A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
ہدایتکار قدیرغوری ایک انتہائی قابل اور تجربہ کار فلم ڈائریکٹر تھے۔۔!
تقسیم سے قبل ممبئی میں معروف ہدایتکار اور مصنف منشی دل کے معاون تھے جو وہاں دو فلمیں ، دوبھائی اور ملاقات (1947) بنارہے تھے۔ پاکستان واپسی پر بھی ان کا ساتھ رہا اور فلم شمی (1950) ، حمیدہ (1956) ، عشق لیلیٰ (1957) اور حسرت (1958) وغیرہ میں اپنی فنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا۔
ہدایتکار قدیر غوری کو اصل مقبولیت ایک مشہور زمانہ امریکی فلم بھوانی جنکشن (Bhowani Junction - 1956)) سے ملی تھی۔ اس فلم کے ہدایتکار George Cukorکے فرسٹ اسسٹنٹ کے طور پر ان کی شاندار کارکردگی پر ہالی وڈ کے مذکورہ فلم ڈائریکٹر سے تعریفی سند بھی ملی تھی۔
یہ پہلی امریکی فلم تھی جس کی شوٹنگ پاکستان میں کی گئی تھی۔ اصل میں برطانوی راج کے ہندوستان پر لکھے ہوئے ایک ناول پر بنائی گئی اس فلم کی شوٹنگ بھارت میں ہونا تھی لیکن بھارتی حکومت نے سکرپٹ کی منظوری کے بغیر شوٹنگ کی اجازت نہیں دی تھی۔ پاکستان میں ایسے تکلفات نہیں ہوتے اور مقتدر حلقے امریکیوں کو خوش کرنے کے لیے اپنی بھر پور غلامانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے چلے آئے ہیں۔
مارچ سے مئی 1955ء تک کے دو مہینوں میں اس فلم کی شوٹنگ لاہور میں کی گئی تھی اور لاہور کے ریلوے سٹیشن کو ایک بھارتی ریلوے سٹیشن ، بھوانی جنکشن کا فرضی نام دیا گیاتھا۔ نہرو ٹوپی پہنے بے شمار ایکسٹرا اداکاروں نے لاہور کو کوئی بھارتی شہربنادیا تھا۔ یہاں تک کہ پاکستان کی فوج اور پولیس کے بے شمار جوانوں نے رضاکارانہ طور پر اس فلم میں کام کیا تھا۔ ایکسٹرا کرداروں میں نظر آنے والے نیلو اور ساقی بھی اسی فلم سے مشہور ہوئے تھے۔
اس دور کے لوگ ، اس فلم کی شوٹنگ اور ہیروئن Ava Gardnerکے حسن کے قصے بڑے مزے لے لے کر بیان کیا کرتے تھے۔ قدیر غوری کو اس فلم کے بعد ایک مستند فلم ڈائریکٹر تسلیم کرلیا گیا تھا۔
پاکستان کی فلمی تاریخ کی سب سے بہترین اداکارہ صبیحہ خانم نے جب بطور فلمساز اپنی پہلی فلم ناجی (1959) بنائی تو اس کے لیے قدیرغوری کو ہدایتکار کے طور پر منتخب کیا تھا۔
اصل میں یہ فلم ایک لازوال لو سٹوری میں ادلے بدلے کے طور پر بنائی گئی تھی۔
سنتوش کمار ، پچاس کی دھائی میں سدھیر کے بعد دوسرے سپرسٹار ہیرو تھے۔ انھوں نے جب بطور فلمساز اپنی پہلی فلم مکھڑا (1958) بنائی تو اس وقت تک فلم کی ہیروئن صبیحہ سے ان کا رومانس عروج پر تھا حالانکہ وہ شادی شدہ تھے۔
اس فلم کی زبردست کامیابی کے بعد ان دونوں نے یکم اکتوبر 1958ء کو شادی کرلی تھی۔ اس فلم کے بدلے میں صبیحہ خانم نے بھی بطور فلمساز اپنی پہلی فلم ناجی (1959) میں سنتوش کو ہیرو لیا تھا۔
یہ بھی ایک بڑی زبردست فلم تھی ۔ اس کی کہانی سلطان کھوسٹ نے لکھی تھی جو مشہور زمانہ ٹی وی سیریل ' اندھیرااجالا' فیم عرفان کھوسٹ کے والد تھے۔ مکالمے فلم کی جان تھے جو بابا عالم سیاہ پوش نے لکھے تھے۔
وارث لدھیانوی کے لکھے ہوئے اور موسیقار صفدرحسین کے کمپوز کیے ہوئے بیشتر گیت کانوں میں رس گھولتے ہیں ، خاص طور پر زبیدہ خانم کا یہ سپرہٹ گیت "میرا جیوے ڈھولا۔۔" بے حدمقبول ہواتھا۔ اس گیت کے دوران صبیحہ نے ایک پگلی کا زبردست رول کیاتھا۔ دیگر اداکاروں میں نذر ، اجمل اور ایم اسماعیل کی کارکردگی لاجواب تھی۔
اس فلم کے ٹائٹل پر صبیحہ کانام 'صبیحہ محمدعلی' لکھا ہوا تھا جو اصل میں اس کے باب کا نام تھا جو اپنے نام کے ساتھ پنجابی فوک گائیکی کی ایک صنف ' ماہیا' کا لاحقہ بھی استعمال کرتا تھا۔ اس موضوع پر ایک تفصیلی مضمون لکھا جاچکا ہے۔
قدیر غوری کی اگلی فلم دو راستے (1961) کسی کامیابی سے محروم رہی تھی لیکن اس فلم میں سلیم رضا کا یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا:
قدیرغوری کے کریڈٹ پر ایک بہت بڑی شاہکار فلم موسیقار (1962) تھی۔ اس نغماتی اور رومانوی فلم میں سٹائلش ہیرو ، سنتوش کمار نے ٹائٹل رول کیا تھا۔
موسیقار رشیدعطرے کی بطور فلمساز یہ اکلوتی فلم تھی۔ قدیرغوری بھی موسیقی کی خاصی شدبدھ رکھتے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ یہ ایک کلاسک فلم تخلیق ہوئی تھی۔
صبیحہ خانم پر پہلی بار ملکہ ترنم نورجہاں کے گائے ہوئے گیت فلمائے گئے تھے جن میں
کے علاوہ
وہ گیت تھا جس میں صبیحہ خانم نے رقص میں حجت تمام کردی تھی۔ مجھ جیسا شخص جسے زندگی میں کبھی ناچتی گاتی عورت کو دیکھنے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی ، وہ بھی اس رقص کو بڑی محویت سے دیکھتا ہے۔ صبیحہ کی کارکردگی اور ملکہ ترنم نورجہاں کی بےمثل گائیکی اس فلم کی جان تھی۔
قدیرغوری کے فلمی کیرئر کی ایک بہت بڑی اور بامقصد سپرہٹ فلم دامن (1963) بھی تھی۔
جوبلیوں سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یقیناً حیرت انگیز انکشاف ہوگا کہ صبیحہ اور سنتوش کی کلاسک جوڑی کی یہ واحد گولڈن جوبلی فلم تھی جس نے اپنے مین تھیٹر پر سولو سلورجوبلی منائی تھی۔
اس اصلاحی فلم میں مشرقی روایات کی حامل صبیحہ کا مقابلہ مغرب کی آزاد تہذیب و معاشرت سے متاثر نیلو سے ہوتا ہے۔ صبیحہ کا تکیہ کلام "ان شاءاللہ۔۔" بڑا مقبول ہوا تھا اور اس پر فلمایا ہوا میڈم نورجہاں کایہ کلاسک گیت بڑا مقبول ہوا تھا:
وحیدمراد کی سیکنڈہیرو کے طور پر جوڑی نیلو کے ساتھ تھی۔
غوری صاحب کی اگلی دونوں فلمیں انسان (1966) اور جان آرزو (1968) کسی کامیابی سے محروم رہی تھیں۔
قدیرغوری کے کریڈٹ پر ایک بہت بڑی نغماتی فلم ناجو (1969) بھی تھی۔ اس رومانٹک پنجابی فلم میں احمدراہی کے لکھے ہوئے گیتوں کی ایم اشرف نے ایسی کمال کی دھنیں بنائی تھیں کہ بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ ملکہ ترنم نورجہاں کا گایا ہوا یہ گیت:
ایک شاہکار گیت تھا۔ میڈم کے دیگر دونوں گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے
مالا کے ساتھ مجیب عالم کا یہ گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا:
آئرین پروین اور احمدرشدی کا یہ مزاحیہ گیت بھی پسند کیا گیا تھا:
ان کے علاوہ اسی فلم میں مسعودرانا اور مالا کا یہ بھنگڑہ گیت بھی تھا:
غوری صاحب کی اگلی دونوں فلمیں مہمان (1969) اور سوہنے پھل پیار دے (1972) زیادہ کامیاب نہیں تھیں۔
ہدایتکار قدیرغوری کی آخری بڑی فلم غیرت تے قانون (1972) تھی۔ یوسف خان کے علاوہ شاہد نے ٹائٹل رول کیا تھا جن کی یہ پہلی سپرہٹ پنجابی فلم تھی۔
بابا چشتی کے فلمی کیرئر کی یہ آخری بڑی نغماتی فلم تھی جس میں رانی اور عالیہ پر فلمائے ہوئے ملکہ ترنم نورجہاں کے سبھی گیت بڑے مقبول ہوئے تھے۔:
اسی فلم میں مسعودرانا کی شوکت سلیم اور ساتھیوں کے ساتھ یہ قوالی فلم کی کہانی بیان کرتی تھی:
غوری صاحب کی آخری دونوں فلموں میں سے فلم دنیا گول ہے (1974) میں مہدی حسن کا یہ گیت
اور فلم نیکی بدی (1975) میں خانصاحب کا یہ سپرہٹ گیت تھا:
قدیرغوری ، 1924ء میں گجرات میں پیدا ہوئے اور 2008ء میں انتقال ہوا تھا۔
1 | فلم ... ناجو ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا مع ساتھی ... موسیقی: ایم اشرف ... شاعر: احمد راہی ... اداکار: اسد بخاری ، عالیہ ، اعجاز مع ساتھی |
2 | فلم ... غیرت تے قانون ... پنجابی ... (1972) ... گلوکار: مسعود رانا ، شوکت سلیم مع ساتھی ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: ؟ ... اداکار: امداد حسین مع ساتھی |
1. | 1969: Najo(Punjabi) |
2. | 1972: Ghairat Tay Qanoon(Punjabi) |
1. | Punjabi filmNajofrom Friday, 27 June 1969Singer(s): Masood Rana, Mala & Co., Music: M. Ashraf, Poet: , Actor(s): Asad Bukhari, Aliya, Ejaz & Co. |
2. | Punjabi filmGhairat Tay Qanoonfrom Friday, 30 June 1972Singer(s): Masood Rana, Shoukat Saleem & Co., Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Imdad Hussain & Co. |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.