A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
آغا جی اے گل ، پاکستان میں فلم انڈسٹری کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے۔ تین درجن سے زائد فلمیں بنانے والے فلمساز ادارے 'ایورنیو پکچرز' کے علاوہ جدید ترین نگارخانے ، 'ایورنیو سٹوڈیو' کے مالک بھی تھے۔۔!
ایک فلم ، فلمساز کی ملکیت ہوتی ہے کیونکہ وہ اس پر سرمایہ کاری کرتا ہے لیکن بیشتر فلمساز ، فنکار یا تخلیق کار نہیں ہوتے۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ فلمساز کے بغیر فنکار بھی کچھ نہیں کیونکہ اگر سرمایہ ہی نہ ہوگا تو فلم کیسے بنے گی اور فنکار کیسے اپنے فن کا مظاہرہ کر پائے گا۔۔؟
آغا جی اے گل نے کبھی کوئی فلم بطور ہدایتکار یا مصنف نہیں بنائی لیکن فلمساز کے طور پر دو درجن فلمیں بنانے کے باوجود انھیں عام طور پر ان کے فلم سٹوڈیو اور فلم کمپنی کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔
ان کے فلمساز ادارے 'ایورنیو پکچرز' کی پہلی فلم منُدری (1949) تھی جو پاکستان میں بننے والی دوسری پنجابی فلم تھی۔ اس رومانٹک اور نغماتی فلم کے ہدایتکار داؤد چاند تھے جو پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے ہدایتکار بھی تھے۔
فلم کی کہانی ظاہرمرزا کی تھی جن کی معاونت مرزا سلطان بیگ نے کی تھی جو ریڈیو پاکستان لاہور کے دیہاتی پروگرام 'جمہور دی آواز' کے مقبول ترین کردار 'نظام دین' کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انھوں نے اس فلم میں اداکاری بھی کی تھی۔
فلم کی ہیروئن راگنی تھی جبکہ الیاس کاشمیری پہلی اور آخری بار روایتی ہیرو کے طور پر نظر آئے تھے۔ زینت ، غلام محمد اور آغا سلیم رضا کے علاوہ تقسیم سے قبل کی فلموں کے چوٹی کے مزاحیہ اداکار نورمحمدچارلی نے اپنی پہلی پنجابی فلم میں کام کیا تھا۔
رتن سینما لاہور میں ریلیز ہونے والی اس فلم نے اوسط درجہ کا بزنس کیا تھا۔
فلم منُدری (1949) میں تنویرنقوی ، ایف ڈی شرف اور بابا چشتی کے لکھے ہوئے گیت تھے۔ اب اگر موسیقار بابا چشتی ہوں اور کوئی گیت دل کی گہرائیوں میں نہ اتر جائے ، بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔۔؟
منور سلطانہ اور اقبال بانو کے ان دلکش گیتوں کے علاوہ نورمحمدچارلی نے بھی ایک مزاحیہ گیت گایا تھا
آغا جی اے گل نے اپنی اگلی دونوں فلموں ، گمنام (1954) اور قاتل (1955) کے لیے سرمایہ کاری کی تھی جن کے ہدایتکار انور کمال پاشا تھے۔ یہ اس دور کی شاہکار فلمیں تھیں۔
آغا جی اے گل کے لیے ان کی چوتھی فلم دُلابھٹی (1956) دھن دولت کی برسات لائی تھی۔ پاکستان کی یہ پہلی بلاک باسٹر فلم ، پنجابی زبان میں بنائی گئی تھی۔
پاکستان کے پہلے دو عشروں میں زیادہ تر اردو فلمیں بنتی تھیں جو اصل میں بھارتی فلمی سرکٹ کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی تھیں۔ بھارت کے ساتھ فلموں کی تجارت کا یہ سلسلہ 1965ء کی جنگ تک چلا تھا۔ پاکستان میں اردو فلموں کا سرکٹ چند بڑے شہروں تک محدود ہوتا تھا اور عام طور پر صرف مڈل کلاس اور پڑھے لکھے لوگ ہی اردو فلمیں دیکھتے تھے۔ ملک بھر کے ساٹھ فیصد سینما گھر صرف صوبہ پنجاب میں ہوتے تھے جہاں زیادہ تر پنجابی فلمیں ہی چلتی تھیں جو ایک عام آدمی کے لیے تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پنجابی فلمیں گھاٹے کا سودا نہیں ہوتی تھیں۔
فلم دُلابھٹی (1956) کے ہدایتکار ایم ایس ڈار تھے اور سپروائزر کے طور پر انور کمال پاشا کا نام ملتا ہے۔ پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر نے ٹائٹل رول کیا تھا اور ہیروئن صبیحہ خانم تھی۔ علاؤالدین کے علاوہ آشا پوسلے ، آصف جاہ اور شیخ اقبال کی کامیڈی بڑے کمال کی تھی جو فلم کی کامیابی کی بڑی وجہ بھی تھی۔
اس فلم کا سپرہٹ گیت "واسطہ ای رب دا تو جائیں وے کبوترا ، چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچائیں وے کبوترا۔۔" ایک میگاہٹ سانگ تھا جو بابا جی اے چشتی کی ایک اور شاہکار دھن تھی۔ طفیل ہوشیارپوری کے لکھے ہوئے اس گیت کو منور سلطانہ نے گایا تھا اور صبیحہ خانم پر فلمایا گیا تھا۔
پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم دُلابھٹی (1956) نے ریکارڈ بزنس کیا تھا جس سے آغا جی اے گل کو ملتان روڈ لاہور پر پاکستان کا جدید ترین فلمی نگار خانہ 'ایورنیو سٹوڈیو' بنانے کا موقع مل گیا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد یہ پہلا نیا فلم سٹوڈیو تھا جو اب تک چل رہا ہے۔ عروج کے سنہرے دور میں بہتر سہولتوں کی بدولت بیشتر فلموں کی شوٹنگ اسی سٹوڈیو میں ہوتی تھی۔ اس نگار خانے میں چھ شوٹنگ فلور ، ایک ڈبنگ ہال ، دو سینما ہال ، دو جدید ریکارڈنگ ہال ، کمپوٹرائزد کلر لیبارٹری اور پچاس سے زائد فلمی دفاتر ہوتے تھے۔
آغا جی اے گل نے اپنا فلم سٹوڈیو بنانے سے قبل 1954ء میں مسلم ٹاؤن کے علاقے میں ایک پرانا 'پنچولی سٹوڈیو نمبر 2' کرائے پر لیا ہوا تھا جسے 'ایورنیو سٹوڈیو' کا نام دیا گیا تھا۔
فلم سٹوڈیوز کی بات چل نکلی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں نگار خانوں کی ایک مختصراً تاریخ بھی بیان کر دی جائے۔ تقسیم سے قبل بمبئی ، کلکتہ اور مدراس کے علاوہ لاہور میں بھی ہندی/اردو اور پنجابی فلمیں بنتی تھیں۔ لاہور میں کل آٹھ فلم سٹوڈیوز ہوتے تھے جن کے مالکان سبھی ہندو سیٹھ ہوتے تھے۔
تقسیم کے بعد ہونے والے فسادات میں کوئی ایک بھی فلم سٹوڈیو اپنی اصلی حالت میں نہیں بچا تھا۔ ان میں سے 'پردھان سٹوڈیو' ، 'ناردرن سٹوڈیو' اور 'امپریل سٹوڈیو' مکمل طور پر تباہ و برباد ہوگئے تھے۔ ان کا بچا کھچا سامان ہندو مالکان اپنے ساتھ بھارت لے گئے تھے۔ ان کے علاوہ جو پانچ فلم سٹوڈیوز کسی نہ کسی حالت میں باقی بچے ، ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
قیام پاکستان کے بعد قائم ہونے والے فلمی نگارخانوں کی فہرست کچھ اس طرح سے تھی:
لاہور کے ان نگار خانوں کے علاوہ کراچی میں بھی پانچ فلم سٹوڈیوز تھے جو 'ایسٹرن سٹوڈیو' ، 'ماڈرن سٹوڈیو' ، 'انٹرنیشنل سٹوڈیو' ، 'کراچی سٹوڈیو' اور 'نوویٹاس سنے لیبارٹری' کے نام سے ریکارڈز پر موجود ہیں۔
آغا جی اے گل ایک کامیاب بزنس مین تھے۔ انھیں یہ سہولت حاصل تھی کہ جس فلم پر سرمایہ کاری کرتے ، وہ ان کے اپنے فلم سٹوڈیو میں بنتی ، اس طرح اس کی پروڈکشن کاسٹ کم ہوتی۔ پھر فلم کی تقسیم کاری بھی اپنی فلم کمپنی 'ایورنیو پکچرز' کے تحت کرتے اور اس طرح ان کے منافع کا مارجن دیگر فلمسازوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا تھا۔
لیکن انھیں بعض اوقات خاصا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ مثلاً ان کی ایک فلم لخت جگر (1956) ، فلم حمیدہ (1956) کے ساتھ مقابلے کی فضا میں بنائی گئی تھی۔ ایک بھارتی فلم وچن (1955) کو کاپی کرنے کی دوڑ میں آغا صاحب کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ایسی ہی ایک ہزیمت انھیں اگلے سال ایک اور مقابلے میں اٹھانا پڑی تھی جب ایورنیو پکچرز کی فلم لیلیٰ مجنوں (1957) ، ایوریڈی پکچرز کی فلم عشق لیلیٰ (1957) کے مقابلے میں بری طرح سے پٹ گئی تھی۔
ان کی ایک اور کاپی فلم پائل کی جھنکار (1966) کو 'جھنکار' کے نام سے نمائش کی اجازت ملی تھی۔
بطور فلمساز ان کی دیگر یادگار فلموں میں نغمہ دل (1959) ، رانی خان (1960) ، عذرا ، قیدی (1962) ، موج میلہ ، اک تیرا سہارا (1963) ، ڈاچی (1964) ، نائلہ (1965) ، باغی سردار (1966) اور سلام محبت (1971) وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم دارا سکندر (1981) تھی۔
مسعودرانا کے ساتھ آغا جی اے گل کی پہلی فلم ڈاچی (1964) تھی جس میں لافانی گیت "ٹانگے والا خیر منگدا۔۔" نے مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے۔ فلم نائلہ (1965) میں مالا کے ساتھ مسعودرانا کا دوگانا "دور ویرانے میں ایک شمع ہے روشن کب سے۔۔" ایک اور شاہکار گیت تھا۔ فلم راوی پار (1967) میں اسی جوڑی کے یہ دو رومانٹک گیت دل کے تار چھیڑ دیتے ہیں "راوی پار وسے میرا پیار۔۔" اور "وے مڑ جا اڑیا ، میں نئیں اوں آنا تیری ہٹی۔۔" فلم چاچا بھتیجا (1981) میں مسعودرانا کا اداکارہ اور گلوکار تانی کے ساتھ گایا ہوا یہ دوگانا بھی بڑا دلچسپ تھا "بلے بلے ، نی چنبے دیے بند کلیئے۔۔"
آغا جی اے گل کے بیٹوں نے بھی 'ایورنیو پکچرز' کے تحت کئی فلمیں بنائی تھیں۔ 1913ء میں پشاور میں پیدا ہوئے اور 1983ء میں لاہور میں انتقال ہوا تھا۔
1 | فلم ... ڈاچی ... پنجابی ... (1964) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: سدھیر |
2 | فلم ... ڈاچی ... پنجابی ... (1964) ... گلوکار: مسعودرانا ، احمد رشدی ، رفیق ٹنگو ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: اے شاہ ، نذر ، رفیق ٹنگو |
3 | فلم ... نائیلہ ... اردو ... (1965) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عنایت حسین ... شاعر: حمایت علی شاعر ... اداکار: شمیم آرا ، سنتوش |
4 | فلم ... راوی پار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: نیلو ، حبیب |
5 | فلم ... راوی پار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: نیلو ، حبیب |
6 | فلم ... راوی پار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: احمد رشدی ، نسیم بیگم ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: رنگیلا ، رضیہ ، نذر |
7 | فلم ... چاچا بھتیجا ... پنجابی ... (1981) ... گلوکار: مسعود رانا ، تانی ... موسیقی: طافو ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: ننھا |
1. | 1964: Dachi(Punjabi) |
2. | 1965: Naela(Urdu) |
3. | 1967: Ravi Par(Punjabi) |
4. | 1981: Chacha Bhateeja(Punjabi) |
1. | Punjabi filmDachifrom Saturday, 15 February 1964Singer(s): Masood Rana, Ahmad Rushdi, Rafiq Tingu, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Nazar, A. Shah, Rafiq Tingu |
2. | Punjabi filmDachifrom Saturday, 15 February 1964Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Sudhir |
3. | Urdu filmNaelafrom Friday, 29 October 1965Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Master Inayat Hussain, Poet: , Actor(s): Shamim Ara, Santosh |
4. | Punjabi filmRavi Parfrom Friday, 9 June 1967Singer(s): Ahmad Rushdi, Naseem Begum, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Nazar, Rangeela, Razia |
5. | Punjabi filmRavi Parfrom Friday, 9 June 1967Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Neelo, Habib |
6. | Punjabi filmRavi Parfrom Friday, 9 June 1967Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Neelo, Habib |
7. | Punjabi filmChacha Bhateejafrom Sunday, 2 August 1981Singer(s): Masood Rana, Tani, Music: Tafu, Poet: , Actor(s): Nanha |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.