پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
صدرِ پاکستان
آئینِ پاکستان کے تحت ، پاکستان کا سربراہِ مملکت ، صدر ہوتا ہے جس کے پاس مختلف ادوار میں مختلف النوع اختیارات رہے ہیں۔ "صدارتی نظام" میں وہ سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے لیکن "پارلیمانی نظام" میں وفاقی کی علامت کے طور پر ایک آئینی عہدہ ہے جس کی رسمی منظوری سے قوانین منظور ہوتے ہیں۔
دنیا کی چار بڑی طاقتوں یعنی امریکہ ، روس ، چین اور فرانس میں "صدارتی نظام" چل رہا ہے جہاں صدر انتہائی بااختیار ہوتا ہے۔ البتہ امریکہ اور فرانس جیسے "جمہوری ممالک" میں صدر ، عوامی نمائندوں (پارلیمنٹ/کانگریس/سینٹ) کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے لیکن روس اور چین جیسے "غیر جمہوری ممالک" میں آمرانہ اختیارات کا مالک ہے۔
ان کے برعکس "دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت" بھارت اور جدید تہذیب کی آماجگاہ برطانیہ میں "پارلیمانی نظام" رائج ہے جہاں وزیرِاعظم طاقتور ہوتا ہے لیکن پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہے۔ یہاں صدر یا بادشاہ/ملکہ بے اختیار ہوتے ہیں۔
پاکستان میں یہ دونوں نظام رہے ہیں اور کامیاب کوئی ایک بھی نہیں ہوا۔۔!
صدارتی نظام
23 مارچ 1956ء کو پاکستان کا پہلا صدارتی آئین نافذ ہوا جس کے تحت پاکستان ، ایک جمہوریہ بنا اور سلطنت برطانیہ کی عملداری سے آزاد ہوا۔ 1935ء کے انڈیا ایکٹ کے تحت ملنے والے گورنر جنرل کے اختیارات ، صدر کو منتقل ہو گئے تھے۔
اس صدارتی آئین میں وزیرِ اعظم کے عہدے کی گنجائش بھی رکھی گئی جو صدر کے رحم و کرم پر تھا۔ سکندرمرزا ، پہلے صدر بنے اور متعدد وزیرِ اعظم برطرف کرنے کا شوق بھی پورا کیا تھا جو بطور گورنر جنرل بھی کر چکے تھے۔ موصوف نے اسی آئین کو معطل کر کے مارشل لاء لگایا لیکن اس کا پہلا شکار بھی خود ہی ہوئے اور جلاوطنی کی زندگی گزارنا پڑی۔
1962ء کے علاوہ اور 1972ء کا عبوری آئین بھی صدارتی تھا جس میں اختیارات کا منبع صدر کی ذات تھی اور وزیرِ اعظم کی گنجائش نہیں تھی۔ البتہ 1972ء کے آئین میں "نائب صدر" کی گنجائش رکھی گئی جس پر ایک بنگالی کو تعینات کیا گیا تا کہ مشرقی پاکستان کا زخم مندمل کیا جا سکے۔
اسلام آباد میں ایوانِ صدر کی عمارت جس کا سنگ بنیاد 15 ستمبر 1967ء کو رکھا گیا۔
پالیمانی نظام
1973ء کے پارلیمانی آئین میں پہلی بار صدر کے اختیارات عوامی نمائندوں یعنی وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو منتقل کیے گئے۔ اس واحد متفقہ آئین میں صدر کی حیثیت علامتی ہے جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ سینٹ کے وؤٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔
گو 1973ء کا متفقہ آئین ابھی تک برقرار ہے لیکن اس میں بھی طالع آزما آمروں نے حسبِ ضرورت 8ویں اور 17ویں ترمیم کی صورت میں ہیرپھیر کیا اور اختیارات صدر کو منتقل کیے جو اپنی صوابدید پر کسی بھی منتخب حکومت اور اسمبلی کو برخاست کر سکتا تھا۔ 18ویں ترمیم کی صورت میں صدر کا یہ ناجائز اور غیرجمہوری اختیار ختم کیا گیا اور آئینِ پاکستان کو 1973ء کی اصل روح کے مطابق بحال کیا گیا تھا۔
پالیمانی نظام میں صدر کے اختیارات
- صدر ، پاکستان کا آئینی سربراہ ہوتا ہے جس کو عوامی نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ پارلیمان کے ہر آئینی سال کا آغاز بھی صدر کی تقریر سے ہوتا ہے۔
- صدرِ پاکستان ، افواجِ پاکستان کا علامتی سپہ سالارِ اعلیٰ ہوتا ہے جو مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری وزیرِاعظم کے مشورے کے مطابق کرنے کا پابند ہے لیکن افواج سے متعلق براہِ راست کوئی احکامات جاری نہیں کر سکتا۔ صدر ہی وفاقی جامعات کا چانسلر ہوتا ہے۔
- صدر ، حکومت یا پارلیمنٹ کو وزیرِ اعظم کے مشورہ ہی سے برخاست کر سکتا ہے۔
- قومی اسمبلی کی مدت پورے ہونے یا کسی وجہ سے تحلیل ہونے کی صورت میں صدر ہی کی نگرانی میں انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔
- پارلیمنٹ کے قوانین ، صدر کی رسمی منظوری سے پاس ہوتے ہیں۔
- صدر ، اپنی صوابدید پر کسی بھی قانون کو نظرثانی کے لیے واپس پارلیمان کو بھیج سکتا ہے لیکن اگر صدر رضامند نہ بھی ہو تو ایک مخصوص مدت کے بعد قوانین نافذالعمل ہو جاتے ہیں۔۔
- صدر کے پاس سزا یافتہ مجرمان کو معاف کرنے یا اُن کی سزاؤں میں کمی اور منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔
- بیرونی سربراہانِ مملکت کی میزبانی اور غیرملکی سفیروں کے تقرر اسناد وغیرہ بھی صدر کے فرائض میں شامل ہے۔
صدر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟
- صدرِ پاکستان کا انتخاب ، منتخب عوامی نمائندے یعنی ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران خفیہ رائے شماری کے ذریعے کرتے ہیں۔
- پولنگ کے دن تمام منتخب ایوانوں یعنی قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ آف پاکستان کو پولنگ سٹیشن کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر ، صدر پاکستان کے انتخاب میں ریٹرنگ آفیسر کے فرائض سرانجام دیتے ہیں اور پولنگ کے تمام تر عمل کی خود نگرانی کرتے ہیں۔
- صدارتی الیکشن جیتنے کے لیے سادہ اکثریت یا 349 اراکین کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
- آئین کے مطابق، صدارتی انتخاب میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ گنا جاتا ہے لیکن تمام صوبائی اسمبلیوں کو یکساں نمائندگی دینے کے لیے ملک کی تین بڑی صوبائی اسمبلیوں کو ملک کی سب سے چھوٹی یعنی بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد کے برابر 65 ووٹ حاصل ہوتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ گنا جاتا ہے جبکہ باقی تینوں اسمبلیوں میں سے ہر ایک اسمبلی کی تعداد کو بلوچستان اسمبلی کی تعداد پر تقسیم کیا جاتا ہے اور جو عدد آتا ہے، اس اسمبلی کے اتنے اراکین کا مل کر ایک ووٹ بنتا ہے۔ مثلاً پنجاب اسمبلی کی 371 نشستوں کو بلوچستان اسمبلی کی 65 نشستوں سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کا جواب 5.7 ہے یعنی پنجاب اسمبلی کے 5.7 ارکان مل کر صدارتی الیکشن کا ایک ووٹ بنتے ہیں۔
پاکستان کے سربراہانِ مملکت
پاکستان میں اب تک چار قسم کے سربراہان مملکت برسراقتدار رہے ہیں :
- گورنر جنرل
- صدر مملکت
- آرمی چیف یا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر
- وزیراعظم
پاکستان کے ابتدائی نو برسوں میں سربراہ حکومت ، گورنر جنرل ہوتے تھے۔ یہ عہدہ برطانوی پارلیمنٹ نے تخلیق کیا تھا جو تاجدار برطانیہ کے ماتحت لیکن کلی اختیارات کا مالک ہوتا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت 1947ء میں قائد اعظمؒ سے لے کر 1956ء تک سکندرمرزا تک چار گورنرجنرلز رہے ہیں۔ اس دوران صرف چار سال ایسے تھے جب نوابزادہ لیاقت علی خان ، ایک مکمل بااختیار وزیراعظم تھے۔
پاکستان کے گورنر جنرل
- 15-08-1947: قائداعظمؒ
- 11-09-1948: خواجہ ناظم الدین
- 17-10-1951: ملک غلام محمد
- 07-08-1955: میجر جنرل سکندر مرزا
پاکستان کے صدر
- 23-03-1956: میجر جنرل سکندر مرزا
- 27-10-1958: جنرل ایوب خان
- 25-03-1969: جنرل یحییٰ خان
- 20-12-1971: صدر ذوالفقار علی بھٹوؒ
- 14-08-1973: فضل الہٰی چوہدری
- 16-09-1978: جنرل ضیاع الحق
- 17-08-1988: غلام اسحاق خان
- 14-11-1993: فاروق احمد خان لغاری
- 01-01-1998: محمد رفیق تارڑ
- 20-06-2001: جنرل پرویز مشرف
- 09-09-2008: آصف علی زرداری
- 09-09-2013: سید ممنون حسین
- 18-09-2018: عارف علوی
- 10-03-2024: آصف علی زرداری
President's of Pakistan
A brief Urdu article on Pakistani President's and Governor General's since 1947. This article was published on September 9, 2013.
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
16-01-1979: بھٹو اور کرپشن
31-12-2003: جسٹس ناظم حسین صدیقی
06-10-1993: 1993ء کے عام انتخابات