A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
مسعودرانا کے ساتھی فنکاروں کے سلسلے میں آج عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی باری ہے جنھوں نے پہلی بار فلم سرحد (1966) میں مسعودرانا سے ایک کورس گیت
گوایا تھا۔ یہ ان تین گیتوں میں سے پہلا گیت تھا جو خواجہ صاحب نے مسعودرانا کے لیے کمپوز کیا تھا۔ دوسرا گیت فلم ہیررانجھا (1970) میں تھا
اس گیت میں رانا صاحب نے گلے کا جو استعمال کیا تھا وہ بہت کم سننے میں آتا ہے۔ اس جوڑی کا تیسرا اور آخری گیت فلم شیریں فرہاد (1975) میں تھا
یہ ایک تھیم سانگ تھا۔
پاکستان فلم میگزین کے سابقہ ورژن پر خواجہ خورشید انور کے بارے میں ایک بڑا تحقیقی اور تفصیلی مضمون لکھا جا چکا ہے جسے دھرانے کا حوصلہ نہیں ہے۔ جب کبھی اس گرافک ورژن کی اوریجنل فائل دستیاب ہوگی تو اسے یونی کوڈ میں پیش کردوں گا تاکہ موبائیل پر بھی آسانی سے پڑھا جا سکے۔ یہاں چند دلچسپ حقائق پیش کیے جارہے ہیں۔
خواجہ خورشید انور نے پاکستان میں اپنے اٹھائیس سالہ فلمی کیریر میں کل 20 فلموں میں 161 گیتوں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ انھوں نے 17 اردو فلموں میں 132 اور 3 پنجابی فلموں میں 29 گیت کمپوز کیے تھے۔
پہلی فلم انتظار (1956) اور آخری فلم مرزاجٹ (1982) تھی۔ کل فلموں میں سے ایک فلم تان سین ، غیرریلیز شدہ تھی جبکہ فلم انسان (1977) میں انھوں نے صرف ایک گیت کمپوز کیا تھا۔ کل 19 ریلیز شدہ فلموں میں سے صرف 4 فلمیں کامیاب تھیں جن میں انتظار (1956) ، جھومر ، کوئل (1959) اور ہیررانجھا (1970) شامل تھیں جبکہ 3 فلمیں ایاز (1960) ، گھونگھٹ (1962) اور حیدرعلی (1978) اوسط درجے کی تھیں۔
ان کی 9 فلموں کے ڈائریکٹر مسعود پرویز تھے جبکہ تین فلموں کے ہدایتکار وہ خود تھے۔ وہ ، چھ چھ فلموں کے فلمساز اور کہانی نویس بھی تھے۔
خواجہ صاحب کے آدھے گیت صرف دو گلوکاراؤں نے گائے تھے۔ ان میں ملکہ ترنم نورجہاں نے 57 اور زبیدہ خانم نے 21 گیت گائے تھے۔ ان کے بعد دیگر گلوکاراؤں میں کوثرپروین 5 ، ناہیدنیازی 15 ، نجمہ نیازی 3 ، اقبال بانو 2 ، نسیم بیگم 9 ، مالا 9 ، آئرین پروین 6 ، تصور خانم 2 ، نیرہ نور 4 ، مہناز 10 اور ترنم ناز نے 5 گیت گائے تھے۔ نذیر بیگم ، رونالیلیٰ اور ناہیداختر سے انھوں نے کبھی کوئی گیت نہیں گوایا تھا۔
خواجہ خورشید انور زیادہ تر نسوانی آوازوں میں گیت ریکارڈ کرنا پسند کرتے تھے۔ ان کے مردانہ گیتوں کی کل تعداد تین درجن کے لگ بھگ ہے جس میں سے زیادہ تر مردانہ گیت مہدی حسن نے گائے تھے جن کی تعداد 12 تھی۔ ان کے بعد سلیم رضا 7 ، منیر حسین 5 اور مسعودرانا نے تین گیت گائے تھے جبکہ استاد فتح علی خان ، احمدرشدی ، مجیب عالم ، غلام علی ، رجب علی ، غلام عباس اور محمدصدیق نے ایک ایک گیت گایا تھا۔ انھوں نے عنایت حسین بھٹی ، شوکت علی ، اے نیر اور اخلاق احمد سے کبھی کوئی گیت نہیں گوایا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے اردو فلموں کے روایتی فلمی شاعروں یعنی فیاض ہاشمی ، مسرورانور اور تسلیم فاضلی اور پنجابی فلموں کے روایتی فلمی شاعروں حزیں قادری ، وارث لدھیانوی اور خواجہ پرویز کا لکھا ہوا کوئی گیت کبھی کمپوز نہیں کیا تھا۔ ان کے سب سے زیادہ گیت قتیل شفائی ، تنویرنقوی اور احمدراہی نے لکھے تھے۔
خواجہ صاحب کے فلمی گیتوں کے ایک طائرانہ جائزے میں یہ بھی نظر آتا ہے کہ ان کے گیتوں کی اکثریت رومانٹک گیتوں پر مشتمل تھی جن میں سے زیادہ تر سنجیدہ رومانٹک گیت تھے۔
انھوں نے کبھی کوئی روایتی فلمی قوالی یا دھمال کمپوز نہیں کی تھی۔ مزاحیہ یا اونچی سروں میں بھی کوئی گیت کمپوز نہیں کیا تھا۔ انھوں نے کوئی قومی نغمہ یا جنگی ترانہ بھی تخلیق نہیں کیا تھا حالانکہ دو تاریخی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ انھوں نے کبھی ایک خالص مردانہ دوگانا یا بھنگڑہ گیت بھی نہیں گوایا تھا۔
خواجہ صاحب واحد موسیقار تھے جنھوں نے ایک ہی کہانی یعنی مرزا صاحباں (1956) اور مرزاجٹ (1982) کی کہانیوں پر اردو اور پنجابی زبانوں میں الگ الگ گیت تخلیق کیے تھے۔
خواجہ خورشید انور ، 1912ء میں میانوالی میں ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ علامہ اقبالؒ ان کے خالو تھے۔ وہ فلاسفی میں ایم اے تھے اور سول سروس کا امتحان بھی پاس کیا تھا لیکن موسیقی کے شوق میں اس طرف نہیں گئے۔
پچپن سے برصغیر کے بڑے بڑے موسیقاروں کے فن تک رسائی تھی اور اپنے اسی شوق میں انھوں نے ان فنکاروں کے کلام کو اکٹھا کیا اور موسیقی کی ایک تاریخ مرتب کی تھی۔
خواجہ خورشید انور کی پہلی فلم بمبئی کی پنجابی فلم کڑمائی (1941) تھی جبکہ ممبئی میں درجن بھر فلموں کی موسیقی دینے کے بعد پاکستان واپس آئے تھے جہاں بیس فلموں کی موسیقی ترتیب دینے کے بعد 1984ء میں انتقال کیا تھا۔
1 | دیکھ دیکھ دیکھ ، تیری گلی میں آیا ہے کون..فلم ... سرحد ... اردو ... (1966) ... گلوکار: آئرن پروین ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: خواجہ خورشید انور ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: چھم چھم ، علاؤالدین ، اعجاز مع ساتھی |
2 | ربا ، ویکھ لیا تیرا میں جہاں ، کیویں سولاں وچ پھسدی اے جان..فلم ... ہیر رانجھا ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: خواجہ خورشید انور ... شاعر: احمد راہی ... اداکار: اعجاز |
3 | کس دور میں انصاف ہوا ہے اہل وفا سے..فلم ... شیریں فرہاد ... اردو ... (1975) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: خواجہ خورشید انور ... شاعر: قتیل شفائی ... اداکار: (پس پردہ ، تھیم سانگ ، زیبا ، محمد علی ) |
1 | دیکھ دیکھ دیکھ ، تیری گلی میں آیا ہے کون ...(فلم ... سرحد ... 1966) |
2 | کس دور میں انصاف ہوا ہے اہل وفا سے ...(فلم ... شیریں فرہاد ... 1975) |
1 | ربا ، ویکھ لیا تیرا میں جہاں ، کیویں سولاں وچ پھسدی اے جان ...(فلم ... ہیر رانجھا ... 1970) |
1 | ربا ، ویکھ لیا تیرا میں جہاں ، کیویں سولاں وچ پھسدی اے جان ...(فلم ... ہیر رانجھا ... 1970) |
2 | کس دور میں انصاف ہوا ہے اہل وفا سے ...(فلم ... شیریں فرہاد ... 1975) |
1 | دیکھ دیکھ دیکھ ، تیری گلی میں آیا ہے کون ... (فلم ... سرحد ... 1966) |
1. | 1966: Sarhad(Urdu) |
2. | 1970: Heer Ranjha(Punjabi) |
3. | 1975: Shirin Farhad(Urdu) |
1. | Urdu filmSarhadfrom Saturday, 2 April 1966Singer(s): Irene Parveen, Masood Rana & Co., Music: Khawaja Khursheed Anwar, Poet: , Actor(s): ChhamChham, Allauddin, Ejaz & Co. |
2. | Punjabi filmHeer Ranjhafrom Friday, 19 June 1970Singer(s): Masood Rana, Music: Khawaja Khursheed Anwar, Poet: , Actor(s): Ejaz |
3. | Urdu filmShirin Farhadfrom Friday, 9 May 1975Singer(s): Masood Rana, Music: Khawaja Khursheed Anwar, Poet: , Actor(s): (Playback, Zeba, Mohammad Ali) |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.