Pakistan Film History
An Urdu/Punjabi article on the timeline of Pakistani film music.
1948 | پاکستان کا پہلا فلمی گیت
اس فلم کے گیتوں کے گراموفون ریکارڈز نہیں بنے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آن لائن گیت میں اس کی اپنی آواز نہیں لگتی اور یہ بعد میں کسی دوسری گلوکارہ کی ریکارڈنگ معلوم ہوتی ہے۔ فلم غلط فہمی (1950) میں آشا پوسلے کے گائے ہوئے گیتوں سے اس گیت کا موازنہ کریں تو آواز کا فرق صاف سنائی دیتا ہے۔ پہلے فلمی گلوکارفلم تیری یاد (1948) کے پروفیشنل گلوکاروں میں تقسیم سے قبل لاہور کی فلموں کی مستقل گلوکارہ منورسلطانہ اور ریڈیو گلوکار علی بخش ظہور کے نام آتے ہیں جنھوں نے سولو گیتوں کے علاوہ پاکستان کا پہلا فلمی دوگانا بھی گایا تھا۔ فلم کی بک لیٹ کے مطابق اس فلم کا پہلا گیت منورسلطانہ کی آواز میں تھا:پہلے فلمی موسیقارپاکستانی فلموں کے پہلے موسیقار عنایت علی ناتھ تھے جنھوں نے فلم تیری یاد (1948) کے علاوہ صرف ایک اور فلم غلط فہمی (1950) کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ اس فلم میں آئی اے نازش کے نام سے شاعری بھی کی تھی۔ اس فلم کے بیشتر گیت بھی اپنی بیٹی اور فلم کی ہیروئن آشا پوسلے کے علاوہ مزاحیہ اداکار نذر سے گوائے تھے۔پچاس کی دھائی کی نامور گلوکارہ کوثرپروین کے علاوہ دو معاون اداکارائیں ، رانی کرن اور نجمہ بیگم بھی ان کی بیٹیاں بتائی جاتی ہیں۔ پہلے فلمی شاعرپاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے شاعروں میں سب سے بڑا نام تنویر نقوی کا تھا جو تقسیم سے قبل انمول گھڑی (1946) اور جگنو (1947) جیسی شاہکار نغماتی فلموں کے سپرہٹ گیتوں کی وجہ سے شہرت یافتہ تھے۔ ان کے ساتھ طفیل ہوشیارپوری ، سیف الدین سیف اور قتیل شفائی نے بھی گیت نگاری کا آغاز کیا تھا۔ ان قابل قدر شاعروں نے اپنی کارکردگی سے پاکستانی فلمی تاریخ پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ |
1949 | پاکستان کی پہلی نغماتی فلم
اس فلم کے موسیقار جی اے چشتی تھے جو پاکستان کے ابتدائی دور کے کامیاب ترین موسیقار تھے۔ انھوں نے سب سے پہلے سو فلموں کی موسیقی ترتیب دینے اور ایک ہزار سے زائد گیت کمپوز کرنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ پاکستان کا پہلا سپرہٹ گیت اور دوگانا منورسلطانہ نے گایا تھا۔ ساتھی گلوکار عنایت حسین بھٹی تھے جنھوں نے اسی سال فلم سچائی (1949) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا اور انھیں پاکستان کا پہلا ہٹ مردانہ گیت گانے کا اعزاز حاصل ہوا تھا: پہلا بھولا بسرا گیتعام طور پر "بھولے بسرے گیت" وقتی مقبولیت کے حامل ہوتے تھے جو بہت کم لوگوں کی یادوں میں محفوظ رہتے تھے۔ ایسے ہی بھولے بسرے گیتوں میں سیف الدین سیف کا لکھا ہوا اور موسیقار ماسٹر عنایت حسین کی دھن میں فلم ہچکولے (1949) میں گلوکار علی بخش ظہور کا گایا ہوا سب سے بہترین گیت بھی تھا:1949ء کی نغماتی فلمیںپھیرے ، مندری1949ء کے فنکارماسٹرغلام حیدر ، جی اے چشتی ، حکیم احمد شجاع اور عبدالشکور بیدل فلم شاہدہ (1949) ، ماسٹرعنایت حسین ، اقبال بیگم لائلپوری ، نسیم اختر اور سلمیٰ بیگم فلم ہچکولے (1949) ، عنایت حسین بھٹی فلم سچائی (1949) ، ملکہ پکھراج ، امدادحسین ، امیربائی اور فتح علی خان فلم دو کنارے (1949) ، بابا عالم سیاہ پوش اور علاؤلدین فلم پھیرے (1949) ، اقبال بانو ، زاہدہ پروین ، نورمحمد چارلی ، ایف ڈی شرف اور قادرفرید فلم مندری (1949) |
1950 | پہلی نغماتی اردو فلم
تیرے لونگ دا پیا لشکارالارے (1950) ، پاکستان کی پہلی فلم تھی جس کے سبھی گیت بڑے مقبول ہوئے تھے۔ خاص طور پر جی اے چشتی کی دھن میں عنایت حسین بھٹی اور منورسلطانہ کا گایا ہوا یہ سدا بہار دوگانا ایک لوک گیت کا درجہ اختیار کر گیا تھا:1950ء کی نغماتی فلمیںلارے ، بے قرار1950ء کے فنکارزینت بیگم اور ظہور راجہ فلم جہاد (1950) ، رشیدعطرے ، احمدراہی ، پکھراج پپو ، ناظم پانی پتی ، قیوم نظر ، مسعود پرویز اور امرتاپریتم فلم بیلی (1950) ، عرش لکھنوی اور نذر فلم غلط فہمی (1950) ، فیروز نظامی اور مشیرکاظمی فلم ہماری بستی (1950) ، حزیں قادری ، ساغر صدیقی ، مبارک علی خان اور استاد برکت علی خان فلم دو آنسو (1950) ، حسن لطیف فلم جدائی (1950) ، نذیر جعفری اور عطا محمد قوال فلم امانت (1950) ، منشی دل فلم شمی (1950) ، عزیز میرٹھی فلم کندن (1950) |
1951 | ملکہ ترنم نورجہاں کی آمد
1951ء کے فنکارنجم الحسن ، سریندر کور اور ایس ڈی باتش فلم عید (1951) ، میڈم نورجہاں اور استاد دامن فلم چن وے (1951) ، مایہ دیوی فلم ہم وطن (1951) ، مظفر طاہر اور طالب حسین جعفری فلم غیرت (1951) ، عیدن بائی (میڈم نورجہاں کی بہن) فلم بلو (1951) |
1952 | پہلی سپرہٹ اردو نغماتی فلم
اسی فلم میں معروف نغمہ نگار فیاض ہاشمی نے اپنا پہلا فلمی گیت لکھا تھا "مصیبت ہے ، بلا ہے ، اور میں ہوں۔۔" |
1953 | زبیدہ خانم کی آمد
1953ء کی نغماتی فلمیںشہری بابو ، گلنار1953ء کے فنکارگلوکار فضل حسین فلم غلام (1953) ، نذیر بیگم اور فریدہ خانم فلم سیلاب (1953) ، ساحل فارانی فلم آواز (1953) ، طفیل فاروقی فلم برکھا (1953) ، زبیدہ خانم ، وارث لدھیانوی فلم شہری بابو (1953) ، روشن آرا بیگم فلم گلنار (1953) |
1954 | پہلی سپرہٹ فلمی غزل
نہ یہ چاند ہوگا ، نہ تارے رہیں گےاسی سال پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی اردو فلم سسی (1954) ریلیز ہوئی جس میں موسیقار جی اے چشتی نے تقسیم سے قبل اپنے ہی ایک غیرریلیز شدہ فلم "ششی" کے گیت کو ری میک کیا تھا۔ کوثرپروین اور پکھراج پپو کی آوازیں تھیں:1954ء کے فنکاررفیق غزنوی فلم پرواز (1954) |
1955 | سلیم رضا کی آمد
صفدرحسین اور اخترحسین کی آمدموسیقار صفدرحسین ، پاکستان کے پہلے موسیقار تھے جن کی پہلی ہی فلم ہیر (1955) ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی۔ اسی فلم سے پنجابی فلموں کے عظیم شاعر حزیں قادری کو بھی بریک تھرو ملا تھا۔موسیقار اخترحسین اکھیاں نے بھی فلم پاٹے خان (1955) جیسی نغماتی فلم سے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا جس میں وقت کی دو بڑی گلوکاراؤں ، میڈم نورجہاں اور زبیدہ خانم نے اداکاری بھی کی تھی جبکہ تیسری اداکارہ مسرت نذیر تھی جس پر میڈم نورجہاں کا ایک گیت بھی فلمایا گیا تھا۔ پاکستان کی پہلی سپرہٹ فلمی لوریاسی سال پاکستان کی دوسری گولڈن جوبلی فلم نوکر (1955) میں پاکستانی فلمی تاریخ کی پہلی سپرہٹ لوری گائی گئی تھی:فضل حسین کا واحد سپرہٹ فلمی گیت1950 کی دھائی کے ایک نامور گلوکار فضل حسین کے فلمی کیرئر کا سب سے مقبول ترین گیت فلم طوفان (1955) میں تھا:1955ء کی نغماتی فلمیںقاتل ، پتن ، ہیر ، پاٹے خان1955ء کے فنکارسلیم رضا ، مسرت نذیر فلم قاتل (1955) ، تصدق حسین فلم نوکر (1955) ، اسماعیل متوالا فلم پتن (1955) ، خورشید بیگم ، غلام نبی عبداللطیف فلم ہماری زبان (1955) ، شباب کیرانوی فلم جلن (1955) ، صفدرحسین فلم ہیر (1955) ، اخترحسین اکھیاں فلم پاٹے خان (1955) ، کلیم عثمانی فلم انتخاب (1955) |
1956 | احمدرشدی اور مہدی حسن کی آمد
اسی سال ، اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں میں سب سے زیادہ مقبول گلوکار ، شہنشاہ غزل مہدی حسن کی پہلی فلم کنواری بیوہ (1956) بھی ریلیز ہوئی جس میں انھوں نے کوثر پروین کے ساتھ تین دو گانے گائے تھے۔ قادرفریدی اور فتح علی خان کی موسیقی تھی۔ یہ احمدرشدی کی دوسری فلم تھی۔ خواجہ خورشید انور کی آمداسی سال تقسیم سے قبل کے عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی لاہور واپسی پر پہلی پاکستانی فلم انتظار (1956) بھی ریلیز ہوئی تھی۔ قتیل شفائی کے لکھے ہوئے اس فلم کے بیشتر گیت بڑے مقبول ہوئے تھے۔ ملکہ ترنم نورجہاں کی بطور اداکارہ اور گلوکارہ اس فلم کا یہ گیت سدا بہار ہے:واسطہ ای رب دا توں جائیں وے کبوترا1956ء کا مقبول ترین سٹریٹ سانگ پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم دلا بھٹی (1956) میں منورسلطانہ کی آواز میں تھا:رناں والیاں دے پکن پرونٹھے1950 کی دھائی کا شریر ترین گیت احمدراہی کا لکھا ہوا تھا جس کی دھن بھی جی اے چشتی نے بنائی تھی۔ اس عوامی گیت کو گانے کا اعزاز وقت کے مقبول ترین گلوکار عنایت حسین بھٹی کو حاصل ہوا تھا۔ بول تھے:تینوں بھل گیاں ساڈیاں چاہواں1950 کی دھائی میں زبیدہ خانم کے بعد دوسری مقبول اور مصروف ترین پس پردہ گلوکارہ کوثر پروین کا گایا ہوا مقبول ترین پنجابی گیت فلم پینگاں (1956) میں تھا جس کے بول تھے:1956ء کی نغماتی فلمیںحمیدہ ، لخت جگر ، ماہی منڈا ، چھوٹی بیگم ، انتظار ، سرفروش ، گڈی گڈا ، چن ماہی1956ء کے فنکاراحمد رشدی فلم انوکھی (1956) ، خورشید فلم فنکار (1956) ، خواجہ خورشید انور فلم انتظار (1956) ، مہدی حسن فلم کنواری بیوہ (1956) ، ماسٹر عاشق حسین فلم جبرو (1956) ، رحمان ورما فلم باغی (1956) ، سائیں اختر فلم حاتم (1956) ، ولی صاحب فلم گڈی گڈا (1956) |
1957 | شاہ مدینہ ﷺ
اے قائداعظمؒ ، تیرا احسان ہےپاکستانی فلموں کا پہلا مقبول ترین ملی ترانہ گانے کا اعزاز گلوکارہ منور سلطانہ کو حاصل ہوا جب فلم بیداری (1957) میں موسیقار فتح علی خان نے خاور زمان کا لکھا ہوا یہ گیت گوایا تھا:جگر چھلنی ہے ، دل گبھرا رہا ہےپاکستان کے پہلے ممتاز گلوکار عنایت حسین بھٹی کی اکلوتی نغماتی اردو فلم عشق لیلیٰ (1957) تھی جس میں ان کے گائے ہوئے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ موسیقار صفدرحسین کی دھن میں قتیل شفائی کا لکھا ہو یہ گیت بھٹی صاحب کا مقبول ترین اردو فلمی گیت ہے:جب تیرے شہر سے گزرتا ہوںاسی سال موسیقار رشیدعطرے نے ایک ریڈیو گلوکار شرافت علی سے فلم وعدہ (1957) میں سیف الدین سیف کا لکھا ہوا ایک سپرہٹ گیت گوایا تھا:استاد اور شاگرد کا مقابلہموسیقار صفدرحسین ایک اعلیٰ پائے کے موسیقار تھے۔ وہ رشتہ میں عظیم موسیقار رشید عطرے کے بھانجے اور شاگرد بھی تھے۔ ان دونوں (استاد/شاگرد یا ماموں/بھانجے) کا اس سال ایک ہی کہانی پر بننے اور ایک ہی دن ریلیز ہونے والی دو فلموں ، لیلیٰ مجنوں اور عشق لیلیٰ (1957) میں زبردست مقابلہ ہوا۔ بھانجے نے ماموں کو چاروں شانے چت گرا دیا اور پاکستان کی سب سے بڑی نغماتی فلم میں ڈیڑھ درجن سدا بہار گیتوں کی ایک گیت مالا بنا کر نیا ریکارڈ قائم کر دیا جبکہ ماموں یا استاد کی فلم کا ایک بھی گیت مقبول نہ ہو سکا تھا۔1957ء کی نغماتی فلمیںیکے والی ، عشق لیلیٰ ، وعدہ ، نوراں ، سات لاکھ ، بیداری1957ء کے فنکارمنیرحسین فلم یکے والی (1957) ، اے حمید فلم انجام (1957) ، دیبو بھٹا چاریہ فلم مسکہ پالش (1957) ، ناہید نیازی فلم لیلیٰ مجنوں (1957) ، شرافت علی ، استاد فتح علی خان فلم وعدہ (1957) |
1958 | نسیم بیگم اور آئرن پروین کی آمد
اسی سال 1960 کی دھائی کی ایک بہت بڑی گلوکار آئرن پروین کی فلم ممتاز (1958) میں آمد ہوئی تھی۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ چار سو سے زائد فلموں میں آٹھ سو سے زائد گیت گائے تھے۔ سب سے مقبول گیت فلم آئینہ (1966) میں تھا "تمہی ہو محبوب میرے۔۔" اے مرد مجاہد جاگ ذرااسی سال فلم چنگیز خان (1958) میں پاکستان کی فلمی تاریخ کا پہلا اور مقبول ترین جنگی ترانہ رشیدعطرے کی دھن میں طفیل ہوشیارپوری نے لکھا اور عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں نے گایا تھا:برے نصیب میرےفلم چھومنتر (1958) میں موسیقار رفیق علی نے اپنی پہلی ہی فلم میں ایک لازوال گیت تخلیق کیا تھا جو کسی پروفیشنل گلوکار کی بجائے ایک شوقیہ گلوکار ظریف کی آواز میں تھا:دلا ٹھہر جا یار دا نظارا لین دےاسی سال موسیقار رشیدعطرے کی دھن میں وارث لدھیانوی کا لکھا ہوا یہ گیت ، گلوکار منیرحسین کے فلمی کیرئر کا مقبول ترین گیت تھا:1958ء کی نغماتی فلمیںچھومنتر ، زہرعشق ، انارکلی ، جٹی ، مکھڑا ، آدمی1958ء کے فنکارسلیم اقبال فلم شیخ چلی (1958) ، نسیم بیگم فلم بے گناہ (1958) ، رفیق علی فلم چھومنتر (1958) ، منیرنیازی فلم نئی لڑکی (1958) ، آئرن پروین فلم ممتاز (1958) ، مصلح الدین فلم آدمی (1958) ، |
1959 | زبیدہ خانم کا منفرد اعزاز
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیںاس سال فلم سویرا (1959) میں موسیقار منظور نے ایک گمنام گلوکار ایس بی جون سے ایک سدا بہار گیت گوایا تھا:دیساں دا راجہ1959ء کی سب سے بڑی فلم کرتارسنگھ تھی جو ایک بہت بڑی نغماتی فلم بھی تھی۔ موسیقاروں کی جوڑی سلیم اور اقبال کی جوڑی نے بڑے کمال کی دھنیں بنائی تھیں جن میں وارث لدھیانوی کا لکھا ہوا نسیم بیگم کا یہ کورس گیت ایک لوک گیت بن گیا تھا:چلی رے چلی رے چلی رےاس دور کی ایک ممتاز گلوکار ناہید نیازی نے اپنے فلمی کیریر کا مقبول ترین گیت فلم جھومر (1959) میں گایا تھا:ناہید نیازی نے ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں تین سو سے زائد گیت گائے تھے۔ موسیقار مصلح الدین سے شادی کے بعد فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔ 1959ء کی نغماتی فلمیںکرتار سنگھ ، ناگن ، نیند ، جھومر ، کوئل1959ء کے فنکارفیض احمد فیض فلم جاگو ہوا سویرا (1959) ، سیف چغتائی فلم اپنا پرایا (1959) |
1960 | مالا کی آمد
ہم بھول گئے ہر باتگلوکارہ نسیم بیگم کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی نغماتی فلم سہیلی (1960) تھی جس کے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ یہی فلم نامور موسیقار اے حمید اور نغمہ نگار فیاض ہاشمی کی بھی پہلی پہلی بڑی فلم تھی۔ اس فلم کا یہ گیت ضرب المثل بنا:میڈم نورجہاں بطور پس پردہ گلوکارہاسی سال ملکہ ترنم نورجہاں نے بطور پلے بیک سنگر باقاعدگی سے فلم سلمیٰ (1960) سے آغاز کیا تھا۔ اس سے قبل وہ صرف اپنی فلموں کے لیے گاتی تھیں۔ میڈم کا پہلا گیت تنویر نقوی کا لکھا ہوا تھا اور اس کی دھن رشید عطرے نے بنائی تھی اور یہ گیت اداکارہ بہار پر فلمایا گیا تھا:گلوکار باتشفلم سلمیٰ (1960) ہی میں رشید عطرے نے گلوکار باتش سے ان کا اکلوتا سپرہٹ گیت گوایا تھا جو ظہورنذر کا لکھا ہوا تھا اور علاؤالدین پر فلمایا گیا تھا جو پہلی بار سیکنڈ ہیرو کے طور سامنے آئے تھے۔ گیت کے بول تھے:1960ء کی نغماتی فلمیںسلمیٰ ، مٹی دیاں مورتاں1960ء کے فنکارخواجہ پرویز فلم کلرک (1960) ، حمایت علی شاعر فلم اور بھی غم ہیں (1960) ، مالا فلم ڈاکو کی لڑکی (1950) |
1961 | ایم اشرف کی آمد
اس فلم میں شباب کیرانوی کا لکھا ہوا یہ گیت بڑا مقبول ہوا جو احمدرشدی کا پہلا ہٹ فلمی گیت بھی تھا: 1961ء کی نغماتی فلمیںغالب ، گلفام1961ء کے فنکارمظفر وارثی فلم فرشتہ (1961) ، ثریا ملتانیکر فلم گل بکاؤلی (1961) ، بخشی وزیر فلم بے خبر (1961) ، منظور اشرف فلم سپیرن (1961) ، لال محمد اقبال فلم بارہ بجے (1961) |
1962 | مسعودرانا اور مسرور انور کی آمد
روبن گھوش اور ماسٹر عبداللہ کی آمدمشرقی پاکستان کی اردو فلم چندا (1962) سے موسیقار روبن گھوش کی آمد ہوئی۔ 1968ء میں اپنی اداکارہ بیوی شبنم کے ساتھ مغربی پاکستان منتقل ہوئے جہاں بڑی کامیابی ملی۔ آئینہ (1977) ، سب سے بڑی فلم تھی۔پنجابی فلموں کے صاحب طرز موسیقار ماسٹر عبداللہ نے بھی اسی سال فلم سورج مکھی (1962) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا۔ فلم ملنگی (1965) ان کی سب سے بڑی نغماتی فلم تھی۔ احمدرشدی کو بریک تھرو ملاگلوکار احمدرشدی کو فلم مہتاب (1962) کے مشہور زمانہ گیت:مہدی حسن کا پہلا ہٹ گیتشہنشاہ غزل مہدی حسن کو طویل جدوجہد کے بعد فلم سسرال (1962) میں پہلا ہٹ گیت گانے کا موقع ملا:1962ء کی نغماتی فلمیںشہید ، عذرا ، قیدی ، موسیقار ، اولاد ، مہتاب ، بنجارن ، سسرال ، گھونگھٹ ، محبوب ، آنچل1962ء کے فنکارایم کلیم فلم چراغ جلتا رہا (1962) ، استاد امانت علی خان فلم دروازہ (1962) ، مسعودرانا ، نسیمہ شاہین فلم انقلاب (1962) ، سلیم کاشر فلم پہاڑن (1962) ، روبن گھوش ، سروربارہ بنکوی فلم چندا (1962) ، ماسٹر عبداللہ فلم سورج مکھی (1962) ، مسرور انور فلم بنجارن (1962) ، خلیل احمد فلم آنچل (1962) |
1963 | بشیر احمد کی آمد
نمبوآں دا جوڑاڈیڑھ سو فلموں میں تین سو کے قریب گیت گانے والی نامور گلوکارہ نذیربیگم کے فلمی کیرئر کا مقبول ترین گیت فلم تیس مار خان (1963) میں تھا:احمدرشدی کا منفرد ریکارڈ1963ء میں ریلیز ہونے والی چھ کی چھ یا سو فیصدی پنجابی فلموں میں احمدرشدی نے نغمہ سرائی کی تھی جو ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ اسی سال انھوں نے فلم چوڑیاں (1963) میں تین گیت گائے تھے جو کسی ایک پنجابی فلم میں ان کے زیادہ سے زیادہ گیتوں کا ریکارڈ ہے۔1963ء کی نغماتی فلمیںباجی ، تلاش ، شرارت ، تیس مار خان ، دامن ، ہمیں بھی جینے دو ، اک تیر سہارا1963ء کے فنکارنخشب فلم فانوس (1963) ، شوکت علی فلم ماں کے آنسو (1963) ، سہیل رعنا ، نگہت سیما فلم جب سے دیکھا ہے تمہیں (1963) ، شیون رضوی فلم یہودی کی لڑکی (1963) ، بشیراحمد فلم تلاش (1963) ، وزیرافضل فلم چاچا خوامخواہ (1963) ، ظہور ناظم فلم تیرانداز (1963) |
1964 | پاکستان کی پہلی سپرہٹ فلمی قوالی
ناشاد اور نثاربزمی کی آمدپاکستانی فلموں کے دو اعلیٰ پائے کے موسیقاروں ، ناشاد اور نثاربزمی نے مسلسل ناکامیوں سے تنگ آکر اپنی جنم بھومی بھارت کو ترک کر کے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا جہاں کامیابیوں اور کامرانیوں نے ان کے قدم چومے۔ ناشاد کی پہلی فلم مہ خانہ (1964) اور نثار بزمی کی پہلی فلم ہیڈ کانسٹیبل (1964) تھی۔ ان دونوں کے کریڈٹ پر بڑی تعداد میں سپرہٹ اردو گیت ہیں۔اسی سال فلم چاند اور چاندنی (1968) کی سپرہٹ موسیقی ترتیب دینے والے موسیقار کریم شہاب الدین نے بھی فلم یہ بھی ایک کہانی (1964) سے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ مسعود رانا اور مہدی حسن کو بریک تھرو ملافلم ڈاچی (1964) میں موسیقار جی اے چشتی کی دھن میں حزیں قادری کے لکھے ہوئے سپرہٹ گیت:اسی سال فلم فرنگی (1964) میں رشید عطرے کی دھن میں فیض احمد فیض کی لکھی ہوئی ایک مشہور ریڈیو غزل سے شہنشاہ غزل مہدی حسن کو بھی بریک تھرو ملا تھا: احمدرشدی پر سلیم رضا کا گیت فلمایا گیا۔۔!گلوکار احمدرشدی ، ہلکے پھلکے شوخ و شریر گیتوں کے بہترین گلوکار تھے لیکن مشکل گیت نہیں گا سکتے تھے۔ یہی وجہ تھی فلم جھلک (1964) میں انھوں نے اداکاری کی اور ان پر سلیم رضا کا گایا ہوا ایک کلاسیکل گیت "من مندر میں لے انگڑائی ، سر سنگیت کی۔۔" فلمایا گیا تھا۔ موسیقار خلیل احمد تھے۔1964ء کی نغماتی فلمیںڈاچی ، توبہ ، خاموش رہو ، پیغام ، آشیانہ ، چنگاری ، حویلی ، ہتھ جوڑی ، ہیرا اور پتھر ، فرنگی1964ء کے فنکارکریم شہاب الدین فلم یہ بھی ایک کہانی (1964) ، ناشاد فلم مہ خانہ (1964) ، نثاربزمی فلم ہیڈ کانسٹبل (1964) ، صہبا اختر فلم چھوٹی بہن (1964) ، عالم لوہار فلم لائی لگ (1964) |
1965 | نورجہاں کو بریک تھرو ملا
مالا کی سب سے بڑی نغماتی فلماسی سال گلوکارہ مالا کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی نغماتی فلم نائیلہ (1965) بھی ریلیز ہوئی جس کے سبھی گیت بڑے مقبول ہوئے تھے۔ ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں قتیل شفائی اور حمایت علی شاعر کے گیت تھے۔ 1966ء سے 1969ء تک مالا نے سالانہ سو سے زائد کی تعداد میں گیت گائے تھے۔جاگ اٹھا ہے سارا وطنفلم مجاہد (1965) ، پاک بھارت جنگ کے دوران ریلیز ہوئی۔ اس میں شامل کیا گیا حمایت علی شاعر کا لکھا ہوا ترانہ اس دور کا مقبول ترین جنگی ترانہ ثابت ہوا تھا:خواجہ پرویز کی آمدپاکستان میں سب سے زیادہ اردو اور پنجابی فلموں کے گیت لکھنے والے فلمی شاعر خواجہ پرویز نے بطور اداکار فلم کلرک (1960) سے فلمی سفر کا آغاز کیا تھا۔ بطور گیت نگار ان کی پہلی فلم رواج (1965) تھی۔ ان کا لکھا ہوا پہلا گیت مالا نے ماسٹر عنایت حسین کی دھن میں گایا تھا:ندیم کی آمدکراچی سے تعلق رکھنے والے مرزا نذیر بیگ مغل عرف ندیم کو گلوکاری کا شوق تھا۔ ڈھاکہ میں اپنی ملازمت کے دوران ایک فلم کیسے کہوں (1965) میں اپنا پہلا فلمی گیت گانے کا موقع ملا:1965ء کی نغماتی فلمیںایسا بھی ہوتا ہے ، عید مبارک ، نائیلہ ، ملنگی ، جی دار ، کنیز ، زمین |
1966 | رونا لیلیٰ اور مجیب عالم کی آمد
"پاکستانی رفیع"ایک بھارتی فلم دوستی (1964) کی نقل میں پاکستانی فلم ہمراہی (1966) بنائی گئی۔ محمدرفیع کے مشہور زمانہ گیتوں کے مقابلے میں مسعودرانا کا انتخاب ہوا جن کی بے مثل اور آل راؤنڈ کارکردگی سے ناقدین انھیں "پاکستانی رفیع" کہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔پاکستان کی فلمی تاریخ میں کبھی کسی گلوکار نے کسی ایک فلم میں اتنے متنوع اور سپرہٹ گیت نہیں گائے جو مسعودرانا نے فلم ہمراہی (1966) میں گائے تھے۔ سپرہٹ نعت ، ترانہ ، غزل ، المیہ اور طربیہ گیتوں کی دھنیں بنانے کا اعزاز موسیقار تصدق حسین اور گیت لکھنے کا اعزاز مظفر وارثی کو حاصل ہوا تھا۔ اسی سال مسعودرانا نے ایک کیلنڈر ائیر میں ستر سے زائد گیت گا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اپنے فلمی کیرئر کے بیشتر سپرہٹ اردو گیت بھی انھوں نے اسی سال گائے جن میں "تمھی ہو محبوب میرے ، میں کیوں نہ تمھیں پیار کروں۔۔" کے علاوہ سال کا سپرہٹ پنجابی گیت "سجناں نے بوہے اگے چک تن لئی۔۔" بھی شامل تھا۔ کوکو کورینا۔۔فلم ارمان (1966) میں موسیقار سہیل رعنا نے ایک پاپ دھن تخلیق کی جو شوخ گیتوں کے ماہر گلوکار احمدرشدی سے گوائی تھی:بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والےپاکستان کی ایک کلاسک فلم بدنام (1966) میں ریڈیو گلوکارہ ثریا ملتانیکر نے ایک سپرہٹ غزل گائی تھی:سلیم رضا کے آخری سپرہٹ گیتاحمدرشدی اور مسعودرانا کی مقبولیت نے سلیم رضا اور منیرحسین کو زوال پذیر کر دیا تھا۔ اس سال کی فلم پائل کی جھنکار (1966) میں اردو فلموں کے پہلے چوٹی کے گلوکار سلیم رضا نے اپنے آخری دو سپرہٹ گیت گائے تھے:نذیرعلی کی آمدفلم پیداگیر (1966) میں موسیقار نذیرعلی نے پہلی بار ایک خودمختار موسیقار کے طور پر موسیقی ترتیب دی تھی۔ اس سے قبل وہ ایم اشرف کے معاون تھے۔ ڈیڑھ سو سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور بڑے بڑے سپرہٹ گیت تخلیق کیے تھے۔1966ء کی نغماتی فلمیںجوکر ، آگ کا دریا ، ارمان ، سرحد ، ہمراہی ، سوال ، جاگ اٹھا انسان ، عادل ، جلوہ ، بھریا میلہ ، تقدیر ، لاڈو ، بدنام ، میرے محبوب ، بھیا ، مادر وطن ، ماں بہو اور بیٹا ، پائل کی جھنکار ، آئینہ1966ء کے فنکارمجیب عالم فلم مجبور (1966) ، اختر یوسف فلم اجالا (1966) ، اعظم چشتی فلم گونگا (1966) ، رونالیلیٰ فلم ہم دونوں (1966) ، نذیرعلی فلم پیداگیر (1966) ، عاشق جٹ فلم ہڈحرام (1966) ، موسیقار علی حسین فلم ڈاک بابو (1966) ، ثریا حیدرآبادی فلم لوری (1966) |
1967 | بشیراحمد کا منفرد ریکارڈ
موسیقار کمال احمد کی آمداردو/پنجابی فلموں کے مقبول ترین موسیقار کمال احمد کی پہلی فلم نادرہ (1967) ریلیز ہوئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم میں ان کے استاد رحمان ورما نے بھی گیت کمپوز کیے تھے۔1967ء کی نغماتی فلمیںجگری یار ، انسانیت ، چکوری ، دل دا جانی ، لاکھوں میں ایک ، دیوربھابھی ، دوراہا ، درشن ، آگ ، مرزا جٹ1967ء کے فنکارکمال احمد فلم نادرہ (1967) ، شہناز بیگم فلم نواب سراج الدولہ (1967) ، دینا لیلیٰ اور محمدافراہیم فلم استادوں کا استاد (1967) ، ریاض الرحمان ساغر فلم عالیہ (1967) |
1968 | مہدی حسن ، سلورسکرین پر
عوامی گلوکار ، عنایت حسین بھٹیفلم چن مکھناں (1968) میں جی اے چشتی کی دھن میں حزیں قادری کا لکھا ہوا ایک سپرہٹ گیت تھا:1968ء کی نغماتی فلمیںسنگدل ، چن مکھناں ، محل ، سمندر ، چاند اور چاندنی ، دل میرا دھڑکن تیری ، بدلہ ، سسی پنوں ، کمانڈر ، باؤ جی ، جماں جنج نال ، سجن پیارا1968ء کے فنکارطفیل نیازی فلم دھوپ اور سائے (1968) ، حامدعلی بیلا فلم 14 سال (1968) ، تسلیم فاضلی فلم عاشق (1968) |
1969 | پاکستان کی پہلی سپرہٹ دھمال
گا میرے منوا گاتا جا رےمزاحیہ اداکار رنگیلا نے فلمی حلقوں کو حیران کر دیا جب بطور اداکار ، فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف ، گیت نگار اور گلوکار کے فلم دیا اور طوفان (1969) میں ایک سدا بہار گیت گایا تھا:وجاہت عطرے کی آمدپاکستانی فلموں میں ایم اشرف کے بعد سب سے زیادہ فلموں میں موسیقی ترتیب دینے والے موسیقار وجاہت عطرے نے فلم نکے ہندیاں دا پیار (1969) کے ایک سپرہٹ گیت سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا:جب نذیرعلی نے بابا چشتی کا سحر توڑاپنجابی فلموں کے عظیم شاعر حزیں قادری نے فلم جنٹرمین (1969) کا ایک سپرہٹ گیت لکھا:1969ء کی نغماتی فلمیںسالگرہ ، نئی لیلیٰ نیا مجنوں ، تمہی ہو محبوب میرے ، آسرا ، درد ، داغ ، وریام ، جیسے جانتے نہیں ، دلاں دے سودے ، ناجو ، نازنین ، عندلیب ، عشق نہ پچھے ذات ، جندجان ، مکھڑا چن ورگا ، تیرے عشق نچایا ، ناز ، زرقا ، جنٹرمین ، آنچ ، سزا1969ء کے فنکاروجاہت عطرے فلم نکے ہندیاں دا پیار (1969) ، سلطان محمود آشفتہ فلم پیار دا پلا (1969) ، امجد بوبی فلم اک نگینہ (1969) ، غلام حسین شبیر فلم وریام (1969) تصورخانم فلم تہاڈی عزت دا سوال اے (1969) |
1970 | موسیقار طافو کی دھماکہ خیز آمد
رجب علی کی آمدپاکستانی فلموں کے ایک اور نامور گلوکار رجب علی نے ایم اشرف کی دھن میں فلم سردارا (1970) میں میڈم نورجہاں کے ساتھ اس گیت کے ساتھ فلمی کیریر کا آغاز کیا تھا:مجیب عالم بمقابلہ مہدی حسنموسیقار نثار بزمی نے فلم شمع اور پروانہ کا مشہور گیت "میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا۔۔" پہلے مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کروایا تھا لیکن ان کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہوئے۔ یہی گیت انھوں نے مجیب عالم سے گوایا تو اتنے خوش ہوئے کہ انعام کے طور پر ان سے اسی فلم کے چھ گیت گوائے جو مجیب عالم کے فلمی کیرئر کا واحد موقع تھا۔خواجہ خورشید انور کی عظمتپاکستان کے عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور نے جب فلم ہیررانجھا (1970) کا مشہور دوگانا "وے ونجلی والڑیا۔۔" تخلیق کیا تو بابا چشتی سے باقاعدہ اجازت لی تھی جن کی فلم پھیرے (1949) کے گیت "اؤے اکھیاں لاویں نہ۔۔" سے یہ دھن متاثر تھی۔1970ء کی نغماتی فلمیںشمع اور پروانہ ، انورا ، ہنی مون ، سجناں دور دیا ، ماں پتر ، نصیب اپنا اپنا ، بازی ، دل دیاں لگیاں ، انسان اور آدمی ، ہیررانجھا ، انجمن ، رنگیلا ، ات خدا دا ویر ، سوغات ، چاند سورج1970ء کے فنکارمشتاق علی فلم محلے دار (1970) ، طافو فلم انورا (1970) ، حبیب ولی محمد فلم بازی (1970) ، ریشماں فلم نوری جام تماچی (1970) ، رجب علی فلم سردارا (1970) |
1971 | پہلا ڈبل ورژن پنجابی/اردو گیت
1971ء کی نغماتی فلمیںنیند ہماری خواب تمہارے ، سچا سودا ، دوستی ، دنیا پیسے دی ، افشاں ، یادیں ، انصاف اور قانون ، آسو بلا ، سلام محبت ، یار بادشاہ ، چراغ کہاں روشنی کہاں ، مستانہ ماہی ، دل اور دنیا ، عشق دیوانہ ، تہذیب ، یہ امن1971ء کے فنکارگلنار بیگم فلم درہ خیبر (1971) |
1972 | اخلاق احمد کی آمد
کیوں دور دور رہندے اونامور لوک گلوکار شوکت علی کی پہلی فلم ماں کے آنسو (1963) تھی لیکن انھیں پلے بیک سنگر کے طور پر کامیابی نہیں ملی تھی۔ ان کے فلمی کیرئر کا سب سے مقبول گیت فلم اک ڈولی دو کہار (1972) میں تھا جو طالب چشتی کا لکھا ہوا تھا اور دھن غلام حسین شبیر کی تھی:پہلی واری اج انھاں اکھیاں نے تکیاغزل کے نامور گلوکار استاد غلام علی کی پہلی فلم ، ہیررانجھا (1970) تھی۔ اپنی مخصوص آواز اور انداز کی وجہ سے پلے بیک سنگر کے طور پر کامیابی نہ ملی حالانکہ جو گایا ، وہ مقبول ہوا۔ پہلا مقبول ترین گیت فلم ٹھاہ (1972) میں تھا۔ صفدرحسین کی دھن میں وارث لدھیانوی کے بول تھے:رونا لیلیٰ کے پنجابی گیتبنگال کی ساحرہ رونا لیلیٰ نے سو سے زائد پنجابی فلمی گیت گائے تھے جن میں بہت سے مقبول عام ہوئے۔ فلم ذیلدار (1972) کے اس گیت کے بارے میں خواجہ پرویز کا دعویٰ تھا کہ اس کے ایک لاکھ گراموفون ریکارڈز بکے تھے:نورجہاں ، نثار بزمی تنازعہموسیقار نثار بزمی اپنی تمام تر کوشش کے باوجود فلم امراؤ جان ادا (1972) کا آخری گیت "جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں۔۔" اپنی پسندیدہ گلوکار رونا لیلیٰ سے نہ گوا سکے اور بڑی بددلی سے میڈم نورجہاں سے گوانا پڑا۔ ریکارڈنگ کے بعد انھوں نے میڈم کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جس پر بعد میں معذرت بھی کر لی تھی لیکن نورجہاں ، مہدی حسن جیسی بے ضرر ہستی تو نہیں تھیں ، طیش میں آگئیں اور ان کے حکم پر لاہور کی سنگرز ایسوسی ایشن نے بزمی صاحب کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔1972ء کی نغماتی فلمیںافسانہ زندگی کا ، میرے ہمسفر ، اک ڈولی دو کہار ، خان چاچا ، ذیلدار ، الزام ، ناگ منی ، بشیرا ، محبت ، سجن بے پرواہ ، بہارو پھول برساؤ ، پنوں دی سسی ، انگارے ، ایک رات ، دو رنگیلے ، سلطان ، من کی جیت ، ٹھاہ ، احساس ، امراؤ جان ادا1972ء کے فنکاراخلاق احمد فلم پازیب (1972) |
1973 | نیرہ نور کی آمد
تک چن پیا جاندا ایپنجابی فلموں میں "بابائے موسیقی" کہلانے والے جی اے چشتی نے اپنا آخری سپرہٹ گیت فلم چن تارا (1973) میں کمپوز کیا تھا:1973ء کی نغماتی فلمضدی ، گھرانہ ، بادل اور بجلی ، خواب اور زندگی ، عظمت ، نیا راستہ ، آس ، انمول ، بنارسی ٹھگ ، دامن اور چنگاری ، خوشیا ، رنگیلا اور منورظریف ، جیرا بلیڈ ، غلام1973ء کے فنکارنیرہ نور فلم ضدی (1973) ، پرویز مہدی فلم چن تارا (1973) |
1974 | رونا لیلیٰ نے پاکستان چھوڑا
ناہید اختر کی آمدموسیقار ایم اشرف نے فلم ننھا فرشتہ (1974) میں پہلی بار ناہید اختر کو متعارف کروایا جو دیکھتے ہی دیکھتے فلمی گائیکی پر چھا گئی تھی۔ اس فلم میں اس کے گائے ہوئے دو گیتوں میں سے یہ کورس گیت بڑا مقبول ہوا تھا:مہ ناز کی آمد1980 کی دھائی میں اردو فلموں کی مقبول ترین گلوکارہ مہناز کو موسیقار اے حمید نے فلم حقیقت (1974) میں متعارف کروایا تھا۔ پہلا ایک دوگانا تھا جس میں دوسری آواز احمدرشدی کی تھی:افشاں کی آمدموسیقار وجاہت عطرے نے فلم نوکر ووہٹی دا (1974) میں مشہور گلوکارہ افشاں سے پہلی بار گوایا تھا۔ یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا:اے نیر کی آمدموسیقار اے حمید ہی نے فلم بہشت (1974) گلوکار اے نیر کو متعارف کروایا تھا۔ یہ بھی ایک دو گانا تھا اور ساتھ روبینہ بدر کی آواز تھی:1974ء کی نغماتی فلمیںدو بدن ، عشق میرا ناں ، سماج ، شہنشاہ ، دل لگی ، تم سلامت رہ ، یار مستانے ، چاہت ، منجی کتھے ڈاہواں ، سدھا رستہ ، نوکر ووہٹی دا ، شرافت ، بہشت ، دیدار ، شمع1974ء کے فنکارافشاں فلم نوکرووہٹی دا (1974) ، ناہید اختر فلم ننھا فرشتہ (1974) ، مہ ناز فلم حقیقت (1974) ، اے نیر فلم بہشت (1974) |
1975 | غلام عباس کی آمد
عالمگیر کی آمدپاکستان کے پہلے پاپ سنگر عالمگیر ، ٹی وی کی حد تک بڑے مقبول تھے۔ انھیں پہلی فلم جاگیر (1975) میں گانے کا موقع اتفاقاً ملا۔ یہ گیت احمدرشدی نے گانا تھا لیکن سنگر ایسوسی ایشن کے بائیکاٹ کی وجہ سے موسیقار نثار بزمی نے مسرور انور کا لکھا ہوا یہ گیت کراچی میں عالمگیر سے ریکارڈ کروا لیا جو بڑا مقبول ہوا تھا:اردو فلم بینوں کے پسندیدہ گلوکارفلم دلربا (1975) میں احمدرشدی اور ساتھیوں کا گایا ہوا ایک مزاحیہ گیت تھا "ہے کوئی سنگر اعظم ، ہمارے سامنے آئے۔۔" تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے اور ایم اشرف کی دھن میں اس گیت میں رونا لیلیٰ ، احمدرشدی ، مالا اور مہدی حسن کا ذکر ملتا ہے جو اس دور میں اردو بولنے والوں کے پسندیدہ ترین گلوکار تھے۔1975 کی نغماتی فلمیںہار گیا انسان ، پیار کا موسم ، آرزو ، خانزادہ ، تیرے میرے سپنے ، زینت ، محبت زندگی ہے ، دو ساتھی ، شریف بدمعاش ، اناڑی ، پہچان ، میرا نام ہے محبت ، پالکی ، ہتھکڑی ، جب جب پھول کھلے ، امنگ ، دلہن ایک رات کی ، نوکر ، سجن کملا1975 کے فنکارغلام عباس فلم بے اولاد (1975) ، عالمگیر فلم جاگیر (1975) |
1976 | احمدرشدی کا انگلش گیت
پیار کی یاد نگاہوں میںفلم تلاش میں موسیقار نثاربزمی نے مسرورانور کا لکھا ہوا ایک مشہور گیت کمپوز کیا تھا:فلم سویرا (1959) ، گلوکار سلیم شہزاد کی بطور گلوکار پہلی فلم تھی لیکن بریک تھرو انھیں فلم ہیرا اور پتھر (1964) سے ملا تھا جبکہ فلم اپنا پرایا (1959) میں بطور اداکار سلیم شہزاد پر احمدرشدی کا گایا ہوا ایک گیت بھی فلمایا گیا تھا۔ 1976ء کی نغماتی فلمیںزبیدہ ، تلاش ، حکم دا غلام ، الٹی میٹم ، راستے کا پتھر ، عورت ایک پہیلی ، سوسائٹی گرل ، وقت ، طلاق ، سوہنی مہینوال ، واردات ، خریدار ، وارنٹ ، محبت اور مہنگائی ، ان داتا ، گاما بی اے ، شبانہ ، حشرنشر |
1977 | ایک فلم کے نو موسیقار
مہدی حسن کا مختلف اندازموسیقار ایم اشرف نے فلم سسرال (1977) میں شہنشاہ غزل مہدی حسن سے ان کے سٹائل سے ہٹ کر شوخ اور مزاحیہ گیت گوائے جو فلم بینوں کے لیے ایک خوشگوار حیرت تھی لیکن خود خانصاحب ایسے گیتوں سے مطمئن نہیں تھے جو غزل کے مخصوص گلوکار تھے اور اپنے فلمی کیرئر کے عروج پر تھے۔1977 کی نغماتی فلمیںپرستش ، دو چور ، محبت ایک کہانی ، اف یہ بیویاں ، آئینہ ، دادا ، بیگم جان ، جاسوس ، عاشی ، عشق عشق ، شمع محبت ، بھروسہ ، جبرو ، میرے حضور ، سسرال ، محبت مر نہیں سکتی ، سلاخیں1977 کے فنکاراسد امانت علی خان فلم شمع محبت (1977) |
1980 | 1980 کی دھائی
پاکستان کی فلمی تاریخ کی ابتدائی تین دھائیوں کے بعد میری ذاتی دلچسپی اور تحقیق و جستجو بڑی محدود رہی لیکن پاکستان فلم میگزین پر مکمل تاریخ اور اعدادوشمار کو مسلسل اپ ڈیٹ کیا جاتا رہا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔ یہاں چند اہم ترین واقعات پر بات کی جارہی ہے۔ ایک گیت ، چھ گلوکارموسیقار ایم اشرف نے فلم کھوٹے سکے (1981) کے لیے ایک ملی نغمہ ریکارڈ کروایا تھا:مسعودرانا ، دو نسلوں کے گلوکاراس دور کی ایک فلم شکرا (1985) میں ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا جب فلم کے ہیرو شہباز اکمل پر مسعودرانا کا یہ گیت فلمایا گیا تھا:1980 کی دھائی کے اہم فنکاربھارتی فلموں سے شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ اور گلوکارہ سلمیٰ آغا نے پاکستانی فلم ہم اور تم (1985) سے فلمی کیریر کا آغاز کیا۔ ماضی کی معروف اداکارہ مسرت نذیر نے بھی بطور گلوکارہ چند فلموں میں نغمہ سرائی کی جبکہ پاپ سنگر نازیہ حسن کو بھی ایک آدھ فلموں میں گانے کا موقع ملا۔ انور رفیع فلم تیرے گھر کے سامنے (1984) اور حمیراچنا (غالباً) فلم مکھڑا (1987) میں متعارف ہوئے۔ آخری بڑے موسیقاروں میں ایم اشرف کے بیٹے ایم ارشد نے فلم ذرا سی بات (1982) اور عطرے خاندان سے تعلق رکھنے والے ذوالفقار علی نے فلم نوکر تے مالک (1982) سے آغاز کیا تھا۔ ان کے علاوہ ترنم ناز ، ثریا خانم ، حسن صادق وغیرہ کے نام بھی ملتے ہیں۔ |
1990 | 1990 کی دھائی
انور رفیع کا عروج1990 کی دوسری دھائی انوررفیع کے نام رہی جن کے فلم جیوا (1995) کے گیت "جانو سن ذرا۔۔" نے دھوم مچا دی تھی۔ان کے علاوہ اس دور کے دیگر کامیاب فلمی گلوکاروں میں سائرہ نسیم ، شبنم مجید ، شازیہ منظور ، حمیرا ارشد ، وارث بیگ ، ارشد محمود وغیرہ کے علاوہ غیر فلمی گلوکاروں مثلاً ابرارالحق ، سجاد علی ، جواد احمد ، عارف لوہار ، عطااللہ عیسیٰ خیلوی وغیرہ سے بھی گیت گوائے جاتے تھے۔ عدنان سمیع خان کا ریکارڈاسی دور میں فلم سرگم (1995) میں پہلی اور آخری بار عدنان سمیع خان کو اداکاری اور گلوکاری کے علاوہ فلم کی موسیقی ترتیب دینے کا موقع بھی ملا۔ اس اکلوتی فلم میں عدنان نے ایک منفرد اور ناقابل شکست ریکارڈ بنایا۔ فلم کے گیارہ کے گیارہ یعنی سو فیصدی گیت گائے ، ان کی دھنیں بنائیں اور سبھی گیت خود پر ہی فلمائے گئے تھے۔ مہاراج کتھک ، حامد علی خان اور حدیقہ کیانی کے علاوہ بھارتی گلوکارہ آشا بھونسلے نے بھی گیت گائے تھے۔ فلم کا یہ گیت سب سے زیادہ مقبول ہوا تھا: |
2023 | فلمی گائیکی کا خلاصہ
آخر میں پاکستانی اردو/پنجابی فلمی گائیکی کا خلاصہ یا ایک مختصراً ٹائم لائن پیش کی جارہی ہے: گلوکاراؤں کی ٹائم لائنگلوکاروں کی ٹائم لائن |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.