Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi



Pakistan Film History

Eid Movies

Pakistan Film Magazine presents detailed Urdu/Punjabi article on Eid Movies.


عید کی فلمیں

پاکستان میں عید کی فلموں کا بزنس
ہر دور میں مثالی رہا ہے
عید مبارک (1965)
عید کے نام پر بنائی گئی کوئی فلم
عید کے دن ریلیز ہی نہیں ہوئی

پاکستان کے قیام کے 76 برسوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد فلمیں ریلیز ہوئیں۔ گویا ہر ہفتے کم از کم ایک فلم ریلیز ہوتی رہی۔

تین چوتھائی فلمیں صرف جمعتہ المبارک کے دن ریلیز ہوئیں لیکن باقی تقریباً ایک چوتھائی فلمیں عیدین یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے مواقع پر ریلیز ہوئیں اور ان کا بزنس ہر دور میں مثالی رہا ہے۔

کتنی عیدیں آئیں؟

قیام پاکستان کے صرف تین دن بعد پہلی عیدالفطر منائی گئی جس پر کوئی پاکستانی فلم ریلیز نہیں ہوئی۔ 1947ء ، 1951ء اور 1952ء میں بھارتی فلموں کی آزادانہ نمائش اور 2020ء میں کرونا کی عالمی وباء کی وجہ سے عیدین پر کوئی پاکستانی فلم سینماؤں کی زینت نہ بن سکی۔

1947ء سے 2022ء تک کل 156 عیدیں آئیں۔ ان میں سے چار سال یعنی 1968ء ، 1974ء ، 2000ء اور 2006ء ایسے سال تھے جب ایک ہی کیلنڈر ائیر میں تین تین عیدیں آئی تھیں۔

ان چار برسوں میں دو سے زائد عیدوں کی وجہ رویت ہلال کا روایتی جھگڑا نہیں بلکہ چاند کی زمین کے گرد چال ہے جو سورج کے گرد زمین کی گردش کے مقابلے میں سالانہ دس گیارہ دن کم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر 32/33 سال بعد ایک قمری سال کا اضافہ ہو جاتا ہے اور ایک شمسی سال میں تین تین عیدیں آ جاتی ہیں۔

عید کی فلموں کا بزنس

عیدین کی فلمیں

پاکستان فلم میگزین پر عید کی فلموں کے اعدادوشمار

پاکستان فلم میگزین پر عیدین پر ریلیز ہونے والی تمام فلموں کا تفصیلی ریکارڈ مرتب کیا گیا ہے جس میں عیدین پر ریلیز ہونے والی تمام فلموں کے سالانہ اعداوشمار کے علاوہ ہر دھائی کی مکمل فہرستیں بھی ترتیب دی گئی ہیں۔ بزنس ریکارڈ کے علاوہ ان فلموں کے مقبول عام گیتوں کی معلومات بھی شامل ہیں۔

پاکستانی فلموں کے سنہرے دور میں عیدین کی آمد پر فلمی کاروبار اپنے عروج پر ہوتا تھا۔ اس دن سینما گھروں کو خوب سجایا جاتا تھا اور تمام تر عملہ بڑا سرگرم ، پرجوش اور ہشاش بشاش ہوتا تھا۔ سبھی سینماؤں پر شائقین کا جم غفیر ہوتا تھا اور معمولی فلمیں بھی اچھا خاصا بزنس کر لیا کرتی تھیں۔

عام لوگوں کے لیے فلم بینی سب سے بڑی اور سستی تفریح ہوتی تھی۔ خوشیوں کے اس عظیم تہوار پر دور دراز کے دیہاتی علاقوں سے بھی شائقین فلم بڑی تعداد میں قریب ترین شہروں کے سینما گھروں کا رخ کرتے تھے اور سال بھر میں ایک آدھ بار "سیلما" دیکھ کر موج میلہ کر لیتے تھے۔

عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ

عیدین کے فلمی بزنس میں ایک واضح فرق تھا۔ عیدالفطر ، جس کو "میٹھی عید" یا "چھوٹی عید" بھی کہتے ہیں لیکن فلمی بزنس کے لیے یہ بڑی عید ہوتی تھی کیونکہ اس دن زیادہ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یکم شوال کو منائی جانے والی عیدالفطر کے بعد تین ماہ تک فلمیں بلا روک ٹوک چلتی رہتی تھیں اور خوب بزنس کیا کرتی تھیں۔

اس کے برعکس 10 ذوالحجہ کو منائی جانے والی عیدالاضحیٰ ، جس کو "بقر عید" ، "عید قربان" یا "بڑی عید" بھی کہتے ہیں ، کے صرف تین ہفتوں بعد عاشورہ محرم شروع ہو جاتا ہے جس کے احترام میں فلمی بزنس متاثر ہوتا تھا۔ اسی لیے زیادہ تر فلمسازوں کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کی فلمیں عید الفطر پر ریلیز ہوں۔

پچاس کی دھائی کی عید کی فلمیں

پچاس کی دھائی میں
عید کی فلموں کا
تناسب 23 فیصد ہوتا تھا

کی دھائی میں کل 200 فلمیں ریلیز ہوئی تھی جن میں 1940 کی دھائی کی 7 فلمیں بھی شامل ہیں۔ اس دور میں عیدین پر 45 فلمیں ریلیز ہوئیں جو کل ریلیز شدہ فلموں کا 23 فیصد بنتا ہے۔

یاد رہے کہ تقسیم کے بعد پاکستان میں بھارتی فلموں کی آزادانہ نمائش ہوتی تھی۔ 1954ء میں "فلم کے بدلے فلم" کا ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت جتنی تعداد میں پاکستان ، بھارت کو اپنی فلمیں برآمد کرتا ، اتنی ہی تعداد میں بھارتی فلمیں درآمد بھی کرتا تھا۔ ظاہر ہے کہ عیدین جیسے بڑے تہواروں پر تقسیم کار کامیاب ترین بھارتی فلمیں ہی امپورٹ کیا کرتے تھے۔ ایسے میں پاکستانی فلموں کو سینما تک نصیب نہیں ہوتے تھے۔

پہلی اردو اور پنجابی فلمیں عیدین پر ریلیز ہوئیں

ان حالات میں پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد ، 7 اگست 1948ء کو عیدالفطر کے دن لاہور کے پربھات (صنوبر یا ایمپائر) سینما میں ریلیز ہوئی اور مسلسل پانچ ہفتے تک چلتی رہی۔ اس وقت کی بڑی بڑی بھارتی فلموں کے مقابلے میں سوا ماہ تک کسی فلم کا ایک سینما پر چلنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔

پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے بھی عیدالفطر ہی کے دن یعنی 28 جولائی 1949ء کو پیلس سینما لاہور میں ریلیز ہوئی۔ یہ ایک ریکارڈ توڑ نغماتی فلم تھی جو مسلسل 25 ہفتے چل کر پہلی سپرہٹ سلورجوبلی فلم قرار پائی۔ اس دور میں کسی فلم کا سلورجوبلی کرنا بہت بڑا اعزاز ہوتا تھا۔

عیدالاضحیٰ پر پہلی اردو فلم روحی ، 11 اگست 1954ء کو ریلیز ہوئی۔ یہ پہلی فلم تھی جس پر فحاشی اور عریانی کے الزامات کی وجہ سے پابندی لگا دی گئی تھی۔

حیرت انگیز طور پر عید الاضحیٰ پر پہلی پنجابی فلم مکھڑا تھی جو 29 جون 1958ء کو جا کر ریلیز ہوئی۔ یہ فلم صبیحہ اور سنتوش کی لیجنڈ جوڑی کی واحد سپرہٹ پنجابی فلم تھی۔

پچاس کی دھائی میں 1951ء اور 1952ء دو سال ایسے تھے کہ جب عیدین پر کوئی فلم ریلیز نہ ہوسکی۔ 1959ء وہ سال تھا جب عیدین پر 11 فلمیں ریلیز ہوئیں جو اس وقت کا ایک ریکارڈ تھا۔ ان میں سے 7 فلمیں عیدالفطر اور 4 فلمیں عیدالاضحیٰ پر ریلیز ہوئی تھیں۔

عید پر پہلی فلم اور گیت

پاکستان میں عید کے نام پر تین فلمیں بنائی گئیں جن میں سے پہلی فلم عید (1951) تھی جس کے فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف اور گیت نگار ، اداکار نجم الحسن تھے جو فلم ہیررانجھا (1970) میں فردوس کے باپ کے رول میں تھے۔ اس فلم میں زینت بیگم ، نسیم اختر اور ساتھیوں کی آوازوں میں عید پر ایک گیت گایا گیا تھا:

  • عید آ گئی ، مہندی لگائیں گے ، رنگ جمائیں گے۔۔

یہ ان گنے چنے فلمی گیتوں میں سے ایک ہے جو خالص عید کے موضوع پر گائے گئے تھے۔ جہاں بھارتی فلموں میں مذہبی گیت مثلاً ہولی وغیرہ کے گیت کثیرتعداد میں ملتے ہیں ، وہاں ہماری فلمیں ایسے تکلفات سے بری ہوتی تھیں اور زیادہ تر فضول قسم کے عشق و محبت کے گیتوں سے مالا مال ہوتی تھیں۔

ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہماری فلموں کی اپنی الگ شناخت ہوتی جو زمینی حقائق اور ہماری تہذیب و تمدن کے مطابق ہوتی لیکن بدقسمتی سے دیگر شعبوں کی طرح فلم کا شعبہ بھی اپنے قومی فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہا۔

ساٹھ کی دھائی کی عید کی فلمیں

ساٹھ کی دھائی میں
عید کی فلموں کا تناسب
14 فیصد ہوتا تھا

کی دھائی میں کل 713 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے 102 فلمیں عیدین پر نمائش کے لیے پیش کی گئیں جو کل فلموں کا صرف 14 فیصد بنتا ہے۔

ساٹھ کی دھائی میں 1968ء کے سال میں عیدین پر ریکارڈ 20 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے 17 فلمیں صرف عیدالفطر کے دو دنوں میں ریلیز ہوئیں۔

1968ء میں عیدالفطر دو بار آئی تھی ، پہلی ، 2 جنوری جبکہ دوسری 11 دسمبر کو تھی۔ عیدالاضحیٰ ، 10 مارچ کو منائی گئی تھی۔ اس طرح 1968ء میں تین عیدیں ہوئیں جو عام طور پر ہر 32 یا 33 برسوں بعد ہوتا ہے کیونکہ اسلامی تہوار ، قمری تقویم کے مطابق ہوتے ہیں جو دس گیارہ دن چھوٹے ہوتے ہیں۔

چاند کا زمین کے گرد ایک چکر 29 یا 30 دن کا ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے ایک قمری مہینہ کم از کم 29 اور زیادہ سے زیادہ 30 دن کا ہوسکتا ہے۔ یہ اور بات ہے یہاں ڈنمارک میں ہمیں ایک بار 28 اور دوسری بار 31 روزے رکھنا پڑے تھے کیونکہ ہمارے نام نہاد "مسلم امہ" کے علمبردار ، اپنے اپنے چاند پر بضد تھے۔

سوہنیو ، عید مبارک

1960 کی دھائی میں فلمساز اور ہدایتکار ایس ایم یوسف کی فلم عیدمبارک (1965) ریلیز ہوئی۔ زیبا ، وحیدمراد ، رخسانہ اور حبیب مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم میں عید پر تو کوئی گیت نہیں تھا لیکن ایک بڑی ایمان افروز نعت تھی:

  • رحم کرو یا شاہ دو عالمﷺ۔۔

فلم عید مبارک (1965) کا پوسٹر بڑا دلکش تھا لیکن اس پر دو بڑی غلطیاں ہیں۔ انگلش میں فلم کا نام Eid Mubarik لکھا ہوا تھا جو غلط سپیلنگ ہیں۔ لفظ "مبارک" زیر کے ساتھ نہیں ، زبر کے ساتھ ہے جو Eid Mubarak ہونا چاہیے۔ دوسری غلطی ہلال عید کی ہے جو اصل میں ڈوبتے چاند کا منظر ہے۔

1960 کی دھائی میں عید پر دو گیت سامنے آئے جن میں فلم پگڑی سنبھال جٹا (1968) میں طفیل فاروقی کی دھن میں وارث لدھیانوی کا لکھا ہوا اور نذیربیگم اور مالا کی آوازوں میں یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا:

  • چن چن دے سامنے آگیا ، میں دوواں توں صدقے جاواں ، سوہنیو ، عید مبارک۔۔

ایسا ہی ایک گیت فلم میری بھابھی (1969) میں بھی تھا:

  • لے کے خوشی کا پیام ، یہ عید کا دن آیا سہانا۔۔

احمدرشدی ، آئرین پروین اور ساتھیوں کی آوازوں میں یہ گیت تسلیم فاضلی نے لکھا تھا اور دھن امجد بوبی نے بنائی تھی۔

ان کے علاوہ فلم عادل (1966) میں مشیر کاظمی کا لکھا ہوا اور نثار بزمی کا کمپوز کیا ہوا ایک کورس گیت تھا جو احمدرشدی ، آئرین پروین اور ساتھیوں نے گایا اور جس میں عید کا استعارہ استعمال کیا گیا تھا:

  • رُخِ زلف جو دکھاؤ تو مزہ آ جائے ، عید کا چاند دکھاؤ تو مزہ آ جائے ۔۔

ستر کی دھائی کی عید کی فلمیں

ستر کی دھائی میں
عید کی فلموں کا تناسب
15 فیصد ہوتا تھا

کی دھائی میں پاکستان میں فلمی کاروبار اپنے انتہائی عروج پر تھا جس میں سب سے زیادہ یعنی 1019 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ پہلی بار پنجابی فلموں کی تعداد اردو فلموں سے بڑھ گئی تھی جو عیدین کی 153 فلموں میں بھی نمایاں تھی۔ عیدین کی فلموں کا تناسب بھی صرف 15 فیصد تھا جس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس دھائی میں فلمی کاروبار ، عید کے دنوں کا محتاج نہیں ہوتا تھا۔

علاقائی فلموں کا رحجان

1970 کی دھائی میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے فلمی کاروبار میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ بے مثال ترقی ہوئی تھی۔ علاقائی فلموں کی فلمسازی کے صحت مند رحجان میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ پہلی پشتو فلم یوسف خان شیربانو (1970) اور پہلی گجراتی فلم ماں تے ماں (1970) بھی عیدالفطر کے دن ہی ریلیز ہوئی تھیں۔

1974ء میں بھی تین عیدیں منائی گئیں۔ عیدالفطر 18 اکتوبر کو تھی لیکن اس بار عیدالاضحیٰ دو بار آئی جو بالترتیب 5 جنوری اور 25 دسمبر کے دن تھے۔ کیسا عجب اتفاق تھا کہ بھٹو صاحب کے عوامی دور حکومت کے ایک ہی سال میں "عید قربان" کا ایک دن ، ذوالفقارعلی بھٹوؒ کی سالگرہ کا دن تھا تو "عید قربان" کا دوسرا دن ، قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی سالگرہ کا دن تھا۔۔!

عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملیے

1970 کی دھائی میں ہدایتکار ایم جے رانا کی فلم عیدداچن (1972) ریلیز ہوئی۔ پاکستان کی فلمی تاریخ میں یہ تیسری اور آخری فلم ہے جس میں عید کا نام ملتا ہے لیکن مزے کی بات ہے کہ عید کے نام کی کوئی فلم عید کے دن ریلیز نہیں ہوئی تھی۔

اس فلم میں بھی عید پر کوئی گیت نہیں تھا۔ یہ وہ دور تھا جب فردوس پر میڈم نورجہاں کے گیت نہیں فلمائے جاتے تھے اور بڑا عجیب سا لگتا تھا کہ فرسٹ ہیروئن پر کسی دوسری گلوکارہ کی آواز فلمائی جاتی تھی اور سیکنڈ ہیروئن پر میڈم کی۔

1970 کی دھائی میں عید پر دو گیت ملتے ہیں جو دونوں رومانٹک گیت ہیں اور ان کے مکھڑے بھی ایک جیسے ہیں۔ پہلا گیت فلم انگارے (1972) میں تھا:

  • عید کا دن ہے ، گلے ہنس کے لگا لو۔۔

احمدرشدی اور مالا کے گائے ہوئے اس گیت کی دھن اے حمید نے بنائی تھی اور بول کلیم عثمانی کے لکھے ہوئے تھے۔

اردو فلموں میں عید کے بارے میں سب سے مشہور گیت ہدایتکار ایس سلیمان کی فلم انتظار (1974) میں مہدی حسن کا گایا ہوا تھا:

  • عید کا دن ہے ، گلے ہم کو لگا کر ملیے ، رسم دنیا بھی ہے ، موقع بھی ہے ، دستور بھی ہے۔۔

مسرورانور کے لکھے ہوئے اس گیت کی دھن نثاربزمی نے بنائی تھی۔

اسی دور میں مہدی حسن نے اپنے فلمی کیرئر کا سب سے سپرہٹ رومانٹک پنجابی دوگانا ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ فلم دنیا پیسے دی (1971) میں گایا جس کی دھن ماسٹرعبداللہ نے بنائی اور اس شاہکار گیت کے شاعر تنویر نقوی تھے ، بول تھے:

  • چل چلیے ، دنیا دی اوس نکرے ، جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے۔۔
    ہر دن ہووے ساڈا عید ورگا ، ہر رات ساڈی شب برات ہووے۔۔

اسی کی دھائی کی عید کی فلمیں

اسی کی دھائی میں
عید کی فلموں کا تناسب
20 فیصد ہوتا تھا

کی دھائی میں ریلیز شدہ فلموں کی تعداد کم ہو کر 841 رہ گئی تھی۔ ان میں سے 172 فلمیں عیدین پر ریلیز ہوئیں۔ یہ کل فلموں کا 20 فیصد بنتا ہے یعنی ایک بار پھر عیدین کی فلموں کا تناسب بڑھنے لگا تھا۔ اس سال اوسطاً نو فلمیں فی عید ریلیز ہوئیں جو اب تک کی سب سے بہترین ایوریج تھی۔

اردو فلموں کے زوال کی وجہ؟

1980 کی دھائی ، ایکشن پنجابی فلموں کا دور تھا اور فلمی بزنس کے نئے ریکارڈز قائم ہورہے تھے۔ اس کی ایک بہت بڑی مثال ایک ہی دن یعنی 2 اگست 1981ء کو ریلیز ہونے والی تینوں فلمیں ، شیرخان ، سالا صاحب اور چن وریام تھیں جو کئی کئی سال تک سینماؤں سے چپکی رہیں اور سو سو ہفتوں سے زائد چلنے کا منفرد اعزاز حاصل کیا تھا۔

سینما ، عام آدمی کی تفریح کا سب سے بڑا مرکز اور محور بن چکا تھا لیکن صرف پنجابی اور پشتو فلموں کی حد تک۔ اردو فلمیں زوال پذیر تھیں اور اس زوال کی وجہ بھارتی فلموں کا VCR پر کھلے عام دستیاب ہونا تھا۔ اردو فلموں کے بارے میں عام تصور یہ رہا ہے کہ وہ بھارتی ہندی فلموں سے متاثر ہوتی تھیں۔ اس لیے لوگ سمجھتے تھے کہ اگر اصل دیکھنے کو مل جائے تو نقل دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ 1973ء میں جب امرتسر میں دوردشن کے ٹی وی چینل کا آغاز ہوا اور اس پر جب بھارتی فلمیں اور گانے چلتے تھے تو اس وقت لاہور کی سڑکیں اور گلیاں ، ویران و سنسان ہو جاتی تھیں۔

پاکستانیوں کو بھارتی فلموں کے سحر میں مبتلا کرنے میں جہاں ہمارے عاقبت نااندیش میڈیا کا بڑا ہاتھ رہا ہے وہاں ہماری روایتی قومی بے حسی اور بے نیازی بھی ہے جو پاکستانی قوم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔

پاکستان کی پنجابی اور پشتو فلموں کا تو دور دور تک کوئی مقابلہ نہیں تھا لیکن اردو فلمیں جن کا سرکٹ ویسے ہی بڑا محدود ہوتا تھا ، وہ بھارتی فلموں کی یلغار کا مقابلہ نہیں کر سکی تھیں۔

نوے کی دھائی کی عید کی فلمیں

نوے کی دھائی میں
عید کی فلموں کا تناسب
22 فیصد ہوتا تھا

کی دھائی میں فلموں کی تعداد میں مزید کمی ہوئی اور کل 729 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان میں سے 164 فلمیں عیدین پر دیکھی گئیں جو کل فلموں کا 22 فیصد بنتا ہے۔ گویا عید پر ریلیز ہونے والی فلموں کا تناسب بڑھنے لگا تھا۔

اس دھائی میں پشتو فلموں نے اردو اور پنجابی فلموں کو پچھاڑ دیا تھا۔ اردو فلمیں پہلے ہی زوال کا شکار تھیں ، پنجابی فلموں کو سلطان راہی کے قتل نے قتل کردیا تھا۔

یہ وہ دور تھا جب وی سی آر کی جگہ کیبل اور سیٹلائٹ ٹی وی نے لے لی اور لوگ گھر بیٹھے دنیا بھر کے ٹی وی چینل دیکھنے لگے تھے۔ پاکستان کے بیشتر غریب لوگوں کے لیے پھر بھی فلم بینی ہی واحد تفریح تھی اور قدرتی طور پر مادری زبانوں میں بننے والی فلموں سے بہتر کوئی تفریح نہیں ہو سکتی تھی۔

صفر کی دھائی کی عید کی فلمیں

صفر کی دھائی میں
عید کی فلموں کا تناسب
32 فیصد ہوتا تھا

کی دھائی میں کل 492 فلمیں نمائش کے لیے پیش ہوئیں جن میں سے 158 فلمیں عیدین پر ریلیز ہوئیں جو 32 فیصد بنتی ہے۔ گویا اب ہر تیسری فلم عید کے دن ریلیز ہورہی تھی جس سے عوام کی فلموں سے عدم دلچسپی ظاہر ہو رہی تھی۔

اس دھائی میں بھی پشتو فلموں کا رحجان غالب رہا لیکن پنجابی فلمیں بھی ایکشن فلموں کی وجہ سے چلتی رہیں اور شان نے بڑی خوبی سے سلطان راہی کی کمی کو پورا کیا تھا۔

2000ء میں بھی دو عیدالفطر منائی گئی تھیں ، پہلی 9 جنوری اور دوسری 28 دسمبر کو تھی۔ ان دو عیدوں پر کل 18 فلمیں ریلیز ہوئیں جبکہ عیدالاضحیٰ کی 5 ملا کر کل 23 فلمیں عیدین پر ریلیز ہوئی تھیں۔

2006ء میں دو بار عیدالاضحیٰ کا دن آیا تھا۔ پہلا 11 جنوری اور دوسرا 31 دسمبر کو تھا۔ عید الفطر ، 23 اکتوبر کو تھی۔ ان تین عیدوں پر کل 21 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔

دس کی دھائی کی عید کی فلمیں

دس کی دھائی میں
عید کی فلموں کا تناسب
45 فیصد ہوگیا تھا

کی دھائی میں فلموں کی مجموعی تعداد 351 تک رہ گئی تھی لیکن عیدین کی فلموں کی تعداد 157 رہی جو کل فلموں کا 45 فیصد بنتی ہے۔ گویا اب آدھی فلمیں صرف عید کے موقع پر ہی ریلیز ہونے لگی تھیں۔

انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کے اس دور میں آن لائن ویڈیوز نے سینما ، ٹی وی ، سٹیج اور ریڈیو کی اہمیت کم کر دی ہے۔ لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ سہولت کتنے پاکستانیوں کو میسر ہے۔ آج بھی پاکستان کی نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ان بے چاروں کی جو واحد تفریح ہوتی تھی یعنی فلم بینی ، وہ بھی ان سے چھن گئی ہے۔

2015ء میں عیدین پر 24 فلمیں ریلیز ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

بیس کی دھائی کی عید کی فلمیں

بیس کی دھائی کا آغاز ہی
کرونا کی وباء سے ہوا تھا

کی دھائی کا آغاز ہی کرونا کی تباہ کن وباء سے ہوا جس نے کرہ ارض کو جام کردیا تھا۔ سات دھائیوں بعد عیدین کے موقع پر کوئی فلم ریلیز نہیں ہوئی۔ 1921/22 کی فلموں کا ریکارڈ ابھی اپ ڈیٹ نہیں ہو سکا۔ 2023ء میں متعدد فلمیں عیدالفطر پر ریلیز ہو رہی ہیں۔

یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ 1950/60 کی پہلی دو دھائیوں میں اردو فلموں کو اجارہ داری حاصل تھی۔ 1970/80 کے عشروں میں پنجابی فلموں کو برتری حاصل رہی جبکہ 1990/2000 کے دور میں پشتو فلمیں چھائی رہیں۔

2010/20 کی دھائیوں میں ایک بار پھر اردو فلموں کی اجارہ داری قائم ہوئی لیکن صرف چند بڑے شہروں کے لگژری سینماؤں تک ، جہاں عام آدمی کی پہنچ نہیں ہو پاتی۔ اس طرح ایک بار پھر فلم کو مڈل کلاس کی پسند بنا دیا گیا ہے ، جس کی جیب بھاری ہوگی ، وہی ان عالی شان سینماؤں میں جانے کا تصور کر سکتا ہے۔۔!



Sheru
Sheru
(1973)
Parvaz
Parvaz
(1954)
Shani
Shani
(1989)
Chakori
Chakori
(1967)
Pazeb
Pazeb
(1972)

Roti
Roti
(1968)
Shahida
Shahida
(1949)
Aarzoo
Aarzoo
(1965)
Tehzeeb
Tehzeeb
(1971)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.