اخترحسین اکھیاں کی بطور موسیقار پہلی فلم پاٹے خان (1955) ایک یادگار فلم تھی۔۔!
اپنے وقت کی اس نغماتی فلم کی سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ اس کی ہیروئن ملکہ ترنم نور جہاں تھیں جو 1935ء سے فلموں میں گا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ اداکاری بھی کررہی تھیں۔
ان کے ساتھ وقت کی مقبول ترین گلوکارہ زبیدہ خانم تھیں جو پہلی بار کسی فلم میں سیکنڈ ہیروئن کا رول کررہی تھیں۔ اس سے قبل وہ دو فلموں میں چھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آئی تھیں لیکن گلوکاری میں اپنی دھاک بٹھا چکی تھیں۔
یہی پہلی فلم تھی جس میں کسی مزاحیہ اداکار کو پہلی بار کوئی ٹائٹل رول دیا گیا تھا اور یہ اعزاز اداکار ظریف کے حصے میں آیا تھا۔
اداکار اسلم پرویز کی ہیرو کے طور پر یہ پہلی فلم تھی جبکہ مسرت نذیر کو تیسری ہیروئن کا کردار دیا گیا تھا۔
ہدایتکار ایم اے رشید کی بھی یہ پہلی فلم تھی جس کے
فلمساز اسلام الدین شامی اور مصنف حزیں قادری تھے جنہوں نے فلم کی کہانی ، مکالمے ، منظرنامہ اور گیت بھی لکھے تھے۔
موسیقار اخترحسین اکھیاں نے اس فلم میں بڑے خوبصورت گیت کمپوز کیے تھے لیکن سپرہٹ کوئی نہیں تھا۔
ملکہ ترنم نور جہاں کے گائے ہوئے جو گیت انھی پر فلمائے گئے ان میں "آجا ، میری پھڑ لے بانہہ ، اکھیاں ہار گیاں ، دل نے تیرے اگے کر لئی ہاں۔۔" ، "کلی کلی جان دکھ لکھ تے کروڑ وے ، دور جان والیا ، مہاراں ہن موڑ وے۔۔" ، "ہوکا میں دیواں گلی گلی وے۔۔" قابل ذکر تھے جبکہ اسی فلم میں میڈم نے مسرت نذیر کے لیے بھی پلے بیک دیا تھا جو ایک اردو گیت تھا "او جان بہار ، تیرے آنے سے رت پہ آیا نکھار۔۔"
مزے کی بات یہ تھی کہ زبیدہ خانم سے صرف ایک کامیڈی گیت کے علاوہ دو بول گوائے گئے تھے جن میں ایک وہ لوری ہے جو وہ میڈم نور جہاں کو سنا کر سلانے کی کوشش کرتی ہیں "یاد سجن دی رکھ سرہانے ، کڑیئے سو جا۔۔"
عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا گیت "سجن دشمن اٹھدے بہندے سانوں کہندے پاٹے خان۔۔" فلم کا سب سے مقبول ترین گیت تھا جو ظریف پر فلمایا گیا تھا۔ انھی کا گایا ہوا ایک کورس گیت تھا جو فلم کے ولن علاؤالدین اور ساتھیوں پر فلمایا گیا تھا اور جس میں فلم کی ہیروئن نور جہاں کی قاتل جوانی کو یہ شریر مشورہ دے رہے تھے کہ "نہ ڈھک ڈھک رکھ جوانی نوں ، چھڈ کھلی کھسماں کھانی نوں۔۔" ویسے اس کورس گیت کو دوگانے کی شکل میں ہونا چاہئے تھے۔
فلم پاٹے خان (1955) کی چند یادیں
اللہ بخشے ، والدصاحب مرحوم و مغفور بتایا کرتے تھے کہ پاٹے خان (1955) ان کی دیکھی ہوئی پہلی فلم تھی جب وہ آٹھویں جماعت میں پڑہتے تھے۔
وہ ، زبیدہ خانم کے گیتوں کو بہت پسند کرتے تھے اور جب بچپن میں پہلی بار ڈنمارک آیا تھا تو ان کے پاس زبیدہ خانم کے گیتوں کی ایک آئیڈیو کیسٹ تھی جسے سننے کا پہلی بار موقع ملا تھا۔
ایک بار ایک محفل میں مجھ سے ایک گستاخی ہوگئی تھی جب وہ اپنے دوستوں کو بتا رہے کہ ان کے وقت تو صرف زبیدہ خانم ہی ہوتی تھی تو میں نے لقمہ دیا تھا کہ "نور جہاں بھی تو تھی۔۔" اس پر ان کے چہرے پر ناراضی کے تاثرات تھے لیکن برداشت کر گئے تھے اور بات جاری رکھتے ہوئے کہا تھا کہ "نور جہاں کی اس وقت وہ اہمیت نہیں تھی جو زبیدہ خانم کی تھی۔۔"
اس بات کی تصدیق اپنے میڈیا سے تو کبھی نہ ہو سکی لیکن برسوں کی اس تحقیق نے ثابت کر دیا کہ والدصاحب مرحوم و مغفور کی بات سو فیصدی درست تھی ، اپنی اس غلطی سے جہاں اور بہت کچھ سیکھا وہاں اس گستاخی پر آج بھی نادم ہوں ، اللہ تعالیٰ کی ذات معاف فرمائے (آمین)
اداکارہ نور جہاں کی آخری فلم

اخترحسین اکھیاں کی ایک گمنام فلم پردیسن (1959) کا دلکش پوسٹر
اخترحسین اکھیاں کی دوسری فلم آس پاس (1957) بھی ایک یادگار فلم تھی جس نے علاؤالدین کو بریک تھرو دیا تھا اور ایک عام ولن اداکار سے چوٹی کے ہرفن مولا اداکار بنے تھے اور ساٹھ کے عشرہ میں فلموں پر چھائے ہوئے تھے۔ اس فلم میں آنجہانی سلیم رضا کا گایا ہوا یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا "بے درد زمانے والوں نے کب درد کسی کا جانا ہے۔۔"
اس کے بعد اخترحسین کی بہت سی فلموں کی موسیقی گمنام رہی تھی جن میں میڈم نور جہاں کی آخری پنجابی فلم پردیسن (1959) بھی تھی جس کے ایک درجن گیتوں میں سے کوئی ایک بھی مشہور نہیں ہوا تھا۔ فلم ثریا (1961) میں منیر حسین اور آئرن پروین کا گایا ہوا گیت "بچپن بیتا آئی جوانی ، بولو جی اقرار کرو۔۔" کسی حد تک مشہور ہواتھا۔ فلم دیوداس (1965) میں سلیم رضا کی آواز میں یہ گیت بھی کسی حد تک مقبول ہوا تھا "تسکین تو دے جاتے ، آرام تو مل جاتا۔۔" جبکہ اسی فلم میں احمد رشدی سے یہ سنجیدہ گیت گوانے کی ناکام کوشش بھی کی گئی تھی "منزل اپنی دور او ساتھی۔۔"
اختر حسین اکھیاں اور مسعودرانا کا ساتھ
مسعود رانا کے ساتھ اخترحسین اکھیاں کا پہلا ساتھ فلم معجزہ (1966) میں ہوا تھا۔ اس فلم میں انھوں نے اپنے فیورٹ سنگر سلیم رضا سے پانچ گیت گوائے تھے جن میں سے تین مسعود رانا کے ساتھ تھے۔ ان میں سب سے مقبول ایک قوالی تھی "داتا میرے ، جھولی بھر دے ، میں سوالی تیرے در کا۔۔" تھی جبکہ دو ملی ترانے تھے "اے وطن ، اسلام کی امیدگاہ آخری ، تجھ پر سلام۔۔" اور "توحید کے متوالو ، باطل کو مٹا دیں گے ، یہ آج قسم کھا لو۔۔" یہ فلم 1965ء کی جنگ کے بارے میں تھی اور اس میں کئی نامور فنکار مہمان اداکار کے طور پر نظر آئے تھے۔
اخترحسین اکھیاں نے مسعود رانا سے فلم کڑمائی (1968) میں ایک منفرد گیت گوایا تھا "کہیڑے ویری دیاں لگ گیاں نظراں ، ربا کی انہیر پے گیا۔۔" جو فلم کے گمنام ہیرو محمود پر فلمایا گیا تھا۔ فلم دل دریا (1968) کا گیت عام سا تھا۔
فلم رن مرید (1969) میں ملکہ ترنم نور جہاں کا یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا "ڈاہڈا بھیڑا عشقے دا روگ۔۔" ایک اور سپرہٹ گیت انھوں نے مہدی حسن سے فلم پیارنہ منے ہار (1971) میں گوایا تھا "اپنی کہانی یارو کس نوں سناواں ، ہاسیاں دے وچ مینوں ملیاں سزاواں۔۔"
نغمات کے لحاظ سے فلم سیدھا رستہ (1974) ان کی بہت بڑی فلم تھی جس میں میڈم نور جہاں کا یہ گیت سپرہٹ تھا "اک اک شے چناں ، تیرے لئی سجائی اے۔۔" جبکہ اسی فلم میں میڈم کے ساتھ مہدی حسن کا یہ رومانٹک دوگانا بھی بڑا مقبول ہوا تھا "مکھ تیرا چناں ، کناں پیار لگدا اے ، چن تیرے اگے ، سانوں تارا لگدا اے۔۔"
ان کا مسعود رانا کے ساتھ آخری گیت فلم شگناں دی مہندی (1976) میں تھا "ہیریا ، سوہنیا ، پیاریا ، تیرے مکھڑے توں تن من واریا۔۔" یہ ایک کورس گیت تھا جس میں افشاں کی آواز بھی شامل تھی۔ ان کی آخری فلم گبھرو (1981) تھی۔
اختر حسین اکھیاں کی بیگم گلوکارہ کوثر پروین
موسیقار اخترحسین اکھیاں نے کل 33 فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی جن میں 16 اردو اور 17 پنجابی فلمیں تھیں۔ انھوں نے اندازاً دو سو کے قریب گیت کمپوز کیے تھے۔
وہ ، موسیقار ماسٹر عاشق حسین کے بھائی اور اپنے وقت کی معروف گلوکارہ کوثرپروین کے شوہر تھے۔ اس طرح پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے موسیقار عنایت علی ناتھ کے داماد تھے جن کی ایک بیٹی آشا پوسلے ، پاکستان کی پہلی فلم کی ہیروئن تھی جب دو بیٹیاں رانی کرن اور نجمہ بیگم متعدد فلموں میں معاون اداکارہ کے طور نظر آئی تھیں۔ ان کا انتقال 2003ء میں ہوا تھا۔
3 اردو گیت ... 4 پنجابی گیت