A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
نسیمہ خان ، سابقہ مشرقی پاکستان میں بننے والی اردو فلموں کی مقبول اداکاراؤں ، شبنم اور شبانہ کے بعد تیسری اداکارہ تھی جس کی اس وقت کے مغربی پاکستان میں بھی پہچان تھی۔۔!
1956ء میں ڈھاکہ میں بننے والی پہلی فیچر فلم مکھ و موکھوش تھی جو بنگالی زبان میں بنائی گئی تھی۔ 1959ء میں پہلی اردو فلم جاگو ہوا سویرا بنی لیکن اس آرٹ فلم کو مغربی پاکستان کی ٹیم نے بنایا تھا ، اسی لیے بعض حلقے اس فلم کو مشرقی پاکستان کی پہلی اردو فلم نہیں مانتے۔ خالص بنگالیوں کی بنائی ہوئی پہلی اردو کمرشل فلم چندا (1962) کے بارے میں البتہ کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں تھا۔
اس کامیاب فلم کی ہیروئن شبنم تھی جو بلاشبہ ڈھاکہ کی اردو فلموں کا سب سے بڑا نام تھا اور جس نے آگے چل کر موجودہ پاکستان کی اردو فلموں کی سب سے کامیاب ہیروئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شبنم کو لاہور اور کراچی کے فلمسازوں نے اس وقت تک اپنی فلموں میں موقع نہیں دیا تھا کہ جب تک وہ مکمل طور پر مغربی پاکستان منتقل نہیں ہوگئی تھی۔
ڈھاکہ میں بنی ہوئی اردو فلموں کی دوسری کامیاب ترین اداکارہ شبانہ تھی جو مشرقی پاکستان کی سب سے کامیاب فلم چکوری (1967) کی ہیروئن تھی۔ اس فلم کی غیر معمولی کامیابی کے بعد مقبولیت میں شبانہ ، شبنم کو پیچھے چھوڑ گئی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی جب لاہور میں فلم چاند سورج (1970) بنی تو اس کے لیے شبنم اور رحمان کے بجائے اس وقت ڈھاکہ کی فلموں کی مقبول جوڑی شبانہ اور ندیم کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اگر سقوط ڈھاکہ نہ ہوتا تو یقیناً شبانہ بھی شبنم کی طرح اردو فلموں کی صف اول کی ہیروئن ہوتی۔
ڈھاکہ فلموں کی تیسری مقبول ہیروئن ، نسیمہ خان کی پہلی فلم جاگو ہوا سویرا (1959) بتائی جاتی ہے۔ اس کے بعد چند بنگالی فلموں میں نظر آئی۔ اردو فلم ناچ گھر (1963) میں شبنم کے مقابل ثانوی کردار میں تھی۔ بطور ہیروئن ، نسیمہ خان کی پہلی فلم مالن (1964) تھی جس میں اس کا ہیرو دیپ نامی کوئی اداکار تھا۔
ڈھاکہ کی دیگر فلموں کی طرح یقیناً یہ بھی ایک ڈبل ورژن فلم ہوگی۔ اس فلم میں موسیقار نذیرشیلے نے مسعودرانا اور نسیمہ شاہین سے دھیمی سروں میں دو بڑے دلکش رومانٹک گیت گوائے تھے
یقیناً یہ دونوں گیت اس گمنام اور نایاب فلم میں نسیمہ خان اور دیپ پر فلمائے گئے ہوں گے۔ نسیمہ خان کی ڈھاکہ میں بننے والی دیگر ناکام اردو فلمیں شادی (1964) ، اجالا ، بیگانہ ، پروانہ (1966) ، الجھن (1967) اور گوری (1968) تھیں۔
حیرت کی بات ہے کہ نسیمہ خان کی ڈھاکہ میں بننے والی سبھی اردو فلمیں ناکام رہی تھیں لیکن پھر بھی وہ ، لاہور کے فلمسازوں کی نظر میں آگئی تھی حالانکہ وہ کوئی اتنی جاذب نظر نہ تھی۔ چھوٹے سے قد کی واجبی سی شکل و صورت والی یہ اداکارہ ، اداکارہ زمرد سے مشابہ تھی۔
یاد رہے کہ مشرقی پاکستان کی دیگر کامیاب اردو فلموں میں سے فلم چندا (1962) اور مالا (1965) کی فرسٹ ہیروئن سلطانہ زمان ، فلم سنگم (1964) کی سمیتا دیوی ، فلم بہانا (1965) کی کابوری اور فلم بھیا (1966) کی چتراسنہا کو مغربی پاکستان کی کسی فلم میں کبھی موقع نہیں ملا جبکہ ناکام فلموں کی ہیروئنوں ، روزی اور ریشماں کو ایک ایک موقع ملا لیکن وہ ناکام رہیں۔ ان کے علاوہ دیگر مقبول ہیروئنیں ، سچندا اور سجاتا ، صرف ڈھاکہ کی فلموں تک محدود رہی تھیں۔
نسیمہ خان کو لاہور کی پہلی فلم نئی لیلیٰ نیا مجنوں (1969) میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ ہیرو کمال تھے جن کی بطور ہیرو یہ سب سے کامیاب فلم ثابت ہوئی تھی۔ لہری عالیہ ثانوی جوڑی تھی۔ یہ ایک سپرہٹ فلم تھی جس کے ہدایتکار منوررشید تھے۔
فلم کی خاص بات ، اس کی موسیقی تھی۔ گیت نگار موج لکھنوی کے گیتوں کو ماسٹرتصدق حسین نے بڑی بھاری بھر کم دھنوں سے مزین کیا تھا۔ فلم کے دس گیتوں میں سے اس گیت کی دھن لاجواب تھی
مالا کے ساتھ مسعودرانا اور ساتھی تھے۔اس جوڑی کے یہ دونوں گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے
احمدرشدی کے مالا کے ساتھ یہ دو گیت بھی بڑے پسند کیے گئے تھے
مالا اور تانی کا یہ کورس گیت بھی بہت اچھا تھا
لاہور میں قیام کے دوران ہی نسیمہ خان نے بطور فلمساز اپنی اکلوتی فلم گیت کہیں سنگیت کہیں (1969) بنائی تھی جس میں وہ محمدعلی کے ساتھ ہیروئن تھی۔ ہدایتکار کے طور پر محسن کا نام تھا جو اس سے قبل ڈھاکہ کی فلم گوری (1968) کے فلمساز اور ہدایتکار بھی تھے۔
اس فلم کا بنگالی ورژن 'ارمان' کے نام سے مشرقی پاکستان میں ریلیز ہوا تھا۔ بنگالی اپنی زبان کے بارے میں بڑے متعصب تھے اور اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو ہمیں کبھی پتہ نہ چلتا کہ چکوری (1967) اور تلاش (1963) وغیرہ جیسی مشہور فلمیں اصل میں بنگالی فلمیں تھیں جنھیں اردو میں ڈب کر کے مغربی پاکستان میں پیش کیاگیا تھا۔
موجودہ بنگلہ دیش میں مشرقی پاکستان کے دور میں جو اردو فلمیں چند بڑے شہروں کے سینماؤں میں چلتی تھیں ، وہ عام طور وہاں کے بہاری مہاجرین اور غیربنگالی لوگ دیکھتے تھے جبکہ بنگالی ، بنگالی فلموں کو ہی ترجیح دیتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ڈھاکہ کی بنائی ہوئی چند اردو فلمیں ریلیز ہوکر بری طرح سے ناکام رہی تھیں اور نامکمل فلموں کو مکمل کرنے کا فلمسازوں میں حوصلہ نہیں تھا۔
فلم گیت کہیں سنگیت کہیں (1969) میں میڈم نورجہاں کے علاوہ دس مرد گانے والے تھے اور شاید یہ واحد فلم تھی جس میں منیر حسین ، مہدی حسن ، احمدرشدی ، مسعودرانا اور مجیب عالم جیسے بڑے بڑے نام ایک ساتھ تھے۔ کلاسیکل گلوکار استاد سلامت علی خان اور استاد نزاکت علی خان نے بھی دو گیت گائے تھے۔ موسیقار ماسٹرطفیل تھے جو ماسٹر عنایت حسین کے بیٹے بتائے جاتے ہیں۔ اس فلم کا سب سے بہترین گیت تنویر نقوی کا لکھا ہوا تھا جو محمدعلی پر فلمایا گیا تھا :
مسعودرانا کی بے مثل گائیکی اتنی متاثر کن تھی کہ فلم کے ایک کردار چکرم کو بے ساختہ کہنا پڑتا ہے "کیا طرح دار آواز ہے۔۔!" یہ گیت سن کر میں بھی مسعودرانا کی عظمت کا قائل ہوگیا تھا اورعہد کرلیا تھا کہ جب بھی موقع ملا ، اس عظیم فنکار کو اس کے شایان شان خراج تحسین پیش کروں گا۔ الحمدللہ ، اپنی اس کوشش میں کامیاب رہا ہوں اور اس بے مثل گلوکار کو ایک ایسا خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے کہ جو آج تک کسی دوسرے پاکستانی فنکار کو کبھی پیش نہیں کیا جاسکا۔
نسیمہ خان کو فلم آنسو بن گئے موتی (1970) میں سیکنڈ ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا گیا تھا ، پہلے یہ رول فردوس نے کرنا تھا لیکن اس دور میں وہ ، پنجابی فلموں کی چوٹی کی ہیروئن بن گئی تھی ، اس لیے اسے سیکنڈ ہیروئن کے طور پر پیش کرنا مشکل اور شاید مہنگا بھی ہوگیا تھا۔ شمیم آرا ، فرسٹ ہیروئن تھی اور محمدعلی ، ڈبل رول میں تھے۔ان پر فلمایا ہوا ، ماسٹر عنایت حسین کی دھن میں قتیل شفائی کا لکھا اور مسعودرانا کا گایا ہوا ایک شوخ گیت
نسیمہ خان ہی کے لیے گایا گیا تھا۔
نسیمہ خان کی مغربی پاکستان میں آخری فلم روڈ ٹو سوات (1970) تھی جو پچھلے سال کی سپرہٹ فلم نئی لیلیٰ نیا مجنوں (1969) کا تسلسل تھا۔ البتہ اس رنگین فلم میں کہانی نام کی کوئی چیز نہ تھی ، ہیجان خیر رقص ، بھاری بھر کم موسیقی ، پرکشش نسوانی لباس اور ایک موٹر سائیکلسٹ کے کرتب اس کامیاب فلم کا خلاصہ ہیں۔
اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ پوری ٹیم گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر کراچی سے سوات تک کا سفر کرتی ہے اور راستے میں سکھر کا پل ، ملتان اور لاہور کے اہم مقامات بھی دکھائے جاتے ہیں۔ اس سفر کے دوران موج لکھنوی کا لکھا ہوا اور موسیقار تصدق حسین کا کمپوز کیا ہوا فلم کا تھیم سانگ مالا ، تانی ، مسعودرانا اور ساتھیوں کی آوازوں میں
نسیمہ خان ، مہ پارہ ، کمال ، لہری اور ساتھیوں پر فلمایا جاتا ہے۔
نسیمہ خان کی صرف دو برسوں میں مغربی پاکستان میں کل چار میں سے تین فلمیں کامیاب رہی تھیں لیکن پھر 1971ء میں نو ماہ کی خانہ جنگی اور ایک شرمناک فوجی شکست کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوگیا تھا۔
1944ء میں پیدا ہونے والی نسیمہ خان نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش میں بھی بہت سی فلموں میں کام کیا تھا۔
1 | آپ نہ جو پیار کیا ہے، آپ کا شکریہ..فلم ... مالن ... اردو ... (1964) ... گلوکار: نسیمہ شاہین ، مسعود رانا ... موسیقی: نذیر شیلی ... شاعر: ؟ ... اداکار: نسیمہ خان ، دیپ |
2 | سیاں رے سیاں ، چھوڑ دے موری بہنیا..فلم ... مالن ... اردو ... (1964) ... گلوکار: نسیمہ شاہین ، مسعود رانا ... موسیقی: نذیر شیلی ... شاعر: ؟ ... اداکار: نسیمہ خان ، دیپ |
3 | میرے ہمسفر ، تم بڑے سنگدل ہو..فلم ... نئی لیلیٰ نیا مجنوں ... اردو ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: موج لکھنوی ... اداکار: کمال ، نسیمہ خان |
4 | ندیا کے بیچ گوری ، ہلچل مچائے رے ، ناگن ہے زلف تیری ، ڈس نہ کہیں جائے..فلم ... نئی لیلیٰ نیا مجنوں ... اردو ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا مع ساتھی ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: موج لکھنوی ... اداکار: کمال ، لہری ، نسیمہ خان ، عالیہ مع ساتھی |
5 | چلے ہیں دل والے ، روڈ ٹو سوات..فلم ... روڈ ٹو سوات ... اردو ... (1970) ... گلوکار: مالا ، تانی ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: موج لکھنوی ... اداکار: نسیمہ خان ، مہ پارہ ، لہری ، کمال مع ساتھی |
1 | آپ نہ جو پیار کیا ہے، آپ کا شکریہ ...(فلم ... مالن ... 1964) |
2 | سیاں رے سیاں ، چھوڑ دے موری بہنیا ...(فلم ... مالن ... 1964) |
3 | میرے ہمسفر ، تم بڑے سنگدل ہو ...(فلم ... نئی لیلیٰ نیا مجنوں ... 1969) |
4 | ندیا کے بیچ گوری ، ہلچل مچائے رے ، ناگن ہے زلف تیری ، ڈس نہ کہیں جائے ...(فلم ... نئی لیلیٰ نیا مجنوں ... 1969) |
5 | چلے ہیں دل والے ، روڈ ٹو سوات ...(فلم ... روڈ ٹو سوات ... 1970) |
1 | آپ نہ جو پیار کیا ہے، آپ کا شکریہ ... (فلم ... مالن ... 1964) |
2 | سیاں رے سیاں ، چھوڑ دے موری بہنیا ... (فلم ... مالن ... 1964) |
3 | میرے ہمسفر ، تم بڑے سنگدل ہو ... (فلم ... نئی لیلیٰ نیا مجنوں ... 1969) |
1 | ندیا کے بیچ گوری ، ہلچل مچائے رے ، ناگن ہے زلف تیری ، ڈس نہ کہیں جائے ... (فلم ... نئی لیلیٰ نیا مجنوں ... 1969) |
2 | چلے ہیں دل والے ، روڈ ٹو سوات ... (فلم ... روڈ ٹو سوات ... 1970) |
1. | 1964: Maalan(Urdu) |
2. | 1969: Neyi Laila Neya Majnu(Urdu) |
3. | 1969: Geet Kahin Sangeet Kahin(Urdu/Bengali double version) |
4. | 1970: Aansoo Ban Geye Moti(Urdu) |
5. | 1970: Road To Swat(Urdu) |
1. | Urdu filmMaalanfrom Friday, 25 December 1964Singer(s): Naseema Shaheen, Masood Rana, Music: Nazir Sheeley, Poet: ?, Actor(s): Naseema Khan, Deep |
2. | Urdu filmMaalanfrom Friday, 25 December 1964Singer(s): Naseema Shaheen, Masood Rana, Music: Nazir Sheeley, Poet: ?, Actor(s): Naseema Khan, Deep |
3. | Urdu filmNeyi Laila Neya Majnufrom Friday, 21 February 1969Singer(s): Masood Rana, Mala & Co., Music: Tasadduq Hussain, Poet: Mouj Lakhnavi, Actor(s): Kemal, Lehri, Naseema Khan, Aliya & Co. |
4. | Urdu filmNeyi Laila Neya Majnufrom Friday, 21 February 1969Singer(s): Masood Rana, Mala, Music: Tasadduq Hussain, Poet: Mouj Lakhnavi, Actor(s): Kemal, Naseema Khan |
5. | Urdu filmRoad To Swatfrom Tuesday, 1 December 1970Singer(s): Mala, Tani, Masood Rana & Co., Music: Tasadduq Hussain, Poet: Mouj Lakhnavi, Actor(s): Naseema Khan, Mahpara, Lehri, Kemal & Co. |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.