اداکارہ شیریں نے اپنے چند سالہ فلمی دور میں خاصا عروج دیکھا تھا۔۔!
1963ء کی پنجابی فلم تیس مار خان میں فلمساز شباب کیرانوی نے ایک ایسی حسینہ کو متعارف کروایا تھا کہ جس نے فلم بینوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔
یہ ایک اعلیٰ پائے کی معاشرتی ، اصلاحی ، نغماتی اور تفریحی فلم تھی جس کی ہیروئن کو فلم بینوں نے پہلی بار دیکھا تھا اور پھر بار بار دیکھنے کی آرزو کی تھی۔ دلکش ، تیکھے نقوش اور نشیلی آنکھوں والی یہ دراز قد حسینہ جب "نمبوآں دا جوڑا۔۔" اور "میری جھانجھر چھن چھن چھنکے۔۔" گاتے ہوئے باغوں میں ہرنیوں کی طرح اٹھکلیاں کرتی ، چھلانگیں لگاتی اور ناچتی کودتی نظر آئی تو یہ رقص اور تفریح کا ایک نیا انداز تھا جسے شائقین فلم نے بے حد پسند کیا تھا۔
علاؤالدین بطور سولو ہیرو
اس سپر ہٹ فلم میں پہلی بار عوامی اداکار علاؤالدین کو سولو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اداکار ساون کی بطور ولن پہلی بڑی فلم تھی اور مزاحیہ اداکار آصف جاہ کی کامیڈی فلم کی جان تھی۔
حیدرچوہدری کی بطور ہدایتکار یہ پہلی فلم تھی۔ بابا عالم سیاہ پوش کے بامقصد مکالموں اور مقبول عام گیتوں اور موسیقار منظور اشرف کی سریلی دھنوں نے فلم کو چار چاند لگا دیے تھے۔ ایسے میں اداکارہ شیریں کو ایک آئیڈیل سٹارٹ ملا تھا۔
شیریں اور لیلیٰ
1964ء کا سال شیریں کے لیے مزید چار فلمیں لے کر آیا جن میں واحد اردو فلم واہ بھئی واہ تھی جس کی فرسٹ ہیروئن لیلیٰ تھی۔ یہ اکلوتی فلم تھی جس میں وقت کی یہ دو معروف اداکارائیں ، لیلیٰ اور شیریں ، ایک ساتھ نظر آئی تھیں۔
ان دونوں اداکاراؤں میں ایک قدرمشترک تھی کہ ان کا فلمی کیرئر بڑا مختصر اور حیرت انگیز طور پر صرف نو نو برسوں پر محیط تھا لیکن بے حد مقبولیت حاصل کی تھی۔
لیلیٰ کی پہلی فلم وعدہ (1957) تھی اور اسے فلم چھومنتر (1958) کے گیت "برے نصیب میرے۔۔" اور کرتارسنگھ (1959) کے گیت "ویر میرا گھوڑی چڑھیا۔۔" سے شہرت ملی تھی۔ بہروپیا ، رانی خان (1960) ، سپیرن ، مفت بر (1961) ، چوہدری ، سسرال (1962) ، چوڑیاں ، شرارت ، چاچا خوامخواہ (1963) ، ماما جی (1964) اور آخری فلم چھوٹی سی دنیا (1965) دیگر اہم فلمیں تھیں۔
اس سال شیریں کی دوسری فلمیں ولائیت پاس ، پانی اور بھرجائی تھیں۔ فلم بھرجائی (1964) ہی میں شیریں پر مسعودرانا کا پہلا کورس گیت
- دم علیؑ دم ، علیؑ دم مست قلندر۔۔
فلمایا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال کی چاروں فلموں میں شیریں کے ساتھ اکمل تھے۔
پہلی پلاٹینم جوبلی پنجابی فلم
1965ء کا سال شیریں کے فلمی کیرئر کا سب سے یادگار سال تھا جب ایک کیلنڈر ایئر میں اس کی سات فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں تین فلمیں سپر ہٹ ہوئی تھیں۔
ان میں پہلی فلم پھنے خان تھی جس میں اس کی جوڑی سدھیر کے ساتھ تھی۔ اس فلم کا ٹائٹل رول علاؤالدین نے کیا تھا اور کیا خوب کیا تھا۔ حسن طارق کی بطور ہدایتکار یہ پہلی پنجابی فلم تھی۔
اس سال کی دوسری بڑی فلم جی دار تھی جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ لاہور میں پلاٹینم جوبلی کرنے والی یہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں شیریں کی جوڑی ایک بار پھر سدھیر کے ساتھ تھی لیکن وہ نیلو کے مقابل سیکنڈ ہیروئن تھی۔
نیلو اس دور کی ایک مقبول ترین سپر سٹار اداکارہ تھی جو بیک وقت اردو اور پنجابی فلموں کی ضرورت ہوتی تھی۔ دلچسپ اتفاق دیکھیے کہ پنجابی فلموں کی وقت کی تمام نامور ہیروئنوں یعنی لیلی ٰ ، شیریں ، حسنہ ، رانی ، نغمہ ، فردوس اور سلونی نے نیلو کے مقابل ثانوی رول کیے تھے۔
شیریں کی فلم ملنگی (1965)
اس سال کی ایک اور بہت بڑی فلم ملنگی تھی جس میں شیریں کی جوڑی اکمل کے ساتھ تھی۔ اس فلم میں فردوس سیکنڈ ہیروئن تھی جو اسی سال کی فلم من موجی میں بھی شیریں کی نائب تھی۔ اس فلم میں وقت کے دو بڑے سپرسٹار فلمی ہیرو ، سدھیر اور اکمل ، نے ایک ساتھ کام کیا تھا۔ اس سال کی فلم سوکن میں شیریں نے ٹائٹل اور منفی رول کیا تھا اور فلم ہڈحرام میں اس کی جوڑی علاؤالدین کے ساتھ تھی۔
اداکارہ زمرد
اسی سال کی فلم اک سی چور میں شیریں کی جوڑی یوسف خان کے ساتھ تھی اور ان پر مالا اور مسعودرانا کا یہ دلکش دوگانا فلمایا گیا تھا
- تیری میری اینی نئیں پہچان تھوڑی جئی اے۔۔
اسی فلم میں اداکارہ زمرد پر معاون اداکارہ کے طور پر علاؤالدین کے ساتھ مالا اور مسعودرانا کا یہ گیت بھی فلمایا گیا تھا
- کملا نی کملا ، میرا ماہی کملا ای اوئے۔۔
زمرد کی پہلی فلم چھومنتر (1958) تھی اور اس نے ڈیڑھ سو کے قریب فلموں میں کام کیا تھا لیکن زیادہ تر معاون اداکارہ کے طور پر یا مجرا گرل کے طور پر۔ اس کی فرسٹ ہیروئن کے طور پر صرف تین ناکام فلمیں تھیں ، ہمیں بھی جینے دو (1963) ، کٹاری (1968) اور جواب دو (1974)۔ زمرد نے اداکار شاہد سے شادی کی تھی اور اس کی ایک بچی کی ماں بھی تھی۔
شیریں کی اردو فلمیں
1966ء میں شیریں کی کچھ کم نہیں ، سب سے زیادہ گیارہ فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ سال کی سب سے کامیاب فلم بانکی نار تھی جس میں شیریں کے روایتی ہیرو اکمل ہی تھے جن کے ساتھ گونگا ، سورما ، پروہنا ، میم صاحب اور تابعدار دیگر فلمیں تھیں۔
اس سال کی دوسری فلموں میں اسدبخاری کے ساتھ گوانڈی ، سدھیر کے ساتھ ماجھے دی جٹی ، علاؤالدین کے ساتھ جنج اور عنایت حسین بھٹی کے ساتھ منہ زور تھیں۔
اسی سال شیریں کی دوسری اور آخری اردو فلم جانباز بھی ریلیز ہوئی تھی جس میں اس کی جوڑی پہلی اور آخری بار محمدعلی کے ساتھ تھی۔ اس فلم کا ٹائٹل رول شیریں نے کیا تھا اور باباچشتی کی دھن میں مسعودرانا اور ساتھیوں کی یہ قوالی بڑی مقبول ہوئی تھی
- نورخدا ملے کہ حبیب خدا ﷺ ملے۔۔
شیریں جب یکدم غائب ہو گئی
1967ء میں حیرت انگیز طور پر شیریں کی فلموں کی ریلیز شدہ فلموں کی تعداد صرف دو رہ گئی تھی۔ لگتا تھا کہ اسی سال وہ فلمی دنیا چھوڑ چکی تھی۔
اس سال اس کی دونوں فلموں میں سے ایک اکمل کے ساتھ لال بجھکڑ اور دوسری یوسف خان کے ساتھ نیلی بار تھی۔ اس فلم میں مسعودرانا نے پہلی بار ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ ایک پنجابی دوگانا گایا تھا
اسی سال جون میں اکمل کا انتقال ہو گیا تھا۔
شیریں کی اکلوتی رنگین فلم
1968ء میں شیریں کی چار فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں سدھیر کے ساتھ ہرفن مولا ، یوسف خان کے ساتھ دلیر خان اور علاؤالدین کے ساتھ چالباز ریلیز ہوئی تھی۔
فلم پنج دریا میں شیریں ، فردوس کے مقابل سیکنڈ ہیروئن تھی اور یہ اس کی اور اکمل کی واحد جبکہ پہلی رنگین پنجابی فلم تھی۔
1969ء میں شیریں کی اکمل کے ساتھ دیر سے ریلیز ہونے والی دونوں فلمیں غیرت مند اور شیر جوان ریلیز ہوئی تھیں جبکہ دو فلموں جوڑ جواناں دا اور خزانچی (1971) میں شیریں کے معاون اداکارہ کے طور پر ریکارڈ ملتا ہے۔
اس طرح کل نو برسوں کے فلمی کیرئر میں شیریں نے کل 33 فلموں میں کام کیا تھا جن میں صرف دو اردو فلمیں تھیں۔ 17 فلموں میں اکمل اور 7 فلموں میں علاؤالدین کے ساتھ کام کیا تھا۔
(0 اردو گیت ... 8 پنجابی گیت )