صفدرحسین ، پاکستان کی سب سے بڑی میوزیکل فلم عشق لیلیٰ (1957) کے موسیقار تھے۔ اس یادگار فلم میں کچھ کم نہیں ، 18 گیت ملتے ہیں جن میں سے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔۔!
سدابہار نغماتی فلم
عشق لیلیٰ (1957) ، مقابلے کی فضا میں بنائی جارہی تھی۔ اس کے فلمساز
جے سی آنند جبکہ ہدایتکار اور مصنف
منشی دل تھے۔ مرکزی کردار
صبیحہ ،
سنتوش اور
علاؤالدین کے تھے۔ پاکستان میں اس موضوع پر بنائی گئی آدھ درجن فلموں میں سے یہ واحد سپرہٹ فلم تھی۔ دوسری طرف لاہور کے ایورنیو پکچرز کی فلم
لیلیٰ مجنوں (1957) تھی جس کے فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف ا
نور کمال پاشا تھے جبکہ لیڈنگ رولز
بہار ،
اسلم پرویز اور
علاؤالدین کے تھے۔ یہ ایک ڈیڈ فلاپ فلم تھی۔ یہ دونوں فلمیں ایک ہی دن یعنی 12 اپریل 1957ء کو ریلیز ہوئی تھیں۔ یاد رہے کہ خطہ عرب کی ساتویں صدی کی اس عظیم کلاسک رومانوی داستان پر پاکستان میں اردو کے علاوہ پنجابی ، سندھی اور پشتو میں بھی فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔ تقسیم سے قبل بھی اس موضوع پر ایک درجن کے قریب فلمیں بنائی گئی تھیں جن میں 1922ء میں پہلی خاموش جبکہ 1931ء میں پہلی بولتی فلم بھی تھی۔
ان دونوں فلموں کے بارے میں دلچسپ بات یہ تھی کہ ناکام فلم لیلیٰ مجنوں (1957) کی موسیقی ، عظیم موسیقار رشیدعطرے نے ترتیب دی تھی۔ انھوں نے اس فلم کے گیت ناہید نیازی اور منیر حسین سے گوائے تھے لیکن کوئی ایک گیت بھی مقبول نہ ہوسکا تھا حالانکہ شاعروں میں تنویرنقوی ، حکیم احمدشجاع اور طفیل ہوشیارپوری جیسے بڑے بڑے نام تھے۔ دوسری طرف کامیاب فلم عشق لیلیٰ (1957) کے موسیقار صفدرحسین ، رشیدعطرے کے بھانجے اور شاگرد تھے اور اس مقابلے بازی میں اپنے استاد اور ماموں کو چت کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ایک سال پہلے بھی دو فلمیں مقابلے میں بنائی گئی تھیں۔ ان میں سے پہلی کامیاب فلم حمیدہ (1956) کے موسیقار صفدرحسین تھے اور ناکام فلم لخت جگر (1956) کے موسیقار بابا جی اے چشتی تھے لیکن اس فلم کے گیت زیادہ مقبول رہے تھے۔
فلم عشق لیلیٰ (1957) میں موسیقار صفدرحسین کے کمپوز کیے ہوئے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے جو اکیلے قتیل شفائی کے لکھے ہوئے تھے۔ پنجاب میں 'عوامی گلوکار' کہلانے والے پاکستان کے پہلے سپرسٹار گلوکار عنایت حسین بھٹی کے فلمی کیرئر کی یہ سب سے بڑی اردو فلم تھی جس میں ان کے گائے ہوئے بیشتر گیت مقبول عام ہوئے تھے۔ اس فلم کے گیتوں کی مکمل تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
- جگر چھلنی ہے دل گبھرا رہا ہے ، محبت کا جنازہ جا رہا ہے۔۔ (عنایت حسین بھٹی)
- نکل کر تیری محفل سے یہ دیوانے کہاں جائیں۔۔ (عنایت حسین بھٹی)
- لیلیٰ لیلیٰ پکاروں میں بن میں ، پیار لیلیٰ بسی میرے من میں۔۔ (عنایت حسین بھٹی)
- بتا اے آسماں والے ، میرے نالوں پہ کیا گزری۔۔ (عنایت حسین بھٹی ، زبیدہ خانم)
- ستارو ، تم تو سو جاؤ ، پریشان رات ساری ہے۔۔ (اقبال بانو)
- اک ہلکی ہلکی آہٹ ہے ، اک مہکا مہکا سایہ ہے۔۔ (اقبال بانو)
- چاند تکے چھپ چھپ کے اونچی کھجور سے۔۔ (سلیم رضا ، زبیدہ خانم)
- اداس ہے دل ، نظر پریشان ، چلے بھی آؤ۔۔ (سلیم رضا)
- لیلیٰ او لیلیٰ ، دل و جان ما فدائے رُخِ تاباں۔۔ (زبیدہ خانم)
- اے بادِ صبا ، اے بادِ صبا ، اک درد بھرا پیغام لیے جا۔۔ (زبیدہ خانم)
- چاند سی اس کی جبیں ، کسے معلوم نہیں۔۔ (زبیدہ خانم)
- ہائے میری مجبور جوانی ، کس کو سناؤں غم کی کہانی۔۔ (زبیدہ خانم)
- دل سے دل ٹکرائے ، نظر شرمائے ، کمر بل کھائے۔۔ (زبیدہ خانم)
- سخی ، کچھ دے دے راہ خدا۔۔ (عنایت حسین بھٹی مع ساتھی)
- کون کہتا ہے کہ تیرا جہاں قائل نہیں۔۔ (عنایت حسین بھٹی مع ساتھی)
ان کے علاوہ اس فلم میں بھٹی صاحب کے گائے ہوئے تین اشعار بھی تھے۔ اس طرح اس فلم میں ان کے کل نو گیت تھے۔ پاکستان فلم میگزین کے فلمی گیتوں کے ڈیٹابیس میں ہر گلوکار کا گایا ہوا ہر گیت ، چاہے وہ صرف ایک شعر ، بول یا الاپ پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو ، اسے ایک مکمل گیت کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔ البتہ اگر ایک ہی گیت فلم میں مختلف ٹکڑوں میں آتا تھا یا کئی بار آتا تھا تو ایسے گیت کو ایک ہی گیت شمار کیا گیا ہے ، چاہے وہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو۔
صفدرحسین کا آغاز بڑا ہی دھماکہ خیز ہوا تھا۔ ان کی بطور موسیقار پہلی فلم
ہیر (1955) ، ایک بہت بڑی نغماتی فلم ثابت ہوئی تھی۔ یہ فلم ، وارث شاہؒ کی لازوال داستان 'ہیررانجھا' پر بننے والی پہلی پاکستانی فلم تھی۔ فلمساز
جے سی آنند اور ہدایتکار
نذیر ، برصغیر کے ایک سینئر ہیرو ، فلمساز اور ہدایتکار تھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان آمد کے بعد انھوں نے سب سے پہلے فلم 'ہیررانجھا' نام کی فلم بنانے کی کوشش کی تھی لیکن کسی حادثے میں اس کے نیگٹیو جل گئے تھے۔ اس فلم میں ان کی بیگم
سورن لتا نے ہیر اور خود انھوں نے رانجھے کا رول کیا تھا۔ فلم
ہیر (1955) کا ٹائٹل رول بھی
سورن لتا کا تھا لیکن رانجھے کے کردار میں
عنایت حسین بھٹی کو لیا گیا تھا جو اسی سال کی فلم
جلن (1955) میں بطور ہیرو پہلی بار نظر آئے تھے۔ اس سے قبل وہ چند فلموں میں مہمان اداکار کے طور پر دیکھے گئے تھے لیکن ان کی اصل شہرت گلوکاری تھی۔ فلم
ہیر (1955) میں پہلی بار عظیم اداکار
اجمل نے کیدو کا رول کیا تھا اور سانپ کے منہ والا وہ مشہور عصا بھی استعمال کیا تھا جو بعد میں فلم
ہیررانجھا (1970) میں بھی نظر آیا تھا۔ یہ پہلی پنجابی فلم تھی جس کی شوٹنگ کراچی کے ایسٹرن سٹوڈیوز میں بھی کی گئی تھی لیکن زیادہ تر حصہ لاہور کے ایورنیو سٹوڈیوز میں مکمل ہوا تھا۔ اس کامیاب نغماتی فلم کے کئی ایک گیت سپرہٹ ہوئے تھے جن میں سے چند اس طرح سے ہیں:
- اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے ، جھوٹھی موٹھی دا پا لیا ککھ وے۔۔ (زبیدہ خانم)
- ڈھول دلے دا جانی اجے نئیں آیا ، دے کے درد نشانی ، مڑ پھیرا نئیں پایا۔۔ (زبیدہ خانم)
- بدل نوں ہتھ لاواں ، میں اڈی اڈی جاواں ، ہوا دے نال۔۔ (منورسلطانہ)
- سانوں سجناں دے ملنے دی تانگ اے۔۔ (عنایت حسین بھٹی)
- ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں ، مینوں لے چلے بابلا۔۔ (عنایت حسین بھٹی)
- ذرا بیڑیاں نوں کر لے بند نی ، کھلا جگا پان والیے مینا۔۔ (عنایت حسین بھٹی)
- تیرے نال نال پکھی وانگوں ڈولدی پھراں۔۔ (منورسلطانہ)
موسیقار
صفدرحسین کے ابتدائی دور کی ایک اور بہت بڑی نغماتی اور رومانوی فلم
نوراں (1957) بھی تھی۔ اس فلم کا ٹائٹل رول ملکہ ترنم
نور جہاں نے کیا تھا۔ اس فلم میں انھیں انتہائی حسین و جمیل عکس بند کیا گیا تھا۔ فلم کے ہیرو پاکستان کے پہلے سپرسٹار
سدھیر تھے جن پر پانچ گیت فلمائے گئے تھے جو ایک جنگجو ہیرو کہلانے والے آل راؤنڈ اداکار کے لیے ایک منفرد موقع تھا۔ اس فلم کی کہانی بھی 'ہیررانجھا' کی کہانی سے متاثر ہو کر لکھی گئی تھی جو
حزیں قادری کا کمال تھا جنہوں نے سبھی گیت بھی اکیلے ہی لکھے تھے۔ اس فلم کے اصل ہدایتکار ایک ہندو '
بلو مہرہ' بتائے جاتے ہیں جبکہ فلمساز جے سی آنند تھے۔ میڈم
نور جہاں اور
منیر حسین کی مدھر آوازوں میں گائے ہوئے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے جن میں سے کچھ اس طرح سے تھے:
- ویکھیا ہووے نی کسے تکیا ہووے۔۔ (ملکہ ترنم نور جہاں)
- کدی آ وے دلبرا ، واسطہ ای۔۔ (ملکہ ترنم نور جہاں)
- تیرے بول نیں تے میریاں نیں بلیاں۔۔ (ملکہ ترنم نور جہاں)
- پنچھی تے پردیسی ، پیار جدوں پاندے۔۔ (ملکہ ترنم نور جہاں ، منیر حسین)
- اک بیڑی وچ دو سوار ، ای پردیسی اک مٹیار۔۔ (ملکہ ترنم نور جہاں ، منیر حسین)
- اک چیز گواچی دل کولوں ، جنوں نین نمانے لبھدے نیں۔۔ (ملکہ ترنم نور جہاں ، منیر حسین)
اعدادوشمار کے مطابق صفدرحسین نے سب سے زیادہ مردانہ گیت عنایت حسین بھٹی ، منیر حسین اور سلیم رضا سے گوائے تھے لیکن فلم جناب عالی (1968) کے بعد ان کے سب سے زیادہ مردانہ گیت مسعود رانا گاتے تھے۔ فلمساز ، ہدایتکار اور اداکار دلجیت مرزا کی اس فلم میں صفدرحسین نے مسعود رانا سے پانچ گیت گوائے تھے۔ فلم کا سب سے مشہور گیت ایک بڑا ذومعنی گیت تھا:
- چن چڑھیا عجیب ، دل ہاریا غریب ، تساں پیار دی اگ کاہنوں باءلی ، جناب عالی۔۔؟!؟
بظاہر یہ عجیب و غریب اوٹ پٹانگ اور بے ربط جملوں پر مشتمل ایک مزاحیہ گیت تھا جس کا فلم کی کہانی یا کرداروں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن یہ ایک اشارتی گیت تھا جو اصل میں 1968ء میں
جنرل ایوب خان کے نام نہاد 'دس سالہ جشن ترقی' پر ایک لطیف طنز تھی۔ "جناب عالی۔۔" کی تکرار اور اس گیت کے ایک ایک بول پر میں بڑا تفصیلی تبصرہ لکھ سکتا ہوں جو حالات حاضرہ کی عکاسی بھی کرتا ہے ، لیکن مضمون بہت طویل ہو جائے گا۔ اس فلم میں
مسعود رانا کا گایا ہوا ایک اور خوبصورت گیت میرا پسندیدہ گیت تھا:
- ایویں تھاں تھاں دل نئیں ہاری دا ، بی با ، انہیاں دا حق نئیں ماری دا۔۔
یہ گیت اداکار
دلجیت مرزا پر فلمایا گیا تھا۔ اس گیت کو ولن
سلطان راہی کے لیے گاتے ہیں جو ان کی معشوقہ
فریدہ کو چھیننے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس فلم کا جو پوسٹر ساتھ دیا گیا ہے ، وہ اوریجنل نہیں ہے کیونکہ اس وقت تک
سلطان راہی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی کجا انھیں فلم کے پوسٹر پر پیش کیا جائے۔ بعد میں فلمسازوں کو یہ نسخہ ہاتھ آیا تھا کہ پرانی فلموں کے پوسٹروں پر وقت کے مقبول ترین اداکاروں مثلاً
سلطان راہی اور
منور ظریف کی تصاویر بنا کر لوگوں کو فلمیں دیکھنے پر راغب کیا جائے ، چاہے ایسی فلموں میں ان کے چھوٹے موٹے اور غیر اہم رول ہی کیوں نہ ہوں۔
فلم جناب عالی (1968) میں موسیقار صفدرحسین نے مسعود رانا اور احمد رشدی سے دو مزاحیہ گیت بھی گوائے تھے "ربا ، بھیج گڈ روٹیاں دی ، چھناں دال دا ، کوئی نئیں تیرے نال دا۔۔" اور "آگئے ماں دے جنٹرمین ، گھر آئیاں نوں چھتر پہن۔۔" یہ دونوں گیت علاؤالدین اور دلجیت مرزا پر فلمائے گئے تھے جبکہ ایک گیت کا آخری انترہ ایک 'بلو' نامی گھوڑے پر بھی فلمایا گیا تھا جو مسعود رانا کی اونچی سروں میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ فلم دوباغی (1971) میں بھی مسعود رانا کا ایک گیت گلاب کے ایک پھول پر فلمایا جاتا ہے جبکہ احمد رشدی کا ایک گیت فلم انسان اور گدھا (1973) میں ایک گدھے پر فلمایا جاتا ہے جو آگے چل کر انسان یا رنگیلا بن جاتا ہے۔
ان مزاحیہ گیتوں میں زندگی کے بہت سے حقائق بیان کیے جاتے تھے۔ فلمی گیتوں پر تحقیق کرتے ہوئے ایسے گیتوں کو بڑے غور سے سنتا تھا۔ ان گیتوں میں جہاں اس دور کے حالات سے آگاہی ہوتی تھی ، وہاں مختلف فنکاروں کی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ لگانا بھی آسان ہو جاتا تھا۔ احمد رشدی ، بلاشبہ مزاحیہ گیتوں کے ایکسپرٹ گلوکار تھے۔ ایسے گیتوں میں مختلف النوع آوازیں جو نکالتے تھے ، وہ مسعود رانا سمیت کسی اور گلوکار کے بس کی بات نہیں ہوتی تھی۔ دوسری طرف اونچی سروں کی گائیکی میں جو کمال مسعود رانا کو حاصل تھا ، اس میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ احمد رشدی ، اردو فلموں کے مقبول ترین گلوکار تھے لیکن پنجابی فلموں میں صرف مزاحیہ گیتوں تک محدود ہوتے تھے۔ مسعود رانا کو پنجابی فلموں میں زیادہ پسند کیا جاتا تھا لیکن اونچی سروں میں گائے گئے مشکل ترین گیت اور خصوصاً ٹائٹل اور تھیم سانگز کے لیے اردو فلموں میں بھی ان کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں ہوتا تھا۔ ان دونوں عظیم گلوکاروں نے تین درجن کے قریب مشترکہ گیت گائے تھے جو پاکستانی فلمی تاریخ میں مردانہ دوگانوں کا ایک ریکارڈ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مزاحیہ گیت ہوتے تھے۔ گویا مسعود رانا ، واحد آل راؤنڈ گلوکار ہوتے تھے جو احمد رشدی کی فیلڈ میں جا کر گاتے تھے لیکن رشدی صاحب ایسا نہیں کر پاتے تھے کیونکہ اونچی سروں میں مشکل گیت گانا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی تھی۔
موسیقار
صفدرحسین کے فلمی کیرئر کی ایک اور بہت بڑی میوزیکل فلم ہدایتکار
دلجیت مرزا کی پنجابی فلم
ٹھاہ (1972) تھی جس کے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ اس فلم میں
سدھیر کے ساتھ
روزینہ کی جوڑی تھی جس کے ساتھ فلم کے ولن
سلطان راہی کا ایک بولڈ سین فلم کی جان تھا۔
شاہد کے علاوہ ایک اور خوبرو لیکن ناکام ہیرو
جمال بھی تھے جن کی جوڑی
غزالہ کے ساتھ تھی۔ اس فلم کا ایک گیت "ظالماں دے ظلم دی اخیر ہونی ٹھاہ۔۔" بڑا مشہور ہوا تھا کیونکہ یہ گیت خاص طور پر اس وقت جناب
ذوالفقارعلی بھٹوؒ کی عوامی حکومت کے لیے ایک پروپیگنڈہ گیت ثابت ہوا تھا جو مفاد پرست اور عوام دشمن ، سرمایہ دار طبقات کے خلاف گایا گیا تھا۔ اس فلم میں
وارث لدھیانوی کے لکھے ہوئے سبھی گیت بڑے مقبول ہوئے تھے جو مندرجہ ذیل ہیں:
- تیرے ملنے نوں آئی کنے چاہ کر کے ، آ سینے نال لگ جا ٹھاہ کر کے۔۔ (ملکہ ترنم نور جہاں)
- اساں کی کی بھیس وٹائے ، یار تیرے ملنے نوں۔۔ (ملکہ ترنم نور جہاں)
- تک سجناں ، ڈورا میری اکھ دا ، لشکے وے لونگ میرے نک دا۔۔ (ملکہ ترنم نور جہاں)
- پہلی واری اج انہاں اکھیاں نیں تکیا ، ایخو جیا تکیا کہ ہائے مار سٹیا۔۔ (غلام علی)
- وچھوڑا برا سجناں دا۔۔ (منیر حسین ، فتح علی خان ، سائیں اختر)
- چڑھدی جوانی دیاں راتاں توبہ توبہ۔۔ (مالا)
- ظالماں دے ظلم دی اخیر ہونی ، ٹھاہ۔۔! (شوکت علی ، افشاں)
فلم
ٹھاہ (1972) میں غزل کے عظیم گلوکار
غلام علی صاحب نے اپنا پہلا سپرہٹ فلمی گیت "پہلی واری اج انہاں اکھیاں نیں تکیا۔۔" گایا۔ اس گیت کے بارے میں
میرے ذاتی تجربات وارث لدھیانوی کے مضمون میں بیان کیے گئے ہیں۔
موسیقار صفدرحسین نے فلم خوفناک (1976) میں مسعود رانا سے ایک لاجواب گیت گوایا تھا:
- سُراں نال پیار کری جا تے اکھیاں چار کری جا ، زمانہ جو وی آکھے ، میرا اعتبار کری جا۔۔
یہ گیت ، گائیکی کا کمال تھا اور
مسعود رانا کی انفرادیت کا ایک بڑا ثبوت بھی تھا۔ اس گیت کو سن کر پہلی بار علم ہوا تھا کہ راگ ملہار ، راگ درباری اور راگ دیپک کیسے گائے جاتے ہیں۔ اس گیت کو اگر فلم میں دیکھیں تو مزہ دوبالا ہوجاتا ہے کیونکہ اس پر جو ایکٹنگ
منور ظریف نے کی تھی ، وہ انھیں کا خاصا تھا۔ اس گیت میں ان کے ساتھ
امروزیہ تھی جبکہ اسی فلم میں پنجابی فلموں کی صف اول کی ہیروئن
انجمن کو پہلی بار ایک ایکسٹرا رول میں دکھایا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صفدرحسین نے خوفناک (1976) اور خبردار (1974) کے علاوہ فلم خطرناک (1974) کی موسیقی بھی دی تھی۔ یہ پہلی پنجابی فلم تھی جس نے کراچی میں سو ہفتے چلنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ صفدرحسین نے فلم وحشی جٹ (1975) کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی جس نے جہاں پنجابی فلموں کا ٹرینڈ بدل دیا تھا وہاں پنجابی فلموں سے مردانہ گیتوں کا بوریا بستر بھی گول کر دیا تھا۔ فلم واردات (1976) میں صفدرحسین نے مسعود رانا اور مالا سے ایک شریر قسم کا گیت گوایا تھا "شہروں باہر اجاڑ سڑک تے ، نیندر سانوں آجاوے ، اسیں کی کراں گے۔۔" فلم غنڈہ (1978) میں مسعود رانا اور ناہید اختر کے گائے ہوئے الگ الگ گیت "ہور سناؤ سجنو ، کی حال چال اے۔۔" سپرہٹ ہوئے تھے۔ فلم وڈاخان (1983) میں مسعود رانا اور افشاں کا یہ گیت بھی کیا کمال کا تھا "لوکو ، بہتی سوہنی کڑی وی عجیب ہوندی اے۔۔" فلم دوقیدی (1986) میں موسیقار صفدرحسین نے مسعود رانا اور افشاں سے میاں محمدبخشؒ کا لافانی کلام سیف الملوک "رحمت دا مینہ پا خدایا ، باغ سکا کر ہریا۔۔" ایک نئی دھن میں گوایا تھا۔ آخری فلم میری آواز (1987) میں بھی انھوں نے مسعود رانا سے یہ اردو غزل گوائی تھی "پیار کے رنگ سے دنیا کو سجاؤ یارو۔۔" یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ صفدرحسین کے بیٹے عباس صفدر نے بھی ایک فلم رقعہ (1993) کی موسیقی ترتیب دی تھی جس میں انھوں نے بھی مسعود رانا سے ایک گیت گوایا تھا "اکھاں اکھاں چہ کہانی اج پے گئی اے۔۔" یہ گیت فلم میں دلاور نامی ہیرو پر فلمایا گیا تھا جس کی یہ اکلوتی فلم تھی اور وہ فلمساز ، ہدایتکار اور اداکار دلجیت مرزا کا بیٹا تھا جو جوانی ہی میں فوت ہوگیا تھا۔
صفدرحسین کے دیگر مقبول عام گیتوں کی تفصیل کچھ اس طرح سے تھی:
- ہر قدم پہ ستم ، ہر گھڑی غم ہی غم۔۔ (کوثرپروین ، فلم حمیدہ 1956)
- ہم بھی راضی ، تم بھی راضی ، کرلے جو کرتا ہے قاضی۔۔ (سلیم رضا ، زبیدہ خانم ، فلم حمیدہ 1956)
- تیرے محلوں کی چھاؤں میں قرار اپنا لٹا بیٹھے۔۔ (سلیم رضا ، فلم حاتم 1956)
- میرا جیوے ڈھولا ، سر سہرا بن آ ، گھنڈ مکھڑے توں چا۔۔ (زبیدہ خانم ، فلم ناجی 1959)
- امبوا کی ڈاریوں پہ جھولنا جھلا جا ، اب کے ساون۔۔ (اقبال بانو ، فلم ناگن 1959)
- سیاں جی ڈھونڈنے چلی ، پھروں میں گلی گلی جوگن بن کے۔۔ (ناہیدنیازی ، فلم ناگن 1959)
- بگڑی بنا ، میرے خدا ، تجھے صدقہ کملی والےؐ کا۔۔ (نور جہاں ، فلم سرتاج 1965)
- نظاروں نے بھریں آہیں ، دل دل سے جو ٹکرایا ، واللہ۔۔ (مہدی حسن ، فلم نغمہ صحرا 1966)
- ہمیں کوئی غم نہیں تھا ، غم عاشقی سے پہلے۔۔ (مہدی حسن ، فلم شب بخیر 1967)
- تیرے غم سے محبت ہو گئی ہے ، ستم سہنے کی عادت ہو گئی ہے۔۔ (مالا ، فلم شب بخیر 1967)
- بازی جت لئی او جند پیار دے ناویں لا کے ، چھلا پایا۔۔ (نور جہاں ، فلم دلا حیدری 1969)
- نی چنبے دیے بند کلیے ، تینوں کہیڑے ویلے رب نے بنایا۔۔ (غلام علی ، فلم پہلا وار 1973)
- تیرے صدقے وے دلدارا ، اج مکیاں نیں تانگاں پیار دیاں۔۔ (نور جہاں فلم خطرناک 1974)
- جانی رات رہ پو ، گلاں کریساں۔۔ (عنایت حسین بھٹی ، فلم رب دا روپ 1975)
- میں اج تیرے نال رج کے کراں گی گلاں دل والیاں۔۔ (نور جہاں ، فلم واردات 1976)
- کوئی کر کے بہانہ سانوں مل ماہی وے ، راتاں آگیاں چاننیاں۔۔ (مالا ، فلم واردات 1976)
- اسیں کی دسئیے ، کی گل کریئے ، ایتھے کنج جینا پیندا اے۔۔ (مہدی حسن ، فلم واردات 1976)
موسیقار
صفدرحسین نے کل 76 فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی جن میں سے 33 اردو اور 42 پنجابی فلمیں تھیں۔ ان کا انتقال 1989ء میں ہوگیا تھا۔
2 اردو گیت ... 19 پنجابی گیت