A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
ہدایتکار نذرالاسلام کو میگاہٹ اردو فلم آئینہ (1977) سے زبردست شہرت ملی تھی۔۔!
بنیادی طور پر ایک تدوین کار یا فلم ایڈیٹر تھے جنھوں نے سابقہ مشرقی پاکستان میں بنگالی فلموں سے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ معروف ہدایتکار ظہیرریحان کے معاون کے طور پر کام کرتے رہے اور بطور ہدایتکار متعدد بنگالی فلموں کے علاوہ پہلی اردو فلم کاجل (1965) کا ذکر ملتا ہے۔ اوسط درجہ کی اس فلم کے مرکزی کردار شبنم اور خلیل نے ادا کیے تھے۔
نذرالاسلام کی ڈھاکہ میں دوسری اور آخری اردو فلم پیاسا (1969) تھی جس میں سچندا ، رحمان اور عظیم مرکزی کردار تھے۔ سبل داس کی موسیقی میں احمدرشدی کا گیت "اچھا کیا دل نہ دیا ، ہم جیسے دیوانے کو۔۔" سپرہٹ ہوا تھا۔ "تو تتلی تھی ، میں بادل تھا۔۔" بھی ایک مقبول گیت تھا لیکن مجیب عالم کا ایک منفرد گیت "او گوری درشن دے ، چلی ہے کہاں بن ٹھن کے۔۔" بڑے کمال کا تھا۔
مشرقی پاکستان یا موجودہ بنگلہ دیش میں بننے والی اردو فلمیں عام طور پر بنگالی فلموں سے اردو میں ڈب کی جاتی تھیں اور بڑی کمزور فلمیں ہوتی تھیں جو کراچی کی حد تک تو چل جاتی تھیں لیکن باقی ملک میں نہیں چلتی تھیں۔
بنگالی فنکار زیادہ تر ڈھاکہ کی بنگالی فلموں کے علاقائی فنکار شمار ہوتے تھے جنھیں باکس آفس ویلیو نہ ہونے کی وجہ سے لاہور یا کراچی میں بننے والی فلموں میں کاسٹ نہیں کیا جاتا تھا۔
ریکارڈز کے مطابق ندیم پہلے اداکار تھے جنھیں ڈھاکہ کی فلموں میں آنے کے بعد مغربی پاکستان کے فلمسازوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔
ان کی دیکھا دیکھی دیگر بنگالی فنکاروں کو بھی ترغیب ملی اور متعدد بڑے بڑے فنکاروں نے بہتر مستقبل کی تلاش میں ڈھاکہ چھوڑ کر لاہور اور کراچی کی راہ لی تھی۔ ایسے فنکاروں میں شبنم ، روبن گھوش، رحمان ، شبانہ ، بشیراحمد ، نسیمہ خان ، ریشماں ، اختریوسف ، سروربارہ بنکوی اور نذرالاسلام وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر تھے۔
ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد جب پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر مکمل پابندی لگا دی گئی تھی تو لاہور کی فلم انڈسٹری کو خاصا عروج حاصل ہوا تھا اور یہاں فلموں کی تعداد میں قابل ذکر حد تک اضافہ ہوگیا تھا۔ ایسے میں فنکاروں کی قلت محسوس ہونے لگی تھی اور نئے چہروں کی بڑی زبردست مانگ ہوتی تھی۔ اسی لیے مشرقی پاکستان کے فنکاروں کو بھی مغربی پاکستان کی فلموں میں خوش آمدید کہا گیا تھا۔
یادرہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کی "سازش" جو تاریخ میں "اگر تلہ سازش کیس" کے نام سے مشہور ہوئی تھی ، پہلی بار سرکاری طور پر جنوری 1968ء میں سامنے آئی تھی۔
اسی سال صدرایوب خان کے زوال کا دور بھی شروع ہوگیا تھا۔ دونوں خطوں میں زبردست ہنگامے ہوئے تھے لیکن مشرقی پاکستان میں غم و غصہ کچھ زیادہ ہی تھا۔ ان کشیدہ حالات سے گبھرا کر بھی بہت سے فنکار ڈھاکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش کے حالات بڑے دگرگوں تھے جس کی وجہ سے بیشتر بنگالی فنکاروں نے پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا تھا جن میں سے ایک نذرالاسلام بھی تھے۔
ہدایتکار نذرالاسلام کی موجودہ پاکستان میں پہلی فلم احساس (1972) تھی۔ کراچی کے ایک معروف فلمی اخبار نگار ویکلی کے بانی اور ایڈیٹر الیاس رشیدی کا نام فلمساز کے طور پر آتا ہے۔
شبنم ، ندیم اور رنگیلا مرکزی کردار تھے۔ موسیقی بڑی جاندار تھی۔ رونا لیلیٰ کا یہ گیت فلم کا مقبول ترین گیت تھا "ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے ، جب ہم نہیں ہوں گے ، بھری دنیا کو ویران پاؤ گے۔۔" مہدی حسن اور رونا لیلیٰ کی الگ الگ گائی ہوئی غزل "آپ کا حسن جو دیکھا تو خدا یاد آیا۔۔" ،رونا لیلیٰ اور احمدرشدی کا دوگانا "اللہ اللہ ، میری محفل میں وہ مہمان آیا۔۔" ، احمدرشدی اور شہناز بیگم کا گیت "رک جاؤ ، ابھی رک جاؤ۔۔" اور مسعودرانا اور رونا لیلیٰ کا یہ دوگانا "بھیگی بھیگی ٹھنڈی ہوا ، جھکی جھکی اڑتی ہوا ، موسم ہے دیوانہ دیوانہ دیوانہ۔۔" فلم کے مقبول گیت تھے۔ ایک اچھی فلم تھی لیکن کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھی۔
نذرالاسلام کی فلم شرافت (1974) میں بھی شبنم اور ندیم کی کلاسک جوڑی تھی۔ یہ فلم مہدی حسن کے گیت "تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی۔۔" کی وجہ سے مشہور ہے۔ روبن گھوش ہی کی موسیقی میں اخلاق احمد اور نیرہ نور کا یہ گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا " ہو میرے سنگ چلا اک خوبصورت ساتھی۔۔"
اسی سال کی فلم حقیقت (1974) کی پہچان مسعودرانا کا یہ شاہکار گیت تھا "متوارے ، کتنا دکھی ہے انسان ، کوئی نہ جانے درد کسی کا ، سب ہیں یہاں انجان۔۔" اس فلم میں دیبا اور بابرہ شریف کے علاوہ محمدعلی اور وحیدمراد بھی ایک ساتھ تھے۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ نذرالاسلام نے ان دونوں عظیم اداکاروں کو صرف دو دو بار اپنی فلموں میں کاسٹ کیا تھا جبکہ ندیم کو 11 فلموں میں موقع دیا تھا۔
فلم ڈائریکٹر نذرالاسلام کی فلم آئینہ (1977) ایک ریکارڈ توڑ فلم ثابت ہوئی تھی جس نے کراچی میں 401 ہفتے چلنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
اردو فلموں کی کامیاب ترین جوڑی ، شبنم اور ندیم کی یہ یادگار فلم 18 مارچ 1977ء کو بمبینو سینما کراچی میں ریلیز ہوئی تھی اور مسلسل 48 ہفتے تک چلتی رہی تھی۔ اس کے بعد اس فلم کو سکالا سینما کراچی میں شفٹ کیا گیا تھا۔ مجموعی طور پر یہ فلم 14 جنوری 1982ء تک چلتی رہی تھی۔ اس طرح اس فلم کی نمائش کا تسلسل چار سال ، نو ماہ اور 27 دن تھا جو ایک ریکارڈ ہے۔
فلم آئینہ (1977) کا 401 ہفتے چلنے کا ریکارڈ اعداوشمار کے لیے تو دلچسپ ہے لیکن اس کی اہمیت اس لیے نہیں ہے کہ سکالا سینما میں صرف 144 سیٹیں تھیں جبکہ ایک عام سینما چھ سے سات سو سیٹوں کا ہوا کرتا تھا۔ مثلاً مولاجٹ (1979) کی مسلسل دو سال سے زائد عرصہ تک جس شبستان سینما لاہور میں نمائش ہوئی تھی ، اس کی 715 سیٹیں تھیں۔ گویا سکالا سینما کے حجم کے سینما پر اگر مولاجٹ (1979) چلتی تو بیس سال تک چلتی رہتی۔۔!
فلم آئینہ (1977) میں موسیقار روبن گھوش نے اچھی دھنیں بنائی تھیں۔ ایک گیت "مجھے دل سے نہ بھلانا۔۔" چار بار گوایا گیا تھا اور آوازیں مہدی حسن ، مہناز ، نیرہ نور اور عالمگیر کی تھیں۔ سب سے ہٹ گیت "کبھی میں سوچتا ہوں ، کچھ نہ کچھ کہوں ، پھر یہ سوچتا ہوں ، کیوں نہ چپ رہوں۔۔" مہدی حسن نے گایا تھا جبکہ نیرہ نور کا گیت "روٹھے ہو پھر تم کو کیسے مناؤں پیا ، بولو نا۔۔" بھی بڑا مقبول ہوا تھا۔ اس گیت کے دوران ندیم ، روزنامہ 'جنگ' پڑھ رہے ہوتے ہیں تو انھیں راضی کرنے کے لیے شبنم ، روزنامہ 'امن' سامنے کر دیتی ہے جو بڑا دلچسپ منظر تھا۔
فلم آئینہ (1977) کی زبردست کامیابی کے بعد نذرالاسلام کو پہلی بار 1978ء میں تین فلمیں بنانے کا موقع ملا تھا۔ فلم امبر (1978) میں انھوں نے ممتاز کو اپنے فیورٹ ہیرو ندیم کے ساتھ کاسٹ کیا تھا۔ محمدعلی بھی اس سپرہٹ فلم میں دوسری اور آخری بار موجود تھے۔ مہدی حسن کے دو گیت بڑے مقبول ہوئے تھے "ٹھہرا ہے سماں ، ہم تم ہیں جہاں۔۔" اور "جس دن سے دیکھا ہے تجھ کو صنم ، بے چین رہتے ہیں اس دن سے ہم ، لگتا ہے ایسا خدا کی قسم ، تم میرے ہو۔۔" کے علاوہ مہناز کا گیت "مجھے لے چل ، یہاں سے دور ان وادیوں میں ، جہاں خوشبو ہو ، جہاں نغمے ہوں ، جہاں پھول کھلیں۔۔" اے نیر کا یہ گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا "ملے دو ساتھی ، کھلی دو کلیاں۔۔" روبن گھوش کی موسیقی تھی۔
نذرالاسلام نے فلم شیشے کا گھر (1978) میں فلم بینوں کو حیران کردیا تھا جب انھوں نے وحیدمراد کو ایک ولن کے رول میں پیش کیا تھا۔ ان کی اس ناکام فلم کی ہیروئن ممتاز تھی اور پہلی اور آخری بار شاہد کو ہیرو لیا تھا جبکہ ماضی کی معروف اداکارہ روزینہ ایک ویمپ کے رول میں تھی۔
اسی سال کی فلم زندگی (1978) بھی ایک کامیاب فلم تھی جس میں انھوں نے بابرہ شریف کو ندیم کے مقابل کاسٹ کیا تھا۔ اس فلم میں ایم اشرف کی دھنوں میں اے نیر اور مہناز کا یہ گیت سٹریٹ سانگ بن گیا تھا "جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے ، سب نے شور مچایا ہے ، سالگرہ کا دن آیا ہے۔۔" مہناز کا گیت "تجھے دل میں بسا لوں ، دھڑکن میں چھپا لوں۔۔" کے علاوہ "تیرے سنگ دوستی ، ہم نہ چھوڑیں کبھی ، سنگ اپنا رہے نہ رہے۔۔" بھی بڑا مقبول ہوا تھا جو الگ الگ مہدی حسن اور اے نیر کے ساتھ مہناز نے گایا تھا۔ یہ فلم بھی آئینہ (1977) ہی کے سٹائل پر بنائی گئی تھی۔
1980ء میں بھی نذرالاسلام کو تین فلموں کی ڈائریکشن دینے کا موقع ملا تھا۔ بندش (1980) سب سے کامیاب فلم تھی جو لاہور میں پلاٹینم جوبلی کرنے والی پہلی اردو فلم تھی۔ شبنم اور ندیم کی روایتی جوڑی تھی۔ یہ فلم انڈونیشیا میں بنائی گئی تھی اور وہاں کی ایک اداکارہ کو بھی اس فلم میں کاسٹ کیا گیا تھا۔
اخلاق احمد کے فلمی کیرئر کا سب سے سپرہٹ گیت اسی فلم میں تھا "سونا نہ چاندی ، نہ کوئی محل ، جان من ، تجھ کو میں دے سکوں گا ، پھر بھی یہ وعدہ ہے تجھ سے ، تو جو کرے پیار مجھ سے ، چھوٹا سا گھر تجھ کو دوں گا ، دکھ سکھ کا ساتھی بنوں گا۔۔"
اے نیر اور نیرہ نور کا یہ شوخ دوگانا بھی بڑا مقبول ہوا تھا "اچھا اچھا لاگے رے ، پیارا پیار لاگے رے۔۔"مہدی حسن اور مہناز کا گیت "دو پیاسے دل ایک ہوئے ہیں کیسے۔۔" اور مہناز کا گیت "تجھے دل سے لگا لوں ، پلکوں میں چھپا لوں۔۔" بھی بڑے مقبول ہوئے تھے جن کی دھنیں روبن گھوش نے بنائی تھیں۔
نذرالاسلام کی ایک ناکام ترین فلم حسینہ مان جائے گی (1980) تھی جس میں رنگیلا ، آسیہ کے ساتھ ہیرو تھے۔ اس وقت تک ان کے عروج کا دور گزر چکا تھا۔ اس فلم میں مسعودرانا اور رونالیلیٰ کا یہ گیت قابل ذکر تھا "یہ نہ سوچو ، کل تھا کیا ، آج کا لے لو مزہ۔۔" ساٹھ کی دھائی کے معروف موسیقار ماسٹرتصدق حسین (ہمراہی فیم) کی یہ آخری فلم تھی۔
اسی سال نذرالاسلام نے اپنی فلم نہیں ابھی نہیں (1980) میں بیک وقت دو نئے ہیرو متعارف کروائے تھے۔ فیصل تو کچھ عرصہ تک فلموں میں چلتے رہے لیکن ایاز نے زیادہ کام نہیں کیا تھا۔ شبنم روایتی ہیروئن تھی۔ اخلاق احمد کا گیت "سماں ، وہ خواب کا سماں ، ملے تھے دل سے دل جہاں۔۔" پسند کیا گیا تھا جس کی دھن روبن گھوش نے بنائی تھی۔
فلم آنگن (1982) کے بعد نذرالاسلام نے کینیا کی ایک اداکارہ لیلیٰ کو لے کر فیصل کے ساتھ فلم لو سٹوری (1983) بنائی تھی جو کامیاب رہی تھی۔
دیوانے دو (1985) اس لحاظ سے ایک یادگار فلم تھی کہ اس میں پاکستان کے دوسرے سپرسٹار ہیرو سنتوش نے آخری بار کام کیا تھا لیکن ان کے مناظر ریلیز نہیں ہوسکے تھے کیونکہ کسی وجہ سے کویتا کی جگہ بابرہ شریف کو کاسٹ کیا گیا تھا اور وہ سین دوبارہ فلمائے گئے تھے لیکن اس وقت تک سنتوش کا انتقال ہوچکا تھا اور ان کے سین کسی دوسرے اداکار سے کروائے گئے تھے۔
نذرالاسلام کی آخری کامیاب اردو فلم زمین آسمان (1985) تھی جس میں ندیم کے ساتھ نیپالی اداکار شیوا ، سری لنکن اداکارہ سبیتا اور بنگلہ دیشی اداکار مصطفیٰ بھی تھے۔ اس فلم میں مسعودرانا کا ایک متاثر کن بیک گراؤنڈ گیت تھا "یہ کیسا انصاف ، مالک ، عورت ظلم کی بھینٹ چڑھے اور مرد کے ظلم معاف ، مالک۔۔" ان کی ایک فلم چکر (1988) بھی تھی جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ کبھی کراچی سرکٹ میں ریلیز نہیں ہوئی تھی۔
نذرالاسلام نے کبھی کوئی پنجابی فلم نہیں بنائی تھی لیکن نوے کی دھائی تک اردو فلمیں خسارے کا سودا بن گئی تھیں۔ اس دور میں پنجابی فلموں کو اردو میں ڈب کر کے کراچی سرکٹ میں پیش کیا جاتا تھا۔ نذرالاسلام کی پہلی فلم میڈم باوری (1989) تھی جس میں انھیں سلطان راہی کو ہیرو لینا پڑا۔ پنجاب سرکٹ کے علاوہ کراچی میں بھی یہ فلم پسند کی گئی تھی جس کا ٹائٹل رول نیلی نے کیا تھا اور جاوید شیخ بھی فلم کا حصہ تھے۔
فلم پلکوں کی چھاؤں میں (1985) کے بعد نذرالاسلام نے فلم بارود کی چھاؤں میں (1989) بھی بنائی تھی جس میں ندیم کو ایک ایکشن ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ فلم آندھی (1991) ندیم کے ساتھ ان کی آخری فلم تھی جس میں بنگلہ دیشی اداکارہ شبانہ بھی تھی۔
نذرالاسلام کی ایک بہت بڑی فلم کالے چور (1991) بھی تھی جو ڈبل ورژن تھی یعنی پنجابی سے اردو میں ڈب کی گئی تھی۔ معروف شاعر حبیب جالب کی بطور فلمساز اکلوتی فلم تھی۔ اس دور میں سلطان راہی کے بغیر پنجابی فلم بنانا مشکل ہوتا تھا لیکن نیلی اور جاوید شیخ کی وجہ سے اہل کراچی کے لیے بھی قابل قبول تھی۔ میڈم نورجہاں کے گیتوں کے بغیر بھی پنجابی فلمیں نا مکمل ہوتی تھیں۔
نذرالاسلام کی ایک ڈبل ورژن فلم نرگس (1992) بھی تھی جس کے اصل ہیرو تو شان تھے لیکن ان کی جگہ جاوید شیخ کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ اس فلم میں میڈم نورجہاں اور مسعودرانا کا ایک دوگانا تھا "جینا نئیں میں نئیں جینا ، بن یار دے ، لگناں نئیں دل میرا ، بن یار دے۔۔"
نذرالاسلام نے اپنے آخری دور میں فلم خواہش (1993) بھی بنائی تھی جس میں بابرہ شریف کے ساتھ فلمساز معین الرحمٰن کو ہیرو لیا تھا۔ ان کی آخری فلم لیلیٰ (1994) بھی ایک ڈبل ورژن فلم تھی جس میں نادرہ کے ساتھ اظہارقاضی ہیرو تھے اور جن پر اے نیر کا یہ گیت فلمایا گیا تھا "چپیڑ کھا ، سلام کر۔۔" اسی فلم میں مسعودرانا نے چند بول ہمایوں قریشی کے پس منظر میں گائے تھے "یاد نئیں تینوں داج دی خاطر ، جنج واپس کیتی سی توں۔۔"
نذرالاسلام نے کل 30 فلمیں بنائی تھیں جن میں سے 20 اردو فلمیں تھیں۔ 19 اگست 1939ء کو کولکتہ میں پیدا ہوئے اور 11 جنوری 1994ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔
فلمی صنعت میں ’’دادا‘‘ کے لقب سے معروف تھے۔ بنگالی نژاد ہونے کے باوجود ، سقوط ڈھاکہ کے بعد انھوں نے پاکستان ہی میں رہنا پسند کیا تھا اور لاہور میں گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
یاد رہے کہ 1973ء میں جب بھٹو حکومت نے رجسٹریشن اور شناختی کارڈ سسٹم کا اجراء کیا تھا تو 1971ء سے پہلے پاکستان میں رہنے والے تمام بنگالیوں کو مکمل شہریت اور بنیادی انسانی حقوق دیے گئے تھے لیکن 2000ء میں سیاسی مجبوریوں کی بنیاد پر مشرف دور حکومت میں بنگالیوں کو Alien یا اجنبی قرار دے دیا گیا تھا اور آج بھی کراچی میں مقیم تیس لاکھ سے زائد بنگالی شہری اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے انتہائی شرمناک ہے۔
1 | فلم ... احساس ... اردو ... (1972) ... گلوکار: رونا لیلیٰ ، مسعود رانا ... موسیقی: روبن گھوش ... شاعر: اختر یوسف ... اداکار: شبنم ، ندیم |
2 | فلم ... حقیقت ... اردو ... (1974) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: اے حمید ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: (پس پردہ ، تھیم سانگ ، محمد علی ) |
3 | فلم ... حسینہ مان جائے گی ... اردو ... (1980) ... گلوکار: رونا لیلیٰ ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: کلیم عثمانی ... اداکار: آسیہ ، رنگیلا |
4 | فلم ... زمین آسمان ... اردو ... (1985) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: قتیل شفائی ... اداکار: (پس پردہ) |
5 | فلم ... نرگس ... پنجابی ... (1992) ... گلوکار: مسعود رانا ، نورجہاں ... موسیقی: ایم اشرف ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: جاوید شیخ ، مدیحہ شاہ |
6 | فلم ... لیلیٰ ... پنجابی ... (1994) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: (پس پردہ ، ہمایوں قریشی) |
1. | 1972: Ehsas(Urdu) |
2. | 1974: Haqeeqat(Urdu) |
3. | 1980: Haseena Maan Jaye Gi(Urdu) |
4. | 1985: Zamin Aasman(Urdu) |
5. | 1992: Nargis(Punjabi/Urdu double version) |
6. | 1994: Laila(Punjabi/Urdu double version) |
1. | Urdu filmEhsasfrom Friday, 22 December 1972Singer(s): Runa Laila, Masood Rana, Music: Robin Ghosh, Poet: , Actor(s): Shabnam, Nadeem |
2. | Urdu filmHaqeeqatfrom Friday, 1 November 1974Singer(s): Masood Rana, Music: A. Hameed, Poet: , Actor(s): (Playback, theme song - Mohammad Ali) |
3. | Urdu filmHaseena Maan Jaye Gifrom Friday, 25 April 1980Singer(s): Runa Laila, Masood Rana & Co., Music: Tasadduq Hussain, Poet: , Actor(s): Asiya, Rangeela |
4. | Urdu filmZamin Aasmanfrom Friday, 6 December 1985Singer(s): Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): (Playback) |
5. | Punjabi filmNargisfrom Friday, 21 August 1992Singer(s): Masood Rana, Noorjahan, Music: M. Ashraf, Poet: , Actor(s): Javed Sheikh, Madhia Shah |
6. | Punjabi filmLailafrom Friday, 14 October 1994Singer(s): Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): (Playback, Humayun Qureshi) |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.