Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


علی بخش ظہور

علی بخش ظہور
کو پاکستانی فلموں کا پہلا گلوکار
ہونے کا اعزاز حاصل ہے
علی بخش ظہور ، پاکستانی فلموں کے پہلے میل سنگر تھے
گلوکار علی بخش ظہور

گلوکار علی بخش ظہور ، پاکستان کے پہلے فلمی گلوکار تھے۔۔!

قیام پاکستان سے قبل ، آل انڈیا ریڈیو لاہور پر اپنی گائیکی کا آغاز کیا جہاں کلاسیکل گیت ، غزلیں ، کافیاں اور لوک گیت وغیرہ گاتے تھے۔

تقسیم سے قبل لاہور ہی کی ایک غیر ریلیز شدہ فلم "مینا" میں ان کے گائے ہوئے متعدد گیتوں کا حوالہ ملتا ہے جن میں اقبال بیگم لائلپوری کے ساتھ یہ گیت بعد میں بھارت اور پاکستان میں بھی نقل ہوا "کس نام سے پکاروں ، کیا نام ہے تمہارا۔۔" جبکہ ایک سولو گیت "جا اے دل مجبور۔۔" بھی تھا۔ تنویر نقوی نے یہ دونوں گیت لکھے تھے۔

پاکستان کے پہلے فلمی گلوکار

قیام پاکستان کے بعد ریلیز ہونے والی پہلی فلم تیری یاد (1948) میں علی بخش ظہور کو پاکستان کے پہلے فلمی گلوکار ہونے کا ناقابل شکست اعزاز حاصل ہوا۔ ہدایتکار داؤد چاند کی اس اردو فلم میں انھوں نے پاکستانی فلموں کا پہلا مردانہ گیت اور دو گانا گایا تھا۔ پاکستانی فلموں کے پہلے ہیرو ، دلیپ کمار کے بھائی ، ناصر خان ، اس فلم کے ہیرو اور آشا پوسلے ، ہیروئن تھی۔ موسیقار عنایت علی ناتھ کی دھن میں قتیل شفائی کے لکھے ہوئے اس پہلے سولو میل سانگ کے بول تھے:

  • محبت کا مارا چلا جا رہا ہے۔۔

پاکستانی فلموں کا پہلا دو گانا

1948ء میں ریلیز ہونے والی اس اکلوتی فلم میں علی بخش ظہور کو گلوکارہ منور سلطانہ کے ساتھ پاکستانی فلموں کا پہلا دو گانا گانے کا موقع بھی ملا۔ ناتھ صاحب ہی کی دھن میں طفیل ہوشیارپوری کے لکھے ہوئے اس ڈوئیٹ کے بول تھے:

  • بول بول ویرنیا ، میں گئی تھی کہاں۔۔

دل توڑ کے چلے تو نہیں جاؤ گے؟

پاکستان کے دوسرے فلمی سال یعنی 1949ء میں علی بخش ظہور کو دو فلموں میں گائیکی کا موقع ملا۔ پہلی فلم ہچکولے (1949) میں تین گیت گائے۔ ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں سیف الدین سیف کے لکھے ہوئے ان گیتوں میں سے منور سلطانہ کے ساتھ یہ دوگانا خاصا مقبول ہوا تھا:

  • دل توڑ کے چلے تو نہیں جاؤ گے ، ہمیں چھوڑ کے چلے تو نہیں جاؤ گے ۔۔

پاکستان کے پہلے سپرسٹار فلمی ہیرو سدھیر کی تقسیم کے بعد یہ پہلی فلم تھی جس میں انھوں نے ایک گلوکار کا رول کیا تھا۔ علی بخش ظہور کے مندرجہ ذیل دونوں سولو گیت یقیناً انھی پر فلمائے گئے ہوں گے:

  • میں پیار کا دیا جلاتا ہوں ، تو چپکے چپکے آجا۔۔
  • سامنا ہو گیا قیامت کا ، لو جنازہ چلا محبت کا۔۔

یہ آخری گیت ، موسیقار نثار بزمی نے فلم لیلیٰ مجنوں (1974) میں نقل کیا تھا اور گلوکار اخلاق احمد سے گوایا تھا جو وحیدمراد پر فلمایا گیا تھا۔

پاکستانی فلموں میں پہلی بار ، ایک گیت ، دو آوازیں

اسی سال کی فلم دو کنارے (1949) کے ہیرو سریش تھے جو ہدایتکار کاردار کی مشہور زمانہ بھارتی فلم دلاری (1949) میں محمدرفیع کے پہلے میگاہٹ گیت "سہانی رات ڈھل چکی۔۔" کی وجہ سے بڑے مشہور ہوئے۔ اس فلم میں موسیقار فتح علی خان کی دھن میں طفیل ہوشیارپوری کا لکھا ہوا اور علی بخش ظہور کا گایا ہوا یہ اکلوتا گیت ، پاکستانی فلموں کا پہلا ایسا گیت تھا جو دو الگ الگ آوازوں میں ریکارڈ ہوا ، دوسری آواز پکھراج پپو کی تھی جو ابتدائی دور کی ایک مشہور گلوکارہ تھی۔ گیت کے بول تھے:

  • چند آنسو ، چند آہیں اور دل ناکام ہے ، یہ ہماری زندگی کے کار کا انجام ہے۔۔

علی بخش ظہور کی سب سے بڑی نغماتی فلم

1950ء میں علی بخش ظہور کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی نغماتی فلم بے قرار (1950) ریلیز ہوئی جس میں انھیں چار گیت گانے کا موقع ملا جو ان کے فلمی کیرئر کا واحد موقع تھا۔

ہماری فلموں میں روز اول ہی سے نسوانی گیتوں کی بہتات رہی ہے جس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ ہمارے فلم بین (یا تماش بین) ، زیادہ تر ناچتی گاتی عورتوں کو دیکھنے کے لیے ہی فلمیں دیکھتے تھے۔ ایسے میں کسی گلوکار کا کسی فلم میں چار یا اس سے زائد گیت گانا بہت بڑا اعزاز ہوتا تھا۔ پاکستانی فلموں میں یہ ریکارڈ بھی بے مثل گلوکار جناب مسعود رانا صاحب کے پاس ہے کہ جنھوں نے سب سے زیادہ بار ، اردو اور پنجابی فلموں میں چار یا اس سے زائد گیت گائے تھے۔ یاد رہے کہ اردو فلموں کی حد تک یہ اعزاز ، احمد رشدی کو حاصل ہے لیکن وہ کبھی کسی پنجابی فلم میں چار گیت نہیں گا سکے تھے۔

فلم بے قرار (1950) میں عظیم موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی میں طفیل ہوشیارپوری کے لکھے ہوئے اور علی بخش ظہور اور منور سلطانہ کے گائے ہوئے مندرجہ ذیل دو گانے بڑے مشہور ہوئے تھے:

  • دل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا ، ظالم زمانہ ہے یہ ظالم زمانہ۔۔
  • کوئی جا کے ان سے کہنا ، اس پیار بھرے دل میں ، تم درد بن کے رہنا۔۔

ہدایتکار نذیر اجمیری کی اس رومانٹک فلم کے مرکزی کردار ، چالیس کی دھائی کی لاہور کی ممتاز اداکارہ راگنی اور فلمساز ، ایس گل تھے جنھوں نے بعد میں شادی بھی کر لی تھی۔

اس سال کی دیگر تین فلموں ، امانت (1950) ، ہماری بستی (1950) اور بیلی (1950) میں بھی علی بخش ظہور کے گیت ملتے ہیں۔

نورجہاں کے پہلے ساتھی گلوکار

1951ء کا سال اس لحاظ سے یادگار تھا کہ علی بخش ظہور کو ہندوستان کی چالیس کی دھائی کی ہندی/اردو فلموں کی کامیاب ترین ، بے مثل گلوکارہ اور اداکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ فلم چن وے (1951) میں ایک کورس گیت گانے کا موقع ملا۔ یہ ان کی میڈم کے ساتھ اکلوتی فلم تھی لیکن پاکستانی فلموں میں میڈم نورجہاں کے پہلے ساتھی گلوکار ہونے کا اعزاز بھی علی بخش ظہور کے حصہ میں آیا جن کی یہ پہلی پنجابی فلم بھی تھی۔ ماسٹر فیروز نظامی کی دھن میں ایف ڈی شرف کا لکھا ہوا یہ کورس گیت فلم کی ہیروئن نورجہاں اور اس کے فلمی بھائی سنتوش اور ساتھیوں پر فلمایا گیا تھا:

  • ہس بول سوہنیا ، موسم اے محبتاں دا ، او ڈھولا ، او جانی۔۔

ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا

علی بخش ظہور کی 1952ء میں دو فلمیں ریلیز ہوئیں۔ فلم بھیگی پلکیں (1952) کے علاوہ فلم نویلی (1952) میں سیف الدین سیف کی لکھی ہوئی یہ دلگداز غزل بڑی مقبول ہوئی تھی:

  • ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا ، رونے والے ، تجھے کس بات پہ رونا آیا۔۔

موسیقار نذیر جعفری نے بڑی خوبصورت دھن بنائی تھی اور یہ غزل یقیناً فلم کے ہیرو ریحان پر فلمائی گئی ہوگی جن کی بطور ہیرو یہ واحد فلم تھی۔ وہ فلم زندہ لاش (1967) میں ڈریکولا کے کردار میں بڑے مشہور ہوئے تھے۔

علی بخش ظہور کا آخری ہٹ گیت

یہ کتنی عجیب بات تھی کہ 1953ء کا سال علی بخش ظہور کے فلمی کیرئر کے تسلسل کا چھٹا اور آخری سال ثابت ہوا جب ان کی دو فلمیں ریلیز ہوئیں۔ فلم سیلاب (1953) کے علاوہ فلم برکھا (1953) میں منور سلطانہ کے ساتھ گایا ہوا ان کا آخری سپرہٹ گیت سامنے آیا:

  • تو ساز بجاتا جا ، آواز میں پیار کا بھر کے رنگ ، میرے سنگ گاتا جا۔۔

مشیر کاظمی کے لکھے ہوئے اس گیت کی دھن طفیل فاروقی نے بنائی تھی اور فلم میں صبیحہ خانم اور اداکار مسعود پر فلمایا گیا تھا جو ایک خوبرو ہیرو ہونے کے باوجود مسلسل دس ناکام فلموں میں ہیرو آئے تھے۔

علی بخش ظہور کی آخری فلم

اس کے بعد اگلے سترہ برسوں میں علی بخش ظہور کی تین مزید فلموں کا ذکر ملتا ہے۔ شہباز (1960) اور سہاگ (1963) کے بعد ان کی آخری فلم درندہ (1970) تھی جس میں ان کا یہ سولو گیت علاؤالدین پر فلمایا گیا تھا:

  • اے آسمانوں کے مکیں ، فریاد ہے ، فریاد ہے۔۔

اس گیت کی دھن گل حیدر نامی موسیقار نے بنائی تھی جبکہ گیت نگار ، اردو ادب کے ایک بہت بڑے نام ، جناب احمد ندیم قاسمی تھے جن کے ایک افسانے "گنڈاسا" نے نہ صرف پاکستان بلکہ پڑوسی ملک بھارت کی پنجابی فلموں میں بھی "جٹ سیریز" کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع کر دیا تھا۔

دستیاب معلومات کے مطابق فلم درندہ (1970) بطور نغمہ نگار ، احمد ندیم قاسمی کی واحد فلم تھی جس میں انھوں نے تین گیت لکھے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کل چار فلموں کی کہانیاں یا مکالمے وغیرہ بھی لکھے تھے لیکن دیگر قد آور ادبی شخصیات کی طرح فلموں میں کسی قسم کی کامیابی سے محروم رہے تھے۔

پاکستان فلم میگزین کے ڈیٹابیس کے مطابق ، گلوکار علی بخش ظہور نے اپنے مختصر فلمی کیرئر میں صرف 19 فلموں میں 32 گیت گائے تھے۔ ان میں سے 28 گیت 17 اردو فلموں میں جبکہ صرف دو پنجابی فلموں میں چار گیت تھے۔ موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے ان سے 9 گیت گوائے اور اتنے ہی گیت انھوں نے منور سلطانہ کے ساتھ گائے تھے۔

علی بخش ظہور ، 11مئی 1905ء کو پیدا ہوئے اور 18 نومبر 1975ء کو انتقال ہوا۔

پاکستانی مردانہ فلمی گائیکی کی تاریخ

علی بخش ظہور ، پاکستان کے پہلے گلوکار تھے جنھوں نے پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) سے فلمی سفر کا آغاز کیا تھا لیکن ان سے زیادہ شہرت ، ان کے بعد آنے والے گلوکار عنایت حسین بھٹی کو ملی جو پاکستان کی چوتھی ریلیز شدہ فلم سچائی (1949) میں سامنے آئے تھے۔

بھٹی صاحب کے عروج کا دور 1949ء سے 1956ء تک رہا۔ پھر سلیم رضا اور منیرحسین کا دور شروع ہوا جو 1965ء تک جاری رہا۔ 1966ء سے 1976ء تک کے پاکستان کے انتہائی سنہری فلمی دور میں فلمی گائیکی پر مسعود رانا ، احمد رشدی اور مہدی حسن کی اجارہ داری ہوتی تھی۔ ان کے بعد اے نیر ، اخلاق احمد اور غلام عباس کا دور آیا لیکن اس دوران فلمی گائیکی اپنی اہمیت کھو رہی تھی کیونکہ متبادل تفریح کے ذرائع دستیاب تھے جن میں ریڈیو ، ٹیلی ویژن اور سٹیج کے علاوہ آئیڈیو کیسٹیں بھی تھیں جنھوں نے بہت سے گمنام فنکاروں کو نامور کردیا تھا۔

پاکستان کی مردانہ فلمی گائیکی میں اب تک آخری بڑا نام ، انور رفیع کا تھا لیکن 1980ء کی دھائی میں VCR اور 1990ء کی دھائی میں سیٹلائٹ اور کیبل ٹی وی کی مقبولیت نے فلمی گیتوں کو پس منظر میں دھکیل دیا تھا۔ 2000ء کے بعد انٹرنیٹ کی آمد نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور 2010ء کے بعد سے سمارٹ فون پر سوشل میڈیا نے "اٹ چکو تے فنکار" والا کام کردیا ہے۔ اب اکا دکا پاکستانی فلمیں ، کبھی کبھار چند بڑے شہروں کے چند سینماؤں پر مختصر مدت کے لیے نظر آجاتی ہیں جو فلم بینوں سے زیادہ سوشل میڈیا پر رہتی ہیں اور جن میں مردانہ فلمی گائیکی، ایک قصہ پارینہ بن چکی ہے۔


Sulochna
Sulochna
(1933)
Sikandar
Sikandar
(1941)
Tansen
Tansen
(1943)

Musafir
Musafir
(1940)
Ragni
Ragni
(1945)
Patwari
Patwari
(1942)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.