Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


ایم صادق

ایم صادق نے
برصغیر کی پہلی پنجابی فلم
ہیر رانجھا (1932) سے
فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا

ہدایتکار ایم صادق ، لاہور میں پیدا ہوئے اور وہیں سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ زندگی کا بیشتر حصہ ہندوستان میں گزارا جہاں متعدد بڑی بڑی فلمیں بنائیں۔ عمر کے آخری سال میں اجل کا پروانہ انھیں واپس لاہور لے آیا تھا جہاں اپنی آخری فلم کو مکمل کیے بغیر انتقال کرگئے تھے ۔۔!

پاکستان میں انھوں نے صرف ایک ہی فلم بہارو پھول برساؤ (1972) بنائی تھی۔ سینارٹی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے سنیئر ترین ہدایتکار بنتے ہیں۔ لاہور میں بننے والی برصغیر کی پہلی پنجابی فلم ہیررانجھا (1932) سے فلمی کیرئر کی ابتداء کی تھی اور وارث شاہؒ کی عظیم ادبی تخلیق کی تمثیل یا سکرین پلے لکھنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

برصغیر کی پہلی پنجابی فلم ہیر رانجھا (1932)

ہیر رانجھا (1932) برصغیر کی پہلی پنجابی فلم ہیررانجھا ، لاہور میں بنائی گئی تھی جو ایک ہندو سیٹھ حکیم رام پرشاد کے سرمائے سے بنی اور جمعہ 9 ستمبر 1932ء کو انھی کے کیپٹل سینما لاہور میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کے ہدایتکار اے آر کاردار تھے۔ اس فلم کی کہانی تو وارث شاہؒ کے مشہور زمانہ کلام "ہیر" سے ماخوذ تھی لیکن سکرین پلے لکھنے کا اعزاز ایم صادق کو حاصل ہوا تھا۔ مکالمے لالہ یعقوب نے لکھے تھے جنھوں نے اس فلم میں 'کھیڑے' کا اہم رول بھی کیا تھا۔ فلمی کہانی نویس کے طور پر سید عابد علی عابد کا نام ملتا ہے جنھوں نے فلم کے گیت بھی لکھے تھے۔ اس فلم کا یہ گیت تو اتنا مقبول ہوا تھا کہ لوگ اسے وارث شاہؒ کے کلام کا حصہ سمجھنے لگے تھے:
  • ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں ، مینوں لے چلے بابلا ، لے چلے۔۔"

فلم ہیررانجھا (1932) میں 'ہیر' اور 'رانجھا' کے مرکزی کردار انوری بیگم اور رفیق غزنوی نے کیے تھے جنھوں نے اس فلم کے گیت بھی گائے تھے۔ یہ دونوں فنکار عملی زندگی میں میاں بیوی تھے اور 80 کی دھائی کی معروف اداکار اور گلوکارہ سلمیٰ آغا کے نانی نانا بھی تھے۔ رفیق غزنوی ، اس فلم کے موسیقار بھی تھے اور ان کے معاون کے طور پر عظیم موسیقار ماسٹرغلام حیدر کا نام آتا ہے۔ پاکستان کے سینئر ترین اداکار ایم اسماعیل نے 'کیدو' کا کرادار کیا تھا۔ یہی کردار انھوں نے تین دھائیوں بعد فلم ہیرسیال (1965) میں بھی کیا تھا۔

2 مارچ 1911ء کو لاہور میں ایک تاجر فیملی میں پیدا ہونے والے "بابو" محمدصادق نے میٹرک کے بعد مختلف نوکریاں کیں۔ بیرون ملک ملازمت بھی کی۔ ہدایتکار اے آر کاردار کی فلم کمپنی 'پلے آرٹ فوٹو ٹیون کارپوریشن لاہور' میں بھی ایک کلرک کی حیثیت سے بھرتی ہوئے اور مختلف شعبوں میں اپنی کارکردگی کی بنا پر ان کے شاگرد خاص بن گئے تھے۔ لاہور میں بننے والی پہلی پنجابی اور پہلی بولتی فلم ہیررانجھا (1932) کے بعد کلکتہ اور بمبئی کی مختلف فلموں میں ہدایتکاری کے علاوہ کہانی نویسی اور دیگر فلمی سرگرمیوں میں بھی ان کی معاونت کیا کرتے رہے تھے۔

اس دور میں ایک فلم کی پوری ٹیم ، کسی فلم کمپنی کی ملازم ہوتی تھی اور ماہانہ تنخواہ لیتی تھی۔ کوئی فنکار بلا اجازت کسی دوسری فلم کمپنی کی کسی فلم میں کام نہیں کرسکتا تھا۔ ایم صادق کو اپنی پہلی فلم نمستے (1943) کے لیے بھی اپنے استاد اے آر کاردار کا پورا تعاون حاصل تھا اور ان کی اجازت سے سبھی فنکاروں نے ان کی فلم میں کام بھی کیا تھا جو ان فلموں کے ٹائٹل پر بھی لکھا جاتا تھا۔ ان کی اس پہلی فلم میں ہمارے عظیم اداکار علاؤالدین نے بھی کام کیا تھا جو بمبئی ، گلوکار بننے گئے تھے لیکن اداکار بن گئے تھے۔

ایم صادق کی سپرہٹ فلم رتن (1944)

ہدایتکار ایم صادق کو بریک تھرو فلم رتن (1944) سے ملا تھا جس نے انھیں چوٹی کا ہدایتکار بنا دیا تھا۔ آر اے کاردار کے سرمائے سے بننے والی یہ اپنے وقت کی ایک بلاک باسٹر فلم تھی۔ اس فلم کی ہیروئن ، سورن لتا تھی جو پاکستان کی پہلی سپرہٹ نغماتی فلم پھیرے (1949) کی ہیروئن بھی تھی۔ یہی فلم بھارت کے چوٹی کے موسیقار نوشاد علی کی پہلی بڑی نغماتی فلم تھی جس میں دینا ناتھ مدھوک کے لکھے ہوئے اور زہرہ بائی انبالے والی ، امیربائی کرناٹکی اور کرن دیوان کے گائے ہوئے گیتوں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ فلم پر لاگت 75 ہزار روپے آئی تھی لیکن صرف پہلے ہی سال گیتوں کی رائلٹی سے تین لاکھ روپوں سے زائد مل گئے تھے جو اس دور کی بہت بڑی رقم تھی۔

تقسیم کے بعد ایم صادق نے اپنے استاد اے آر کاردار کی طرح بھارت ہی میں رہنا پسند کیا تھا۔ متعدد ناکام فلموں کے بعد ان کی پہلی بڑی فلم 14ویں کا چاند (1960) تھی جس میں محمدرفیع کے یادگار گیتوں میں سے یہ شاہکار گیت بھی تھا "14ویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو ، جو بھی ہو تم خدا کی قسم ، لاجواب ہو۔۔" ایم صادق کی ایک اور فلم تاج محل (1963) میں بھی محمدرفیع اور لتا منگیشکر کا یہ سپرہٹ دوگانا یادگار تھا "جو وعدہ کیا ہے ، نبھانا پڑے گا۔۔" بھارت میں آخری فلم نورجہاں (1967) تھی جو وہاں تو ناکام رہی لیکن پاکستان میں بڑی کامیاب ہوئی تھی۔ 1980ء میں چند بھارتی فلموں کو نمائش کی اجازت دی گئی تھی جن میں یہ فلم بھی شامل تھی۔

ایم صادق کی اکلوتی پاکستانی فلم

زندگی کا بیشتر حصہ ہندوستان میں گزارنے کے بعد زندگی کے آخری ایام میں ہدایتکار ایم صادق نے پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ لاہور واپسی پر انھوں نے یہاں ایک فلم بہارو پھول برساؤ (1972) شروع کی جس کے فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف وہ خود تھے۔ لکھنو تہذیب کے پس منظر میں بنائی گئی یہ ایک اعلیٰ پائے کی رومانٹک اور نغماتی فلم تھی۔ رانی ، وحیدمراد اور اسلم پرویز ، مرکزی کردار تھے جبکہ منورظریف ، الیاس کاشمیری ، صاعقہ ، رخسانہ ، سنگیتا ، عباس نوشہ اور چنگیزی وغیرہ دیگر معاون اداکار تھے۔

موسیقار ناشاد نے شیون رضوی کے لکھے ہوئے گیتوں کو بڑی عمدہ دھنوں سے سجایا تھا۔ ملکہ ترنم نورجہاں کے دونوں گیتوں "یہ گھر میرا گلشن ہے ، گلشن کا خدا حافظ۔۔" اور "چندا رے چندا ، کچھ تو ہی بتا میرا افسانہ۔۔" کے علاوہ شوکت علی ، آئرن پروین اور تصورخانم کا یہ کورس گیت بھی بڑے کمال کا تھا "اے محبت ، تیرا جواب نہیں ہے۔۔" لیکن ان سبھی گیتوں پر مسعودرانا کا گایا ہوا گیت "میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا۔۔" بھاری ثابت ہوا تھا۔

بدقسمتی سے وہ ، اپنی اس فلم کو مکمل نہ کرسکے اور 3 اکتوبر 1971ء کو ساٹھ سال کی عمر میں انتقال کرگئے تھے۔ حسن طارق نے باقی کام مکمل کیا تھا اور ایم صادق کے انتقال کے قریباً ایک سال بعد 11 اگست 1972ء کو اس فلم کو ریلیز کیا گیا تھا۔

بہارو پھول برساؤ ، ایک کلاسک فلم

فلم بہارو پھول برساؤ (1972) ایک کلاسک فلم کا درجہ رکھتی ہے۔ اس فلم کا شمار ان فلموں میں ہوتا ہے کہ جو دوبارہ ریلیز کے بعد بھی کامیاب بزنس کرتی تھیں۔ 23 نومبر 1983ء کو اردو فلموں کے سپرسٹار اور اس فلم کے ہیرو وحیدمراد کے انتقال کے بعد ان کی یاد میں جتنی بھی فلمیں ریلیز ہوئی تھیں ، ان میں سے یہ سب سے کامیاب فلم ثابت ہوئی تھی۔ ان دنوں میں یہاں لائبریری میں بڑی باقاعدگی سے پاکستان سے آئے ہوئے روزنامہ نوائے وقت لاہور اور روزنامہ جنگ کراچی کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ فلموں کے اشتہارات سے بڑی گہری دلچسپی ہوتی تھی۔ اس فلم نے اس دور میں لاہور میں ایک ایسے وقت میں گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا تھا جب ہر طرف ایکشن پنجابی فلموں کا دور دورہ تھا۔

میں اکثر حیران ہوتا تھا کہ فلم بہارو پھول برساؤ (1972) میں ایسی کون سی خوبی تھی کہ جس نے اپنے دوسرے رن میں بھی اتنی بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ یاد رہے کہ کسی اردو فلم کا لاہور میں گولڈن جوبلی کرنا (اور وہ بھی دوسرے رن میں) ایک غیرمعمولی کامیابی تھی۔

فلمی پوسٹر تبدیل کیوں کیے جاتے تھے؟

فلم بہارو پھول برساؤ (1972) کے تینوں پوسٹرز ملاحظہ فرمائیں جو ایک پوری تاریخ اور ایک اٹل حقیقت بیان کررہے ہیں۔ پہلا پوسٹر اوریجنل ہے جس پر رانی اور وحیدمراد کی سہاگ رات کی بڑی دلکش منظرکشی کی گئی ہے۔ یہ ایک اعلیٰ پائے کا رومانٹک پوسٹر ہے جس میں رنگوں کی آمیزش بھی آنکھوں کو بھاتی ہے۔

فلم بہارو پھول برساؤ (1972) کے دوسرے دونوں پوسٹرز اوریجنل نہیں ہیں لیکن فلم کی تشہیر ہی کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ دوسرے پوسٹر میں درمیان میں منورظریف ہیں جبکہ ان کے ارد گرد رانی اور سنگیتا ہیں۔ وحیدمراد کی جو تصویر نظر آرہی ہے ، وہ سوشل میڈیا پر ان کے پرستاروں نے جڑ دی ہے ، اصل پوسٹر میں نہیں تھی حالانکہ فلم کے مرکزی ہیرو وحیدمراد ہی تھے۔ اس پوسٹر پر انھیں اس لیے غائب کردیا گیا تھا کیونکہ پنجاب سرکٹ میں ان کی مارکیٹ ویلیو نہیں تھی۔

تیسرے پوسٹر پر وحیدمراد اور رانی کے ساتھ منورظریف اور الیاس کاشمیری کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ یہ پوسٹر کراچی میں اس فلم کی دوبارہ نمائش کے لیے بنایا گیا تھا جہاں منورظریف کی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن وحیدمراد ، سپرسٹار تھے۔ یہ پوسٹر غالباً 90 کی دھائی میں بنا تھا۔

ماضی میں بھی پرانی فلمیں سینماؤں پر چلتی تھیں اور کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ ان کے اصل پوسٹرز نہیں ملتے تھے اور تقسیم کار کو نئے سرے سے عارضی طور پر نئے پوسٹرز چھپوانا پڑتے تھے۔ 80 کی دھائی میں پہلی بار پرانی فلموں کے اوریجنل پوسٹروں میں تبدیلیاں کر کے ان میں ان فنکاروں کو شامل کیا جانے لگا جو فی الوقت فلم بینوں میں زیادہ مقبول ہوتے تھے۔ مثلاً وحیدمراد ، اپنے عروج کے دور میں بلاشبہ مقبولیت کے سوا نیزے پر تھے لیکن 70 کی دھائی میں وہ اپنے ہی ایک گیت کی جیتی جاگتی تصویر بن چکے تھے "بھولی ہوئی ہوں داستان ، گزرا ہوا خیال ہوں۔۔" جبکہ منورظریف جتنے مقبول اپنی زندگی میں تھے ، اس سے کہیں زیادہ مقبول اپنی موت کے بعد بھی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی فلمیں جن میں ان کے ثانوی کردار ہوتے تھے ، ان کے فلم پوسٹروں پر انھیں نمایاں کرکے پیش کیا جاتا تھا اور وہ فلمیں زبردست بزنس کیا کرتی تھیں۔ فلم بہارو پھول برساؤ (1972) کے سلسلے میں یہی طریقہ استعمال کیا گیا تھا جو بے حد کامیاب رہا تھا۔

پرانی فلموں کے اصل پوسٹروں میں تبدیلی کا فارمولا حاجی عبدالرشید شیرا کی ایجاد ہے جو ایک فلم ڈسٹری بیوٹر تھے اور فلم بینوں کی نبض پر ہاتھ رکھتے تھے۔ وہ ، رائل پارک سے پرانی فلمیں کرائے پر لے کر پنجاب بھر کے مختلف سینماؤں میں ریلیز کیا کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کو فلمی اصطلاح میں "تھرڈ پارٹی" کہا جاتا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا منافع بخش کاروبار ہوتا تھا جس سے انھوں نے اپنی فلم کمپنی 'شیرا فلمز' بھی بنائی تھی اور کئی ایک کامیاب فلمیں بنائی تھیں جن میں فلم منڈا بگڑا جائے (1995) جیسی سپرہٹ فلم بھی شامل تھی۔ یہ واحد فلم ہے کہ جس نے لاہور اور کراچی میں بیک وقت ڈائمنڈ جوبلیاں منائی تھیں۔

فلم بہارو پھول برساؤ (1972) اور اس میں گائے ہوئے جناب مسعودرانا صاحب کے گیت "میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا۔۔" سے بڑی گہری یادیں وابستہ ہیں جنھیں موسیقار ناشاد کے مضمون میں تفصیل سے لکھا گیا ہے ، اس لیے دھرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ایم صادق کے مسعودرانا کی 1 فلموں میں 1 گیت

(1 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )
1

میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا ، مجھے اپنے رب سے آس کہ میرا پیار ملے گا..

فلم ... بہارو پھول برساؤ ... اردو ... (1972) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ناشاد ... شاعر: شیون رضوی ... اداکار: وحید مراد

Masood Rana & M. Sadiq: Latest Online film

Masood Rana & M. Sadiq: Film posters
Baharo Phool Barsao
Masood Rana & M. Sadiq:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & M. Sadiq:

Total 1 joint films

(1 Urdu, 0 Punjabi films)

1.1972: Baharo Phool Barsao
(Urdu)


Masood Rana & M. Sadiq: 1 songs in 1 films

(1 Urdu and 0 Punjabi songs)

1.
Urdu film
Baharo Phool Barsao
from Friday, 11 August 1972
Singer(s): Masood Rana, Music: Nashad, Poet: , Actor(s): Waheed Murad


Lori
Lori
(1966)
Durj
Durj
(2019)
Sheenogai
Sheenogai
(2021)
Neya Dour
Neya Dour
(1958)
Sheru
Sheru
(1973)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.