پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
جمعتہ المبارک 22 فروری 1974
بھٹو کا بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا
وزیراعظم بھٹو ، دورہ بنگلہ دیش میں ایک "بنگالی شہید" کی یادگار پر
22 فروری 1974ء کو وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ نے جب بنگلہ دیش کو تسلیم کیا تو کیا وہ آئین کی خلاف ورزی تھی۔۔؟
16 دسمبر 1971ء کو بھارت کی کھلی جارحیت کے نتیجے میں قائم ہونے والی ریاست بنگلہ دیش کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے بیشتر ممالک تسلیم کر چکے تھے ، صرف شکست خوردہ پاکستان اور اس کے چند قریبی حلیف ممالک نے تسلیم نہیں کیا تھا۔
بھوٹان اور بھارت پہلے ممالک تھے جنھوں نے 6 دسمبر 1971ء ہی کو بنگلہ دیش کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کرلیا تھا جبکہ پاکستان کے روایتی حلیفوں میں سے برطانیہ نے جنوری 1972 اور امریکہ نے اپریل 1972ء میں تسلیم کیا تھا۔
اسلامی ممالک میں سے سینگال پہلا ملک تھا جس نے بنگلہ دیش کو فروری 1972ء میں تسلیم کرلیا تھا لیکن دیگر اسلامی ممالک نے پاکستان کے ساتھ 22 فروری 1974ء کو لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر بنگلہ دیش کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کیا تھا۔
چین نے سب سے آخر میں 31 اگست 1975ء کو بنگلہ دیش کو تسلیم کیا تھا جو قبل ازیں ، تاریخ میں پہلی بار اپنا حق استعمال کرتے ہوئے 25 اگست 1972ء کو بنگلہ دیش کی اقوام متحدہ کی رکنیت کو ویٹو کر چکا تھا جو بھٹو صاحب کی ایک اور بہت بڑی سفارتی کامیابی تھی۔
کیا بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا آئین شکنی تھی؟
10 اپریل 1973ء کو منظور ہونے والے متفقہ آئین کے مطابق بنگلہ دیش ، بدستور مشرقی پاکستان کی صورت میں پاکستان کا ایک مستقل حصہ تھا۔ خفیہ قوتوں نے پورا پورا بندوبست کیا تھا کہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت نہ چل سکے اور نہ ہی وہ ایک متفقہ آئین بنا سکے۔ اسی لیے "بنگلہ دیش نامنظور" کی طرح کے جذباتی نعرے لگانے والے مختلف پریشر گروپس کی وجہ سے یہ ایک انتہائی احمقانہ اور غیر حقیقت پسندانہ آئینی شق بھی شامل کی گئی تھی۔ ایسے میں کسی آئینی ترمیم کے بغیر بنگلہ دیش کو ایک الگ ریاست کے طور پر تسلیم کرنا آئین شکنی تھی۔
بھٹو صاحب کے پاس دو تہائی اکثریت تھی ، وہ چاہتے تو طاقت کے بل بوتے پر باآسانی یہ آئینی ترمیم منظور کروا سکتے تھے لیکن ایسا کرنے سے ان پر یہ الزام بھی لگ جاتا کہ یہ صرف ان کا یا ان کی پارٹی کا فیصلہ ہے۔ انھوں نے اس مسئلہ کو جس طرح سے حل کیا وہ ان جیسا دور اندیش ، زیرک اور معاملہ فہم رہنما ہی کر سکتا تھا۔
جب بھٹو نے فوجی شکست کو سیاسی فتح میں بدل دیا تھا
پاکستانی عوام کے لئے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جنگی قیدیوں کی رہائی تھی لیکن اس میں تاخیر کی وجہ دشمن کا یہ مطالبہ تھا کہ پاکستان پہلے بنگلہ دیش کو تسلیم کرے۔
بھٹو صاحب کی ایک اور شاندار سفارتی کامیابی معاہدہ شملہ (1972) تھا جس میں جہاں بھارت ، پاکستان سے کشمیر پر کوئی مستقل سمجھوتہ چاہتا تھا ، وہاں بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی شرط پر نوے ہزار جنگی قیدیوں کو رہا کرنا چاہتا تھا لیکن بھٹو صاحب نے کوئی شرط مانے بغیر اپنے مقبوضہ علاقے واپس لے لئے تھے ، جنگی جرائم کے تحت کسی فوجی افسر پر مقدمہ نہیں چلنے دیا تھا ، کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ بھی تسلیم کروا لیا تھا اور جنگی قیدیوں کی رہائی پر کسی قسم کی کوئی کمزوری بھی نہیں دکھائی تھی۔
بھٹو صاحب نے بھارت اور بنگلہ دیش کی بلیک میلنگ قبول نہیں کی اور جنگی قیدیوں کی رہائی کے مسئلہ پر 11 مئی 1973ء کو عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا تھا اور یہ موقف اختیار کیا کہ جنیوا معاہدہ کے تحت بھارت کو جلد از جلد جنگی قیدیوں کو رہا کرنا لازم ہے۔
بھارت متوقع فیصلے اور عالمی دباؤ سے گبھرا گیا تھا اور 28 اگست 1973ء کو سہ طرفہ معاہدہ دہلی کے تحت غیر مشروط طور پر نہ صرف جنگی قیدیوں کو رہا کرنے کا پابند ہوا بلکہ بنگلہ دیش ، 195 پاکستانی فوجی افسران پر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلانے کے مطالبہ سے بھی دستبردار ہو گیا تھا۔ 30 اپریل 1974ء کو پاکستان کے جنگی قیدیوں کا آخری قافلہ بھی وطن واپس پہنچ گیا تھا۔
آئین پاکستان میں پہلی ترمیم
معاہدہ شملہ (1972) کے بعد معاہدہ دہلی (1973) بھی بھٹو صاحب کی ایک اور بہت بڑی سیاسی اور سفارتی فتح تھی لیکن اگلا چیلنج آئین شکنی سے بچنا تھا۔ اس سلسلے میں 4 جولائی 1973ء کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی حاکم وقت کی طرف سے سپریم کورٹ کو عزت بخشی گئی تھی اور بنگلہ دیش کوتسلیم کرنے کی اجازت طلب کی گئی تھی۔
7 جولائی 1973ء کو عدالت عالیہ نے قومی اسمبلی کو مطلوبہ قانون سازی کی اجازت دے دی تھی۔ 10 جولائی 1973ء کو پارلیمنٹ نے اکثریتی فیصلہ سے بھٹو صاحب کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ جب چاہیں بنگلہ دیش کو تسلیم کر سکتے ہیں۔
23 اپریل 1974ء کو آئین میں پہلی ترمیم اسی ضمن میں ہوئی تھی جس کی مخالفت میں کوئی وؤٹ نہیں آیا تھا لیکن 13 اراکین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا۔ سینٹ میں بھی 25 وؤٹ حق میں اور صرف دو وؤٹ مخالفت میں آئے تھے۔
اس طرح ذوالفقار علی بھٹوؒ جیسی عظیم المر تبت ہستی نے قواعد و ضوابط کے احترام اور الجھے ہوئے مسائل کو سلجھانے کی جو شاندار جمہوری روایت قائم کی وہ اپنی مثال آپ تھی۔۔!
Pakistan recognized Bangladesh
Friday, 22 February 1974
Pakistan recognized Bangladesh as an independent state on 22 February 1974, but according to the Constitution of Pakistan, Bangladesh was a permanent part of Pakistan. In such a case, recognizing Bangladesh as a separate state was a violation of the Constitution..
Pakistan recognized Bangladesh (video)
Credit: AP Archive
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
26-06-2012: پاکستان کے مظلوم وزرائے اعظم
18-10-1957: آئی آئی چندریگر
27-03-1979: بھٹو کیس اور جسٹس صفدر شاہ