خلیفہ نذیر ، ایک مشہور مزاحیہ اداکار جو بیشتر فلموں میں ایک ”ولن کامیڈین“ کے طور پر نظر آتے تھے۔۔!
ولن کے تمام چیلوں ، چمچوں اور گماشتوں میں جو سب سے زیادہ معتبر ، چہیتا ، سیانا ، پھرتیلا ، چرب زبان اور 'مشیرخاص' ہوتا تھا ، وہ کردار عام طور پر خلیفہ نذیر کا ہوتا تھا۔
ایک ایسا شخص جو اپنے مالک اور آقا کی خوشامد اور چاپلوسی کے علاوہ الٹی سیدھی پٹیاں پڑھانے اور اُوٹ پٹانگ مشورے دینے کے علاوہ بعض اوقات کھری کھری بھی سنا دیتا تھا لیکن اس ”انوکھے لاڈلے“ کو سات خون معاف ہوتے تھے۔۔!
پنجاب میں ہمیشہ سے پنجابی فلموں کا راج رہا ہے۔ ساٹھ کے عشرہ کے سنہرے دور میں کامیڈی کے میدان میں رنگیلا اور منورظریف کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ خلیفہ نذیر اور زلفی بھی مزاحیہ اداکاری میں بڑے نام تھے لیکن انھیں کبھی ان دونوں جیسا مقام حاصل نہیں ہوا۔ اس کے باوجود ڈیڑھ سو کے قریب فلموں میں کام کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔
پاکستان فلم میگزین پر خلیفہ نذیر کے 2005ء میں انتقال پر ایک تفصیلی مضمون لکھا گیا تھا جس میں ان کی خاص خاص فلموں اور کرداروں کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس وقت کی معلومات کے مطابق ، پہلی فلم خون کی پیاس (1963) درج تھی لیکن تازہ ترین تحقیق کے مطابق ان کی پہلی فلم جمالو (1962) تھی۔ دیگر اہم فلموں میں زمیندار (1966) ، روٹی (1968) ، مکھڑا چن ورگا (1969) ، ماں پتر (1970) ، دولت اور دنیا (1972) ، مستانہ (1973) ، پیار ہی پیار (1974) اور باؤ جی (1983) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
مزاحیہ گیتوں کا ریکارڈ
پاکستانی فلموں کے پہلے دو عشروں میں تقریباً ہر فلم میں مزاحیہ اداکاروں پر گیت فلمائے جاتے تھے۔ پچاس کے عشرہ میں جہاں عنایت حسین بھٹی ، فضل حسین ، سلیم رضا ، منیر حسین اور باتش جیسے پیشہ ور گلوکار مزاحیہ گیت گاتے تھے وہاں شوقیہ گلوکار اور مزاحیہ اداکار ظریف نے بھی تیس کے قریب ایسے گیت گائے تھے۔
ساٹھ کی دھائی میں احمدرشدی ، مسعودرانا ، شوکت علی اور مجیب عالم جیسے پروفیشنل گلوکاروں کے علاوہ رنگیلا اور منورظریف نے بھی مزاحیہ گیت گائے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مزاحیہ گیت گانے میں احمدرشدی کا کوئی ثانی نہیں تھا جو ایسے گیتوں میں طرح طرح کی آوازیں نکالنے اور بہترین تاثرات دینے کے ماہر تھے۔ پنجابی فلموں میں ان کے نوے فیصد گیت مزاحیہ ہی ہوتے تھے۔
میرا خیال تھا کہ سبھی نامور مزاحیہ اداکاروں پر زیادہ تر احمدرشدی کے گیت فلمائے گئے ہوں گے۔ اردو فلموں کے مزاحیہ اداکاروں یعنی لہری اور نرالا کی حد تک تو ایسا ہی تھا لیکن رنگیلا پر ففٹی ففٹی اور دیگر مزاحیہ اداکاروں یعنی منورظریف ، خلیفہ نذیر ، زلفی ، ننھا اور علی اعجاز پر زیادہ تر مسعودرانا کے گائے ہوئے مزاحیہ گیت فلمائے گئے تھے۔
خلیفہ نذیر پر فلمائے ہوئے گیت
ریکارڈز کے مطابق خلیفہ نذیر پر پہلی بار ایک فلمی قوالی
- خدا بچائے ، اداؤں سے ماہ جمالوں کی۔۔
فلمائی گئی تھی جو فلم باپ کا باپ (1964) میں موسیقار ماسٹرتصدق حسین کی دھن میں منیر حسین ، احمدرشدی ، قادرآفریدی ، آئرن پروین ، زاہد پروین اور ساتھیوں کی آوازوں میں تھی۔ ایسی ہی ایک مزاحیہ قوالی ، فلم ہیرسیال (1965) میں بھی تھی
- کہہ گئے شاہ تنویر ، دنیا نے ہیرا پھیری دا ناں رکھیا تقدیر۔۔
بخشی وزیر کی دھن میں تنویرنقوی کا لکھا ہوا یہ سبق آموز گیت گلوکار مظفر نے ساتھیوں سمیت گایا تھا۔ مظفر نے اس فلم میں ایک بڑا خوبصورت گیت گایا تھا
- اج ہنجو ساتھوں روکیاں نہ رکدے ، نی ہاسے کھو کے جان والیے۔۔
درجن بھر گیت گا کر یہ گلوکار گمنام ہوگیا تھا۔
خلیفہ نذیر پر دوسرا گیت ، فلم چاچاجی (1967) میں فلمایا گیا تھا
اے پیاں نیں ریوڑیاں تے اے پیا ای حلوہ۔۔
جا پوچھ محلے والوں سے ، ہے مجھ کو تجھ سے پیار۔۔
فلم امام دین گوہاویہ (1967) میں خلیفہ نذیر کی جوڑی منورظریف اور زلفی کے ساتھ ہوتی ہے جو مختلف تقاریب میں گاتے ہیں۔ یہ دونوں الگ الگ کورس گیت
- لوری دیواں لال نوں میں سوہنے لال نوں۔۔
- نچی جاؤ کالیو ، تسیں نچی جاؤ ، گوریوں دی اکھ دے اشاریاں تے نچی جاؤ۔۔
بڑے دلچسپ اور اشارتی گیت تھے جن میں منورظریف ، صدیق اور مظفر کی آوازیں تھیں۔ یہ دونوں گیت اداکار اور کہانی نویس سکیدار نے لکھے تھے جو عام طور پر انگریز راج کے خلاف فلمی کہانیاں لکھتے تھے۔
یہ فلم اکمل کی زندگی میں ریلیز ہونے والی ان کی آخری فلم تھی۔
خلیفہ نذیر اور مسعودرانا کا ساتھ
خلیفہ نذیر کا مسعودرانا کے ساتھ پہلا گیت فلم اکبرا (1967) میں تھا۔ یہ فلم ، خلیفہ نذیر اور ان کے بھائیوں خلیفہ سعید احمد اور خلیفہ خورشید احمد کے فلمساز ادارے ”زمر پکچرز“ کی پہلی پیش کش تھی جو کامیاب رہی تھی۔ وقت کے سپرسٹار فلمی ہیرو اکمل کے اچانک انتقال کے بعد ریلیز ہونے والی یہ ان کی پہلی فلم تھی۔
نذیرعلی کی دھن میں یہ مزاحیہ کورس گیت زندگی کے بہت سے حقائق بیان کرتا ہے
- سن ہاڑے او بابا لڈنا ، بھکھیاں بے رزگاراں دے ، کرلے نقد بہ نقدی سودا ، نئیں کم ادھاراں دے۔۔
اس کورس گیت میں مسعودرانا نے منورظریف ، امدادحسین اور سلیم چوہدری کے ساتھ گائیکی کی تھی اور صاف محسوس ہوتا تھا کہ جب ایک اعلیٰ پائے کا پروفیشنل گلوکار اتنی آوازوں میں اپنی منفرد پہچان کیسے قائم رکھتا ہے۔
خلیفہ نذیر کے مرکزی کامیڈین کے طور پر فلم روٹی (1968) بڑی یادگار فلم تھی جس میں احمدرشدی اور آئرن پروین کا یہ خوبصورت گیت
- سنو ، محلے دارو لوکو ، آکے میرے وین ، میں منیاں سی اینکل ٹینکل ، اے نکلی جے ڈین۔۔
ان پر فلمایا گیا تھا۔ ساتھ میں رضیہ اور رنگیلا ہوتے ہیں۔ اسی سال کی فلم عورت اور زمانہ (1968) میں خلیفہ نذیر پر پہلا سولو گیت فلمایا گیا تھا
- آچا ، سارے گاما ، ناچ کے دکھا گوری کو۔۔
یہ گیت 'رنگیلا کراچی والا' نامی کسی گمنام فنکار نے گایا تھا جس کے کریڈٹ پر صرف دو فلمی گیت ملتے ہیں جبکہ ایک آدھ فلم میں اس نے اداکاری بھی کی تھی۔
فلم سوہنا (1968) میں امدادحسین اور ساتھیوں کا یہ مزاحیہ کورس گیت
- نین سے نین ملائے رکھنے کو جی۔۔
رنگیلا اور خلیفہ نذیر وغیرہ پر فلمایا گیا تھا۔ ایسے کئی کامیڈی گیت ہوتے تھے جو اصل گیتوں کی پیروڈی ہوتے تھے اور انھیں بڑی خوبصورتی سے بگاڑا جاتا تھا۔
فلم جوانی مستانی (1968) پر حامدعلی بیلا ، آئرین پروین اور ساتھیوں کی گائی ہوئی قلندری دھمال
- لال میری پت رکھیو بھلا جھولے لالن۔۔
بھی خلیفہ نذیر اور ساتھیوں پر فلمائی گئی تھی۔ یہ مشہور زمانہ دھمال پہلی بار فلم جبرو (1956) میں گائی گئی تھی جو بعد میں کئی ایک فلموں میں شامل کی گئی تھی اور فلم دلاں دے سودے (1969) کی دھمال کو سب سے زیادہ شہرت ملی تھی۔
او ویکھو ، سائیکل تے ٹر چلے
خلیفہ نذیر پر ایک یادگار اور مقبول مزاحیہ گیت فلم جگ بیتی (1968) میں فلمایا گیا تھا
- او ویکھو ، سائیکل تے ٹر چلے ، جناں نیں آنا گڈی تھلے ، اسیں رہ گئے کلم کلے ، ساڈی ٹکٹ گواچی اے۔۔
یہ گیت احمدرشدی ، مسعودرانا اور آئرن پروین نے گایا تھا ، دیگر دونوں اداکار منورظریف اور رضیہ تھے۔ اس فلم میں بھی خلیفہ نذیر فلم کے ولن مظہرشاہ کا چیلا ہوتا ہے جو اپنے ٹریکٹر کی دھونس جما کر غریب سائیکل سوار منورظریف سے رضیہ کو جیتنا چاہتا ہے لیکن ناکام رہتا ہے۔
میری پسندیدہ ترین فلموں میں سے یہ ایک فلم تھی جس میں خلیفہ نذیر کا تکیہ کلام ہوتا ہے “لاواں پلاس۔۔!“
فلم دیا اور طوفان (1969) میں خلیفہ نذیر کو ایک اہم رول ملا تھا جو رنگیلا اور منورظریف کے ساتھی ہوتے ہیں اور رضیہ کے عشق میں بے جان مجسمے بنا دیے جاتے ہیں۔ ان تینوں پر یہ مزاحیہ گیت بھی فلمایا گیا تھا
- سنو رے دل والوں ، ان حسینوں سے دل نہ لگانا۔۔
رنگیلا ، منورظریف ، مجیب عالم اور نسیم بیگم کی آوازیں تھیں۔ رنگیلا نے اس فلم میں فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف ، گلوکار اور اداکار بن کر اہل فن کو حیران و پریشان کر دیا تھا۔
برطانیہ میں بنائی گئی پہلی پنجابی فلم پہلوان جی ان لندن (1971) کا ایک کردار خلیفہ نذیر بھی تھے جن پر منیر حسین ، امدادحسین اور ساتھیوں کی آوازوں میں یہ کورس گیت فلمایا گیا تھا
- رل کے لڈیاں پایئے بیلیو ، شیر پنجاب دا جتیا بازی۔۔
یہ بھنگڑا گیت لندن کے ایک پارک میں فلم بند ہوا تھا۔ نامور کوریوگرافر حمیدچوہدری نے بھی اس بھنگڑے میں حصہ لیا تھا۔ حیدرچوہدری اس فلم کے ہدایتکار تھے اور ساون نے ٹائٹل رول کیا تھا۔
خلیفہ نذیر بطور ہیرو
خلیفہ نذیر کے فلمی کیرئر کی سب سے یادگار فلم مستانہ (1973) تھی جس میں وہ پہلی اور آخری بار ہیرو آئے تھے۔ آسیہ ہیروئن تھی لیکن فلم بینوں نے انھیں اس روپ میں قبول نہیں کیا تھا۔ ان کے ذاتی ادارے ”زُمر پکچرز“ کی یہ فلم تھی جس کے ہدایتکار الحامد تھے۔
اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ خلیفہ نذیر پر مسعودرانا کے گائے ہوئے سات گیت فلمائے گئے تھے جو لاہور کی فلموں کی حد تک ایک ریکارڈ تھا کہ کسی ایک گلوکار کے اتنے گیت ، کسی ایک اداکار پر ، کسی ایک ہی فلم میں فلمائے گئے تھے۔
سابقہ مشرقی پاکستان میں بنائی جانے والی فلم درشن (1967) میں گلوکار بشیراحمد نے آٹھ گیت گائے تھے جو سبھی فلم کے ہیرو رحمان پر فلمائے گئے تھے ، یہ ایک ریکارڈ تھا۔ بشیراحمد کا ریکارڈ اس لیے بھی لاجواب تھا کہ وہ ان گیتوں کے گلوکار ہونے کے علاوہ موسیقار اور نغمہ نگار بھی تھے۔
اس کے بعد عدنان سمیع خان نے فلم سرگم (1995) میں گیارہ گیت گائے تھے جو سبھی انھی پر فلمائے گئے تھے ، ان گیتوں کے موسیقار بھی وہ خود تھے۔
مسعودرانا کے ایک فلم میں سات گیت
مسعودرانا کے لیے فلم ہمراہی (1966) کے بعد یہ دوسرا موقع تھا کہ جب انھوں نے کسی فلم کے لیے سات گیت گائے تھے۔ کمال احمد موسیقار تھے جو خود سکرین پر آکر ایک گیت کی تعریف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
فلم مستانہ (1973) میں خلیفہ نذیر پر فلمائے ہوئے گیتوں میں بڑی ورائٹی تھی جیسے
- اس دنیا کو انسان کی پہچان نہیں ہے۔۔
ایک سنجیدہ اور بامقصد گیت تھا۔
- کوئی مجھ کو بھی ہیرو بنا دے تو پھر میرا کام دیکھنا۔۔
ایک شوخ اور کامیڈی گیت تھا۔
- آج غم ہے تو کیا ہے ، وہ دن بھی ضرور آئے گا۔۔
ایک المیہ گیت تھا۔
- کوئی حسینہ ، میرا دل مانگے ، انکار نہ ہوگا۔۔
ایک رومانٹک گیت تھا اور
- ٹھمک ٹھمک چلا گوری جیسے گجریا۔۔
ایک نیم کلاسک گیت تھا جو مسعودرانا جیسے ہرفن مولا گلوکار پر موسیقار کمال احمد کے اعتماد کا اظہار تھا۔
خلیفہ نذیر نے اپنی سی کوشش کی تھی کہ اپنی پرفارمنس سے خود کو منوا سکیں لیکن اپنی ڈیل ڈول سے وہ ہیرو نہیں لگتے تھے ، ویسے بھی کامیابی میں قسمت کا عمل دخل بہت ہوتا ہے اور اب ہر کوئی رنگیلا بھی نہیں ہوتا۔۔!
خلیفہ نذیر کی آخری فلموں میں سے ایک فلم باؤجی (1983) تھی جس میں انھوں نے اداکار ننھا کے ساتھ ایک بھانڈ کا رول کیا تھا۔ اس فلم میں ان دونوں پر گلوکار محمدصادق اور حسن صادق کا گایا ہوا یہ مشہور گیت فلمایا گیا تھا
- آندیاں نصیباں نال اے گھڑیاں ، تیرے سہرے نوں سجایا ڈاہڈا پھل کلیاں۔۔
خلیفہ نذیر نے فلموں میں کام کرنے کے بعد فلمی دنیا کی فلاح و بہبود کے لیے بھی بڑا کام کیا تھا۔ 2005ء میں انتقال ہوا تھا۔
(8 اردو گیت ... 2 پنجابی گیت )