A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
پاکستان کی فلمی تاریخ کے بہت سے فنکار ایسے ہیں کہ جن کی شخصیت اور کارکردگی پر وقت کی گرد پڑ چکی ہے۔۔!
پاکستان فلم ڈیٹابیس کی تشکیل کے بعد ماضی کے بیشتر فنکاروں کے فلمی ریکارڈز تو دستیاب ہیں لیکن ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں کسی قسم کی کوئی معلومات نہیں ملتیں۔ ایسے ہی فنکاروں میں سے ایک ہدایتکار ایم سلیم بھی تھے جنھوں نے صرف نو فلمیں بنائیں لیکن وہ دیگر فلموں سے ہٹ کر اپنی ایک الگ پہچان رکھتی تھیں۔
ہدایتکار ایم سلیم کی پہلی فلم گوانڈی (1966) تھی جس میں فلم بینوں کو ”نظریہ پاکستان“ سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی۔
ایک ہی گاؤں کے رہائشی ، اے شاہ ، ایک ہندو اور طالش ، ایک مسلمان ہیں ، دونوں گوانڈی یعنی پڑوسی ہیں لیکن مذہبی عقائد کی وجہ سے دو الگ تھلگ دنیاؤں کے باسی ہیں۔ ان کے رہن سہن ، رسم و رواج اور کھانے پینے تک میں فرق ہوتا ہے۔
پتنگ بازی کے ایک مقابلے میں مذہبی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور ایسی معمولی باتیں بڑے ایشو بن جاتی ہیں اور یہی تفریق بالآخر قیام پاکستان کی وجہ بن جاتی ہے۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کو بھی اسی نظریاتی اختلاف کے تناظر میں دکھایا جاتا ہے۔ اس موقع پر بابا چشتی کی دھن میں حزیں قادری کا لکھا ہوا اور مسعودرانا کا گایا ہوا یہ پرجوش ترانہ فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوتا ہے
فلم کا اختتام بھی مسعودرانا کی دلسوز آواز اور ان ایمان افروز الفاظ سے ہوتا ہے:
ایک شہید کی تدفین پر گائے ہوئے یہ بول فلم بینوں پر بڑا گہرا اثر کرتے ہیں۔
ایم سلیم کی بطور ہدایتکار دوسری فلم امام دین گوہاویا (1967) بھی ایک تاریخی فلم تھی جو 1885ء کے ایک سچے واقعہ پر بنائی گئی تھی۔
بظاہر اس فلم کو بھی انگریز راج کے خلاف بتایا جاتا ہے لیکن دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ فلم بھی ایک روایتی خاندانی دشمنی پر مبنی ہے۔ جب فلم کا ہیرو ، قانون شکن بنتا ہے تو انگریز راج کا مخالف بن جاتا ہے لیکن اصل مسئلہ روایتی امن و امان کا ہوتا ہے۔
اس فلم کے فلمساز بھی محمداسلم شوکروالا ہی تھے اور کاسٹ بھی تقریباً وہی تھی جو فلم ملنگی (1965) کی تھی لیکن اس جیسا بزنس نہ کر سکی تھی۔
اس فلم کا کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔ فردوس ، اکمل ، یوسف خان اور سکیدار کے علاوہ اداکاروں کی فوج ظفر موج کے باوجود کوئی کردار ہٹ نہیں تھا۔
اردو فلموں کے ممتاز ہیرو محمدعلی کا کردار ایک انگریز پولیس آفیسر کا تھا جو فلم کے اصل ولن کا کردار تھا۔ وہ بڑی بے دردی سے لوگوں کا قتل کرتا ہے حتی کہ اپنے حمایتی ہندو ساہو کار کے گلے میں پگلا ہوا سونا ڈال کر اسے بھی مار دیتا ہے۔ یوسف خان کا ینگ ٹو اولڈ اور فردوس کے باپ کا رول ہے۔ سلطان راہی اور اقبال حسن ، ایکسٹرا اداکاروں کی صورت میں اکمل کے ساتھیوں میں سے ہوتے ہیں۔ یہ فلم اکمل کی زندگی میں ریلیز ہونے والی ان کی آخری فلم تھی۔
ہدایتکار ایم سلیم کی تیسری فلم کافر (1967) ، ایک فرضی ریاست کے بارے میں تھی جہاں ایک ملحد حکمران ، اپنی مسلمان رعایا کو خدا سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے اس کا کام تمام ہو جاتا ہے۔
یاد رہے کہ صدر جنرل ایوب خان نے 1962ء کے آئین میں پاکستان کو صرف "جمہوریہ پاکستان" لکھا تھا اور لفظ "اسلامی" مٹا دیا تھا جو 1956ء کے آئین میں درج تھا۔ شاید یہ انھی کی طرف اشارہ تھا۔
پاکستان کی تاریخی فلموں کے سب سے بہترین اداکار طالش نے یہ ٹائٹل رول کیا تھا جبکہ ہیرو سدھیر تھے جو ایسی ایکشن فلموں کی ضرورت ہوتے تھے۔ رانی ، نبیلہ ، رنگیلا اور اسلم پرویز دیگر اہم کردار تھے۔ اس فلم کی موسیقی بڑی اچھی تھی۔ موسیقار الیاس نے کئی ایک اچھی دھنیں بنائی تھیں۔ مالا اور ساتھیوں کا یہ کورس گیت "اس جہاں میں آج بھی انسان ہے انسان کا غلام۔۔" بڑا زبردست تھا۔ نسیم بیگم ، مسعودرانا اور ساتھیوں کا یہ جہادی گیت
بھی بڑا پرجوش ترانہ تھا۔ مسعودرانا اور مالا کا یہ رومانٹک گیت
بھی ایک دلکش گیت تھا جو ان گنے چنے رومانٹک گیتوں میں سے ایک تھا جو جنگجو ہیرو سدھیر پر فلمائے گئے تھے۔ فلم کا سب سے یادگار گیت ایک دوگانا تھا
سدھیر پر مسعودرانا اور رنگیلا پر احمدرشدی کی آوازیں فلمائی گئی تھیں۔ اس گیت سے قبل کے ایک منظر میں سدھیر گانے والوں کو میراثی کہہ رہے ہوتے ہیں۔۔!
ایم سلیم کی چوتھی فلم بھی گزشتہ فلموں کا تسلسل تھا۔ فلم جنگ آزادی (1968) کا پہلا نام 'مفرور' تھا لیکن اس نام سے نمائش کی اجازت نہیں ملی تھی۔ آغا طالش کی بطور فلمساز یہ اکلوتی فلم تھی جس کے مکالمے ریاض شاہد نے لکھے تھے۔
مجھے جو چند ایکشن پاکستانی فلمیں پسند آئیں ، ان میں ایک فلم یہ بھی تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ ہم بین الاقوامی معیار کی کوئی بہت بڑی ایکشن فلم دیکھ رہے ہیں۔
اس فلم کی جوڑی زیبا اور سدھیر کی تھی جن کی یہ چوتھی اور آخری مشترکہ فلم تھی۔ جب فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی تو وہ دونوں میاں بیوی تھے لیکن اس فلم کی نمائش تک دونوں میں طلاق ہو چکی تھی اور زیبا ، 'علی زیب' بن چکی تھی۔
طالش ، الیاس کاشمیری ، اسلم پرویز اور ناصرہ دیگر اہم کردار تھے۔ اس فلم کے موسیقار بھی الیاس تھے لیکن کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا البتہ سلیم رضا کا گایا ہوا یہ گیت "گریں گی بجلیاں کب تک ، جلیں گے آشیاں کب تک۔۔" ایک اچھا گیت تھا جو ممتاز فلمساز اور ہدایتکار خلیل قیصر پر فلمایا گیا تھا جنھوں نے اس فلم میں مہمان اداکار کے طور پر کام کیا تھا۔
ہدایتکار ایم سلیم کی پانچویں فلم یاربادشاہ (1971) سابقہ فلموں سے ہٹ کر پہلی سوشل فلم تھی۔ سدھیر نے ایک پہلوان کا رول کیا تھا جس سے ایک طوائف فردوس ٹوٹ کر محبت کرتی ہے لیکن وہ اسے نظرانداز کرتا ہے۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی
اس میں مسعودرانا نے تیسری اور آخری بار اداکاری کی تھی اور اجمل کے بیٹے ، سدھیر کے ہونے والے سالے/بہنوئی اور فردوس کے گمشدہ بھائی کا رول کیا تھا۔
اس فلم میں موسیقار ماسٹرعنایت حسین نے پنجابی فلموں کے دو عظیم گلوکاروں ، مسعودرانا اور عنایت حسین بھٹی کو پہلی بار اکٹھا کیا تھا اور یہ شاندار دوگانا گوایا تھا:
بھٹی صاحب ان دنوں مقبولیت کے سوا نیزے پر تھے۔ ان کی فلمیں اور گائے ہوئے گیت بڑے مقبول ہوتے تھے لیکن وہ صرف اپنی فلموں تک محدود رہتے تھے اور بہت کم موسیقار انھیں دیگر فلموں میں بطور پلے بیک سنگر موقع دیتے تھے۔
اس فلم کا دوسرا مردانہ گیت
بھی مسعودرانا کی آواز میں تھا جو دوسرے ہیرو افضل خان پر فلمایا گیا تھا۔ یہی گیت تصورخانم نے بھی گایا تھا۔ اس فلم میں زاہدہ سلطانہ نامی گلوکارہ کو پہلی بار موقع دیا گیا تھا۔
میرے ذہن پر آج بھی نقش ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا۔ فلم پوسٹر دیکھنے کے لیے قیصرسینما گیا ہوا تھا۔ اسی دوران سازین سینما کا تانگہ وہاں سے گزرا جس سے علم ہوا کہ اس ہفتے وہاں فلم یاربادشاہ (1971) چل رہی تھی۔ قیصرسینما کی ایک دیوار پر نئی فلموں کے نام لکھے ہوئے تھے جن میں سے ایک اس فلم کا بھی تھا۔ مینجر کے حکم پر عملے نے جلدی جلدی دیوار سے اس فلم کا نام مٹا دیا تھا۔ اتفاق تھا کہ اس ہفتے قیصرسینما پر فلم یاردیس پنجاب دے (1971) چل رہی تھی۔
اس دور میں چھوٹے شہروں اور قصبوں کے سینماؤں کو تھرڈ پارٹی کہا جاتا تھا جہاں عام طور پر سینما مالکان ، رائل پارک لاہور سے خود فلمیں کرائے پر لاتے تھے۔ اس کے برعکس ، تقسیم کار یا ڈسٹری بیوٹرز ، نئی فلموں کے لیے بڑے شہروں کے سینما گھر کرائے پر لے کر خود ریلیز کرتے تھے۔ کئی سینما مالکان نے نئی فلموں میں سرمایہ کاری کی ہوتی تھی ، اس طرح وہ فلم صرف ان کے سینما گھروں میں ہی ریلیز ہوتی تھی۔ اس طرح سے ان کے منافع کا مارجن بھی بہت زیادہ ہوتا تھا۔
ایم سلیم کی اگلی فلم جنگو (1972) ایک عجیب و غریب فلم تھی۔ اس فلم کا ٹائٹل رول سلطان راہی نے کیا تھا جو اسی سال کی فلم بشیرا (1972) سے فلموں کی ضرورت بن گئے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ فلم کے ہیرو یوسف خان ، ولن سلطان راہی کے باپ ہوتے ہیں لیکن نوجوان نغمہ کے ساتھ جوڑی بھی ہوتی ہے۔
انھی کے پس منظر میں حزیں قادری کے لکھے ہوئے اس تھیم سانگ کی دھن بابا چشتی نے بنائی تھی اور گلوکار مسعودرانا تھے:
اس فلم کا سپرہٹ گیت ملکہ ترنم نورجہاں کا گایا ہوا تھا "وے بے قدرے مردو ، چنگیاں قدراں پیار دیاں پاندے او ، اسیں ملن لئی تڑپدے رہندے ، تسیں ملن نئیں آندے او۔۔" اس گیت کی دھن بھی کیا کمال کی تھی "دلدار جانی ، غم خوار جانی ، پھیرا پا مل جا ، تیری مہربانی۔۔"
ہدایتکار ایم سلیم کی اگلی فلم نشان (1973) تھی جس کے ہیرو اور فلمساز سدھیر تھے۔ یہ بھی ایک ایکشن فلم تھی۔
عام طور پر سدھیر صاحب کی فلمیں ناکام نہیں ہوتی تھیں۔ ہر دور کے فلم بین سب سے زیادہ ایکشن فلمیں ہی پسند کرتے رہے ہیں اور سلطان راہی سے قبل سدھیر ہی ایکشن فلموں کے بے تاج بادشاہ ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پنجاب سرکٹ میں سدھیر کی مقبولیت کا عشر عشیر بھی کبھی کسی دوسرے ہیرو کو نہیں ملا تھا۔
اس فلم کے دیگر اہم کرداروں میں نغمہ ، اقبال حسن ، نیرسلطانہ ، منورظریف اور الیاس کاشمیری تھے۔ فضل الطاف نامی موسیقار کی یہ واحد فلم تھی لیکن کوئی گیت مقبول نہیں تھا۔
فلم نشان (1973) کے ساتھ میرا ایک تلخ واقعہ منسلک ہے۔ میرے بچپن کے پہلے فلمی دور میں میرے ساتھ ایک توہین آمیز سلوک ہوا تھا۔ یہ فلم سازین سینما کھاریاں میں چلی تھی اور میں اپنے ایک دوست کے ساتھ یہ فلم دیکھنے گیا تھا۔ قیصرسینما کے پینٹررشید کا حوالہ دیا اور گیٹ کیپر نے بلا ٹکٹ فلم دیکھنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس سے قبل اسی سینما پر دو فلمیں دنیا پیسے دی (1971) اور سجن بے پرواہ (1972) بلا ٹکٹ دیکھ چکا تھا۔
ہاف ٹائم تک تو فلم ہال میں دیکھی لیکن وقفے کے بعد سینما کی گیلری میں چلے گئے جس کا مجھے بڑا خمار ہوتا تھا۔ جب فلم دوبارہ چلی اور ٹکٹ چیکر آیا لیکن ہمارے پاس ٹکٹ نہیں تھی۔ سزا کے طور پر اس نے ہمیں کان پکڑوا دیے یعنی مرغا بنا دیا۔ یہ کام میری سکول کی ساری زندگی میں کبھی نہیں ہوا تھا لیکن فلم بینی کے شوق میں ہوگیا تھا۔ اس دن مجھے اندازہ ہوا تھا کہ مرغا بننا کتنا مشکل ہوتا ہے۔
میں بڑا تیز اور پھرتیلا تھا ، تھوڑی ہی دیر میں جیسے ہی گیٹ کھلا ، ہم فوراً اٹھے اور تیزی سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اپنی فلم بینی کے دور کا یہ اکلوتا توہین آمیز واقعہ کبھی نہیں بھلا سکا۔۔!
ایم سلیم کی اگلی فلم بلونت کور (1975) تھی جس کا ٹائٹل رول اداکارہ نیلو نے کیا تھا۔
مجھے ذاتی طور پر پنجابی فلموں میں اداکارہ نیلو بے حد پسند رہی ہے لیکن صرف اپنے پہلے دور میں ، دوسرے دور میں وہ ادکاری کم اور کاری گری زیادہ دکھاتی تھی۔ یہ ایک بڑی کمزور فلم تھی اور شاید اکلوتی فلم تھی جس کا سکھ نسوانی ٹائٹل تھا۔
ہمارے فلمساز عام طور پر سکھوں کے بارے میں بڑا نرم گوشہ رکھتے رہے ہیں اور انھیں مسلمانوں کا دوست جبکہ ہندوؤں کو دشمن ظاہر کرتے رہے ہیں۔
زمینی حقائق البتہ کچھ اور ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے زیادہ فسادات پنجاب میں ہوئے تھے اور یہ فسادات مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان تھے۔ سکھوں کا خطہ پنجاب سے روحانی رشتہ ہے جہاں ان کے بے شمار مذہبی مقامات ہیں ، ظاہر ہے کہ ان کا مذہب یہیں سے شروع ہوا تھا۔
پنجاب کی تقسیم پر سکھوں نے مسلمانوں سے بڑا خوفناک انتقام لیا تھا اور ظلم و بربریت کی انتہا کر دی تھی۔ اس کے بدلے میں ہمارے پنجاب میں بھی سکھوں کے ساتھ ہندوؤں کو بھی ڈرا دھمکا کر ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا ، اصل محرک ان کی متروکہ جائیدادوں پر ناجائز قبضے تھے۔
ہمارے بزرگ سکھوں کو اچھے نام سے یاد نہیں کرتے تھے ، ویسے بھی کوئی مسلمان کسی نئے مذہب اور اس کے پیروکاروں کو قبول کر ہی نہیں سکتا۔ جو عاقبت نااندیش لوگ سکھوں کی اندھی حمایت کرتے ہوئے خالصتان پر بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں ، وہ شاید نہیں جانتے کہ اگر خدانخواستہ کبھی ایسا ہو گیا تو ہمارا کیا حشر ہوگا کیونکہ سکھ تو پورے پنجاب پر دعویٰ رکھتے ہیں۔ ایک طالبان ہی کیا کم ہیں کہ ہم سکھا شاہی کے پیروکاروں کو بھی پروان چڑھانے کی حماقت کریں گے۔۔!
ہدایتکار ایم سلیم کی آخری فلم حکم دا غلام (1976) تھی۔ اس کے ہیرو شہنشاہ ظرافت منورظریف تھے جو اس دور میں مقبولیت کی بلندیوں پر تھے لیکن زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے۔ آسیہ ہیروئن تھی۔ ولن کا رول اداکار عقیل نے کیا تھا جو میڈم نورجہاں کے داماد ، ظل ہما کے شوہر اور اداکار احمدعلی بٹ کے والد گرامی تھے۔ دیگر فنکاروں میں طالش ، نبیلہ ، ننھا اور شیخ اقبال تھے۔
حزیں قادری اور موسیقار نذیرعلی کے سنگم میں مسعودرانا کے چار گیت تھے جن میں سے اداکار اور کہانی نویس شیخ اقبال پر فلمایا ہوا اکلوتا گیت بھی تھا:
فلم کا سب سے یادگار گیت ملکہ ترنم نورجہاں اور مسعودرانا کا گایا ہوا یہ سنجیدہ دوگانا تھا:
ہدایتکار ایم سلیم نے کل 9 فلموں میں سے 2 اردو اور 7 پنجابی فلمیں بنائی تھیں۔
1 | فلم ... گوانڈی ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: طالش |
2 | فلم ... گوانڈی ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: (پس پردہ ، اسد بخاری ) |
3 | فلم ... گوانڈی ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: احمد رشدی ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: زلفی ، طالش ، اے شاہ مع ساتھی |
4 | فلم ... گوانڈی ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: زلفی ، ترانہ |
5 | فلم ... کافر ... اردو ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ، احمد رشدی ... موسیقی: الیاس ... شاعر: اے کے مسرت ... اداکار: سدھیر ، رنگیلا |
6 | فلم ... کافر ... اردو ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: الیاس ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: سدھیر ، رانی |
7 | فلم ... کافر ... اردو ... (1967) ... گلوکار: نسیم بیگم ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: الیاس ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: نبیلہ مع ساتھی |
8 | فلم ... یار بادشاہ ... پنجابی ... (1971) ... گلوکار: عنایت حسین بھٹی ، مسعودرانا ... موسیقی: ماسٹر عنایت حسین ... شاعر: ؟ ... اداکار: افضل خان ، مسعودرانا |
9 | فلم ... یار بادشاہ ... پنجابی ... (1971) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عنایت حسین ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: افضل خان |
10 | فلم ... جنگو ... پنجابی ... (1972) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: (پس پردہ ، یوسف خان) |
11 | فلم ... حکم دا غلام ... پنجابی ... (1976) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: منور ظریف |
12 | فلم ... حکم دا غلام ... پنجابی ... (1976) ... گلوکار: روبینہ بدر ، مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: آسیہ ، منور ظریف |
13 | فلم ... حکم دا غلام ... پنجابی ... (1976) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: شیخ اقبال ، ؟ |
14 | فلم ... حکم دا غلام ... پنجابی ... (1976) ... گلوکار: نورجہاں ، مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: آسیہ ، منور ظریف |
1. | 1966: Govandhi(Punjabi) |
2. | 1967: Kafir(Urdu) |
3. | 1971: Yaar Badshah(Punjabi) |
4. | 1972: Jangu(Punjabi) |
5. | 1976: Hukam Da Ghulam(Punjabi) |
1. | Punjabi filmGovandhifrom Monday, 24 January 1966Singer(s): Masood Rana , Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Talish |
2. | Punjabi filmGovandhifrom Monday, 24 January 1966Singer(s): Masood Rana, Ahmad Rushdi & Co., Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Talish, A. Shah & Co. |
3. | Punjabi filmGovandhifrom Monday, 24 January 1966Singer(s): Masood Rana, Irene Parveen, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Zulfi, Tarana |
4. | Punjabi filmGovandhifrom Monday, 24 January 1966Singer(s): Masood Rana , Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): (Playback - Asad Bukhari) |
5. | Urdu filmKafirfrom Friday, 21 July 1967Singer(s): Naseem Begum, Masood Rana & Co., Music: Ilyas, Poet: , Actor(s): Nabeela & Co. |
6. | Urdu filmKafirfrom Friday, 21 July 1967Singer(s): Masood Rana, Mala, Music: Ilyas, Poet: , Actor(s): Sudhir, Rani |
7. | Urdu filmKafirfrom Friday, 21 July 1967Singer(s): Masood Rana, Ahmad Rushdi, Music: Ilyas, Poet: , Actor(s): Sudhir, Rangeela |
8. | Punjabi filmYaar Badshahfrom Friday, 6 August 1971Singer(s): Masood Rana, Music: Master Inayat Hussain, Poet: , Actor(s): Afzal Khan |
9. | Punjabi filmYaar Badshahfrom Friday, 6 August 1971Singer(s): Inayat Hussain Bhatti, Masood Rana, Music: Master Inayat Hussain, Poet: , Actor(s): Afzal Khan, Masood Rana |
10. | Punjabi filmJangufrom Friday, 1 December 1972Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): (Playback, Yousuf Khan) |
11. | Punjabi filmHukam Da Ghulamfrom Friday, 27 February 1976Singer(s): Robina Badar, Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Asiya, Munawar Zarif |
12. | Punjabi filmHukam Da Ghulamfrom Friday, 27 February 1976Singer(s): Noorjahan, Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Asiya, Munawar Zarif |
13. | Punjabi filmHukam Da Ghulamfrom Friday, 27 February 1976Singer(s): Masood Rana, Irene Parveen, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Sheikh Iqbal, ? |
14. | Punjabi filmHukam Da Ghulamfrom Friday, 27 February 1976Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Munawar Zarif |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.