Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


آشا پوسلے

آشا پوسلے
پاکستان کی پہلی فلمی ہیروئن تھی
اداکارہ آشا پوسلے ، فلم بدنامی (1946) کے پوسٹر پر
آشا پوسلے ، فلم بدنامی (1946) کے پوسٹر پر

آشا پوسلے ، پاکستان کی پہلی ریلیز شدہ فلم تیری یاد (1948) کی پہلی ہیروئن تھی۔۔!

آشا پوسلے ، اس وقت کے فلم بینوں کے لیے کوئی نیا چہرہ نہیں تھا بلکہ قیام پاکستان سے قبل لاہور میں بننے والی ایک درجن سے زائد فلموں میں ہیروئن اور معاون اداکارہ کے طور پر کام کر چکی تھی۔ گو ایک فلمی ہیروئن کے طور پر ناکام رہی لیکن پاکستان کی پہلی آل راؤنڈ اداکارہ تھی جو سائیڈ ہیروئن ، ویمپ اور کامیڈی کرداروں میں بڑی کامیاب رہی تھی۔

آشا پوسلے کی پہلی فلم

آشا پوسلے کو پہلی بار قیام پاکستان سے قبل لاہور میں بننے والی ایک نغماتی پنجابی فلم گوانڈھی میں دیکھا گیا تھا جو 25 جون 1942ء کو صنوبر یا پربھات سینما میں ریلیز ہوئی تھی۔

اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے ہیرو شیام کی یہ پہلی فلم تھی جنھوں نے بڑی مختصر مدت میں تیس سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔ دل لگی (1949) ان کی بہت بڑی فلم تھی لیکن صرف 31 سال کی عمر میں ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران گھوڑے سے گر کر ہلاک ہو گئے تھے۔

اداکار شیام ، سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے ایک ہندو تھے لیکن شادی ایک مسلمان عورت سے کی تھی جس کے بطن سے پاکستان ٹی وی کی نامور اداکارہ اور پروڈیوسر سائرہ کاظمی پیدا ہوئی جو اداکار راحت کاظمی کی بیوی ہے۔

80 سال قبل ریلیز ہونے والی فلم گوانڈھی (1942) کا ذکر ہو اور اس کے گیتوں کا ذکر نہ ہو ، یہ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ یہ ایک اعلیٰ پائے کی نغماتی فلم تھی جس میں لاہور سینٹر کے مستقل گلوکاروں ، زینت بیگم اور ایس ڈی باتش کے گائے ہوئے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ بھلا ہو یوٹیوب پر پرانے گیت اپ لوڈ کرنے والوں کا ، ماضی کے کیسے کیسے شاہکار گیت دریافت ہورہے ہیں:

  • غم ، دل نل لگا رکھیے ، اے چیز بیگانی اے ، یاراں دا سنہیڑا اے ، سجناں دی نشانی اے۔۔
  • مکھناں دیے پلیے نی ، مٹھی مٹھی گل کر جا ، مشری دیے ڈلیے نی۔۔
  • مزے وچ رہندے ساں ، جد کوئی یار نئیں سی۔۔
  • بلو ، ویکھ ، میں کنا لما ، توں تے مرجائیں ، لالٹین جئی۔۔
  • پگڑی سنبھال جٹا ، تیرا لٹ لیا مال اوئے۔۔

آشا پوسلے ، تقسیم کے قبل بطور ہیروئن

آشا پوسلے نے قیام پاکستان سے قبل صرف لاہور میں بننے والی فلموں میں کام کیا تھا۔ ایک درجن سے زائد فلموں میں سے چار فلموں میں مرکزی کرداروں میں تھی۔ فرسٹ ہیروئن کے طور پر پہلی فلم کملی (1946) کے ہیرو امرناتھ تھے۔ لاہور میں فیروزپور روڈ پر واقع لیلا مندر فلم سٹوڈیو میں بنائی گئی اس پنجابی فلم کے موسیقار ، ماسٹر عنایت حسین تھے جن کی یہ پہلی فلم تھی۔

اسی سال لاہور میں بننے والی شوری پکچرز کی ہندی/اردو فلم بدنامی (1946) کے فلم پوسٹر پر آشا پوسلے کو بڑے پرکشش انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ ایک بولڈ قسم کی فلم لگتی ہے جس میں نامور بھارتی ولن اداکار پران ، ہیرو تھے جو فلم پرائے بس میں (1946) کے علاوہ برسات کی ایک رات (1949) میں بھی آشا پوسلے کے ہیرو تھے۔ یہ فلم بنی تو لاہور کے ملتان روڈ پر واقع شوری سٹوڈیوز (بعد میں شاہ نور سٹوڈیوز) میں میں تھی لیکن تقسیم کے بعد ریلیز ہونے والی آشا پوسلے کی ایک بھارتی فلم شمار کی گئی تھی۔

لاہور کی ایک اور نامکمل فلم وساکھی یا بیساکھی (1951) ، آشا پوسلے کی آخری فلم تھی جو ایک بھارتی پنجابی فلم کے طور پر ریلیز ہوئی تھی۔ یقیناً 1947ء کے فسادات کی وجہ سے لاہور کی ان نامکمل فلموں کی تکمیل کے لیے آشا پوسلے نے بمبئی یا کلکتہ کا سفربھی کیا ہوگا لیکن ایسی کسی فلم کا حوالہ نہیں ملتا کہ لاہور کے علاوہ آشا پوسلے کو کسی اور سینٹر نے براہ راست فلموں میں کاسٹ کیا ہو۔

آشا پوسلے ، پاکستان میں بطور ہیروئن

قیام پاکستان کے ایک سال بعد لاہور کے تباہ شدہ فلم سٹوڈیوز کی بحالی کے بعد جب پہلی فلم تیری یاد (1948) بنی تو پاکستان کی پہلی فرسٹ ہیروئن کے لیے آشا پوسلے کا انتخاب ہوا۔ یہ اعزاز اسے شاید حاصل نہ ہوتا اگر وہ پنچولی فلم سٹوڈیوز کے مالک دیوان سرداری لال کی منظور نظر نہ ہوتی۔ اس فلم میں اس کے ہیرو دلیپ کمار کے بھائی ناصرخان تھے جو ایک اور فلم شاہدہ (1949) میں کام کرنے کے بعد بھارت چلے گئے تھے۔ اس فلم پر بڑا تفصیلی مضمون لکھا جا چکا ہے جو یہاں دھرانے کی ضرورت نہیں۔

آشا پوسلے کی بطور ہیروئن ، دوسری فلم غلط فہمی (1950) بھی دیوان سرداری لال کی بنائی ہوئی دوسری اور آخری پاکستانی تھی۔ پہلے یہ "مس 49" کے نام سے بن رہی تھی۔ اس فلم میں آشا پوسلے کے ہیرو جہانگیر خان تھے جو ایک اور ناکام اداکار تھے۔ آشا کے والد ، عنایت علی ناتھ نے دوسری اور آخری بار موسیقی ترتیب دی تھی اور مزاحیہ اداکار نذر کے علاوہ اپنی بیٹی ، آشا پوسلے سے بھی گیت گوائے تھے۔ اس فلم کے چند گیت یوٹیوب پر موجود ہیں۔ ریکارڈز کے لیے آشا پوسلے کے گائے ہوئے فلم غلط فہمی (1950) کے پانچوں گیت کچھ اس طرح سے ہیں:

آشا پوسلے ، بطور گلوکارہ

  • ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے ، تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے۔۔
  • او مورا ننھا جوبنا دبانے نہ دبے ، چھپائے نہ چھپے۔۔
  • روپ کی بدلی ، چھائی جوانی ، میری جان ، ہپ ہپ پھرے۔۔ (مع نذر اور ساتھی)
  • اک ٹاک کروں ، سو ٹاک کرو ، تیری میری نئیں نبھنی۔۔ (مع نذر)
  • ہائے نی باگڑ بلو ، چل تیری انگریزی نی بلو۔۔ (مع نذر)
فلم غلط فہمی (1950) کے گیتوں کے علاوہ آشا پوسلے نے پاکستان میں اپنی پہلی فلم تیری یاد (1948) میں بھی نغمہ سرائی کی تھی جن کا ذکر اس فلم کے صفحہ پر ہے۔ آشا پوسلے کا آخری گیت فلم من موجی (1965) میں "سن میری بھابھی ، تینوں نچناں نہ آوے۔۔" تھا جو آئرن پروین کے ساتھ تھا اور فلم میں شیریں ، فردوس اور رضیہ پر فلمایا گیا تھا۔

سدھیر کی پہلی پنجابی فلم

پاکستانی فلموں کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر کی پہلی پنجابی فلم بلبل (1955) تھی۔ آشا پوسلے کو ان کی پہلی پنجابی فلمی ہیروئن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا جس کی یہ بطور سولو ہیروئن پہلی پنجابی اور تیسری پاکستانی فلم تھی۔ بابا چشتی کی موسیقی میں کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔

تقسیم سے قبل آشا پوسلے کی بطور فرسٹ ہیروئن چار فلمیں تھیں جن میں ایک پنجابی اور باقی تینوں ہندی/اردو فلمیں تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقسیم کے بعد بھی پاکستان میں بھی آشا پوسلے کی فرسٹ ہیروئن کے طور پر چار ہی فلمیں ملتی ہیں جن میں ایک پنجابی اور باقی تینوں اردو فلمیں تھیں۔

آشا پوسلے کی بطور ہیروئن چوتھی اور آخری فلم چنگیز خان (1959) تھی جس میں اس کے ہیرو کامران نامی ایک اداکار تھے جو اصل میں ریڈیو پاکستان پشاور کے ایک فنکار تھے۔ نسیم حجازی کے ناول "آخری چٹان" پر بنائی گئی اس تاریخی فلم کا ٹائٹل رول فلمساز چوہدری حسن دین نے کیا تھا۔ ریکارڈز بکس میں یہ ناکام فلم اپنے ایک لازوال جنگی ترانے:

  • اے مرد مجاہد جاگ ذرا ، اب وقت شہادت ہے آیا ، اللہ اکبر۔۔
کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ لافانی ترانہ عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں کی آوازوں میں تھا جس کو لکھا طفیل ہوشیارپوری نے تھا اور دھن رشید عطرے صاحب نے بنائی تھی۔

آشا پوسلے ، ویمپ کے طور پر

آشا پوسلے کی پہلی دونوں فلمیں ، تیری یاد (1948) اور غلط فہمی (1950) بطور فرسٹ ہیروئن تھیں جو ناکام رہی تھیں۔ شعلہ (1952) پہلی فلم تھی جس میں وہ سائیڈ ہیروئن کے رول میں نظر آئی لیکن اس کو معاون اور منفی کرداروں میں عروج فلم سسی (1954) (1954) سے ملا۔ اس فلم کا مشہور گیت "نہ یہ چاند ہو گا نہ تارے رہیں گے۔۔" کوثر پروین اور پکھراج پپو کی آوازوں میں تھا اور صبیحہ خانم اور آشا پوسلے پر فلمایا گیا تھا۔ اسی فلم میں آشا پوسلے نے اپنی رقص کی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا جب اس کی سگی بہن کوثر پروین کا اس پر یہ گیت فلمایا گیا تھا "ناچ ناچ گے گا ری مغنیہ ، ایسا آج ترانہ۔۔"

1950 کی دھائی کی بیشتر فلموں میں آشا پوسلے نے ویمپ کے رول کیے اور ایک کامیاب معاون اداکارہ ثابت ہوئی تھی۔ ایسے کرداروں میں ایک یادگار فلم انتظار (1956) بھی تھی جس میں اس نے ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ کام کیا تھا۔ عشق لیلیٰ (1957) کے علاوہ نوکر (1955) ، قسمت ، چھوٹی بیگم ، حاتم اور گڈی گڈا (1956) وغیرہ بڑی بڑی فلمیں تھیں۔

آشا پوسلے ، مزاحیہ کرداروں میں

آشا پوسلے کو 1950/60 کی دھائی میں ویمپ کے کرداروں کے علاوہ کامیڈی کرداروں میں بھی بڑا پسند کیا جاتا تھا۔ بہت سی فلموں میں اس کی جوڑی ، نذر اور آصف جاہ کے ساتھ تھی۔ ایسے کرداروں میں فلم پتن (1955) پہلی بڑی فلم تھی جس میں اس کی جوڑی نذر کے ساتھ تھی اور ان پر زبیدہ خانم اور عنایت حسین بھٹی کا یہ دلچسپ کامیڈی گیت بھی فلمایا گیا تھا "وے بھیڑا بوتھا لے جا نظر (نذر) توں دور۔۔"

فلم دلا بھٹی (1956) میں آشا پوسلے کا شیخ اقبال کی بے وفا بیوی اور آصف جاہ کی لالچی محبوبہ کا رول فلم کی جان تھا۔ فلم ماں کے آنسو (1963) میں علاؤالدین کے ساتھ ایک کثیرالاولاد عورت کا کامیڈی رول بھی ناقابل فراموش تھا۔ فلم بے قصور (1970) میں آشا پوسلے اور رنگیلا پر احمدرشدی اور تانی کا یہ گیت فلمایا گیا تھا "غور سے مجھ کو دیکھ کہ میں ہوں لاکھوں میں ایک۔۔" مسعود رانا کے ساتھ آشا پوسلے کی تیس سے زائد مشترکہ فلمیں تھیں لیکن کوئی مشترکہ گیت نہیں ملتا۔

آشا پوسلے ، معاون اداکارہ کے طور پر

1960 کی دھائی میں جب فلمی کاروبار عروج پر تھا اور فنکاروں کی بھرمار تھی تو آشا پوسلے کی اہمیت کم ہوگئی تھی۔ اس دور میں اسے بہت کم فلموں میں کاسٹ کیا جاتا تھا۔ اگر کوئی رول مل بھی جاتا تھا تو وہ ایک چھوٹا موٹا غیر اہم سا رول ہوتا تھا جو عام طور پر کسی نائیکہ یا کامیڈین کی ماں کا ہوتا تھا۔ ایسے میں جب اردو فلموں کے سپرسٹار وحیدمراد نے اپنی پہلی پنجابی فلم مستانہ ماہی (1971) بنائی تو انھوں نے فلم بینوں کو حیران کرتے ہوئے اپنی ماں کے سنجیدہ کردار میں آشا پوسلے کو کاسٹ کیا تھا۔ اس سے قبل وہ اپنی مشہور زمانہ فلم ارمان (1966) میں ببو نامی ایک اور متنازعہ اداکارہ کو بھی اپنی ماں کے کردار میں کاسٹ کر چکے تھے۔

پاکستان کے ابتدائی دور کی فلمی ہیروئنیں

آشا پوسلے ، پاکستان کی پہلی فلم ہیروئن تھی لیکن اس دور میں دیگر ہیروئنیں بھی تھیں جن کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

پاکستان کے ابتدائی سات برسوں یعنی 1948ء سے 1954ء تک کی فلمی ہیروئنوں کا ذکر کیا جائے تو ملکہ ترنم نورجہاں کو تو ایک عالم جانتا ہے۔ اس عظیم فنکارہ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ابھی بہت کچھ لکھا جانا باقی ہے۔ تقسیم سے قبل سورن لتا ، مینا شوری اور راگنی بھی نامی گرامی ہیروئنیں تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد دریافت ہونے والی صبیحہ خانم اور یاسمین بھی بہت بڑے نام تھے۔ یہاں صرف ان فلمی ہیروئنوں کا ذکر ہو رہا ہے جنھیں عام لوگ نہیں جانتے لیکن وہ تاریخ کا حصہ ہیں اور انھوں نے آشا پوسلے کی طرح پاکستان کے پہلے سات برسوں میں فلموں میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر کام کیا تھا۔

شمیم

شمیم
شمیم

پاکستان کی دوسری فلم شاہدہ (1949) کی فرسٹ ہیروئن کا نام شمیم تھا۔ کل سات فلموں میں کام کیا جن میں سے پاکستان کی پہلی سلورجوبلی سپرہٹ اردو فلم دو آنسو (1950) کی فرسٹ ہیروئن بھی تھی۔ آخری فلم رات کی بات (1954) تھی۔

ریکارڈز کے مطابق ، تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان میں شمیم نے دو درجن فلموں میں کام کیا جن میں عظیم اداکار دلیپ کمار کی پہلی فلم جوار بھاٹا (1944) بھی شامل تھی۔ پہلی فلم ایماندار (1939) اور آخری فلم سندور (1947) ریکارڈز پر ہے۔

اداکارہ شمیم ، تقسیم سے قبل کی معروف اداکارہ اور گلوکارہ خورشید اور ممتاز بھارتی اداکارہ مینا کماری کی رشتہ دار تھی۔ فلم دلبر (1951) میں فلمساز اور ہدایتکار انور کمال پاشا کی ہیروئن کا رول کیا اور انھی سے شادی کر کے فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔ 1982ء میں انتقال ہوا تھا۔

نجمہ

نجمہ
نجمہ

پاکستان کی تیسری فلم ہچکولے (1949) کی ہیروئن کا نام نجمہ تھا جو پہلی فلم تیری یاد (1948) میں آشا پوسلے کے مقابلے میں سیکنڈ ہیروئن تھی۔ تقسیم سے قبل اس کی متعدد فلموں کا حوالہ ملتا ہے جن میں کندن لال سہگل کی مشہور نغماتی فلم پروانہ (1947) بھی تھی جس کی فرسٹ ہیروئن ثریا تھی۔ اس فلم کی موسیقی خواجہ خورشید انور نے مرتب کی تھی۔

نجمہ نے پاکستان میں کل سات فلموں میں کام کیا جن میں سے چار فلموں میں فرسٹ ہیروئن تھی۔ آخری فلم شرارے (1955) تھی۔ باری ملک سے شادی کر کے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ اسی نام کی ایک اداکارہ 1970 کی دھائی میں آئی اور بڑی مقبول ہوئی تھی۔

اختری

اختری
اختری

پاکستان میں اختری نام کی اداکارہ کی صرف دو فلموں کا حوالہ ملتا ہے جن میں سے فلم دو کنارے (1950) کی فرسٹ ہیروئن تھی۔ مشہور بھارتی فلم دلاری (1949) میں محمدرفیع کا مشہور زمانہ گیت "سہانی رات ڈھل چکی۔۔" گانے والے ہیرو سریش ، اس پاکستانی فلم کے ہیرو تھے۔

اختری ، تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی متعدد فلموں میں نظر آئی۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بننے والی فلم جھمکے (1947) کی ہیروئن تھی جس پر پاکستان میں علاؤالدین کی مشہور زمانہ کلاسک فلم بدنام (1966) بنی تھی۔ لاہور ہی میں بنائی گئی فلم پگڈنڈی (1947) میں خواجہ خورشید انور کی دھن میں منورسطانہ کا یہ دلکش اور شوخ گیت بھی یقیناً اختری پر ہی فلمایا گیا ہو گا "بلما پٹواری ہوگئے ، نوکر سرکاری ہوگئے۔۔"

گلشن آراء

گلشن آراء
گلشن آراء

پاکستان کی پہلی سلورجوبلی اردو فلم دو آنسو (1950) میں پہلی بار نظر آنے والی گلشن آراء نے دس فلموں میں کام کیا تھا لیکن اس کی فرسٹ ہیروئن کے طور پر کوئی فلم کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھی۔ درپن کی پہلی فلم امانت (1950) اور اداکار ریحان کی بطور ہیرو اکلوتی فلم نویلی (1952) کی ہیروئن بھی گلشن آراء ہی تھی۔ گوجرانوالہ کے ایک امیرزادے سے شادی کر کے فلمی دنیا کو چھوڑ دیا تھا۔

شمی

شمی
شمی

اداکارہ شمی نے فلم شاہدہ (1949) میں چائلڈ سٹار کے طور پر کام کیا اور اپنے ہی نام کی ایک فلم شمی (1950) میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر نظر آئی تھی۔ فلم روحی (1953) پہلی فلم تھی جس پر حکومت نے پابندی لگا ئی تھی۔ درجن بھر فلموں میں کام کرنے والی اس اداکارہ نے سدھیر سے شادی کی اور آخری دونوں فلمیں بھی اپنے شوہر کے ساتھ تھیں۔ نامور اداکارہ سلمیٰ ممتاز ، کی چھوٹی بہن تھی اور 2001ء میں انتقال ہوا تھا۔

شاہینہ

شاہینہ
شاہینہ

شاہینہ کے کریڈٹ پر دو فلمیں فرسٹ ہیروئن کے طور پر ملتی ہیں جن میں صبیحہ اور سنتوش کی پہلی فلم بیلی (1950) بھی تھی۔ غالباً اسی نام کی ایک اور اداکارہ بھی تھی جس نے ایک فلم میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر کام کیا تھا۔

اداکارہ شاہینہ ، اداکارہ نسرین کی بہن ، سلمیٰ آغا کی خالہ اور برصغیر کی پہلی پنجابی فلم ہیررانجھا (1932) کے میں ٹائٹل رول کرنے والے رفیق غزنوی اور ان کی دوسری بیوی اداکارہ زہرا بائی کی بیٹی تھی۔

نادرہ

نادرہ
نادرہ

نادرہ نے درجن بھر فلموں میں کام کیا لیکن بطور فرسٹ ہیروئن اس کی واحد فلم جلن (1955) تھی جس میں عوامی گلوکار عنایت حسین بھٹی کو پہلی بار ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ نادرہ کی پہلی فلم بیلی (1950) اور آخری فلم حسرت (1958) تھی۔ اسی نام کی ایک اداکارہ 1990 کی دھائی میں بڑی مقبول ہوئی جو بعد میں قتل کر دی گئی تھی۔

مندرجہ بالا فلمی ہیروئنوں کے علاوہ اکلوتی فلموں میں ہیروئن آنے والی اداکاراؤں میں سے مایہ دیوی کی ہم وطن (1951) ، ارشاد کی شعلہ (1952) اور حفیظ جہاں کی نتھ (1952) کے نام ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ تین فلمیں ایسی تھیں کہ جو لاہور میں بنیں اور قیام پاکستان سے قبل ریلیز ہو چکی تھیں لیکن ان کے فلمسازوں نے انھیں دوبارہ نئی فلموں کے طور پر ریلیز کیا تھا۔ ان میں ڈائریکٹر (1951) ، بت تراش (1951) اور خانہ بدوش (1952) شامل تھیں۔ ان کی ہیروئنیں بالترتیب زیب قریشی ، شیریں اور کلاوتی تھیں۔

یاد رہے کہ کلاوتی اور مایہ دیوی کی صرف ایک ایک فلم فرسٹ ہیروئن کے طور پر موجود ہے لیکن ان دونوں نے بہت سی پاکستانی فلموں میں بھی معاون اداکارہ کے طور پر کام کیا تھا۔ پاکستان کے پہلے سات برسوں کی دیگر نامور معاون اداکاراؤں میں شعلہ ، زینت ، ساحرہ ، ریکھا ، بیگم پروین ، نفیس بیگم اور ببو وغیرہ شامل تھیں جبکہ معاون اداکاراؤں کی اس فہرست میں آشا پوسلے سب سے بڑا اور مقبول ترین نام تھا۔

آشا پوسلے ، صابرہ بیگم کے نام سے بھارتی پنجاب کی ریاست پٹیالہ میں 1927ء میں پیدا ہوئی۔ باپ ، عنایت علی ناتھ نے جب دہلی ریڈیو پر موسیقار کے طور پر کام شروع کیا تو اپنی بیٹیوں کو بھی گانے کا موقع دیا۔ آشا پوسلے تو گائیکی میں نام پیدا نہ کر سکی لیکن اس کی بہن کوثر پروین ، پاکستان کی پچاس کی دھائی کی مقبول گلوکارہ رہی ہے۔ ابتدائی دور کی معاون اداکارہ رانی کرن اور پی ٹی وی کی اداکارہ نجمہ بیگم بھی ، آشا پوسلے کی بہنیں تھیں۔ 28 مارچ 1998ء کو انتقال ہوا۔

مسعودرانا اور آشا پوسلے کے 0 فلمی گیت

0 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت

مسعودرانا اور آشا پوسلے کے 0 اردو گیت


مسعودرانا اور آشا پوسلے کے 0 پنجابی گیت


Masood Rana & Asha Poslay: Latest Online film

Masood Rana & Asha Poslay: Film posters
GovandhiGoongaAainaBahadurWohtiMelaMeri Dosti Mera PyarAshiqPak DaamanBahadur Kissan2 BaghiSher PuttarSohna JaniNizamDaku Tay InsanRangeela Aur Munawar ZarifRaja JaniJatt Kurian Tun DardaZarooratAali JahGhazi Ilmuddin ShaheedSala SahibKhuddar
Masood Rana & Asha Poslay:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & Asha Poslay:

Total 31 joint films

(12 Urdu, 19 Punjabi, 0 Pashto, 0 Sindhi films)

1.1966: Govandhi
(Punjabi)
2.1966: Goonga
(Punjabi)
3.1966: Aaina
(Urdu)
4.1967: Bahadur
(Urdu)
5.1967: Wohti
(Punjabi)
6.1967: Mela
(Punjabi)
7.1968: Meri Dosti Mera Pyar
(Urdu)
8.1968: Ashiq
(Urdu)
9.1969: Pak Daaman
(Urdu)
10.1970: BeQasoor
(Urdu)
11.1970: Bahadur Kissan
(Punjabi)
12.1970: 2 Baghi
(Urdu)
13.1970: Matrei Maa
(Punjabi)
14.1971: Sher Puttar
(Punjabi)
15.1971: Des Mera Jeedaran Da
(Punjabi)
16.1972: Sohna Jani
(Punjabi)
17.1972: Nizam
(Punjabi)
18.1973: Daku Tay Insan
(Punjabi)
19.1973: Rangeela Aur Munawar Zarif
(Urdu)
20.1974: Chakkarbaz
(Urdu)
21.1976: Raja Jani
(Urdu)
22.1976: Jatt Kurian Tun Darda
(Punjabi)
23.1976: Goonj Uthi Shehnai
(Urdu)
24.1976: Zaroorat
(Urdu)
25.1977: Ajj Dian Kurrian
(Punjabi)
26.1978: Nidarr
(Punjabi)
27.1978: Aali Jah
(Punjabi)
28.1978: Ghazi Ilmuddin Shaheed
(Punjabi)
29.1981: Sala Sahib
(Punjabi)
30.1985: Khuddar
(Punjabi)
31.Unreleased: Takkar
(Punjabi)


Masood Rana & Asha Poslay: 0 songs

(0 Urdu and 0 Punjabi songs)



Bhai Jan
Bhai Jan
(1945)
Birhan
Birhan
(1947)
Nishani
Nishani
(1942)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.