Pakistan National Alliance was a 9-parties political alliance in 1977-election in Pakistan..
وزیر اعظم پاکستان ، جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ نے 7 جنوری 1977ء کو اچانک ایک سیاسی دھماکہ کرتے ہوئے وقت سے ڈیڑھ سال قبل ہی دو ماہ بعد 7 مارچ 1977ء کو عام انتخابات کا اعلان کر دیا تھا۔۔!
اس غیر متوقع اعلان کے صرف تین دن بعد ہی جوابی دھماکہ ہوا جس نے بھٹو کے بھی ہوش اڑا دیئے تھے۔ راتوں رات ، پاکستان کی 9 مختلف الخیال سیاسی اور مذہبی جماعتیں ، ایک بھٹو کے خلاف انتخابی اتحاد میں متحد ہو گئی تھیں۔ کسی کو کوئی شک نہیں تھا کہ پس منظر میں کون تھا۔ تاریخ میں اس اتحاد کو پاکستان قومی اتحاد یا نیشنل الائنس PNA کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عوامی زبان میں انھیں "بھان متی کا کنبہ" یا "چوں چوں کا مربہ" بھی کہا گیا تھا۔
لاہور میں رفیق باجوہ نامی سیاستدان کے گھر ہونے والے اس غیرقدرتی سیاسی اتحاد کا سربراہ جمیعت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا مفتی محمود کو بنایا گیا تھا جو مولانا فضل الرحمان کے والد تھے جبکہ نائب صدر نوابزادہ نصراللہ خان تھے جنھیں "بابائے جمہوریت" بھی کہا جاتا تھا۔ رفیق باجوہ جنرل سیکرٹری تھے لیکن کچھ دنوں بعد بھٹو سے مبینہ خفیہ ملاقات کے الزام میں برطرفی کے بعد ان کی جگہ جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد کو یہ عہدہ دیا گیا تھا۔
پاکستان قومی اتحاد کو ہل کا انتخابی نشان ملا تھا اور 1977ء کے انتخابات میں کل 216 میں سے 36 نشستیں حاصل ہوئی تھیں لیکن انھوں نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ملک بھر میں مبینہ دھاندلیوں اور بے ضابطگیوں کے خلاف بھرپور پرتشدد مظاہرے ہوئے جنھیں عوامی ہمدردی نہ ملنے کے بعد "نظام مصطفیٰﷺ" کی تحریک بنا دیا گیا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی تھی کہ لاہور میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں اور مقامی طور پر مارشل لاء لگانا پڑا۔ چند فوجی افسران کی قوم سے محبت جاگی اور انھوں نے پرتشدد مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کردیا تھا۔ اس "کارنامے" یا حکم عدولی کو بھٹو مخالف لابی بڑے فخر سے بیان کیا کرتی ہے۔ مخالفین کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ حکومت مستعفی ہو لیکن بھٹو صاحب کا کمال تھا کہ انھیں وزیراعظم تسلیم نہ کرنے والوں کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑا تھا۔
انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے الزامات کے بعد جب مذاکرات ہوئے تو پی این اے کی طرف سے مولانا مفتی محمود ، نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور احمد نے نمائندگی کی تھی۔ 5 جولائی 1977ء کو معاہدے پر دستخط ہونا تھے کہ اسی دن آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنرل ضیاع مردود نے مذاکرات کو سبوتاژ کیا اور بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ائرمارشل اصغرخان اور بیگم نسیم ولی خان نے مارشل لاء کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
پاکستان قومی اتحاد یا پی این اے کے بعض رہنماؤں نے بھٹو کے زوال کے بعد جنرل ضیاع مردود کی غاصب اور جابر حکومت میں شرکت بھی کی تھی۔ انھیں یہ لالی پاپ دیا گیا تھا کہ ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں گے لیکن جنھوں نے 1977ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کا یہ سنگین ڈرامہ رچایا تھا ، وہ نوے دن میں الیکشن کروانے تو نہیں آئے تھے۔ آمر مردود کا اپنے حامی سیاستدانوں کے بارے میں یہ جملہ بڑا مشہور ہوا تھا کہ "یہ دم ہلاتے ہوئے میرے پیچھے آئیں گے۔۔"
قدرت کا انتقام یا انصاف دیکھئے کہ بھٹو کے سبھی سیاسی مخالفین ، سیاسی طور پر ناکام و نامراد ہو کر تاریخ کی کتابوں میں گم ہو چکے ہیں لیکن بھٹو زندہ رہا اور ان شاء اللہ ، ہمیشہ رہے گا اور اپنے مخالفین کے سینے پر مونگ دلتا رہے گا۔
یاد رہے کہ اس وقت کی سیاسی صورتحال میں دیگر اہم سیاسی جماعتوں میں سے صرف مسلم لیگ کے تین دیگر دھڑے یعنی قیوم لیگ ، کونسل اور کنوینشن مسلم لیگ ہی اس اتحاد سے باہر تھے۔ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد جب مارشل لاء لگانے کا مقصد پورا ہوا تو بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والا یہ سیاسی اتحاد بھی اپنی موت آپ مر گیا تھا۔
یہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ اس مصنوعی سیاسی اتحاد کے خاتمے کا آغاز ہی ائرمارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان نے کیا تھا۔۔!
پاک میگزین ، پاکستانی تاریخ پر اردو میں ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر اہم تاریخی واقعات کو بتاریخ سالانہ ، ماہانہ ، ہفتہ وارانہ ، روزانہ اور حروفانہ ترتیب سے چند کلکس کے نیچے پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اہم ترین واقعات اور شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مخصوص صفحات ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تصویر و تحریر ، ویڈیو اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ ایک انفرادی کاوش اور فارغ اوقات کا بہترین مشغلہ ہے جو اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا ، ان شاء اللہ۔۔!
پاکستانی فلموں ، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر ایک منفرد اور معلوماتی سلسلہ