اداکارہ نگو
پاکستانی فلموں کی
مقبول ترین ڈانسر تھی
ہماری فلموں میں جہاں ہیرو ، ہیروئن ، ولن ، ویمپ ، مزاحیہ ، معاون ، کیریکٹرایکٹر ، فائٹر اور ایکسٹرا اداکار ہوتے تھے وہاں ایک اہم ترین شعبہ مجرا کرنے والی اداکاراؤں کا بھی ہوتا تھا جنھیں دور حاضر میں item girls اور ان کے گیتوں کو item song یا item number بھی کہتے ہیں۔.!
ویسے تو فلمی صورتحال کے مطابق ہیروئن بھی بھر پور رقص کیا کرتی تھی لیکن پنجابی فلموں میں روایتی مجروں یا اردو فلموں میں کلب ڈانس کے لیے ایسی پیشہ ور رقاصاؤں یا طوائفوں کو نچایا جاتا تھا جو اس فن میں طاق ہوتی تھیں۔
عام طور پر ایسے 'آئٹم نمبرز' کا فلم کی کہانی اور دیگر کرداروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا لیکن فلم بینوں میں ایسے مجروں کی مقبولیت مسلمہ ہوتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں فلم بینی سے زیادہ تماش بینی ہوتی رہی ہے۔
پاکستانی فلموں کی پہلی رقاصہ ہیروئن
پاکستانی فلموں میں نیلو پہلی بڑی رقاصہ تھی جو اپنی فلموں کی کوریوگرافی بھی خود کرتی تھی لیکن وہ بھی زمرد ، رانی ، فردوس ، عالیہ ، عشرت چوہدری ، ممتاز ، نازلی اور نجمہ وغیرہ کی طرح اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر فلمی ہیروئن بن گئی تھی۔
یوں تو دیگر بہت سی اداکارائیں بھی فلموں میں مجرے کرتی ہوئی نظر آئیں لیکن یہاں صرف ان مقبول ترین رقاصاؤں کا ذکر کیا جارہا ہے جو پاکستانی فلموں کے پہلے تین عشروں میں صرف مجروں یا آئٹم نمبرز تک محدود رہی اور بہت کم فلموں میں ان کا کوئی مکالمہ سننے کو ملتا تھا۔ مندرجہ ذیل سبھی اداکاراؤں کے فلمی ریکارڈز کی اپ ڈیٹ فہرستیں دستیاب ہیں جو ان کی تصاویر پر کلک کر کے دیکھی جا سکتی ہیں۔
رخشی
رخشی
پاکستانی فلموں کی پہلی
مشہور مجرا گرل تھی
مجرا گیتوں میں پہلا بڑا اور مشہور نام اداکارہ رخشی کا تھا جس نے چالیس سے زائد فلموں میں آئٹم نمبرز کیے تھے۔ فلم ڈائریکٹر (1951) سے فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والی یہ پرکشش اداکارہ ، پچاس کے عشرہ کی مقبول ترین ڈانسر تھی۔ فلم دلابھٹی (1956) میں رخشی پر فلمایا ہوا گلوکارہ منورسلطانہ کا یہ گیت بڑا مشہور ہوا تھا
- پیار کر لے ، آجا پیار کر لے ، پیسے نئیں جے کول تے ادھار کر لے۔۔
فلم نوراں (1957) میں اقبال بانو کا یہ گیت
- چھیتی بوہڑی وے طبیبا ، نئیں تے میں مر گیا آ۔۔
بھی رخشی پر فلمایا گیا تھا۔ فلم سلمیٰ (1960) میں زبیدہ خانم اور منیر حسین کے اس شوخ گیت پر رخشی کا رقص قابل دید تھا
- مت چھونا رے ، میرا بدن دہکتی آگ ، مجھے مت چھونا رے۔۔
مسعودرانا نے جہاں فلمی گائیکی پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے وہاں بیشتر آئٹم گرلز کے لیے گیت بھی گائے تھے لیکن رخشی کے ساتھ واحد مشترکہ فلم بہادر (1967) تھی اور کوئی مشترکہ گیت نہیں ملتا۔ رخشی کا تعلق کرسچن برادری سے تھا۔
ایمی مینوالا
پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والی اداکارہ ایمی مینوالا ، پاکستانی فلموں کی دوسری نامور رقاصہ تھی جس نے فلم سوہنی (1955) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان فلم ڈیٹابیس میں ایمی مینوالا کی پچاس سے زائد فلموں کا اندراج ہے۔ فلم باجی (1963) میں ایمی مینوالا پر فلمایا ہوا نسیم بیگم کا یہ گیت
- چندا توری چاندنی میں ، جیا جلا جائے رے۔۔
کے علاوہ اسی فلم میں ایک دوسری رقاصہ پنا کے ساتھ میڈم نورجہاں اور فریدہ خانم کا گایا ہوا یہ کلاسیکل گیت
- سجن توری لاگی لگن من ما۔۔
اور فلم عذرا (1962) میں میڈم کا یہ کلاسیکل گیت
- اے جانم ، گائے جوانی دم بدم۔۔
بھی بڑے مشہور گیت تھے۔
مسعودرانا کے ساتھ ایمی مینوالا کی متعدد فلمیں تھیں اور شاید ایک فلم قتل کے بعد (1963) میں ایک مشترکہ گیت بھی تھا۔
ایمی مینوالا کے بھائی اداکار فومی تھے اور نامور ہدایتکار حسن طارق کی تین معروف بیویوں میں سے ایک ایمی مینوالا بھی تھی۔
پنا
اداکارہ پنا ایک کلاسیکل رقاصہ تھی جس نے فلموں کے علاوہ سرکاری تقاریب میں بیرونی سربراہوں کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔ پہلی فلم غریب (1960) اور آخری فلم پائل (1970) تھی۔ پنا کے کریڈٹ پر پچاس سے زائد فلمیں تھیں جن میں سے چند فلموں میں اداکاری بھی کی تھی۔
پنا پر فلمائے ہوئے گیتوں میں فلم آنچل (1962) میں احمدرشدی اور آئرن پروین کا ایک مشہور مزاحیہ گیت
- کچی کڑی میں مکھی پڑی ، ہائے میری اماں۔۔
فلم عذرا (1962) میں نسیم بیگم اور نذیربیگم کا یہ کلاسیکل گیت
فلم چوڑیاں (1963) میں ملکہ ترنم نورجہاں کا یہ خوبصورت گیت
- ڈنگی پگ بن دا اے منڈا لمبردار دا۔۔
اور فلم بہادر (1967) میں مسعودرانا اور آئرن پروین کا گایا ہوا یہ مزاحیہ گیت
- قدموں میں تیرے بچھا دوں ، میں تیرے لیے سر کو کٹا دوں۔۔
وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ پنا نے ہدایتکار ایس سلیمان سے شادی کرکے فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔
چھم چھم
چھم چھم
ساٹھ کی دھائی کی
مقبول ترین ڈانسر تھی
ساٹھ کے عشرہ کی انتہائی مقبول و مصروف رقاصہ چھم چھم نے سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔ اس کی پہلی فلم عزت (1960) تھی۔
فلم نائیلہ (1965) میں مالا کا یہ خوبصورت گیت
- کوئی پیار کا فسانہ گوری پیا کو سناؤ۔۔
چھم چھم پر فلمایا گیا تھا۔ دیگر گیتوں میں فلم سرحد (1966) میں مسعودرانا ، آئرن پروین اور ساتھیوں کا یہ کورس گیت
- دیکھ دیکھ دیکھ ، تیری گلی میں آیا ہے کون۔۔
فلم جاگ اٹھا انسان (1966) میں مالا کا ایک دلکش گیت
- جب ساون گر گر آئے ، کوئیلیا گائے ، بلم تم آجانا۔۔
فلم لاکھوں میں ایک (1967) میں نسیم بیگم اور احمدرشدی کا ایک بھاری بھر کم گیت
- جانے یا نہ جانے غفوراً غفورا۔۔
فلم میرا بابل (1968) میں مسعودرانا ، منورظریف اور اختری کا گایا ہوا یہ مزاحیہ گیت
- جس دی خاطر کن پڑوائے ، حال کرا لیا ماڑا۔۔
فلم دلدار (1969) میں مسعودرانا اور مالا کا یہ گیت
- میں بندہ آں نواب ، کھلا ڈھلا اے حساب۔۔
اور فلم الزام (1972) کا یہ سنجیدہ تھیم سانگ
- ہم پہ الزام تو ایسے بھی ہے ، ویسے بھی سہی۔۔
ایک مجرے کے انداز میں چھم چھم پر فلمایا گیا تھا۔13 نومبر 2020ء کو چھم چھم کا لاہور میں انتقال ہو گیا تھا۔
فریدہ
سو سے زائد فلموں میں نظر آنے والی اداکارہ فریدہ کا آغاز ہی بڑا دھماکہ خیز ہوا تھا جب اس کی پہلی فلم تیس مارخاں (1963) میں اس پر فلمایا ہوا نذیربیگم کا یہ گیت
سپرہٹ ہوا تھا۔ فلم میدان (1968) کا یہ مشہور گیت
- چوڑا میری بانہہ دا چھنکدا اے چھن چھن۔۔
بھی فریدہ پر فلمایا گیا تھا۔ فلم لال بجھکڑ (1967) میں نذیربیگم اور مسعودرانا کا یہ مزاحیہ گیت بھی فلمایا گیا تھا
- وے مکھناں ، چک اکھیاں توں پلکاں دا ڈھکنا ، ایناں وچ میں وسنا۔۔
اس کے علاوہ فریدہ نے فلم جناب عالی (1968) میں اداکاری کی تھی اور اس کے لیے مسعودرانا کا یہ دلکش گیت گایا گیا تھا
- ایوں تھاں تھاں دل نئیں ہاری دا ، بی با ، انھیاں دا حق نئیں ماری دا۔۔
فریدہ نے فلم پیار ہی پیار (1974) میں
خلیفہ نذیر کے مقابل اداکاری کی تھی جبکہ ایک فلم مچھیرن میں وحیدمراد کے ساتھ ہیروئن بھی کاسٹ ہوئی تھی لیکن وہ فلم نہیں بن سکی تھی۔
نگو
ڈانسر نگو نے بمشکل آٹھ نو سالہ فلمی کیرئر میں سو سے زائد فلموں میں مجرے کیے تھے۔ وہ اپنے وقت کی سب سے مقبول آئٹم گرل تھی اور اس پر بڑی تعداد میں مقبول عام گیت فلمائے گئے تھے۔ پہلی فلم عشرت (1964) اور آخری فلم لکھا (1978) تھی۔ نگو پر فلم بہورانی (1969) میں مسعودرانا اور مالا کا یہ کورس گیت
- او گورے مکھ پہ عنابی دوپٹہ ، او تیرا جواب نہیں۔۔
بھی فلمایا گیا تھا۔ نگو پر جو مقبول ترین گیت فلمایا گیا تھا وہ
- جناں تیری مرضی نچا بیلیا۔۔
خان چاچا (1972) میں ملکہ ترنم نورجہاں نے گایا تھا۔ اس فلم کے علاوہ فلم ہیررانجھا (1970) میں بھی نگو نے ایکٹنگ کی تھی اور چند ڈائیلاگ بولے تھے ، ورنہ زیادہ تر فلموں میں اس کا صرف آئٹم سانگ ہی ہوتا تھا۔
اداکارہ نگو کو اس کے خاوند نے 5 جنوری 1972ء کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
مینا چوہدری
مینا چوہدری ایک ایسے وقت میں فلموں میں آئی جب ایمی مینوالا ، پنا ، چھم چھم ، فریدہ اور نگو جیسی بڑی بڑی مجرا اداکارائیں موجود تھیں۔ سو سے زائد فلموں میں کام کرنے والی اس ڈانسر اداکارہ کی پہلی فلم عید مبارک (1965) تھی۔ فلم آنچ (1969) ، سماج (1974) اور عزت (1975) میں اہم کردار کیے تھے۔ مینا چوہدری پر سب سے ہٹ گیت
- کس نے توڑا ہے دل حضور کا۔۔
فلم رنگیلا (1970) میں فلمایا گیا تھا جو مالا نے گایا تھا۔ فلم پیار کا موسم (1975) میں مینا چوہدری اور ساتھیوں پر مسعودرانا اور ساتھیوں کا گیت
- پیار کا موسم ، دل کو جلائے ، ایسے میں کوئی مجھے ساتھی مل جائے۔۔
فلمایا گیا تھا جبکہ فلم ساجن رنگ رنگیلا (1975) میں شاذیہ اور احمدرشدی کا یہ گیت بھی فلمایا گیا تھا
- سمجھ کے اپنا اک بیگانے کو ، پیار میں دھوکہ کھایا۔۔
مینا چوہدری کی فلمی جوڑی اپنی ہم عصر ڈانسر نگو کے ساتھ بڑی مقبول تھی اور ان دونوں نے دو درجن سے زائد فلموں میں ایک ساتھ مجرے کیے تھے۔
انیتا
انیتا ، پاکستان کی پہلی مجرا اداکارہ تھی جس نے فحاشی ، عریانی اور بے ہودگی میں نام کمایا تھا۔ فلمساز شاہد افضل اور ہدایتکار رحمت علی کی پنجابی فلم خطرناک (1974) میں ایسے قابل اعتراض رقص تھے کہ جنھیں کوئی شریف آدمی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ عکاس عاشق مرزا اور مسعودالرحمان نے انتہائی واہیات اور قابل اعتراض مناظر فلم بند کیے تھے جن پر انیتا کے علاوہ نازلی اور مزلہ کے جسم بھی تختہ مشق بنے تھے۔
نیلو کی اپنے دوسرے دور میں یہ پہلی فلم تھی لیکن اس کا تھوڑا بہت لحاظ کیا گیا تھا۔ ان بے ہودہ مناظر سے دل بہلانے والوں میں یوسف خان ، مصطفیٰ قریشی ، افضال احمد ، کمال ایرانی اور فاضل بٹ جیسے معتبر نام شامل تھے۔ یہی پہلی پنجابی فلم تھی جس نے کراچی میں سو ہفتے چلنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
انیتا نے فلم مسٹر بدھو (1973) سے اپنے فلمی کیریر کا آغاز کیا تھا۔ فلم کل کل میرا ناں (1976) میں مسعودرانا اور افشاں کا یہ گیت
- تیری جوانی اک پارا ، مکھ ، چن کولوں ودھ پیارا۔۔
انیتا اور منورظریف پر فلمایا گیا تھا۔ فلم دبئی چلو (1979) میں میڈم نورجہاں کا یہ سپرہٹ گیت
- دوروں دوروں اکھیاں مارے منڈا پٹواری دا۔۔
بھی انیتا پر فلمایا گیا تھا۔ ستر اور اسی کے عشرہ میں اس کے بے شمار آئٹم سانگز ملتے ہیں۔
امروزیہ
امروزیہ
اسی کی دھائی کی
مقبول ترین ڈانسر تھی
ستر اور اسی کے عشروں کی مقبول ترین ڈانسر اداکارہ امروزیہ کی پہلی فلم علاقہ غیر (1972) تھی۔ وہ پشتو فلموں میں بے حد پسند کی جاتی تھی۔ پنجابی فلم کھڑاک (1975) میں افشاں کا گیت
- گڈی وانگوں اج مینوں سجناں ، اڈائی اڈائی جا۔۔
فلم مسٹرافلاطون (1981) میں میڈم نورجہاں کا گیت
- سونے دی نتھلی ، اصلی کے نقلی ، شک جے کریں گا ڈھولنا۔۔
بھی امروزیہ پر فلمایا گیا تھا۔ فلم ضمیر (1981) میں مہناز کی آواز میں یہ سپرہٹ گیت بھی امروزیہ پر ہی فلمایا گیا تھا
- ہم نہ ہوں گئے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا۔۔
مسعودرانا کا امروزیہ کے لیے کوئی دوگانا تو نہیں ملتا لیکن دو سولو گیت ضرور ملتے ہیں۔ ان میں سے پہلا ایک شاہکار کلاسیکل گیت فلم خوفناک (1976) میں تھا
- سُراں نال پیار کری جا تے اکھیاں چار کری جا۔۔
اس منفرد گیت میں مسعودرانا ، راگ درباری اور راگ دیپک گا کر بتاتے ہیں کہ وہ راگ کیسے گائے جاتے ہیں۔ اس گیت سے پہلے امروزیہ ، منورظریف سے پوچھتی ہے "آپ کو گانا آتا ہے۔۔؟"
جواب میں منورظریف بڑی بے ساختگی سے کہتے ہیں "تال میں ناچنا ، سُر میں گانا اور لڑکی بھگانا میرا فن ہے۔۔"
اس گیت پر پرفامنس نے ثابت کر دیا تھا کہ گیتوں کی فلمبندی میں منورظریف کا کبھی کوئی ثانی نہیں ہوتا تھا۔
فلم پاگل پتر (1986) میں مسعودرانا کا یہ دلکش رومانٹک گیت
- اج پھڑنی میں دودھ رنگی بانہہ تے رب جانے کی ہووے گا۔۔
علی اعجاز ، مجیدظریف اور خالدسلیم موٹا پر فلمایا گیا تھا جو سہاگ رات کے موقع پر امروزیہ وغیرہ کے لیے گاتے ہیں۔
مزلہ
مزلہ کو پہلی بار فلم آرپار (1973) میں متعارف کروایا گیا تھا۔ مزلہ کو بھی فلم خطرناک (1974) کے ایک بے ہودہ رقص سے شہرت ملی تھی۔ مزلہ کی پچاس سے زائد فلمیں تھیں اور اس کی مجرا جوڑی امروزیہ کے ساتھ بڑی مقبول تھی۔
فلم پتر تے قانون (1977) میں مسعودرانا اور آئرن پروین کا ایک گیت
- مینوں منڈیا پراندا ذرا دیئیں پھڑ کے۔۔
مزلہ اور افضل خان پر فلمایا گیا تھا۔ فلم وڈا خان (1983) میں بھی ایک بڑا دلکش گیت
- لوکو ، بہتی سوہنی کڑی وی عجیب ہوندی اے۔۔
سلطان راہی اور مزلہ پر فلمایا گیا تھا جو مسعودرانا اور افشاں کا گایا ہوا تھا۔
مزلہ کا 29 نومبر 1998ء کو انتقال ہو گیا تھا۔ وہ اداکارہ ریما کی خالہ بتائی جاتی ہے۔
(0 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )
(0 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )
(1 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )
(1 اردو گیت ... 2 پنجابی گیت )
(0 اردو گیت ... 1 پنجابی گیت )
(1 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )
(1 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )
(0 اردو گیت ... 1 پنجابی گیت )
(0 اردو گیت ... 2 پنجابی گیت )
(0 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )