سوموار ، 7 دسمبر 1970
جس طرح پاکستان کا قیام وؤٹ کی طاقت سے ممکن ہوا تھا اسی طرح قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو شہیدؒ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے منتخب حکمران تھے جو وؤٹ کی طاقت سے بر سراقتدار آئے تھے۔ 7 دسمبر 1970ء کو جب پہلے عام انتخابات ہوئے تھے تو انہوں نے ملک بھر کے چھ حلقوں سے انتخاب لڑا تھا۔ ان میں سے پانج حلقوں میں انہیں کامیابی ہوئی تھی جب کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں جمیعت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے والد گرامی مولانا مفتی محمود کے آبائی حلقے سے ہار گئے تھے۔ بھٹو صاحب نے لاہور ، ملتان ، لاڑکانہ ، حیدرآباد اور ٹھٹھہ کے انتخابی حلقوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس عظیم لیڈر کا ریکارڈ محفوظ رکھنے کے لئے ان چھ حلقوں کا مکمل ریکارڈ پیش کیا جارہا ہے۔
جمعرات 27 اپریل 1972
27 اپریل 1972ء کو صدر پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اسلام آباد میں نیشنل براڈکاسٹنگ ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھنے کی ایک تقریب میں خطاب کیا تھا جس کا کچھ حصہ محفوظ ہے۔ اس مختصر تقریر میں وہ ریڈیو کی اہمیت اور معلومات کی ترسیل کی اہمیت پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ یاد رہے کہ بھٹو صاحب کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل ضیاع مردود نے جہاں ریڈیو اور ٹی وی کی آرکائیوز سے پاکستان کا بہت سا اہم تاریخی مواد ضائع کروا دیا تھا وہاں خاص طور پر بھٹو صاحب کا نام و نشان مٹانے کی پوری پوری کوشش کی تھی۔ لیکن خدا کی قدرت دیکھئے کہ بھٹو آج بھی زندہ ہے اور اس کا ذکر بڑے فخر سے کیا جاتا ہے لیکن وہ آمر مردود ایک گالی بن کر تاریخ کے کوڑے دان میں پڑا ہوا ہے اور حد تو یہ ہے کہ اس کے سیاسی جانشین بھی اس کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتے۔۔!
جمعه 4 اپریل 2008
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ، پاکستان کی تاریخ کا ایک شرمناک ترین واقعہ ہے جسے عدالتی قتل بھی کہا جاتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کے صاحبزادے جناب جاوید اقبال مرحوم نے بھی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا تھا۔ اس ویڈیو میں انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے بھٹو کی قابلیت سے متاثر ہو کر انہیں ان کی سیاسی جماعت کونسل مسلم لیگ میں شامل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ یاد رہے کہ جسٹس جاوید اقبال مرحوم نے اسی جماعت کی طرف سے 1970ء کے انتخابات میں لاہور سے بھٹو کے خلاف الیکشن لڑا تھا اور ہار گئے تھے۔
جمعہ 26 اپریل 1963
ذوالفقار علی بھٹو سے بڑا کشمیر کاز کا حامی کبھی کوئی نہیں رہا۔ انہوں نے صرف زبانی جمع خرچ ہی نہیں کیا تھا بلکہ تمام تر ممکنہ کوششیں بھی کی تھیں۔ پہلے ، انہوں نے بھارت کے ساتھ کشمیر کے موضوع پر اعلیٰ سطحی تفصیلی مذاکرات کی قیادت کی تھی اور جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکل پایا تھا تو اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کو کشمیر کی آزادی کے لئے 1965ء کی جنگ کی تجویز بھی دی تھی لیکن اس تجویز کا قابل عمل ہونا یا اس پر عمل درآمد کرنا بھٹو کا کام نہیں تھا اور جن کا کام تھا ، بدقسمتی سے وہ قوم کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے تھے۔ یاد رہے کہ پاکستان اوربھارت کے مابین کشمیر کے مسئلہ پر مذاکرات کے چھ ادوار دسمبر 1962ء سے لے کر مئی 1963ء تک ہوئے تھے جن کی سربراہی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی طرف سے وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ نے کی تھی۔ بھٹو صاحب 23 جنوری 1963ء کو باقاعدہ وزیر خارجہ مقرر ہوئے تھے لیکن اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر وہ 1960ء ہی سے کئی اہم خارجی امور انجام دے رہے تھے اور ایوب حکومت کے دونوں وزرائے خارجہ ، منظور قادر اور محمد علی بوگرہ محض امریکہ بہادر کو خوش کرنے کے لئے مہروں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ یہ مذاکرات امریکہ اور برطانیہ کے دباؤ پر ہورہے تھے جنہوں نے چین کے خلاف اکتوبر 1962ء کی جنگ میں بھارت کی نہ صرف سیاسی حمایت کی تھی بلکہ بھر پور مالی اور مادی امداد بھی کی تھی اور اپنے اتحادی ایوب خان کو لالی پاپ دیا تھا کہ وہ اس بے وفائی اور مفاد پرستی کے عوض بھارت کو کشمیر پر مذاکرات کے لئے مجبور کریں گے۔ لیکن یہ تصور کرنا کہ بھارت ، وادی کشمیر کو طشتری میں رکھ کر پاکستان کو پیش کردے گا ، محض ایک احمقانہ سوچ تھی۔ بھارت صرف پندرہ سو مربع میل علاقہ دے کر کنٹرول لائن کو مستقل سرحد قرار دینے پر رضامند تھا جبکہ پاکستان استصواب رائے کے علاوہ پورے کشمیر سے کم پر راضی نہیں تھا۔ ویسے بھی حق ملکیت جیسے بڑے تنازعات طاقت و حکمت کے بغیر طے نہیں ہوتے اور کامیابی صرف طاقتور ہی کی ہوتی ہے یا جو بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ پاکستان نے جو جنگ 1965ء میں کی تھی ، وہ اگر چین کے ساتھ مل کر 1962ء میں کر لیتا تو شاید نتائج مثبت ہوتے لیکن کشمیر بزور شمشیر کی ناکامی نے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لئے سرد خانہ میں ڈال دیا تھا۔
اتوار 2 جنوری 1972
ذوالفقار علی بھٹو نے 2 جنوری 1972ء کو دس بنیادی بھاری صنعتوں کو قومی تحویل میں لے کر اپنے انتخابی منشور پر عمل کیا تھا جس پر انہوں نے قوم سے وؤٹ لیا تھا۔ ایوبی دور میں متحدہ پاکستان (موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش) کی ساٹھ سے اسی فیصد دولت صرف بائیس خاندانوں کے قبضہ میں تھی اور پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ قوم کو گدھ کی طرح سے نوچ رہا تھا۔ ایسے میں امیر ، امیر تر اور غریب ، غریب تر ہو رہا تھا جو ایوب حکومت کے خلاف عوامی غیض و غضب کی وجہ بھی تھا۔ یہ ایک بہت بڑا انقلابی فیصلہ تھا جس سے ٹیکس چوری ، ناجائز دھندوں اور مزدور کے استحصال کا سدباب ہوا تھا۔ بھٹو صاحب نے آگے چل کر مالیاتی اور تعلیمی ادارے بھی سرکاری تحویل میں لے کر عوامی حقوق و مفادات کا تحفظ کیا تھا اور دیگر شعبوں میں بھی تاریخی اصلاحات کا نفاذ کیا تھا جو مفاد پرست اور عوام دشمن عناصر کی عداوت کا باعث بنا تھا۔ دلچسپ بات ہے کہ جن دس بھاری صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا تھا ان میں ایک اتفاق فاؤنڈری بھی تھی جو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے والد محترم کی ملکیت تھی۔
پير 29 دسمبر 2008
پروفیسر غفور احمد کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا جو ان نو سیاسی جماعتوں میں سے ایک تھی جن کا ایک سیاسی اتحاد ، پاکستان قومی اتحاد کے نام سے 10 جنوری 1977ء کو وجود میں آیا تھا اور جس کا مقصد 7 مارچ 1977ء کے عام انتخابات میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنا تھا۔ پروفیسر صاحب اس اتحاد کے جنرل سیکریٹری تھے اور اس ٹیم کا حصہ بھی تھے جو ان انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کے نتیجے میں ہونے والوں ہنگاموں کے بعد ہونے والے مذاکرات میں شامل تھے۔ اس ویڈیو میں وہ انکشاف کر رہے ہیں کہ 2 جولائی 1977ء کو حکومت اور اپوزیشن میں معاہدے پر اتفاق رائے ہوگیا تھا جسے تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر نسیم ولی خان نے سبوتاژ کیا تھا تاکہ ملک میں مارشل لاء لگ سکے۔ پروفیسر صاحب کے مطابق حکومت نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے 4 جولائی تک معاملات طے کر لئے تھے اور 5 جولائی کو معاہدے پر دستخط ہونا طے پائے تھے لیکن پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت جنرل ضیاع مردود نے 5 جولائی 1977ء کو پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا تھا اور پاکستان پر ایک بار پھر مارشل لاء کی لعنت مسلط کر دی گئی تھی۔
بدھ 22 ستمبر 1965
کشمیر کے موضوع پر سلامتی کونسل میں 22 ستمبر 1965ء کو اس قدر مدلل ، جامع اور بے مثل فی البدیہہ تقریر نے وزیر خارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستانی قوم کا قومی ہیرو بنا دیا تھا۔ اس یادگار تقریر میں جہاں بھٹو صاحب نے پاکستان اور کشمیر کے اٹوٹ تاریخی ، تہذیبی ، لسانی ، مذہبی اور علاقائی رشتوں کا ذکر کیا تھا وہاں کشمیر کی آزادی کے لئے ہزار سال تک لڑنے کا دعویٰ بھی کیا تھا لیکن اس دوران اپنی حکومت کی طرف سے آنے والے ٹیلی گرام کے مطابق جنگ بندی کے اقوام متحدہ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا اعلان بھی کرنا پڑا تھا۔ بظاہر یہ ایک دبنگ تقریر تھی لیکن حقیقت میں ایک ہوائی فائر سے زیادہ نہ تھی کیونکہ پاکستان کا کشمیر بزور شمشیر منصوبہ ، ناقص منصوبہ بندی و نااہلی ، دشمن کی طاقت کے غلط اندازوں اور کشمیریوں کے عدم تعاون کی وجہ سے بری طرح سے ناکام ہو چکا تھا اور دنیا میں یہ تاثر عام تھا کہ پاکستان کے پالیسی سازوں کو کشمیریوں سے زیادہ خطہ کشمیر سے دلچسپی ہے ورنہ جن انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں ، کاش ، وہ اپنے ہی عوام کو دے دیتے۔ اگر کشمیر آزاد ہو جاتا تو کامیابی کا کریڈٹ سبھی لیتے لیکن ناکامی کا تمام تر ملبہ بھٹو صاحب پر ڈال دیا گیاتھا اور انتہائی مضحکہ خیز الزامات عائد کئے گئے تھے جن میں پہلا الزام یہ تھا کہ بھٹو نے اس جنگ کی سازش اس لئے کی تھی امریکی امداد سے تعمیر و ترقی کا جو دور جاری تھا اسے روکا جائے جس سے ایوب حکومت غیر مستحکم ہو اور بھٹو کی ہوس اقتدار کی خواہش پوری ہو۔ دوسرا الزام یہ تھا کہ بھٹو نے عسکری ماہرین کو یہ "ضمانت" دی تھی کہ بھارت کبھی بھی بین الاقوامی سرحد پر حملہ نہیں کرے گا ، چاہے ہم پورا کشمیر فتح کر لیں اور تیسرا بڑا الزام یہ تھا کہ بھٹو کو ترکی کے سفیر کے طرف سے 4ستمبر ہی کو پیغام مل چکا تھا کہ بھارت حملہ کرنے والا ہے لیکن بھٹو نے دانستہ یہ اہم خبر صدر ایوب تک نہیں پہنچائی تھی۔۔! یقیناََ وہ کوئی بہت بڑا خر دماغ تھا جس نے اس طرح کے بھونڈے الزامات تراشے تھے جو بھٹو کی عوامی مقبولیت میں مزید اضافے کا باعث بنے تھے۔
ہفتہ 18 مارچ 1978
ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو پھانسی دی گئی تھی جسے ایک عدالتی قتل مانا گیا ہے۔ یہ ایک تاریخی جرم تھا اور بھٹو کے قتل میں ملوث ایک ایک مجرم کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ 18 مارچ 1978ء کو بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والا لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مولوی مشتاق ، بھٹو سے کس قدر بغض رکھتا تھا ، اس کی ایک جھلک اس کے ایک ساتھی جسٹس ملک سعید حسن کے اس انٹرویو میں ملتی ہے جنہوں نے چیف جسٹس کے رویے پر بطور احتجاج اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسی انٹرویو میں یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ 1989ء میں بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں پاکستان کو فرانس سے 40 کروڑ ڈالر ہرجانہ وصول ہوا تھا جو ایک ایٹمی ری ایکٹر پروسیسنگ پلانٹ کے ایک طے شدہ معاہدہ کومنسوخ کرنے کی وجہ سے تھا جو جناب بھٹو صاحب نے 18 مارچ 1976ء کو کیا تھا اور جسے ان کے زوال کے بعد 1978ء میں فرانس نے امریکہ کے دباؤ پر یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا تھا۔
ہفتہ 4 اپریل 1981
قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کی 4 اپریل 1981ء کو دوسری پرسی پر میری ڈائری کا ایک ورق
جمعرات 23 دسمبر 1971
23 دسمبر 1971ء کو صدر اور "سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر" جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ نے حلف اٹھایا تھا۔ یہ پاکستان کی پہلی منتخب کابینہ تھی جس کے تمام ممبران الیکشن جیت کر آئے تھے۔ سابق مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ سے بچ جانے والی دونوں سیٹوں پرجیتنے والے دونوں امیدواروں نے پاکستان میں رہنا پسند کیا تھا اور بھٹو صاحب نے ان دونوں کی حب الوطنی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی کابینہ میں شامل کیا تھا۔ ان میں سے ایک بزرگ سیاستدان جناب نورالامین تھے جو قیام پاکستان کے بعد مشرقی بنگال کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہیں ، پاکستان کی تاریخ میں واحد نائب صدر کا عہدہ دیا گیا تھا جو محض ایک علامتی اور اعزازی عہدہ تھا۔ وہ ، جنگ دسمبر کے دوران ، 7 دسمبر سے 20 دسمبر 1971ء تک ، 13 دن کے لئے قائم کی گئی قومی حکومت کے وزیر اعظم بھی رہے تھے اور بھٹو صاحب کو ان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کا عہدہ دیا گیا تھا۔ 1974ء میں انتقال کے بعد انہیں مزار قائد میں دفن کیا گیا تھا۔ دوسری شخصیت راجہ تری دیو رائے کی تھی جو مشرقی پاکستان کے ایک بدھ قبیلے کے لیڈر تھے لیکن انہوں نے پاکستان میں جینا اور مرنا پسند کیا تھا ، انہیں اقلیتی امور کی وزارت دی گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک وزیر جے اے رحیم بھی بنگالی تھے جو پیپلز پارٹی کے پہلے جنرل سیکرٹری بھی تھے۔ وہ 1970ء کے انتخابات کے بعد شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ آئینی امور پر مذاکرات کرنے والی ٹیم کا حصہ بھی تھے اور انہیں علیحدٰگی سے باز رکھنے کو کوشش بھی کرتے رہے تھے۔ بھٹو کی پہلی منتخب لیکن "سول مارشل لاء حکومت" کے تمام ممبران اور ان کے عہدوں پر مشتمل ایک غیر حتمی فہرست ملاحظہ فرمائیں:
منگل یکم دسمبر 1970
پاکستان کا فوجی آمر جنرل یحییٰ خان ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ انتخابات 1970ء کے بعد وہ صدر کے عہدہ پر نہیں رہے گا۔ کاش ، وہ اپنے اس وعدے کا پاس بھی کرتا لیکن ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ، اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔۔! پاکستان کی تاریخ کے اس نااہل ترین ، حکمران نے ملک تڑوا لیا تھا لیکن اقتدار سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔ اگر وہ اتنا ہی مخلص اور معصوم ہوتا تو اپنے پیش رو جنرل ایوب خان کا تختہ الٹنے کی بجائے مروجہ آئین کے تحت صدارتی انتخابات ہونے دیتا لیکن اس انتخابی عمل سے بھٹو ، صدر بن سکتا تھا جو اس وقت تک قوم کا ہیرو بن چکا تھا لیکن جس سے غاصبوں اور جابروں کا ٹولہ بڑا خوفزدہ تھا۔ 1965ء کی جنگ کے بعد ان دونوں میں شدید نفرت پیدا ہوچکی تھی کیونکہ بھٹو ، یحییٰ کو جنگ میں ناکامی کا ذمہ دار سمجھتا تھا۔ اکھنور کی جانب پیش قدمی محض جنرل یحییٰ کی نااہلی کی وجہ سے رک گئی تھی اور کشمیر آزاد کروانے کے لئے بھٹو کا تجویز کردہ آپریشن جبرالٹر بری طرح سے ناکام ہو گیا تھا۔ حقیقت میں بھٹو ہی کے خوف سے 1970ء میں پہلی بار عام انتخابات کروائے گئے تھے تاکہ بنگالیوں کی عددی برتری کے باعث اسے حکومت میں آنے سے روکا جا سکے۔ بنگالیوں کو اتنا بے بس اور بے ضرر سمجھ لیا گیا تھا کہ ان سے ان غاصبوں کو اپنے اقتدار کے لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن جب شیخ مجیب کو برتری حاصل ہو گئی تھی تو اسے حکومت دینے کے بجائے اس پر پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت یلغار کر دی گئی تھی۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ کس طرح مسلمانوں کی تاریخ کو داغدار کیا گیا اور اپنے ناجائز اقتدار کی ہوس میں خون کی ندیاں تک بہا دی گئی تھیں۔
جمعرات 2 جولائی 2020
احمدرضا قصوری ، 1970ء کے پہلے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ فروری 1971ء میں آئینی بحران پیدا ہوا جس کہ وجہ یہ تھی کہ ایک طرف فوجی حکمران اپنی مرضی کا آئین چاہتے تھے اور دوسری طرف بھٹو تمام صوبوں کے لئے ایک قابل قبول آئین کے حامی تھے۔ لیکن اکثریتی پارٹی کا لیڈر شیخ مجیب الرحمان ، صرف اپنی مرضی کا آئین مسلط کرنا چاہتا تھا جس میں وہ دوسری کسی سیاسی پارٹی یا فرد سے مشورہ تک کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ ایسے میں پیپلز پارٹی نے 3 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا تھا جس میں مغربی پاکستان کی نو میں سے چار منتخب سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔
احمد رضا قصوری ، اپنی پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے طور پر اسمبلی کے مجوزہ اجلاس میں شرکت کے لئے ڈھاکہ چلے گئے تھے۔ واپسی پر ان سے باز پرس کی گئی تھی اور ڈسپلن کی خلاف ورزی پر انہیں پارٹی سے نکالنے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ موصوف نے دوسرے ہی دن پریس کانفرنس کر کے چیئرمین بھٹو کو پیپلز پارٹی سے نکال دیا تھا جس پر ان کی ذہنی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔
6 جون 1971ء کو قصوری صاحب کو باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔۔!
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قصوری صاحب ، اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر اپنے طور پر ضمنی انتخابات میں منتخب ہو کر آتے لیکن اتنی اخلاقی جرات کہاں تھی۔ وہ ، پیپلز پارٹی کے بھگوڑے تھے لیکن ائرمارشل اصغرخان کی سیاسی پارٹی تحریک استقلال میں شامل ہو کر قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر بھٹو کے زبردست ناقدین میں شمار ہوتے تھے اور بڑی توہین آمیز اور اشتعال انگیز تقاریر کیا کرتے تھے۔ بغض اور عداوت کا یہ عالم تھا کہ جب 10 اپریل 1973ء کو پاکستان کا پہلا متفقہ آئین منظور ہوا تو قصوری صاحب ان تین اراکین میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنے وؤٹ کا حق استعمال نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود بددیانتی کا یہ عالم ہے کہ موصوف خود کو آئین کا فاؤنڈنگ فادر ثابت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔۔!
11 نومبر 1974ء کو قصوری صاحب کے والد نواب احمد خان قصوری ایک قاتلانہ حملہ میں ہلاک ہوئے تو موصوف نے لاہور کے اچھرہ تھانہ میں قتل کی ایف آئی آر وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف درج کروا دی تھی جو پاکستان کی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ 26 فروری 1975ء کو اس مقدمہ کی کاروائی کی رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں عدم ثبوت کی بنیاد پر یہ مقدمہ داخل دفتر کر دیا گیا تھا۔ 5 جولائی 1977ء کو بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد جب اسے "مقام عبرت" بنانے کا عمل شروع ہوا تھا تو اسی مقدمہ میں اسے پھانسی دی گئی تھی حالانکہ ثبوت کوئی نہیں تھا اور تمام تر انحصار وعدہ معاف گواہوں پر تھا جو خود ایک انتہائی مشکوک عمل ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پانچ میں سے چار وعدہ معاف گواہوں کو بھی احتیاطاَ پھانسی دے دی گئی تھی تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ پانچواں اور بڑا وعدہ معاف گواہ مسعودمحمود تب سے اب تک لاپتہ ہے۔ بقول سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جناب جسٹس جاوید اقبال (مرحوم) کے ، اس مقدمہ میں بھٹو کی پھانسی کی سزا بنتی ہی نہیں تھی اور ایسے مقدمہ میں پھانسی پانے والے وہ واحد شخص ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف خود قصوری صاحب بھی کرتے ہیں۔
احمد رضا قصوری کتنے باضمیر شخص ہیں ، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوبارہ ممبر اسمبلی منتخب ہونے کی ہوس میں وہ بڑی تگ و دو اور منت سماجت کے بعد بیگم نصرت بھٹو کی سفارش پر 7 اپریل 1976ء کو ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔ گویا انہوں نے ایک ایسے شخص کو ایک بار پھر اپنا قائد تسلیم کرلیا تھا جو مبینہ طور پر ان کے باپ کا قاتل تھا۔ یکم جنوری 1977ء کو انہوں نے بھٹو کی خوشامد اور چاپلوسی پر مبنی تقریر کی تھی لیکن بھٹو صاحب نے انہیں درخوراعتنا نہیں سمجھا اور پارٹی ٹکٹ نہیں دیا تھا جس پر وہ پھر ان کے دشمن بن گئے تھے۔
احمد رضا قصوری ، سابق فوجی آمر جنرل مشرف کی ٹانگہ پارٹی میں بھی شامل تھے اور وہاں سے بھی نکال دیئے گئے تھے۔ وہ ، ڈکٹیٹر کے غداری کے مقدمہ میں وکیل تھے اور بیماری کے بہانے اسے ملک سے فرار کرانے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ بھگوڑا اور غدار آمر وطن واپس کب آئے گا تو موصوف کا بڑا طنزیہ جواب تھا کہ "جب کشمیر آزاد ہوگا۔۔!"
احمد رضا قصوری ، اپنی بدکلامی اور تند مزاجی کی وجہ سے اکثر ٹی وی ٹاک شوز میں خاصے بے عزت ہوتے رہے ہیں۔ ایک بار ان کا منہ بھی کالا کیا گیا تھا۔ اپنی غیر سنجیدہ حرکتوں اور بے سروپا باتوں کی وجہ سے انہیں کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور نہ ہی پاکستان کی تاریخ یا سیاست میں ان کی کبھی کوئی اہمیت یا حیثیت رہی ہے۔ قصوری صاحب کا جب بھی کبھی اور کہیں ذکر ہوگا تو صرف "بھٹو کے قاتل" کے طور پر ہی ہوگا۔۔!
پير 20 دسمبر 1971
20 دسمبر 1971ء کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عوام کے منتخب نمائندے قائد عوام جناب ذوالفقارعلی بھٹو نے پاکستان کے چوتھے صدر کے عہدہ کا حلف اٹھایا تھا۔۔!
یہ ناممکن کبھی ممکن نہ ہوتا اگر ایک شرمناک فوجی شکست کے نتیجے میں پاکستان کے دو لخت ہونے اور بھارتی جارحیت کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کا دلخراش سانحہ رونما نہ ہوتا۔ پاکستان پر قابض مطلق العنان حکمران ، جنرل یحییٰ خان اور اس کا غاصب ٹولہ منتخب عوامی نمائندوں اور خصوصاً بھٹو کو اس کا حق دینے اور اپنے ناجائز اقتدار سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ بھٹو کو اقتدار سے دور رکھنے والوں کو نہ صرف انہیں صدر بنانا پڑا بلکہ 'سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر' کا عہدہ بھی دینا پڑا۔ ساتھ ہی وہ وزیرخارجہ ، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع بھی تھے۔
صدر اور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو ،
سابق صدر جنرل یحییٰ خان اور مستقبل کے صدر غلام اسحاق خان
بظاہر ذوالفقارعلی بھٹو ، پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کے طاقتور ترین سویلین حکمران تھے لیکن بھٹو کی کارکردگی لیاقت علی خان سے بدرجہا بہتر رہی ہے۔ بھٹو نے صرف پانچ ماہ کی قلیل مدت میں 21 اپریل 1972ء کو ایک عبوری آئین بنا کر ملک سے مارشل لاء کی لعنت کو ختم کیا۔ 14 اگست 1973ء کو پاکستان کے پہلے متفقہ اور مستقل آئین کی منظوری کے بعد صدارت کا عہدہ چھوڑ کر پارلیمانی جمہوریت کے تحت پہلے منتخب وزیر اعظم بھی بنے۔ پاکستان ایک بہت بڑی فوجی شکست کے بعد معاشی اور سیاسی طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ GDP گروتھ 0,47 فیصد تک گر چکی تھی لیکن بھٹو نے کمال حکمت عملی، دانائی اور شب و روز کی محنت سے ایک سال کے اندر ہی میں جی ڈی پی گروتھ 7,06 فیصد تک پہنچا دی تھی۔ قومی اعتماد بحال کیا اور بین الاقوامی ساکھ کو بہتر بنایا۔ بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے کر مالی بدعنوانیوں کا سدباب کیا اور مزدوروں کا استحصال ختم کیا۔ پاکستان کو نہ صرف معاشی بحران سے نکالا بلکہ دفاعی طور پر بھی بے حد مضبوط کیا اور ایٹمی پروگرام کی بنیاد بھی رکھی۔ متعددشعبہ جات میں تاریخی اصلاحات کے علاوہ ایک بہت بڑا کارنامہ شملہ معاہدہ تھا جس میں قومی وقار پر حرف آئے بغیر مغربی محاذ پر جنگ میں ہارے ہوئے پانچ ہزار مربع میل سے زائد مقبوضہ علاقوں کی واپسی ممکن ہوئی تھی اور جنگی قیدیوں کی رہائی کے لئے پیش رفت بھی ہوئی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو ، 5 جنوری 1928ء کو لاڑکانہ سندھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو مشیر اعلیٰ حکومت بمبئی اور ریاست جوناگڑھ کے وزیر اعظم تھے۔ 1950ء میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات میں گریجویشن کی۔ 1952ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹر کی ڈگری لی۔ اسی سال لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ پہلے ایشیائی تھے جو انگلستان کی ایک یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے استاد مقرر ہوئے۔ کچھ عرصہ تک مسلم لاء کالج کراچی میں دستوری قانون کے لیکچرر رہے۔ 1953ء میں سندھ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔ 1957ء میں دو بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ 1958ء سے 1966ء تک جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت میں ایک غیر سیاسی اہلکار کے طور پر مختلف وزارتوں پر فائز رہے اور اپنی لاجواب کارکردگی کی بنیاد پر قومی ہیرو بنے۔ 1967ء میں سیاست میں سرگرم ہوئے اور اپنی الگ سیاسی جماعت 'پیپلز پارٹی' بنائی جسے 1970ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان کے دو صوبوں ، پنجاب اور سندھ سے بڑی اکثریت حاصل ہوئی اور متحدہ پاکستان میں عوامی لیگ کے بعد دوسری بڑی پارٹی بنی۔ انتخابات کے بعد ایک آئینی بحران پیدا ہوا جس میں اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کا لیڈر شیخ مجیب الرحمان اپنی مرضی کا آئین بنانا چاہتا تھا۔ بھٹو ، ایک متفقہ آئین کا حامی تھا لیکن پاکستان کا مختار کل ، صدر جنرل یحییٰ خان اپنی مرضی کا آئین مسلط کرنا چاہتا تھا جس کے مطابق اگلے پانچ سال تک وہ جنرل ضیاع اور جنرل مشرف کی طرح کا مطلق العنان صدر ہو۔ یہی نکتہ فساد کی وجہ تھا کیونکہ اکثریتی پارٹی کا لیڈر شیخ مجیب الرحمان ، فوجی جرنیلوں کو کسی قسم کا کوئی سیاسی کردار دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس جرم کی پاداش میں مجیب کو غدار قرار دے کر گرفتار کیا گیا ، ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ، عوامی لیگ پر پابندی لگائی گئی اور بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا گیا تھا۔ اصولاً اسی وقت حکومت بھٹو کے حوالے کر دینی چاہئے تھی لیکن اقتدار کے حریصوں نے ملک تڑوا لیا لیکن وؤٹ کو عزت نہیں دی۔ بالآخر ایک تاریخی شکست کھا کر ہوش آئی اور مجبوراً حقدار کو اس کا حق دینا پڑا تھا۔
اتوار یکم جولائی 1973
پاکستان کے عظیم محسن قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جتنے اصلاحی کام ہوئے ، ان کی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے جہاں ملک چلانے کے لئے آئین اور بچانے کے لئے پاکستانی قوم کو ایٹمی قوت بنایا تھا وہاں ہر شہری کو قانونی درجہ دینے کے لئے یکم جولائی 1973ء کو پہلی بار قومی رجسٹریشن سکیم کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق 18 سال سے زائد عمر کے افراد کے لئے قومی شناختی کارڈ کا حصول لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت ملازمت ، ڈرائیونگ لائسنس ، عدالتی کاروائیوں ، پاسپورٹ اور راشن کارڈ کے حصول کے لئے شناختی کارڈ لازمی قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان کا پہلا شناختی کارڈ 7 جولائی 1973ء کو اس وقت کے صدر جناب ذوالفقار علی بھٹو کے نام جاری کیا گیا تھا۔
ہفتہ 27 نومبر 1971
پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہے جو کبھی رونما نہ ہوتا اگر ملک میں جبرو دھاندلی کا راج نہ ہوتا اور عوام کے جمہوری حقوق کو پامال نہ کیا جاتا۔ روز اول ہی سے مغربی پاکستان کے مقتدر حلقوں نے مشرقی پاکستان کو ایک کالونی سمجھا تھا اور 1948ء میں پہلے زبان کا مسئلہ پیدا ہوا ، پھر 1955ء میں ون یونٹ بنا کر بنگالیوں کی اکثریت کو مصنوعی طریقے سے ختم کرنے کی ایک احمقانہ کوشش کی گئی تھی۔ 1958ء میں مارشل لاء کے نفاذ نے بنگالیوں کو باور کرا دیا تھا کہ متحدہ پاکستان میں ان کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے کیونکہ جو فوج ملک پر حکمران تھی اس میں ان کا حصہ دس فیصد سے زائد نہیں تھا جبکہ وہ کل آبادی کا 55فیصدتھے۔ غیر جمہوری سوچ نے بنگالیوں کے احساس محرومی میں اضافہ کیا تھا جس کا نتیجہ 1966ء میں شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ 1968ء میں اگر تلہ سازش کیس کے انکشاف نے بنگالیوں کو ایک منزل دے دی تھی جو مکمل خود مختاری سے کم نہیں تھی۔ 1970ء کے انتخابات ایک ریفرنڈم ثابت ہوئے تھے لیکن عاقبت نا اندیش فوجی حکمران نوشتہ دیوار پڑھنے سے قاصر رہے اور وؤٹ پر بوٹ چڑھا دیئے تھے جس کا نتیجہ ایک شرمناک شکست کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ بعض بد دیانت لوگ اس سانحہ میں بھٹو صاحب کو ملوث کرنے کی ناکام کوشش کرتے آئے ہیں جو محض بغض اور بخل کے سوا کچھ نہیں۔ اس وقت مختار کل جنرل یحییٰ خان اور اس کا ٹولہ تھا جو کسی طور بھی اقتدار سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا جبکہ مجیب ، فوج کو کسی قسم کا کوئی سیاسی کردار دینے کو تیار نہیں تھا۔ اسی جرم میں وہ غدار ٹھہرا ، گرفتار ہوا ، اس کی جماعت پر پابندی لگی اور بنگالیوں کے خلاف فوجی ایکشن شروع ہوا تھا۔۔ اور اس میں بھٹو کا دور دور تک کوئی ہاتھ نہیں تھا۔۔! اپنے گناہوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے سے گناہ دھل نہیں جاتے ، ہر کسی کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔۔!
جمعہ 21 اپریل 1972
20 دسمبر 1971ء کو ملک کے دو لخت ہونے کے بعد جنرل یحییٰ اور اس کے غاصب ٹولے نے اقتدار سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے اپنے تمام تر اختیارات ، پاکستانی عوام کے پہلے منتخب لیڈر پیپلز پارٹی کے چیئر مین جناب ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کئے تھے تو ملک میں کوئی آئین یا دستور نہیں تھا۔ پاکستان پر مارشل لاء کی لعنت مسلط تھی یعنی ملک کو جنگل کے قانون کی طرح سے چلایا جا رہا تھا۔ بھٹو کو جہاں وراثت میں صدر مملکت کا عہدہ ملا وہاں اصل طاقت یعنی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا ناپسندیدہ ٹائٹل بھی "سول" لفظ کے اضافہ کے ساتھ ملا تھا۔ بھٹو صاحب نے اپنی پہلی فرصت میں ایک آئین ساز کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے سربراہ میاں محمود علی قصوری تھے۔ صرف پانچ ماہ کی قلیل مدت میں عبوری آئین بنا تھا۔ 14 اپریل 1972ء کو قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا تھا جس میں بھٹو صاحب صدر ، وزیر خارجہ ، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کے علاوہ صدر اسمبلی یا سپیکر بھی منتخب ہوگئے تھے۔ 17 اپریل کو اسمبلی نے عبوری آئین منظور کر لیا تھا جو 21 اپریل 1972ء کو نافذالعمل ہوا اور مارشل لاء ختم ہوا تھا۔ اس عبوری آئین کے تحت بھٹو صاحب نے ایک بار پھر صدر کے عہدہ کا حلف اٹھایا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی حکمران نے اپنے عہدہ کا حلف راولپنڈی کے ریس کورس گراؤند میں ایک عوامی اجتماع میں اٹھایا تھا۔ چیف جسٹس حمودالرحمان نے ان سے حلف لیا تھا اور یہ حلف پہلی بار اردو زبان میں تھا۔ بعد میں بھٹو صاحب نے اپنی کابینہ کے ممبران سے ان کے عہدوں کا حلف لیا تھا۔
ہفتہ 7 ستمبر 1974
پاکستان کی قومی اسمبلی نے 7 ستمبر 1974ء کو متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا۔ بطور وزیر اعظم یہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی ایک اور بہت بڑی تاریخ ساز کامیابی تھی کیونکہ انہوں نے پوری قوم کو ساتھ ملا کر ایک نوے سالہ پرانے مذہبی مسئلہ کو حل کر دیا تھا۔ اس سے قبل جب 1953ء میں پہلی بار یہ تنازعہ کھڑا ہوا تھا تو مبینہ طور پر ان مذہبی فسادات میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ امن و امان کے لئے لاہور میں سوا دو ماہ کے لئے مارشل لاء بھی لگایا گیا تھا اور پھر طاقت کے بل بوتے پر اس مسئلہ کو دبا دیا گیا تھا۔ دوبارہ یہ مسئلہ تب ابھرا جب 22 مئی 1974ء کو ربوہ ریلوے سٹیشن پر طلباء کے دو گروپوں میں ایک تصادم کی خبر نے ملک گیر احتجاج اور ہنگاموں کی شکل اختیار کر لی تھی اور مذہبی حلقوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ بھٹو صاحب نے کسی یکطرفہ یا آمرانہ فیصلےکی بجائے جمہوری روایات کی ایک شاندار مثال قائم کرتے ہوئے فریقین کو قومی اسمبلی میں بحث و مباحثہ کے لئے مدعو کیا تھا۔ دو ماہ کی گرما گرم بحث و تمحیص کے بعد جب قادیانی لیڈر ، بھٹو صاحب کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کے ایک سوال کے جواب میں عام مسلمانوں کو کافر کہہ بیٹھے تو ممبران اسمبلی کے لئے انہیں متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دینا آسان ہو گیا تھا۔ ویسے بھی یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ قادیانی ، غیرمسلم کیوں ہیں؟ سیدھی سی بات ہے کہ اگر مسلمان حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسٰیؑ کو ماننے کے باوجود یہودی ہیں نہ عیسائی بلکہ مسلمان ہیں کیونکہ ان کی نسبت حضرت محمد ﷺ سے ہے تو بھلا قادیانی ، جن کی نسبت کسی اور سے ہے ، مسلمان کیسے ہو سکتے ہیں۔۔؟ اس عظیم کارنامے پر جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید کو عاشق رسول ﷺ قرار دیا گیا تھا اور اس واقعہ کو ان کی نجات کا ذریعہ بھی بیان کیا گیا تھا۔
منگل یکم مارچ 1977
ذوالفقار علی بھٹو ایک بہت بڑے حقیقت پسند اور عملی لیڈر تھے جن کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ کامیابی اور ناکامی کے درمیان فاصلہ زیادہ نہیں ہوتا۔ اپنے اس مختصر سے انٹرویو میں جہاں وہ یہ اعتراف کر رہے ہیں کی 1977ء کے انتخابات میں مقابلہ بڑا سخت تھا اور وہ کسی طور بھی اپوزیشن اتحاد کو کمزور نہیں سمجھتے تھے ، وہاں وہ اس اٹل حقیقت کو بھی بیان کر رہے ہیں کہ پاکستان جیسے غریب ترین ملک میں جہاں وسائل کم اور مسائل بہت زیادہ ہیں ، عوامی توقعات پر پورا اترنا کسی بھی حکومت کے لئے ممکن نہیں ہے۔ انسان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ہر حکومت کا اولین فرض ہوتا ہے لیکن جب ترجیحات ایک فلاحی ریاست سے زیادہ ایک دفاعی ریاست کی ہوں تو عوام الناس کو مطمئن کرنا ممکن ہی نہیں۔ ایسے میں کوئی بھی حکومت اپنی مقبولیت برقرار نہیں رکھ سکتی اور لوگ بہتر مستقبل کی تلاش میں تنکے کا سہارا لینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور ایسے میں نااہل لوگوں کو بھی خود پر مسلط کر لیتے ہیں۔
اتوار 2 جولائی 1972
ذوالفقار علی بھٹو کا ایک اور بہت بڑا کارنامہ شملہ معاہدہ تھا جس میں انہوں نے ایک تاریخ ساز سیاسی کامیابی حاصل کی تھی۔ پاکستان ، میدان جنگ میں بری طرح سے پٹ چکا تھا ، مشرقی پاکستان چھن چکا تھا ، نوے ہزار سے زائد جنگی قیدی تھے اور مغربی پاکستان کا آٹھ نو ہزار مربع کلو میٹر علاقہ بھی دشمن کے قبضہ میں تھا۔ پاکستان ، سیاسی طور پر دنیا بھر میں یک و تنہا تھا جبکہ بھارت کو کھلی جارحیت کے باوجود بنگالیوں کا نجات دہندہ سمجھا جار رہا تھا۔ ایسے میں وہ جو چاہتا ، منوا سکتا تھا لیکن مسلمانوں سے ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لینے والی اندرا گاندھی کا سامنا ذوالفقار علی بھٹو جیسے گوہر نایاب سے تھا جس نے قومی مفادادت پر کوئی حرف آئے بغیر ایک با عزت اور باوقار معاہدہ کیا ، مقبوضہ علاقے واپس لے لئے اور جنگی قیدیوں کی رہائی پر پیش رفت بھی کی تھی۔ بھٹو نے پاکستانی فوجی افسران پر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ بھی نہیں چلنے دیا تھا اور کشمیر پر بھی کسی قسم کی کوئی سودا بازی نہیں کی تھی۔ جمہوری روایات کا کمال تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار منتخب قومی اسمبلی سے اس معاہدے کی توثیق بھی کروائی گئی تھی۔۔!
بدھ 28 مئی 1975
ذوالفقار علی بھٹو سے بہتر وزیر خارجہ ، پاکستان کی تاریخ میں کبھی کوئی دوسرا نہیں رہا اور ان کے کارہائے نمایاں تاریخ کا ایک سنہری باب ہیں۔ 23 جنوری 1963ء کو رسمی طور پر اس عہدہ پر فائز ہونے قبل ہی وہ کئی بڑے بڑے خارجی امور سر انجام دے چکے تھے جن میں 1960ء میں روس کے ساتھ امریکی جاسوسی طیارے کے مار گرائے جانے کے بعد کی کشیدہ صورتحال سے پاکستان کو نکالنا ہو یا 1962ء میں روایتی حریف بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر اعلیٰ سطحی مذاکرات کی قیادت ہو ، پاکستان کو امریکی اثرورسوخ سے آزاد کرانا ہو یا روس اور چین سے قربت بڑھانی ہو ، بھٹو صاحب جیسا دور اندیش رہنما ایوب حکومت کی خارجہ پالیسی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالتے ہی بھٹو صاحب نے جہاں چین ، ایران اور برما کے ساتھ سرحدی تنازعات کو پر امن طریقے سے حل کیا تھا وہاں پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ دو سال سے منقطع تعلقات کو بھی بحال کیا تھا۔ یہ بھٹو صاحب ہی تھے کہ جنہوں نے پاکستان ، ایران اور ترکی کی تنظیم آرسی ڈی بھی بنائی تھی اور دیگر اسلامی اور عرب ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کا آغاز کیا تھا۔ اسلامی ممالک کی کانفرنس ہو یا ترقی پذیر ممالک کا اتحاد ، ہر جگہ بھٹو صاحب نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے انمٹ نقوش چھوڑے تھے۔
اتوار 13 جولائی 2008
5 جولائی 1977ء کو پاکستان کے عوام کی پہلی منتخب شدہ حکومت کا تختہ الٹنے کا مجرمانہ فعل کرنے اور آئین شکنی کے مرتکب جنرل ضیاع مردود کا ساتھ دینے والے ایک اور باغی اور شریک جرم ، جنرل فیض علی چشتی کا ایک انٹرویو جس میں موصوف اس بات کی تردید کر رہے ہیں کہ بھٹو حکومت اور اپوزیشن اتحاد کے درمیان کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ طے پا گیا تھا۔
منگل 5 جولائی 1977
5 جولائی 1977ء کو پاکستان کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام کبھی نہیں ہو سکتے اور نہ ہی اس ملک میں جمہوریت کی سیاست ممکن ہے بلکہ یہاں جنگل کا قانون ہی چلتا رہے گا اور جس کی لاٹھی ہوگی ، بھینس بھی اسی کی رہے گی۔۔!
پاکستان کے متفقہ آئین کے تحت غیر جمہوری طریقے سے حکومت کا تختہ الٹنا سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے بھی یہ بغاوت ہے اور کرنے والا باغی اور خارجی ہے اور واجب القتل ہے۔ اخلاقی طور پر بھی یہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہے اور ایسا کرنے والا غاصب و جابر اور قانون شکن ہوتا ہے۔ بظاہر 1977ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کو بنیاد بنا کر بھٹو حکومت کا خاتمہ کیا گیا تھا لیکن جب تاریخی واقعات کو ماضی کے آئینے میں دیکھا جائے تو ان میں ایک تسلسل اور ربط ملتا ہے کہ کس طرح 9 اگست 1976ء کو بھٹو کو ایک عبرتناک مثال بنانے کی دھمکی ملتی ہے اور پھر کس طرح 10 جنوری 1977ء کو راتوں رات بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں اور ایک دوسرے کو کافر کہنے والی مذہبی جماعتوں کو ایک سیاسی اتحاد میں پرو دیا جاتا ہے اور پھر کس طرح الیکشن میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف ملک گیر تحریک چلتی ہے جسے عوامی حمایت نہ ملنے پر ایک پر تشدد مذہبی تحریک میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور پھر جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ حاکم وقت اپنی حکمت عملی سے معاملات کو قابو میں کرنے والا ہے تو تمام قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑا کر رات کے اندھیرے میں طاقت ، غنڈہ گردی اور بدمعاشی سے ایک جائز حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے۔ قرآنی آیات پڑھ کر جھوٹے وعدے کئے جاتے ہیں کہ نوے روز میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات کروا کر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپ دیا جائے گا لیکن ایک منافق و فاسق آمر دانستہ بڑی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے خلق خدا کو گمراہ کرتا ہے اور پاکستان کو اپنے باپ کی جاگیر اور پاکستانیوں کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سمجھ کر جدھر چاہا ، ہانکتا رہتا ہے۔ اصل مقصد بھٹو صاحب کو منظر سے ہٹانا تھا جو ان کے عدالتی قتل کا شرمناک مظاہرہ کر کے کیا گیا تھا۔ لیکن کبھی نہ جانے والا وہ خودساختہ مطلق العنان آمر مردود یہ بھول گیا تھا کہ رہے نام اللہ کا۔۔! قدرت کا انتقام دیکھئے کہ وقت کا بدترین فرعون جب جہنم واصل ہوا تھا تو ابھی اس کی قبر کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان کے غیور عوام نے بھٹو کے احسانات کا قرض چکاتے ہوئے اس کی جواں سال اور ناتجربہ کار بیٹی کو عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنا کر ثابت کر دیا تھا کہ واقعی ، جمہورت سب سے بہترین انتقام ہے۔۔ اللہ اکبر۔۔!!!
جمعه 28 اپریل 1972
پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو جیسا عظیم لیڈر پیدا نہیں کیا جو ایک جنگ ہار کر بھی اپنی قوم کا حوصلہ کس طرح بڑھاتا تھا۔ اس انٹرویو میں بھٹو صاحب ، پاکستان کو ایک عظیم قوم بنانے کے لئے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے جرمنی کی مثال دے رہے ہیں اور یہ یادگار جملہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہماری بیرونی طاقت ، ہماری اندرونی طاقت میں نظر آئے گی۔۔! لیکن عوام کو طاقت کا سر چشمہ سمجھنے والا یہ نادان لیڈر بھول گیا تھا کہ مسلمانوں کی تاریخ ، غداروں اور آستین کے سانپوں سے بھری پڑی ہے جوختم نہ ہونے والی اس ذلت و خواری کی وجہ بھی ہے۔۔!
پير 3 مارچ 1969
پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان کے اقتدار کا آخری مہینہ جب 3 مارچ 1969ء کے دن گول میز کانفرنس میں دیگر سیاستدانوں کے ساتھ دیکھے گئے تھے۔ اس ویڈیو میں صدر ایوب کے علاوہ شیخ مجیب الرحمان، ممتاز دولتانہ ، نوابزادہ نصراللہ خان ، نورالامین، ولی خان ، مولانا مودودی، مفتی محمود اور ائرمارشل اصغر خان بھی ہیں جبکہ بھٹو اور بھاشانی نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا۔
جمعه 27 جنوری 1961
پاکستان کے صدر ایوب خان نے 27 جنوری 1961ء کے دن دریائے کابل پر بنائے گئے وارسک ڈیم کا افتتاح کیا تھا جس کا سنگ بنیاد 1956ء میں رکھا گیا تھا اورجو کینیڈا کے مالی تعاون سے تعمیر ہوا تھا۔ اس افتتاحی تقریب میں وزیر قدرتی وسائل جناب ذوالفقار علی بھٹو بھی نظر آتے ہیں۔
پير 19 ستمبر 1960
پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان ، بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور عالمی بینک کے صدر کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر 19 ستمبر 1960ء کو دستخط ہوئے تھے جس سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا تعمیری منصوبہ شروع ہوا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق منگلا اور تربیلا ڈیموں کے علاوہ آٹھ الحاقی نہریں بھی بنائی گئی تھیں جن سے پاکستان کے حصہ میں آنے والے تین دریاؤں ، سندھ ، جہلم اور چناب کے پانیوں کو دریائے راوی اور ستلج میں لانا تھا اور جن پر بھارت کا حق تسلیم کرلیا گیا تھا۔ عام طور پر جنرل ایوب خان کو یہ کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ ڈیم بنائے تھے جبکہ تاریخی حقیقت یہ تھی کہ موصوف کا اس ضمن میں جو کردار تھا وہ صرف ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرنے کے سوا کچھ بھی نہ تھا جس پر کام قیام پاکستان کے وقت سے ہورہا تھا۔ اس معاہدے پر 1954ء ہی میں وولڈ بینک نے فنڈنگ کی منظوری دے دی تھی لیکن اس وقت پاکستان اپنے حصہ کے دریاؤں کا پانی بھارت کو دینے کو تیار نہیں تھا۔ یہ معاہدہ اس وقت ممکن ہوا تھا جب جناب ذوالفقار علی بھٹو ، وزیر پانی و بجلی ، قدرتی وسائل اور قومی تعمیر نو تھے اور انہی کی سمری پر یہ تاریخی معاہدہ ہوا تھا اور اس عظیم منصوبے پر کام بھی شروع ہوا تھا جو بھٹو صاحب کے دیگر عظیم احسانات کے علاوہ ایک اور بہت بڑا احسان بھی تھا۔۔!
اتوار یکم مئی 1960
یکم مئی 1960ء کو روس نے اپنی فضاء میں امریکہ کا ایک جاسوس طیارہ مار گرایا تھا جو پاکستان میں پشاور کے قریب بڈ بیر کے مقام پر امریکی فوجی اڈے سے اڑ کر گیا تھا۔ روس نے اس واقعہ کے بعد پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی لیکن 6 اکتوبر 1960ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد روسی وزیر اعظم خروشیف سے ایک طویل ملاقات کر کےنہ صرف روسی غصے کو ٹھنڈا کیا تھا بلکہ انہیں پاکستان میں وسیع سرمایہ کاری پرآمادہ بھی کرلیا تھا۔ اس تاریخی ملاقات کا نتیجہ پاکستان میں روزانہ پچاس ہزار بیرل تیل کی پیداوار اور سٹیل مل کا قیام بھی تھا جو روس کے تعاون سے ہی ممکن ہوا تھا۔ یاد رہے کہ بھٹو صاحب کو وزارت خارجہ کا قلمدان رسمی طور پر 23 جنوری 1963ء کو دیا گیا تھا لیکن عملی طور پر خارجی امور وہی چلاتے تھے کیونکہ ایوب حکومت کے دونوں وزرائے خارجہ منظور قادر اور محمد علی بوگرہ محض نام کے وزیر خارجہ تھے جو امریکہ بہادر کو خوش رکھنے کی ایک رسمی کاروائی تھی۔
جمعرات 17 دسمبر 1970
پاکستان میں پہلے ملک گیر صوبائی انتخابات 10 دسمبر 1970ء کو ہوئے تھے جن میں تین سیاسی پارٹیاں پانچ صوبوں میں کامیاب ہوئی تھیں۔شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کیا تھا۔ بھٹو کی پیپلز پارٹی نے پنجاب اور سندھ میں جبکہ ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی نے صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) اور بلوچستان میں اکثریت حاصل کی تھی۔
ہفتہ 31 جولائی 1971
ذوالفقار علی بھٹو ، مشرقی پاکستان کا مسئلہ گفت و شنید سے حل کرنا چاہتے تھے لیکن جنرل یحیٰی خان کی فوجی حکومت طاقت سے مسئلے کو کچلنا چاہتی تھی جس میں بری طرح سے ناکامی ہوئی تھی۔
بدھ 15 دسمبر 1971
وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے 15 دسمبر 1971ء کو سلامتی کونسل میں ایک بڑی پر اثر تقریر کی جس میں اقوام متحدہ کی نااہلی اور مشرقی پاکستان پر بھارتی جارحیت کو قانونی جواز فراہم کرنے پر اپنے شدید جذبات کا اظہار کیاتھا اور اپنے نوٹس پھاڑ کر چلے آئے تھے۔ یہ واقعہ پوری دنیا کے میڈیا اور تاریخی کتب میں اجاگر ہوا تھا۔
جمعرات 16 دسمبر 1971
سقوط ڈھاکہ کی شام اپنے ریڈیو خطاب میں فوجی آمر جنرل یحیٰی خان نے جہاں جنگ کے نتائج سے قوم کو گمراہ کیا تھا وہاں یہ گتھی بھی سلجھا دی تھی کہ سانحہ مشرقی پاکستان کی اصل وجہ کیا تھی؟ بنگالیوں کا منتخب نمائندہ شیخ مجیب الرحمان ، متحدہ پاکستان کا آئین اپنے
چھ نکات پر بنانے پر بضد تھا اور اس کے لئے کسی کے مشورہ کا پابند نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک متفقہ آئین کی بات کر رہا تھا جو تمام صوبوں کے لئے قابل قبول ہو لیکن فوجی حکمران اپنی مرضی کاآئین چاہتے تھے جس میں جنرل یحییٰ خان کو اگلے پانچ سال کے لئے صدر منتخب کرنا اور وہی اختیار دینا جو جنرل ضیاع کے آٹھویں ترمیم اور جنرل مشرف کے سترہویں ترمیم میں تھے۔ شیخ مجیب ، جنرل یحییٰ یا فوج کو کسی قسم کا کوئی آئینی کردار دینے کو تیار نہیں تھا جس پر اسے غدار قرار دے کر پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی عوامی لیگ پر پابندی لگی اور بنگالیوں کے خلاف فوجی ایکشن شروع کر دیا گیا تھا۔ روزنامہ مشرق لاہور کے مطابق جنرل یحییٰ کے خودساختہ آئین کا نفاذ 20 دسمبر 1971ء کو ہونا تھا جس کا اعلان آمر ایک ریڈیو تقریر میں کر رہا ہے۔
اتوار 14 مارچ 1971
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 14 مارچ 1971ء کو کراچی کے نشتر پارک میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جنرل یحیٰی خان کی فوجی حکومت کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو اقتدار سونپ دیا جائے تا کہ آئینی بحران ختم ہو سکے۔ اس خبر کو لاہور کے ایک اخبار آزاد نے "اُدھر تم اِدھر ہم" کی شہ سرخی سے شائع کیا تھا جو نیوز ایڈیٹر عباس اطہر کے ذہن کی اختراع تھی اور جو بلا شبہ پاکستان کی صحافتی تاریخ کی سب سے بڑی شہ سرخی تھی اور جسے بنیاد بنا کر بھٹو کے مخالفین انہیں سانحہ مشرقی پاکستان میں ملوث کرنےکی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ بنگلہ دیش کبھی نہ بنتا اگر پاکستان کو تاریخ کی ایک شرمناک ترین فوجی شکست نہ ہوتی۔۔!
اتوار 28 فروری 1971
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 28 فروری 1971ء کو لاہور کے ایک جلسہ عام میں ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ایک ایسے اجلاس میں انگوٹھے لگانے نہیں جائیں گے جہاں اکثریتی پارٹی اپنی مرضی کا آئین ملک پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے اس اجلاس میں جانے والے اپنی پارٹی کے کارکنوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ ان کا اشارہ اپنی پارٹی کے بھگوڑے رکن احمد رضا قصوری کی طرف تھا جو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈھاکہ چلا گیا تھا جس پر اسے پیپلز پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ اس کا بدلہ اس نے وقت کے وزیر اعظم کے خلاف اپنے باپ کے قتل کا مقدمہ درج کروا کے اور اسے پھانسی دلوا کر لیا تھا۔
پير یکم مارچ 1971
پاکستان کے صدر جنرل یحیٰی خان نے یکم مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی کر دیا تھا جس پر مشرقی پاکستان میں بغاوت شروع ہو گئی تھی۔ اس التواء کی بنیادی وجہ دستور سازی میں شیخ مجیب الرحمان کی ہٹ دھرمی تھی جو نیا آئین صرف اپنے چھ نکات پر بنانا چاہتا تھا اور اس کے لئے کسی اور سے مشورہ تو دور کی بات تھی ، کوئی بات سننا بھی گوارا نہیں کررہا تھا۔ اسی وجہ سے مغربی پاکستان کی نو میں سے چار سیاسی جماعتوں نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا جن میں بھٹو کی پیپلز پارٹی ، خان قیوم کی مسلم لیگ اور چوہدری ظہور الہٰی کی کونسل مسلم لیگ بھی شامل تھیں۔
منگل 14 اگست 1973
پاکستان کے عظیم محسن جناب ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ ایک منتشر قوم کو ایک متفقہ آئین دینا تھا جو 10 اپریل 1973ء کو منظور ہوا تھا اور 14 اگست 1973ء کو نافذ العمل ہو گیا تھا۔ لاہور میں ایک تقریر میں بھٹو صاحب ، پاکستان میں آئین کی تاریخ بیان کر رہے ہیں جس میں یہ دلچسپ انکشاف بھی ہے کہ 1962ء کے ایوب خان کے شخصی آئین کو بنانے والی پانچ رکنی کمیٹی میں وہ بھی شامل تھے۔
اس سے قبل پاکستان کا پہلا آئین نو سال کی سعی کے بعد 23 مارچ 1956ء کو نافذ ہوا تھا جو ون یونٹ کی بنیاد پر سول اور ملٹری بیوروکریسی کا بنایا ہوا ایک متنازعہ صدارتی آئین تھا اور جس کا مشرقی پاکستان نے بائیکاٹ کیا تھا۔ 7 اکتوبر 1958ء کو صدر سکندر مرزا نے وہ آئین منسوخ کر کے مارشل لاء لگا دیا تھا۔ 8 جون 1962ء کو جنرل ایوب خان نے اپنا شخصی صدارتی آئین نافذ کیا تھا جو ان کے جاتے ہی ختم ہو گیا تھا۔ بھٹو صاحب نے حکومت سنبھالتے ہی پانچ ماہ کے اندر ایک عبوری آئین دیا تھا جس سے جنرل یحیٰی خان کا مارشل لاء ختم کیاگیا تھا۔ بھٹو کے بنائے ہوئے آئین کو بنانے اور بگاڑنے والے سبھی اس دنیا سے چلے گئے لیکن وہ آئین آج بھی موجود ہے اور کسی بھی ملک کی طرح سب سے بڑی دستاویز ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے اس مستقل آئین کی منظوری کے خلاف کوئی وؤٹ نہیں آیا تھا لیکن تین ارکان اسمبلی نے اپنے اپنے وؤٹ کا حق استعمال نہیں کیا تھا۔ ان میں سب سے اہم شخصیت میاں محمود علی قصوری تھے جو بھٹو کے عبوری آئین کے خالق تھے۔ دوسرے بریلوی سیاسی جماعت ، جمیعت العلمائے پاکستان کے صدر مولانا شاہ احمد نورانی تھے اور تیسرا شخص احمدرضا قصوری تھا جسے 1971ء ہی میں پیپلز پارٹی سے نکال باہر کیا گیا تھا اور پھر جس کے باپ کے قتل کے کیس میں بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تھی۔
جمعرات 30 نومبر 1967
وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنگ ستمبر 1965ء کے نتیجے میں ہونے والے معاہدہ تاشقند پر اختلافات کی بنیاد پر جب 17 جون 1966ء کو ایوب حکومت کو خیرآباد کہا تھا تو انہوں نے راولپنڈی سے کراچی تک ٹرین کا ایک سفر کیا تھا۔ ہر سٹیشن پر عوام الناس کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے ہجوم نے ان کا استقبال کیا تھا جس سے بھٹو صاحب کو اپنی عوامی مقبولیت کا اندازہ ہوا تھا۔ بھٹو صاحب ، ایوب حکومت میں مختلف وزارتوں میں اپنی بے مثل کارکردگی کی بنیاد پر ایک قومی ہیرو بن چکے تھے اور ایک نااہل آمرانہ حکومت کے خلاف قوم کی آواز بن گئے تھے۔ ایسے میں انہوں نے عملی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بقول جسٹس جاوید اقبال ، محترمہ فاطمہ جناح ، بھٹو صاحب کو اپنی جماعت ، کونسل مسلم لیگ میں شامل کرنا چاہتی تھیں لیکن بھٹو صاحب نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس سے قبل ان کے ابتدائی دور میں ان کے والد بھٹو کی عوامی لیگ میں شمولیت کے خواہشمند تھے لیکن اس پارٹی کو مغربی پاکستان میں کبھی پذیرائی نہیں ملی تھی۔
30 نومبر 1967ء کو پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے چئیر مین ، ذوالفقار علی بھٹو صاحب منتخب ہوئے تھے۔ اس پارٹی کا نعرہ "روٹی ، کپڑا اور مکان" تھا جبکہ بنیادی منشور تھا: "اسلام ہمارا دین ہے" ، "جمہوریت ہماری سیاست ہے" ، "طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں" اور "سوشلزم ہماری معیشت ہے" دیکھتے ہی دیکھتے پیپلز پارٹی ، مغربی پاکستان کی سب سے مقبول ترین سیاسی پارٹی بن گئی تھی لیکن اسے مشرقی پاکستان میں قطعاً پذیرائی نہ مل سکی تھی جہاں بنگالی قوم پرستی اپنے جوبن پر تھی۔ صرف تین سال بعد ہونے والے عام انتخابات میں انہیں مذہبی اور نظریاتی جماعتوں کے مقابلے میں مغربی پاکستان میں زبردست کامیابی حاصل ہو گئی تھی اور سانحہ مشرقی پاکستان کی وجہ سے صرف ایک سال بعد وہ بر سر اقتدار بھی تھے۔ بھٹو کی پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت رہی ہے کہ جس کی جڑیں عوام میں تھیں اور جسے جمہوریت دشمن قوتوں نے ختم کرنے کے لئے سازشوں اور زیادتیوں کے علاوہ سرکاری خزانے کے منہ تک کھولے لیکن ناکامی ان کا مقدر بنی۔ پاکستان میں جمہوری اقدار و روایات کے لئے اس جماعت کی کارکردگی مثالی رہی ہے۔
بھٹو دشمن قوتوں نے اس پارٹی کو تقسیم کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اس سلسلے کا آغاز بھٹو کے زوال کے فوراَ بعد شروع ہو گیا تھا جب 1977ء میں مولانا کوثر نیازی سے پروگریسو پیپلز پارٹی بنوائی گئی تھی۔ غلام مصطفیٰ جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی ، غنویٰ بھٹو اور آفتاب شیر پاؤ کے گروپس اور مشرف کے دور میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرز بنائی گئی جس سے فیصل صالح حیات کی قیادت میں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے بگوڑے پیدا کئے گئے تھے۔
ہفتہ 31 جولائی 1976
بھارت نے جب 18 مئی 1974ء کو اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تھا تو بطور وزیر اعظم بھٹو صاحب کی نیندیں حرام ہو گئی تھیں۔ انہوں نے بطور وزیر خارجہ 20 نومبر 1965ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپنی قوم سے عہد کیا تھا کہ اگر بھارت نے ایٹم بم بنایا تو پاکستان بھی بنائے گا ، اس کے لئے چاہے ہمیں گھاس ہی کھانا پڑے لیکن امریکہ کے زیر اثر صدر ایوب خان ، ایٹم بم بنانے کے حق میں نہیں تھے۔ بھٹو صاحب نے اپنی ذاتی کوشش سے 20 اپریل 1965ء کو اسلام آباد کے قریب امریکہ کے تعاون سے پاکستان کا پہلا ایٹمی بجلی گھر قائم کیا تھا جس کا افتتاح بھی خود انہوں نے 22 دسمبر 1965ء کو کیا تھا۔ برسر اقتدار آتے ہیں بھٹو صاحب نے 20 جنوری 1972ء کو ملتان میں سائنسدانوں کی ایک کانفرنس منعقد کی تھی جس کے بعد انہوں نے ایک وزارت سائنسی امور بنائی تھی جس کے ذمہ ایٹم بم کی تیاری کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔ اسی سال 28 نومبر 1972ء کو انہوں نے کینیڈا کے تعاون سے کراچی میں ایک اور ایٹمی بجلی گھر بنایا تھا لیکن ایٹم بم بنانے کے لئے یورینیم کی افزودگی کی جو تیکنیک درکار تھی ، وہ دستیاب نہیں تھی۔ 28 مارچ 1974ء کو بھٹو صاحب نے ایک اور ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کے لئے فرانس سے بھی کامیاب مذاکرات کئے تھے جن پر 18 مارچ 1976ء کو دستخط ہوئے تھے۔ اس ایٹمی بجلی گھر سے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہونا تھی لیکن بھٹو صاحب کے جاتے ہی یہ معاہدہ امریکہ کے دباؤ پر منسوخ ہو گیا تھا۔اس دوران بھٹو صاحب کی تگ و دو رنگ لانے لگی تھی اور 17 ستمبر 1974ء کو انہیں ہالینڈ سے ایک نوجوان سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک خط ملا تھا جو تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوا تھا۔ بڑے ڈرامائی انداز میں انہیں پاکستان لایا گیا تھا اور معاملات طے کرنے کے بعد 31 جولائی 1976ء کو ڈاکٹر صاحب کی نگرانی میں پاکستان کے مشہور زمانہ "اسلامک بم" پر کام شروع ہو گیا تھا جس کے لئے بھٹو صاحب نے اپنی ذہانت و فطانت اور شبانہ و روز محنت سے نہ صرف تمام وسائل فراہم کئے تھے بلکہ اپنی قوم کی بقاء کے لئے اپنی جان کا نذرانہ دے کر تاریخ میں امر ہو گئے تھے۔۔!
جمعہ 22 فروری 1974
پاکستان نے 22 فروری 1974ء کو بنگلہ دیش کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا لیکن 10 اپریل 1973ء کو منظور ہونے والے متفقہ آئین کے مطابق بنگلہ دیش ، مشرقی پاکستان کی صورت میں پاکستان کا ایک مستقل حصہ تھا۔ ایسے میں بنگلہ دیش کو ایک الگ ریاست کے طور پر تسلیم کرنا آئین شکنی تھی۔ دوسری طرف 1971ء کی جنگ میں ذلت آمیز شکست کے بعد بنگلہ دیش ایک آزاد ملک کے طور پر دنیا کے نقشہ پر موجود تھا جسے بیشتر ممالک تسلیم کر چکے تھے ، صرف پاکستان اور اس کے چند قریبی حلیف ممالک نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ معاہدہ شملہ (1972) میں جہاں بھارت ، پاکستان سے کشمیر پر کوئی مستقل سمجھوتہ چاہتا تھا ، وہاں بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی شرط پر نوے ہزار جنگی قیدیوں کو رہا کرنا چاہتا تھا لیکن بھٹو صاحب نے جہاں اپنے مقبوضہ علاقے واپس لے لئے تھے اور کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ بھی تسلیم کروا لیا تھا ، وہاں بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی شرط پر جنگی قیدیوں کی رہائی پر راضی نہیں تھے۔ بنگلہ دیش ایک حققیت بن چکا تھا جسے جلد یا بدیر تسلیم کرنا تھا لیکن آئینی رکاوٹ کے علاوہ اندرون ملک کئی ایک پریشر گروپس بھی تھے جو "بنگلہ دیش نامنظور" کی تحریک چلا رہے تھے۔ ایسے میں بھٹو صاحب نے جس طرح اس مسئلہ کو حل کیا وہ ان جیسا دور اندیش ، زیرک اور معاملہ فہم رہنما ہی کر سکتا تھا۔ پاکستانی عوام کے لئے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جنگی قیدیوں کی رہائی تھی لیکن اس میں تاخیر کی وجہ دشمن کا یہ مطالبہ تھا کہ پہلے پاکستان ، بنگلہ دیش کو تسلیم کرے۔ بھٹو صاحب نے اس مسئلہ کے حل کے لئے 11 مئی 1973ء کو عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا تھا اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ جنیوا معاہدہ کے تحت بھارت کو جلد از جلد جنگی قیدیوں کو رہا کرنا لازم ہے۔ بھارت متوقع فیصلے سے گبھرا گیا تھا اور 28 اگست 1973ء کو سہ طرفہ معاہدہ دہلی کے تحت غیر مشروط طور پر نہ صرف جنگی قیدیوں کو رہا کرنے کا پابند ہوا بلکہ بنگلہ دیش ، 195 پاکستانی فوجی افسران پر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلانے کے مطالبہ سے بھی دستبردار ہو گیا تھا۔ معاہدہ شملہ کے بعد معاہدہ دہلی بھی بھٹو صاحب کی ایک اور بہت بڑی سیاسی فتح تھی لیکن اگلا چیلنج آئین شکنی سے بچنا تھا۔ اس سلسلے میں 4 جولائی 1973ء کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی حاکم وقت کی طرف سے سپریم کورٹ کو عزت بخشی گئی تھی اور بنگلہ دیش کوتسلیم کرنے کی اجازت طلب کی گئی تھی۔ 7 جولائی 1973ء کو عدالت عالیہ نے قومی اسمبلی کو مطلوبہ قانون سازی کی اجازت دے دی تھی۔ 10 جولائی 1973ء کو پارلیمنٹ نے اکثریتی فیصلہ سے بھٹو صاحب کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ جب چاہیں بنگلہ دیش کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ 23 اپریل 1974ء کو آئین میں پہلی ترمیم اسی ضمن میں ہوئی تھی۔ اس طرح ذوالفقار علی بھٹو جیسی عظیم المر تبت ہستی نے قواعد و ضوابط کے احترام اور الجھے مسائل کو سلجھانے کی جو مثال قائم کی تھی وہ اپنی مثال آپ تھی۔۔!
منگل 5 جولائی 1977
ذوالفقار علی بھٹو نے جن نامساعد حالات میں حکومت
سنبھالی تھی ، پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ 1971ء کی جنگ کی وجہ سے پاکستان معاشی اور دفاعی طور پر تباہ حال اور سیاسی طور پر یک و تنہا تھا۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح نمو ، تاریخ کی کم ترین سطح 0,47 فیصد پر تھی۔ بھٹو صاحب نے صرف ایک سال کی محنت و مشقت کے بعد پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی 7,06 فیصد تک پہنچا دی تھی اور ان کے پانچ سالہ دور حکومت میں جی ڈی پی کی اوسط شرح 4,12 فیصد رہی تھی جو اس وقت برصغیر میں سب سے بہترین تھی۔ یہ عظیم کارنامہ اس خوددار اور غیور لیڈر نے امریکی فوجی اور اقتصادی امداد کے بغیر انجام دیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکی امداد ، پاکستان کے لئے حرام کی وہ کمائی رہی ہے کہ جس میں کبھی برکت نہیں رہی اور اسی لعنت نے ہمیں ہمیشہ کاسہ گدائی اٹھانے کا عادی بنایا ہے۔ اب دیکھیں ، کرونا کے بحران کے بعد ہمارا کیا حشر ہوتا ہے۔۔؟