A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
ایک گمنام موسیقار نذیرجعفری نے اپنی آخری فلم وہ کون تھی (1966) میں ایک ایسا بے مثل گیت گوایا تھا کہ جس نے میرے لیے یہ حجت تمام کر دی تھی کہ پاکستانی فلموں میں مردانہ گائیکی میں مسعودرانا کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
اس شاہکار گیت پر تفصیلی بات مضمون کے آخر میں ہوگی ، پہلے نذیرجعفری کی ان گیارہ فلموں اور خاص خاص فلمی ریکارڈز کا ذکر ہوجائے جن کی موسیقی انھوں نے ترتیب دی تھی۔
نذیرجعفری کی بطور موسیقار پہلی فلم امانت (1950) تھی جو اس لحاظ سے ایک یادگار فلم تھی کہ اس میں کئی ایک نئے چہرے پہلی بار سامنے آئے تھے۔ فلم کے ہدایتکار حیدرشاہ کے علاوہ درپن اور یاسمین کی یہ پہلی پہلی فلم تھی۔
فلم امانت (1950) کے دیگر اداکاروں میں اجمل ، ایم اسماعیل اور نذر کے علاوہ ممتاز اداکار علاؤالدین بھی شامل تھے جن کے فلمی کیرئر کی یہ واحد فلم تھی جس میں انھیں ، پلے بیک سنگر کے طور پر تین گیت گانے کا موقع ملا تھا۔ اس سے قبل وہ فلم پھیرے (1949) میں عنایت حسین بھٹی کے ساتھ ایک مزاحیہ گیت
گانے کے علاوہ فلم دوآنسو (1950) میں فلم کے ہیرو سنتوش پر فلمایا جانے والا پہلا گیت
گا چکے تھے۔ اس فلم میں علاؤالدین نے ایک سولو گیت
گانے کے علاوہ گلوکارہ سلمیٰ بیگم کے ساتھ ایک دوگانا
اور ایک قوالی گائی تھی
اس قوالی کو گانے والوں میں حافظ عطامحمد قوال اور ساتھیوں کے علاوہ خود نذیرجعفری بھی شامل تھے۔ علاؤالدین کا چھٹا اور آخری گیت فلم پتن (1955) میں تھا
یہ بھی ایک مزاحیہ گیت تھا۔ بابا چشتی نے یہ گیت مختلف دھنوں میں بنایا تھا جن میں سے ایک دھن موسیقار طافو نے نقل کر کے فلم انورا (1970) کا مشہور گیت "لاج محبتاں دی رکھ وے۔۔" بنایا تھا۔
نذیرجعفری کی دوسری فلم نویلی (1952) میں معروف اداکار ریحان کو اداکارہ گلشن آرا کے مقابل ہیرو کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔ وہ عام طور پر ایک معاون اداکار ہوتے تھے ، یہ ان کی بطور ہیرو اکلوتی فلم تھی۔ انھوں نے فلم زندہ لاش (1967) میں ڈریکولا کے کردار میں سب سے زیادہ شہرت پائی تھی۔
فلم محفل (1955) اور شہرت (1957) اوسط درجہ کی فلمیں تھیں۔ فلم پون (1956) ، پنجابی فلموں کے مشہور ہدایتکار اسلم ایرانی کی پہلی فلم تھی جن کے کریڈٹ پر ڈاچی اور ہتھ جوڑی (1964) جیسی سپرہٹ فلمیں تھیں۔
نذیرجعفری کی دیگر فلموں میں جھیل کنارے (1955) ، عزت (1960) ، صبح کہیں شام کہیں اور جادوگر (1961) تھیں۔
ان کی ایک فلم کشمیر کی کلی بھی تھی جو کبھی ریلیز نہ ہو سکی۔ اس فلم میں مسعودرانا کا ایک جنگی ترانہ تھا
نذیرجعفری نے کبھی کسی پنجابی فلم کی موسیقی ترتیب نہیں دی تھی۔ ان کی کوئی فلم باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کمپوز کیا ہوا کوئی مقبول عام گیت سننے میں آتا ہے۔ البتہ ستر سال پہلے درجن بھر فلموں میں اگر موسیقی ترتیب دی تھی تو یقیناً اس دور میں کچھ گیت مقبول تو ہوئے ہوں گے ورنہ اتنی فلموں کی موسیقی دینا ممکن نہیں تھا۔
فلم وہ کون تھی (1966) ، نذیرجعفری کی بطور موسیقار آخری فلم تھی۔ اس فلم کے ہدایتکار رفیع چوہدری تھے جن کی فلم صابرہ (1956) کے بعد یہ دوسری اور آخری فلم تھی۔ اس فلم کی فلمساز بیگم مہرالنسا نظام تھیں جن کی یہ اکلوتی فلم تھی۔ اس فلم کی کہانی اعجاز اختر نے لکھی تھی جو اداکاری بھی کیا کرتے تھے اور ایک خوبرو جوان ہونے کے باوجود ہمیشہ ایکسٹرا کرداروں میں دیکھے گئے تھے۔ رانی اور حبیب مرکزی کرداروں میں تھے اور ایک جمی نامی اداکار تھے جنھیں زیادہ تر بھارتی فلموں میں دیکھا گیا تھا۔
اس ناکام فلم کی کہانی بڑی کمزور اور غیر حقیقت پسندانہ تھی ، ایک عورت جو اپنی یادداشت کھو کر سب کچھ بھول جاتی ہے ، سوائے اپنے بچے کے۔۔!
موسیقار نذیرجعفری نے فلم وہ کون تھی (1966) میں مسعودرانا سے دو گیت گوائے تھے جن میں ایک گیت
تھا ، شاعرہ تشنہ میرٹھی تھیں جنھوں نے اس فلم کے ایک کے سوا باقی سبھی گیت لکھے تھے۔ فلم کے ٹائٹل پر بڑے اہتمام کے ساتھ لکھا ہوا تھا کہ یہ گیت
شاعر راشد کامل کا لکھا ہوا ہے۔ یہ اس گمنام شاعر کا اکلوتا گیت تھا اور شاعری بھی کچھ اتنی خاص نہیں تھی۔ لیکن ایک عام فہم دھن کے علاوہ اس گیت کو مسعودرانا نے اپنی دلکش اور پروقار مردانہ آواز میں کچھ اس قدر سریلے اور نشیلے انداز میں گایا تھا کہ میں نے آج تک کسی پاکستانی گلوکار کو اس سے بہتر گیت گاتے نہیں سنا۔
مجھے گائیکی کی فنی اصطلاحوں کا تو علم نہیں لیکن محسوس کر سکتا ہوں کہ گلے کا کیا لاجواب استعمال تھا ، الفاظ کی ادائیگی کتنے کمال کی تھی اور کس آسانی اور روانی میں گایا گیا تھا۔
یہ گیت سن کر میرے دل میں مسعودرانا صاحب کی عظمت کی دھاک بیٹھ گئی تھی اور ارادہ کر لیا تھا کہ جب کبھی موقع ملا ، اس عظیم فنکار کو اس کے شایان شان خراج تحسین پیش کروں گا۔
یہ گیت سن کر مجھے اپنا ایک انتہائی ناقابل فراموش رومانٹک واقعہ یاد آجاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ اس گیت کا ایک ایک مصرعہ میری انھی حسین یادوں کو محفوظ رکھنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ بہت دور سے آئی ہوئی ایک اجنبی حسینہ صرف ایک رات کی مہمان تھی لیکن وہ میرے بہت قریب آ کر اتنی دور چلی گئی کہ زندگی بھر دوبارہ کبھی نظر نہیں آئی۔
یہ میری ٹین ایج کی عمر کا آخری سال تھا۔ ایک دن دادا جان مرحوم و مغفور کے ایک دوست ان کی تعزیت کے لیے اپنی جواں سال پوتی کے ہمراہ تشریف لائے۔
ایک سادہ سی سفید چادر اوڑھے خوبصورت نین و نقش اور دلکش خدوخال کی مالک اس حسینہ کو دیکھتے ہی مجھ جیسا دل پھینک عاشق فوراً لٹو ہو گیا تھا۔
انتہائی کم عمری میں فلمیں دیکھنے کی سب سے بڑی قباحت ، حسن پرست ہونا اور عشق و محبت کے رموزواسرار کا وقت سے پہلے آشکار ہو جانا تھا۔ میرا پہلا عشق دس سال کی عمر میں ہوا تھا اور عشق کی چند چوٹیں کھانے کے بعد تقریباً ایک ہی دھائی میں ایک تجربہ کار عاشق بن چکا تھا۔
اس وقت عمر کا تقاضا تھا کہ ہر حسین چہرے کو فتح کرنے کی خواہش ہوتی تھی۔ اس مہمان حسین کو دیکھ کر مسرورانور کا لکھا ہوا اور احمدرشدی کا فلم نصیب اپنا اپنا (1979) میں گایا ہوا میرا پسندیدہ گیت لبوں پر مچلنے لگا تھا:
گو اس دن ابرکرم کا کہیں دور دور تک نام و نشان تک نہیں تھا لیکن ایک حسین مہمان ضرور تھا جسے دل کی بات سنائے بنا بات نہ بنتی۔
میرے ساتھ محض رسمی گفت و شنید سے بابا جی اتنا متاثر ہوئے کہ اجنبیت ، اپنائیت میں بدل گئی۔ بچپن ہی سے بزرگوں کی محفل میں بیٹھ کر مجھے اتنا تجربہ ہو گیا تھا کہ کہاں ، کب اور کس سے کیسی گفتگو کرنی چاہیئے۔
ان دنوں بہت سی مذہبی اور اخلاقی کتب بھی زیر مطالعہ تھیں جن میں بے شمار معاشرتی اور سماجی موضوعات پر دینی اور دنیاوی حکایتیں ہوتی تھیں جو پڑھنے اور سننے والوں کو بے حد متاثر کرتی تھیں۔ میں نے بڑی تعداد میں ایسی حکایتیں یاد کر رکھی تھیں جنھیں موقع محل کی مناسبت سے بیان کر کے اپنی نام نہاد علمیت کا رعب جھاڑنے میں کامیاب رہتا تھا۔
بابا جی ، میری باتوں سے اتنا متاثر ہوئے کہ نہ صرف انھوں نے رات قیام کا فیصلہ کیا بلکہ یہ ضد بھی کی کہ وہ اسی کمرے میں سوئیں گے جہاں میں سوتا ہوں کیونکہ وہ میری باتیں سنتے ہوئے سونا چاہتے تھے۔
اس دوران اس حسینہ کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کرتا رہا ، اس میں بھی کامیابی ہوئی ، پہلے آنکھوں آنکھوں میں اظہار محبت ہوا ، اعتراف محبت میں مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا جو دل میں اتر گیا اور پھر شک کی کوئی گنجائش ہی نہ رہی۔
جب اس حسینہ کو معلوم ہوا کہ وہ رات ہمارے ہاں بسر کریں گے تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ چادر سے نکل کر دوپٹے میں آگئی اور گھر کے کاموں میں میری والدہ صاحبہ کے ساتھ ایسے مشغول ہو گئی جیسے وہ اس گھر کی کوئی پرانی بہو ہو۔
رات کو جب سونے کا مرحلہ آیا تو سردیوں کے دنوں میں ہم جس کمرے میں سوتے تھے ، وہاں دو پلنگ بچھے ہوئے ہوتے تھے۔ ایک پر میں سوتا تھا تو دوسرے پر والدہ محترمہ میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ سوتی تھیں۔ کمرے میں چند کرسیاں اور ایک میز رکھا ہوا ہوتا تھا جنھیں ہٹا کر دو چارپائیاں بچھانے کی گنجائش پیدا کی جاتی تھی۔ ان میں سے ایک پر میری دونوں چھوٹی بہنیں سوتی تھیں دوسری پر میرا چھوٹا بھائی سوتا تھا۔
اس دن والدہ صاحبہ نے فیصلہ کیا کہ دونوں چھوٹے بھائی میرے ساتھ پلنگ پر سوئیں گے ، ایک چھوٹی بہن ان کے ساتھ سوئے گی ، دوسری بہن اس حسینہ کے ساتھ جبکہ بابا جی کو الگ سے چارپائی ملے گی۔
چارپائیاں بچھانے میں میں نے مدد کی لیکن بستر بچھانے کا سارا کام اس حسینہ نے خود کیا تھا۔ میں نے بڑی شدت سے محسوس کیا تھا کہ بابا جی کا بستر الماری کے ساتھ بچھایا گیا تھا جبکہ اس حسینہ نے اپنا بستر کمرے کے وسط میں اس چارپائی پر بچھایا تھا جس کا سرہانہ میرے پلنگ کے سرہانے سے ملا ہوا تھا۔
جب بستر پر لیٹنے کا مرحلہ آیا تھا تو اس حسینہ نے میری بہن کو اپنے بائیں طرف سلایا اور خود دائیں طرف لیٹی۔ وہ میرے اتنے قریب ہو گئی تھی کہ میں اس کی سانسیں تک سن سکتا تھا۔۔!
اس رات ، حسب معمول سونے سے قبل جب اپنی ڈائری کا روزانہ کا ایک صفحہ لکھ رہا تھا تو میری خوداعتمادی اپنے عروج پرتھی۔ اس دن کا عنوان تھا
"میں جس لڑکی کے قریب ہوا ، وہ مجھ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔۔"
باقی تفصیل تھی کہ کس طرح ایک اجنبی حسینہ نے میرا آرام و سکون چھین لیا ہے ، پھر اس کے حسن کی تعریف میں کسی بخل سے کام نہیں لیا تھا۔
اب جو صورتحال بن گئی تھی ، وہ انتہائی غیر متوقع اور میری مردانگی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھی۔ میرے پاس کوئی پلان اے بی سی نہیں تھا لیکن مجھے یہی سمجھ آرہا تھا کہ ایک عورت ہو کر اس نے جو کچھ کرنا تھا ، وہ کر چکی ، اب ایک مرد بن کر جو کچھ کرنا تھا ، وہ مجھے کرنا تھا۔ یہ ایک ایسا نادر موقع تھا کہ جسے اگر کھوتا تو پنجابی میں بھی کھوتا ہی ہوتا۔
اس رات ، اہل حسن تو نیند سے کوسوں دور کسی متوقع طوفان کے منتظر ، ساکت اور بے جان پڑے ہوئے تھے لیکن اہل عشق کو کسی پل چین نہیں آرہا تھا اور پہلو پہ پہلو بدلا جارہا تھا۔
زندگی میں پہلی بار دوسروں کے خراٹے بڑی دلچسپی اور بے صبری سے سنے۔ جب سبھی خواب خرگوش کے مزے لینے لگے تو میرا دایاں ہاتھ حرکت میں آیا اور سرکتے سرکتے اپنے بیڈ کی حدود کراس کرتے ہوئے اس کی چارپائی کی حدود میں داخل ہوا اور اس کے دائیں کندھے پر جا رکا۔
اس نے ایک جھرجھری سی لی اور اپنا بایاں ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا۔ گویا وہ توقع کر رہی تھی کہ میری طرف سے کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی انگلیاں اس کی مخروطی انگلیوں میں ڈال دیں۔ اس موقع پر مہدی حسن کا فلم سہرے کے پھول (1973) میں تسلیم فاضلی صاحب کا لکھا ہوا یہ خوبصورت گیت اس صورتحال کی مکمل عکاسی کر رہا تھا:
یہ گیت بھی مجھے اس واقعہ کی یاد دلاتا رہتا ہے۔
تھوڑی دیر بعد میرا ہاتھ اس کے گلے سے ہوتا ہوا جنوب کی چڑھائی چڑھنے جارہا تھا لیکن اس نے دونوں ہاتھوں سے سختی سے روک دیا۔ اتنی جلدی اتنی بے تکلفی شاید اسے پسند نہیں آئی۔ میں نے بھی اصرار نہیں کیا اور پسپائی اختیار کی۔
میرا ہاتھ ، واپس اس کے گلے سے ہوتا ہوا اس کے دہکتے ہوئے چہرے پر جا ٹھہرا۔ میری انگلیاں اس کے ماتھے ، ناک ، گال اور ٹھوڑی کا مسح کرنے لگیں اور جب اس کے نرم نرم ہونٹوں کو محسوس کیا تو وہ کپکپا رہے تھے۔
میں نے اپنے دائیں ہاتھ سے اس کی ٹھوڑی اور بائیں ہاتھ سے اس کے سر کو ایک پیالے میں لیا اور دائیں انگوٹھے کو اس کے کپکپاتے لبوں پر آہستہ آہستہ پھیرنے لگا جو تھوڑی دیر تک بن ساون دھرتی کی طرح پھڑپھڑانے لگے۔
یہی وہ موقع تھا جب میں نے بڑی مہارت سے نوے ڈگری سے ایسا تاک نشانہ لگایا کہ میرے گرما گرم ہونٹ اس کے پھڑپھڑاتے ہونٹوں میں پیوست ہو گئے تھے۔ وہ ایک جل بن مچھلی کی طرح تڑپی لیکن ٹھنڈی ہو گئی۔ کیا لطف تھا ، بیان سے باہر ہے۔ یہ میری زندگی کا پہلا بوسہ نہیں تھا لیکن ایسا بوسہ تھا جسے آج تک نہیں بھلا سکا۔۔!
یہ سلسلہ شاید کچھ دیر جاری رہتا اگر چھوٹا بھائی رنگ میں بھنگ نہ ڈالتا جسے چھوچھو کرنا تھا۔ سردیوں میں یہ بڑا مسئلہ ہوتا تھا ، چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے رات کو متعدد بار اٹھنا پڑتا تھا۔
فراغت کے بعد واپس آیا تو کمرے کی ہلکی سی روشنی میں نظر آیا کہ وہ حسینہ اپنے لحاف میں دبک چکی تھی ، مزید چھیڑنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس رات ایک بڑی گہری اور میٹھی نیند سویا تھا۔۔!
دوسری صبح نیند سے بیدار ہوا تو پہلی نظر ہی اس حسینہ پر پڑی جو کرسی پر بیٹھی میری ذاتی ڈائری پڑھ رہی تھی۔ میں نے اعتراض کیا اور کہا
"آپ میری ڈائری پڑھ رہی ہیں۔۔؟"
خوشگوار موڈ اچانک مصنوعی غصے میں بدلا اور جواباً کہنے لگی
"میں آپ سے سخت ناراض ہوں۔۔"
میں گبھرا گیا اور بڑی معصومیت سے پوچھا
"میرا قصور۔۔؟" کہنے لگی
"آپ نے اپنی ڈائری میں میرا ذکر کیوں کیا ہے ، اگر کسی نے پڑھ لیا تو۔۔"
مجھے تسلی ہوئی کہ رات کی دیدہ دلیری پر اسے اعتراض نہیں تھا۔ میں نے کہا
"آپ نے تو میرے دلی جذبات پڑھ لیے ہیں ، اب آپ کیا کہتی ہیں۔۔؟"
اس نے بڑی دلکش مسکراہٹ سے جواب دیا
"ابھی شک ہے آپ کو۔۔؟"
ہمارا سلسلہ کلام شاید جاری رہتا لیکن کمرے میں میرے چھوٹی بہن آئی جو اس حسینہ کے لیے یہ پیغام لائی کہ بابا جی کہہ رہے ہیں کہ جلدی سے ناشتہ کر لیں ، سفر پہ جانا ہے۔
وہ کرسی سے اٹھی تو اس کی گود میں ایک تولیہ تھا جو میری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگی
"یہ تولیہ لیں اور غسل کر لیں۔۔"
اف اللہ ، کیا غضب کی ادا تھی۔۔!
اس وقت میں خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھ رہا تھا۔ ایسے لگا جیسے ایک نئی نویلی دلہن سہاگ رات کے بعد اپنے دولہا سے کہہ رہی ہو کہ ابھی آپ نے غسل نہیں کیا۔ اس وقت وہ مجھے دنیا کی حسین ترین عورت نظر آئی ، جی چاہا کہ اسے گلے لگا لوں اور خوب پیار کروں لیکن کمرے میں ہم اکیلے نہیں تھے۔
میں بڑے خمار میں باتھ روم تک پہنچا۔ نہاتے ہوئے پانی کا ایک ایک قطرہ رم جھم ، رم جھم پڑے پھوار کی طرح سے گرتا ہوا محسوس ہورہا تھا جن کی جلترنگ میں تیرا میرا نت کا پیار کی صدائیں آرہی تھیں۔ میں جلدی سے غسل سے فارغ ہوا تا کہ اس ایک رات کے حسین و جمیل مہمان کے آخری دیدار کرسکوں۔
ناشتہ کرتے وقت وہ حسینہ بظاہر میری والدہ اور بہنوں سے مخاطب ہوتی لیکن اشارہ میری طرف ہی ہوتا کہ وہ ہمارا بڑی بے چینی سے انتظار کریں گے۔ بابا جی بھی بار بار ہمیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دے رہے تھے ، انھوں نے تو اپنے گھر کا پورا نقشہ تک سمجھا دیا تھا۔ یقیناً ، وہ مجھے اپنی پوتی کے لیے پسند کرچکے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستان میں رہتا تو شاید ان کی ، میری اور اس حسینہ کی مشترکہ خواہش بھی پوری ہو جاتی۔۔!
بالآخر وہ چلی گئی ، اس کے جانے کے بعد میں نے اسے بڑی شدت سے یاد کیا تھا اور جی چاہتا تھا کہ اڑ کر اس تک پہنچوں لیکن قواعد و ضوابط اور رسم و رواج کا پابند تھا۔ والدصاحب مرحوم و مغفور کی اجازت کے بغیر کسی سے کوئی تعلق قائم نہیں کر سکتے تھے۔
کچھ عرصہ بعد ڈنمارک روانگی ہو گئی تھی اور وہ حسینہ ماضی کا ایک قصہ بن گئی تھی۔
آج جب بھی مسعودرانا کا یہ دلکش گیت "ہمسفر ، آج کی یہ رات نہیں بھولے گی۔۔" سنتا ہوں تو وہ ایک رات کی ہمسفر اور اس کے ساتھ بیتی ہوئی رنگین رات کا ایک ایک لمحہ یاد آجاتا ہے جسے بھلانا چاہوں بھی تو نہیں بھلا سکتا۔
یقیناً ، وہ بھی مجھے بھلا نہ پائی ہو گی۔۔!
1 | ہمسفر ، آج کی یہ رات نہیں بھولے گی (2)..فلم ... وہ کون تھی ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر جعفری ... شاعر: راشد کامل ... اداکار: حبیب |
2 | ہمسفر ، آج کی یہ رات نہیں بھولےگی ، دو دلوں کی یہ ملاقات نہیں بھولے گی..فلم ... وہ کون تھی ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر جعفری ... شاعر: راشد کامل ... اداکار: حبیب |
3 | تمہیں پیار کرنے کو جی چاہتا ہے..فلم ... وہ کون تھی ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر جعفری ... شاعر: تشنہ میرٹھی ... اداکار: حبیب |
4 | یہ غازیوں کا قافلہ، رواں دواں..فلم ... کشمیر کی کلی ... اردو ... (غیر ریلیز شدہ) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر جعفری ... شاعر: ولی صاحب ... اداکار: ؟ |
1 | ہمسفر ، آج کی یہ رات نہیں بھولےگی ، دو دلوں کی یہ ملاقات نہیں بھولے گی ...(فلم ... وہ کون تھی ... 1966) |
2 | ہمسفر ، آج کی یہ رات نہیں بھولے گی (2) ...(فلم ... وہ کون تھی ... 1966) |
3 | تمہیں پیار کرنے کو جی چاہتا ہے ...(فلم ... وہ کون تھی ... 1966) |
4 | یہ غازیوں کا قافلہ، رواں دواں ...(فلم ... کشمیر کی کلی ... غیر ریلیز شدہ) |
1 | ہمسفر ، آج کی یہ رات نہیں بھولےگی ، دو دلوں کی یہ ملاقات نہیں بھولے گی ...(فلم ... وہ کون تھی ... 1966) |
2 | ہمسفر ، آج کی یہ رات نہیں بھولے گی (2) ...(فلم ... وہ کون تھی ... 1966) |
3 | تمہیں پیار کرنے کو جی چاہتا ہے ...(فلم ... وہ کون تھی ... 1966) |
4 | یہ غازیوں کا قافلہ، رواں دواں ...(فلم ... کشمیر کی کلی ... غیر ریلیز شدہ) |
1. | 1966: Voh Kon Thi(Urdu) |
2. | Unreleased: Kashmir Ki Kali(Urdu) |
1. | Urdu filmVoh Kon Thifrom Friday, 30 September 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Jafri, Poet: , Actor(s): Habib |
2. | Urdu filmVoh Kon Thifrom Friday, 30 September 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Jafri, Poet: , Actor(s): Habib |
3. | Urdu filmVoh Kon Thifrom Friday, 30 September 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Jafri, Poet: , Actor(s): Habib |
4. | Urdu filmKashmir Ki Kalifrom UnreleasedSinger(s): Masood Rana, Music: Nazir Jafri, Poet: , Actor(s): ? |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.