Pakistan Film History
A detailed Urdu/Punjabi article on Pakistani movies based on folk stories.
پاکستان کے مختلف علاقوں اور زبانوں میں صدیوں پرانے کلاسک لوک ادب کی رومانوی داستانوں کی بڑی اہمیت رہی ہے جنھیں عوام الناس میں زبردست پذیرائی ملی۔
عشق و محبت کی ان لوک داستانوں کا خلاصہ مروجہ رسم و رواج اور روایات و اقدار کے مطابق عام طور پر یہی ہوتا تھا کہ محبت کسی سے لیکن شادی جبراً کسی اور سے اور انجام کار ناکام عشق ، بے وقت اور جواں سال موت۔۔!
ان جملہ لوک داستانوں کے اصل تخلیق کار نامعلوم ہوتے تھے لیکن کسی ایک شاعر کا کلام اتنی شہرت حاصل کر لیتا تھا کہ اس داستان کو اسی سے منسوب کر دیا جاتا تھا۔
کتابوں میں قید ان لازوال منظوم داستانوں کو قصہ خواں اور لوک فنکاروں ، خصوصاً لوک گلوکاروں نے عام کیا اور سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل زندہ رکھا۔ عوامی میلوں ٹھیلوں میں ڈراموں اور تھیٹروں نے جلا بخشی اور پھر انھیں فلموں کی صورت میں محفوظ بھی کیا گیا۔
ذیل میں پاکستان کی ان مشہور زمانہ لوک داستانوں کا ذکر کیا جارہا ہے جن پر فلمیں بھی بنائی گئیں:
بلوچستان میں فلمیں عام نہیں ہو سکیں جبکہ اردو زبان میں لوک داستانوں کا وجود نہیں کیونکہ یہ گنگا جمنا کی مشترکہ ہندی/اردو تہذیب و تمدن ہے جس میں ہندوآنہ کرداروں پر مشتمل لوک داستانوں کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے جنھیں مسلمان نہیں اپناتے۔ البتہ اردو ادب سے "انارکلی" اور "شیخ چلی" وغیرہ جیسی مشہور داستانیں فلمائی گئیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی کوئی ہندو دیومالائی داستان نہیں فلمائی گئی حالانکہ تقسیم سے قبل لاہور ہی سے "رادھے شیام" ، "وشنو بھگتی" ، "راجہ گوپی چند" اور "بھکتا سورداس" جیسی لوک داستانوں پر فلمیں بنیں جبکہ پنجاب میں "راجہ رسالو" ، "ڈھول سمی" اور "پورن بھگت" جیسے قصے کہانیاں عام سنی سنائی جاتی تھیں۔
تاریخی طور پر سبھی لوک داستانیں تخیلاتی نظر آتی ہیں جو اس قدر مقبول ہوئیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ عقیدت مندوں اور مفاد پرستوں نے نہ صرف ان فرضی کرداروں اور ان کے تخلیق کاروں کے مزارات بنائے بلکہ بزرگان دین کی طرح ان کے سالانہ عرس بھی مناتے ہیں۔ صدیوں پرانے بعض کرداروں کے تو جائے پیدائش اور حسب نسب بھی بڑی تفصیل سے بیان کیے جاتے ہیں۔
عام تاثر یہی ہے کہ ان رومانوی داستانوں کو ہندوؤں کی اکثریتی مقامی آبادی کے بے تحاشا دیومالائی قصوں کہانیوں کے مقابلے میں تخلیق کیا گیا یا روایتی ہندو ادب کو "اسلامی ٹچ" دینے کی کوشش کی گئی تھی۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ ان داستانوں کا خلاصہ عشق مجازی ہے یا عشق حقیقی اور یہ کہ کیا یہ لوک داستانیں ، ہماری مسلم تہذیب و تمدن اور روایات و اقدار سے متصادم تو نہیں ہیں۔۔؟
برصغیر پاک و ہند میں فلموں سے قبل یہ لوک داستانیں سٹیج پر ڈراموں اور گیتوں کی صورت میں پیش کی جاتی تھیں۔ فلمسازی کا آغاز 1913ء میں ہوا۔ ابتدائی ایک دھائی تک خاموش فلموں کے دور میں صرف ہندوآنہ کہانیوں کو فلمایا جاتا تھا۔ پہلی مسلم لوک داستان لیلیٰ مجنوں کو 1922ء میں فلمایا گیا تھا۔
ابتدائی کئی سال تک صرف عربی اور فارسی ادب کی لوک داستانیں ہی فلمائی گئیں۔ یہاں تک کہ اردو ادب کی مشہور ترین داستان انارکلی (1928) کو بھی فلمایا گیا جو چند سال پہلے ایک ناول کی صورت میں سامنے آئی تھی۔
تقسیم سے قبل خاموش فلموں کے دور میں پاکستان کی لوک داستانوں میں سے پہلی داستان سسی پنوں تھی جو 1928ء میں فلمائی گئی۔ پنجاب کی مشہور لوک کہانیوں میں سے پہلی فلم سوہنی مہینوال (1928) جبکہ اگلے سال مرزا صاحباں اور ہیررانجھا (1929) کی داستانیں بھی فلمائی گئیں۔ فلموں کو زبان ملی تو لاہور میں پہلی پنجابی فلم ہیررانجھا (1932) بنائی گئی تھی۔
تقسیم سے قبل پانچ درجن سے زائد فلمیں "مسلم لوک داستانوں" پر بنائی گئیں۔ زیادہ تر پنجابی فلمیں ، لوک داستانوں پر مبنی ہوتی تھیں۔ تقسیم کے بعد بھارت میں بھی یہ قصے کہانیاں متعدد بار فلمائی گئی تھیں۔
تقسیم کے بعد پاکستان میں مختلف زبانوں میں تین درجن کے قریب لوک داستانوں پر مبنی فلمیں بنائی گئیں جن میں بعض کہانیوں کو متعدد بار فلمایا گیا تھا۔
1970ء کی دھائی میں پشتو فلموں کے ابتدائی دور میں چند لوک کہانیاں فلمائی گئیں۔ پہلی پشتو فلم یوسف خان شیر بانو (1970) ، ایک لوک داستان تھی جس میں یاسمین خان اور بدرمنیر نے ٹائٹل رولز کیے تھے۔ اس فلم کے ہدایتکار عزیز تبسم نے اسی جوڑی کو فلم آدم خان درخانئی (1971) میں بھی مرکزی کرداروں میں کاسٹ کیا تھا جبکہ فلم موسیٰ خان گل مکئی (1971) میں یاسمین خان کے ساتھ آصف خان تھے۔ ہدایتکار رحیم گل تھے۔
یاد رہے کہ صوبہ خیبرپختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں "قصہ خوانی بازار" بطور خاص داستاں گوئی کی وجہ سے مشہور تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی عنوان پر اکلوتی ہندکو فلم بھی بنائی گئی تھی۔
ان کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی جو مشہور زمانہ لوک کہانیاں فلمائی گئیں ، ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جا رہی ہے۔
پاکستان میں لوک داستانوں میں سب سے مقبول "ہیررانجھا" کی کہانی رہی ہے۔ اس لوک داستان کو پنجابی زبان کے 18ویں صدی کے عظیم صوفی شاعر سید وارث شاہؒ سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں 16ویں صدی میں شہنشاہ اکبر کے دور میں یہ قصہ پہلی بار سامنے آیا تھا۔ دمودور نامی ہندو شاعر نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس نے ان کرداروں کو زندہ جاوید حالت میں دیکھا تھا۔
گزشتہ پانچ صدیوں سے "ہیررانجھا" کی کہانی کو مختلف شعرائے کرام نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیا لیکن جو شہرت "وارث شاہؒ کی ہیر" کو ملی ، وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔
نازو نعم میں پلا اور فکر معاش سے آزاد نوجوان " تیدو رانجھا' ، دن بھر دوستوں کے ساتھ ہلا گلا کرتا اور اپنی بانسری کی مدھر دھن پر لڑکیوں کو مست ملنگ اور تنگ کرتا رہتا ہے۔ ایک دن ایک بھابھی کے ایک طعنے پر جوش میں آکر خوبصورتی میں مشہور "ہیرسیال" کو بیاہنے نکل پڑتا ہے۔
"ہیر" سے ملاقات ہوتی ہے تو پہلی ہی نظر میں صدیوں کا فاصلہ طے ہو جاتا ہے۔ "رانجھا" ، "ہیر" کے عشق میں اس کا نوکر چاکر بن جاتا ہے۔ اس دوران ان کی میل ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ ہیر کے چچا "کیدو" کو شک ہوتا ہے جو اس وقت یقین میں بدل جاتا ہے جب دونوں ایک ساتھ پکڑے جاتے ہیں۔ خاندان کی بدنامی کے ڈر سے "ہیر" کی زبردستی شادی کردی جاتی ہے۔
"رانجھا" ، عشق میں ناکامی سے دل برداشتہ ہو کر جنگل اور بیابانوں کی راہ لیتا ہے اور ایک جوگی بن کر کاسہ لیے دربدر اس خیال سے دھکے کھاتا ہے کہ شاید کہیں سے ہیر کا دیدار ہو جائے۔ ایک دن اس کی مراد پوری ہو جاتی ہے اور "ہیر" اپنی نند ، "سہتی" کے ساتھ نظر آ جاتی ہے جو خود "مراد بلوچ" نامی نوجوان کے عشق میں گرفتار ہوتی ہے۔ "سہتی" ، "مراد بلوچ" کے حصول میں "ہیر" اور "رانجھے" کی نہ صرف ملاقات کرواتی ہے بلکہ انھیں فرار ہونے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔
ان کا پیچھا کیا جاتا ہے اور دونوں پکڑے جاتے ہیں۔ مہاراجہ کے دربار میں "رانجھا" کو جیل کی سزا ہوتی ہے۔ اسی رات رانجھے کی آہ و بکا سے شہر میں آگ لگ جاتی ہے تو مہاراجہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے کہ اس نے ایک سچے عاشق کو سمجھنے میں بڑی غلطی کی تھی۔ وہ نہ صرف "رانجھا" سے معافی مانگتا ہے بلکہ "ہیر" کے خاندان کو حکم دیتا ہے کہ ان دونوں کی شادی کرا دی جائے۔ لیکن زندگی میں ان کا میل ممکن نہیں ہوتا اور شادی کے دن دلہن ہیر کو اس کا چچا "کیدو" زہر دے کر مار دیتا ہے۔ "رانجھا" بھی اسی غم میں جان دے دیتا ہے۔
روایات میں "ہیر" کو حُسن اور "رانجھا" کو عشق کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
لوک داستانوں میں یہ واحد رومانوی داستان ہے جس میں دو مشہور کہانیاں ہیں ، ایک "ہیر اور رانجھا" کی اور دوسری "سہتی اور مراد" کی۔ پاکستان میں صرف پندرہ برس کے دوران اس کہانی کو پانچ بار فلمایا گیا تھا۔
اس لازوال داستان پر پہلی بار ، ہدایتکار نذیر نے فلم ہیر (1955) بنائی جس میں سورن لتا اور عنایت حسین بھٹی نے مرکزی کردار کیے تھے۔ اجمل نے پہلی بار کیدو کا رول کیا اور اس فلم میں جو ناگ نما عصا استعمال کیا وہی فلم ہیر رانجھا (1970) میں بھی نظر آیا۔ اس نغماتی فلم کے بیشتر گیت بڑے مقبول ہوئے تھے:
دوسری بار ، ہدایتکار ایم جے رانا نے اسی کہانی کے ایک ثانوی کردار ، سہتی (1957) پر ایک فلم بنائی جس میں مسرت نذیر اور اکمل نے مرکزی کردار کیے تھے۔ اس فلم میں نیلو اور عنایت حسین بھٹی کو "ہیر اور رانجھا" کے ثانوی کرداروں پیش کیا گیا تھا۔ عنایت حسین بھٹی ، واحد اداکار ہیں جنھوں نے رانجھے کا کردار دو بار کیا تھا۔ اس فلم کا یہ دوگانا بڑے کمال کا تھا:
تقسیم سے قبل ، ہیررانجھا پر پہلی فلم 1929ء میں ایک خاموش فلم تھی۔ 1931ء میں پہلی ہندی/اردو فلم بنائی گئی جبکہ لاہور کی پہلی بولتی فلم ، ہیررانجھا (1932) ایک پنجابی فلم تھی۔ کلکتہ میں بنائی گئی فلم ہیر سیال (1938) ، سب سے کامیاب فلم تھی جس میں صبیحہ خانم کی والدہ بالو نے ٹائٹل رول کیا تھا جبکہ اسی فلم سے بے بی نورجہاں کو بریک تھرو ملا تھا۔ تقسیم کے بعد بھارت میں بھی یہ فلم متعدد بار بنائی گئی تھی۔
عظیم سندھی صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے 18ویں صدی کے کلام "شاہ جو رسالو" میں "سسی پنوں" کی کہانی کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس کہانی کو پنجاب کے قدیم شاعروں نے بڑے خوبصورت منظوم انداز میں پیش کیا۔ ہاشم شاہ نامی شاعر کا کلام سب سے زیادہ مقبول ہوا جس کو ایک مخصوص دھن میں گایا بھی جاتا ہے۔
ریاست بھمبھور کے راجہ کے ہاں ایک بچی پیدا ہوتی ہے جس کو نجومی منحوس قرار دیتے ہیں۔ زندگی بھر کے اخراجات کے ساتھ بچی کو ایک صندوق میں بند کر کے دریا برد کر دیا جاتا ہے جو ایک دھوبی کے ہاتھ لگ جاتا ہے۔
اس بچی کو "سسی" کا نام ملتا ہے۔ جوان ہوکر اس کے حسن کے چرچے ہر طرف پھیل جاتے ہیں۔ مکران کا شہزادہ "پنوں" بھی اس کے عاشقوں میں شامل ہو جاتا ہے لیکن قسمت انھیں بھمبھور کے راجہ کی قید میں لے جاتی ہے جہاں اولاد نرینہ سے محروم بادشاہ انجانے میں اپنی ہی گمشدہ بیٹی سے شادی کے خواب دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب عقدہ کھلتا ہے تو بادشاہ توبہ کرتے ہوئے اپنی بیٹی "سسی" کی شادی "پنوں" سے کرنے پر رضامند ہوجاتا ہے لیکن "پنوں" کے بھائی رکاوٹ بن جاتے ہیں اور علاقائی کشیدگی کے باعث دونوں ، ملاپ کی بجائے صحراؤں میں بھٹک بھٹک کر جان دے دیتے ہیں۔
روایات میں "سسی" کو ایک باوفا اور باحیا عورت کے روپ میں یاد کیا جاتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے "سسی پنوں" کی کہانی پر مبنی فلم سسی (1954) بنائی گئی جو پہلی گولڈن جوبلی سپرہٹ اردو فلم شمار ہوئی تھی۔ ہدایتکار داؤد چاند کی اس یادگار فلم میں پاکستان کی پہلی سپرسٹار ہیروئن صبیحہ خانم نے "سسی" کا ٹائٹل رول کیا جبکہ پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر ، "پنوں" کے کردار میں تھے۔ اس فلم کا یہ گیت بڑا مشہور ہوا تھا:
تقسیم سے قبل اس کہانی پر مزید تین فلمیں بنائی گئیں جو سبھی "سسی پنوں" کے نام سے بنیں۔ پہلی ایک خاموش فلم تھی جو 1928ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ 1932ء میں پہلی ہندی/اردو فلم بنی جبکہ 1946ء میں آخری بار اس موضوع پر ایک اور ہندی/اردو فلم بنی تھی۔
تقسیم کے بعد سندھی زبان میں بنائی گئی فلم سسی پنوں (1958) میں نگہت سلطانہ اور سیلانی مرکزی کرداروں میں تھے۔ باقی تینوں فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئیں جن میں سے ہدایتکار ریاض احمد کی سسی پنوں (1968) میں نغمہ کے ساتھ اقبال حسن تھے جن کی بطور ہیرو یہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم کا یہ گیت سپرہٹ تھا:
سسی پنوں کے علاوہ سندھی لوک داستانوں میں سے عمرماروی (1956) پہلی فلم تھی جس میں نگہت سلطانہ اور فاضلانی نے مرکزی کردار کیے تھے۔ نوری جام تماچی (1970) میں عشرت جہاں اور مشتاق چنگیزی تھے۔ فلم سورٹھ (1973) میں انجمن (ایک سندھی اداکارہ) اور وسیم تھے جبکہ "مومل رانو" نامی فلم نامکمل رہی تھی۔
"سوہنی مہینوال" کی مشہور زمانہ لوک داستان کا پہلا تذکرہ کلاسک سندھی صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے 18ویں صدی کے کلام "شاہ جو رسالو" میں ملتا ہے۔ پنجاب میں سید فضل شاہ نامی شاعر کے کلام نے اس کہانی کو زبان زد عام کیا تھا۔
"سوہنی" ، گجرات (پنجاب) کی ایک کمہارن ہے جو بلخ بخارا کے ایک شہزادے کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ وہ مٹی کے برتنوں کا سوداگر بن کر آتا ہے لیکن "سوہنی" کے عشق میں کنگال ہو جاتا ہے۔
دیگر لوک داستانوں کی طرح اس داستان میں بھی "سوہنی" کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کر دی جاتی ہے لیکن وہ اپنے عاشق کو نہیں بھولتی جو دریائے چناب کے دوسرے کنارے اس کا منتظر ہوتا ہے۔ وہ شام کو مٹی کے ایک گھڑے پر تیر کر دریا پار کرتی ہے لیکن ایک دن کچے گھڑے سے دھوکہ کھا کر دریا برد ہوجاتی ہے۔ "مہینوال" بھی اس کو بچاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
روایات میں "سوہنی" کو ایک خوبصورت ، نڈر اور بہادر عورت کے روپ میں یاد کیا جاتا ہے۔فلم سسی (1954) کے بعد پنجاب کی ایک مشہور لوک داستان سوہنی مہینوال پر بننے والی ہدایتکار ایم جے رانا کی اردو فلم سوہنی (1955) ریلیز ہوئی جس میں ایک بار پھر صبیحہ اور سدھیر مرکزی کرداروں میں تھے۔
سوہنی مہینوال کی اس مقبول عام کہانی کو ہدایتکار ولی صاحب نے دوسری بار فلم سوہنی کمہارن (1960) کے نام سے بنایا۔ بہار اور اسلم پرویز مرکزی کرداروں میں تھے۔
تیسری بار ، ہدایتکار حیدرچوہدری نے منورظریف کو ٹائٹل رول میں لے کر فلم اج دا مہینوال (1973) بنائی۔ اس نیم مزاحیہ فلم میں عالیہ ہیروئن تھی۔ یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا:
چوتھی بار ، ہدایتکار رضا میر نے ممتاز اور یوسف خان کو لے کر فلم سوہنی مہینوال (1976) بنائی تھی۔ اس فلم کے متعدد گیت مقبول ہوئے تھے:
تقسیم سے قبل سوہنی مہینوال کی کہانی کو پانچ مرتبہ فلمایا گیا تھا۔ پنجاب کی مشہور لوک داستانوں پر مبنی یہ اکلوتی فلم تھی جو متحدہ ہندوستان کے تینوں بڑے فلمی سینٹروں یعنی بمبئی ، کلکتہ اور لاہور میں الگ الگ بنائی گئی تھی۔ پہلی بار 1928ء میں ایک خاموش فلم کے طور پر ، دوسری بار 1933ء میں ایک ہندی/اردو فلم کے طور پر جبکہ تیسری اور چوتھی بار یہ فلم 1939ء میں پنجابی زبان میں لاہور اور کلکتہ میں مقابلے کی فضا میں بنائی گئی تھی۔ آخری بار یہ فلم 1946ء میں ہندی/اردو میں بنی تھی۔
پاکستان کی لوک داستانوں میں "ہیررانجھا" ، "سسی پنوں" اور "سوہنی مہینوال" کے بعد "مرزا صاحباں" کا قصہ بڑا مشہور ہوا لیکن دیگر تینوں قصوں کی نسبت اس میں تشدد کا عنصر بھی تھا۔ 16ویں صدی کے عہدی اکبری میں چکوال کے ایک شاعر "پیلو" کی اس ایکشن/رومانوی داستان کو بہت سے عوامی گلوکاروں نے مخصوص دھنوں میں گایا اور اس کہانی پر کئی ایک فلمیں بھی بنائی گئیں۔
"مرزا" ، بچپن ہی سے اپنے ماموں کے گھر پلا بڑھا اور جوان ہوتا ہے جہاں اسے اپنی ماموں زاد "صاحباں" سے محبت ہو جاتی ہے۔
جوان ہو کر ان کی محبت خاندان کے لیے بدنامی کا باعث بنتی ہے جس پر "صاحباں" کے بھائیوں کی "مرزا" سے لڑائی مارکٹائی ، ضدبازی اور دشمنی ہو جاتی ہے۔ وہ اس کی زبردستی شادی کہیں اور کروا دیتے ہیں لیکن عین شادی کے روز "مرزا" ، دلہن بنی "صاحباں" کو لے کر فرار ہو جاتا ہے۔
ان کا پیچھا کیا جاتا ہے۔ اس دوران ، "مرزا" ایک جنگل میں سستانے کے لیے ٹھہرتا ہے اور اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔ "صاحباں" ، اس خوف سے کہ اب بہت کشت و خون ہوگا جس میں دونوں طرف اسی کے پیارے مارے جائیں گے ، "مرزا" کے تیرکمان کو توڑ دیتی ہے۔ جب ان پر حملہ ہوتا ہے تو وہ اپنی ٹوٹی ہوئی تیرکمان دیکھ کر "صاحباں" کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتا ہے لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی ہوتی ہے اور "مرزا" کو "صاحباں" سمیت قتل کردیا جاتا ہے۔
روایات میں "صاحباں" کو ایک بے وفا اور ناقابل اعتماد کردار سمجھا گیا ہے جو اپنے عاشق "مرزا" کی موت کا باعث بنتی ہے۔
پاکستان میں اس کہانی کو پہلی بار ہدایتکار داؤد چاند نے اردو فلم مرزا صاحباں (1956) کی صورت میں بنایا تھا۔ مسرت نذیر اور سدھیر مرکزی کردار تھے۔
اسی کہانی پر دوسری طبع آزمائی ہدایتکار مسعود پرویز نے کی اور مرزا جٹ (1967) جیسی سپرہٹ نغماتی فلم تخلیق کی۔ یہ فردوس اور اعجاز کی لی جنڈ جوڑی کی پہلی کامیاب فلم تھی اور اس موضوع پر بنائی گئی سب سے اچھی فلم تھی۔ اس فلم کے کئی ایک گیت سپرہٹ ہوئے تھے:
تقسیم سے قبل "مرزا صاحباں" کی کہانی کو پانچ بار فلمایا گیا تھا۔ پہلی فلم 1929ء کی ایک خاموش فلم تھی جبکہ 1933ء اور 1935ء کے علاوہ 1947ء میں بھی اس موضوع پر ایک ہندی/اردو فلمیں بنائی گئی جس میں میڈم نورجہاں نے ٹائٹل رول کیا تھا۔ تقسیم سے قبل اسی کہانی پر واحد پنجابی فلم 1939ء میں بنی تھی۔
"دُلا بھٹی" کو پنجاب کے "رابن ہڈ" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو امیروں کو لوٹ کر غریبوں میں بانٹتا تھا۔ 16ویں صدی میں شہنشاہ اکبر کے دور کی یہ کہانی دیگر کلاسک رومانٹک کہانیوں کے مقابلے میں پرتشدد ہے لیکن اس میں محبت کی تکون کی کہانی فلمی نقظہ نظر سے زیادہ اہم رہی ہے۔
"دُلا بھٹی" اپنی منگیتر "نوراں" کی شادی اپنے رضائی بھائی اور حاکم وقت کے بیٹے "حیدری" سے کروا دیتا ہے۔ جب محلاتی سازشوں کے شکار "حیدری" کے باپ کا تختہ الٹا دیا جاتا ہے اور وہ جیل چلے جاتے ہیں تو "نوراں" کے کبوتر کی زبانی اسے پیغام ملتا ہے۔ وہ سازشی عناصر کے خلاف مسلح یلغار کے بعد تخت کی بازیابی کروا دیتا ہے لیکن اس معرکے میں اپنی "نوراں" سمیت مارا جاتا ہے۔
اس مشہور زمانہ کہانی پر پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر اور پہلی ایکشن پنجابی فلم دُلا بھٹی (1956) بنائی گئی تھی۔ ہدایتکار ایم ایس ڈار کی اس فلم میں سدھیر ، صبیحہ اور علاؤالدین مرکزی کردار تھے۔ اس فلم کا یہ میگا ہٹ گیت تھا:
تقسیم سے قبل اسی کہانی پر لاہور میں فلم دُلا بھٹی (1940) بنائی گئی تھی جس میں وقت کی مقبول ترین ہیروئن راگنی نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ ایم ڈی کنور نامی اداکار نے ٹائٹل رول کیا تھا۔
فلم دُلا بھٹی کو عام طور پر دیگر ایکشن فلموں ، جبرو ، نظام ، ملنگی اور سلطانا ڈاکو وغیرہ کی کیٹگری میں شامل کیا جاتا ہے کیونکہ ان میں مسلح بغاوت ، لڑائی مار کٹائی اور قتل و غارت بھی ہے۔
پاکستان کی لوک داستانوں کے علاوہ بدیسی لوک داستانیں بھی فلمائی گئی تھیں جن میں خاص طور پر فارسی اور عربی قصے کہانیاں شامل ہیں۔ عربی ادب سے "لیلیٰ مجنوں" ، "وامق عذرا" اور "الف لیلہ" وغیرہ کی داستانیں اور فارسی ادب سے "شیریں فرہاد" اور "گل بکاؤلی" جیسی رومانوی داستانیں بھی اردو ادب کا حصہ بنیں جنھیں متعدد بار فلمایا بھی گیا۔
فارسی ادب سے متعدد لوک داستانوں کو برصغیر پاک و ہند میں فلمایا گیا تھا۔ فارسی کی سب سے مقبول لوک داستان ، "شیریں فرہاد" تھی جس میں فرہاد ، شیریں کے حصول میں ایک تیشے سے پہاڑوں میں دودھ کی نہر کھودتا ہے۔
پاکستان میں اس کہانی کو دو بار فلمایا گیا تھا۔ پہلی بار ایک پشتو فلم فرہاد شیرنئی (1973) کو صورت میں جس میں یاسمین خان اور قیوم خان مرکزی کردار تھے جبکہ دوسری بار یہ فلم شیریں فرہاد (1975) کے نام سے ہدایتکار شریف نیر نے اردو میں بنائی۔ لوک داستانوں پر بننے والی یہ اکلوتی فلم تھی جس میں اردو فلموں کی لی جنڈ جوڑی زیبا اور محمدعلی نے مرکزی کردار کیے تھے۔
تقسیم سے قبل شیریں فرہاد کی کہانی کو تین بار فلمایا گیا تھا۔ 1926ء میں ایک خاموش فلم کے طور پر 1931ء میں ایک ہندی/اردو فلم کے طور پر۔ یہ فلم آخری بار لاہور میں شیریں فرہاد (1945) بنائی گئی جس میں راگنی کے ساتھ بھارتی فلموں کے مشہور ولن امجد خان کے والد جینت نے ٹائٹل رولز کیے تھے۔
فارسی قصے کہانیوں میں سے ایک مشہور زمانہ قصہ "گل بکاؤلی" کا بھی تھا جس کا اردو ترجمہ 19ویں صدی کے شروع میں ہوا۔ اس کہانی میں پانچ میں سے ایک شہزادہ نہ صرف پریوں کی شہزادی بکاؤلی کا دل جیتتا ہے بلکہ اس کے باغ سے وہ پھول بھی توڑ کر لاتا ہے جس سے اس کے باپ کی بصارت واپس آتی ہے۔
پاکستان میں یہ کہانی دو بار فلمائی گئی۔ پہلی بار ہدایتکار منشی دل نے جمیلہ رزاق اور سدھیر کو مرکزی کرداروں میں لے کر فلم گل بکاؤلی (1961) بنائی تھی جو پہلی جزوی رنگین فلم بھی تھی۔
دوسری بار اسی فلم کو ہدایتکار رشید چوہدری نے ایک پنجابی فلم گل بکاؤلی (1970) کے طور پر بنایا۔ اس فلم میں نغمہ اور کیفی کو ٹائٹل رولز دیے گئے تھے۔
تقسیم سے قبل اس کہانی کو گل بکاؤلی اور چترا بکاؤلی کی صورت میں پانچ بار فلمایا گیا تھا۔ 1924/26ء میں خاموش فلموں کے طور پر جبکہ 1932ء میں پہلی بار ہندی/اردو میں بنی۔ 1939ء میں یہ فلم لاہور میں بنائی گئی جس میں بے بی نورجہاں کو اہم کردار دیا گیا تھا۔ آخری بار یہ فلم 1947ء میں بنائی گئی اور یقیناً تقسیم کے بعد بھارت میں اس موضوع پر مزید فلمیں بنائی گئی ہوں گی۔
برصغیر پاک و ہند کی فلموں کو جس "مسلم لوک داستان" نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ایک عربی کہانی ، "لیلیٰ مجنوں" تھی۔ فارسی سے ہوتی ہوئی برصغیر میں آئی۔ اس کہانی پر سب سے زیادہ فلمیں بنائی گئی تھیں۔
دو عرب قبیلوں کی باہمی چپقلش میں دو محبت بھرے دل کچلے جاتے ہیں۔ لیلیٰ کی شادی ایک شہزادے سے کر دی جاتی ہے اور اس کا بچپن کا ساتھی اس غم میں دیوانہ ہو جاتا ہے۔ دیگر رومانٹک لوک داستانوں کی طرح اس کہانی کا انجام بھی دونوں کی بے وقت اور جواں سال موت پر ہوتا ہے۔
پاکستان میں سب سے پہلے اس موضوع پر دو فلمیں مقابلے میں بنائی گئیں۔ کراچی کی ایوریڈی پکچرز نے ہدایتکار منشی دل سے فلم عشق لیلیٰ (1957) بنوائی جو ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی۔ صبیحہ اور سنتوش کی اس فلم کا یہ گیت ضرب المثل بنا:
ان کے بعد لیلیٰ مجنوں نامی تین فلمیں اوپر تلے بنیں۔ 1971ء میں سندھی ، 1973ء میں پنجابی اور 1974ء میں اردو میں بنائی گئیں جن میں بالترتیب مہ پارہ ، مشتاق چنگیزی اور دیبا ، حیدر کے علاوہ رانی اور وحیدمراد نے مرکزی کردار کیے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رومانٹک فلموں کے شہنشاہ وحیدمراد کی یہ اکلوتی فلم تھی جو کسی لوک داستان پر مبنی تھی۔
تقسیم سے قبل 1922ء ، 1927ء اور 1931ء میں یہ کہانی خاموش فلموں کے طور پر بنائی گئی۔ 1931ء میں برصغیر کی فلموں کو زبان ملی تو پہلی ہندی/اردو فلم بھی بنائی گئی۔ 1940ء میں پنجابی اور 1941ء میں پشتو میں بنائی گئی جبکہ 1945ء کی ہندی/اردو فلم سب سے زیادہ مشہور تھی جس میں سورن لتا ، نذیر اور ایم اسماعیل مرکزی کرداروں میں تھے۔ تقسیم کے بعد بھی یہ فلم بھارت میں متعدد بار فلمائی گئی تھی۔
عربی لوک داستانوں میں سے ایک کہانی "وامق عذرا" کی بھی تھی جو اصل میں ایک یونانی کہانی تھی۔ ایک عام نوجوان کی ایک شہزادی سے محبت کی داستان تھی جس کو پاکستان میں عذرا (1962) کے نام سے فلمایا گیا تھا۔ نیلو اور اعجاز نے مرکزی کردار کیے تھے۔ یہ فلم بلیک اینڈ وہائٹ تھی لیکن اس کے گیت رنگین فلمائے گئے تھے جو بڑے مقبول ہوئے تھے:
8ویں صدی کے عربی ادب سے الف لیلہ کی کہانیوں کا سلسلہ شروع ہوا جو دنیا بھر میں بے حد بڑا مقبول ہوا۔ جنات ، پریوں ، جادو نگری اور دیگر مافوق الفطرت ، حیرت انگیز اور سبق آموز واقعات سے مزین ان قصوں کہانیوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔
روایت ہے کہ ایک بادشاہ ، اپنی ملکہ کی بیوفائی کا بدلہ ایک رات کی دلہنوں سے لیتا تھا۔ وہ ان سے ایک کہانی سننے کی فرمائش کرتا اور جب کہانی ختم ہوتی تو دلہن کو قتل کروا دیتا تھا۔ اس دوران ایک وزیر کی بیٹی نے اس سے شادی کی اور ایسی کہانی شروع کی جو ایک ہزار ایک رات تک جاری رہی۔ اس دوران دو بچے پیدا ہوئے اور بادشاہ نے روزانہ کے قتل کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔
الف لیلہ کی بین الاقوامی شہرت یافتہ کہانیوں کے کئی کردار مشہور ہوئے جن میں "حاتم طائی" ، "الہ دین" ، "علی بابا" اور "سندباد" وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا بھر کی طرح برصغیر پاک و ہند میں بھی ان کہانیوں پر بے شمار فلمیں بنائی گئی ہیں۔ یہاں پاکستان میں بنائی جانے والی فلموں کا ذکر ہو رہا ہے۔
"حاتم طائی" ، سخاوت کے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے جو قبل از اسلام کا ایک حقیقی کردار تھا لیکن اس کے فلمی ورژن انتہائی مبالغہ آمیز ہیں جن میں مافوق الفطرت مخلوقات ، جادو ، پریاں ، جنات ، دیو وغیرہ بھی دکھائے جاتے ہیں۔ اس کہانی پر پاکستان میں پہلی فلم ہدایتکار داؤد چاند کی حاتم (1956) تھی جس کا ٹائٹل رول سدھیر نے کیا تھا۔ صبیحہ خانم ہیروئن تھیں۔ اس فلم کی یہ نعت بڑی مقبول ہوئی تھی:
الف لیلہ کے قصوں میں ایک مشہور کردار ایک غریب محنت کش "علی بابا" کا تھا جس کو اپنے وقت کے "چالیس چوروں" کے خفیہ خزانے کا علم ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں اس کہانی پر پہلی فلم کھل جا سم سم (1959) بنائی گئی تھی۔ ہدایتکار ثقلین رضوی کی اس فلم میں یاسمین اور درپن مرکزی کردار تھے۔ اس کہانی پر ہداتیکار ضیاء اللہ کی ایک فلم علی بابا چالیس چور (1968) پنجابی زبان میں بھی بنائی گئی تھی جس میں علاؤالدین نے ٹائٹل رول کیا تھا جبکہ فردوس اور حبیب مرکزی کردار تھے۔
الف لیلہ کی کہانیوں کا ایک مشہور کردار "الہ دین" تھا جس کے جادوئی چراغ سے ایک جن برآمد ہوتا ہے جو ہر خواہش پوری کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ قالین پر فضائی سفر بھی ممکن بنا دیتا ہے اور دور نزدیک کی لائیو نیوز بھی انٹرنیٹ کی طرح سے دکھا دیتا ہے۔ اس عنوان پر فلم الہ دین کا بیٹا (1961) اور الہ دین (1981) میں بنائی گئیں جن میں بالترتیب نیلو ، رتن کمار اور بابرہ شریف ، فیصل نے مرکزی کردار کیے تھے۔
الف لیلہ کی کہانیوں میں ایک کردار "سندباد" کا بھی تھا جو سات سمندروں کا سفر کرنے والا ایک افسانوی کردار تھا جس نے مافوق الفطرت دیو مالائی مخلوقات ، جنات اور پریاں وغیرہ بھی دیکھیں۔ اس کہانی پر ہدایتکار اقبال کاشمیری نے فلم سندباد (1975) بنائی تھی۔ سنگیتا اور شاہد مرکزی کردار تھے۔
ان کے علاوہ الف لیلہ کے مختلف قصوں اور کہانیوں سے ماخوذ فلمیں ، گلبدن (1961) ، بلبل بغداد (1962) ، ہزار داستان اور کوہ قاف (1965) ، حسن کا چور (1967) ، لالہ رخ ، پرستان اور الف لیلہ (1968) وغیرہ بھی بنائی گئی تھیں۔
عام طور پر لوک داستانوں پر بننے والی فلموں کا ذکر ہو تو سب سے پہلے فردوس اور اعجاز کی حسین و جمیل جوڑی کا تصور ذہن میں آ جاتا ہے جو ایسی فلموں کے آئیڈیل اداکار تھے۔
ان دونوں نے چار لوک فلموں میں ایک ساتھ کام کیا جن میں مرزا جٹ (1967) ، مراد بلوچ (1968) ، دلا حیدری (1969) اور ہیر رانجھا (1970) شامل ہیں۔ فردوس کی پانچویں فلم ہیر سیال (1965) میں ہیرو اکمل تھے جبکہ اعجاز نے مزید دو لوک فلموں میں کام کیا جن میں عذرا (1962) میں نیلو اور پنوں دی سسی (1972) میں سنگیتا تھیں۔
دلچسپ اتفاق ہے کہ اعجاز کی چھ فلموں کے علاوہ پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر کی بھی چھ ہی لوک فلمیں ہیں جن میں سے چار فلمیں ، پاکستان کی پہلی سپرسٹار ہیروئن صبیحہ خانم کے ساتھ تھیں۔ سسی (1954) ، سوہنی (1955) ، دُلا بھٹی (1956) اور حاتم (1957) کے علاوہ سدھیر نے مرزا صاحباں (1956) میں مسرت نذیر اور گل بکاؤلی (1961) میں جمیلہ رزاق کے ساتھ کام کیا جبکہ صبیحہ خانم کی پانچویں فلم ، عشقِ لیلیٰ (1957) پاکستان کے دوسرے سپرسٹار ہیرو اور صبیحہ کے شریک حیات ، سنتوش کمار کے ساتھ تھی جن کی یہ اکلوتی لوک فلم تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صبیحہ خانم واحد اداکارہ ہیں جنھوں نے فلم دُلا بھٹی (1956) میں ہیروئن کا رول کیا اور تین دھائیوں بعد فلم دُلا بھٹی (1984) میں دُلا بھٹی کی ماں کا انتہائی متاثر کن رول بھی کیا تھا۔
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.