A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
اداکارہ حسنہ نے ایک چائلڈ سٹار کے طور پر فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ ثانوی اور مرکزی کرداروں ، ویمپ ، ڈانسر اور سائیڈ ہیروئن کے علاوہ متعدد فلموں میں مکمل ہیروئن بھی آئی۔ اپنے فلمی کیرئر کے آخر میں اس کی پہچان ایک گلیمرگرل کی تھی۔۔!
اداکارہ حسنہ کی پہلی فلم جان بہار (1958) تھی جس میں وہ ، مسرت نذیر اور سدھیر کی لاڈلی بیٹی بنی تھی۔
ہدایتکار شوکت حسین رضوی کی اس اردو فلم کی اصل ہیروئن تو ان کی بیگم ، اداکارہ اور گلوکارہ میڈم نورجہاں تھیں لیکن طلاق کی وجہ سے اس فلم سے الگ ہو گئی تھیں۔ اس فلم کی کہانی بھی کچھ ان دونوں کی ذاتی زندگی سے ملتی جلتی تھی۔
رشید عطرے کی موسیقی میں میڈم نورجہاں کے گائے ہوئے پانچ گیت اس فلم میں شامل تھے جو سبھی مسرت نذیر پر فلمائے گئے تھے۔
بڑا خوبصورت گیت تھا۔ اس فلم میں نسیم بیگم اور زاہدہ پروین کے گائے ہوئے ایک گیت
کے دوران نیلو محو رقص ہے۔ شائقین میں فلم کے ہدایتکار شوکت حسین رضوی بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے دائیں طرف فلم کے ہیرو اور پاکستان کے پہلے سپرسٹار سدھیر جبکہ بائیں جانب پاکستان کے دوسرے سپرسٹ سنتوش کمار بیٹھے ہوئے ہیں۔
یہ واحد موقع تھا جب پچاس کی دھائی کے یہ دونوں عظیم فلمی ہیروز ، سلورسکرین پر ایک ساتھ نظر آئے تھے ورنہ کوئی ایک فلم بھی ایسی ریلیز نہیں ہوسکی ، جس میں یہ دیوقامت فنکار ایک ساتھ نظر آئے ہوں۔ البتہ متعدد فلمیں ایسی بن رہی تھیں جن میں ان دونوں کو شامل کیا گیا تھا لیکن وہ فلمیں کبھی مکمل نہ ہوسکی تھیں۔ ایسی ہی فلموں میں ایک ہدایتکار جعفر بخاری کی پنجابی فلم 'صابرخان' بھی تھی جس میں سدھیر ، فردوس کے ساتھ مرکزی کرداروں میں تھے جبکہ صبیحہ اور سنتوش ، ثانوی کرداروں میں تھے۔
اپنی پہلی فلم کی ریلیز کے بعد آدھ درجن فلموں میں حسنہ کو معاون اداکارہ کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ فرسٹ ہیروئن کے طور پر حسنہ کی پہلی فلم رانی خان (1960) تھی جس کے ہیرو اکمل تھے۔ یہ شاید واحد فلم تھی جس میں ہیرو اور ہیروئن نے جی بھر کر ایک دوسرے کو چٹکیاں بھریں یا "چُونڈیاں ماریں" تھیں۔
ملکہ ترنم نورجہاں نے پہلی بار کسی پنجابی فلم کے لیے باقاعدگی سے پلے بیک دیا تھا اور پہلا گیت تھا
بابا چشتی کی دھن میں میڈم کے اس فلم میں اس اکلوتے گیت کو حزیں قادری نے لکھا تھا اور یہ گیت حسنہ پر فلمایا گیا تھا۔
اس فلم کا ٹائٹل رول نذر نے کیا تھا لیکن کہانی ، رانی خان کے سالے یعنی ظریف اور اس کی بہن لیلیٰ کے گرد گھومتی ہے۔
اسی موضوع پر ظریف کا ایک مزاحیہ گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا
اس فلم کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ پنجابی فلموں کی سپرسٹار نغمہ پہلی بار ایک چھوٹے سے سین میں کچھ مکالمے بولتے ہوئے سلورسکرین پر نظر آئی تھی۔
حسنہ کی بطور ہیروئن پہلی اردو فلم ہدایتکار خلیل قیصر کی ایک یادگار فلم عجب خان (1961) تھی۔ اس فلم میں اس کی جوڑی سدھیر کے ساتھ تھی جن کے ساتھ اپنی پہلی فلم میں بیٹی بنی تھی۔
یہ فلم ایک سچے واقعہ پر مبنی تھی۔ درہ آدم خیل کے آفریدی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان پٹھان ' عجب خان' کو اس وقت بڑی شہرت ملی جب اس نے اپنی ماں کی توہین کا بدلہ لینے کے لیے اپنے تین ساتھیوں سمیت 13 اپریل 1923ء کو کوہاٹ چھاؤنی پر حملہ کر کے برٹش فوج کے میجرایلس کی بیوی کو مار دیا تھا اور اس کی بیٹی مس مولی کو اغواء کر لیا تھا۔ چند دنوں بعد ایک پرامن معاہدے کے تحت مغویہ کی واپسی ہوئی تھی لیکن روایت ہے کہ اس دوران وہ انگریز لڑکی ، عجب خان کی محبت میں گرفتار ہوگئی تھی۔
فلم میں یہ کردار سدھیر اور ایک انگریز اداکارہ مارگریٹ نے کیے تھے۔ طالش ، انگریز کے کردار میں تھے جبکہ حسنہ ، نذر اور ناصرہ وغیرہ ، دیگر اہم کردار تھے۔ یہ ایک اوسط درجہ کی فلم تھی جو بعد میں پشتو اور پنجابی میں بھی بنائی گئی تھی۔
اسی سال ہدایتکار رحیم گل کی فلم ہابو (1961) شاید پاکستان کی پہلی جنگل فلم تھی جس میں حسنہ کی جوڑی حبیب کے ساتھ تھی۔ فلم جادوگر (1961) میں نسیم بیگم کا یہ گیت بھی حسنہ پر فلمایا گیا تھا
حسنہ کی یادگار فلموں میں ہدایتکار خلیل قیصر کی تاریخی فلم شہید (1962) بھی تھی جس میں اس کی جوڑی اعجاز کے ساتھ تھی۔ ہدایتکار منوررشید کی تاریخی فلم الہلال (1966) میں حسنہ ، درپن کے مقابل سولو ہیروئن تھی اور یہ کامیاب فلم عباسی خلیفہ المعتصم (42-833ء) کے بارے میں ایک افسانوی کہانی تھی۔ ہدایتکار مسعود پرویز کی فلم سرحد (1966) میں حسنہ کے لیے مالا کا گایا ہوا پشتو دھن میں یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا
خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں تنویرنقوی کے بول تھے۔
ہدایتکار منوررشید کی کامیاب فلم کون کسی کا (1966) میں حسنہ کی جوڑی کمال کے ساتھ تھی اور اس فلم میں مسعودرانا اور نسیم بیگم کا یہ یادگار دوگانا تھا
اس فلم میں حسنہ نے پینٹ شرٹ میں ایک ٹام بوائے یا ماہی منڈا ٹائپ رول کیا تھا۔
ہدایتکار حسن طارق کی فلم تقدیر (1966) میں حسنہ کی جوڑی سنتوش کے ساتھ تھی۔ اس فلم میں دیبو کی موسیقی میں مسعودرانا کے بھاری بھر کم گیت سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ کیوں انھیں اپنے عہد کے سبھی فلمی گلوکاروں پر برتری حاصل ہوتی تھی اور کیوں ناقدین انھیں "پاکستانی رفیع" کہتے تھے۔
فلم ماں بہو اور بیٹا (1966) میں بھی حسنہ ، سنتوش کے مقابل فرسٹ ہیروئن تھی اور یقیناً اس پر میڈم کا یہ سپرہٹ گیت فلمایا گیا ہوگا
فلم گناہ گار (1967) میں حسنہ پر مالا کا یہ خوبصورت گیت فلمایا گیا تھا
ہدایتکار یونس راہی کی فلم عصمت (1968) میں حسنہ کو زیبا کے مقابل فرسٹ ہیروئن کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور اس کی جوڑی اعجاز کے ساتھ تھی۔ اس فلم میں نسیم بیگم کا گایا ہوا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا
اسی سال حسن طارق کی فلم بہن بھائی (1968) ایک ملٹی کاسٹ فلم تھی جس میں حسنہ کی جوڑی کمال کے ساتھ تھی۔ ان دونوں پر آئرن پروین اور احمدرشدی کا گایا ہوا یہ سپرہٹ مزاحیہ گیت فلمایا گیا تھا
اے حمید کی موسیقی تھی اور فیاض ہاشمی کے بول تھے۔
حسنہ کے فلمی کیرئر کی ایک یادگار فلم نیلا پربت (1968) بھی تھی جس میں اس کے ہیرو محمدعلی تھے۔
یہ ناکام فلم صرف اس لیے قابل ذکر ہے کہ اس کے فلمساز اور ہدایتکار احمدبشیر تھے جن کی سب سے بڑی پہچان تو ان کا فنکار گھرانہ اور ان کی اداکارہ بیٹی ، بشریٰ انصاری ہے لیکن خود وہ بھی ایک نامور صحافی ، ناول نگار اور افسانہ نگار تھے۔ ان کا شمار ترقّی پسند مصنّفین میں ہوتا تھا اور یہ فلم بھی کچھ ایسی ہی سوچ کی عکاسی کرتی تھی۔
اس فلم کی کہانی ، مکالمے اور منظرنامہ ، ان کے دیرینہ ساتھی اور ایک اور بہت بڑے ادبی نام ممتاز مفتی کا لکھا ہوا تھا جبکہ فلمی گیت لکھنے والوں میں پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کے علاوہ ممتاز شاعر ابن انشاء اور ظہورنذر جیسے نامی گرامی لوگ شامل تھے۔
ایک کلاسیکل موسیقار پیارنگ قادر کی دھنوں میں ملکہ ترنم نورجہاں اور ملکہ موسیقی روشن آرابیگم سمیت کسی بھی گلوکار کا گایا ہوا کوئی ایک بھی گیت مقبول نہ ہوسکا تھا۔
اسی سال حسنہ نے کئی برسوں بعد دو پنجابی فلموںمیں کام کیا تھا۔ شباب کیرانوی کے بڑے بیٹے ظفرشباب کی فلم کوچوان (1969) میں حسنہ کی جوڑی عنایت حسین بھٹی کے ساتھ تھی۔ ان دونوں پر الگ الگ فلمایا ہوا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا
حسنہ کی سولو ہیروئن کے طور پر ہدایتکار کےخورشید کی پنجابی فلم یملا جٹ (1969) ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی۔ اس فلم کا یادگار ترین گیت تو اس کا تھیم سانگ تھا جو مسعودرانا کی لافانی آواز میں تھا
لیکن عوامی مقبولیت کے لحاظ سے رونالیلیٰ کا گایا ہوا یہ گیت فلم کی پہچان بنا
رونالیلیٰ نے اس پنجابی فلم کے آٹھ میں سے پانچ گیت گائے تھے اور موسیقار ایم اشرف نے حزیں قادری کے لکھے ہوئے گیتوں کی بڑی سریلی دھنیں بنائی تھیں۔
حسنہ پر ہی رونالیلیٰ کا یہ المیہ گیت بھی فلمایا تھا
حسنہ اور یوسف خان پر نسیم بیگم اور مسعودرانا کا یہ دلکش دوگانا بھی فلمایا گیا تھا
مسعودرانا کا میلے کاایک یادگار گیت
بھی حسنہ ہی کے لیے گایا گیا تھا۔
1970ء کی دھائی میں رنگین فلمیں بننا عام ہوگئی تھیں اور ایک بہت بڑی تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی تھی کہ حسنہ کو فلموں میں ثانوی کرداروں میں مغربی رنگ میں رنگی ہوئی ایک ماڈرن ، بے باک اور ایک شوخ و چنچل حسینہ کے روپ میں گلیمرگرل بنا کر پیش کیا جانے لگا تھا۔
فلم ہنی مون (1970) میں حسنہ اور کمال کے لیے مسعودرانا اور نسیمہ شاہین کا یہ شوخ گیت بڑا پسند کیا گیا تھا
فلم دوستی (1971) میں حسنہ نے مغربی تہذیب میں پیدا ہونے والی ایک ایسی لڑکی کا رول کیا تھا جسے اعجاز کی صورت میں ایک دیسی ساتھی پانے میں ناکامی ہوتی ہے۔ یہ پاکستان کی دوسری فلم تھی جس نے کراچی میں سو ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل کیاتھا۔
فلم سبق (1972) میں رونالیلیٰ کا یہ شوخ گیت
بھی حسنہ پر فلمایا گیاتھا۔ ایسا ہی ایک گیت فلم آرپار (1973) میں طاہرہ سید کا تھا
فلم آرزو (1975) میں ناہیداختر کا یہ گیت بھی حسنہ ہی کے لیے تھا
حسنہ پر آخری آخری جو گیت فلمایا گیا تھا وہ فلم ثریا بھوپالی (1976) میں رانی اور ساتھیوں کے ساتھ یہ دلچسپ کورس گیت تھا
ناہیداختر ، مہناز اور ساتھیوں کی آوازیں تھیں۔
دستیاب معلومات کے مطابق حسنہ نے دو دھائیوں کے فلمی کیرئر میں صرف پانچ درجن کے قریب فلموں میں کام کیا تھا ، بیشتر اردو فلمیں تھیں۔ دوتہائی فلموں میں معاون اداکارہ تھی اور بطور فرسٹ ہیروئن کامیابی نہیں ملی تھی۔
یہ کیسا دلچسپ اتفاق ہے کہ حسنہ نے زیادہ پنجابی فلموں میں کام نہیں کیا لیکن اس کی فرسٹ ہیروئن کے طور پر پہلی فلم ، ایک پنجابی فلم رانی خان (1960) تھی اور اس کی فرسٹ ہیروئن کے طور پر آخری فلم بھی ایک پنجابی فلم بازی جت لئی (1972) تھی جس میں اس پر فریدہ خانم کا یہ گیت فلمایا گیا تھا
حسنہ کی ریلیز کے اعتبار سے آخری فلم لہو دے رشتے (1980) تھی جو ایک بلیک اینڈ وہائٹ پنجابی فلم تھی جو کافی عرصہ سے رکی ہوئی تھی۔
حسنہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ امریکہ میں مقیم ہے۔
1 | لنگی بن کے پشوری ، پا کے کرتا لاہوری ،ویکھو منڈا میرے ہان دا مجاجاں کردا..فلم ... یملا جٹ ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: نسیم بیگم ، مسعود رانا ... موسیقی: ایم اشرف ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: حسنہ ، یوسف خان |
2 | ہوا کو کیوں نہ چوموں میں ، خوشی سے کیوں نہ جھوموں میں..فلم ... ہنی مون ... اردو ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ، نسیمہ شاہین ... موسیقی: دیبو ... شاعر: صہبا اختر ... اداکار: کمال ، حسنہ |
1 | ہوا کو کیوں نہ چوموں میں ، خوشی سے کیوں نہ جھوموں میں ...(فلم ... ہنی مون ... 1970) |
1 | لنگی بن کے پشوری ، پا کے کرتا لاہوری ،ویکھو منڈا میرے ہان دا مجاجاں کردا ...(فلم ... یملا جٹ ... 1969) |
1 | لنگی بن کے پشوری ، پا کے کرتا لاہوری ،ویکھو منڈا میرے ہان دا مجاجاں کردا ...(فلم ... یملا جٹ ... 1969) |
2 | ہوا کو کیوں نہ چوموں میں ، خوشی سے کیوں نہ جھوموں میں ...(فلم ... ہنی مون ... 1970) |
1. | 1965: Naela(Urdu) |
2. | 1966: Sarhad(Urdu) |
3. | 1966: Kon Kisi Ka(Urdu) |
4. | 1966: Taqdeer(Urdu) |
5. | 1966: Maa Bahu Aur Beta(Urdu) |
6. | 1968: Behan Bhai(Urdu) |
7. | 1969: Yamla Jatt(Punjabi) |
8. | 1970: Honeymoon(Urdu) |
9. | 1971: Rabb Rakha(Punjabi) |
10. | 1973: Tera Gham Rahay Salamat(Urdu) |
11. | 1973: Dharti Sheran Di(Punjabi) |
12. | 1975: Dilruba(Urdu) |
13. | 1976: Raja Jani(Urdu) |
14. | 1976: Zaroorat(Urdu) |
1. | Punjabi filmYamla Jattfrom Thursday, 11 December 1969Singer(s): Naseem Begum, Masood Rana, Music: M. Ashraf, Poet: Hazin Qadri, Actor(s): Husna, Yousuf Khan |
2. | Urdu filmHoneymoonfrom Friday, 6 February 1970Singer(s): Masood Rana, Naseema Shaheen, Music: Deebo, Poet: Sehba Akhtar, Actor(s): Kemal, Husna |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.