پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
ہفتہ 12 مارچ 1949
قرار داد مقاصد
وزیر اعظم لیاقت علی خان قرارداد مقاصد پیش کرتے ہوئے
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان ، اپنے چار سالہ دور حکومت میں ملک کو کوئی آئین یا دستور تو نہ دے سکے لیکن ایک متنازعہ "قرارداد مقاصد" ضرور دی تھی جو دستور ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949ء کو منظور کی اور جس کا مسودہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے تیار کیا تھا۔۔!
قرارداد مقاصد کے اہم نکات
- حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ حکومت پاکستان ، اس مقدس امانت کو عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی اور اسلام کے سنہری جمہوری اصولوں پر عمل کرے گی۔
- پاکستان کا نظام حکومت وفاقی اور طرز حکمرانی شورائی ہو گا۔ صوبوں کو خود مختاری حاصل ہو گی۔
- عدلیہ آزاد اور انتظامیہ سے الگ ہو گی اور نظام عدل مکمل طور پر محفوظ ہو گا۔
- اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے جائز حقوق ، مذہبی اور ثقافتی آزادی کا پورا تحفظ کیا جائے گا۔
- بنیادی حقوق اور اظہار خیال کی آزادی ہو گی۔ وفاقی علاقوں کی حاکمیت ، آزادی کے علاوہ بری ، بحری اور فضائی حدود کا تحفظ کیا جا ئے گا۔ اہل پاکستان کی فلاح وبہبود اور ترقی و خوشحالی کے مواقع فراہم کئے جائیں گے تاکہ وہ اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز مقام حاصل کرسکیں اور امن عالم کے قیام اور بنی نوع انسان کی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔
قرارداد مقاصد کی مخالفت
اس وقت متحدہ پاکستان کی پندرہ فیصد آبادی غیر مسلم تھی جس نے اس قرارداد کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی کیونکہ پاکستان کے شہریوں کو مسلمانوں اور اقلیتوں میں تقسیم کر کے مذہبی تعصب کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔
ناقدین کے خیال میں یہ کام ریاست کا نہیں کہ وہ شہریوں کے دین و ایمان پر پہرہ دے ، عقیدہ ہر شخص کا ذاتی فعل ہے۔ یہ قرارداد بانی پاکستان حضرت قائد اعظمؒ کی 11 اگست 1947ء کے تاریخی تقریر کے بھی برعکس تھی جس میں یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ کاروبار مملکت کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قائد کی زندگی میں ایسی قرارداد پیش نہیں کی جا سکی تھی۔
اسی متنازعہ قرارداد کی وجہ سے قائد اعظمؒ کے نامزد کردہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل اتنے بددل ہوئے تھے کہ ملک ہی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
قرارداد مقاصد اور آئین
قرارداد مقاصد ، آئین کا ابتدائی خاکہ تو ہو سکتی تھی نعم البدل نہیں۔ یہ محض زبانی جمع خرچ تھا جو نااہلی ، بدنیتی اور دستور سازی میں غفلت کی ایک بدترین مثال تھی۔ اگر اس وقت آئین بن جاتا تو شاید آج ہماری تاریخ مختلف ہوتی لیکن دستور سازی میں مشکلات کی بڑی وجہ اسمبلی میں بنگالی اراکین کی اکثریت تھی جن کی موجودگی میں جمہوری طریقے سے پاکستان کی اشرافیہ اپنی مرضی کا دستور مسلط نہیں کر سکتی تھی ، اسی لئے یہ مذہبی کارڈ کھیل کر بنگالیوں کو بے بس کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
قیام پاکستان سے قبل 1945/46ء کے انتخابات کے نتیجے میں وجود آنے والی اس نیم منتخب اور انتہائی نااہل اسمبلی کو سات سال بعد 1955ء میں گورنر جنرل ملک غلام محمد نے ایک آمرانہ حکم سے توڑ دیا تھا۔ ون یونٹ کی بنیاد پر ایک نئی "جی حضور" قسم کی اسمبلی وجود میں آئی تھی جس نے مقتدر حلقوں کی خواہش پر 1956ء کا متنازعہ آئین منظور کرلیا تھا۔ اس آئین میں پہلی بار پاکستان کو "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کا نام دیا گیا تھا لیکن مشرقی پاکستان کے نمائندوں نے اس آئین کا بائیکاٹ کیا تھا۔
جنرل ضیاع مردود نے بھی قرارداد مقاصد کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا لیکن اس کی ایک بھی شق پر عمل نہیں کیا تھا بلکہ مذہبی انتہاپسندی کو ہوا دے کر پاکستان کو دنیا بھر میں تماشا بنا دیا تھا۔
The Objectives Resolution
Saturday, 12 March 1949
The Objectives Resolution was adopted by the Constituent Assembly of Pakistan on March 12, 1949. It was drafted by Alama Shabbir Ahmad Usmani..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
25-04-1991: شوکت خانم ہسپتال
01-01-1998: محمد رفیق تارڑ
26-11-1970: صدر یحییٰ اور مشرقی پاکستان کا طوفان