پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
منگل 14 نومبر 1995
خلافت سازش کیس
"خلافت سازش کیس" ، وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک سازش تھی۔۔!
14 نومبر 1995ء کو وزیر دفاع آفتاب شعبان میرانی نے سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے ایک فوجی بغاوت کا انکشاف کیا جس کے مطابق 30 ستمبر 1995ء کو جی ایچ کیو راوالپنڈی میں منعقد ہونے والے کور کمانڈروں کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ سمیت تمام کور کمانڈروں پر حملہ کرکے فوج کی قیادت پر قبضہ کرنا اور اس کے بعد صدرِمملکت فاروق احمد خان لغاری اور وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو گرفتار کر کے حکومت کا تختہ الٹا کر میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو آرمی چیف کے علاوہ "امیرالمومنین" بنا کر ملک میں "خلافت" اور نفاذِ شریعت کا اعلان کرنا تھا۔ "امیر المومنین" کے قوم سے خطاب کے لئے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے تقریر بھی تیار کر لی گئی تھی۔
خلافت سازش کیس کے سرغنہ
تفصیلات کے مطابق "خلافت سازش کیس" نامی اس بغاوت کے مرکزی کردار فوج کے ایک میجر جنرل ظہیر الاسلام عباس تھے جن کی قیادت میں بریگیڈئر مستنصر باللہ ، کرنل محمد آزاد منہاس اور کرنل عنایت اللہ خان کے علاوہ متعدد دیگر فوجی افسران اور سویلین ملوث تھے۔ یہ سبھی افراد ، ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والے تبلیغی جماعت کے رکن ، مفتی صوفی اقبال کے مرید تھے جو پاکستان میں "سنی اسلامی نظام" کے داعی تھے۔
سازش کیسے بے نقاب ہوئی؟
26 ستمبر 1995 کو اسلحہ سمگلنگ کی ایک خفیہ اطلاع پر فاٹا سے آنے والے بریگیڈئرمستنصر باللہ کی گاڑی کو کوہاٹ کی ایک پولیس چیک پوسٹ پر روکا گیا۔ تلاشی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں کلاشنکوف اور راکٹ لانچر برآمد ہوئے۔ مشتبہ افراد میں بریگیڈئیر مستنصر باللہ کے علاوہ حاضر سروس کرنل لیاقت علی راجہ بھی تھے جبکہ کسٹمز پولیس اور انٹیلی جنس کی طرف سے گرفتار کیے جانے والاحرکت الجہاد الاسلامی کا سربراہ اور مشہور جہادی کمانڈر قاری سیف اللہ اختر بھی تھا جو وعدہ معاف گواہ بنا اور رہائی کے بعد افغانستان فرار ہوا۔
جس وقت یہ مقدمہ درج کیا گیا اس وقت میجر جنرل ظہیر الااسلام عباسی جنرل ہیڈ کوراٹر میں ڈائریکٹر جنرل انفنٹری جبکہ برگیڈئیر مستنصر بلا اس وقت جنوبی پنجاب میں تعینات تھے اور کرنل آزاد منہاس منگلا کور میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
سازشی عناصر کی سزائیں
"خلافت سازش کیس" کا نام پانے والی اس بغاوت کا کیس فوجی عدالت میں چلا جس کے سربراہ میجر جنرل زاہد حسین تھے۔ 30 اکتوبر 1996ء کو فیصلہ ہوا جس کے مطابق دیگر ملزمان کو ملازمتوں سے فارغ کرنے جیسی چھوٹی سزائیں ملیں لیکن سازش کے سرغنہ میجر جنرل ظہیر السلام عباسی کو سات سال قید اور بریگیڈئیر مستنصر بلا کو 16 سال قید کے ساتھ فوج سے برطرفی، پینشن اور دیگر تمام مراعات ضبط کرنے کی سزائیں ملیں۔
ان کے دو ساتھیوں کرنل آزاد منہاس اور کرنل عنایت اللہ خان پر فوجی ڈسپلن کی خلاف ورزی اور سازش کا پتہ ہونے کے باوجودافسران بالا کو اطلاع نہ دینے کا الزام ثابت ہونے پر ایک کو چار سال اور دوسرے کو دو سال قید، برطرفی، پینشن اور باقی فوجی مراعات ضبط کرنے کی سزائیں ملیں۔ پاکستان سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر کے فروری 2022 کے ایک فیصلے کے مطابق ان سزاؤں کے خلاف ان دونوں کی اپیلیں مسترد کر دی گئی تھیں۔
خلافت سازش کیس کے چند اہم کردار
- "خلافت سازش کیس" کے سرغنہ میجر جنرل ظہیر السلام عباسی کو 2022ء میں جنرل پرویز مشرف نے رہا کر دیا تھا اور 2009ء میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
- بریگیڈیئر مستنصر باللہ نے رہائی کے بعد 2008 میں "آپریشن خلافت" اور "جمہوریت کفر، خلافت فرض ہے" کے عنوان سے کتابیں بھی لکھیں جو اب مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس سازش کی خبر امریکہ نے آرمی چیف وحید کاکڑ کو دی تھی۔
- قاری سیف اللہ اختر رہائی کے بعد پاکستان، افغانستان اور دبئی وغیرہ میں رہے جہاں گرفتار بھی ہوئے۔2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد انھیں گرفتار کر کے پوچھ گچھ کی گئی بعد ازاں دوبارہ افغانستان چلے گئے جہاں ان کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کی خبریں آئیں۔
- "خلافت سازش کیس" کا ایک سویلین کردار مفتی سعید بھی تھے جن کا اسلام آباد کے نواح میں مری کے راستے میں اپنا ایک مدرسہ ہے۔ یہ وہی مفتی سعید ہیں جنھوں نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا پہلے ریحام خان سے اور پھر ان کی طلاق کے بعد بشریٰ بی بی سے "ڈبل نکاح" پڑھوایا تھا جس میں سے ایک نکاح ، عدت کے دوران پڑھوایا تھا۔
The Khalafat Case
Tuesday, 14 November 1995
The Khalafat Case plotters aimed to overthrow the constitutional government and establish a Military Rule in Pakistan..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
22-03-1861: پاکستان پولیس
10-03-1951: 1951/54ء کے صوبائی انتخابات
06-02-1979: سپریم کورٹ نے بھٹو کی اپیل مسترد کر دی