Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


خلیل قیصر

شہید (1962) اور فرنگی (1964)
جیسی شاہکار تاریخی فلموں کے ہدایتکار
خلیل قیصر کو قتل کردیا گیا تھا!
Khalil Kaiser
خلیل قیصر ، فلم کلرک (1960) میں

21 ستمبر 1966ء کو ڈکیتی کی ایک واردات میں نامور ہدایتکار خلیل قیصر کو قتل کر دیا گیا تھا۔ پاکستان کی فلمی تاریخ کا یہ سب سے پہلا اور بڑا قتل تھا جس سے ہماری فلم انڈسٹری ایک عظیم فنکار سے محروم ہو گئی تھی۔۔!

خلیل قیصر کا فلمی کیرئر

خلیل قیصر کے مختصر فلمی کیرئر میں ان کے کریڈٹ پر کل 14 فلمیں تھیں۔ دس فلموں کے ہدایتکار تھے جن میں سے دو فلموں کے فلمساز اور دو ہی فلموں میں اداکاری بھی کی تھی۔

انھوں نے فلمی کیرئر کا آغاز بطور مصنف ، ہدایتکار نذیر اجمیری کی فلم قسمت (1956) سے کیا تھا جو ایک کامیاب فلم تھی۔ دوسری فلم سردار (1957) کا منظرنامہ لکھنے کے علاوہ معاون ہدایتکار بھی تھے۔ فلم سلطنت (1960) میں بھی معاون ہدایتکار تھے۔ ان دونوں فلموں کے ہدایتکار ایم ایس ڈار تھے جن کے کریڈٹ پر پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم دلابھٹی (1956) تھی اور جو دو نامور ہدایتکاروں اسلم ڈار اور وحیدڈار کے والد گرامی بھی تھے۔

خلیل قیصر کی فلم ڈائریکٹر کے طور پر پہلی فلم فلمساز باری ملک کی پنجابی فلم یاربیلی (1959) تھی۔ وقت کی مقبول جوڑی مسرت نذیر اور سدھیر مرکزی کرداروں میں تھے۔ نیلو ، ظریف اور الیاس کاشمیری دیگر معاون فنکار تھے۔ خلیل قیصر کی یہ اکلوتی پنجابی فلم تھی۔

خلیل قیصر کے عروج کا دور

خلیل قیصر کی ہدایتکار کے طور پر پہلی بڑی فلم ناگن (1959) تھی جو سانپوں پر بننے والی شاید پہلی فلم تھی۔ فلمساز وزیرعلی نے اپنے چھوٹے بھائی رتن کمار کو پہلی بار مکمل ہیرو کے طور پر پیش کیا تھا۔

رتن کمار ، فلم بیداری (1957) میں اپنے بچپن کے کردار کی وجہ سے بڑے مقبول تھے لیکن جوان ہونے کے باوجود آواز بچگانہ ہی رہی جو ان کی کامیابی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ یہی وجہ تھی ڈیڑھ درجن فلموں میں کام کرنے کے باوجود ان کی واحد کامیاب فلم ناگن (1959) ہی تھی۔

یہی فلم اداکار نیلو کے لیے بریک تھرو ثابت ہوئی تھی اور وہ ایک سپرسٹار ہیروئن بن گئی تھی۔ یوسف خان نے اس فلم میں ولن کا کردار کیا تھا۔

موسیقار صفدرحسین نے قتیل شفائی کے لکھے ہوئے گیتوں کو سپرہٹ دھنوں سے مزین کیا تھا۔ فلم کے یہ گیت بڑے مقبول ہوئے تھے "امبوا کی ڈاریوں سے جھولنا جھلا جا۔۔" (اقبال بانو) ، سیاں جی کو ڈھونڈنے چلی ، پھروں میں گلی گلی جوگن بن کے۔۔" (ناہیدنیازی) ، "رُت رُت رنگ بدلتا میلہ۔۔" (سلیم رضا

ہدایتکار حسن طارق نے مصنف عزیز میرٹھی کی اس کہانی کو فلم ناگ اور ناگن (1976) کے نام سے ری میک کیا تھا۔ رانی اور وحیدمراد ، روایتی جوڑی تھے جبکہ فلمساز ، رتن کمار کی بیگم تھی۔ یہ فلم ناکام رہی تھی۔

خلیل قیصر بطور ہیرو

1960ء میں خلیل قیصر کی ایک انتہائی متاثرکن فلم کلرک ریلیز ہوئی تھی جس میں وہ پہلی اور آخری بار ہیرو آئے تھے۔ اس فلم میں انھوں نے بہت اچھی ادکاری کی تھی اور مسرت نذیر ان کی ہیروئن تھی۔ رتن کمار ، سائیڈ ہیرو تھے اور ان کے بڑے بھائی وزیرعلی ، فلمساز تھے۔ یونس راہی کی کہانی اور ریاض شاہد کے مکالمے تھے۔

یہ ایک نیم آرٹ فلم تھی جس میں ایک عام کلرک کی کہانی بیان کی گئی تھی جس کے لیے عملی زندگی میں روزانہ کے بنیادی اخراجات پورا کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسی بامقصد فلمیں ہمارے ہاں نہیں چلتی کیونکہ ہمارے زمینی حقائق ہمیشہ سے اسقدر تلخ رہے ہیں کہ جنھیں سلورسکرین پر دیکھنے کے لیے فلم بین تیار نہیں ہوتے۔

ایک عام آدمی فلم کو صرف تفریح کے طور پر لیتا تھا جہاں وہ کچھ دیر کے لیے حقائق سے راہ فرار اختیار کر سکے۔ اکثریت گلیمر ، ناچتی گاتی عورت ، مزاح اور لڑتے جھگڑتے مردوں کو دیکھنا پسند کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے برصغیر کی بیشتر فلموں کو غریب عوام کے لیے افیون یا لالی پاپ کہا جاتا تھا۔

فلم کلرک (1960) کی خاص بات یہ بھی تھی کہ نامور فلمی شاعر خواجہ پرویز نے بطور اداکار اس فلم میں ایک کامیڈی رول کیا تھا اور ان پر ساتھیوں سمیت سلیم رضا کا یہ دلچسپ کورس گیت فلمایا گیا تھا جسے قتیل شفائی نے لکھا تھا "گھر سے چٹھی آئی ہے ، بیمار ہے چھوٹا بھائی۔۔ باقی سب خیریت ہے۔۔" اس گیت کے ہر انترے میں کسی نہ کسی بری خبر کے بعد یہ دھرایا جاتا تھا کہ "باقی سب خیریت ہے۔۔"

موسیقار صفدرحسین نے اپنے فلمی کیرئر میں شاید پہلی اور آخری بار اس فلم میں دو گیت خود گائے تھے جن میں ناہیدنیازی کے ساتھ گایا ہوا اور احمدراہی کا لکھا ہوا یہ گیت بڑا خوبصورت تھا "سو جا ، سو جا ، درد بھرے دل ، اب تو سو جا۔۔" یہ گیت مسرت نذیر اور خلیل قیصر پر فلمایا گیا تھا۔ اس فلم کے علاوہ فلم جنگ آزادی (1968) میں بھی خلیل قیصر نے مہمان اداکار کے طور پر کام کیا تھا۔

خلیل قیصر کی یادگار فلم عجب خان (1961)

خلیل قیصر کی ایک یادگار فلم عجب خان (1961) تھی جو انگریز سرکار کے خلاف ایک حقیقی باغی کردار کے 95 برس کی عمرمیں 8 جنوری 1961ء کو انتقال کے تین ہفتوں بعد ریلیز ہوئی تھی۔

درہ آدم خیل کے آفریدی قبیلے سے تعلق رکھنے والے عجب خان کو شہرت اس وقت ملی جب اس نے اپنی ماں کی توہین کا بدلہ لینے کے لیے اپنے تین ساتھیوں سمیت 13 اپریل 1923ء کو کوہاٹ چھاؤنی پر حملہ کر کے برٹش فوج کے میجرایلس کی بیوی کو مار دیا تھا اور اس کی بیٹی مس مولی کو اغواء کر لیا تھا۔ چند دنوں بعد ایک پرامن معاہدے کے تحت مغویہ کی واپسی ہوئی تھی لیکن روایت ہے کہ وہ انگریز لڑکی ، عجب خان کی محبت میں گرفتار ہوگئی تھی۔

فلم میں یہ کردار سدھیر اور ایک انگریز اداکارہ مارگریٹ نے کیے تھے۔ طالش ، انگریز کے کردار میں تھے جبکہ حسنہ ، نذر اور ناصرہ دیگر اہم کردار تھے۔ یہ ایک اوسط درجہ کی فلم تھی جو بعد میں پشتو اور پنجابی میں بھی بنائی گئی تھی۔

خلیل قیصر کی شاہکار فلم شہید (1962)

Shaheed (1962)
فلم شہید (1962) میں صحرائے عرب میں تیل کی تلاش کو موضوع بنایا گیا تھا

خلیل قیصر کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم شہید (1962) تھی جس کے ہدایتکار ہونے کے علاوہ فلمساز بھی تھے۔ اس فلم سے انھوں نے اپنی فلم کمپنی 'کے کے پروڈکشنز' کا آغاز کیا تھا۔ ریاض شاہد کی کہانی ، مکالمے اور منظرنامہ تھا جو بڑے کمال کا تھا۔

یہ ایک بین الاقوامی میعار کی فلم تھی جو ایک تاریخ بھی تھی۔ آغا طالش نے ایک انگریز اجنبی کے کردار میں حقیقت کا رنگ بھر دیا تھا۔

صحرائے عرب میں تیل کی تلاش میں کیا کیا پاپڑ بیلے گئے ، کس طرح مفاد پرستوں اور آستین کے سانپوں کی مدد سے مقامی قبائل کو مغلوب کیا گیا اور جھوٹے پروپیگنڈے سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کیا گیا۔

مسرت نذیر نے ٹائٹل رول کیا تھا جو معاشرے کی ایک بدنام زمانہ طوائف ہے لیکن اپنے وطن کے لیے ایک خودکش حملے میں کامیابی سے شہید بن جاتی ہے۔ اس فلم کے دیگر اہم کردار اعجاز ، حسنہ ، علاؤالدین ، ہمالیہ والا ، ساقی اور دلجیت مرزا تھے۔

فلم شہید (1962) کی موسیقی بھی بڑے کمال کی تھی۔ موسیقار رشیدعطرے نے شاہکار گیت تخلیق کیے تھے۔

منیرنیازی کا لکھا ہوا اور نسیم بیگم کا گایا ہوا یہ گیت "اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو ، اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔۔" امرسنگیت میں شامل ہے۔

اس فلم کا یہ گیت تو ایک تاریخ ہے "نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کے جہاں۔۔" منیر حسین کی آواز میں فیض احمد فیض کے لکھے ہوئے اس گیت سے یہ مصرعہ سنسر ہوگیا تھا "چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔۔"

یہ ایوبی آمریت کا دور تھا ، پاکستان پر مارشل لاء کی لعنت مسلط تھی اور میڈیا پر پابندیاں بڑی سخت تھیں۔

اس فلم میں نسیم بیگم کے یہ دو گیت بھی بڑے مقبول تھے "نقاب جب اٹھایا ، شباب رنگ لایا ، حبیبی ، حییٰ حییٰ۔۔" اور "میری نظریں ہیں تلوار ، کس کا دل ہے روکے وار ، توبہ توبہ استغفار۔۔"

مندرجہ بالا دونوں گیت نگاروں کے علاوہ تنویر نقوی ، قتیل شفائی اور طفیل ہوشیارپوری نے بھی اس فلم کے گیت گائے تھے ، دیگر گلوکار زبیدہ خانم ، ناہیدنیازی اور احمدرشدی تھے۔

فلم شہید (1962) کو ہدایتکار حسن طارق نے وطن (1981) کے نام سے دوبارہ بنایا تھا لیکن یہ فلم کسی بھی شعبہ میں فلم شہید (1962) کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکی تھی۔ رانی ، شاہد ، محمدعلی اور ندیم اہم کردار تھے۔

خلیل قیصر کی اسی سال کی فلم دوشیزہ (1962) ایک اوسط درجہ کی رومانٹک فلم تھی۔ ریاض شاہد مصنف تھے جبکہ نیلو ، ٹائٹل رول میں تھی۔ اعجاز ، اسلم پرویز ، لہری ، اسدبخاری ، علاؤالدین وغیرہ اہم کردار تھے۔

مجھے تو اس افسانوی فلم کی بالکل سمجھ نہیں آئی تھی کہ کس طرح ایک مجسمہ ، جاندار ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی دوبارہ دیکھنے کا موقع ملا تو بہتر سمجھ آ سکے۔ ماسٹرعنایت حسین کی موسیقی واجبی سی تھی۔

خلیل قیصر کی واحد روایتی رومانٹک فلم حویلی (1964) تھی جس میں شمیم آرا اور سنتوش کی جوڑی تھی۔ خواجہ خورشیدانور کے ساتھ یہ ان کی اکلوتی فلم تھی جس کے کئی گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔

فلم کا سب سے مقبول گیت نسیم بیگم کا گایا ہوا تھا "میرا بچھڑا بلم گھر آگیا۔۔" میڈم نورجہاں کا سولو گیت "شکوہ نہیں کسی سے ، کسی سے گلہ نہیں۔۔" بھی پسند کیا گیا تھا۔ شادی و بیاہ کا ایک کورس گیت میڈم نورجہاں ، مالا اور سکھیوں کی آوازوں میں بھی بڑا مقبول ہوا تھا "جاکے سسرال گوری ، میکے کی لاج رکھنا۔" تنویرنقوی اور قتیل شفائی نے یہ گیت گائے تھے۔ یہ ایک ناکام فلم تھی۔

خلیل قیصر کی فلم فرنگی (1964)

K.K. Productions کی دوسری اور آخری فلم فرنگی (1964) تھی جس میں فلمساز اور ہدایتکار خلیل قیصر کا ساتھ ایک بار پھر ریاض شاہد کے ساتھ ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کمپنی کی دونوں فلمیں یعنی شہید (1962) اور فرنگی (1962) گولڈن جوبلی فلمیں تھیں جو اس دور میں بہت بڑی کامیابی ہوتی تھی۔

طالش نے فلم کا مرکزی کردار کیا تھا اور روایتی ہیرو سدھیر تھے جن کی دو ہیروئنیں تھیں ، شمیم آرا اور بہار جبکہ علاؤالدین اور مظہرشاہ معاون اداکار تھے۔

کیا انگریزوں سے آزادی جنگ و جدل سے حاصل کی گئی تھی؟

یہ فلم بھی جیسا کہ ہمارے ہاں روایت ہے ، انگریز سامراج کے خلاف نام نہاد جنگ آزادی کے بارے میں تھی۔ انگریزوں کے خلاف ہمارے ہاں جتنی بھی فلمیں بنائی گئی ہیں وہ بڑی مضحکہ خیز ہوتی تھیں اور تاریخ کو بری طرح سے مسخ کیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً فلم فرنگی (1964) کا اینڈ دیکھ کر عام آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ ہم نے آزادی جنگ و جدل سے حاصل کی ہے اور انگریزوں کو اپنی قوت بازو سے بھگایا تھا۔ ایسے لوگوں کو جب یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان ، جمہوری نظام کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے اور وؤٹ کی طاقت سے بنا تھا۔ اور یہ کہ اس کی آزادی کے لیے ایک گولی چلانے یا ایک قطرہ خون بہانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی تو یقین نہیں کرتے۔ اس موضوع پر ان شاء اللہ ، کبھی بڑی تفصیل سے بات ہوگی۔

فلم فرنگی (1964) کی موسیقی بڑی جاندار تھی۔ موسیقار رشیدعطرے نے ایک بار پھر اپنی عظمت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ نسیم بیگم کا گیت "آبھی جا دلدارا ، جب سے تو بچھڑا ہے مجھ سے ، دل ہے پارا پارا۔۔" ، مالا کا گیت "بن کے میرا پروانہ ، آئے گا اکبر خانا ، کہہ دوں گی دلبرجانا ، پہ خیر راغلے۔۔" اور میڈم نورجہاں کا کورس گیت "تیرے ذات ہے مظہرنورخدا ، ​بلغ العلےٰ بکمالہٖ ، کشفَ الدُجیٰ بجمالہٖ​ ، حسُنت جمیعُ خِصالہٖ​ ، صلو علیہ و آلہٖ​۔۔" بڑے مقبول گیت تھے لیکن ان سب پر حاوی شہنشاہ غزل خانصاحب مہدی حسن کی شاہکار غزل تھی "گلوں میں رنگ بھرے ، بادنوبہار چلے ، چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے۔۔"

فیض احمد فیض کی لکھی ہوئی یہ غزل فلمی غزل نہیں تھی بلکہ ریڈیو پر پہلے گائی جا چکی تھی جس کی دھن مہدی حسن نے خود بنائی تھی۔ اس غزل نے انھیں فلموں کی ضرورت بنا دیا تھا اور ستر کے عشرہ میں وہ اردو فلموں کے سب سے مقبول و مصروف گلوکار ہوتے تھے۔

خلیل قیصر اور مسعودرانا کا ساتھ

خلیل قیصر کی آخری دونوں فلمیں حکومت اور ماں باپ (1967) تھیں جو ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئیں اور دلچسپ اتفاق ہے کہ ان دونوں فلموں میں مسعودرانا کے گیت تھے۔ فلم حکومت (1967) کی کہانی مشہورزمانہ فلم دلابھٹی (1956) کی کہانی سے متاثر تھی۔ سدھیر ، رانی اور حبیب مرکزی کرداروں میں تھے۔ منظوراشرف کی دھن میں مسعودرانا کے دو اشعار رانی کے پس منظر میں گائے گئے تھے "یاری ہے کوئی کھیل نہیں ، ہر عہد نبھانا پڑتا ہے۔۔"

فلم ماں باپ (1967) ایک زبردست قسم کی معاشرتی فلم تھی جس پر پاکستان فلم میگزین کے سابقہ ورژن میں ایک تفصیلی تبصرہ لکھا جا چکا ہے۔

زیبا اور وحیدمراد کی روایتی جوڑی تھی لیکن فلم کی کہانی علاؤالدین اور طلعت صدیقی کے گرد گھومتی تھی جنھوں نے اس فلم کا ٹائٹل رول بھی کیا تھا۔ انھی کے پس منظر میں ایک انتہائی بامقصد گیتوں میں سے ایک تھیم سانگ ٹکڑوں کی صورت میں پوری فلم میں آتا ہے جو حالات حاضرہ کا عکس بھی پیش کرتا ہے۔

پاکستان میں جہاں تاریخی لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ ایک طرف مفاد پرست ، حرام خور اور سماج دشمن عناصر ، چینی ، آٹا ، پٹرول اور دوائیوں کی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے اربوں کما رہے ہیں تو دوسری طرف غریب لوگ محض ایک کلو چینی حاصل کرنے کے لیے کئی کئی گھنٹے لائنوں میں لگ کر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے ، ہمارے ملکوں میں ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اس صورتحال پر مسعودرانا کا یہ گیت کتنا صادق آتا ہے:

  • کوئی یہاں پر عیش منائے ، کوئی پھرے مجبور ، دیکھو ، دنیا کا دستور۔۔!

مسعودرانا کے خلیل قیصر کی 2 فلموں میں 2 گیت

(2 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )
1
فلم ... حکومت ... اردو ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: منظور اشرف ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: (پس پردہ ، رانی)
2
فلم ... ماں باپ ... اردو ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: قتیل شفائی ... اداکار: (پس پردہ، علاؤالدین ، ​​طلعت صدیقی)

Masood Rana & Khalil Kaiser: Latest Online film

Masood Rana & Khalil Kaiser: Film posters
HukumatMaa Baap
Masood Rana & Khalil Kaiser:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & Khalil Kaiser:

Total 2 joint films

(2 Urdu, 0 Punjabi films)

1.
05-05-1967:
Hukumat
(Urdu)
2.
22-09-1967:
Maa Baap
(Urdu)


Masood Rana & Khalil Kaiser: 2 songs in 2 films

(2 Urdu and 0 Punjabi songs)

1.
Urdu film
Hukumat
from Friday, 5 May 1967
Singer(s): Masood Rana, Music: Manzoor Ashraf, Poet: , Actor(s): (Playback - Rani)
2.
Urdu film
Maa Baap
from Friday, 22 September 1967
Singer(s): Masood Rana, Music: Tasadduq Hussain, Poet: , Actor(s): (Playback - Allauddin, Talat Siddiqi)


Aaina
Aaina
(1977)
Khushia
Khushia
(1973)
Ehsan
Ehsan
(1967)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.