میں ساتھی اداکار لہری تھے
- میری سرکار ، ذرا پاس آنا ، اتنی بھی جلدی کیا ہے ، نہ نہ نہ۔۔
اس گیت میں ناصرہ کا رقص بھی تھا۔
ناصرہ نے دو سو کے قریب فلموں میں کام کیا تھا جن میں اردو اور پنجابی فلموں کی تعداد یکساں تھی۔ ستر کی دھائی کے آخر تک ناصرہ کی فلمیں ریلیز ہوتی رہیں۔ اس دوران اس نے ایک بزنس مین سے شادی کرنے کے بعد فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دیاتھا۔ موجودہ دور کا ایک نامور اداکار عثمان مختار ، ناصرہ کا بیٹا ہے۔
(1 اردو گیت ... 1 پنجابی گیت )