پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
بدھ 4 اپریل 1979
ذوالفقار علی بھٹوؒ ، پیدائش سے پھانسی تک
پاکستان نے آج تک ذوالفقار علی بھٹوؒ سے بڑا ، بہتر اور باکمال لیڈر ، سیاستدان یا حکمران نہیں دیکھا۔۔!
ایک سحر انگیز شخصیت ، ذاتی قابلیت ، عوامی مقبولیت اور قومی خدمت میں جس کا کبھی کوئی ثانی نہیں تھا۔۔!
جس نے اپنی صرف 51 سالہ زندگی میں وہ مقام و مرتبہ حاصل کیا جو تاریخ میں بہت کم لوگو ں کے حصہ میں آتا ہے۔۔!
بھٹو کے منفرد اعزازات
ذوالفقار علی بھٹوؒ، پاکستان کی تاریخ کی واحد شخصیت ہیں کہ جو اعلی ترین سرکاری اور انتظامی عہدوں پر فائز رہے جن میں صدر ، وزیر اعظم ، وزیر خارجہ ، سپیکر ، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پاک فوج کے سپریم کمانڈر کے اعلیٰ عہدے شامل ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹوؒنے پاکستان کی سیاست پر بھی راج کیا اور ان سے بڑا سیاستدان بھی کوئی نہیں تھا۔ وہ ، ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور چیئر مین ، پاکستان کے پہلے منتخب حکمران اور پاکستان کی تاریخ کے واحد عوامی لیڈر بھی تھے۔۔!
زندہ بھٹو ، مردہ بھٹو
پاکستانی عوام پر ذوالفقار علی بھٹوؒ کی شخصیت کا کمال جادو تھا کہ زندہ بھٹو نے 2 بار اور مردہ بھٹو نے 3 بار انتخابات جیتے تھے۔ بھٹوکی بیٹی محترمہ بے نظیربھٹو ، اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی۔ بھٹو کا داماد آصف علی زرداری ، صدر بنا اور نصف صدی بعد آج بھی بھٹو کے نام پرہی سیاست ہور ہی ہے اور بھٹو ہی کے نام پرہی وؤٹ بھی مل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو کا نواسہ بلاول بھٹو زرداری بھی وہی نسخہ کیمیا آزمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاریخ عالم میں ایسی لا زوال شہرت و مقبولیت کی حامل طلسماتی شخصیت کی شاید ہی کوئی اور مثال ملے۔۔!
4 اپریل 1979ء کوایک عالمی سازش ، ریاستی جبر اور ایک انتہائی متنازعہ عدالتی فیصلے کے بعد پھانسی پا کر امر ہو جانے والی اس عظیم المرتبت ہستی کے انتہائی قابل رشک سیاسی کیرئر اورعروج و زوال کاخلاصہ ملاحظہ فرمائیں:
بھٹو کی ابتدائی زندگی
5 جنوری 1928ء کو خطہ سندھ کے معروف سیاستدان سر شاہنواز بھٹو کے گھر پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹوؒ کی ابتدائی تعلیم بمبئی میں ہوئی تھی۔ بارکلے اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے پولیٹیکل سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے بعد لنکن ان سے وکالت پاس کی۔ 1953ء میں کراچی واپس آئے اور قانون کے لیکچرار رہے ، ساتھ ہی وکالت بھی جاری رکھی۔
بھٹو کی سیاسی زندگی
25 نومبر 1954ء کو ذوالفقار علی بھٹوؒ ، سندھ یوتھ فرنٹ کے صدر کے طور پرپہلی بار خبروں میں آئے تھے جب انہوں نے ون یونٹ کے قیام کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
ستمبر 1957ء میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹوؒ کی سرکاری خدمات سامنے آتی ہیں جب وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں شریک پاکستانی وفد میں شامل تھے جہاں ان کی تقاریر سے سرکاری حلقے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ چھ ماہ بعد مارچ 1958ء میں جب پاکستان کا ایک اور وفد اقوام متحدہ کے جنیوا میں ہونے والے ایک اجلاس میں شرکت کے لئے گیاتھا تو اس وفد کی قیادت ذوالفقار علی بھٹوؒ کر رہے تھے۔
بھٹو اور ایوب خان
اسی سال یعنی 7 اکتوبر 1958ء کو اس وقت کے صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے آئین کو معطل کیا ، وزیراعظم ملک فیروز خان نون کو گھر بھیجا ، اسمبلیاں اور سیاسی پارٹیاں توڑیں اور ملک گیر مارشل لاء لگا کر آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقررکر دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 24 اکتوبر 1958ء کوجنرل ایوب خان کو وزیر اعظم بھی بنا دیا گیا تھا جنہوں نے صرف تین دن بعدیعنی 27 اکتوبر1958ء کو سکندر مرزاکا بوریا بستر گول کیا ، انہیں ملک بد ر کیا اور خود عہدہ صدارت بھی ہتھیا لیا تھا۔ صدر ایوب خان نے جس گیارہ رکنی کابینہ کا اعلان کیا تھا، اس میں تین فوجی جرنیلوں کے علاوہ آٹھ غیر سیاسی سویلین بھی تھے ان میں تیس سالہ نوجوان وکیل ذوالفقار علی بھٹوؒ کو وزیر تجارت کا عہدہ دیا گیا تھا جو اس وقت تک پاکستان کے کم عمر ترین وزیر تھے۔
بھٹو کی بے مثل کارکردگی
صرف سوا سال کے عرصہ میں ذوالفقار علی بھٹوؒنے اپنی کارکردگی سے اس قدر متاثر کیاتھا کہ 7 جنوری 1960ء کو صدرجنرل ایوب خان نے اپنی گیارہ رکنی کابینہ میں وزارتوں کی تقسیم نو کی تو ذوالفقار علی بھٹوؒ واحد وزیر تھے جنہیں سب سے زیادہ یعنی چھ وزارتوں کے قلمدان سونپ دیئے گئے تھے۔ ان وزارتوں کے نام تھے : وزیر اطلاعات و نشریات ، وزیر قومی تعمیر نو ، وزیر دیہی ترقی ، وزیر بلدیات ، وزیر سیاحت اور وزیر اقلیتی امور۔ تین ماہ بعد وزیر ایندھن ، پانی ، بجلی اور قدرتی وسائل کی وزارت پر بھی فائز تھے جبکہ 24 جنوری 1963ء کو اپنے وزیر خارجہ بننے تک ان وزارتوں کے نام بھی آتے ہیں وزیر صنعت ، وزیر امور کشمیر ، قائمقام وزیر خوارک و زراعت اور قائمقام وزیر خارجہ (وغیرہ)
بھٹو ، جنرل ایوب کا دایاں ہاتھ
1962ء میں صدرجنرل ایوب خان نے اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے جمہوری حکومت بننے کا ڈرامہ رچایا تو پہلی بار پاکستان کی خالق جماعت پاکستان مسلم لیگ کو ہائی جیک کیا تھا۔ کنوینشن مسلم لیگ کے نام کی اس سرکاری پارٹی کے سربراہ صدر مملکت جنرل محمد ایوب خان اور جنرل سیکرٹری ذوالفقار علی بھٹوؒ تھے جو اپنی غیرمعمولی کارکردگی کی وجہ سے صدرایوب خان کی حکومت کی سب سے بڑی دریافت بن چکے تھے۔
جنرل ایوب خان کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹوؒ کا ساتھ تقریباً آٹھ سال تک رہا تھا جس میں وہ ان کے دست راست اور سب سے قابل اعتماد وزیر تھے۔ پاکستان کے چاروں آمروں میں سے اگر صرف جنرل ایوب خان کی کچھ مثبت کارکردگی تھی یا انہیں کچھ احترام سے یاد کیا جاتا ہے تو اس کی واحد وجہ بھٹو جیسا گوہر نایاب تھا جو دیگر آمروں کو نصیب نہ ہو سکا تھا۔
21 جون1964ء کو صدرجنرل ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹوؒکو اعلیٰ کارکردگی پر پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہلال پاکستان بھی دیا تھا لیکن 17جون 1966ء کو دونوں کی راہیں جدا ہوئیں توجنرل ایوب کا ستارہ بھی گردش میں آ گیا تھا جبکہ بھٹو نئی بلندیوں کی طرف گامزن ہوگئے تھے۔
بھٹو ، عملی سیاست میں
30 نومبر 1967ء کو ذوالفقار علی بھٹوؒ نے اپنی نئی سیاسی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کیا اور عملی سیاست میں قدم رکھ دیاتھا۔ خود ، پارٹی کے بانی اور چیئر مین بنے اور صرف تین سال بعد 7 دسمبر 1970ء کے انتخابات میں موجودہ (یا مغربی) پاکستان میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ بھٹو کو کل 138 میں سے81 نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور خود پانچ حلقوں سے منتخب ہوئے تھے۔ مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے کل 300 میں سے 160 سیٹیں جیتی تھیں اور حکومت بنانے کی حقداربھی تھی لیکن پاکستان کا مختار کل آمر جنرل یحییٰ خان اقتدار سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔ وہ صرف شرکت اقتدار چاہتا تھا انتقال اقتدار نہیں ، حتیٰ کہ ملک تک ٹوٹ گیا تھا لیکن وہ پھر بھی اقتدار سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔۔!
بھٹو ، یحییٰ خان کے بھی وزیرخارجہ؟
7 دسمبر1971ء کو جنگ دسمبر کے نازک موقع پر صدرجنرل یحییٰ خان نے ایک قومی حکومت قائم کی تھی جس میں مشرقی پاکستان سے واحد سیٹ جیتنے والے نورالامین کو وزیر اعظم اور ذوالفقار علی بھٹوؒ کو پاکستان کا پہلا نائب وزیر اعظم اور دوسری بار وزیر خارجہ بنایا گیا تھا۔ اصل میں بھٹو کو سلامتی کونسل بھیجنے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا گیا تھا کیونکہ اس وقت پورے ملک میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو اس عالمی تنہائی میں پاکستان کا کمزور موقف پیش کر سکتا تھا۔
بھٹو ، واحد سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر
16 دسمبر1971ء کو پاکستان کو ایک شرمناک ترین فوجی شکست ہوئی تھی اورمشرقی پاکستان پر بھارت کے قبضہ کے نتیجہ میں بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ یہ عظیم سانحہ نہ ہوتا تو جنرل یحییٰ خان اور اس کا ٹولہ کبھی بھی اقتدار سے دستبردار نہ ہوتا۔ 20 دسمبر1971ء کے دن جنرل یحییٰ نے مجبوراً اپنے صدر اور چیف مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات ذوالفقار علی بھٹوؒ کے سپر د کر دیئے تھے جو آئین کی عدم موجودگی کی وجہ سے تھے۔ اس طرح بھٹو صاحب (غالباً) عالمی تاریخ کے واحد سول مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر بنے تھے۔ ان کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹوؒ کے پاس وزیر خارجہ وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کی وزارتوں کے قلمدان بھی تھے۔
14 اپریل 1972ء کو پاکستان کی پہلی منتخب قومی اسمبلی نے حلف اٹھایا تو ذوالفقار علی بھٹوؒ کو 38 کے مقابلے میں 104 وؤٹوں کی اکثریت سے اسمبلی کے صدر یا سپیکر منتخب ہونے اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔
پانچ ماہ میں عبوری آئین
صرف پانچ ماہ کی مدت میں 20 اپریل 1972ء کے دن عبوری آئین کا نفاذ ہوا تھا جس کے نتیجہ میں مارشل لاء ختم ہوا تھا اور ذوالفقار علی بھٹوؒنے 21 اپریل 1972ء کے دن دوسری مرتبہ صدر پاکستان کے عہدہ کا حلف اٹھایا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع تھا کہ جب کسی حکمران نے اپنے عہدہ کا حلف قومی زبان اردو میں اٹھایا تھا اور یہ واقعہ بھی پہلی بارہوا تھا کہ کسی سرکاری عمارت کی بجائے ریس کورس راولپنڈی کے ایک عوامی اجتماع میں حلف اٹھایا گیا تھا۔
پاکستان کا مستقل آئین
14 اگست 1973ء کو پاکستان کا پہلا متفقہ آئین نافذ ہوا تو ذوالفقار علی بھٹوؒنے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کے عہدہ کا حلف اٹھایا تھا۔ انہیں قومی اسمبلی میں 28 کے مقابلے میں 108 وؤٹ ملے تھے۔ بھٹو نہ صرف پاکستان کے مستقل آئین کے خالق تھے بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی بھی تھے۔ انھوں نے جہاں شملہ معاہدہ میں میدان جنگ میں ہاری ہوئی جنگ جیتی تھی وہاں ہزاروں مربع میل مقبوضہ علاقہ واپس لینے کے علاوہ کسی پاکستانی فوجی افسر پر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ بھی نہیں چلنے دیا تھا۔ ان کے دور میں جہاں پاکستان کی دفاعی طاقت کو مضبوط تر کیا گیا تھا وہاں پاکستان کی اکانومی ، روایتی حریف بھارت کے مقابلے میں بہتر ہوتی تھی۔ انھوں نے ہر شعبے میں ایسی اصلاحات کی تھیں کہ جو ان کی دشمن بن گئی تھیں اور انھیں اقتدار کے ساتھ جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
بھٹو ، دوسری بار وزیراعظم بنے
7 مارچ 1977ء کو دوسری بار انتخابات میں کل181 نشستوں میں سے 155 پر کامیابی حاصل کی تھی۔ 28 مارچ 1977ء کے دن ذوالفقار علی بھٹوؒ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے کہ جس نے دوسری بار اپنے عہدہ کا حلف اٹھایا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے وزیر خارجہ کے عہدہ پر اپنے نائب عزیز احمد کو نامزد کیا تھا۔ یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصہ تک وزیر خارجہ رہنے کا ر ریکارڈ ابھی تک ذوالفقار علی بھٹوؒ ہی کے پاس ہے جو کل پونے نو سال تک وزیر خارجہ رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹوؒ ہی پاکستان کی تاریخ کی واحد شخصیت ہیں کہ جنہوں نے پاکستان کے تین اعلی ترین عہدوں صدر، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے عہدوں کے حلف دو دو بار اٹھائے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹوؒ کو ان کی زندگی میں کبھی کوئی سیاستدان ، سیاسی شکست نہیں دے سکا تھا۔ جہاں بھٹو ، اقتدار کی معراج تک پہنچے وہاں ان کے تمام سیاسی مخالفین دنیا سے ناکام و نامراد ہو کر تاریخ کی کتابوں میں گم ہو چکے ہیں۔
بھٹو کو عبرتناک مثال بنانے کا عمل
9 اگست 1976ء کو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی بھٹو کو دی گئی دھمکی ، پاکستان کے سازشی عناصر ، غداروں اور آستین کے سانپوں کے لئے گرین سگنل تھی جس پرفوری عمل درآمد شروع ہو گیا تھا۔ جب1977ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں ، بدنام زمانہ تحریک نظام مصطفی ؐ اورایک منتخب حکومت کے خلاف عالمی سازش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے جنرل ضیاع مردود نے طاقت ، بدمعاشی اور غنڈہ گردی سے 5 جولائی 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹوؒ کی حکومت کا تختہ الٹا تھا تو اس وقت وہ 37 اسلامی ممالک کے سربراہوں کی تنظیم کے سربراہ اور77 ترقی پذیر ممالک یا تیسری دنیا کی تنظیم کے چیئر مین بھی تھے۔۔!
بھٹو کا مقدمہ قتل
ذوالفقار علی بھٹوؒ کو 3ستمبر1977ء کوپہلی مرتبہ گرفتار کیا گیاتھا لیکن دس روز بعد ضمانت ہو گئی تھی۔ 17ستمبر1977ء کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر احمد رضا قصوری نامی شخص کے باپ کے قتل کے الزام میں مقدمہ قتل بنا یاگیا تھا۔ بھٹو نے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی کھلی جانبداری ، ذاتی پرخاش اور توہین آمیز سلوک کی وجہ سے اس مقدمہ کی کاروائی کابائیکاٹ کر دیا تھا لیکن 18 مارچ 1978ء کولاہور ہائی کورٹ نے یکطرفہ کاروائی میں بھٹو کو سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا تھا جسے 6 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ نے تین چار کے اکثریتی فیصلے سے برقرار رکھا تھا۔ 24 مارچ 1979ء سپریم کورٹ نے متفقہ طورپر نظر ثانی کی اپیل کو مسترد کر دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹوؒنے رحم کی اپیل نہیں کی تھی لیکن دنیا بھر سے اپیلیں ہوئی تھیں۔ ترکی نے تو سیاسی پناہ تک دینے کی پیش کش بھی کی تھی لیکن بھٹو نے تاریخ میں مرنا پسند نہیں کیا ، جان دے دی تھی لیکن پاکستان نہیں چھوڑا۔
بھٹو امر ہوگیا۔۔!
4 اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹوؒ کوتختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔۔!!!
موت برحق ہے ، ہر کسی نے مرنا ہے لیکن موت موت میں فرق ہوتا ہے۔ کوئی بھٹو کی طرح مر کر امر ہو جاتا ہے تو کوئی بھٹو کے قاتلوں کی طرح مر کر مردود ٹھہرتا ہے کہ جنھیں ان کے سیاسی جانشین بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ بھٹو کا نام رہتی دنیا تک بڑے فخر سے لیا جاتا رہے گا کیونکہ کرگسوں کے اس دیس میں بھٹو ہی ایک شاہین تھا کہ جس کی اڑان ، سب سے بلند ، جس کی شان ، سب سے اعلیٰ اور جس پر مان ، اب ایمان کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔۔!
Zulfikar Ali Bhutto
Wednesday, 4 April 1979
A detailed Urdu article on Zulfikar Ali Bhutto..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
15-08-1947: لاکھوں مہاجرین کی پاکستان آمد
18-04-1993: بلخ شیر مزاری
28-07-2011: لوڈ شیڈنگ کے مسائل