Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


داؤد چاند

داؤد چاند
داؤد چاند
پاکستان کے پہلے فلم ڈائریکٹر تھے

داؤد چاند ، پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے علاوہ پہلی گولڈن جوبلی سپرہٹ اردو فلم سسی (1954) کے ہدایتکار بھی تھے۔۔!

فلم تیری یاد (1948) پر ایک تفصیلی مضمون لکھا جا چکا ہے۔ آج کی نشست میں پاکستان کے پہلے فلم ڈائریکٹر داؤد چاند کی تقسیم سے پہلے اور بعد کی خاص خاص فلموں اور دیگر اہم فلمی واقعات کا ذکر ہوگا۔

داؤد چاند کا تعلق بھارتی ریاست گجرات کے علاقہ کاٹھیا واڑ سے تھا جہاں 1907ء میں پیدا ہوئے۔ فلموں کے شوق میں بمبئی اور کلکتہ کے فلمی مراکز کا سفر کیا۔ مختلف فلموں میں اداکاری وغیرہ کے بعد کلکتہ میں آدھ درجن فلمیں بنانے کا موقع بھی ملا جن میں سے ایک مشہور فلم کمپنی اندرا مووی ٹون کی ایک پنجابی فلم سسی پنوں (1939) بھی تھی۔

فلم سسی پنوں (1939)

سسی پنوں (1939)
سسی پنوں (1939)
سسی (1954)
سسی (1954)
پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم تھی

ہدایتکار داؤد چاند کی کلکتہ میں بنائی ہوئی پنجابی فلم سسی پنوں (1939) کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں اداکارہ بالو اور اس کے خاوند ، محمدعلی ماہیا نے کام کیا تھا۔ یہ دونوں ، پاکستان کی عظیم اداکارہ صبیحہ خانم کے والدین تھے۔

اداکارہ بالو (اقبال بیگم) ، گجرات کے ایک صاحب ثروت وکیل کی بیٹی تھی جو کالج جاتے ہوئے پنجابی گائیکی کی ایک صنف "ماہیا" گانے والے ایک خوش الحان مگر خستہ حال کوچوان کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی۔ دل نادان بے قابو ہوا تو سماجی رسم و رواج کی دیواریں توڑتے ہوئے اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی۔ عشق کا بھوت اترا تو تلخ زمینی حقائق سامنے آئے۔ جاہل ، کاہل اور نااہل عاشق نے دولت کی ہوس میں ایک نازوں پلی دوشیزہ کو بازار حسن کی زینت بنا دیا جو زیادہ دیرتک یہ ذلت و خواری برداشت نہ کر سکی اور جوانی ہی میں یہ صدمہ لیے ایک معصوم بچی کو جنم دے کر دار فانی سے کوچ کر گئی تھی۔

فلم سسی پنوں (1939) سے قبل بالو کی بطور ہیروئن ، کلکتہ ہی میں بنی ہوئی ایک اور پنجابی فلم ہیر سیال (1938) بھی تھی جس میں اس نے ہیر کا رول کیا تھا۔ سسی کے ٹائٹل رول میں بھی بالو تھی جبکہ محمد اسلم نامی اداکار نے پنوں کا رول کیا تھا۔ محمدعلی ماہیا نے بھی اس فلم میں ایک ثانوی رول کیا تھا۔

اندرا مووی ٹون کلکتہ کی پنجابی فلم سسی پنوں (1939) کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں بے بی نور جہاں نے سسی یعنی بالو کے بچپن کا رول کیا تھا اور ایک گیت بھی گایا تھا "میرے بابل دا مکھڑا پیارا ، میری امی اے روشن تارا۔۔" اسی فلم میں ملکہ ترنم نورجہاں کی دونوں بہنیں ، حیدر باندی اور عیدن بائی نے بھی اداکاری کی تھی جو "پنجاب میل" کے نام پر کلکتہ کی فلم انڈسٹری کو مہیا کی گئی تھیں۔

فلم سسی (1954)

عرصہ پندرہ سال بعد ہدایتکار داؤد چاند نے پاکستان میں ایک بار پھر اسی موضوع پر فلم سسی (1954) بنائی جس میں بالو اور محمدعلی ماہیا کی اٹھارہ انیس سالہ نوجوان بیٹی صبیحہ خانم نے ٹائٹل رول کیا تھا۔۔!

پاکستان کی فلمی تاریخ کی یہ پہلی گولڈن جوبلی سپرہٹ فلم تھی۔ سدھیر نے پنوں کا رول کیا تھا۔ بابا چشتی کی دھن میں کوثر پروین کا یہ گیت بڑا مشہور ہوا تھا "نہ یہ چاند ہوگا ، نہ تارے رہیں گے۔۔" اس گیت کو ایک بھارتی گیت کا چربہ بتایا جاتا ہے لیکن یہ ثابت نہیں کیا جا سکا کہ کس نے کس کی نقل کی تھی؟

تقسیم سے قبل ہی کلکتہ میں آدھ درجن فلمیں بنانے کے بعد داؤد چاند لاہور چلے آئے جہاں 1940 کی دھائی میں فلمی کاروبار اپنے عروج پر تھا۔ لاہور میں آٹھ فلم سٹوڈیوز تھے جہاں دھڑا دھڑ فلمیں بن رہی تھیں۔ صرف دو برسوں میں داؤد چاند کے کریڈٹ پر چار فلمیں ریکارڈز پر ہیں۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ان چاروں فلموں میں آشا پوسلے بھی شامل تھی جو پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کی ہیروئن بھی بنی۔

تقسیم سے قبل لاہور میں داؤد چاند کی فلمیں

تقسیم سے قبل لاہور میں بنائی گئی داؤد چاند کی بطور ہدایتکار پہلی فلم پرائے بس میں (1946) تھی جس میں آشا پوسلے ، ہیروئن اور نامور بھارتی ولن اداکار ، پران ، ہیرو تھے۔ نذر ، آغا سلیم رضا ، ظہور شاہ اور غلام قادر دیگر اہم اداکار تھے۔ لال کرنانی فلمساز جبکہ مصنف شاہ جہاں بیگم تھیں۔ احسان بی اے کے مکالمے تھے۔ نیاز حسین شامی کی دھنوں میں عزیز کشمیری اور طفیل ہوشیارپوری کے گیتوں کو زینت بیگم اور ایس ڈی باتش نے گایا تھا۔

فلم آرسی (1947) ، کا آغاز بھی لاہور میں ہوا لیکن داؤد چاند نے اس کی تکمیل بمبئی میں کی اور اسی سال تقسیم کے بعد ایک بھارتی فلم کے طور پر پاکستان میں ریلیز ہوئی تھی۔ مینا شوری کے ساتھ الناصر مرکزی کرداروں میں تھے جبکہ لاہور کے مستقل فنکاروں ، آشا پوسلے اور پران کے علاوہ اجمل ، ظہور شاہ اور شیخ اقبال دیگر اہم کردار تھے۔ جیون داس چاند کے سرمائے سے بننے والی اس فلم کی موسیقی شیام سندر اور لچھی رام نے دی تھی اور زینت بیگم ، دلشاد بیگم اور ایس ڈی باتش کے گیت تھے۔

فلم پپیہا رے (1948) کو داؤد چاند نے صرف 22 دنوں میں مکمل کر لیا تھا لیکن تقسیم کے فسادات کی وجہ سے 1948ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اختری اور امرناتھ مرکزی کرداروں میں تھے جبکہ آشا پوسلے ، شیخ اقبال ، اجمل ، خیراتی اور جی این بٹ دیگر اہم کردار تھے۔ ملک راج بکری کی اس فلم کی موسیقی دھنی رام نے دی تھی۔ لاہور کی فلموں کی مصروف ترین گلوکارہ زینت بیگم کے علاوہ امیربائی اور دھنی رام نے گیت گائے تھے۔

ہدایتکار داؤد چاند کی فلم ایک روز (1949) بھی لاہور کی فلم تھی اور اسی سال یعنی 1947ء میں بمبئی وغیرہ میں ریلیز ہوئی لیکن لاہور میں ایک بھارتی فلم کے طور پر 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی ہیروئن نسرین تھی جو برصغیر کی پہلی پنجابی فلم ہیر رانجھا (1932) کی جوڑی انوری بیگم اور رفیق غزنوی کی بیٹی اور 1980 کی دھائی کی نامور اداکارہ اور گلوکارہ سلمیٰ آغا کی ماں تھی۔ الناصر ہیرو تھے جبکہ لاہور کے مخصوص معاون اداکار ، آشا پوسلے ، اجمل ، ایم اسماعیل اور آغا سلیم رضا وغیرہ دیگر اہم کردار تھے۔ پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے مصنف خادم محی الدین کی کہانی تھی جبکہ شیام سندر کی موسیقی میں گلوکارہ منورسلطانہ اور جی ایم درانی کے گیت تھے۔

تقسیم کے بعد لاہور میں داؤد چاند کی فلمیں

قیام پاکستان کے بعد بھی داؤد چاند خاصے مصروف رہے اور انھیں اوپر تلے تین فلمیں بنانے کو ملیں۔ فلم تیری یاد (1948) کے بعد ان کی دوسری فلم ہچکولے (1949) تھی جو ریلیز کے اعتبار سے پاکستان کی تیسری فلم تھی۔ سدھیر کی تقسیم کے بعد یہ پہلی فلم تھی جن کی جوڑی اداکارہ نجمہ کے ساتھ تھی جو تقسیم کے قبل کی ایک مشہور اداکارہ تھی اور جس نے باری ملک سے شادی کر کے فلم انڈسٹری کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔ نذر ، اختری ، ظہور شاہ اور مایہ دیوی کے علاوہ ایم اسماعیل مرکزی کردار میں تھے۔ ماسٹرعنایت حسین کی دھن میں سیف الدین سیف کے گیتوں کو منورسلطانہ کے علاوہ علی بخش ظہور نے بھی گایا تھا جن کا ایک بھولا بسرا گیت بڑا دلکش تھا "میں پیار کا دیا جلاتا ہوں ، تو چپکے چپکے آجا۔۔"

داؤد چاند کی پہلی پاکستانی پنجابی فلم

داؤد چاند

داؤد چاند کی پاکستان میں پہلی پنجابی فلم مندری (1949) تھی جو ایورنیو پکچرز کے آغا جی اے گل کی پہلی فلم تھی۔ یہی فلم 1940 کی دھائی میں لاہور کی مقبول ترین ہیروئن ، راگنی کی تقسیم کے بعد پہلی پاکستانی فلم تھی۔ الیاس کاشمیری کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ 1930/40 کی دھائی کے ممتاز مزاحیہ اداکار نورمحمد چارلی کی یہ پہلی پاکستانی اور پہلی ہی پنجابی فلم بھی تھی۔ بابا چشتی کی موسیقی میں متعدد گیت مقبول ہوئے تھے جن میں "چناں چن چاننی ، موسم اے بہار دا۔۔" خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

باکس آفس پر ان تینوں فلموں کی ناکامی کے بعد داؤد چاند بے روزگار ہو گئے تھے۔ صرف چار برسوں میں سات فلمیں بنانے کے بعد اگلے کئی سال تک انھیں کوئی فلم نہیں ملی لیکن فلم سسی (1954) کی ریکارڈ توڑ کامیابی نے اگلے پچھلے تمام حساب برابر کر دیے تھے۔ اس فلم کو یہ ناقابل شکست اعزاز حاصل ہے کہ کراچی میں پچاس سے زائد ہفتے چل کر سپرہٹ ہونے والی پہلی گولڈن جوبلی پاکستانی اردو فلم تھی۔

داؤد چاند کی ایک اور ناکام پنجابی فلم بلبل (1955) میں بھی آشا پوسلے ہیروئن تھی۔ پاکستان کے پہلے سپرسٹار سدھیر ہیرو تھے جو ان کی آدھی فلموں کے ہیرو تھے۔ بابا چشتی کی دھن میں کوئی گیت قابل ذکر نہیں تھا۔

ہدایتکار داؤد چاند کی اگلی فلم مرزا صاحباں (1956) کے مرکزی کردار مسرت نذیر اور سدھیر نے کیے تھے۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے موسیقار خواجہ خورشید انور تھے لیکن کوئی گیت مقبول نہیں ہو سکا تھا۔

داؤد چاند کی دو کامیاب فلمیں

کراچی کے ایوریڈی پکچرز کے فلمساز جے سی انند کی اسلامی فلم حاتم (1956) ، بطور ہدایتکار ، داؤد چاند کی ایک کامیاب فلم تھی جس میں صبیحہ اور سدھیر مرکزی کرداروں میں تھے۔ صفدرحسین کی دھن میں قتیل شفائی کا لکھا ہوا اور سلیم رضا کا گایا ہوا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا "تیرے محلوں کی چھاؤں میں ، قرار اپنا گوا بیٹھے۔۔"

1957ء میں داؤد چاند نے بطور فلمساز اپنی اکلوتی فلم مراد (1957) بنائی جس میں یاسمین اور کمال کی جوڑی تھی جبکہ ٹائٹل رول ، الیاس کاشمیری نے کیا تھا۔ اس فلم میں اداکارہ یاسمین کی سکرین بیوٹی بڑے کمال کی تھی۔ یہ ایک بہت اچھی فلم تھی اور یہی ان کی آخری کامیاب فلم بھی تھی۔

داؤد چاند کا زوال

اس کے بعد داؤد چاند کی کوئی فلم کامیاب نہ ہوسکی تھی۔ متعدد تجربات کیے جن میں فلم عالم آرا (1959) میں اکمل کو شمیم آرا کے ساتھ ہیرو لیا جو ایک ناکام تجربہ ثابت ہوا۔ فلم سپیرن (1961) میں احمدرشدی کا پہلا مقبول عام گیت "چاند سا مکھڑا ، گورا بدن۔۔" بھی فلم کو ناکامی سے نہ بچا سکا۔ فلم غزالہ (1963) ، خیبرپاس (1964) ، ریشماں (1970) اور بہادرا (1973) کے بعد آخری فلم پلیکھا (1975) تھی جس میں انھوں نے رانی کے ساتھ شہباز نامی گمنام ہیرو کو پیش کیا تھا۔ اس فلم میں بابا چشتی کی دھن میں بڑے اچھے گیت تھے۔ مہدی حسن کا گیت "دل ٹٹیا ، تاں سمجھ آئی ، جگ دا جھوٹا پیار۔۔" اور نسیم بیگم اور مسعود رانا کا یہ شوخ دو گانا "تیرے ورگا سوہنا گبھرو ، کرے جے سانوں پیار ، ہور کی چاہی دا۔۔" اکثر سننے میں آتے تھے۔

1907ء میں پیدا ہونے والے داؤد چاند کا 22 مئی 1975ء کو لاہور میں انتقال ہوگیا تھا۔

مسعودرانا کے داؤد چاند کی 1 فلموں میں 2 گیت

(0 اردو گیت ... 2 پنجابی گیت )
1

تیرے ورگا سوہنا گبھرو ، کرے جے ساہنوں پیار ، ہور کی چاہی دا..

فلم ... پلیکھا ... پنجابی ... (1975) ... گلوکار: نسیم بیگم ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: ؟ ... اداکار: رانی ، شہباز
2

نچ لو ، گا لو ، دوستو ، موج اڑا لو ، دوستو ، مستی دے وچ ڈب چلیاں ، مینوں سنبھالو ، دوستو..

فلم ... پلیکھا ... پنجابی ... (1975) ... گلوکار: مسعودرانا ، آئرن پروین ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: وارث لدھیانوی ... اداکار: شہباز ، رانی اور ساتھی

Masood Rana & Dawood Chand: Latest Online film

Masood Rana & Dawood Chand: Film posters
Pulekha
Masood Rana & Dawood Chand:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & Dawood Chand:

Total 1 joint films

(0 Urdu, 1 Punjabi films)

1.1975: Pulekha
(Punjabi)


Masood Rana & Dawood Chand: 2 songs in 1 films

(0 Urdu and 2 Punjabi songs)

1.
Punjabi film
Pulekha
from Friday, 31 January 1975
Singer(s): Naseem Begum, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Rani, Shehbaz
2.
Punjabi film
Pulekha
from Friday, 31 January 1975
Singer(s): Masood Rana, Irene Parveen & Co., Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): ??



Sharabi
Sharabi
(2013)
Anokhi
Anokhi
(1956)
Rano
Rano
(1974)

Bhai Jan
Bhai Jan
(1945)
Dard
Dard
(1947)
Shakuntla
Shakuntla
(1943)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.