Pakistan Film History
Pakistan Film Magazine is celebrating 75 years of Pakistani movies with basic information in Urdu/Punjabi..
2023ء کا سال پاکستانی فلموں کا 75واں سال ہے۔۔!
پون صدی قبل ، آزادی کے ایک سال بعد ، پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) ریلیز ہوئی تھی۔
1947ء کے فسادات میں لاہور کے فلم سٹوڈیوز تباہ و برباد نہ کر دیے جاتے تو کئی ایک فلمیں پہلے ہی سال ریلیز ہو سکتی تھیں۔
قیام پاکستان کے وقت ، لاہور کے آٹھوں نگار خانوں میں دو درجن کے قریب فلمیں زیرتکمیل تھیں جن میں سے بعض تو مکمل طور پر ضائع ہو گئیں جبکہ باقی ماندہ فلمیں ، بمبئی اور کلکتہ کے فلم سٹوڈیوز میں مکمل ہو کر بھارتی فلموں کے طور پر ریلیز ہوئیں۔
پاکستان کے قیام کے پہلے پانچ برسوں میں صرف 34 فلمیں ریلیز ہوئیں جو سالانہ سات فلموں کی اوسط بنتی ہے۔
بھارتی فلموں کی آزادانہ نمائش ، فلم سٹوڈیوز کی نایابی اور سرمائے کی کمی کی وجہ سے فلمسازی کے میدان میں پیش رفت نہ ہوسکی۔ فنکاروں کی کمی نہ تھی کیونکہ تقسیم سے قبل لاہور کی فلموں کے بہت سے فنکار بے روزگار ہوگئے تھے۔ بمبئی اور کلکتہ سے بھی کئی ایک فنکار لاہور آئے ، کچھ رہے باقی ناموافق حالات کی وجہ سے واپس چلے گئے تھے۔
بھارتی فلم ڈسٹری بیوٹرز ، بلا روک ٹوک پاکستانی سینماؤں پر اپنی فلمیں ریلیز کیا کرتے تھے۔ سالانہ سو سے زائد بننے والی بھارتی ہندی/اردو فلموں کے لیے پاکستان کے اس وقت کے سب سے بڑے شہر ، لاہور میں صرف بیس سینما گھر تھے۔ آج کی طرح ، اس وقت بھی فلم بینی چند بڑے شہروں کی مڈل کلاس تک محدود ہوتی تھی۔ بڑی بڑی فلموں کو بڑا سخت مقابلہ درپیش ہوتا تھا۔ ایسے میں اکا دکا بننے والی پاکستانی فلموں کو سینماؤں میں اپنی جگہ بنانا بڑا مشکل ہوتا تھا۔
اتنے سخت مقابلے کے باوجود روایت ہے کہ پاکستانی فلم شاہدہ (1949) نے دہلی اور لکھنو میں جوبلیاں منائیں۔ پھیرے (1949) ، دو آنسو اور لارے (1950) نے بھی شاندار بزنس کیا۔ لیکن دوپٹہ (1952) پہلی فلم ثابت ہوئی جس نے پورے بھارتی فلمی سرکٹ میں ہلچل مچا دی تھی۔ اصل میں اس فلم نے اسی تسلسل کو قائم کیا جب میڈم نورجہاں ، 1940 کی دھائی کی سپرسٹار اداکارہ اور گلوکارہ تھیں۔ تقسیم سے قبل ان کی آخری دونوں فلمیں ، جگنو اور مرزاصاحباں (1947) بھی سال کی کامیاب ترین فلمیں قرار پائی تھیں۔
پاکستان کی پہلی نغماتی اردو فلم دوپٹہ (1952) کی زبردست کامیابی ، بھارت کے بعض انتہاپسندوں کو ہضم نہیں ہوئی اور مبینہ طور پر متعدد بھارتی سینماؤں پر تخریب کاری کے واقعات رونما ہوئے جہاں یہ سپرہٹ فلم زیرنمائش تھی۔
بھارتی تعصب اور تنگ نظری کے اس ردعمل کے طور پر 29 اکتوبر 1952ء کو حکومت پاکستان نے بھارتی فلموں کی آزادانہ نمائش کو محدود کرتے ہوئے فلم تقسیم کاروں کے لیے ایک نیا قانون بنایا جس کے تحت صرف لائسنس یافتہ ڈسٹری بیوٹرز ہی پاکستانی سینماؤں کے لیے بھارتی اور امریکی فلمیں درآمد کر سکتے تھے۔ یہ اجازت نامہ صرف پاکستانی شہریوں ہی کو مل سکتا تھا۔ یہ جرات مندانہ فیصلہ پاکستان کے پہلے برطرف ہونے والے کمزور ترین وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے دور میں ہوا تھا۔
پاکستان کے اس وقت کے دونوں حصوں یعنی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے لیے الگ الگ درآمدی پالیسی وضع کی گئی تھی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بنگالیوں کو صرف اپنی مادری زبان میں بننے والی فلموں سے دلچسپی ہوتی تھی جو کلکتہ میں بڑی تعداد میں بنتی تھیں۔ اس کے برعکس موجودہ پاکستان میں بنگالی فلموں کی کوئی اہمیت نہیں تھی جہاں ہندی/اردو کے علاوہ پنجابی فلموں کی مانگ ہوتی تھی۔
لائسنس یافتہ تقسیم کاروں کے ساتھ بھارتی فلموں کی نمائش کا سلسلہ 1954ء تک چلتا رہا لیکن جب ایک معروف فلم ڈسٹری بیوٹر باری ملک نے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کے کوٹے پر درآمد کی گئی ایک بھارتی فلم جال (1952) کو 9 جولائی 1954ء کو لاہور کے ریجنٹ سینما پر ریلیز کیا تو پاکستانی فلمی انڈسٹری سراپا احتجاج بن گئی تھی۔
ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد ، شوکت حسین رضوی ، نورجہاں اور سنتوش وغیرہ جیسے سرکردہ فلمی افراد مظاہروں کی قیادت کر رہے تھے۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ بھارتی فلموں کی نمائش پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ قدرتی بات ہے کہ فلم تقسیم کاروں اور سینما مالکان کی رائے فلم انڈسٹری کے مطالبے کے بالکل برعکس تھی۔ نقص امن و عامہ کے تحت انھیں گرفتار کر کے جیل میں بھی ڈالا گیا لیکن حکومت نے آخر میں ان کے مطالبات پر غور کرنے کا وعدہ کیا۔ اس تحریک کو پاکستان کی فلمی تاریخ میں "جال موومنٹ" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
"جال موومنٹ" کے فریقین کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ بھارت کے ساتھ "بارٹرسسٹم" کے تحت فلم کے بدلے فلم کا معاہدہ کیا جائے گا۔ یہ انتہائی دانشمندانہ فیصلہ اسوقت کے وزیراعظم محمدعلی بوگرا کے دور میں ہوا جنھیں پاکستان کا پہلا "کٹھ پتلی" اور "امپورٹڈ" وزیراعظم بھی کہا جاتا ہے۔
اس تاریخ ساز فیصلے نے بڑے دوررس نتائج مرتب کیے۔ جہاں ایک طرف پاکستانی فلموں کی تعداد میں کئی گناہ اضافہ ہوا وہاں فلم تقسیم کار بھی اپنے مفادات کے لیے فلمسازی کے میدان میں کود پڑے۔ لاہور کے بعد کراچی اور ڈھاکہ میں بھی فلمیں بننا شروع ہو گئیں۔ کراچی کی پہلی فلم ہماری زبان (1955) اور ڈھاکہ کی پہلی فلم مکھ و مکھوش (1956) تھی۔ اسی سال کراچی میں پہلی سندھی فلم عمرماروی (1956) بھی بنی۔
"بارٹر سسٹم" کے اس پاک بھارت معاہدے کے مثبت نتائج کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے پہلے سات برسوں میں صرف 51 فلمیں ریلیز ہوئیں لیکن اگلے پانچ برسوں میں مزید 149 فلمیں سینماؤں کی زینت بنیں۔
1950ء کی دھائی کی فلموں نے بڑی مضبوط بنیادیں فراہم کر دی تھیں۔ پاکستانی فلمیں بنانے والے نئے اور اناڑی نہیں بلکہ تجربہ کار لوگ تھے۔ بیشتر فنکار تقسیم سے پہلے کے جانے پہچانے فنکار تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستانی اور بھارتی فلموں کے معیار اور انداز میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔
پاکستان کے ابتدائی دور میں عام طور پر ہندوآنہ کرداروں پر مبنی بڑی لبرل اور آزاد خیال سوشل فلمیں بنتی تھیں۔ اردو فلمیں زیاہ تر جرم و سزا اور پنجابی فلمیں زیادہ تر ہلکی پھلکی نغماتی اور رومانٹک موضوعات پر بنائی جاتی تھیں۔
1950ء کی دھائی میں بہت بڑی بڑی فلمیں ریلیز ہوئیں جن کی کمائی سے بڑے بڑے فلم سٹوڈیوز اور سینما گھر بنے۔ اس دور کے چند اہم واقعات کچھ اس طرح سے تھے:
دلچسپ بات یہ تھی کہ بھارتی فلموں کی موجودگی میں پاکستان میں چربہ سازی بھی ہورہی تھی اور ایسی فلمیں بڑی بڑی کامیابیاں بھی حاصل کر رہی تھیں۔ ایسی چند مثالیں ہیں:
ان "چربہ فلموں" کی بے مثال کامیابیوں سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ فلم بین صرف میعاری فلمیں دیکھنا پسند کرتے تھے۔ انھیں اس بات یا شور غوغا سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی کہ کون سی فلم یا گیت چربہ ہے ، یہ خلل بعض متعصب اور تنگ نظر فلمی صحافیوں کے دماغوں میں ہوتا تھا جو ہر کام میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ پاکستان میں جب بھی بھارتی فلموں یا گیتوں کی نقل ہوئی ، وہ عام طور پر اصل سے بدرجہا بہتر ہوتی تھی لیکن بھارت نے جب بھی پاکستانی فلموں اور گیتوں کا چربہ کیا ، وہ اونچی دکان اور پھیکا پکوان ثابت ہوا۔
پاکستان کے ابتدائی بارہ برسوں یا 1940/50 کی دھائیوں میں جہاں صرف 200 فلمیں بنیں وہاں 1960 کی دھائی میں فلموں کی تعداد 700 سے تجاوز کر گئی تھی۔ گویا ہر سال 70 سے زائد فلمیں ریلیز ہورہی تھیں۔
1960 کی دھائی میں فلم کے ہر شعبے میں بڑے بڑے نام موجود تھے لیکن پچاس کی دھائی کی طرح کی بڑی بڑی فلمیں نہ بن سکیں حالانکہ حکومت نے 1962ء میں ایک قانون کے تحت نئی بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کردی تھی اور صرف پانچ سال پرانی بھارتی فلموں کو پاکستانی سینماؤں میں دکھانے کی اجازت ہوتی تھی۔
البتہ اس دھائی میں فلموں اور فلم بینی کا ایک سنہرا دور شروع ہو چکا تھا۔ اردو فلمیں ، زیادہ تر سماجی موضوعات پر جبکہ پنجابی فلمیں دیہاتی ماحول کی طبقاتی کشمکش پر بن رہی تھیں۔ فلمی موسیقی کے لحاظ سے یہ پاکستان کی فلمی تاریخ کا سب سے سنہرا دور تھا۔
پاکستانی فلمیں ، ایک منافع بخش کاروبار بن چکا تھا اور حکومت کو تفریحی ٹیکس کی مد میں کثیر زرمبادلہ حاصل ہوتا تھا۔ ہزاروں افراد کا روزگار فلموں سے وابستہ تھا جبکہ کالا دھندہ کرنے والوں کی بھی چاندی تھی کیونکہ کالا دھن سفید کرنے کا کوئی اور بہتر ذریعہ بھی نہیں تھا۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور کے اقبال پارک میں بننے والے عظیم الشان مینار پاکستان پر جو لاگت آئی ، وہ بھی ریس کورس اور سینما کے ٹکٹوں پر اضافی ٹیکس لگا کر پوری کی گئی تھی۔
1960 کی دھائی کے اہم فلمی واقعات کچھ اس طرح سے ہیں:
24 مارچ 1961ء کو جنرل ایوب خان کی مطلق العنان حکومت نے بلا مشاورت ایک آرڈیننس کے ذریعے پہلی فلمی سنسرشپ پالیسی نافذ کی تھی۔ مرکزی سنسر بورڈ راولپنڈی میں قائم کیا گیا جبکہ مرکزی فلم انڈسٹری لاہور میں تھی لیکن انھیں سنسر سرٹیفیکیٹ کے لیے راولپنڈی جانا پڑتا تھا۔ اس زیادتی پر کوئی احتجاج بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ تھا۔
ایوبی حکومت کے زوال کے بعد 28 اگست 1970ء کو فلم اور سینما انڈسٹری نے ناجائز پابندیوں اور بے جا ٹیکسوں کے خلاف ہڑتال کر دی تھی۔ جنرل یحییٰ خان کی مارشل لاء حکومت نے مطالبات مانتے ہوئے لاہور اور کراچی میں بھی سنسربورڈ کی شاخیں قائم کر دی تھیں۔
3 ستمبر 1979ء کو جنرل ضیاع ملعون کے دور میں نیا سنسر شپ قانون نافذ کیا گیا جس میں فلمسازوں اور ہدایتکاروں کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا گیا تھا اور بہت سی پرانی پاکستانی فلموں پر پابندی لگا دی گئی تھی کیونکہ ان میں سیاسی پروپیگنڈہ ہوتا تھا۔ آمر مردود کا اصل ہدف جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ تھے جن کا بہت سی فلموں اور گیتوں میں ذکر ملتا ہے۔
سنسر شپ قانون میں آخری تبدیلی 2010ء میں ہوئی جب صدر آصف علی زرداری کے دور میں منظور کی گئی 18ویں آئینی ترمیم کے مطابق اب ہر صوبے کا اپنا اپنا سنسربورڈ ہے۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ قومی جذبات اس قدر شدید تھے کہ کسی کو اس فیصلے پر افسوس نہیں تھا۔ پاکستانی فلم انڈسٹری بھی اس قابل ہو چکی تھی کہ شائقین اور سینماؤں کی ضرورت کے مطابق فلمیں بنا سکے۔ فلموں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا اور 1968ء میں پہلی بار ایک کیلنڈر ایئر میں سو سے زائد فلمیں ریلیز ہوئیں۔
بھارتی فلموں کی پاکستانی سینماؤں میں نمائش پر پابندی کا سب سے بڑا نقصان ، پاکستانی اردو فلموں کو ہوا جن کا سب سے بڑا سرکٹ یا اصل سرکٹ یعنی بھارتی فلم سرکٹ ختم ہوگیا تھا۔ اس کا اندازہ فلمسازوں کو تب ہوا جب ملک میں بننے والی کثیر تعداد میں اردو فلمیں ناکام ہونا شروع ہوئیں۔ ان کے برعکس پنجابی اور بنگالی فلموں کی نہ صرف تعداد میں اضافہ ہوا بلکہ بزنس بھی زبردست ہوتا تھا۔ سینماؤں کی چھوٹے شہروں اور قصبوں میں تعمیر کا بڑا فائدہ بھی علاقائی فلموں کو ہوا جہاں اردو فلمیں کم ہی دیکھنے کو ملتی تھیں۔
بھارتی فلموں کی بندش کے بعد پنجاب اور پشاور سے بھارتی فلموں کے دیوانے عام طور پر کابل جا کر اپنا شوق پورا کیا کرتے تھے۔ کراچی اور حیدرآباد کے ہندوستانی مہاجر یا تارکین وطن ، اپنے عزیز و اقارب کو ملنے بھارت جاتے تو بیشتر وقت دہلی کے سینماؤں میں گزارتے اور واپسی پر پاکستانی فلموں میں سے کیڑے نکالتے اور بھارتی فلموں اور فنکاروں کی شان میں قصیدہ گوئی سے اخبارات و جرائد کے صفحات سیاہ کیا کرتے تھے۔
1970 کی دھائی میں پاکستانی فلمی کاروبار اپنے انتہائی عروج پر تھا۔ سالانہ فلموں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے دس بڑے ممالک میں شمار ہونے لگا تھا۔ اس دھائی میں پہلی بار پاکستانی فلموں کو سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوئی جس کا ذکر نیف ڈیک کے ضمن میں کیا جارہا ہے۔
1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان بھی ہوا اور ملک آدھا رہ گیا لیکن اس سے پاکستانی فلموں کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ اس دھائی میں سب سے زیادہ فلمیں ریلیز ہوئیں جن کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ گویا ہر سال کم از کم سو فلمیں سینماؤں کی زینت بنتی تھیں یا دوسرے الفاظ میں ہر ہفتے دو فلمیں ریلیز ہوتی تھیں۔ یاد رہے کہ رمضان المبارک اور عاشورہ محرم کے دنوں میں کبھی کوئی فلم ریلیز نہیں ہوتی تھی ، اس طرح سے یہ اوسط مزید بہتر ہو جاتی ہے۔
ستر کی دھائی کی اردو فلمیں عام طور رومانوی اور نغماتی کہانیاں ہوتی تھیں جبکہ پنجابی فلموں میں پرتشدد فلموں کا رحجان غالب ہوا جو آج تک جاری ہے۔ پنجابی فلموں کی تعداد اردو فلموں سے زیادہ ہو گئی تھی جس کی بنیادی وجہ تو یہی تھی کہ پاکستان بھر کے کل سینماؤں کا ساٹھ فیصد صرف صوبہ پنجاب میں ہوتا تھا جہاں پنجابی فلموں کی اہمیت زیادہ ہوتی تھی۔
1970 کی دھائی کے اہم ترین فلمی واقعات کچھ اس طرح سے تھے:
1973ء میں امرتسر میں دوردرشن کا ٹی وی سٹیشن قائم ہوا جس پر جب بھارتی فلمیں اور فلمی گیت دکھائے جاتے تھے تو لاہور کی سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔ اسی دور میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں نے ایسی شہرت حاصل کی کہ مڈل کلاس فیملیز نے سینما گھروں تک جانا چھوڑ دیا تھا۔ رہی سہی کسر VCR کی آمد نے پوری کر دی اور گھر گھر بھارتی فلمیں دیکھی جانے لگیں۔
پاکستانی فلم انڈسٹری ایک خودرو پودا رہا ہے جسے سرکاری سرپرستی نہ ملنے کی ہمیشہ شکایت رہی۔ لیکن بھٹو دور حکومت میں جہاں دیگر اصلاحات ہوئیں وہاں پہلی بار فلم انڈسٹری پر بھی توجہ دی گئی تھی۔
28 جولائی 1974ء کو ذوالفقار علی بھٹوؒ کی عوامی حکومت نے ایک سرکاری ادارے "نیشنل فلم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن" کے قیام کا اعلان کیا جس کے بنیادی مقاصد میں ایک نیشنل فلم اکیڈمی کا قیام ، میعاری فلموں کا فروغ ، پاکستانی فلموں کی بیرون ملک نمائش اور برآمد ، معیاری بدیسی فلموں کی درآمد ، نگار خانوں کو جدید ساز و سامان مہیا کرنا ، خام فلم کی درآمد ، ذخیرہ اور ترسیل ، معیاری سینماؤں کا قیام اور کراچی کے فلم سٹوڈیوز کا احیاء کے علاوہ فلمی ملازمین کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی شامل تھا۔
نیف ڈیک ، اپنے ابتدائی دور میں اپنے مقاصد کے حصول میں بڑا سرگرم رہا۔ سرکاری خرچ پر اسلام آباد میں دو جدید سینما گھر بنے ، چند فلموں پر سرمایہ کاری بھی ہوئی۔ عالمی میعار کی پہلی انگلش فلم Beyond The Last Mountain (1976) بنی۔ قیام پاکستان کی کہانی پر مبنی ، خاک و خون (1979) جیسی تاریخی فلم بھی بنائی گئی۔ لیکن ان فلموں کی ناکامی سے اندازہ ہوا کہ پاکستان میں نام نہاد قومی اور عوامی سوچ میں کس قدر تضاد ہے۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ خود فلم سازوں اور سینما مالکان نے ہی نیف ڈیک سے تعاون نہیں کیا۔ حکومت ، عالمی میعار کی فلمیں چاہتی تھی لیکن فلمسازوں کی سوچ اور پہنچ بڑی محدود تھی جبکہ سینما مالکان ، وہی غیر ملکی فلمیں درآمد کرنا چاہتے تھے جو لوگ دیکھنا چاہتے تھے۔ بیوروکریسی نے بھی اپنی روایتی نااہلی کا مظاہرہ کیا۔
بھٹو حکومت کے جاتے ہی جہاں دیگر اداروں کی تباہی ہوئی وہاں نیف ڈیک بھی نہ بچ سکا اور مسلسل زوال کے بعد جنرل مشرف کے دور میں مکمل طور پر بند کردیا گیا تھا۔
1980 کی دھائی میں سالانہ 80 کی تعداد سے 800 سے زائد فلمیں ریلیز ہوئیں۔ فلمی کاروبار اپنے عروج پر تھا اور فلموں نے بڑی بڑی جوبلیاں منائیں۔
پاکستان کے نام نہاد قومی میڈیا سے متاثر کسی شخص سے پوچھا جائے تو اس دور میں فلم انڈسٹری ختم ہوچکی تھی جو اس حد تک تو سچ تھا کہ اردو فلمیں واقعی زوال پذیر تھیں لیکن یہ دھائی مکمل طور پر ایکشن پنجابی فلموں کے نام تھی جن میں ڈائریکٹر اور رائٹر تو کہیں نظر نہیں آتا تھا ، صرف ایک ایکٹر سلطان راہی تھا جو ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ ان کی دیگر بے شمار سپرہٹ فلموں کے علاوہ ایک ہی دن ریلیز ہونے والی تین فلموں شیرخان ، سالا صاحب اور چن وریام (1981) نے بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کیے اور ڈائمنڈ جوبلیاں منائی تھیں۔ ریلیز شدہ پشتو اور اردو فلموں کی تعداد تقریباً یکساں تھی جبکہ اکلوتی ہندکو فلم قصہ خوانی (1980) بھی ریلیز ہوئی تھی۔
اس دور میں اردو فلموں کی بقاء کے لیے سری لنکا ، نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ مشترکہ فلمسازی کی گئی جبکہ چوروں کی بارات (1987) پہلی فلم تھی جو بنی تو پنجابی زبان میں تھی لیکن کراچی سرکٹ میں اسے اردو میں ڈب کر کے پیش کیا گیا تھا۔ یہ ڈبل ورژن پنجابی/اردو فلموں کے دور کا آغاز بھی تھا جو اگلی دھائی تک چلتا رہا۔
23 مئی 1980ء کو پاکستان پر قابض قانون و آئین سے ماوراء ، فوجی آمر جنرل ضیاع مردود کے خصوصی حکم پر متعدد پرانی بھارتی فلموں کو نمائش کی اجازت دی گئی۔ بھارتی فلموں کے رسیا بھوکے بٹیروں کی طرح سینماؤں پر ٹوٹ پڑے۔ روایت ہے کہ مینا کماری کی فلم نورجہاں (1967) نے کراچی میں ڈائمنڈ جوبلی کی تھی۔
اس دور میں ویڈیو کیسٹوں پر بھارتی فلمیں گھر گھر دیکھی جارہی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے میں بھارتی فلموں کی سینماؤں میں عام یا بارٹر سسٹم کے تحت نمائش کی اجازت دے دی جاتی لیکن اتنی دوراندیشی اور دانشمندی آمروں کو نصیب ہوتی تو پاکستان کا یہ حشر نہ ہوتا جو ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی وغیرہ میں سینما گھر ٹوٹنا شروع ہوگئے اور اردو فلموں کا سرکٹ مزید سکڑنا شروع ہوگیا۔
1990 کی دھائی میں بھی 73 فلموں کی سالانہ اوسط سے 700 سے زائد فلمیں ریلیز ہوئیں اور فلمی کاروبار عروج پر رہا۔ اس دھائی میں اردو اور پنجابی فلموں کی تعداد یکساں رہی۔
کیبل اور سیٹلائٹ ٹی وی کے اس دور میں دھائی کے وسط تک ایکشن پنجابی فلموں کا بول بالا رہا لیکن 9 جنوری 1996ء کو سلطان راہی کے قتل کے بعد پنجابی فلموں کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ اردو فلموں پر ایک عارضی عروج آیا لیکن اپنے محدود سرکٹ کی وجہ سے پنجابی فلموں جیسا بزنس نہ کر سکیں۔ ایسے میں فلمسازوں کو سلطان راہی کا جانشین ڈھونڈنے کا مرحلہ درپیش ہوا۔ قرعہ فال ، اداکار شان کے نام نکلا جس نے اس کمی کو پورا کیا اور نوے کی دھائی کے آخری میں ایک بار پھر ایکشن پنجابی فلموں کا دور شروع ہوا جو ایک پوری دھائی تک چلتا رہا۔
2000 کی دھائی میں بھی ایکشن پنجابی فلمیں دندناتی رہیں اور شان ، سلطان راہی کے کردار کو احسن طریقے سے سرانجام دیتے رہے۔ اردو فلمیں بھی بنیں لیکن سب سے زیادہ کاروبار پشتو فلموں نے کیا۔ گو ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد میں خاصی کمی ہوئی اور پوری دھائی میں 500 کے قریب فلمیں ریلیز ہوئیں جو تقریباً 50 کی سالانہ اوسط یا ہر ہفتے ایک فلم بنتی ہے۔
26 سال کے وقفہ کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر بھارتی فلموں کی نمائش شروع ہوئی جو 2019ء تک جاری رہی۔ 23 اپریل 2006ء کو لاہور کے گلستان سینما پر مشہور زمانہ بھارتی فلم مغل اعظم (1960) دکھائی گئی لیکن فلم مجاجن (2006) کی موجودگی میں بری طرح سے فلاپ ہوئی تھی۔ بدقسمتی سے یہ ایک یکطرفہ ٹریفک تھی کیونکہ پاکستانی فلمیں بھارت میں ریلیز نہیں ہو رہی تھیں۔ یہ ایک اور ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کا دور تھا۔
2010 کی دھائی میں ایک بار پھر اردو فلموں کو عروج حاصل ہوا اور پنجابی فلموں سے دگنی تعداد میں ریلیز ہوئیں لیکن سالانہ اوسط صرف 35 فلمیں رہ گئی۔ یہ اوسط پچاس کی دھائی سے پھر بھی بہتر تھی۔
اس دھائی میں لاہور کی فلم انڈسٹری زوال پذیر ہوئی اور اس کی جگہ کراچی کی فلم انڈسٹری نے لے لی جہاں جدید تقاضوں کے مطابق بین الاقوامی میعار کی فلمیں بننا شروع ہوئیں۔ تیکنیکی طور پر بڑی ترقی ہوئی لیکن تخلیقی میدان میں کوئی بڑا معرکہ سرانجام نہ دیا جاسکا۔ دور حاضر کی فلموں میں سب سے خستہ حالت فلمی موسیقی کی رہی جو کبھی ہماری فلموں کی پہچان ہوتی تھی۔
آج کے دور کی فلموں کو چند بڑے شہروں کے ملٹی کمپلکس سینماؤں میں صرف مڈل کلاس دیکھتی ہے۔ انٹرنیٹ نے دنیا کو ایک سمارٹ فون میں قید کر دیا ہے جہاں سوشل میڈیا پر ہر خاص و عام کی تفریح کا بھرپور سامان موجود ہے۔ ایسے میں عام آدمی کے لیے فلم کی وہ اہمیت نہیں رہی جو کبھی انھیں سینما گھروں تک کھینچ لاتی تھی اور ہفتوں ، مہینوں بلکہ برسوں سینماؤں کی زینت بنی رہتی تھی۔
2020 میں بھی گزشتہ دھائی کا تسلسل نظر آتا ہے۔ ڈیجیٹل سینما کی وجہ سے پوری دنیا میں بیک وقت فلمیں ریلیز کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح سے فلمی بزنس میں خاصا اضافہ ہوا جس کی تازہ ترین مثال دی لیجنڈ آف مولا جٹ (2022) ہے جس کی کمائی دو ارب روپوں سے زائد بتائی جاتی ہے۔
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.