وارث شاہؒ
اگر فردوس کو دیکھ لیتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے
کہ یہ جیتی جاگتی تصویر تو ان کے تصور سے بھی
کہیں زیادہ حسین و جمیل ہے
کلاسیکی پنجابی ادب کے لافانی کلام "ہیر وارث شاہ" کے مصنف اٹھارہویں صدی کے عظیم صوفی شاعر وارث شاہؒ اگر شاہکار رومانوی فلم ہیر رانجھا (1970) میں ہیر کا بے مثل کردار ادا کرنے والی اداکارہ فردوس کو دیکھ لیتے تو یقیناً بے ساختہ کہہ اٹھتے کہ یہ جیتی جاگتی تصویر تو ان کے تصور سے بھی کہیں زیادہ حسین و جمیل ہے۔
ہیر کے تصور میں حقیقت کا رنگ بھرنے والی عظیم فنکارہ
فردوس ، پنجابی فلموں کی ایک عہد ساز اور ناقابل فراموش اداکارہ تھی جس کا 16 دسمبر 2020ء کو مختصر علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔
فردوس کی سال بہ سال فلمی کارکردگی اور دیگر اہم ترین واقعات کا ایک مختصر مگر جامع خلاصہ پیش کیا جارہا ہے:
فردوس کی پہلی فلم
1961ء میں ریلیز ہونے والی فلم مفت بر میں فردوس نے مسرت نذیر کے ساتھ ایک کورس گیت میں ایکسٹرا کے طور پر کام کیا تھا لیکن
1963ء میں ہدایت کار نخشب کی اردو فلم فانوس ، فردوس کی پہلی فلم اس لیے شمار کی جاتی ہے کہ اس پر ایک کورس گیت "چاندی سے بڑھ کر گوری موری گوری رے ، چندا سے پیارا مورا بلما۔۔" فلمایا گیا تھا۔ گو اس کورس گیت میں اداکارہ چھم چھم کے علاوہ ایک نامعلوم اداکارہ کو زیادہ اہمیت دی گئی تھی لیکن چند ایک بار فردوس سکرین پر نمودار ہو کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔
فلم کے ٹائٹل پر فردوس کا نام نہیں تھا۔ اس دور کی متعدد فلمیں ایسی تھیں کہ جن میں وہ گمنام ایکسٹرا لڑکیوں میں سے ایک ہوتی تھی جو عام طور پر ہماری فلموں میں کورس گیتوں میں پس منظر میں نظر آتی ہیں۔ فردوس کا تعلق اس بازار سے تھا جو فلموں کے ناچ گانے کے مناظر کے لیے خام مال کی سپلائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتا تھا۔ ان میں جو زیادہ باصلاحیت ہوتی تھیں وہ بطور اداکارہ کے بھی نام کماتی تھیں جیسے کہ فردوس ، ممتاز ، بابرہ شریف یا انجمن وغیرہ بہت بڑی مثالیں تھیں۔
فردوس کا فلمی سفر
فردوس کی اپنے دوسرے سال میں چھ فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں تین اردو اور دو پنجابی فلمیں تھیں۔ اسی سال وہ ایک مکمل ہیروئن بن گئی تھی جب ایک بہت بڑے جوہر شناس ،
شباب کیرانوی نے اسے پنجابی فلم
ملنگ (1964) میں وقت کے مقبول ترین اداکار
علاؤالدین کے مقابل سولو ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا تھا۔
فردوس اور اکمل کا ساتھ
اسی سال اس کی دوسری فلم خاندان (1964) تھی جو ایک ملٹی کاسٹ فلم تھی۔ یہ پنجابی فلموں کے سپرسٹار اکمل کی واحد کامیاب اردو فلم تھی جس میں ان کے ساتھ دو اور بھاری بھر کم ہیرو حبیب اور محمدعلی بھی تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ تینوں ہیرو کم از کم چھ فٹے تھے جبکہ روایتی ہیروئن بہار تھی اور حنا ، نغمہ اور فردوس معاون اداکارائیں تھیں۔
فردوس کا حسن بے مثال
اسی سال کی اردو فلم مہ خانہ (1964) میں فردوس کے توبہ شکن حسن کو بڑے اہتمام کے ساتھ بڑے دیدہ زیب فلم پوسٹروں کی صورت میں نمایاں کیا گیا تھا حالانکہ فلم میں اس کا کردار زیادہ اہم نہیں تھا۔ ہدایتکار نخشب ، اپنا آبائی وطن ، بھارت چھوڑ کر پاکستانیوں کو فلم بنانے کا ہنر سکھانے آئے تھے لیکن اپنی دونوں فلموں کی ناکامی کے بعد گوشہ گمنامی میں گم ہو گئے تھے۔
فردوس اور اعجاز کا ساتھ
اس سال کی سب سے یادگار فلم لائی لگ (1964) تھی۔ وٹہ سٹہ کی شادی کے موضوع پر بنائی ہوئی یہ ایک اعلیٰ پائے کی پنجابی فلم تھی جس میں پہلی بار فردوس کی جوڑی اعجاز کے ساتھ بنی تھی۔ علاؤالدین نے ٹائٹل رول کیا تھا جو ولن ساون کے بہکاوے میں آکر اپنی اور اپنی بہن کی ازدواجی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ موسیقار ماسٹر عنایت حسین نے پہلی بار فوک گلوکار عالم لوہار سے ایک فلمی گیت گوایا تھا "اے دھرتی پنج دریاواں دی۔۔" اس سال فردوس کی دیگر دونوں اردو فلمیں غدار اور عورت کا پیار (1964) تھیں جن میں اس کی کارکردگی قابل ذکر نہیں تھی۔
فردوس کو بریک تھرو ملا
1965ء میں بھی فردوس کے حصے میں چھ فلمیں آئی تھیں جن میں دو اردو اور چار پنجابی فلمیں تھیں۔ پنجابی فلم ملنگی (1965) سب سے بڑی فلم تھی جس میں میڈم نورجہاں کے گائے ہوئے سپرہٹ گیت "ماہی سے سانوں بھل نہ جاویں۔۔" سے فردوس کو بریک تھرو ملا تھا۔ اس فلم کے بارے دیگر تفصیلات ان شاء اللہ ، اگلے مضمون میں ہوں گی۔
اردو فلم ناچے ناگن باجے بین میں فردوس پہلی بار محمدعلی کی ہیروئن بنی تھی۔ پنجابی فلم جھانجھر میں فردوس پہلی بار حبیب کے ساتھ ہیروئن آئی تھی۔ اس فلم میں حبیب اور رنگیلا کی نسوانی عادتیں بڑی معیوب سی لگتی تھیں۔
فردوس جب پہلی بار ہیر بنی
اس سال کی ایک یادگار پنجابی فلم ہیرسیال (1965) تھی جس میں پہلی بار فردوس کو ہیر کے روپ میں پیش کیا گیا تھا۔ اکمل ، رانجھا کے کردار میں بالکل ان فٹ تھے۔ ویسے فلم بری نہیں تھی ، موسیقی بھی اچھی تھی لیکن جب آپ نے فلم ہیررانجھا (1970) دیکھ لی ہو تو پھر برصغیر میں اس موضوع پر بننے والی کوئی اور فلم آپ کو متاثر نہیں کرے گی۔
1966ء میں فردوس کے حصے میں نو فلمیں آئی تھیں جن میں چار اردو اور پانچ پنجابی فلمیں تھیں لیکن کوئی ایک بھی فلم اہم نہیں تھی۔ پنجابی فلم ان پڑھ (1966) میں فردوس نے نیلو کے مقابل ثانوی کردار کیا تھا جس سے نیلو کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ پنجابی فلموں کی سبھی بڑی ہمعصر اداکاراؤں نے اس کے مقابل ثانوی کردار کیے تھے جن میں لیلیٰ ، شیریں ، رانی ، حسنہ ، زمرد ، سلونی ، عالیہ ، غزالہ ، نغمہ اور فردوس شامل تھیں۔ اسی فلم میں پہلی بار یوسف خان ، فردوس کے ہیرو بنے تھے جو اس وقت اپنی پہچان کے لیے مسلسل جدوجہد میں مصروف تھے۔
فردوس کے عروج کا دور
1967ء میں فردوس ایک مکمل ہیروئن بن چکی تھی اور اس کے عروج کا دور شروع ہو چکا تھا۔ اس سال اس کی دس فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں دو اردو فلمیں تھیں۔ فلم انسانیت (1967) میں فردوس نے ایک پگلی کا کردار کیا تھا اور اس پر مالا کا یہ خوبصورت گیت فلمایا گیا تھا "محبت میں سارا جہاں جل گیا ہے۔۔"
آٹھ پنجابی فلموں میں سے چھ فلمیں اکمل کے ساتھ تھیں جن میں چاچا جی اور اکبرا (1967) بہت بڑی فلمیں تھیں۔ اسی سال اکمل کا اچانک انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے بڑے بھائی اجمل کے مطابق فردوس سے ان کی شادی نہیں ہوئی تھی بلکہ صرف "دوستی" تھی۔ اکمل کے انتقال سے اعجاز اور حبیب کو پنجابی فلموں میں بڑی کامیابی ملی تھی جبکہ سدھیر پہلے ہی پنجابی فلموں کے مصروف ترین اداکار تھے۔
فردوس ، پنجابی فلموں کی سپرسٹار
اس سال کی سب سے یادگار فلم مرزاجٹ (1967) تھی۔ ہدایتکار مسعودرپرویز کی اس سپرہٹ نغماتی فلم میں فردوس کی جوڑی اعجاز کے ساتھ سپرہٹ ہوگئی تھی۔ خطہ پنجاب کی رومانوی داستان ' مرزا صاحباں ' پر جتنی بھی فلمیں بنی ہیں ، یہ ان میں سب سے اعلیٰ پائے کی فلم تھی۔ رشید عطرے کی موسیقی میں احمدراہی کے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے جن میں "نکے ہندیاں دا پیار۔۔" ، "نہ عشق نوں لیکاں لاویں۔۔" ، سنجے دل والے بوہے۔۔" ، "مٹیارو نی میرے ہان دیو۔۔" اور "اک کڑی نے سوہرے ٹرجانا۔۔" وغیرہ شامل تھے۔
1968ء کا سال فردوس کے انتہائی عروج کا سال تھا۔ اس سال اس کی کل 19 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں تین اردو فلمیں تھیں۔ فلم بیٹی بیٹا (1968) میں فردوس نے پہلی بار ینگ ٹو اولڈ رول کیا تھا۔ پنجابی فلم دومٹیاراں (1968) میں پہلی بار مسعودرانا کو سیکنڈ ہیرو کے طور پر اداکارہ سلونی کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ فلم یاردوست (1968) میں فردوس نے نغمہ کے مقابل ثانوی رول کیا تھا ، وہ اس فلم میں اکمل کی بہن اور محمدعلی کی محبوبہ کے رول میں تھی۔ اس سال کی فلم مراد بلوچ (1968) ایک اور رومانوی کہانی تھی۔ اس فلم کا میڈم نورجہاں کا گیت "ڈھول بلوچا ، موڑ مہاراں۔۔" بھی سپرہٹ ہوا تھا۔ پگڑی سنبھال جٹا (1968) میں "ربا ایدے نالوں موت سہالی۔۔" اور "چن چن سے سامنے آگیا۔۔" فلم باؤجی (1968) میں "باؤ جی میں ایک عرض کراں۔۔" ، "دل دیاں لگیاں جانے نہ۔۔" ، "پیار نالوں پیارے سجناں۔۔" سپرہٹ گیت تھے۔ فلم پنج دریا (1968) پہلی رنگین پنجابی فلم تھی جو اکمل کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کا یہ گیت سپرہٹ تھا "میرے سجرے ، پھلاں دے گجرے ، کنڈیاں دے وس پے گئے۔۔"
لال میری پت رکھیو بلا
1969ء میں فردوس کی کامیابیوں کا سفر جاری تھا جب اس کی ایک کیلنڈر ائر میں 17 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں اور دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ سبھی فلمیں پنجابی زبان میں تھیں۔ اس سال کی سب سے یادگار فلم دلاں دے سودے (1969) تھی جس کی دھمال "لال میری پت رکھیوبلا۔۔" نے مقبولیت کے تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ یہ دھمال ، فردوس پر مجرے کے انداز میں فلمائی گئی تھی جو انتہائی معیوب لگتا تھا۔ اسی دھمال کو فلم کی دوسری ہیروئن نغمہ پر بھی فلمایا گیا تھا۔ اس دور میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا تھا کہ پنجابی فلموں میں نغمہ اور فردوس میں زیادہ مقبول کون تھا۔
اس سال فردوس کی دیگر فلموں میں چن ویر ، ناجو ، شیراں دی جوڑی ، عشق نہ پچھے ذات ، شیراں دے پتر شیر ، جنڑمین اور جگو دیگر بڑی بڑی نغماتی فلمیں تھیں۔ اس سال کی اگر نغماتی فلموں کا احوال لکھا جائے تو ایک ضخیم کتاب درکار ہوگی۔
فردوس ، ہیر کے لافانی کردار میں
1970ء میں بھی فردوس کے حصہ میں 17 فلمیں آئی تھیں جو سبھی پنجابی فلمیں تھیں۔ ان میں ہیررانجھا (1970) جیسی شاہکار فلم بھی شامل تھی جو اب خود ایک تاریخ بن چکی ہے۔ اس فلم کا ذکر کسی اور مضمون میں ہوگا۔
اس سال کی ایک فلم محلے دار بھی تھی جس کے بارے میں ایک فلمی لکھاری جناب علی سفیان آفاقی کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ یہ فردوس کی پہلی فلم تھی اور یہ کبھی ریلیز نہیں ہوئی تھی۔ ہدایتکار بابا قلندر کی یہ فلم میری دیکھی ہوئی ہے۔ فردوس کی جوڑی یوسف خان کے ساتھ تھی لیکن دوسری جوڑی اسدبخاری کے ساتھ نبیلہ کی تھی جس پر میڈم کایہ سپرہٹ گیت فلمایا گیا تھا "سجن رس بہندے نیں ، خورے کی کہندے نیں۔۔" فلم کا تھیم سانگ مسعودرانا کی آواز میں تھا "بے ادب نیں جہیڑے ماواں دے ، اوہ کدی نہ چڑھن جوانی۔۔" یہ گیت زاہد خان کے پس منظر میں گایا گیا تھا۔
فردوس کی فلم کا ریکارڈ
اسی سال کی فلم ماں پتر (1970) نے کراچی میں پلاٹینم جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا تھا جبکہ سجناں دور دیا (1970) ایک اور سپرہٹ فلم تھی جس کے بیشتر گیت گلی گلی گونجے تھے۔ فلم دنیا مطلب دی (1970) میں پہلی بار فردوس کی جوڑی کیفی کے ساتھ تھی۔ اسی سال اکمل کی آخری فلم بہادرکسان ریلیز ہوئی تھی لیکن 2016ء میں فلم سجراپیار اب تک کی آخری فلم ثابت ہوئی جس میں فردوس بھی تھی۔
فردوس کی فلم آنسو
1971ء میں فردوس کی کل 12 فلمیں منظرعام پر آئی تھیں۔ بے شمار فلموں کے بعد اس سال کی فلم آنسو ، فردوس کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی اردو فلم تھی جس میں اس نے ینگ ٹو اولڈ رول کیا تھا۔ یہ اداکار شاہد اور ممتاز کی ریلیز کے اعتبار سے پہلی پہلی فلم تھی۔ موسیقار نذیرعلی کی بھی پہلی بڑی اردو فلم تھی جس کے کئی گیت سپرہٹ ہوئے تھے جن میں مسعودرانا کا گیت "تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں۔۔" بازی لے گیا تھا۔
فردوس اور مسعودرانا ، بہن بھائی کے کرداروں میں
اسی سال کی فلم یاربادشاہ (1971) بھی ایک کامیاب فلم تھی۔ اس فلم میں مسعودرانا نے تیسری اور آخری بار اداکاری کی تھی اور فردوس کے بھائی کا رول کیا تھا۔ فلم عشق دیوانہ (1971) میں فردوس نے ایک بار پھر پگلی کا رول کیا تھا اور اس کی جوڑی پہلی بار عنایت حسین بھٹی کے ساتھ بنی تھی۔
فردوس اور نورجہاں کی چپقلش
اسی سال فردوس نے اعجاز کے ساتھ شادی کی تھی جس سے مشتعل ہو کر ملکہ ترنم نورجہاں نے اعلانیہ کہہ دیا تھا کہ ان کا گایا ہوا کوئی گیت فردوس پر نہیں فلمایا جائے گا ۔ کسی پنجابی فلم اور اس کی اداکاراؤں کی کامیابی میں ان پر فلمائے ہوئے گیتوں کا بڑا اہم کردار ہوتا تھا اور پنجابی فلمی گائیکی میں میڈم نورجہاں کی اجارہ داری کو چیلنج کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا تھا۔ فلم بینوں کو بڑا عجیب لگتا تھا کہ میڈم کی آواز فلم کی مرکزی ہیروئن فردوس کی بجائے دیگر اداکاراؤں پر فلمائی جارہی ہے۔ پنجابی فلمی گائیکی میں ملکہ ترنم نورجہاں اور مسعودرانا ، سٹینڈرڈ آوازیں بن چکی تھیں جن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
1972ء میں ایک بار پھر فردوس کی فلموں کی تعداد 19 تک جا پہنچی تھی جو سبھی پنجابی فلمیں تھیں۔ خون پسینہ ، ذیلدار ، ہیرا موتی اور پتر دا پیار کامیاب فلمیں تھیں۔ اسی سال کی فلم چنگاخون میں پہلی بار فردوس کی جوڑی اقبال حسن کے ساتھ بنی تھی۔ اس فلم کا پہلا نام ' غیرت نچدی وچ بازار' تھا جو سنسر ہوگیا تھا۔
فردوس کے عروج کا آخری سال
1973ء کا سال ، فردوس کی کامیابیوں کا آخری سال تھا جس میں اس کی کل 12 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ ان میں واحد اردو فلم سرحدکی گودمیں (1973) تھی جو فردوس کی محمدعلی کے ساتھ آخری فلم تھی۔ اس سال کی فردوس کی دو سپرہٹ فلمیں ضدی اور بنارسی ٹھگ تھیں جن میں اس کی جوڑیاں اعجاز کے ساتھ تھیں۔ اس سال کی فلم دکھ سجناں دے میں فردوس پر ملکہ ترنم نورجہاں کا آخری سپرہٹ گیت "سانوں نہر والے پل تے بلا کے۔۔" فلمایا گیا تھا۔
فردوس کے زوال کا دور
1974ء کا سال فردوس کے زوال کا سال تھا جب دس فلموں میں سے کوئی ایک بھی فلم کسی نمایاں کامیابی سے محروم رہی تھی۔ یہی حال 1975ء میں بھی تھا جب چاروں فلمیں ناکام ہوئی تھیں۔ 1976ء میں ریلیز ہونے والی فردوس کی بطور ہیروئن اکلوتی اور آخری فلم مان جوانی دا بھی ریلیز ہو کر ناکامی سے دوچار ہوئی تھی۔
فردوس کا فلمی کیرئر
اس طرح 1964ء سے 1976ء تک کے تیرہ سالہ فلمی کیرئر میں بطور ہیروئن فردوس نے ڈیڑھ سو کے قریب فلموں میں سالانہ دس فلموں کی اوسط سے کام کیا تھا۔ اپنے ابتدائی دور میں فردوس کی جوڑی اکمل کے ساتھ بڑی مقبول ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ ، سدھیر اور حبیب کے ساتھ بھی بڑی پسند کی گئی تھی لیکن اعجاز کے ساتھ اس کی جوڑی کو وہی مقام حاصل ہے جو پاکستان کی فلمی تاریخ میں صبیحہ سنتوش ، زیبا محمدعلی ، شبنم ندیم یا نغمہ حبیب کی جوڑیوں کو حاصل ہے۔
فردوس کی یادگار فلمیں
فردوس کی یادگار فلموں میں ملنگی (1965) ، چاچا جی ، اکبرا ، مرزا جٹ (1967) ، روٹی ، پگڑی سنبھال جٹا ، باؤ جی ، پنج دریا (1968) ، چن ویر ، عشق نہ پچھے ذات ، شیراں دے پتر شیر ، جنٹرمین (1969) ، سجناں دور دیا ، ماں پتر ، ہیر رانجھا ، دنیا مطلب دی (1970) ، آنسو ، یار بادشاہ ، عشق دیوانہ (1971) ، خون پسینہ ، ذیلدار ، ہیرا موتی ، پتر دا پیار (1972) ، ضدی ، بنارسی ٹھگ (1973) اور ماں دا لال (1974) شامل ہیں۔ فردوس کی بطور ہیروئن آخری فلم مان جوانی دا (1976) تھی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ کیریکٹرایکٹر رولز میں فلم سوہنی دھرتی (1979) میں نظر آئی تھی اور دو درجن فلموں میں ثانوی کردار کیے تھے۔ 1991ء کی پشتو فلم دا جنگل بادشاہ اس کی آخری فلم تھی لیکن 2016ء میں پچاس سال بعد ریلیز ہونے والی فلم سجرا پیار اس کی اب تک کی آخری فلم ہے۔
فردوس کے عشق
فردوس کی متعدد شادیاں اور عشق بھی مشہور ہوئے جن میں اکمل اور فلمساز شیخ نذیر حسین کے علاوہ اداکار اعجاز کا ذکر بھی ملتا ہے۔ فلمی کیرئر میں زوال اور اپنے نجی حالات کی وجہ سے ستر کے عشرہ میں فردوس ذہنی طور پر بڑی اپ سیٹ رہی تھی۔ اعجاز نے بھی چھوڑ دیا تھا اور وہ منشیات کا سہارا لیتی تھی۔ مجھے اس دور میں روزنامہ جنگ میں معروف شاعر ابن انشاء کا ایک کالم نہیں بھولتا جس کا عنوان تھا "پکڑاجانا فردوس اور شاہد کا قبرستان میں" شاہد صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ پختہ عمر کی خواتین کے لیے ایک خاص نرم گوشہ رکھتے تھے۔
اسی کے عشرہ میں یہ خبر بھی ملی تھی کہ محکمہ ٹیکس نے عدم ادائیگی کی بنیاد پر فردوس کی لاہور میں 'فردوس مارکیٹ ' کو ضبط کر لیا تھا۔ ایک طویل عرصہ گمنامی میں رہنے کے بعد اچانک 16 دسمبر 2020ء کو مختصر علالت کے بعد فردوس کا انتقال ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ، مرحومہ کی مغفرت کرے (آمین)۔
مسعودرانا اور فردوس
فردوس کی مسعودرانا کے ساتھ پہلی فلم جھانجھر (1965) تھی جس میں ایک بھنگڑہ گیت "کالی ڈانگ تیری سونے دے رنگ ورگی۔۔" فلمایا گیا تھا۔ مسعودرانا کے گائے ہوئے یادگار دوگانوں میں سے ایک مقبول ترین گیت "نکے ہندیاں دا پیار ، ویکھیں دیویں نہ وسار۔۔" فلم مرزا جٹ (1967) میں تھا جو آئرن پروین کے ساتھ گایا گیا تھا اور فلم میں فردوس اور اعجاز پر فلمایا گیا تھا۔ احمدراہی کے لکھے ہوئے اس شاہکار گیت کی دھن رشید عطرے نے بنائی تھی اور یہ گیت اسقدر مقبول ہوا تھا کہ ہدایتکار مسعود پرویز نے اپنی اگلی فلم نکے ہندیاں دا پیار (1969) اسی گیت کے پہلے مصرعہ پر بنائی تھی۔ مسعودرانا کے دو درجن کے قریب دوگانے فردوس کے لیے گائے گئے تھے۔ ان کے علاوہ مسعودرانا کے متعدد شاہکار رومانٹک گیت بھی بطور خاص فردوس کے لیے گائے گئے تھے جن میں مندرجہ ذیل گیت قابل ذکر ہیں:
- لوکو ، ایوں نئیں جے یار دا نظارا لبھدا ، دھکے در در کھا کے۔۔ (فلم ہیرسیال 1965)
- کلا بندہ ہووے پاویں کلا رکھ نی ، دوواں کلیاں نوں ہوندا بڑا دکھ نی۔۔ (فلم چاچا جی 1967)
- رب نے چن جیاں صورتاں بنا کے ، پیار بھرے دلاں دا خیال کنا رکھیا۔۔ (فلم اک سی ماں 1968)
- ہیریو تے مکھنو ، بہتے سارے سوہنیو ، دل وچ وسو میرے پیار دے پروہنیو۔۔ (فلم میرا بابل 1968)
- اکھیاں ملا کے نیویں پان والیو ، عاشقاں دا حوصلہ ودان والیو۔۔ (فلم جوانی مستانی 1968)
- بھل جان اے سب غم دنیا دے ، جنوں پیار کراں جے او نال ہووے۔۔ (فلم دلاں دے سودے 1969)
- تیرے ہتھ کی بے دردے آیا ، پھلاں جیا دل توڑ کے۔۔ (فلم شیراں دی جوڑی 1969)
- اپنا بنا کے ، دل لاکے ، نس جائیں نہ ، میرے ہانیا۔۔ (فلم جنٹرمین 1969)
- ٹانگہ بھریا سواریاں نال ، دل یارو خالی ہو گیا۔۔ (فلم وچھوڑا 1970)
- اسیں دل دیے یا جان پر اے دلدار نئیں۔۔ (فلم بہادر کسان 1970)
- ہائے نی ، کھڑی ہو کے گل سن جا ، تیرے مغر کسے نئیں آنا۔۔ (فلم ذیلدار 1972)
فردوس کی فلموں سے وابستہ چند یادیں
فلم لچھی (1969)
میں نے صرف سات سال کی عمر میں پہلی فلم
لچھی (1969) دیکھی تھی جس کا ٹائٹل رول
فردوس نے کیا تھا۔ اگلی دو فلموں ،
قول قرار اور
عشق نہ پچھے ذات (1969) کی ہیروئن بھی
فردوس ہی تھی۔ اپنے بچپن کے پہلے فلمی دور میں آخری فلم
وچھڑیا ساتھی (1973) میں بھی
فردوس ہی تھی۔ اس دور میں دیکھی ہوئی کل 97 فلموں میں سے 33 فلمیں صرف
فردوس کی تھیں جو سب سے زیادہ تھیں۔
قیصرسینما کھاریاں کی چند یادیں
مجھے یاد ہے کہ ہماری دکان پر کام کرنے والے شہر کے ایک نامی گرامی پینٹر استاد رشید (جو سائن بورڈز پر اپنا نام 'شیدا' لکھتے تھے) ، ہر ہفتے قیصر سینما کھاریاں کے بل بورڈ لکھا کرتے تھے۔ جمعہ کو فلم بدلتی تھی اور جمعرات کی رات سینما کے ایک کونے میں ان کا کمرہ ہوتا تھا جہاں وہ نئی ریلیز ہونے والی فلم کے بورڈ لکھتے تھے۔
فلم سردارا (1970)
اکثر جمعرات کی شام مجھے سینما ساتھ لے جاتے تھے۔ میں فلم کا پہلا شو دیکھتا اور اس دوران وہ اپنا لکھائی کا کام ختم کر لیتے تھے۔ متعدد بار مجھے ان کا انتظار کرنا پڑتا تھا کیونکہ وہ مجھے بحفاظت گھر پہنچا کر اپنے گھر جاتے تھے۔
ایک جمعرات میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ تیسری جماعت کا طالب علم تھا اور زندگی میں پہلی بار سینما کے جس بورڈ پر کچھ لکھنے کا تجربہ ہوا تھا وہ فلم سردارا (1970) کی کاسٹ کے دو نمایاں نام ، فردوس اور حبیب تھے۔
فلم کے ٹائٹل ، اشتہارات ، بل بورڈز ، پوسٹروں ، کیلنڈروں ، بک لیٹس اور سٹکرز وغیرہ پر اداکاروں کے نام لکھنے کا ایک مخصوص طریقہ ہوتا تھا جن میں سب سے پہلے فلم کی ہیروئن اور ہیرو کے نام لکھے جاتے تھے۔ اس کے بعد سائیڈ ہیروئن اور ہیرو کے نام لکھے جاتے تھے۔ اس کے بعد مزاحیہ اداکاروں اور معاون اداکاروں کے نام لکھے جاتے تھے۔ آخر میں فلم کے ولن یا ٹائٹل رول کرنے والے اداکار کا نام لکھا جاتا تھا۔ مجھے بچپن میں سینما کے بل بورڈز کے علاوہ سینما سلائیڈز لکھنے کا موقع بھی ملا تھا جن کا ذکر آگے ہوتا رہے گا۔
فردوس اور اعجاز کی لازوال فلم ہیر رانجھا (1970)
(1 اردو گیت ... 22 پنجابی گیت )