The developer of Pakistan's atomic bomb, nuclear scientist Dr. Abdul Qadeer Khan passed away in Islamabad on Sunday morning at the age of 85.
پاکستان کے عظیم محسن ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، 10 اکتوبر 2021ء کو انتقال کرگئے ۔ (اناللہ وانا الیہ راجعون)
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق جناب ذوالفقارعلی بھٹوؒ کا دیرینہ خواب شاید کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوتا اگر انھیں ڈاکٹر قدیرجیسا گوہرنایاب نہ ملتا۔۔!
حکومت میں آتے ہی بھٹو صاحب نے جنوری 1972ء میں سائنسدانوں کی ایک کانفرنس منعقد کی تھی اور انھیں یہ ٹاسک دیا تھا کہ جلد از جلد پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا جائے۔ 20 نومبر 1965ء کو بطور وزیرخارجہ یہ تاریخی بیان دے چکے تھے کہ "اگر بھارت نے ایٹم بم بنایا تو ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔۔!" اس دوران 18 مئی 1974ء کو بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کردیا تھا۔ اس کے جواب میں پاکستان کی ایٹمی قوت بننے کے لیے تیز سرگرمیاں پوری دنیا میں محسوس کی جارہی تھیں اور عالمی میڈیا میں اس مجوزہ بم کو "اسلامی بم" کا نام دیا گیا تھا۔
ڈاکٹرعبدالقدیر نے بھی اس موقع پر اپنا قومی فرض محسوس کیا اور 17 ستمبر 1974ء کو وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ کو ایک خط میں اپنی خدمات پیش کیں۔ اس خط میں ان کی رائے تھی کہ سینٹری فیوجز کو استعمال کر کے جوہری بم بنانے کا راستہ پلوٹونیم سے بہتر ہے کیونکہ اس میں جوہری ری ایکٹرز اور ری پراسیسنگ ہوتی ہے۔ بھٹو صاحب نے محسوس کرلیا تھا کہ ان کے اس عظیم منصوبے کی تکمیل کے لیے ڈاکٹر قدیر سے بہتر کوئی اورنہیں ہوسکتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کو پاکستان میں بڑی مشکلات کا سامنا ہوا۔ ٹانگیں کھینچنے اور روڑے اٹکانے والے کم نہیں تھے۔ وہ دل برداشتہ ہوکر واپس ہالینڈ جانے کے لیے پر تولنے لگے لیکن بھٹو صاحب کےخلوص اور اصرار پر اپنا کام جاری رکھنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ منیراحمدمنیر سے بھی ان کے اختلافات سامنے آئے۔ اس ادارے کے ذمہ ایٹمی توانائی یا ایٹمی بجلی گھروں کے قیام کا کام تھا جو پچاس کے عشرہ سے ہورہا تھا اور جسے بین الاقوامی اجازت بھی حاصل تھی لیکن ایٹم بم بنانے کی تیکنیک نہیں تھی اور نہ ہی اس کی اجازت تھی۔
ذوالفقارعلی بھٹوؒ نے ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے کام اور جذبے کو دیکھتے ہوئے کمال دانشمندی کامظاہرہ کرتے ہوئے 31 جولائی 1976ء کو راولپنڈی میں "ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری" قائم کی اور ڈاکٹر صاحب کو اس کا انچارج بنا کر فری ہینڈ دے دیا تھا۔ صرف دو سال کے عرصہ میں ڈاکٹرصاحب نے یورینیم کو افزودہ کرنے کا کامیاب تجربہ کرلیا تھا اور اسی دور میں کہوٹہ میں ایٹمی پلانٹ نصب کرنے میں کامیابی بھی ہوئی تھی۔
1984ء تک پاکستان کا ایٹم بم تیار ہوچکا تھا لیکن اگراس وقت دھماکہ کیا جاتا تو ڈالروں کی ریل پیل ختم ہوجاتی۔ نوے کی دھائی میں پاکستان نے تمام تر کولڈٹیسٹ مکمل کرلیے تھے۔ مئی 1998ء میں جب بھارت نے ایک بار پھر بدمعاشی کی تو پاکستان کے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ امریکہ ، روس ، برطانیہ ، فرانس ، چین اور بھارت کے بعد پاکستان ، ساتویں ایٹمی قوت کے طور پر سامنے آیا تھا۔
جنرل مشرف جیسے ذلیل ترین حکمران کے دور میں اس عظیم قومی ہیرو کی بے حد تذلیل کی گئی جب انھیں قربانی کا بکرا بنا کر 4 فروری 2004ء کو ٹی وی پر یہ اعتراف کروایا گیا تھا کہ لیبیا ، ایران اور شمالی کوریا کو ایٹمی رازوں کی سمگلنگ میں وہ تن تنہا ملوث تھے۔ تب سے وہ گھر میں نظربند تھے اور پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں بھی ان کی شنوائی نہیں ہورہی تھی۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق کو پھانسی دی گئی اور اس عظیم منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے کو برسوں ذہنی اذیت میں مبتلا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ، مرحوم کی مغفرت کرے اور پاکستانی قوم کو اس محسن کشی پر معاف کرے (آمین)۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، پٹھان قبیلے یوسف زئی سے تعلق رکھتے تھے جو تین سو سال قبل بھارتی شہر بھوپال میں جاکر آباد ہوگیا تھا۔ یکم اپریل 1936ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1952ء میں واپس پاکستان آئے جہاں کراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے۔ مزید تعلیم کے لیے جرمنی ، ہالینڈ اور بلجئیم گئے جہاں سے پی ایچ ڈی کی تھی۔ 1972ء میں 'فزیکل ڈائینامکس ریسرچ لیبارٹری' میں یورینکو (URENCO) کی ڈچ کمپنی میں ملازمت اختیار کی جس میں 'سینٹری فیوجز' کے ذریعے یورینیم کی افزودگی کی تیاری اور تحقیق پر کام ہوتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو نچلی سطح کی سکیورٹی کلیئرنس دی گئی تھی لیکن نگرانی کے کمزور عمل کی وجہ سے انھیں 'سینٹری فیوج ٹیکنالوجی' کی مکمل معلومات تک رسائی حاصل ہو گئی۔ ان کی ایک ذمہ داری جدید ترین سینٹری فیوجز سے متعلق جرمن دستاویزات کا ڈچ زبان میں ترجمہ کرنا بھی شامل تھا۔ ان تمام معلومات کے بلو پرنٹس انھوں نے پاکستان منتقل کیے تھے جس پر ان پر ہالینڈ میں ایٹمی رازوں کی چوری کا مقدمہ بھی بنایا گیا تھا جو بے بنیاد ثابت ہوا تھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر نے 1964ء میں ہالینڈ کی ایک خاتون سے شادی کی تھی اور ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ انھیں کرونا کا مرض لاحق ہوا تھا اور 10 اکتوبر 2021ء کو 85 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انھیں اسلام آباد میں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ اس سے قبل ان کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی لیکن اس میں پاکستان کے وزیراعظم ، آرمی چیف یا چیف جسٹس کو شرکت کی زحمت گوارا نہ تھی۔ مقتدرحلقوں میں سے صرف سندھ کے وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ نے شرکت کی تھی جنھیں ایک ہفتہ قبل ڈاکٹرقدیر نے اپنا آخری خط لکھا تھا اور جس میں شکوہ کیا تھا کہ لوگ ان کی موت کا انتظار کررہے ہیں اور کوئی تیمارداری کو نہیں آتا۔۔!
ایک قومی ہیرو کے ساتھ ایسا سلوک پاکستان جیسے ملک ہی میں ہوسکتا ہے۔۔!!!
Dr. Abdul Qadeer Khan passed away (video)
Credit: Dunya News
پاک میگزین ، پاکستانی تاریخ پر اردو میں ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر اہم تاریخی واقعات کو بتاریخ سالانہ ، ماہانہ ، ہفتہ وارانہ ، روزانہ اور حروفانہ ترتیب سے چند کلکس کے نیچے پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اہم ترین واقعات اور شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مخصوص صفحات ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تصویر و تحریر ، ویڈیو اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ ایک انفرادی کاوش اور فارغ اوقات کا بہترین مشغلہ ہے جو اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا ، ان شاء اللہ۔۔!
عید کی فلمیں …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… فنکاروں کی تقسیم …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… پاکستانی فلموں کے 75 سال …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد ……