as سلونی اور مسعودرانا
Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


سلونی

اداکارہ سلونی
اداکارہ سلونی
مسعودرانا کی پہلی ہیروئن تھی

اداکارہ سلونی ، مسعودرانا کی پہلی ہیروئن تھی۔۔!

عظیم گلوکار مسعودرانا ، اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر مقبولیت اور مصروفیت کے اس مقام تک جا پہنچے تھے کہ جہاں فلمسازوں اور ہدایتکاروں سے اپنے فلمی ہیرو بننے کی دیرینہ خواہش پوری کروانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ گلوکارہ مالا کے شوہر فلمساز عاشق بٹ نے انھیں یہ موقع فراہم کیا اور فلم دو مٹیاراں (1968) میں اداکارہ سلونی کے مقابل ہیرو کاسٹ کیا تھا۔

مسعودرانا بطور اداکار

فلم دو مٹیاراں (1968) میں مسعودرانا اور سلونی
مسعودرانا اور سلونی ، فلم دو مٹیاراں (1968)

فلم کی کہانی کے مطابق دونوں حسینائیں (دو مٹیاراں) ، فردوس اور سلونی ، فلم کے فرسٹ ہیرو حبیب پر فدا ہیں۔ دوسری طرف مسعودرانا ، ایک شرمیلا اور بزدل عاشق ، اپنی مالکن زمیندارنی سلونی سے خاموش اور یکطرفہ محبت کرتا ہے اور اس کی اداؤں پر اپنے رومانوی اشعار کے علاوہ اپنا یہ دلکش گیت بھی نچھاور کرتا ہے "دل چیر کلیجیوں پار گیاں ، دو نیویاں نظراں مار گیاں۔۔"

سلونی کو جب حبیب کی پسند کا پتہ چلتا ہے تو اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے لیکن اسے اپنے کامے 'صادقا' یا مسعودرانا کا یہ گیت حوصلہ اور سہارا دیتا ہے "ہن گل کر دلا ، پہلاں نئیں سیں من دا ، ویکھ لیا ای مزہ پیار کرن دا۔۔"

دو مٹیاراں  (1968)
فلم دو مٹیاراں (1968)

حال ہی میں یہ شاہکار گیت گلوکار آصف جاوید کو بڑی خوبصورتی سے گاتے ہوئے سنا اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے معروف گلوکار انوررفیع بڑی حیرت سے پوچھ رہے تھے کہ یہ گیت بھی مسعودرانا نے گایا تھا۔ اب اگر ایک پروفیشنل گلوکار مسعودرانا کے گیت سن کر حیرت میں پڑھ سکتا ہے تو مجھ جیسے اناڑی لوگ بھلا کس باغ کی مولی ہیں۔۔؟

فلم دومٹیاراں ، 10 مارچ 1968ء کو ریلیز ہوئی تھی اور بڑی اچھی فلم تھی۔ ہدایتکار وحیدڈار تھے جنھوں نے چالیس سے زائد فلمیں بنائیں اور شاید واحد ہدایتکار تھے کہ جنھوں نے کبھی کوئی اردو فلم نہیں بنائی تھی۔

فردوس ، حبیب ، سلونی ، مظہرشاہ ، اسدبخاری ، ایم اسماعیل ، سلمیٰ ممتاز ، منورظریف ، رنگیلا اور مسعودرانا اہم کردار تھے۔ منورظریف اور رنگیلا کی مزاحیہ اداکاری نے اس فلم کو چار چاند لگا دیے تھے ، باقی اداکار اپنے اپنے کرداروں میں خوب رہے۔

فلم کے مصنف حزیں قادری اور موسیقار وزیرافضل تھے۔ تمام نسوانی گیت مالا کی آواز میں تھے جن میں ایک دوگانے میں نسیم بیگم بھی شامل تھی لیکن صرف مسعودرانا کے گائے ہوئے دونوں گیت ہی مقبول ہوئے تھے۔

اس فلم میں مسعودرانا سے کئی اشعار بھی کہلوائے گئے تھے ، جنھیں اگر گوایا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔

فلم دومٹیاراں (1968) کے پہلے رن کے بزنس کی معلومات دستیاب نہیں لیکن 1986ء میں اس پرانی بلیک اینڈ وہائٹ فلم نے لاہور کے رٹز اور کوہ نور سینماؤں میں ایک ایسے دور میں سلورجوبلی منائی تھی جب ہر طرف ایکشن فلموں کا دور دورہ تھا ، یہ ایک غیرمعمولی کامیابی تھی۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور میں جب پہلے ہفتے کا اشتہار دیکھا تو اس پر مسعودرانا کی تصویر فریم میں لگا کر لکھا ہوا تھا کہ "عظیم گلوکار مسعودرانا کو اس فلم میں ہیرو کے طور پر دیکھیں۔۔"

مسعودرانا ، ایک ناکام اداکار

مسعودرانا کو جو کردار دیا گیا تھا اس میں ان کی اداکاری اچھی تھی لیکن بطور اداکار کامیاب نہیں ہوئے تھے۔

اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ انھیں اپنی ساری توجہ گلوکاری کی طرف مبذول کرنا چاہیئے تھی۔ انھوں نے اپنے اداکاری کے شوق میں جو وقفہ لیا یا دوسروں کو موقع دیا ، اس سے دوسرے گلوکاروں نے فائدہ اٹھایا جن میں ایک بڑا نام مہدی حسن کا تھا جو شہنشاہ غزل تو تھے لیکن فلمی گائیکی میں کسی طور بھی مسعودرانا کے پائے کے گلوکار نہیں تھے۔

ساٹھ کے عشرہ میں ان کے گیتوں کی تعداد بہت کم ہوتی تھی لیکن 1969ء میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ مہدی حسن کے اردو گیتوں کی تعداد مسعودرانا کے اردو گیتوں سے زیادہ ہوگئی تھی اور وہ احمدرشدی کے بعد اردو فلموں کے دوسرے مقبول ترین گلوکار بن گئے تھے۔

پاکستانی اردو اور پنجابی فلموں میں جس آل راؤنڈ کارکردگی کا مظاہرہ مسعودرانا نے کیا تھا ، پاکستان کا کوئی گلوکار کبھی وہاں تک نہیں پہنچ سکا لیکن وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کے جانے سے وقت رک جاتا ہے۔

مسعودرانا کو فلم دومٹیاراں (1968) کے بعد فلم شاہی فقیر (1970) میں بھی غزالہ کے مقابل سولو ہیرو کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا تھا لیکن ان کا نام بھی ناکام فلمی ہیروز کی صف میں شامل ہوتا ہے۔ مسعودرانا کو البتہ اپنے ہم عصر گلوکار احمدرشدی پر یہ برتری حاصل تھی وہ بھی اداکاری کا شوق رکھتے تھے اور کئی فلموں میں ایکسٹرا کے طور پر کام بھی کیا تھا لیکن کسی فلم میں ہیرو کے رول تک نہیں پہنچ پائے تھے بلکہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک فلم جھلک (1964) میں تو احمدرشدی پر سلیم رضا کا گایا ہوا ایک گیت بھی فلمایا گیا تھا۔

سلونی ، ایک کامیاب سیکنڈ ہیروئن

سلونی ، ساٹھ کے عشرہ کی ایک مقبول اداکارہ تھی۔ وہ فرسٹ ہیروئن کے طور پر تو کامیاب نہ ہو سکی تھی لیکن سائیڈ ہیروئن کے طور پر اس کے کریڈٹ پر کئی ایک بڑی بڑی فلمیں تھیں۔ فلم غدار (1964) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا۔ فلم پھنے خان (1965) کے سپرہٹ گیت "جیو ڈھولا۔۔" نے جہاں میڈم نورجہاں کو پنجابی فلموں میں پلے بیک سنگر کے طور پر بریک تھرو دیا تھا وہاں سلونی کو بھی پہچان ملی۔ سوال ، لوری (1966) ، دل دا جانی (1967) ، چن مکھناں ، باؤجی ، سجن پیارا (1968) ، وریام ، جندجان (1969) اور انورا (1970) جیسی بڑی بڑی فلموں سمیت کل 66 فلموں میں کام کیا تھا۔ سلونی کے فلمی کیرئر پر ایک تفصیلی مضمون پاکستان فلم میگزین کے سابقہ ورژن میں لکھا جا چکا ہے۔

سلونی کے لیے مسعودرانا کے گیت

باؤ جی (1968
فلم باؤجی (1968)

مسعودرانا کا سلونی کے ساتھ پہلا ساتھ فلم جانباز (1966) میں ہوا تھا۔ اس فلم کا ایک مزاحیہ گیت

  • تجھے تیری ماں کی قسم ، جان جاناں، کہیں بھاگ نہ جانا۔۔
  • نذر اور سلونی پر فلمایا گیا تھا۔ دوسری بار ان کا ساتھ فلم لٹ دا مال (1967) میں ہوا تھا اور یہ قوالی
  • عاشقاں دی ریت ایخو ، رہندے چپ کر کے۔۔

گانے والوں میں سلونی بھی شامل تھی۔

ان دونوں کا آخری ساتھ فلم شہنشاہ جہانگیر (1968) میں ہوا تھا جب

  • میرے محبوب تجھے پیار نبھانا ہوگا۔۔

جیسا ایک دلکش رومانٹک گیت سلونی اور اعجاز پر فلمایا گیا تھا۔

ان تین دوگانوں کے علاوہ مسعودرانا کے متعدد گیت بطور خاص سلونی کے لیے گائے گئے تھے جن میں سے دو گیتوں کا ذکر فلم دو مٹیاراں (1968) کے ضمن میں ہو چکا ہے۔ ان کے علاوہ فلم باؤجی (1968) میں اعجاز پر فلمایا ہوا مسعودرانا کا یہ سپرہٹ گیت

  • دل دیاں لگیاں جانیں نہ۔۔

بڑا یادگار تھا جس میں سلونی کا بے خودی کے عالم میں رقص ناقابل فراموش تھا۔

سلونی نے پاکستان کے سب سے بڑے نگار خانے باری سٹوڈیو کے مالک باری ملک سے شادی کی تھی اور 2010ء میں انتقال ہوا تھا۔

سلونی پر فلمائے ہوئے چند سپرہٹ گیت

سلونی پر متعدد سپرہٹ گیت فلمائے گئے تھے جن کی ایک فہرست یہاں پیش کی جارہی ہے:

مسعودرانا اور سلونی کے فلمی گیت

کل 3 گیت ... 2 اردو گیت ... 1 پنجابی گیت
1

تجھے تیری ماں کی قسم ، جان جاناں، کہیں بھاگ نہ جانا..

فلم ... جانباز ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: ظہور ناظم ... اداکار: نذر ، سلونی
2

عاشقاں دی ریت ایخو ، رہندے چپ کر کے..

فلم ... لٹ دا مال ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: شوکت علی ، مسعود رانا ، نسیم بیگم مع ساتھی ... موسیقی: سلیم اقبال ... شاعر: وارث لدھیانوی ... اداکار: امداد حسین ، سلونی مع ساتھی
3

میرے محبوب تجھے پیار نبھانا ہوگا..

فلم ... شہنشاہ جہانگیر ... اردو ... (1968) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: کمال احمد ... شاعر: مشیر کاطمی ... اداکار: سلونی ، اعجاز

مسعودرانا اور سلونی کے 2 اردو گیت

1

تجھے تیری ماں کی قسم ، جان جاناں، کہیں بھاگ نہ جانا ...

(فلم ... جانباز ... 1966)
2

میرے محبوب تجھے پیار نبھانا ہوگا ...

(فلم ... شہنشاہ جہانگیر ... 1968)

مسعودرانا اور سلونی کے 1 پنجابی گیت

1

عاشقاں دی ریت ایخو ، رہندے چپ کر کے ...

(فلم ... لٹ دا مال ... 1967)

مسعودرانا اور سلونی کے 0سولو گیت


مسعودرانا اور سلونی کے 2دوگانے

1

تجھے تیری ماں کی قسم ، جان جاناں، کہیں بھاگ نہ جانا ...

(فلم ... جانباز ... 1966)
2

میرے محبوب تجھے پیار نبھانا ہوگا ...

(فلم ... شہنشاہ جہانگیر ... 1968)

مسعودرانا اور سلونی کے 1کورس گیت

1عاشقاں دی ریت ایخو ، رہندے چپ کر کے ... (فلم ... لٹ دا مال ... 1967)


Masood Rana & Saloni: Latest Online film

Masood Rana & Saloni: Film posters
Aisa Bhi Hota HayTasvirTaqdeerJanbazNadiraDil Da JaniHatim TaiLut Da MaalShehanshah-e-Jahangir2 MutiyaranMera BabulBau JiVeryamYeh Rastay Hayn Pyar KaySipah SalarAmeer Tay Gharib
Masood Rana & Saloni:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & Saloni:

Total 20 joint films

(10 Urdu and 10 Punjabi films)

1.1965: Aisa Bhi Hota Hay
(Urdu)
2.1966: Tasvir
(Urdu)
3.1966: Sarhad
(Urdu)
4.1966: Taqdeer
(Urdu)
5.1966: Janbaz
(Urdu)
6.1967: Nadira
(Urdu)
7.1967: Dil Da Jani
(Punjabi)
8.1967: Hatim Tai
(Urdu)
9.1967: Lut Da Maal
(Punjabi)
10.1968: Shehanshah-e-Jahangir
(Urdu)
11.1968: 2 Mutiyaran
(Punjabi)
12.1968: Badla
(Punjabi)
13.1968: Mera Babul
(Punjabi)
14.1968: Bau Ji
(Punjabi)
15.1968: Hameeda
(Punjabi)
16.1969: Veryam
(Punjabi)
17.1970: Yeh Rastay Hayn Pyar Kay
(Urdu)
18.1970: Matrei Maa
(Punjabi)
19.1972: Sipah Salar
(Urdu)
20.1978: Ameer Tay Gharib
(Punjabi)


Masood Rana & Saloni: 3 songs

(2 Urdu and 1 Punjabi songs)

1.
Urdu film
Janbaz
from Friday, 25 November 1966
Singer(s): Masood Rana, Irene Parveen, Music: G.A. Chishti, Poet: Zahoor Nazim, Actor(s): Nazar, Saloni
2.
Punjabi film
Lut Da Maal
from Friday, 26 May 1967
Singer(s): Shoukat Ali, Masood Rana, Naseem Begum & Co., Music: Saleem Iqbal, Poet: Waris Ludhyanvi, Actor(s): Imdad Hussain, Saloni & Co.
3.
Urdu film
Shehanshah-e-Jahangir
from Friday, 9 February 1968
Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Kemal Ahmad, Poet: Mushir Kazmi, Actor(s): Saloni, Ejaz


Aashiana
Aashiana
(1964)
Najo
Najo
(1969)
Raqqasa
Raqqasa
(2002)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.