A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
یہ خوبصورت گیت اپنے وقت کا ایک سپرہٹ گیت تھا جسے گلوکارہ ناہیدنیازی نے گایا تھا جو ایک "ننھے اداکار" یا "چائلڈ سٹار" پر فلمایا گیا تھا۔
جس مہارت اور خوبصورتی سے اس گیت کو اس معصوم اور خوبصورت بچے پر فلمایا گیا تھا، وہ فلم بینوں کے لیے انتہائی متاثرکن تھا۔ اس نوآموز اداکار کا نام ماسٹر مراد تھا جو اپنی فلمی ماں صابرہ سلطانہ کے لیےیہ گیت فلم عادل (1966) میں گاتا ہے۔ ٹائٹل رول عظیم اداکار محمدعلی نے کیا تھا جنھوں نے پہلی بار اس فلم کے لیے سرمایہ کاری بھی کی تھی۔
بھارت سے آئے ہوئے ایک ہدایتکار اکبرعلی اکو کی پاکستان میں یہ پہلی فلم تھی جو بھارت میں بنائی گئی ان کی اپنی فلم الہلال (1958) کا ری میک تھی۔ مذکورہ گیت کا بھارتی ورژن، گلوکارہ ثمن کلیان پور نے گایا تھا "اماں، میں بڑا ہو کے بہت کام کروں گا، اللہ کے بندوں میں بڑا نام کروں گا۔۔"
ماسٹرمراد کی پہلی فلم پردہ (1966) تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ فلموں کی ضرورت بن گیا تھا۔ فلم ریکارڈز کے مطابق کسی چائلڈ سٹار کو اتنی مقبولیت نہیں ملی جتنی ماسٹرمراد کے حصہ میں آئی تھی۔ وہ ایک پیدائشی اداکار تھا اور اپنی معصوم شکل و صورت سے عام طور پر ہیرو کے بچپن کا رول کیا کرتا تھا۔
ماسٹرمراد، واحد چائلڈ سٹار تھا جس نے ایک فلم ہم لوگ (1970) میں ہیرو کے طور پر کام کیا تھا۔ اس فلم میں کوئی روایتی ہیرو ہیروئن نہیں تھے، مراد کو جگنو نامی بچی کے ساتھ مرکزی کرداروں میں پیش کیا گیا تھا۔ ان پر کئی ایک گیت بھی فلمائے گئے تھے جن میں
جیسا مقبول گیت بھی شامل تھا۔
اس دور میں زیادہ تر سوشل اور رومانٹک فلمیں بنتی تھیں جن میں ہیرو اور ہیروئن کے بچپن کے کرداروں کے لیے بچوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ کئی فلموں کی کہانیوں میں بچوں کا بھی بڑا اہم رول ہوتا تھا اور بڑی اچھی پرفارمنس دیکھنے میں آتی تھی۔
عام طور پرفلم بنانے والوں کے اپنے بچے یا عزیز و اقارب کےبچے ایسے کرداروں میں دکھائے جاتے تھے۔ ممکن ہے کہ ماسٹرمراد کا بھی ایسا ہی کوئی پس منظر ہو۔
عام طور پر چائلڈ سٹارز میں ایک بات مشترک ہوتی تھی کہ جیسے ہی وہ لڑکپن یا نوجوانی کی عمر کو پہنچتے تھے تو ان کا فلمی کیرئر ختم ہوجاتا تھا۔ ماسٹر مراد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ لڑکپن ہی میں جب اس کی داڑھی مونچھ سامنے آئی تو وہ گمنام ہونا شروع ہوا اور طویل عرصہ تک گمشدہ رہا۔
کافی مدت بعد ماسٹر مراد نے "مراد علی یوسف" کے نام سے بطور ہدایتکار ایک فلم جان تو پیارا (2014) بنائی تھی۔ دیگر فلمیں "مٹی دے باوے" اور "گوالا" زیرتکمیل ہیں۔ وہ آج کل لاہور کی نیم مردہ فلم انڈسٹری میں بڑے سرگرم نظر آتے ہیں۔
ماسٹر مراد نے بہت سی فلموں میں یادگار کردار کیے تھے اور اس پر یا اس کے لیے بہت سے گیت بھی گائے گئے تھے۔ فلم یتیم (1967) میں مسعودرانا کے دو بے مثل گیت ملتے تھے جن میں پہلا گیت
کے دوران علاؤالدین، ماسٹرمراد کو دیگر بچوں کے ساتھ لوری سناتے ہوئے سلاتے ہیں جبکہ دوسرے گیت
میں بھی ماسٹرمراد اور ساتھی بچوں کو منانے کے لئے گایا جاتا ہے۔ یہ دونوں گیت اتنے کمال کے ہیں کہ جب سے سنے ہیں، مسعودرانا سے زیادہ کسی گانے والے نے متاثر نہیں کیا۔
فلم مرزا جٹ (1967) اپنے دور کی ایک بہت بڑی نغماتی اور رومانٹک فلم تھی جس کا ٹائٹل رول اعجاز نے کیا تھا اور ہیروئن فردوس تھی۔ اس جوڑی کی یہ پہلی سپرہٹ فلم تھی۔
یہ فلم اپنی جملہ خوبیوں اور خاص طور پر اپنے سپرہٹ گیتوں کی وجہ سے یادگار فلموں میں شمار ہوتی ہے۔ رشیدعطرے کی موسیقی میں یوں تو اس فلم کے سبھی گیت مقبول ہوئے تھے لیکن آئرن پروین اور مسعودرانا کا گایا ہوا یہ گیت
اتنا مقبول ہوا تھا کہ ہدایتکار مسعود پرویز نے اپنی اگلی فلم کا نام ہی انھی بولوں پر رکھا تھا۔
اس فلم میں اعجاز کے بچپن کا رول ماسٹرمراد نے کیا تھا جس کے ساتھ بےبی نجمی نامی بچی پر آئرن پروین اور نذیربیگم کا یہی گیت فلمایا گیا تھا۔ دونوں بچوں نے زبردست پرفارمنس دی تھی۔
یہاں یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے پاکستان میں اس فلم کے بعد بھی دو فلمیں مرزاجٹ (1984) اور جٹ مرزا (1984) مقابلے کی فضاء میں بنائی گئی تھیں لیکن وہ دونوں فلمیں کسی بھی شعبے میں مرزا جٹ (1967) کی گرد کو بھی پہنچ سکی تھیں حالانکہ ان میں سے ایک فلم کے ہدایتکار مسعود پرویز خود تھے۔
ویسے تو ایکشن فلموں کےاس دور میں کسی خالص رومانٹک پنجابی فلم کا کامیاب ہونا مشکل امر تھا لیکن بڑا فرق شاید یہ تھا کہ فردوس اور اعجاز جیسی آئیڈیل رومانوی جوڑی، پاکستانی پنجابی فلموں کو کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ اب خانم اور شاہد یا انجمن اور یوسف خان کی جوڑیاں کس طرح اس روایتی جوڑی کا نعم البدل ثابت ہو سکتی تھیں۔۔؟
ان فلموں کی ایک اور خاص بات یہ بھی تھی کہ موسیقی کے شعبے میں خواجہ خورشید انور اور ماسٹرعبداللہ جیسے بڑے بڑے نام بھی رشیدعطرے کے کسی ایک بھی گیت کا متبادل نہیں بنا سکے تھے حالانکہ ان میں احمدراہی کے لکھے ہوئے گیت بھی تھے جو پہلی فلم کے گیت نگار بھی تھے۔
ماسٹرمراد کی فلم میری بھابھی (1969) بھی ایک یادگار فلم تھی جس میں نیرسلطانہ کے ساتھ مراد نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس فلم میں مراد پر ایک بڑا جذباتی گیت فلمایا گیا تھا
مراد پر دوتہائی گیت آئرن پروین کے گائے ہوئے فلمائے گئے تھے۔ اس فلم کا تھیم سانگ
مراد کے پس منظر میں گایا گیا تھا اور ایسے بامقصد اور بااثر گیت گانے میں مسعودرانا کا کبھی کوئی ثانی نہیں ہوتا تھا۔
فلم ماں پتر (1970) بھی ایک لاجواب فلم تھی۔ اس فلم میں مراد، فردوس کا بھائی ہے اور جب اپنی بہن کو سدھیر کی بانھوں میں دیکھتا ہے تو اس کی غیرت جوش مارتی ہے اور سدھیر کا قول اسی کے سامنے دھراتا ہے کہ مرد کی غیرت زندہ رہنی چاہیے، اس کے لیے چاہے جان جاتی ہے تو جائے۔۔ ایسی صورتحال میں وہ بڑے جذباتی انداز میں سدھیر سے پوچھتا ہے کہ اب اسے کیا کرنا چاہیئے۔۔؟
بڑی زبردست فلم تھی جس نے کراچی میں 88 ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
مراد کی تین درجن سے زائد فلموں کا ریکارڈ ملتا ہے لیکن یقیناً ان سے کہیں زیادہ فلمیں ہوں گی۔ فلم نظام (1972) میں بھی مراد کا چائلڈ رول تھا اور اس کے پس منظر میں ماسٹرعبداللہ نے مسعودرانا سے یہ بڑا ہی اعلیٰ پائے کا ایک تھیم سانگ گوایا تھا جس کے بو ل تھے
پاکستان میں جب بھی 'چائلڈ سٹارز' کا نام آئے گا تو سب سے پہلا اور سب سے بڑا نام "بےبی نورجہاں" کا آئے گا جو 'ملکہ ترنم نورجہاں' بن کر نہ صرف پاکستان، بلکہ برصغیر کی تاریخ کی سب سے بڑی فلمی ہستی ثابت ہوئی تھی۔
صرف نو سال کی عمر میں کلکتہ میں بنائی جانے والی پنجابی فلم شیلا عرف پنڈ دی کڑی (1935) سے اپنے فلمی کیریر کا آغاز کرنے والی اس عظیم فنکارہ نے سات عشروں تک سپرسٹار کے طور پر فلم بینوں کو متاثر کیا جو ایک ناقابل شکست ریکارڈ ہے۔
چائلڈ سٹار کے طور پر اس وقت کے فلمی پوسٹروں پر میڈم کا نام نمایاں ہوتا تھا۔ میڈم کی اضافی خوبی ان کی بے مثل گائیکی تھی جس نے ان کا فلمی کیرئر طویل بنانے میں مدد دی تھی ۔
چائلڈ سٹارز کی بات کی جائے تو اداکارہ رتن کمار کا ذکر بھی ضروری ہوجاتا ہے جو پاکستان میں اپنی پہلی فلم بیداری (1957) میں چائلڈسٹار کے طور پر سامنے آئے تھے۔ پھر ہیرو بنے اور ڈیڑھ درجن فلموں میں کام کرنے کے باوجود صرف ایک فلم ناگن (1959) ہی کامیاب فلم تھی۔ آخری فلم داستان (1969) تھی۔
ایک چائلڈ سٹار ماسٹرمشتاق بھی تھے جو رتن کمار ہی کے بھائی بتائے جاتے ہیں۔ میرا کیا قصور (1962) یادگار فلم تھی۔
ایک اور باصلاحیت نام ماسٹرخرم کا بھی تھا۔ قربانی (1981) اور کامیابی (1984) جیسی فلموں میں زبردست پرفارمنس تھی۔
فلم دوستانہ (1982) میں غالباً ہدایتکار اقبال کاشمیری کے بیٹے فیصل نے بڑی عمدہ اداکاری کی تھی۔
ایک عمران راہی بھی تھے جو عام طور سلطان راہی کے بچپن کا رول کیا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر بہت سے اداکاروں کے علاوہ اداکارہ دیبا، عالیہ، دردانہ رحمان اور ریما وغیرہ نے بھی چائلڈ سٹارز کے طور پر اپنے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا تھا۔
1 | نہ کوئی پٹوار نہ مانجی اور نہ کوئی ناؤ ، رحمت کے بادل آؤ ، معصوم کے سر پہ چھاؤ..فلم ... میری بھابی ... اردو ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: امجد بوبی ... شاعر: تسلیم فاضلی ... اداکار: (پس پردہ ، مراد) |
2 | منے ، دعا ہے میری ، آئے تجھ میں اور دلیری..فلم ... ہم لوگ ... اردو ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین ،؟مع ساتھی ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: مظفر وارثی ... اداکار: ساقی ، مراد ، جگنو مع ساتھی |
3 | دل ٹٹدا تے روندا اسمان ویکھیا، پر ڈولدا نہ تیرا اے جہاں ویکھیا..فلم ... نظام ... پنجابی ... (1972) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عبد اللہ ... شاعر: سلیم کاشر ... اداکار: (پس پردہ ، تھیم سانگ ، مراد) |
1 | نہ کوئی پٹوار نہ مانجی اور نہ کوئی ناؤ ، رحمت کے بادل آؤ ، معصوم کے سر پہ چھاؤ ...(فلم ... میری بھابی ... 1969) |
2 | منے ، دعا ہے میری ، آئے تجھ میں اور دلیری ...(فلم ... ہم لوگ ... 1970) |
1 | دل ٹٹدا تے روندا اسمان ویکھیا، پر ڈولدا نہ تیرا اے جہاں ویکھیا ...(فلم ... نظام ... 1972) |
1 | نہ کوئی پٹوار نہ مانجی اور نہ کوئی ناؤ ، رحمت کے بادل آؤ ، معصوم کے سر پہ چھاؤ ...(فلم ... میری بھابی ... 1969) |
2 | دل ٹٹدا تے روندا اسمان ویکھیا، پر ڈولدا نہ تیرا اے جہاں ویکھیا ...(فلم ... نظام ... 1972) |
1 | منے ، دعا ہے میری ، آئے تجھ میں اور دلیری ... (فلم ... ہم لوگ ... 1970) |
1. | 1967: Jigri Yaar(Punjabi) |
2. | 1967: Sajda(Urdu) |
3. | 1967: Chacha Ji(Punjabi) |
4. | 1967: Hukumat(Urdu) |
5. | 1967: BeReham(Urdu) |
6. | 1967: Yateem(Urdu) |
7. | 1967: Mirza Jatt(Punjabi) |
8. | 1968: Mera Ghar Meri Jannat(Urdu) |
9. | 1969: Nikkay Hundian Da Pyar(Punjabi) |
10. | 1969: Ghairatmand(Punjabi) |
11. | 1969: Sheran Di Jori(Punjabi) |
12. | 1969: Teray Ishq Nachaya(Punjabi) |
13. | 1969: Meri Bhabhi(Urdu) |
14. | 1970: Heer Ranjha(Punjabi) |
15. | 1970: Hamlog(Urdu) |
16. | 1971: Ishq Bina Ki Jeena(Punjabi) |
17. | 1972: Nizam(Punjabi) |
18. | 1977: Puttar Tay Qanoon(Punjabi) |
19. | 1990: Allah Waris(Punjabi) |
20. | 1990: Khatarnak(Punjabi) |
21. | 1990: Chann Badmash(Punjabi) |
22. | 1992: Koday Shah(Punjabi) |
23. | 1992: Babra(Punjabi) |
24. | 1994: Laila(Punjabi/Urdu double version) |
25. | Unreleased: Shikva Na Kar(Urdu) |
1. | Urdu filmMeri Bhabhifrom Friday, 3 October 1969Singer(s): Masood Rana, Music: Amjad Bobby, Poet: Taslim Fazli, Actor(s): (Playback - Master Murad) |
2. | Urdu filmHamlogfrom Friday, 7 August 1970Singer(s): Masood Rana, Irene Parveen, ? & Co., Music: Tasadduq Hussain, Poet: Muzaffar Warsi, Actor(s): Saqi, Master Murad, Jugnu & Co. |
3. | Punjabi filmNizamfrom Wednesday, 8 November 1972Singer(s): Masood Rana, Music: Master Abdullah, Poet: Saleem Kashar, Actor(s): Abbu Shah, (Murad, Mehboob Kashmiri) |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.