A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
ہدایتکار احتشام کی نغماتی فلم داغ (1969) میں نغمہ نگار اختریوسف کے لکھے ہوئے یہ خوبصورت بول شہنشاہ غزل خانصاحب مہدی حسن کی مدھر آواز میں تھے۔ اس شاہکار گیت کی دھن بنانے والے موسیقار کا نام ، علی حسین کا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سابقہ مشرقی پاکستان میں بنائی جانے والی پانچ درجن کے قریب اردو فلموں میں پونے چار سو کے قریب گیت گائے گئے تھے جن میں سے ایک تہائی مردانہ گیت تھے۔ لیکن علی حسین کے سوا دیگر پندرہ موسیقاروں میں سے کسی ایک نے بھی مہدی حسن سے ڈھاکہ کی اردو فلموں کے لیے کبھی کوئی گیت نہیں گوایا تھا۔ ساٹھ کی دھائی میں ویسے بھی خانصاحب کے زیادہ فلمی گیت نہیں ہوتے تھے اور ان کے عروج کا دور ستر کی دھائی میں تھا۔
موسیقار علی حسین نے صرف چھ اردو فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی اور چار فلموں چھوٹے صاحب (1967) ، قلی (1968) ، داغ اور اناڑی (1969) میں متعدد گیت مقبول ہوئے تھے۔
دیگر موسیقاروں میں روبن گھوش نے ڈھاکہ کی سب سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ ان کی فلموں ، تلاش (1962) ، بھیا (1966) اور چکوری (1967) کے گیت مقبول ہوئے تھے۔
خان عطاالرحمان نے دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ ان کی فلموں ملن (1964) اور بہانا (1965) کے گیتوں کو پذیرائی ملی تھی۔
گلوکار بشیراحمد ایک ہرفن مولا فنکار تھے جو گاتے بھی تھے ، دھنیں بھی بناتے تھے اور گیت بھی لکھتے تھے۔ ان کی فلم درشن (1967) ، آل راؤنڈ کارکردگی کی ایک شاندار مثال تھی۔
سبل داس کی فلم پیاسا (1969) کے چند گیت بھی مقبول ہوئے تھے اور کریم شہاب الدین نے فلم چاند اور چاندنی (1968) کی موسیقی ترتیب دے کر میلہ ہی لوٹ لیا تھا۔
موسیقار علی حسین کی پہلی فلم ڈاک بنگلہ (1966) تھی جو ایک گمنام فلم تھی۔ انھیں پہچان ، ہدایتکار مستفیض کی بنگالی/اردو ڈبل ورژن فلم چھوٹے صاحب (1967) سے ملی تھی جو ندیم کی ریلیز ہونے والی دوسری فلم تھی۔ پہلی فلم چکوری (1967) کے بعد یہ فلم بھی کراچی میں سپرہٹ ہوئی تھی اور گولڈن جوبلی کر گئی تھی۔ یقیناً لوکل بوائے ندیم صاحب کا جادو سر چڑھ کر بولا ہوگا۔
اس فلم کے اردو اور بنگالی ورژن نیٹ پرموجود ہیں۔ اس فلم کے اردو ورژن میں احمدرشدی اور مالا کے متعدد گیت سننے میں آتے تھے
وغیرہ۔ بنگالی ورژن میں یہ گیت دوسرے گلوکاروں نے گائے تھے اور ندیم اور شبانہ پر فلمائے گئے تھے۔
عام طور پر ڈھاکہ میں جب ایک بنگالی فلم بنتی تھی تو اس کے اردو گیت (اور شاید مکالموں کی ڈبنگ بھی) لاہور میں کی جاتی تھی۔ اس طرح مغربی پاکستان کے مصروف گلوکاروں کو ڈھاکہ جانے کی زحمت نہیں ہوتی تھی۔
ماضی کی فلمی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے کے بعد بنگالی فلمسازوں کو داد دینا پڑتی ہے کہ وہ واقعی پیشہ وارانہ سوچ کے حامل ہوتے تھے اور اپنی بنگالی فلموں کے اردو ورژن کے لیے خالص اردو زبان میں گیت لکھواتے اور گواتے تھے جن میں ادبی چاشنی بھی ہوتی تھی۔
اس کے برعکس نوے کی دھائی کے پنجابی فلمساز ، اسقدر نکمے اور ہڈحرام ہوتے تھے کہ پنجابی گیتوں کو من و عن اردو ورژن میں بھی شامل کردیتے تھے یا ان گیتوں کے بول لفظ بہ لفظ ترجمہ کر کے گواتے تھے جس سے اردو فلم بینوں کی برہمی قابل فہم ہوتی تھی۔
پنجابی اور اردو ، دو الگ الگ زبانیں ہیں اور ان کا انداز بیاں بھی مختلف ہے۔ پنجابی زبان میں جہاں سادگی ، بے ساختگی اور معصومیت ہوتی ہے وہاں اردو زبان میں ادب و آداب ، تکلفات اور تصنع کا غلبہ ہوتا ہے۔ اگر اس دور کی فلموں کے گیتوں پر توجہ دی جاتی تو یقیناً ڈبل ورژن پنجابی/اردو فلموں کا آئیڈیا ناکام نہ ہوتا۔
موسیقار علی حسین کی اگلی فلم قلی (1968) بھی ایک نغماتی فلم تھی جس کے ہدایتکار مستفیض تھے۔ ندیم ، شبانہ ، عظیم اور نینا مرکزی کرداروں میں تھے۔
اس فلم میں علی حسین نے پہلی بار مسعودرانا سے گیت گوائے تھے۔ دو گیت تو روایتی تھے
لیکن فلم کا سب سے اہم گیت احمدرشدی اور مسعودرانا کا ماں جیسے مقدس رشتے کے بارے میں گایا ہوا ایک لاجواب گیت تھا
ندیم اور عظیم پر فلمایا ہوا یہ شاہکار گیت اداکارہ نینا کے لیے گایا جاتا ہے جو فلم بینوں پر بڑے گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر ایسے بامقصد گیتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی اور عشق و محبت جیسے بے ہودہ اور فضول قسم کے گیتوں کو عام کیا جاتا رہا ہے جن کا ہماری تہذیب و تمدن سے دور دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔ مہذب اور شریف مسلم گھرانوں میں ایسے گیت سننا اور گنگنانا انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا۔
علی حسین کی فلم داغ (1969) مقبول گیتوں کے لحاظ سے ان کی سب سے بہترین فلم تھی۔ اس فلم کے سب سے مقبول گیت
کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ اس فلم میں احمدرشدی کے دو سولو گیت بھی بڑے پسند کیے گئے تھے
کے علاوہ یہ گیت سبینہ یاسمین نے بھی گایا تھا
اس فلم میں مسعودرانا کا ایک مزاحیہ گیت نوبیتا نامی گلوکارہ کے ساتھ تھا
ایک عام سا گیت تھا لیکن یہ گیت ان گیتوں میں سے ایک ہے جو مسعودرانا کو پاکستان کی فلمی تاریخ کا منفرد گلوکار بنا دیتے ہیں
انتہائی دھیمی سروں میں گائی ہوئی یہ ایک غزل تھی جو علی حسین کی فلم میں روبن گھوش نے ایک دوگانے کی صورت میں کمپوز کی تھی ، ساتھی گلوکارہ آئرن پروین تھی۔ ندیم اور شبانہ پر یہ سبھی گیت فلمائے گئے تھے اور ہدایتکار احتشام تھے۔
ہدایتکار مستفیض کی فلم اناڑی (1969) میں موسیقار علی حسین کا کمپوز کیا ہوا صرف ایک ہی گیت مقبول ہوا تھا
یہ گیت ندیم اور سبینہ یاسمین نے الگ الگ گایا تھا۔ ندیم اور شبانہ ، متحدہ پاکستان کے دور میں ڈھاکہ کی کسی آخری فلم میں ایک ساتھ نظر آئے تھے۔
ہدایتکار احتشام کی ڈبل ورژن فلم پائل (1970) ، علی حسین اور مسعودرانا کی آخری فلم تھی جس میں ان کا صرف ایک ہی گیت تھا جو انھوں نے مسعودرانا اور نوبیتا سے گوایا تھا
اس فلم کے کیلنڈر پر اداکارہ شبانہ کی تصویر اور پس منظر میں پہاڑی علاقہ اور جھیل کا منظر کبھی نہیں بھلا سکا۔ میرے ذہن پر بچپن ہی سے مشرقی پاکستان کا ایسا ہی ایک تصور ہوتا تھا اور ندی نالوں ، سرسبز وادیوں اور دلکش پہاڑوں کی یہ سرزمین ایک خواب ناک سا ماحول لگتی تھی۔
بدقسمتی سے غاصب اور جابر حکمرانوں نے ہوس اقتدار میں اسے جہنم بنا دیا تھا اور بدنامی کا ایک انمٹ داغ پوری قوم کے ماتھے پر لگوالیا تھا۔۔!
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد علی حسین نے ایک طویل عرصہ تک بہت سی بنگالی فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔
سال رواں کے آغاز میں علاج کی غرض سے امریکہ گئے جہاں 14 فروری 2021ء کو انھوں نے فیس بک پر اپنا آخری میسیج بھیجا جس میں یہ انکشاف کیا کہ ان کے پھیپھڑوں میں کینسر کی تشخیص ہوئی ہے جو آخری سٹیج پر ہے اور ان کے لیے دعا کی جائے۔ اپنے لیے انھوں نے خود ہی جنت کی دعا کی اور میسیج کی آخری لائن میں اس توقع کا اظہار کیا کہ ان کی دھنیں شائقین کو ایک عرصہ تک محظوظ رکھیں گی۔
صرف تین دن بعد 17 فروری 2021ء کو خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔۔!
1 | قدموں میں تیرے جنت میری ، تجھ سا کوئی کہاں ، اے ماں ، پیاری ماں..فلم ... قلی ... اردو ... (1968) ... گلوکار: احمد رشدی ، مسعود رانا ... موسیقی: علی حسین ... شاعر: سرور بارہ بنکوی ... اداکار: ندیم ، عظیم |
2 | ملے اس طرح دل کی دنیا جگا دی ، خدا کی قسم تو نے ہلچل مچا دی..فلم ... قلی ... اردو ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: علی حسین ... شاعر: سرور بارہ بنکوی ... اداکار: ندیم |
3 | ایک نیا غم ہے ، کوئی برہم ہے ، خدا خیر کرے..فلم ... قلی ... اردو ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: علی حسین ... شاعر: سرور بارہ بنکوی ... اداکار: ندیم مع ساتھی |
4 | ملنے کا موقع ہے گلے لگ جا..فلم ... داغ ... اردو ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ، نبیتا ... موسیقی: علی حسین ... شاعر: اختر یوسف ... اداکار: سہیل ، کوبیتا |
5 | ہو بل کھاتی ندیا ، لہروں میں لہرائے ، کرے کنگن یہ سن سن ، نیا کنارے چلی جائے رے..فلم ... پائل ... اردو ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ، نبیتا ... موسیقی: علی حسین ... شاعر: اختر یوسف ... اداکار: جاوید ، شبانہ |
1 | ملے اس طرح دل کی دنیا جگا دی ، خدا کی قسم تو نے ہلچل مچا دی ...(فلم ... قلی ... 1968) |
2 | ایک نیا غم ہے ، کوئی برہم ہے ، خدا خیر کرے ...(فلم ... قلی ... 1968) |
1 | قدموں میں تیرے جنت میری ، تجھ سا کوئی کہاں ، اے ماں ، پیاری ماں ...(فلم ... قلی ... 1968) |
2 | ملنے کا موقع ہے گلے لگ جا ...(فلم ... داغ ... 1969) |
3 | ہو بل کھاتی ندیا ، لہروں میں لہرائے ، کرے کنگن یہ سن سن ، نیا کنارے چلی جائے رے ...(فلم ... پائل ... 1970) |
1. | 1968: Qulli(Urdu) |
2. | 1969: Daagh(Urdu) |
3. | 1970: Payel(Bengali/Urdu double version) |
1. | Urdu filmQullifrom Friday, 7 June 1968Singer(s): Ahmad Rushdi, Masood Rana, Music: Ali Hossain, Poet: , Actor(s): Nadeem, Azeem |
2. | Urdu filmQullifrom Friday, 7 June 1968Singer(s): Masood Rana & Co., Music: Ali Hossain, Poet: , Actor(s): Nadeem & Co. |
3. | Urdu filmQullifrom Friday, 7 June 1968Singer(s): Masood Rana, Music: Ali Hossain, Poet: , Actor(s): Nadeem |
4. | Urdu filmDaaghfrom Friday, 4 April 1969Singer(s): Masood Rana, Nabita, Music: Ali Hossain, Poet: , Actor(s): Sohail, Kobita |
5. | Urdu filmPayelfrom Friday, 22 May 1970Singer(s): Masood Rana, Naveeta, Music: Ali Hossain, Poet: , Actor(s): Javed, Shabana |
پاکستان فلم میگزین ، سال رواں یعنی 2023ء میں پاکستانی فلموں کے 75ویں سال میں مختلف فلمی موضوعات پر اردو/پنجابی میں تفصیلی مضامین پیش کر رہا ہے جن میں مکمل فلمی تاریخ کو آن لائن محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
قبل ازیں ، 2005ء میں پاکستانی فلموں کا عروج و زوال کے عنوان سے ایک معلوماتی مضمون لکھا گیا تھا۔ 2008ء میں پاکستانی فلموں کے ساٹھ سال کے عنوان سے مختلف فنکاروں اور فلموں پر مختصر مگر جامع مضامین سپردقلم کیے گئے تھے۔ ان کے علاوہ پاکستانی فلموں کے منفرد ڈیٹابیس سے اعدادوشمار پر مشتمل بہت سے صفحات ترتیب دیے گئے تھے جن میں خاص طور پر پاکستانی فلموں کی سات دھائیوں کے اعدادوشمار پر مشتمل ایک تفصیلی سلسلہ بھی موجود ہے۔
تازہ ترین
دیگر مضامین