پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
اتوار 10 اکتوبر 2021
ڈاکٹرعبدالقدیرخان
پاکستان کے قومی ہیرو
ڈاکٹر عبدلقدیر خان
سے یہ اعتراف کروایا گیا کہ وہ تن تنہا
ایٹمی رازوں کی سمگلنگ میں ملوث تھے!
پاکستان کے عظیم محسن، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، 10 اکتوبر 2021ء کو کرونا کی بیماری سے انتقال کرگئے۔ (اناللہ وانا الیہ راجعون)
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق، جناب ذوالفقارعلی بھٹوؒ کا دیرینہ خواب شاید کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوتا اگر انھیں ڈاکٹر قدیرجیسا گوہرنایاب نہ ملتا۔۔!
"اسلامک بم"
حکومت میں آتے ہی بھٹو صاحب نے 20 جنوری 1972ء کو ملتان میں سائنسدانوں کی ایک کانفرنس منعقد کی جس میں انھیں یہ ٹاسک دیا کہ جلد از جلد پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا جائے۔
اس سے قبل، 20 نومبر 1965ء کو بطور وزیرخارجہ اسمبلی میں یہ تاریخی بیان دے چکے تھے کہ "اگر بھارت نے ایٹم بم بنایا تو ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔۔!"
اس دوران، 18 مئی 1974ء کو بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کردیا جس کے جواب میں پاکستان کی ایٹمی قوت بننے کے لیے تیز سرگرمیاں پوری دنیا میں محسوس کی جارہی تھیں۔ عالمی میڈیا میں اس مجوزہ بم کو "اسلامک بم" کا نام دیا جارہا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کی خدمات
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی اس موقع پر اپنا قومی فرض محسوس کیا اور 17 ستمبر 1974ء کو وزیراعظم جناب ذوالفقارعلی بھٹوؒ کو ایک خط میں اپنی خدمات پیش کیں۔ اس خط میں ان کی رائے تھی کہ سینٹری فیوجز کو استعمال کر کے جوہری بم بنانے کا راستہ پلوٹونیم سے بہتر ہے کیونکہ اس میں جوہری ری ایکٹرز اور ری پراسیسنگ ہوتی ہے۔ بھٹو صاحب نے محسوس کرلیا تھا کہ ان کے اس عظیم منصوبے کی تکمیل کے لیے ڈاکٹر قدیر سے بہتر کوئی اورنہیں ہوسکتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کو پاکستان میں بڑی مشکلات کا سامنا ہوا۔ ٹانگیں کھینچنے اور روڑے اٹکانے والے کم نہیں تھے۔ نوبت یہاں تک جا پہنچی تھی کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ منیراحمدمنیر سے بھی ان کے اختلافات سامنے آئے۔ اس ادارے کے ذمہ ایٹمی توانائی یا ایٹمی بجلی گھروں کے قیام کا کام تھا جو پچاس کے عشرہ سے ہورہا تھا اور جسے بین الاقوامی اجازت بھی حاصل تھی لیکن ایٹم بم بنانے کی تیکنیک نہیں تھی اور نہ ہی اس کی اجازت تھی۔
پاکستان میں قومی مفادات پر ذاتی اور گروہی مفادات کو ترجیح دینے والوں کی ان مکروہ حرکتوں سے دل برداشتہ ہوکر ڈاکٹر صاحب، واپس ہالینڈ جانے کے لیے پر تولنے لگے لیکن بھٹو صاحب کےخلوص اور اصرار پر اپنا کام جاری رکھنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
ایک قومی ہیرو کی قدرومنزلت
ذوالفقارعلی بھٹوؒ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے کام اور جذبے کو دیکھتے ہوئے کمال جرأت اور دانشمندی کامظاہرہ کرتے ہوئے 31 جولائی 1976ء کو راولپنڈی میں "ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری" قائم کی اور ڈاکٹر صاحب کو اس کا انچارج بنا کر فری ہینڈ دے دیا تھا۔ صرف دو سال کے عرصہ میں ڈاکٹرصاحب نے یورینیم کو افزودہ کرنے کا کامیاب تجربہ کرلیا تھا اور اسی دور میں کہوٹہ میں ایٹمی پلانٹ نصب کرنے میں کامیابی بھی ہوئی تھی۔
1984ء تک پاکستان کا ایٹم بم تیار ہوچکا تھا لیکن اگراس وقت دھماکہ کیا جاتا تو نام نہاد افغان جہاد کی برکتوں سے نازل ہونے والی ڈالروں کی من و سلویٰ ختم ہوجاتی۔ نوے کی دھائی میں پاکستان نے تمام تر کولڈٹیسٹ مکمل کرلیے تھے۔ مئی 1998ء میں جب بھارت نے ایک بار پھر بدمعاشی کی تو پاکستان کے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ امریکہ ، روس ، برطانیہ ، فرانس ، چین اور بھارت کے بعد پاکستان ، ساتویں ایٹمی قوت کے طور پر سامنے آیا تھا۔
ایک قومی ہیرو کی تذلیل
جنرل مشرف جیسے ذلیل ترین حکمران کے دور میں اس عظیم قومی ہیرو کی بے حد تذلیل کی گئی جب انھیں قربانی کا بکرا بنا کر 4 فروری 2004ء کو ٹی وی پر یہ اعتراف کروایا گیا تھا کہ لیبیا ، ایران اور شمالی کوریا کو ایٹمی رازوں کی سمگلنگ میں وہ تن تنہا ملوث تھے۔ تب سے وہ گھر میں نظربند تھے اور پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں بھی ان کی شنوائی نہیں ہورہی تھی۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق کو پھانسی دی گئی اور اس عظیم منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے کو برسوں ذہنی اذیت میں مبتلا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ، مرحوم کی مغفرت کرے اور پاکستانی قوم کو اس محسن کشی پر معاف کرے (آمین)۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کا پس منظر
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، پٹھان قبیلے یوسف زئی سے تعلق رکھتے تھے جو تین سو سال قبل بھارتی شہر بھوپال میں جاکر آباد ہوگیا تھا۔
یکم اپریل 1936ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1952ء میں واپس پاکستان آئے جہاں کراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے۔ مزید تعلیم کے لیے جرمنی ، ہالینڈ اور بلجئیم گئے جہاں سے پی ایچ ڈی کی تھی۔
1972ء میں 'فزیکل ڈائینامکس ریسرچ لیبارٹری' میں یورینکو (URENCO) کی ڈچ کمپنی میں ملازمت اختیار کی جس میں 'سینٹری فیوجز' کے ذریعے یورینیم کی افزودگی کی تیاری اور تحقیق پر کام ہوتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو نچلی سطح کی سکیورٹی کلیئرنس دی گئی لیکن نگرانی کے کمزور عمل کی وجہ سے انھیں 'سینٹری فیوج ٹیکنالوجی' کی مکمل معلومات تک رسائی حاصل ہو گئی۔ ان کی ایک ذمہ داری جدید ترین سینٹری فیوجز سے متعلق جرمن دستاویزات کا ڈچ زبان میں ترجمہ کرنا بھی شامل تھا۔ ان تمام معلومات کے بلو پرنٹس انھوں نے پاکستان منتقل کیے جس پر ان پر ہالینڈ میں ایٹمی رازوں کی چوری کا مقدمہ بھی بنایا گیا جو بے بنیاد ثابت ہوا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کا انتقال کرونا سے ہوا
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 1964ء میں ہالینڈ کی ایک خاتون سے شادی کی۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ انھیں کرونا کا مرض لاحق ہوا اور 10 اکتوبر 2021ء کو 85 سال کی عمر میں نظربندی کی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی لیکن فیصل مسجد اسلام آباد میں ان کی نماز جنازہ میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان ، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ یا چیف جسٹس گلزار احمد کو شرکت کی زحمت گوارا نہ تھی۔ مقتدرحلقوں میں سے صرف سندھ کے وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ نے شرکت کی جنھیں ایک ہفتہ قبل ڈاکٹرقدیر نے اپنا آخری خط لکھا اور شکوہ کیا کہ لوگ ان کی موت کا انتظار کررہے ہیں اور کوئی تیمارداری تک کو نہیں آتا۔۔!
ایک قومی ہیرو کے ساتھ ایسا سلوک پاکستان جیسے ملک ہی میں ہوسکتا ہے۔۔!!!
Dr. Qadeer letter to Murad Ali Shah
(The last handwritten letter by Dr. Abdul Qadeer Khan to the Sindh Chief Minister Murad Ali Shah on October 4, 2021..)
Dr. Abdul Qadeer Khan passed away
Sunday, 10 October 2021
The developer of Pakistan's atomic bomb, nuclear scientist Dr. Abdul Qadeer Khan passed away in Islamabad on Sunday morning at the age of 85.
Dr. Abdul Qadeer Khan passed away (video)
Credit: Dunya News
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
16-09-1978: ضیاء الحق
08-03-1954: مسلم لیگ کا مشرقی پاکستان سے صفایا
13-04-1949: پاکستان کا پاسپورٹ