پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
منگل 9 ستمبر 2008
آصف علی زرداری
آصف علی زرداری
ایک حادثاتی صدر تھے!
پاکستان کے 11ویں صدر مملکت …… آصف علی زرداری …… حادثاتی طورپر اس عہدے تک پہنچے تھے۔۔!
پاکستان کی تاریخ کے پہلے صدر تھے جو مروجہ شاندار جمہوری اصولوں اور روایات کے عین مطابق اپنا عرصہ اقتدار پورا کر کے اپنے سیاسی حریف وزیر اعظم کے ظہرانے اور گارڈ آف آنر لینے کے بعد قصر صدارت سے باعزت اور باوقار انداز میں رخصت ہوئے تھے۔۔!
زرداری ، سب پر بھاری
آصف علی زرداری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ، پاکستان کے عظیم ترین رہنما جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ کے داماد ، عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے مجازی خدا ، پاکستان کے پہلے "مرداول" ، ایک بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ، پاکستان کے سب سے اعلیٰ عہدےدار یعنی صدرِ پاکستان ، مخالفین کے لیے "Mr. 10%" اور کیپٹن صفدر کے دیے گئے تازہ ترین خطاب کے مطابق "دامادوں کی یونین کے تاحیات چیئرمین" ہیں۔ انھیں "مفاہمت کا بادشاہ" اور "ایک زرداری ، سب پر بھاری" بھی کہا جاتا ہے۔۔!
بطور صدر اہم کارنامے
27 دسمبر 2007ء کو بےنظیربھٹو کے قتل کے بعد آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھالی اور "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگاتے ہوئے 18 فروری 2008ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ انھیں ، حکومت ایک ایسے وقت میں ملی تھی کہ جب دہشت گردی اپنے عروج پر تھی اور سیکورٹی ادارے ، قوم کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں بری طرح سے ناکام ہورہے تھے۔ انھوں نے سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنایا اور خود صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ ان کے عہد کے چند نمایاں کارنامے مندرجہ ذیل ہیں:
- 2008ء میں ایک بدترین عالمی اقتصادی بحران آیا جس میں تیل کی قیمتیں ریکارڈ 166 ڈالر تک جا پہنچی تھیں۔ زرداری کے پانچوں برسوں میں تیل کی قیمتیں سو ڈالر سے زائد رہیں لیکن پاکستانی عوام اور ملکی معیشت کی وہ درگت نہیں بنی جو گزشتہ چند برسوں میں بن رہی ہے۔
- 18ویں آئینی ترمیم سے آئین کو آمروں کی غلاظت سے پاک کیا اور صدر کے اسمبلی توڑنے کے ناجائز اختیار کو ختم کیا۔
- مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا اور بدترین مخالفین کے ساتھ مل کر حکومت چلانے کی حکمت عملی پہنائی۔
- مسلسل دوروں کے بعد 13 مئی 2013ء کو چین کے ساتھ CPAC معاہدے پر دستخط ہوئے۔
- ایران کے ساتھ بھی تیل کی ترسیل اور ایک پائپ لائن کی تکمیل کا معاہدہ کیا جو امریکہ کی ناراضی کی وجہ سے نامکمل رہا۔
آصف علی زرداری ہی کے دور میں 2 مئی 2011ء کو امریکہ نے ایبٹ آباد میں فضائی حملہ کر کے دور حاضر کے سب سے بڑے دہشت گرد اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا تھا۔ اس شرمناک واقعہ پر پاکستان کی دنیا بھر میں خوب بدنامی اور جگ ہنسائی ہوئی تھی۔ اسی سلسلے میں "میمو گیٹ" بھی بڑا مشہور ہوا۔
زرداری کے دور میں دو وزرائے اعظم بدلے اور صوبہ پنجاب میں گورنر راج بھی نافذ ہوا۔ اپنے دور اقتدار میں تمام سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا کمال ہنر مندی سے مقابلہ کیا اور مفاہمت کی سیاست کی داغ بیل ڈالی۔آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا۔ میڈیا اور عدلیہ کے جارحانہ رویے کے باوجود صبر و استقامت سے حالات کا سامنا کیا اور سیاسی طور پر کامیاب رہے اوراپنے مخالفین کو قدم قدم پر ناک آؤٹ کرتے رہے……!
مسٹر %10
"مرد آہن" کہلانے والے آصف علی زرداری کو پاکستان میں کرپشن کی علامت بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے اور "مسٹر ٹین پرسنٹ" مشہور کیا گیا ہے حالانکہ بدعنوانیوں کا کوئی ایک بھی کیس ثابت نہیں کیا سکا۔ ان بدنام زمانہ سیاسی مقدمات میں تقریباً گیارہ برس تک جیل میں رہے۔ 10 اکتوبر 1990ء کو پہلی بار گرفتار ہوئے اور 2سال 3 ماہ اور 6 دن کی قید کے بعد 6 فروری 1993ء کو رہا ہوئے۔ 4 نومبر 1996ء کو دوسری بار گرفتار ہوئے اور 8 سال اور 18 دن تک جیل میں رہ کر 22 نومبر 2004ء کو رہا ہوئے۔
1990 کی دھائی میں نواز شریف کے دور حکومت میں سیف الرحمان کیس بڑے مشہور ہوئے جن میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو بڑا تنگ کیا گیا تھا۔ پاکستان کے ایک ممتاز صحافی حامدمیر کے مطابق سیف الرحمان کو آصف علی زرداری سے معافی مانگتے ہوئے انھوں نے خود دیکھا تھا۔ زرداری صاحب پر کچھ مشہورزمانہ الزامات اس طرح سے تھے:
- آصف زرداری کو 27 نومبر 1996ء کو میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔
- سٹیل مل کے سابق چیئرمین سجاد حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس نظام احمد کے قتل اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزامات
- سوئس کمپنی ایس جی ایس کوٹیکنا، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد
- ہیلی کاپٹروں کی خریداری ، پولش ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن
- برطانیہ میں سرے محل ، راک وڈ سٹیٹ خریدنے ، سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور سپین میں آئیل فار فوڈ سکینڈلز
- حیدرآباد، نواب شاہ اور کراچی میں کئی ہزار ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی خریدی
- چھ شوگر ملوں میں حصص
- برطانیہ میں 9 ، امریکا میں 9 ، بلجئیم اور فرانس میں دو دو اور دوبئی میں کئی پروجیکٹس میں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی
- اپنی پراسرار دولت کو چھپانے کے لیے سمندر پار کوئی 24 فرنٹ کمپنیاں تشکیل دیں
- نیب کے مطابق آصف علی زرداری نے بینظیربھٹو کی حکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز اثاثے بنائے
آصف زرداری کی ذاتی زندگی
آصف علی زرداری ، 26 جولائی 1955ء کو کراچی میں ایک جاگیردار اور صنعتکار ، حاکم علی زرداری کے ہاں پیدا ہوئے۔ اس طرح وہ ، پاکستان کے پہلے صدر تھے جو قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ 29 جولائی 1987ء سے قبل ایک گمنام شخص تھے لیکن اس دن پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بےنظیربھٹو سے منگنی نے انھیں ملک گیر شہرت دی۔ 18 دسمبر 1987ء کو دونوں کی شادی اتنی دھوم دھام سے ہوئی کہ کراچی میں دو لاکھ سے زائد باراتی تھے جو ہر خاص و عام میں سے تھے۔ ان کا بیٹا بلاول زردار بھٹو ، ان کا جانشین ہے۔
آصف علی زرداری پہلی بار 1990ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ 18 اپریل 1993ء کو نگران وزیراعظم بلخ شیرمزاری کی کابینہ میں پہلی بار وزیر بنے۔ 12 مارچ 1997ء کو سینٹ کے ممبر بنے تھے۔
آصف زرداری بطور اداکار
آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری ، کراچی کے دو سینماؤں بمبینو اور سکالا کے مالک بھی تھے۔ اسی تناظر میں آصف علی زرداری نے چائلڈ سٹار کے طور پر کراچی میں بننے والی ایک فلم منزل دور نہیں (1968) میں چائلڈ سٹار کے طور پر کام کیا تھا۔ اتفاق سے اسی سال ان کے والد حاکم علی زرداری نے فلمساز کے طور پر اکلوتی فلم دھوپ اور سائے (1968) بنائی تھی جس کے ہدایتکار معروف دانشور اشفاق احمد تھے۔ یہ دونوں سپرفلاپ فلمیں تھیں۔
Asif Ali Zardari
Tuesday, 9 September 2008
Asif Ali Zardar was President of Pakistan from September 9, 2008 till September 8, 2013..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
28-02-1969: ڈھاکہ ریلوے سٹیشن
20-12-1971: آرمی چیف جنرل گل حسن
16-12-1971: شیخ مجیب الرحمان