Pakistan Film History
Pakistan Film Magazine presents detailed Urdu/Punjabi article on famous film writer Hakeem Ahmad Shujaa.
"اللہ ، میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔۔!"
قیام پاکستان کے بعد بننے والی کسی بھی فلم کا یہ پہلا ڈائیلاگ تھا جس کو لکھنے کا اعزاز حکیم احمد شجاع کو حاصل ہوا۔
پاکستان کی دوسری ریلیز شدہ فلم شاہدہ (1949) کا یہ تاریخی مکالمہ تقسیم سے قبل کی ایک مقبول اداکارہ شمیم نے ادا کیا جو پہلی بار معاون ہدایتکار اور معاون مکالمہ نگار کے طور پر اپنا فلمی کیرئر شروع کرنے والے انور کمال پاشا کی بیگم اور حکیم صاحب کی بہو بنی۔
حکیم احمد شجاع ، ایک ممتاز ادیب ، شاعر ، ڈرامہ نگار اور بیوروکریٹ تھے۔ 1893ء میں لاہور میں پیدا ہوئے جہاں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ علی گڑھ سے ایف اے ، میرٹھ سے بی اے اور میونخ (جرمنی) سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ 1920ء میں پنجاب اسمبلی کے سیکرٹری کے عہدے تک پہنچے۔ علامہ اقبالؒ کے ساتھ مل کر اس دور کی اردو کی درسی کتب بھی مرتب کیں۔
تقسیم کے بعد 1948ء سے 1969ء تک مجلس زبان دفتری کے سیکرٹری رہے اور ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا۔ ایک ادبی رسالہ "ہزار داستان" اور بچوں کا رسالہ "نونہال" بھی نکالا۔ اپنی خود نوشت "خوں بہا" کے نام سے لکھی اور لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی ادبی تاریخ "لاہور کا چیلسی" بھی تحریر کی۔ 4 جنوری 1969ء کو لاہور میں وفات پائی۔
حکیم احمد شجاع کی فلمی دنیا میں سب سے بڑی پہچان ان کا مشہور زمانہ ناول "باپ کا گناہ" تھا جو ڈرامہ کے انداز میں 1922ء میں لکھا گیا تھا۔ اس ناول پر قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں متعدد کامیاب فلمیں بنائی گئی تھیں۔
دستیاب معلومات کے مطابق ، حکیم احمد شجاع ، آغا حشر کاشمیری ، سید امتیاز علی تاج اور سعادت حسن منٹو کے بعد چوتھے نامور اردو ادیب تھے جن کی زندگی میں ان کے لکھے ہوئے ناولوں پر فلمیں بنیں۔ یاد رہے کہ اردو کا پہلا ناول "امراؤ جان ادا" ، 1899ء میں لکھا گیا تھا جو مرزا محمد ہادی رسوا کی تخلیق تھی لیکن ان کی زندگی میں اسے فلمانے کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔
حکیم احمد شجاع کے ناول "باپ کا گناہ" پر بنائی گئی فلموں میں تقسیم سے قبل بمبئی میں بنائی گئی فلم بھائی جان (1945) کا ذکر ملتا ہے جس میں میڈم نورجہاں اور مینا شوری کے علاوہ شاہ نواز بھی تھے جنھوں نے اسی موضوع پر بنائی گئی پاکستان کی پہلی سلور جوبلی اردو فلم دو آنسو (1950) میں بھی کام کیا تھا۔
فلم دو آنسو (1950) ، حکیم احمد شجاع کے ہونہار صاحبزادے انور کمال پاشا کی بطور شریک ہدایتکار پہلی فلم تھی ، دوسرے ہدایتکار مرتضیٰ جیلانی تھے۔ اس فلم کے مکالمے اور سکرین پلے بھی پاشا صاحب کے لکھے ہوئے تھے۔ مرکزی کردار شمیم ، شاہ نواز اور ہمالیہ والا نے کیے تھے۔ صبیحہ اور سنتوش کو روایتی ہیرو ہیروئن کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ پنجابی فلموں کے عظیم مصنف اور نغمہ نگار حزیں قادری اور مزاحیہ اداکار آصف جاہ کی یہ پہلی فلم تھی۔
اسی نام کی ایک فلم باپ کا گناہ (1957) کے مصنف بھی حکیم صاحب ہی تھے۔ جعفر ملک کی ہدایت میں بننے والی اس فلم کے فلمساز انور کمال پاشا تھے۔ مسرت نذیر ، درپن اور نیرسلطانہ اہم کردار تھے۔ یہی کہانی اپنے وقت کی دو سپرہٹ نغماتی فلموں ، دلاں دے سودے (1969) اور انجمن (1970) کی تکمیل کا باعث بھی بنی۔ یقیناً اس کہانی پر بننے والی کچھ مزید فلمیں بھی ہوں گی۔
پاکستان فلم میگزین کے ڈیٹا بیس کی غیر حتمی معلومات کے مطابق تقسیم سے قبل ، حکیم صاحب کی پانچ فلموں کا حوالہ ملتا ہے۔ فلم بھائی جان (1945) کا ذکر ہو چکا ہے۔ دیگر فلموں میں کاروان حیات (1935) میں کندن لال سہگل کی آواز میں حکیم صاحب کی لکھی ہوئی یہ غزل اس دور میں بڑی مشہور ہوئی تھی:
فلم پریم یاترا (1937) ، بطور مصنف اور گیت نگار پہلی فلم تھی جس کی مرکزی جوڑی ، رفیق غزنوی اور امراؤ ضیاء بیگم تھے۔ اس فلم میں حکیم صاحب کا لکھا ہوا یہ گیت اپنی شاعری کی وجہ سے بڑا منفرد ہے:
حکیم احمد شجاع کی بطور مکالمہ نگار ایک یادگار فلم غازی صلاح الدین (1939) بھی تھی جو 12ویں صدی میں مصر کے حاکم اور فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی زندگی پر بمبئی میں بنائی گئی ایک تاریخی فلم تھی۔ ٹائٹل رول لاہور سے تعلق رکھنے والے ممتاز ولن اداکار غلام محمد نے کیا تھا جبکہ اس کہانی کے مشہور زمانہ کردار ، صلیبوں کے کمانڈر "شیردل رچرڈ" کا رول مظہرخان نے کیا تھا۔ ایک اور ممتاز تاریخی کردار شامی حکمران نورالدین زنگی کا رول ایشور لال نے کیا تھا۔
قیام پاکستان سے قبل کی حکیم صاحب کی ایک اور فلم شکریہ (1944) بھی تھی۔ کلکتہ میں شروع ہونے والی یہ فلم لاہور میں مکمل ہوئی اور اپنے ایک شریر گیت کی وجہ سے یاد رکھی جاتی ہے:
قیام پاکستان کے بعد چند ماہ میں تیار ہو کر ریلیز ہونے والی پہلی پاکستانی فلم تیری یاد (1948) تھی لیکن اس سے قبل متعدد فلمیں زیر تکمیل تھیں جن میں فلم شاہدہ (1949) بھی تھی۔
حکیم احمد شجاع کی پاکستان میں بطور مصنف یہ پہلی فلم تھی جس کے معاون مکالمہ نگار ، ان کے بیٹے انور کمال پاشا تھے جو ہدایتکار لقمان کے معاون ہدایتکار بھی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مسلم سوشل فلم نے دہلی اور لکھنو میں سلور جوبلیاں کیں لیکن پاکستان میں ناکام رہی تھی۔
شاہدہ (1949) اکلوتی فلم تھی جس کے سبھی گیت حکیم صاحب نے لکھے تھے لیکن بابا جی اے چشتی اور ماسٹر غلام حیدر جیسے عظیم موسیقاروں کے باوجود کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔ حکیم صاحب کو بطور فلمی شاعر کامیابی نہیں ملی۔ ان کے درجن بھر فلمی گیتوں میں سے فلم انارکلی (1958) میں ماسٹر عنایت حسین کی دھن میں ملکہ ترنم نورجہاں کی گائی ہوئی یہ شاہکار غزل تھی جو اس فلم کے دیگر گیتوں کی طرح کبھی بلا ناغہ سننے کی عادت سی بن گئی تھی:
لیلیٰ مجنوں (1957) اور سازش (1963) دیگر فلمیں تھیں جن میں ان کے لکھے ہوئے متعدد گیت ملتے ہیں۔
حکیم احمد شجاع کی تیسری فلم گبھرو (1950) بطور مصنف اکلوتی پنجابی فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم میں بھی شمیم تھی اور ہیرو سنتوش تھے جبکہ انور کمال پاشا نے ڈائریکشن کے علاوہ اداکاری بھی کی تھی۔
حال ہی میں یوٹیوب پر دیکھی ہوئی حکیم صاحب کی فلم غلام (1953) بڑی متاثرکن فلم تھی جس کا موضوع دولت کی غلامی تھا۔ اس دور کی دیگر فلموں کی طرح ہندوآنہ کرداروں پر بننے والی یہ ایک یادگار فلم تھی جس میں وقت کی چار بڑی اداکارائیں ایک ساتھ نظر آئیں۔
پاور فل فرسٹ ہاف میں تقسیم سے قبل کی دو معروف اداکارائیں ، شمیم اور راگنی ، ہمالیہ والا کے ساتھ ینگ ٹو اولڈ کرداروں میں تھیں تو کمزور سیکنڈ ہاف میں تقسیم کے بعد کی دو مشہور اداکارائیں صبیحہ اور شمی ، سنتوش کے ساتھ تھیں۔ مزے کی بات ہے کہ ان چاروں اداکاراؤں پر الگ الگ سے گیت بھی فلمائے گئے تھے۔
فلم غلام (1953) میں ہمالیہ والا نے مرکزی کردار کیاتھا۔ راگنی نے ویمپ کا رول کیا جبکہ سنتوش روایتی ہیرو تھے۔ اجمل کا کردار بھی بڑا جاندار تھا اور خاص طور پر ان کا یہ مکالمہ بڑا دلچسپ تھا کہ "امیر بغیر پانی کے نیٹ شراب پیتا ہے تو ہم غریب بغیر دودھ کے نیٹ چائے پی لیتے ہیں۔۔" ایم اسماعیل مہمان اداکار تھے جبکہ آصف جاہ ، اپنے ابتدائی دور میں تھے اور متاثر نہیں کر پائے۔ فلم کامیاب تھی لیکن کسی جوبلی سے محروم رہی تھی۔
فلم غلام (1953) کی موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی تھی۔ ایک بھولا بسرا گیت فلم کی ہائی لائٹ تھا:
صبیحہ اور سنتوش پر فلمائے ہوئے اس خوبصورت گیت کو پکھراج پپو کے ساتھ فضل حسین نے گایا تھا جن کی یہ پہلی فلم تھی۔ ساغر صدیقی نے اس گیت کو لکھا تھا۔
حکیم احمد شجاع کی دیگر فلموں ، گمنام ، رات کی بات (1954) ، قاتل ، انتقام (1955) ، سرفروش (1956) ، باپ کا گناہ (1957) ، گمراہ (1959) ، سازش (1963) اور سفید خون (1964) پر تفصیلی بات انور کمال پاشا کے مضمون میں کی گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکیم صاحب کی پاکستان میں کل 14 فلموں میں سے 13 فلمیں ان کے اپنے صاحبزادے کے ساتھ تھیں۔ ان کی آخری فلم ، واحد فلم تھی جو کسی دوسرے فلمساز یا ہدایتکار کے لیے لکھی گئی تھی۔
پاکستان فلم میگزین کے ڈیٹا بیس کے مطابق یہ کیسا عجب اتفاق ہے کہ حکیم صاحب کی پاکستان میں لکھی ہوئی فلموں اور لکھے ہوئے گیتوں کی تعداد یکساں طور پر چودہ چودہ ہے۔۔!
ہدایتکار ایس سلیمان کی رومانٹک فلم تصویر (1966) بطور کہانی نویس حکیم احمد شجاع کی آخری فلم تھی۔ صبیحہ اور سنتوش کی روایتی جوڑی کے زوال کی فلموں میں سے ایک تھی۔ فلمساز سنتوش کی اس فلم میں زیبا اور محمدعلی، مہما ن اداکار تھے۔
فلم تصویر (1966) میں صبیحہ خانم کی آواز میں تلاوت قرآن پاک بڑی متاثرکن تھی۔ مالا اور مہدی حسن کا گیت "اے جان وفا ، دل میں تیری یاد رہے گی۔۔" کے علاوہ اس فلم کا تھیم سانگ مسعودرانا کی آواز میں فلم کی ہائی لائٹ تھا:
اسی فلم میں مسعودرانا نے مولانا الطاف حسین حالی کی مشہور زمانہ نعت بھی صبیحہ خانم کے پس منظر میں گائی تھی:
حکیم احمد شجاع کی تیسری نسل کے نمائندے ان کے پوتے ، محمد کمال پاشا ہیں جن کے کریڈٹ پر بےشمار پنجابی فلمیں ہیں۔
1 | فلم ... تصویر ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: خلیل احمد ... شاعر: حمایت علی شاعر ... اداکار: (پس پردہ، صبیحہ خانم) |
2 | فلم ... تصویر ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: خلیل احمد ... شاعر: مولانا الطاف حسین حالی ... اداکار: (پس پردہ، صبیحہ خانم) |
1. | Urdu filmTasvirfrom Friday, 11 February 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Khalil Ahmad, Poet: , Actor(s): (Playback - Sabiha Khanum) |
2. | Urdu filmTasvirfrom Friday, 11 February 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Khalil Ahmad, Poet: , Actor(s): (Playback - Sabiha Khanum) |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.