Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


Pakistan Film History

Pakistani film actors timeline

An Urdu/Punjabi article on the timeline of Pakistani actors.

اداکاروں کی ٹائم لائن

پاکستان کے 75 سالہ فلمی اداکاروں کی ٹائم لائن

1948

پہلی فلمی ہیروئن

    تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے حصہ میں آنے والی اداکاراؤں ، نورجہاں ، سورن لتا ، راگنی ، شمیم ، نجمہ ، مینا شوری ، یاسمین ، ریحانہ ، خورشید ، ممتاز شانتی ، شاہینہ ، اختری اور نینا میں سے آشا پوسلے کو پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کی ہیروئن ہونے کا ناقابل شکست اعزاز حاصل ہوا تھا۔ گو ایک ناکام ہیروئن تھی لیکن 1950 کی دھائی میں پاکستان کی پہلی کامیاب ترین سائیڈ ہیروئن اور ویمپ اداکارہ شمار ہوتی تھی۔
    پہلا فلمی ہیرو
    فلمی ہیروز میں سے نذیر ، سدھیر ، سنتوش ، مسعود ، نجم الحسن ، ظہور راجہ ، صادق علی ، سریش اور رضا میر کی موجودگی میں ناصر خان کو پاکستان کے پہلے فلمی ہیرو ہونے کا منفرد حاصل ہوا تھا۔ وہ اپنے دوست ہدایتکار لقمان کی فلم شاہدہ (1949) میں کام کرنے کے لیے لاہور آئے تھے۔ اس دوران سیٹھ دل سکھ پنچولی نے اپنی فلم تیری یاد (1948) میں ہیرو لیا اور ریکارڈ ٹائم میں مکمل کر کے اس فلم کو پہلے ریلیز کر دیا تھا۔

    ناصر خان کا منفرد ریکارڈ

    ناصر خان کی بڑی پہچان تو اپنے عظیم بھائی دلیپ کمار تھے لیکن پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے ہیرو ہونے کے علاوہ انھیں ، بھارت کی پہلی فلم شہنائی (1947) کے ہیرو ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ یہ فلم جمعہ 15 اگست 1947ء کو ریلیز ہوئی جو پاکستان اور بھارت کی آزادی کا پہلا دن تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کی ہیروئن ریحانہ تھی جو بعد میں پاکستان چلی آئی اور فلم رات کے راہی (1960) اس کی یادگار فلم تھی۔
    پہلے سائیڈ ہیرو/ہیروئن
    فلم تیری یاد (1948) میں اداکار جہانگیرخان کو پہلے سائیڈ ہیرو اور اداکارہ نجمہ کو پہلی سائیڈ ہیروئن کے کردار ملے تھے۔
    جہانگیر خان نے چند فلموں میں کام کیا جن میں فلم چن وے (1951) میں سنتوش کی موجودگی میں نورجہاں کے ہیرو تھے لیکن کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ اداکار شامل خان کے والد تھے۔
    اداکارہ نجمہ ، تقسیم سے قبل کی اداکارہ تھی۔ پاکستان میں چند فلموں میں کام کیا۔ پہلی فلم ہچکولے (1949) تھی جو پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر کی پہلی فلم بھی تھی۔ فلمساز باری ملک سے شادی کر کے فلمی دنیا چھوڑ دی تھی۔
    پہلا مزاحیہ اداکار
    نذر کو پاکستان کا پہلا مزاحیہ اداکار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے بھی تقسیم سے قبل اپنے فلمی کیریر کا آغاز کیا اور لاہور کے مستقل فنکار ہونے کی وجہ سے پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) میں کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ تقسیم کے بعد مزاحیہ فنکاروں میں اے شاہ ، نورمحمد چارلی اور غوری بھی پاکستان چلے آئے تھے جبکہ ظریف بھی تقسیم سے قبل لاہور ہی میں اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کر چکے تھے۔
    پہلی معاون اداکارہ
    اداکارہ رانی کرن کو پاکستان کی فلموں میں پہلی معاون اداکارہ کا رول ملا تھا۔ وہ ، فلم تیری یاد (1948) کی ہیروئن آشا پوسلے کی بہن تھی۔ اس نے زیادہ فلموں میں کام نہیں کیا تھا۔
    تقسیم سے قبل کی دیگر معاون اداکاراؤں میں ببو ، بیگم پروین ، نفیس بیگم ، کلاوتی ، مایہ دیوی ، ریکھا ، کملا اور زینت وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔

    فلم تیری یاد (1948) کے دیگر اداکار

    اداکارہ شعلہ اور لاہور کی پہلی فلم ڈاٹرز آف ٹوڈے (1927) کے ہیرو غلام قادر
1949

پہلی سپرہٹ فلمی جوڑی

    سورن لتا اور نذیر کو پاکستان کی پہلی سپرہٹ فلمی جوڑی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جب اپنے آبائی وطن واپسی پر انھوں نے پاکستان کی پہلی سپرہٹ نغماتی پنجابی فلم پھیرے (1949) بنائی تھی۔
    اس سے قبل پاکستان میں اپنی پہلی فلم سچائی (1949) میں فلم کی مرکزی جوڑی ہونے کے علاوہ سورن لتا کو پاکستان کی پہلی خاتون فلمساز اور نذیر کو پہلے ہدایتکار/اداکار ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ یہ دونوں میاں بیوی ، 1940 کی دھائی میں بمبئی کی فلموں کے نامور فنکار تھے۔ پاکستان کی دوسری گولڈن جوبلی سپرہٹ اردو فلم نوکر (1955) بھی ان کی ایک یادگار فلم تھی۔ سوال (1966) آخری مشترکہ فلم تھی۔
    پہلے سپرسٹار ہیرو
    پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو ، سدھیر کی پہلی فلم ہچکولے (1949) تھی۔ تقسیم سے قبل ، لاہور ہی میں پہلی فلم فرض (1947) میں کام کر چکے تھے۔
    سدھیر ، پاکستان کے ابتدائی دور کے سب سے کامیاب ہیرو تھے۔ 1950 کی دھائی کی کل پانچ اردو گولڈن جوبلی فلموں میں سے چار کے ہیرو ہونے کے علاوہ تینوں بلاک باسٹر پنجابی فلموں کے ہیرو کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پاکستان کے واحد اداکار ہیں جنھیں اپنے چالیس سالہ فلمی کیرئر میں ہمیشہ مرکزی کرداروں میں کاسٹ کیا گیا تھا۔ اپنی آخری فلم سن آف ان داتا (1987) میں بھی مرکزی کردار میں تھے۔
    پہلے کامیاب ولن اداکار
    ہمالیہ والا ، پاکستان کے پہلے نامور ولن اداکار تھے۔ یہ اعزاز انھیں ، غلام محمد ، اجمل ، سلیم رضا ، شاہ نواز ، علاؤالدین ، طالش اور الیاس کاشمیری کی موجودگی میں حاصل ہوا تھا۔ فلم شاہدہ (1949) ، پاکستان میں پہلی فلم تھی جبکہ فلم انارکلی (1958) میں شہنشاہ اکبر کا کردار بڑا یادگار تھا۔ دو درجن سے زائد فلمیں کریڈٹ پر ہیں۔ آخری فلم یہودی کی لڑکی (1963) تھی۔ تقسیم سے پہلے کے اداکار تھے اور درجن بھر فلموں میں کام کر چکے تھے۔
    پہلے معاون اداکار
    پاکستان کے سب سے سینئر اداکار ایم اسماعیل نے تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی پہلی فلم ڈاٹرز آف ٹوڈے (1927) میں کام کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد ان کی پہلی فلم ہچکولے (1949) تھی۔ آخری فلم مان جوانی دا (1976) تھی۔
    تقسیم سے قبل کے دیگر معاون اداکاروں میں غلام قادر ، ظہور شاہ ، گل زمان ، مجید ، آزاد ، شیخ اقبال ، جی این بٹ ، کمار ، ریحان اور شاکر وغیرہ شامل تھے۔
    الیاس کاشمیری
    فلم مندری (1949) سے ہیرو کے طور پر فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والے الیاس کاشمیری نے طویل فلمی سفر میں معاون اداکاری کے علاوہ منفی کرداروں میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ اپنے قدبت اور رعب و دبدبے کی وجہ سے ایک ظالم جاگیردار کے روپ میں ایک آئیڈیل اداکار تھے۔ فلم ضدی (1973) سے عروج حاصل کیا۔ چار سو سے زائد فلموں میں نظر آئے۔ آخری فلم طوفان (2002) تھی۔

    1949 کے دیگر اداکار

    شمیم ، شاکر ، جی این بٹ ، بیگم پروین ، نفیس بیگم فلم شاہدہ (1949) ، اجمل ، ظہورشاہ ، اختری فلم ہچکولے (1949) ، مجید ، محمدحنیف آزاد فلم سچائی (1949) ، ظریف ، کلاوتی ، امداد حسین فلم دو کنارے (1949) ، علاؤالدین ، زینت ، شیخ اقبال ، مایہ دیوی فلم پھیرے (1949) ، راگنی ، غلام محمد ، نورمحمد چارلی ، آغا سلیم رضا فلم مندری (1949)
1950

صبیحہ اور سنتوش

    صبیحہ خانم کو قیام پاکستان کے بعد دریافت ہونے والی پہلی بڑی فلمی ہیروئن کا اعزاز حاصل ہے۔ اسی لیے "فرسٹ لیڈی آف سلور سکرین" بھی کہلاتی ہیں۔ پہلی گولڈن جوبلی سپرہٹ اردو فلم سسی (1954) کے علاوہ پہلی بلاک باسٹر پنجابی فلم دلابھٹی (1956) کی ہیروئن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ دونوں فلمیں سدھیر کے ساتھ تھیں جو 1950 کی دھائی کے کامیاب ترین ہیرو تھے۔
    صبیحہ خانم کی اپنے شوہر سنتوش کے ساتھ پاکستان کی پہلی کامیاب رومانٹک فلمی جوڑی بنی تھی جس نے بہت سی کامیاب فلموں میں کام کیا تھا۔ اتفاق سے ان دونوں کی پہلی مشترکہ فلم بیلی (1950) تھی جبکہ پہلی سلور جوبلی اردو فلم دو آنسو (1950) کی روایتی جوڑی بھی تھے۔ اس جوڑی کی واحد گولڈن جوبلی فلم دامن (1963) تھی۔
    سنتوش نے تقسیم کے قبل بھی بمبئی کی دو فلموں میں کام کیا تھا اور 1950 کی دھائی میں سدھیر کے بعد دوسرے سپرسٹار فلمی ہیرو تھے۔ بطور ہیرو آخری کامیاب فلم لوری (1966) تھی۔
    اداکارہ شمی کا اعزاز
    اداکارہ شمی ، پاکستان کی پہلی اداکارہ تھی جس نے اپنے ہی نام کی فلم شمی (1950) میں ٹائٹل رول کیا تھا۔ یہ اس کی پہلی فلم بھی تھی۔ سنتوش روایتی ہیرو تھے۔ ہدایتکار منشی دل کی اس اردو/پنجابی فلم کی فلمساز ملکہ پکھراج تھیں جو گلوکارہ طاہرہ سید کی والدہ تھیں۔ درجن بھر فلموں میں کام کیا۔ آخری بار اپنے شوہر سدھیر کی فلم بغاوت (1963) میں نظر آئی تھی۔
    پہلے پاکستانی ہیرو
    اداکارہ درپن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد دریافت ہونے والے پہلے بڑے فلمی ہیرو تھے۔ فلم امانت (1950) پہلی فلم تھی۔ تین فلموں میں کام کرنے کے بعد بھارت چلے گئے تھے لیکن ناکامی کے بعد پاکستان واپس چلے آئے اور چھ درجن کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔ لاابالی طبیعت کے مالک تھے۔ سہیلی (1960) کامیاب ترین فلم تھی۔ بطور ہیرو آخری فلم جواب دو (1974) تھی۔

    1950 کے دیگر اداکار

    ظہورراجہ فلم جہاد (1950) ، یاسمین فلم بیلی (1950) ، ریکھا اور شاہ نواز فلم ہماری بستی (1950) ، آصف جاہ فلم دو آنسو (1950) ، صادق علی فلم جدائی (1950) ، ایس گل فلم بے قرار (1950) ، ببو اور غوری فلم شمی (1950)
1951

نورجہاں کی واپسی

    ملکہ ترنم نورجہاں کو 1940 کی دھائی میں بمبئی میں ایک شاندار فلمی کیرئر گزارنے کے بعد لاہور واپسی پر اپنی پہلی فلم چن وے (1951) میں نہ صرف گلوکارہ اور اداکارہ ہونے کا موقع ملا بلکہ فلم کی ڈائریکٹر کے طور پر پاکستان کی پہلی ہدایتکارہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔
    روایت ہے کہ اس فلم کے اصل ہدایتکار ان کے شوہر شوکت حسین رضوی تھے لیکن انھیں ایک پنجابی فلم کے ہدایتکار کے طور پر اپنا نام دینے میں توہین محسوس ہوتی تھی۔ اس نغماتی فلم میں نورجہاں کے ہیرو سنتوش کی بجائے جہانگیرخان تھے۔
    پاکستان کے پہلے ناکام ہیرو/ہیروئن
    اداکار مسعود ، پاکستان کے پہلے ناکام ترین ہیرو تھے جنھوں نے دس فلموں میں کام کیا جو سبھی ناکام رہیں۔ تقسیم سے قبل کے فنکار تھے۔ پاکستان میں پہلی فلم غیرت (1951) تھی۔ اپنی آخری فلم زنجیر (1960) کے فلمساز اور ہدایتکار بھی تھے۔
    دلچسپ بات یہ ہے کہ تقسیم سے قبل کی لاہور کی سپرسٹار ہیروئن ، راگنی کی بطور ہیروئن بھی یہ آخری فلم تھی اور وہ بھی پاکستان میں ایک ناکام ہیروئن ثابت ہوئی تھی۔ مندری (1949) پہلی فلم تھی جبکہ نوکر (1955) واحد کامیاب فلم تھی لیکن ایک ویمپ کے طور پر۔

    1951 کے دیگر اداکار

    نینا فلم اکیلی (1951) ، نجم الحسن فلم عید (1951) اور ساحرہ فلم ہم وطن (1951)
1952

پہلے غیر مسلم ہیرو

    ہدایتکار سبطین فضلی کی سپرہٹ اردو نغماتی فلم دوپٹہ (1952) میں نورجہاں کے ہیرو اجے کمار تھے جو پاکستان کے پہلے غیر مسلم فلمی ہیرو تھے۔ یہ ان کی اکلوتی فلم تھی۔
    فلم دوپٹہ (1952) ، پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر کی پہلی بڑی فلم تھی جس میں سائیڈ ہیرو ہونے کے باوجود پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔ اس فلم نے بھارتی شہروں میں بھی دھوم مچا دی تھی اور پاکستان کی پہلی سپرہٹ اردو فلم ثابت ہوئی تھی۔
    طالش کی آمد
    پاکستان کے عظیم آل راؤنڈ اداکار آغا طالش نے پنجابی فلم نتھ (1952) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ تقسیم سے قبل کے فنکار تھے۔ پاکستانی فلموں میں بھاری بھر کم بین الاقوامی معیار کے کرداروں کے لیے مشہور تھے۔ فلم شہید (1962) ، فرنگی (1964) اور زرقا (1969) ، ان کے کریڈٹ پر بہت بڑی بڑی فلمیں تھیں۔

    1952 کے دیگر اداکار

    ابو شاہ فلم شعلہ (1952) اور ریحان فلم نویلی (1952)
1953

عنایت حسین بھٹی

    پاکستان کے پہلے ممتاز گلوکار عنایت حسین بھٹی کو فلم شہری بابو (1953) میں اپنا ہی ایک سپرہٹ گیت "بھاگاں والیو ، نام جپھو مولا نام۔۔" گاتے ہوئے دیکھا اور سنا گیا تھا۔ بھٹی صاحب کو فلم جلن (1955) میں مکمل ہیرو کے طور پر کاسٹ کیا گیا تھا لیکن کامیابی فلم چن مکھناں (1968) سے ملی تھی۔ ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ بطور اداکار آخری فلم مچھ جیل (1994) تھی۔
    فریدہ خانم کی فلم
    فلم سیلاب (1953) میں ملکہ غزل فریدہ خانم نے ایک ثانوی رول کیا اور ان پر زینت بیگم اور نذیر بیگم کے گائے ہوئے گیت فلمائے گئے تھے۔
  • اسی سال فلم محبوبہ (1953) میں پنجابی فلموں کے سپرسٹار اداکار اکمل پہلی بار ایک ایکسٹرا کردار میں دیکھے گئے تھے۔
  • 1953 کے دیگر اداکار

    سلطان کھوسٹ فلم برکھا (1953) ، نگہت سلطانہ فلم محبوبہ (1953)
1954

یوسف خان کی آمد

    فلم پرواز (1954) میں ہدایتکار اشفاق ملک نے پہلی بار اداکار یوسف خان کو صبیحہ خانم کے مقابل ہیرو کے طور پر پیش کیا تھا۔ اپنے فلمی کیرئر کی گولڈن جوبلی منانے والے اس پہلے پاکستانی فلمی ہیرو کو پنجابی فلموں کا سپرسٹار بننے کے لیے دو دھائیوں تک خاصی جدوجہد کرنا پڑی۔ فلم ضدی (1973) سے بریک تھرو ملا اور آخری فلم اتھرا (2006) تھی۔

    1954 کے دیگر اداکار

    نسرین فلم گمنام (1954) ، گل زمان فلم سسی (1954)
1955

مسرت نذیر اور اسلم پرویز

    ہدایتکار انور کمال پاشا کی شاہکار فلم قاتل (1955) میں متعدد بڑے فنکار متعارف ہوئے جن میں مسرت نذیر ، چاندنی کے نام سے سب سے بڑا نام تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے صف اول کی ہیروئن بن گئی تھی۔ اسی سال اس کی بطور ہیروئن پہلی فلم پتن (1955) ریلیز ہوئی تھی۔ یکے والی (1957) جیسی بلاک باسٹر فلم کے علاوہ شہید (1962) جیسی عالمی میعار کی فلم میں ٹائٹل رول کرنے والی اس انتہائی باصلاحیت اداکارہ نے عین عروج کے دور میں شادی کر کے فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔
  • ضیاء کے نام سے اسلم پرویز متعارف ہوئے جو 1950 کی دھائی میں سدھیر اور سنتوش کے بعد تیسرے کامیاب اور مقبول ترین فلمی ہیرو ثابت ہوئے تھے۔ بطور ہیرو اسی سال پہلی فلم پاٹے خان (1955) ریلیز ہوئی جس میں ان کی دو ہیروئنیں ، نورجہاں اور مسرت نذیر تھیں۔ پہلے نامور ہیرو تھے جو ایک چوٹی کے ولن اداکار بنے۔
  • اسی فلم میں نیرسلطانہ ، نازلی کے نام سے متعارف ہوئیں لیکن ہیروئن بننے کے لیے خاصی جدوجہد کرنا پڑی۔ بطور ہیروئن پہلی فلم توحید (1958) تھی لیکن بریک تھرو فلم سہیلی (1960) سے ملا تھا۔
  • ان کے علاوہ مزاحیہ اداکار دلجیت مرزا بھی متعارف ہوئے جو ایک کامیڈین سے زیادہ فلمساز اور ہدایتکار کے طور پر جانے گئے۔ امریکی فلموں کے جاسوسی ٹائپ کرداروں میں نظر آتے تھے۔
  • ظریف ، ٹائٹل رول میں
    اداکار ظریف کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھوں نے ایک کامیڈین سے ترقی کرتے ہوئے فلم پاٹے خان (1955) کا ٹائٹل رول کیا۔ ان کی ہیروئن مشہور گلوکارہ زبیدہ خانم تھیں۔ مرکزی جوڑی نورجہاں اور اسلم پرویز کی تھی۔
    ظریف ، پہلے نامور فنکار تھے جو عین عروج کے دور میں انتقال کر گئے تھے۔ پہلے صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار تھے۔ دو کنارے (1949) پہلی فلم تھی۔ چار درجن فلموں میں کام کیا تھا۔ آخری فلم مفت بر (1961) تھی۔

    1955 کے دیگر اداکار

    اے شاہ فلم نوکر (1955) ، ایمی مینوالا فلم سوہنی (1955) ، رخسانہ فلم ہماری زبان (1955) ، رخشی فلم جلن (1955) ، نصرت کاردار فلم انتقام (1955) ، ساقی فلم التجا (1955) اور جمیلہ رزاق ، صبا فلم انتخاب (1955)
1956

سدھیر ، پہلے ایکشن ہیرو

    فلم باغی (1956) کی شاندار کامیابی کے بعد پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر کو "پاکستان کے پہلے ایکشن ہیرو" کا خطاب بھی ملا تھا۔
    ہدایتکار اشفاق ملک کی باغی (1956) پہلی فلم تھی جس کو چین میں بھی ریلیز کیا گیا تھا اور بے حد پسند کی گئی تھی۔ مسرت نذیر ، ہیروئن تھی۔
    پاکستان کی فلمی تاریخ میں لڑائی مار کٹائی کی فلمیں پسند کرنے والوں میں سدھیر کی مقبولیت کا ریکارڈ صرف سلطان راہی ہی توڑ سکے تھے جو اتفاق سے پہلی بار اسی فلم میں ایک ایکسٹرا کے طور پر نظر آئے تھے۔
    اے شاہ شکار پوری کا اعزاز
    اے شاہ شکار پوری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھوں نے بطور فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف اور نغمہ نگار فلم حقیقت (1956) بنائی تھی۔ نسرین اور مسعود مرکزی کردار تھے۔
    اے شاہ ، تقسیم سے پہلے کے فنکار تھے۔ ایک فلم شکارپوری (1947) کی کامیابی سے "اے شاہ شکارپوری" کہلانے لگے تھے۔ پاکستان میں پہلی فلم نوکر (1955) اور آخری فلم اک نکاح ہور سہی (1982) تھی۔
    مینا شوری کی آمد
    1956ء میں پاکستانی فلمی تاریخ میں پہلی بار بڑی تعداد میں نئے فنکاروں کی آمد ہوئی تھی۔ ان میں بھارت سے آئی ہوئی تین اداکارائیں بھی تھیں جن میں سینئر اداکارہ اور گلوکار خورشید (فلم فنکار) کے علاوہ اداکارہ ریحانہ (فلم وحشی) اور مینا شوری بھی تھی جو اپنے ہندو شوہر روپ کے شوری کے ساتھ فلم مس 56ء (1956) میں کام کرنے کے لیے آئی اور یہیں کی ہو کر رہ گئی تھی۔ اس نے دو دھائیوں تک ہیروئن ، سائیڈ ہیروئن ، ویمپ اور کیریکٹرایکٹر کرداروں میں کام کیا تھا۔
    بہار کی آمد
    اداکارہ بہار کو انور کمال پاشا کی سپرہٹ نغماتی پنجابی فلم چن ماہی (1956) میں اسلم پرویز کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ فرسٹ ہیروئن کے طور پر بہار کی یہ اکلوتی کامیاب فلم تھی۔ 1968ء تک 40 فلموں میں یہ ملا جلا دور چلا۔ 1973ء میں بہار کی واپسی ماں کے کرداروں میں ہوئی اور 1980 کی دھائی میں "سلطان راہی کی ماں" کے کرداروں میں بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ چار سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔
    شمیم آرا کی آمد
    اسی سال شمیم آرا کو فلم کنواری بیوہ (1956) میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا گیا تھا۔ بریک تھرو فلم سہیلی (1960) سے ملا۔ ساٹھ کی دھائی میں اردو فلموں کی مقبول ترین اداکارہ تھی۔ فلم نائیلہ (1965) سب سے بڑی فلم تھی۔ 1970 کی دھائی سے ایک خاتون ہدایتکارہ کے طور پر بڑی کامیابی ملی۔ لاہور اور کراچی میں بیک وقت ڈائمنڈ جوبلی کرنے والی اردو فلم منڈا بگڑا جائے (1995) بنانے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔
    اعجاز اور حبیب کی آمد
    ایک بھارتی فلم کی نقل میں بنائی جانے والی فلموں ، حمیدہ (1956) میں اعجاز اور فلم لخت جگر (1956) میں حبیب کو ایک جیسا کردار ملا تھا۔ دونوں کے فلمی کیرئر میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ ابتدائی دور میں دونوں اردو فلموں کے مصروف اداکار تھے لیکن 1967ء میں اکمل کی موت کے بعد پنجابی فلموں کے مقبول ترین ہیرو ثابت ہوئے۔
    اکمل بطور ہیرو
    متعدد فلموں میں ایکسٹرا کردار کرنے کے بعد اداکار اکمل کو فلم جبرو (1956) میں ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ یاسمین ، ہیروئن تھی۔
    اکمل کو بریک تھرو فلم ہتھ جوڑی (1964) سے ملا جبکہ ملنگی (1965) سب سے بڑی فلم تھی۔ سدھیر کے بعد پنجابی فلموں کے دوسرے سپرسٹار تھے اور عین عروج کے دور میں انتقال کر گئے تھے۔
    دیگر بڑے اداکاروں کی آمد
  • اداکارہ دیبا فلم مس 56ء (1956) میں ایک چائلڈ سٹار کے طور پر نظر آئی۔ 1960 کی دھائی میں اردو فلموں میں شمیم آرا اور زیبا کے بعد تیسری مقبول ترین اداکارہ تھی۔ بطور ہیروئن خاموش رہو (1964) پہلی فلم تھی۔ وحیدمراد نے سب سے زیادہ دیبا ہی کے ساتھ کام کیا تھا۔
  • اردو فلموں کے مقبول ترین مزاحیہ اداکار لہری کی پہلی فلم انوکھی (1955) بھی اسی سال ریلیز ہوئی تھی۔ اسی فلم میں گلوکار احمدرشدی نے بھی پہلی بار نغمہ سرائی کے علاوہ اداکاری بھی کی تھی۔
  • ایک بھارتی اداکارہ شیلا رومانی کو کراچی میں بننے والی فلم انوکھی (1956) میں کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ اس کی اکلوتی پاکستانی فلم تھی۔
  • ساون (فلم کارنامہ) اور سلطان راہی ، ایکشن فلم باغی (1956) میں اپنی جھلک دکھلانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
  • 1956 کے دیگر اداکار

    فضل حق فلم دلا بھٹی (1956) ، حامد فلم حمیدہ (1956) ، چن چن اور تایا برکت فلم ماہی منڈا (1956) ، بٹ کاشر فلم فنکار (1956) ، فیضی فلم سوتیلی ماں (1956) ، رضیہ فلم گڈی گڈا (1956) اور رجنی فلم چن ماہی (1956)
1957

نیلو اور کمال

    فلم دلا بھٹی (1956) میں ایکسٹرا رول میں نظر آنے والی اداکارہ نیلو کو فلم سات لاکھ (1957) سے بریک تھرو ملا۔ فلم ناگن (1959) سے سپرسٹار ہیروئن بنی۔ ساٹھ کی دھائی میں اکلوتی اداکارہ تھی جو اردو اور پنجابی فلموں میں بیک وقت مقبول ہوتی تھی۔
  • بھارتی اداکار راج کپور سے مشابہت رکھنے والے سید کمال نے فلم ٹھنڈی سڑک (1957) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان کے پہلے شوخ ہیرو تھے۔ ساٹھ کی دھائی کے کامیاب ترین اردو فلم ہیرو تھے۔ نئی لیلیٰ نیا مجنوں (1969) کامیاب ترین فلم تھی۔
  • اعجاز کی بطور ہیرو پہلی فلم بڑا آدمی (1957) اور حبیب کی بطور ہیرو پہلی فلم شہرت (1957) بھی اسی سال ریلیز ہوئی تھیں۔
  • اسی سال درپن کو فلم نوراسلام (1957) اور علاؤالدین کو فلم آس پاس (1957) سے بریک تھرو ملا تھا۔
  • 1957 کے دیگر اداکار

    لیلیٰ فلم وعدہ (1957) ، رتن کمار فلم بیداری (1957) ، اسد جعفری فلم وعدہ (1957) ، قاضی واجد فلم بیداری (1957) اور پنڈت شاہد فلم نوراسلام (1957)
1958

مظہر شاہ اور اسد بخاری

    1958ء میں ممتاز ولن اداکار مظہرشاہ کی فلم بے گناہ (1958) میں آمد ہوئی جو "بڑھک کے بادشاہ" کے طور پر بڑے مشہور ہوئے۔ 1960 کی دھائی میں انھوں نے پنجابی فلموں پر راج کیا تھا۔ ان کی ایک ذومعنی بڑھک "میں ٹبر کھا جاں تے ڈکار نہ ماراں۔۔" شاید پاکستانی تاریخ کا خلاصہ ہے۔۔!
    فلم بے گناہ (1958) میں ایک اور نامور ولن اداکار اسد بخاری کی آمد بھی ہوئی تھی۔ ان کا آغاز ہیرو کے طور پر ہوا تھا لیکن بعد میں ایک ولن کے طور پر مشہور ہوئے تھے۔
    مصطفیٰ قریشی کی آمد
    اسی سال ، سندھی فلم پردیسی (1958) ، مصطفیٰ قریشی کی پہلی فلم تھی جنھوں نے 1980 کی دھائی میں بے مثل کامیابی حاصل کی تھی اور فلم مولا جٹ (1979) میں نوری نت کا کردار اور مکالمہ "نواں آیا ایں سوہنیا۔۔؟" ایک روایت بن چکا ہے۔
    مصطفیٰ قریشی کی پہلی اردو فلم لاکھوں میں ایک (1967) اور پہلی پنجابی فلم چار خون دے پیاسے (1973) تھی۔
    رنگیلا کی آمد
    روایت ہے کہ مزاحیہ اداکار رنگیلا پہلی بار فلم چن ماہی (1956) میں نظر آئے لیکن ہدایتکار ایم جے رانا کی فلم جٹی (1958) میں پہلی بار رنگیلا کو اداکاری کرنے کا موقع ملا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب رنگیلا پر عروج آیا تو انھوں نے بھی اپنی فلم دو رنگیلے (1972) میں ہدایتکار ایم جے رانا سے ایک فلم ڈائریکٹر کا رول کروایا تھا۔
    رنگیلا نے ایک مزاحیہ اداکار کے علاوہ فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف ، موسیقار اور گلوکار کے طور پر بھی بے مثل شہرت حاصل کی تھی۔ بریک تھرو فلم ہتھ جوڑی (1964) سے ملا تھا۔ ایک اور لو سٹوری (1999) آخری فلم تھی۔
    سلمیٰ ممتاز کی آمد
    پاکستانی فلموں میں ماں کے روایتی کردار میں سلمیٰ ممتاز کو ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ فلم دربار (1958) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا۔ ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ پیسہ ناچ نچاوے (1990) آخری فلم تھی۔

    1958 کے دیگر اداکار

    حسنہ فلم جان بہار (1958) ، عباس نوشہ فلم رخسانہ (1958) ، ناصرہ فلم توحید (1958) ، زمرد فلم حسرت (1958) ، سلطان فلم گھرجوائی (1958)
1959

علاؤالدین کے عروج کا دور

    علاؤالدین کو فلم کرتار سنگھ (1959) سے ایسی شاندار مقبولیت ملی کہ 1960 کی پوری دھائی میں پاکستانی فلموں پر چھائے رہے۔ جس فلم میں ان کا نام ہوتا تھا ، اس فلم کی باقی کاسٹ کی حیثیت ثانوی ہوتی تھی۔ پاکستان کے پہلے اداکار تھے جنھوں نے ولن اور معاون اداکار کے طور پر کیرئر شروع کیا اور ہیرو بنے۔ پہلے ہی پاکستانی اداکار تھے جس نے سو سے زائد فلموں میں کام کرنے کا سنگ میل عبور کیا تھا۔

    1959 کے دیگر اداکار

    نسیمہ خان فلم جاگو ہوا سویرا (1959) اور ماہ رخ فلم گمراہ (1959)
1960

نیر سلطانہ اور درپن

    بھارت سے آئے ہوئے ہدایتکار ایس ایم یوسف کی پاکستان میں پہلی فلم سہیلی (1960) ایک سپرہٹ گولڈن جوبلی نغماتی فلم تھی۔ حقیقی زندگی میں میاں بیوی ، نیر سلطانہ اور درپن کی جوڑی کی یہ اکلوتی کامیاب فلم تھی۔
    نیر سلطانہ نے پونے دو سو کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بطور ہیروئن ، نیرسلطانہ کی جوڑی حبیب کے ساتھ زیادہ کامیاب رہی تھی۔ اولاد (1962) سب سے کامیاب فلم تھی۔
    درپن کی جوڑی زیادہ تر شمیم آرا کے ساتھ پسند کی گئی تھی۔ نائیلہ (1965) سب سے بڑی فلم تھی۔ درپن نے چھ درجن کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔
    لہری بطور ہیرو
    اردو فلموں کے ممتاز مزاحیہ اداکار لہری کو فلم رات کے راہی (1960) میں شمیم آراء کے ساتھ سیکنڈ ہیرو کاسٹ کیا گیا تھا اور ان پر متعدد گیت بھی فلمائے گئے تھے۔
    لہری صاحب ، جملہ بازی میں بڑے مشہور تھے لیکن اداکاری میں خاصے کمزور تھے ، اسی لیے زندگی بھر کامیڈین ہی رہے اور کبھی ہیرو نہ بن سکے تھے۔ دو سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔
    نغمہ کی آمد
    پنجابی فلموں کی سپرسٹار ہیروئن نغمہ ، پہلی بار فلم رانی خان (1960) میں سلور سکرین پر نظر آئی تھی۔ درجن بھر فلموں میں ثانوی کرداروں کے بعد فلم انسپکٹر 1964) میں فرسٹ ہیروئن کا رول ملا اور ہیرو مزاحیہ اداکار نذر تھے۔ فلم ہتھ جوڑی (1964) سے بریک تھرو ملا اور ایک دھائی تک پنجابی فلموں کی چوٹی کی اداکارہ کے طور پر کام کیا۔ بعد میں معاون اداکارہ کے طور پر بھی کام کیا۔ ساڑھے تین سو سے زائد فلمیں کریڈٹ پر ہیں۔

    1960 کے دیگر اداکار

    زریں پنا ، ڈئر اصغر فلم غریب (1960) ، نینا فلم کلرک (1960) ، صابرہ سلطانہ فلم انصاف (1960) چھم چھم فلم عزت (1960) ، نرالا فلم اور بھی غم ہیں (1960)
1961

فردوس کی آمد

    پنجابی فلموں کی سپرسٹار ہیروئن فردوس نے ایک ایکسٹرا کے طور پر متعدد فلموں میں کام کیا تھا۔ دستیاب معلومات کے مطابق فلم گل بکاؤلی (1961) میں پہلی بار نظر آئی تھی۔ چند فلموں میں معاون اداکارہ کے بعد فلم ملنگ (1964) میں فرسٹ ہیروئن کے طور کاسٹ ہوئی۔ علاؤالدین پہلے ہیرو تھے۔ فلم ملنگی (1965) سے بریک تھرو ملا۔ آخری فلم دا جنگل بادشاہ (1991) تھی۔ تکمیل کے پچاس سال بعد ریلیز ہونے والی فلم سجرا پیار (2016) میں اس کے ہیرو اکمل تھے۔
    منورظریف کی آمد
    فلم ڈنڈیاں (1961) میں پاکستان کے عظیم مزاحیہ اداکار منورظریف کو متعارف کروایا گیا تھا۔ مرکزی کامیڈین ان کے بڑے بھائی ظریف مرحوم تھے۔
    منور ظریف کو رنگیلا کی طرح ، فلم ہتھ جوڑی (1964) سے بریک تھرو ملا تھا۔ ساٹھ کی دھائی میں پنجابی فلموں کے مقبول ترین کامیڈین تھے۔ فلم اج دا مہینوال (1973) میں پہلی بار ہیرو آئے۔ نوکر ووہٹی دا (1974) کامیاب ترین فلم تھی۔ آخری فلم لہو دے رشتے (1980) تھی۔
    پاکستانی فلم میں انگریز اداکارہ
    ہدایتکار خلیل قیصر کی تاریخی فلم عجب خان (1961) میں ایک مارگریٹ نامی انگریز اداکارہ نے اداکاری کی تھی۔ سدھیر ، حسنہ اور طالش اہم کردار تھے۔

    1961 کے دیگر اداکار

    عرش منیر اور سیٹھی فلم انسان بدلتا ہے (1961) ، فومی فلم ہابو (1961) ، گرج بابو فلم بارہ بجے (1961) اور ایم ڈی شیخ فلم فرشتہ (1961)

    1961 کے مرحوم اداکار

    غلام محمد اور علی بابا
1962

زیبا اور محمدعلی کی آمد

    فلم چراغ جلتا رہا (1962) میں اردو فلموں کی کلاسک جوڑی زیبا اور محمدعلی متعارف ہوئے تھے۔ گو اس فلم میں ان کی جوڑی نہیں تھی لیکن فلم ہیڈ کانسٹبل (1964) میں پہلی بار روایتی جوڑی کی صورت میں نظر آئے اور کل 61 فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔ انسان اور آدمی (1970) اور انصاف اور قانون (1971) ، اس جوڑی کی یادگار ترین فلمیں تھیں۔
    اسی فلم میں طلعت حسین اور کمال ایرانی بھی پہلی بار سلور سکرین پر نظر آئے تھے۔
    رانی اور وحید مراد کی آمد
    فلم اولاد (1962) میں وحیدمراد ایک معاون اداکار اور فلم محبوب (1962) میں رانی بطور ہیروئن سامنے آئی تھی۔
    رانی کو ابتدائی دور میں خاصی جدوجہد کرنا پڑی لیکن فلم چن مکھناں (1968) پہلی سپرہٹ فلم تھی۔ نیلو کے بعد دوسری اداکارہ تھی جو اردو اور پنجابی فلموں میں یکساں طور پر کامیاب رہی تھی۔
    شبنم اور رحمان کی آمد
    مشرقی پاکستان کی پہلی کمرشل اردو فلم چندا (1962) میں شبنم ، رحمان ، سلطانہ زمان ، شوکت اکبر ، مصطفیٰ ، سبھاش دتہ اور جلیل افغانی کی آمد ہوئی تھی۔ اس فلم نے کراچی میں گولڈن جوبلی منائی تھی۔

    1962 کے دیگر اداکار

    ترانہ فلم سکھ کا سپنا (1962) ، زلفی فلم حسن و عشق (1962) ، حمید وائن فلم مہتاب (1962) ، محمود علی فلم بنجارن (1962) ، خلیفہ نذیر فلم جمالو (1962) ، ادیب فلم دل میں کالا (1962)
1963

ہیرو سے ولن تک

    اسلم پرویز کی بطور ہیرو آخری کامیاب فلم عشق پر زور نہیں (1963) ریلیز ہوئی تھی۔ وہ پہلے فلمی ہیرو تھے جو اردو فلموں کے ایک کامیاب ولن اداکار ثابت ہوئے تھے۔ اڑھائی سو سے زائد فلموں میں کام کیا جن میں سے پچاس سے زائد فلموں میں ہیرو آئے تھے۔
    دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سال فلم ہمیں بھی جینے دو (1963) میں حنیف نامی اداکار کو ہیرو کے طور پیش کیا گیا تھا۔ چند فلموں میں ہیرو آئے ، پھر معاون اداکاری اور ولن کرداروں سے ہوتے ہوئے ایکسٹرا کرداروں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔
    علاؤالدین بطور ہیرو
    ہدایتکار حیدرچوہدری کی پہلی ہی سپرہٹ نغماتی فلم تیس مار خان (1963) میں علاؤالدین کو پہلی بار ایک سولو ہیرو کے طور پیش کیا گیا تھا۔ وہ پہلے ولن اور معاون اداکار تھے جو ہیرو کے طور پر بھی کاسٹ ہوئے تھے۔
    شیریں کی آمد
    فلم تیس مار خان (1963) میں ہیروئن کے طور پر ایک نئی اداکارہ شیریں کو متعارف کروایا گیا جس کو اپنی پہلی ہی فلم سے زبردست کامیابی ملی تھی۔ اس نے رقص کے دوران ہرنی کی طرح چھلانگیں لگانے کا ایک نیا طریقہ متعارف کروایا تھا جو فلم بینوں کو بے حد پسند آیا تھا۔ تین درجن فلموں میں کام کیا۔ خزانچی (1971) آخری فلم تھی۔
    ساون کا بریک تھرو
    فلم تیس مار خان (1963) ہی اداکار ساون کی بطور ولن پہلی بڑی فلم تھی۔ اردو فلم کارنامہ (1956) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا اور فلم گونگا (1966) سے ٹائٹل رول ملنا شروع ہوئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب پنجابی فلمیں ساون کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھیں۔ پھر زوال پذیر ہوئے اور ایک طویل عرصہ تک ولن اداکار کے طور کام کرتے رہے۔ شیرپتر (2003) آخری فلم تھی۔
    عالیہ اور اقبال حسن کی آمد
    اسی سال فلم اونچے محل (1963) میں عالیہ اور فلم کالا پانی (1963) میں اقبال حسن ، ایکسٹرا کرداروں میں نظر آئے۔ اتفاق سے دونوں کبھی صف اول کے ہیرو ہیروئن نہیں بن سکے لیکن سیکنڈ پیئر کے طور پر 1970 کی دھائی میں ان کی جوڑی بڑی مقبول ہوئی تھی۔ عالیہ کی بطور ہیروئن پہلی فلم دھی رانی (1969) کے ہیرو بھی اقبال حسن ہی تھے۔
    تمنا کی آمد
    اردو فلموں میں ویمپ کے طور پر سب سے زیادہ شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ تمنا کی پہلی فلم دامن (1963) تھی۔ کامیڈین ننھا کے ساتھ جوڑی بڑی مقبول ہوئی تھی۔ ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ آخری فلم دنیا سے کیا ڈرنا (1999) تھی۔

    1963 کے دیگر اداکار

    روزینہ ، طلعت صدیقی فلم ہمیں بھی جینے دو (1963) ، جگی ملک فلم بغاوت (1963) ، البیلا فلم رشتہ (1963) ، راج ملتانی فلم چوڑیاں (1963) ، فریدہ ، گلریز فلم تیس مار خان (1963) ، انورحسین فلم ناچ گھر (1963) ، نبیلہ فلم دلہن (1963) ، خلیل فلم پریت نہ جانے ریت (1963)
1964

محمد علی کو بریک تھرو ملا

    اردو فلموں کے عظیم اداکار محمدعلی کو فلم خاموش رہو (1964) سے بریک تھرو ملا تھا۔
    اسی سال محمدعلی صاحب کی بطور سولو ہیرو اکلوتی پنجابی فلم شیردی بچی (1964) بھی ریلیز ہوئی تھی۔ نیلو ہیروئن تھی۔ محمدعلی کو سپرسٹار کا درجہ فلم آگ کا دریا (1966) سے ملا تھا۔ پونے تین سو فلموں کے قریب کام کیا اور دم مست قلندر (1995) آخری فلم تھی۔
    اکمل کی اکلوتی کامیاب اردو فلم
    اکمل کی بطور ہیرو اکلوتی کامیاب اردو فلم خاندان (1964) بھی اسی سال ریلیز ہوئی تھی۔ اس ملٹی کاسٹ فلم میں حبیب اور محمدعلی کے علاوہ نغمہ اور فردوس بھی تھیں جبکہ بہار مرکزی کردار میں تھیں۔
    طارق عزیز کی آمد
    26 نومبر 1964ء کو پہلی بار لاہور سے پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات شروع ہوئیں۔ پہلا چہرہ طارق عزیز کا تھا جو ہمیشہ ٹی وی کے حوالے سے جانے جاتے تھے لیکن ان کی پہلی فلم خاموش رہو (1964) اس سے قبل ریلیز ہو چکی تھی۔ اس فلم میں ان کا معمولی سا رول تھا لیکن باقاعدگی سے فلم انسانیت (1967) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ تین درجن فلموں میں کام کیا اور آخری فلم ماں بنی دلہن (1988) تھی۔

    1964 کے دیگر اداکار

    حنا فلم خاندان (1964) ، ہارون فلم سنگم (1964) ، سیما فلم لاڈلی (1964) ، نگو فلم عشرت (1964) ، مرزا شاہی فلم شادی (1964) ، سنتوش رسل فلم بیس دن (1964) ، گل رخ فلم (خاموش رہو) ، چنگیزی فلم بیٹی (1964) ، ترنم فلم ماں کا پیار (1964) ، عظیم فلم پیسے (1964) ، سلطانہ اقبال فلم ولایت پاس (1964) ، نصرت آراء فلم چنگاری (1964) ، عرفان کھوسٹ فلم واہ بھئی واہ (1964) اور سلونی فلم غدار (1963)
1965

علاؤالدین کی 100 فلمیں

    ہدایتکار حسن طارق کی سپرہٹ پنجابی فلم پھنے خان (1965) ، علاؤالدین کے فلمی کیرئر کی 100ویں فلم تھی۔ فلموں کی سینچری بنانے والے وہ پہلے پاکستانی اداکار تھے۔
    ندیم کی آمد
    اردو فلموں کے سپرسٹار ہیرو ندیم کی آمد ایک پلے بیک سنگر کے طور پر ڈھاکہ میں بننے والی فلم کیسے کہوں (1965) سے ہوئی تھی۔ شہرت کا باعث مشرقی پاکستان کی سب سے کامیاب اردو/بنگالی فلم چکوری (1967) بنی جس میں بطور اداکار/ہیرو نظر آئے۔ کراچی میں باکس آفس کے کامیاب ترین اداکار تھے۔ دو سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔

    1965 کے دیگر اداکار

    اعجاز اختر فلم بہو بیگم (1965) ، ناہید اور طاہرہ فلم ہڈحرام (1965) ، قوی فلم رواج (1965) ، لاڈلا فلم پھنے خان (1965) ، مینا چوہدری فلم عیدمبارک (1965) ، تانی ، مصطفیٰ ٹنڈ فلم ملنگی (1965) ، ریشماں فلم آخری سٹیشن (1965) ، زاہد خان فلم زمین (1965)

    1965 کے مرحوم اداکار

    اداکار آغا سلیم رضا اور سلطان کھوسٹ
1966

وحید مراد ، سپرسٹار بنے

    ہدایتکار پرویز ملک کی سپرہٹ فلم ارمان (1966) سے اردو فلموں کے ممتاز رومانٹک ہیرو ، وحید مراد کو بھی سپرسٹار کا درجہ ملا۔ دو دھائیوں کے فلمی کیرئر میں سوا سو فلموں میں کام کیا۔ بطور ہیرو پہلی فلم ہیرا اور پتھر (1964) جبکہ آخری فلم زلزلہ (1987) تھی۔
    سپرسٹارز کی اس فہرست میں اگلے سال ندیم کا اضافہ بھی ہوا جس سے ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ اردو فلموں کے پرانے ہیروز میں سے سنتوش ، درپن اور کمال کو نظرانداز کر دیا گیا جبکہ سدھیر ، اعجاز اور حبیب پنجابی فلموں کے سپرسٹارز بن گئے تھے۔ اداکاراؤں میں شمیم آرا ، زیبا اور دیبا ، اردو فلموں کی جبکہ نیلو ، نغمہ اور فردوس ، پنجابی فلموں کی مقبول ترین ہیروئنیں تھیں۔
    کیفی اور غزالہ کی آمد
    اداکار کیفی نے فلم منہ زور (1966) سے بطور ہدایتکار فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ انھیں پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی پنجابی فلم ظلم دا بدلہ (1972) بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سال اداکارہ غزالہ نے بھی فلم باغی سپاہی (1966) سے آغاز کیا تھا۔ 1970 کی دھائی میں ان دونوں نے شادی کر لی تھی۔
    ننھا کی آمد
    اسی سال فلم وطن کا سپاہی (1966) میں مزاحیہ اداکار ننھا نے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ ایک عام مزاحیہ اداکار سے ہیرو بنے اور علی اعجاز کے ساتھ ان کی جوڑی بڑی مقبول ہوئی تھی۔ رنگیلا اور منورظریف کے بعد یہ دوسری جوڑی تھی جو مزاحیہ اداکاروں سے ہیرو بنے۔ 1980 کی دھائی میں ایکشن فلموں کے دور میں زبردستی کامیابی حاصل کی تھی۔ پاکستان کے پہلے اداکار تھے جس نے خودکشی کی تھی۔

    1966 کے دیگر اداکار

    صوفیہ بانو فلم آزادی یا موت (1966) ، لطیف چارلی فلم جوکر (1966) ، چکرم فلم وطن کا سپاہی (1966) ، ماسٹر مراد فلم پردہ (1966) ، شکیل فلم ہونہار (1966) ، خالد اور حیدر فلم ہمراہی (1966)

    1966 کے مرحوم اداکار

    خلیل قیصر
1967

شبانہ کی آمد

    مشرقی پاکستان کی کامیاب ترین اردو/بنگالی فلم چکوری (1967) میں کراچی کے نوجوان گلوکار ندیم کو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم کا ٹائٹل رول اداکارہ شبانہ نے کیا تھا جو اس سے قبل متعدد فلموں میں چھوٹے موٹے رول کر چکی تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد شبانہ نے اپنے آبائی وطن بنگلہ دیش رہنے کو ترجیح دی تھی اور بنگالی فلموں میں وہی مقام حاصل کیا تھا جو پاکستانی اردو فلموں میں شبنم کو حاصل تھا۔
    علی اعجاز کی آمد
    اسی سال فلم انسانیت (1967) میں مزاحیہ اداکار علی اعجاز سامنے آئے۔ اتفاق سے ان کی جوڑی پہلی ہی فلم میں اداکار ننھا کے ساتھ بنی تھی جن کے ساتھ انھوں نے 1980 کی دھائی میں بطور ہیرو بڑا عروج دیکھا تھا۔ فلم دبئی چلو (1979) سے بریک تھرو ملا اور بطور ہیرو سب سے بڑی فلم سالا صاھب (1981) تھی۔ دو سو سے زائد فلموں میں کام کیا اور آخری بار فلم محبتاں سچیاں (2007) میں نظر آئے تھے۔

    1967 کے اداکار

    عطیہ شرف اور کٹھانا فلم وقت کی پکار (1967) ، رشید ظریف فلم دل دیوانہ (1967) ، قربان جیلانی فلم دوراہا (1967) اور ریحانہ صدیقی فلم ہمدم (1967)

    1967 کے مرحوم اداکار

    اکمل اور مایہ دیوی
1968

مسٹر پاکستان ، فلمی ہیرو بنا

    فلم دارا (1968) میں ایک نئے ہیرو نصراللہ بٹ کو متعارف کروایا گیا تھا جو اصل میں ایک باڈی بلڈر تھے اور "مسٹر پاکستان" کے نام سے مشہور تھے۔ مسلسل پانچ فلموں میں ہیرو آئے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پانچوں فلموں میں ہیروئن رانی تھی۔ کچھ عرصہ فلموں سے دور رہے اور واپسی پر ایک ایکسٹرا اداکار بن کر رہ گئے تھے۔ ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں چھوٹ موٹے کردار کیے تھے۔
    مسعود رانا ، بطور ہیرو
    1960 کی دھائی میں پاکستانی فلموں میں گلوکار مسعودرانا ، مقبولیت کے سوا نیزے پر تھے۔ انھیں "پاکستانی رفیع" بھی کہا جاتا تھا۔ اسی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے فلمی ہیرو بننے کا شوق بھی پورا ہوا اور ہدایتکار وحیدڈار نے فلم دو مٹیاراں (1968) میں سلونی کے مقابل سیکنڈ ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ فلم شاہی فقیر (1970) میں غزالہ کے مقابل فرسٹ ہیرو بھی آئے۔ متعدد فلموں میں چھوٹے موٹے کردار کیے لیکن اداکاری کے شعبہ میں ناکام رہے تھے۔

    1968 کے اداکار

    فرزانہ فلم ناخدا (1968) ، مسعود اختر ، صاعقہ اور زرقا فلم سنگدل (1968) ، سہیل فلم چن مکھناں (1968) ، افضال احمد ، خورشید شاہد اور جمیل بسمل فلم دھوپ اور سائے (1968) ، اطہر شاہ خان فلم جگنو (1968) ، فاضل بٹ فلم میرا بابل (1968) ، مہ پارہ ، مشتاق چنگیزی اور ملک انوکھا فلم شیرو فیروز (1968) ، خالد سلیم موٹا فلم کنجوس (1968) ، عقیل فلم پڑوسی (1968) ، الطاف خان فلم شاہی محل (1968) اور منیرظریف فلم سجن پیارا (1968)
1969

نغمہ اور حبیب

    اداکار حبیب ، پاکستان کے پہلے فلمی ہیرو تھے جنھوں نے 100 فلموں میں کام کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ لخت جگر (1956) پہلی فلم تھی۔
    ابتدائی دور میں اردو فلموں کے مقبول ترین ہیرو تھے لیکن اکمل کے انتقال کے بعد پنجابی فلموں کے مصروف ترین اداکار بن گئے اور پونے تین سو کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔
    پنجابی فلموں کی سپرسٹار اداکارہ نغمہ کے ساتھ حبیب کی جوڑی بڑی مقبول ہوئی اور دونوں نے شادی بھی کر لی تھی۔ نغمہ نے اپنے طویل فنی کیرئر میں ساڑھے تین سو سے زائد فلموں میں کام کیا جن میں سے چھ درجن کے قریب فلمیں صرف حبیب کے ساتھ تھیں۔ ات خدا دا ویر (1970) ، ان دونوں کی یادگار ترین نغماتی فلم تھی۔
    رنگیلا کا کارنامہ
    مزاحیہ اداکار رنگیلا نے بطور فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف اور گلوکار کے اردو فلم دیا اور طوفان (1969) بنا کر فلمی دنیا کو چونکا دیا تھا۔ بیشتر اداکار اسے ایک مذاق سمجھتے رہے اور اس کی ڈائریکشن میں کام کرنے سے انکاری تھے لیکن فلم کی سپرہٹ کامیابی کے بعد انگشت بدنداں رہ گئے تھے۔ رنگیلا کا گایا ہوا گیت "گا میرے منوا گاتا جا رے۔۔" بھی ایک سدا بہار گیت ثابت ہوا۔ نغمہ کی بطور ہیروئن یہ واحد کامیاب اردو فلم تھی۔ اعجاز ہیرو تھے۔
    سنگیتا کی آمد
    اداکار اور ہدایتکار رحمان نے ڈھاکہ میں بنائی گئی فلم کنگن (1969) میں اداکار سنگیتا کو متعارف کروایا تھا۔ اس سے قبل فلم کوہ نور (1966) میں چائلڈ سٹار کے طور پر نظر آنے کی روایت بھی ہے۔ سولو ہیروئن کے طور پر کامیابی نہیں ملی اور سائیڈ ہیروئن ہی رہی البتہ بطور ہدایتکارہ زبردست کامیابی ملی۔ فلم سوسائٹی گرل (1976) سے عروج کا دور شروع ہوا۔ مٹھی بھر چاول (1978) یادگار ترین فلم تھی۔

    1969 کے دیگر اداکار

    خالد عباس ڈار فلم دلبر جانی (1969) ، منورسعید ، محمد یوسف فلم گھر داماد (1969) ، افضل خان فلم دلاں دے سودے (1969) ، شکیل فلم کونج وچھڑ گئی (1969) ، نجمہ محبوب فلم جیو ڈھولا (1969) ، جمیل فلم سزا (1969)

    1969 کے مرحوم اداکار

    مزاحیہ اداکار زلفی ، لندن میں انتقال کر گئے۔
1970

فردوس اور اعجاز

    فردوس اور اعجاز کو پاکستان کی فلمی تاریخ کی سب سے بڑی ، کلاسک ، رومانٹک اور نغماتی فلم ہیررانجھا (1970) کے لافانی مرکزی کردار ادا کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ اعجاز اس شاہکار فلم کے پروڈیوسر بھی تھے۔
    پنجابی فلموں کی اس کامیاب ترین جوڑی کی پہلی مشترکہ فلم لائی لگ (1964) اور آخری فلم نادرخان (1975) تھی۔
    فردوس اور اعجاز کی حسین و جمیل جوڑی نے 34 فلموں میں ایک ساتھ کام کیا اور بیشتر فلمیں کامیاب رہیں۔ ایک مختصر عرصہ کے لیے شادی بھی کی تھی۔ اتفاق سے دونوں کا انتقال بھی آگے پیچھے ہوا تھا۔
    بدرمنیر کا منفرد ریکارڈ
    1970ء میں پاکستان میں پشتو فلموں کا آغاز ہوا اور پہلی ہی فلم یوسف خان شیربانو (1970) سے اداکار بدرمنیر کو ایسی مرکزی حیثیت حاصل ہوئی کہ تین دھائیوں تک ساڑھے چار سو فلموں میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
    اسی فلم سے آغاز کرنے والی اداکارہ یاسمین خان کے ساتھ سو اور نعمت سرحدی کے ساتھ بدرمنیر نے دو سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا جبکہ آصف خان کے ساتھ ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔
    رنگیلا بطور ہیرو
    رنگیلا نے ایک بار فلمی حلقوں کو حیران کرتے ہوئے بطور فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف ، اپنے ہی نام کی فلم رنگیلا (1970) میں خود کو ہیرو کے رول میں پیش کر کے ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا تھا۔
    نشو کی آمد
    ہدایتکار اقبال شہزاد نے فلم بازی (1970) میں ایک نئی اداکارہ نشو کو محمدعلی اور ندیم کے مقابل متعارف کروایا تھا۔ پہلی ہی کامیاب فلم سے 1970 کی دھائی میں اردو فلموں کی مقبول ترین ہیروئن تھی لیکن پہچان فلم رنگیلا (1970) میں اس پر فلمایا ہوا مشہور زمانہ گیت "وے سب توں سوہنیا۔۔" رہا۔ آخری فلم انوکھا پیار (1994) تھی۔
    آسیہ کی آمد
    اداکارہ آسیہ نے فلم انسان اور آدمی (1970) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ دو سو فلموں کے قریب کام کیا۔ ابتدائی دور میں اردو فلموں میں چھوٹے موٹے رول کیے لیکن رنگیلا کی دو فلموں دل اور دنیا (1971) اور دو رنگیلے (1972) سے مقبولیت ملی۔ 1974ء کے بعد سے پنجابی فلموں کی ہو کر رہ گئی تھی۔ سلطان راہی کے ساتھ پچاس سے زائد فلموں میں کام کیا اور مولاجٹ (1979) جیسی تاریخ ساز فلم کی ہیروئن بھی تھی۔

    1970 کے دیگر اداکار

    ناظم فلم شمع پروانہ (1970) ، ضیاء محی الدین اور نمو فلم مجرم کون (1970) ، رزاق فلم پائل (1970) ، وسیم فلم گھونگھٹ لائیو کنوار (1970) ، سبحانی بایونس فلم آشنا (1970) ، جمشید انصاری فلم سوغات (1970) ، شائستہ قیصر فلم ماں تے ماں (1970)

    1970 کے مرحوم اداکار

    ماسٹر غلام قادر (لاہور کی پہلی فلم ڈاٹر آف ٹوڈے (1927) کے ہیرو)
1971

وحیدمراد کی پہلی پنجابی فلم

    اردو فلموں کے سپرسٹار رومانٹک ہیرو ، وحیدمراد نے بطور فلمساز اور ہیرو اپنی پہلی پنجابی فلم مستانہ ماہی (1971) میں نغمہ اور عالیہ کو مرکزی کرداروں میں لیا تھا۔
    ممتاز اور شاہد کی آمد
    1970 کی دھائی میں اردو فلموں کے چوتھے سپرسٹار ہیرو شاہد کی پہلی فلم آنسو (1971) تھی۔ اسی سال ممتاز نے ایک ڈانسر کے طور پر فلم سلام محبت (1971) سے آغاز کیا اور 1970 کی دھائی میں آسیہ کے بعد پنجابی فلموں کی دوسری مقبول ترین ہیروئن بن گئی تھی۔
    آصف خان کی آمد
    بدرمنیر کے بعد پشتو فلموں میں ، آصف خان ، دوسرا بڑا نام تھے جو ایک ورسٹائل اور ویسٹرن سٹائل اداکار تھے اور بیک وقت پشتو ، اردو اور پنجابی فلموں میں مقبول تھے۔ ہیرو کے علاوہ ولن اور معاون اداکار کے طور پر بھی کام کیا تھا۔ فلم درہ خیبر (1971) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا اور ساڑھے چار سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ ارباز خان کے والد ہیں۔
    ہمایوں قریشی کی آمد
    ہمایوں قریشی نے فلم کیریر کا آغاز پشتو فلم بہادر خان (1971) سے بطور ہیرو کیا تھا۔ پہلی اردو فلم بلیک کیٹ (1977) تھی اصل شہرت پنجابی فلموں سے ملی۔ دو چور (1977) پہلی پنجابی فلم تھی۔ 1980/90 کی دھائیوں میں مصطفیٰ قریشی کے بعد پنجابی فلموں میں ولن کے طور پر سب سے مقبول ترین اداکار تھے۔ اداکارہ سنگیتا سے شادی کی تھی۔

    1971 کے دیگر اداکار

    اورنگزیب فلم کبڑا عاشق (1971) ، ثریا خان ، عشرت چوہدری ، عمردراز فلم درہ خیبر (1971) ، سلیم ناصر ، آصفہ فلم العاصفہ (1971) ، عاصم بخاری ، ظفر مسعود فلم خاموش نگاہیں (1971) ، ببیتا فلم جلتے سورج کے نیچے (1971) ، مینا داؤد ، بدیع الزمان فلم یار بادشاہ (1971) ، چکوری فلم محبوب مٹھا (1971) ، جمال فلم گرہستی (1971) ، مجید ظریف فلم سیاں (1971) ، رضوان واسطی فلم انصاف اور قانون (1971)

    1971 کے مرحوم اداکار

    شاہ نواز
1972

سلطان راہی کا عروج

    فلم باغی (1956) سے ایک ایکسٹرا کے طور پر آغاز کرنے والے سلطان راہی نے 1960 کی دھائی میں معاون اداکار کے طور پر کام کیا تھا۔ پھر ولن کے طور پر کامیابی ملی۔ فلم بشیرا (1972) سے بریک تھرو ملا اور مرکزی کرداروں میں آنے لگے۔ وحشی جٹ (1975) سے ایکشن فلموں کی پہچان بن گئے اور مولاجٹ (1979) سے بطور ہیرو ایسا عروج ملا جو ان کی 1996ء میں موت تک جاری رہا۔

    1972 کے دیگر اداکار

    وحیدہ خان فلم خلش (1972) ، افشاں قریشی فلم جانور (1972) ، خانم فلم بازار (1972) ، تنظیم حسن فلم بدلے گی دنیا ساتھی (1972) ، بادل فلم دولت اور دنیا (1972) ، رینوکا دیوی (بیگم خورشید مرزا) فلم محبت (1972) ، شاہ نواز گھمن فلم من کی جیت (1972) ، امروزیہ فلم علاقہ غیر (1972) ، نازلی فلم انتقام (1972)

    1972 کے مرحوم اداکار

    نگو (قتل) ، ببو ، ریاض شاہد
1973

رنگیلا اور منورظریف

    رنگیلا کے بعد منورظریف ، پاکستان کے دوسرے مزاحیہ اداکار تھے جو فلم اج دا مہینوال (1973) میں پہلی بار مکمل ہیرو کے طور پر نظر آئے۔ عالیہ ، ہیروئن تھی۔
    ان دونوں عظیم مزاحیہ فنکاروں کو بریک تھرو فلم ہتھ جوڑی (1964) سے ملا تھا۔ سو کے قریب فلموں میں ایک ساتھ نظر آئے۔ واحد فلمی جوڑی ہے جس کے نام پر ایک کامیاب فلم رنگیلا اور منورظریف (1973) بھی بنائی گئی تھی۔
    اسی سال ایک اور معروف مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر بھی ایک اردو فلم مستانہ (1973) میں ہیرو آئے لیکن ناکام رہے تھے۔ ہیروئن آسیہ تھی۔

    1973 کے دیگر اداکار

    انتیا فلم مسٹربدھو (1973) ، مزلہ فلم آرپار (1973) ، فخری احمد فلم خواب اور زندگی (1973) ، محبوب عالم فلم سورٹھ (1973) ، عشرت ہاشمی فلم نام کے نواب (1973) ، ظاہر شاہ ، لیاقت میجر فلم جوارگر (1973) ، ساجن فلم انہونی (1973)

    1973 کے مرحوم اداکار

    کٹھانا
1974

بابرہ شریف کی آمد

    ہدایتکار ایس سلیمان کی فلم انتظار (1974) میں بابرہ شریف کی آمد ہوئی جس نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت اردو فلموں میں شبنم کے بعد دوسرا بڑا مقام حاصل کیا۔ ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔ فلم سلاخیں (1977) میں جذباتی اداکاری میں صبیحہ خانم کی یاد تازہ کر دی تھی۔ آخری فلم گھائل (1997) تھی۔ ایک مختصر عرصہ تک اداکار شاہد سے شادی بھی کی تھی۔
    کویتا کی آمد
    فلم دو بدن (1974) سے فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والی اداکارہ کویتا ، اداکارہ سنگیتا کی چھوٹی بہن تھی۔ ستر سے زائد فلموں میں کام کیا۔ اردو فلموں میں شبنم اور بابرہ شریف کے بعد تیسری مقبول ترین ہیروئن ہوتی تھی۔ 1990 کی دھائی میں پنجابی فلموں میں بھی کام کیا۔ میاں بیوی راضی (1982) کامیاب ترین فلم تھی۔ آخری فلم جنگلی میرا نام (1994) تھی۔
    جاوید شیخ کی آمد
    فلم دھماکہ (1974) سے فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والے جاوید شیخ کو کامیابی کے لیے ٹی وی ڈرامہ "ان کہی" کا انتظار کرنا پڑا۔ ہدایتکا نذر شباب کی فلم کبھی الوداع نہ کہنا (1983) سے کامیابیوں کا سفر شروع ہوا اور گولڈن جوبلی منانے کے قریب ہیں۔ 1980 کی دھائی میں اردو فلموں کے زوال کے بعد پنجابی فلموں میں بھی بڑے مقبول رہے۔
    اردو فلموں کے تینوں سپرسٹارز
    ہدایتکار اقبال اختر کی فلم پھول میرے گلشن کا (1974) میں پہلی بار اردو فلموں کے تینوں سپرسٹارز ، محمدعلی ، وحیدمراد اور ندیم ، ایک ساتھ دیکھے گئے تھے۔ زیبا اور ممتاز ہیروئنیں تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو فلموں کے ان تینوں سپرسٹارز کی کل تین مشترکہ فلمیں ہیں جن میں دیگر دونوں شمع (1974) اور جب جب پھول کھلے (1975) تھیں۔

    1974ء کے دیگر اداکار

    غلام محی الدین فلم دل والے (1974) ، معین اختر فلم تم سا نہیں دیکھا (1974) ، خالد نظامی فلم حقیقت (1974)

    1974ء کے مرحوم اداکار

    رفیق غزنوی ، ناصر خان ، رشید ظریف
1975

بابرہ شریف اور غلام محی الدین کا اعزاز

    ہدایتکار شباب کیرانوی کی اردو فلم میرا نام ہے محبت (1975) کو چین میں بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا جہاں یہ فلم اتنی مقبول ہوئی کہ روایت ہے کہ بابرہ شریف اور غلام محی الدین کے مجسمے بنا کر سجائے گئے اور ان کے دورہ چین کے دوران انھیں VIP پروٹوکول ملا تھا۔
    بطور سولو ہیرو ، غلام محی الدین کی یہ اکلوتی کامیاب فلم تھی۔ پہلی فلم دل والے (1974) تھی۔ دو سو سے زائد فلموں میں کام کرنے کے باوجود ایک معاون ہیرو سے آگے نہ بڑھ سکے۔ 1980/90 کی دھائیوں میں پنجابی فلموں میں بڑے مقبول تھے۔

    1975ء کے دیگر اداکار

    جمیل فخری فلم بے اولاد (1975) ، رومانہ فلم اصلی تے نقلی (1975) ، نجمہ فلم خانزادہ (1975) ، مسرت شاہین فلم اج دی گل (1975) ، شجاعت ہاشمی فلم چھڈ برے دی یاری (1975) ، روحی بانو فلم پالکی (1975) ، دلدار پرویز بھٹی فلم بلونت کور (1975) ، نمی فلم دلہن ایک رات کی (1975) ، سویٹی فلم زنجیر (1975)

    1975ء کے مرحوم اداکار

    ایم اسماعیل
1976

ٹی وی اداکاروں کی آمد

    1970 کی دھائی میں فلموں کے علاوہ ٹیلی ویژن بھی بڑا مقبول ہو چکا تھا۔ ٹی وی فنکاروں کو بھی عوام میں بڑی پذیرائی مل رہی تھی۔ ایسے میں بہت سے فلمسازوں نے چھوٹی سکرین کے اداکاروں کو بڑی سکرین پر پیش کرنے کا رسک لیا۔ زیادہ تر ناکام رہے ، کچھ کامیاب بھی رہے۔
    راحت کاظمی کی پہلی فلم آج اور کل (1976) ، ایک ڈائمنڈ جوبلی ہوئی تھی ، ہیروئن شبنم تھی۔ عثمان پیرزادہ کی فلم سازش (1976) ، سری لنکا کے ساتھ بنائی جانے والی پہلی مشترکہ فلم تھی جس کی ہیروئن بھی وہیں سے لی گئی تھی۔ ان کے علاوہ طلعت اقبال ، معاون ہیرو کے طور پر فلم آگ اور آنسو (1976) میں کاسٹ ہوئے تھے۔

    1976ء کے دیگر اداکار

    دردانہ رحمان فلم راجہ جانی (1976) ، زبیر فلم شگناں دی مہندی (1976)

    1976ء کے مرحوم اداکار

    منور ظریف ، نعیم ہاشمی
1977

شبنم اور ندیم کی جوڑی

    اردو فلموں کی مقبول ترین جوڑی شبنم اور ندیم کی فلم آئینہ (1977) نے کراچی میں 401 ہفتے چلنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ پہلی فلم تم میرے ہو (1968) اور آخری فلم اولاد کی قسم (1997) تھی۔ اس جوڑی نے کل 50 فلموں میں کام کیا تھا جن میں صرف تین فلمیں ایسی تھیں جس میں سولو جوڑی نہیں تھے۔
    اعجاز بطور ولن
    فلم اپریل فول (1977) میں ممتاز فلمی ہیرو اعجاز ، مکمل ولن کے طور پر نظر آئے۔ ہیرو طارق شاہ اور ہیروئن آسیہ تھی۔

    1977 کے دیگر اداکار

    بندیا فلم بیگم جان (1977) ، طارق شاہ فلم اپریل فول (1977) ، نوین تاجک فلم اج دیاں کڑیاں (1977) ، شہلا گل فلم بلیک کیٹ فلم (1977)

    1977 کے مرحوم اداکار

    صادق علی
1978

وحید مراد بطور ولن

    اردو فلموں کے سپرسٹار رومانٹک ہیرو ، وحیدمراد کو ہدایتکار نذرالاسلام نے فلم شیشے کا گھر (1978) میں ولن کے طور پر پیش کیا تھا۔ ممتاز اور شاہد روایتی جوڑی تھے۔
    دوسری نسل کے فنکار
    فلم دشمن کی تلاش (1978) میں پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر نے اپنے بیٹے زمان خان کو بابرہ شریف کے ساتھ ہیرو کے طور پر پیش کیا لیکن ناکام رہے تھے۔ اس فلم میں پاکستان کی پہلی سپرسٹار ہیروئن ، صبیحہ خانم نے ویمپ کا رول کیا تھا۔

    1978 کے دیگر اداکار

    سجاد کشور فلم دل کے داغ (1976) ، شفیع محمد فلم کورا کاغذ (1978) ، آصف رضا میر فلم پرنس (1978)

    1978 کے مرحوم اداکار

    نصرت کاردار
1979

سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی جوڑی

    ہدایتکار یونس ملک کی بلاک باسٹر ایکشن فلم مولا جٹ (1979) کی کامیابی سے سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی ، پنجابی فلموں کی ضرورت بن گئے تھے۔ پاکستان فلم میگزین کے فلم ڈیٹا بیس کے غیر حتمی اعدادوشمار کے مطابق ، ان دونوں نے 163 فلموں میں ایک ساتھ کام کیا جن میں سے صرف 9 اردو فلمیں تھیں۔ پہلی فلم آسرا (1969) اور آخری خر دماغ گجر (2003) تھی۔
    ننھا اور علی اعجاز کی جوڑی
    اسی جٹ دور میں علی اعجاز اور ننھا کی جوڑی نے متبادل تفریح کی صورت پیدا کر دی تھی۔ فلم دبئی چلو (1979) نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ اس جوڑی کی 85 فلموں کا ریکارڈ ملتا ہے۔ انسانیت (1967) پہلی اور پسوڑی بادشاہ (1991) آخری فلم تھی۔
    انجمن کی آمد
    اداکارہ انجمن کی بطور ہیروئن پہلی فلم وعدے کی زنجیر (1979) ریلیز ہوئی تھی۔ اصل میں فلم خوفناک (1974) میں پہلی بار نظر آئی تھی۔ ابتدائی چند اردو فلموں کے بعد وہ پنجابی فلموں میں ایسی مقبول ہوئی کہ دو سو کے قریب فلموں میں کام کیا جن میں سے آدھی سے زائد فلمیں صرف سلطان راہی کے ساتھ تھیں۔ 1981ء کی عید پر انجمن کی پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے تین ڈائمنڈ جوبلی فلمیں تھیں۔

    1979 کے دیگر اداکار

    عابد علی فلم خاک و خون (1979) ، عابد کاشمیری فلم دبئی چلو (1979) ، انور اقبال فلم دوستاں جو پیار (1979) ، ناصر چن فلم مس ہانگ کانگ (1979)

    1979 کے مرحوم اداکار

    نبیلہ
1980

فیصل اور ایاز کی آمد

    ہدایتکار نذرالاسلام نے ایک ایسے دور میں جب ندیم کی اردو فلموں پر اجارہ داری ہوتی تھی ، فلم نہیں ابھی نہیں (1980) میں بیک وقت دو نئے ہیرو ، فیصل اور ایاز ، متعارف کروا دیے تھے۔ فیصل کو اردو فلموں میں خاصی کامیابی ملی لیکن ایاز نے زیادہ کام نہیں کیا۔

    1980 میں دیگر اداکار

    بازغہ فلم صائمہ (1980) ، طاہرہ نقوی فلم بدلتے موسم (1980) ، فردوس جمال فلم رشتہ (1980) ، آرزو فلم نہیں ابھی نہیں (1980) ، نورمحمد لاشاری فلم حاضر سائیں (1980)

    1980 میں مرحوم اداکار

    درپن
1981

وسیم عباس اور آغا سکندر

    ٹی وی اداکاروں کی فلموں میں آمد جاری تھی۔ ممتاز گلوکار اور اداکار عنایت حسین بھٹی کے صاحبزادے وسیم عباس کی بطور ہیرو پہلی ہی فلم منزل (1981) ، پلاٹینم جوبلی کر گئی تھی لیکن پھر فلمیں ناکام ہونا شروع ہوگئیں۔ ان کے بہنوئی اداکار آغا سکندر بھی فلموں میں آئے لیکن ناکام رہے۔

    1981 کے دیگر اداکار

    خیام سرحدی فلم منزل (1981) ، نگہت بٹ فلم ریشم (1981) ، انور خان فلم شیر میدان دا (1981) ، زینت یاسمین فلم کرن اور کلی (1981) ، اورنگزیب لغاری ، اسماعیل تارا ، ماجد جہانگیر فلم فاصلے (1981) ، کوکب ڈار فلم یہ زمانہ اور ہے (1981)

    1981 کے مرحوم اداکار

    آصفہ ، ظفر مسعود
1982

ایک باڈی بلڈر ہیرو کے طور پر

    اردو فلموں کے زوال کے دور میں بہت سے ہاتھ پاؤں مارے گئے۔ ایک تجربہ اور بھی کیا گیا۔ اس دور کے ایک باڈی بلڈر ناصر چن ، فلم ایجنٹ 009 (1982) میں ہیرو کے طور پر آئے لیکن متاثر نہیں کر سکے تھے۔

    1982 کے دیگر اداکار

    اسلم لاٹر فلم آس پاس (1982) ، گوری فلم ذرا سی بات (1982) ، شاہدہ منی فلم مرزا جٹ (1982)

    1982 کے مرحوم اداکار

    سنتوش ، شمیم ، نجم الحسن ، کمار ، طاہرہ نقوی
1983

سبیتا کی آمد

    پاکستان کی فلمی تاریخ میں سری لنکا کی نامور ادکارہ سبیتا ، واحد غیر ملکی اداکارہ تھی جو پاکستانی اردو فلموں میں بے حد کامیاب ہوئی تھی۔ بطور سولو ہیروئن اس کی فلم بوبی (1984) نے ڈائمنڈ جوبلی کی تھی۔
    امان اللہ خان کی آمد
    لاہور سٹیج کے بے تاج بادشاہ امان اللہ خان کو پہلی بار فلم وڈا خان (1983) میں موقع ملا لیکن متاثر نہیں کر سکے تھے۔ اس فلم کا ٹائٹل رول اردو فلموں کے عظیم ہیرو محمدعلی صاحب نے کیا تھا اور وہ بھی ناکام رہے۔

    1983 کے دیگر اداکار

    سونیا ، وکی فلم دو بھیگے بدن (1983) ، شیری ملک فلم ٹینا (1983) ، سیمی زیدی فلم کائنات (1983) ، روحی خان فلم دہلیز (1983)

    1983 کے مرحوم اداکار

    وحید مراد ، علاؤالدین ، نذیر ، نجمہ محبوب ، فضل حق ، آغا دلراج ، نورمحمد چارلی
1984

شبانہ اور ندیم کا ملاپ

    پاکستان اور بنگلہ دیش کی پہلی مشترکہ فلم بسیرا (1984) میں ایک بار پھر ماضی کی کامیاب جوڑی ، شبانہ اور ندیم کا ملاپ ہوا تھا۔ ہدایتکار ندیم صاحب کے خسر احتشام ، فلم کے ہدایتکار تھے۔
    اعجاز کی واپسی
    لندن کی جیل یاترا سے واپسی پر اداکار اعجاز نے بطور فلمساز ایک سپرہٹ پنجابی فلم شعلے (1984) بنائی جس میں خود انھوں نے ایک پولیس آفیسر کا رول کیا تھا جبکہ اس وقت کی پنجابی فلموں کی ضرورت سلطان راہی ، مصطفیٰ قریشی اور انجمن مرکزی کردار تھے۔

    1984 کے دیگر اداکار

    بہروز سبزواری فلم خوش نصیب (1984) ، عارفہ صدیقی فلم ایسا بھی ہوتا ہے (1984) ، بابر فلم بارود (1984) ، سکندر شاہین فلم بوبی (1984) ، شہباز اکمل ، ستارہ فلم دل ماں دا (1984)

    1984 کے مرحوم اداکار

    اقبال حسن ، اسلم پرویز ، ہمالیہ والا
1985

غیر ملکی اداکاروں کی مقبولیت

    1980 کی دھائی میں پاکستانی فلمساز ، بنگلہ دیش ، نیپال اور سری لنکا کے تعاون سے اردو فلمیں بنا رہے تھے۔ ایسے میں بہت سے غیرملکی فنکار ، پاکستان میں مقبول ہوئے۔ ان میں نیپالی اداکار شیوا (پہلی فلم ہم سے ہے زمانہ) سب سے مقبول ترین ہیرو تھے جبکہ ان کے ساتھ سشما شاہی (پہلی فلم زمین آسمان) کو تو پاکستان ایسا بھایا کہ ہدایتکار اقبال کاشمیری کے ساتھ شادی کر کے پاکستان ہی کی ہو کر رہ گئی تھی۔
  • ان کے علاوہ ترکی کی ایک پرکشش اداکارہ نازاں سانچی نے بھی فلم ہلچل (1985) میں کام کیا تھا۔ کسی ترکی فنکار کی کسی پاکستانی فلم میں یہ پہلی آمد تھی۔
  • سلمیٰ آغا کی آمد
    سلمیٰ آغا ، ماضی کی اداکارہ شاہینہ کی بیٹی اور رفیق غزنوی کی نواسی تھی جس نے فلم ہم اور تم (1985) سے پاکستانی فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ قبل ازیں ، وہ ایک بھارتی فلم نکاح سے بڑی شہرت حاصل کر چکی تھی۔ دو درجن فلموں میں کام کرنے کے علاوہ اداکار جاوید شیخ سے شادی بھی کی تھی۔ بازارحسن (1988) کامیاب ترین فلم تھی۔ آخری فلم گھنگھرو و کلاشنکوف (1993) تھی۔
    ریما کی آمد
    ہدایتکار اقبال کاشمیری کی فلم قسمت (1985) میں اداکارہ ریما نے ایک چائلڈ سٹار کے طور پر فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ بطور ہیروئن پہلی فلم بلندی (1990) تھی جو شان کی بھی پہلی فلم تھی۔ نوے کی دھائی میں خاصی کامیابی حاصل کی تھی۔ ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ منڈا بگڑا جائے (1995) کامیاب ترین فلم تھی۔ اب تک کی آخری فلم صنم (2015) تھی۔
    عرفان کھوسٹ ہیرو بنے
    پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور زمانہ ڈرامہ وار سیریل "اندھیرا اجالا" سے بے مثل شہرت حاصل کرنے والے مزاحیہ اداکار عرفان کھوسٹ نے بطور ہدایتکار اور اداکار پہلی فلم ڈائریکٹ حوالدار (1985) بنائی جو بڑی کامیاب رہی۔ اپنی دوسری فلم چن ماہی (1987) میں ممتاز کے ساتھ ہیرو بھی آئے لیکن ناکام رہے۔ ان کی پہلی فلم واہ بھئی واہ (1964) تھی۔

    1985 کے دیگر اداکار

    عابد بٹ فلم ڈائریکٹ حوالدار (1985) ، عرفان ہاشمی فلم باہو جھلا (1985) ، سپنا فلم جگاور (1985)

    1985 کے مرحوم اداکار

    چنگیزی ، عیدن بائی
1986

نیلی اور نادرہ کی آمد

    1986ء میں فلمی کاروبار اپنے انتہائی عروج پر تھا اور سو سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ اسی سال ہدایتکار یونس ملک نے انجمن سے ایک تنازعہ کے بعد دو نئی ہیروئنیں متعارف کروا دیں جو نیلی (فلم آخری جنگ) اور نادرہ (فلم نشان) کے نام سے مشہور ہوئیں۔
    اسماعیل شاہ اور اظہار قاضی کی آمد
    اسی سال دو نئے ہیرو اسماعیل شاہ (فلم باغی قیدی) اور اظہار قاضی (فلم روبی) بھی سامنے آئے جبکہ کراچی سٹیج کے بے تاج بادشاہ عمر شریف (فلم حساب) بھی کامیڈین کے طور پر فلموں میں آئے تھے۔
    ننھا کی خودکشی
    ننھا ، پہلے پاکستانی اداکار تھے جنھوں نے خودکشی کی تھی۔

    1986 کے دیگر اداکار

    ثمینہ پیرزادہ فلم شادی میرے شوہر کی (1986) ، منزہ شیخ فلم مس بنکاک (1986)

    1986 کے مرحوم اداکار

    چن چن ، ساقی ، محمد حنیف آزاد
1987

سدھیر اور وحیدمراد کی آخری فلمیں

    اردو فلموں کے عظیم رومانٹک ہیرو وحید مراد کی آخری ریلیز شدہ فلم زلزلہ (1987) تھی جس میں ان کی جوڑی رانی کے ساتھ تھی۔ فلم کے مرکزی کردار سدھیر اور سلطان راہی تھے۔
    دلچسپ اتفاق ہے کہ اسی سال پاکستان کے پہلے سپرسٹار اور ایکشن ہیرو ، سدھیر کی آخری فلم بھی ریلیز ہوئی جو سن آف ان داتا (1987) تھی۔ سدھیر صاحب اپنی اس آخری فلم میں بھی مرکزی کردار میں تھے اور سلطان راہی نے منفی کردار کیا تھا۔

    1987 کے دیگر اداکار

    جہانزیب فلم چوروں کی بارات (1987) ، محمدعلی شہکی فلم سن آف ان داتا (1987) ، کنول فلم چن ماہی (1987) ، محمود اسلم فلم دنیا (1987) ، فرید نواز بلوچ فلم گریبان (1987)

    1987 کے مرحوم اداکار

    مینا شوری
1988

1988 کے اداکار

    1988کے دیگر اداکار

    خوشبو فلم ماں بنی دلہن (1988) ، راشد محمود فلم ڈاکو کی لڑکی (1988) ، ندا ممتاز فلم برداشت (1988)

    1988کے مرحوم اداکار

    اجمل
1989

زیبا کی آخری فلم

    اردو فلموں کی سپرسٹار ہیروئن ، زیبا کی عرصہ دس سال بعد ریلیز ہونے والی فلم محبت ہو تو ایسی (1989) ، آخری فلم ثابت ہوئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زیبا کی پہلی فلم چراغ جلتا رہا (1962) اور اس آخری فلم کے علاوہ کل فلموں کی تعداد کا دو تہائی اور مسلسل 54 فلموں میں صرف اپنے شوہر محمدعلی کا ساتھ تھا۔ زیبا نے آخری بار فلم پاکیزہ (1968) میں اعجاز کی ہیروئن کا رول کیا تھا اور اتفاق سے اس فلم میں محمدعلی نے ولن کا رول کیا جو زیبا کی آبروریزی کرتا ہے۔۔!
    شفقت چیمہ کی آمد
    پاکستانی فلموں کے آخری بڑے ولن اداکار شفقت چیمہ نے فلم کالکا (1989) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ سلطان راہی ہیرو تھے۔

    1989کے دیگر اداکار

    شکیلہ قریشی فلم دشمنوں کے دشمن (1989) ، عجب گل فلم قیامت سے قیامت تک (1989) ، گلاب چانڈیو فلم دشمن (1989)

    1989کے مرحوم اداکار

    مظہرشاہ ، اے آر کاردار ، ممتاز شانتی ، رینوکا دیوی (بیگم خورشید مرزا) ریکھا ، کمال ایرانی ، سلیم ناصر ، زرقا
1990

صائمہ اور شان کی آمد

    1990ء میں صائمہ اور شان متعارف ہوئے جو اب تک کی آخری بڑی روایتی فلمی جوڑی ہے۔ اس جوڑی کی سو سے زائد مشترکہ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ پہلی مشترکہ فلم نادرہ (1991) تھی۔ مجاجن (2006) سب سے بڑی فلم ثابت ہوئی تھی۔

    1990 کے دیگر اداکار

    سہیل احمد فلم گوری دیاں جھانجھراں (1990) ، سہیل اصغر فلم جنگجو گوریلے (1990)

    1990 کے مرحوم اداکار

    حنیف ، نرالا ، نینا ، رفیق ٹنگو ، شیخ اقبال
1991

البیلا ٹائٹل رول میں

    معروف مزاحیہ اداکار البیلا کو فلم وارداتیا (1991) میں ٹائٹل رول دیا گیا تھا لیکن وہ فلموں میں رنگیلا منورظریف اور ننھا علی اعجاز جیسی کامیابی سے محروم رہے تھے۔ فلم رشتہ (1963) پہلی فلم تھی لیکن 1980 کی دھائی میں فلموں میں مقبولیت ملی تھی۔
    شان کے بھائی سروش نے بھی فلموں میں قسمت آزمائی کی لیکن ناکام رہے۔

    1991ء میں نئے اداکار

    حنا شاہین فلم ریاض گجر (1991) ، رستم فلم عشق (1991) ، سروش فلم پیار ہی پیار (1991)

    1991 کے مرحوم اداکار

    اے شاہ شکار پوری ، نظام دین ، شاہ نواز گھمن
1992

عمر شریف بطور ہیرو

    کراچی سٹیج کے بے تاج بادشاہ عمرشریف کی بطور کامیڈین پہلی فلم حساب (1986) تھی۔ چند فلموں بعد فلم مسٹر 420 (1992) میں پہلی بار ہیرو آئے اور ٹرپل رول کیا۔ اس فلم کے ہدایتکار اور مصنف بھی تھے اور اداکارہ روبی نیازی کو متعارف بھی کروایا تھا۔ تین درجن سے زائد فلموں میں کام کیا۔ آخری فلم چاند بابو (1999) تھی۔
    صاحبہ اور جان ریمبو کی آمد
    اداکارہ نشو کی بیٹی ، صاحبہ نے فلم عشق رہنا سدا (1992) اور ایک ٹی وی ڈرامہ سے شہرت حاصل کرنے والے ڈانسر اداکار ، جان ریمبو نے فلم ہیرو (1992) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا۔ منڈا بگڑا جائے (1995) سب سے بڑی فلم تھی۔ دو درجن سے زائد مشترکہ فلمیں ہیں۔ دونوں نے آگے چل کر شادی بھی کی۔
    شاہد خان کی آمد
    پشتو فلموں میں بدرمنیر کے بعد جس اداکار کو بے پناہ شہرت ملی وہ شاہد خان ہیں جو پہلی بار فلم قیامت شپہ (1992) میں آئے تھے۔ دو سو سے زائد فلموں میں کام کرچکے ہیں۔ چند اردو اور پنجابی فلموں میں بھی کام کیا۔ 2007ء میں پہلی بار اردو فلم جھومر اور پنجابی فلم مرشد بادشاہ میں بھی نظر آئے تھے۔

    1992 کے دیگر اداکار

    حیدر سلطان فلم ببرا (1992) ، سلیم شیخ فلم دنیا دس نمبری (1992)

    1992 کے مرحوم اداکار

    اسماعیل شاہ ، نیرسلطانہ ، نذر
1993

معین اختر بطور ہیرو

    ٹیلی ویژن اور سٹیج کے مقبول کمپئر اور کامیڈین معین اختر پہلی بار ، تم سا نہیں دیکھا (1974) جیس سپرفلاپ فلم میں نظر آئے تھے۔ فلم راز (1992) سے فلمی دنیا میں واپسی ہوئی۔ مسٹر تابعدار (1993) میں پہلی بار ٹائٹل رول میں ہیرو آئے لیکن اپنی غیرضروری اوورایکٹنگ کی وجہ سے بری طرح سے ناکام رہے۔ فلم مسٹر کے ٹو (1995) کی ناکامی کے بعد فلموں سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔
    پتر منور ظریف دا
    "زندہ ہاتھی لاکھ کا ، مردہ سوا لاکھ کا" کے مصداق عظیم کامیڈین منور ظریف اپنے انتقال کے بعد سب سے زیادہ یاد کیے گئے۔ ان کی زندگی ہی میں فلم کے ٹائٹل پر ان کا نام استعمال ہوا جو رنگیلا کے بعد دوسرا موقع تھا لیکن موت کے بعد اگر کسی اداکار کا نام فلم کے ٹائٹل میں استعمال ہوا ہے تو وہ صرف منور ظریف ہی ہیں۔
    حاجی عبدالرشید شیرا نے پرانی فلموں کو نئے لیبل سے چلایا اور خوب کمایا۔ منورظریف کے بیٹے فیصل کو ہیرو لے کر فلم پتر منورظریف دا (1993) بھی بنا ڈالی۔ ایک اور فلمساز نے پتر جیرے بلیڈ دا (1994) میں بھی فیصل کو ہیرو لیا لیکن وہ اپنے عظیم باپ کو کاپی نہ کر سکا اور گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو کر اپنے باپ اور تایا کی طرح جوانی ہی میں فوت ہو گیا تھا۔

    1991 کے دیگر اداکار

    نرگس فلم ڈنڈا پیر (1993) ، ثنا ، زیبا شہناز فلم واہ کیا بات ہے (1993) ، سعود فلم گناہ (1993)

    1993 کے مرحوم اداکار

    رانی ، گل زمان ، ابو شاہ
1994

عابد کاشمیری بھی ہیرو

    ٹی وی کے ایک نامور مزاحیہ اداکار عابد کاشمیری نے بھی اپنا نام ہیروز کی صف میں لکھوا لیا جب انھیں فلم محلے دار (1994) میں ریما کے ساتھ ہیرو آنے کا موقع ملا۔ پہلی فلم سارجنٹ (1977) تھی جبکہ پانچ درجن سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔

    1994 کے مرحوم اداکار

    آصف جاہ ، دلدار پرویز بھٹی ، محبوب عالم
1995

عدنان سمیع خان

    عدنان سمیع خان نے بطور گلوکار ، موسیقار اور اداکار ، ہدایتکار سید نور کی شاہکار نغماتی فلم سرگم (1995) میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ فلم کی ہیروئن زیبا بختیار کے علاوہ مہاراج غلام حسین کتھک جیسے مستند کلاسیکل موسیقار مرکزی کرداروں میں تھے۔
    ریشم اور بابر علی کی جوڑی
    ہدایتکار سید نور کی فلم جیوا (1995) میں ریشم اور بابر علی کی جوڑی بے حد پسند کی گئی تھی۔ ریشم کو بعد میں اپنی جذباتی ادکاری کی وجہ سے پسند کیا گیا اور بابرعلی کو پنجابی فلموں میں ولن کے رول قبول کرنا پڑے۔
    محمدعلی کی آخری فلم
    اردو فلموں کے عظیم ہیرو محمدعلی کی آخری فلم دم مست قلندر (1995) ریلیز ہوئی تھی۔

    1995 کے دیگر اداکار

    میرا فلم مشکل (1995) ، عتیقہ اوڈھو فلم جو ڈر گیا وہ مر گیا (1995)

    1995 کے مرحوم اداکار

    نادرہ ، مسعودرانا ، اسد جعفری ، اقبال یوسف ، فخری احمد ، محمد یوسف
1996

پنجابی فلموں کا جنازہ

    9 جنوری 1996ء کو پنجابی فلموں کے سلطان ، سلطان راہی کو نامعلوم افراد نے قتل کر کے پنجابی فلموں کا جنازہ نکال دیا تھا۔
    معمر رانا اور ارباز خان کی آمد
    فلم کڑیوں کو ڈالے دانہ (1996) میں ایک نئے ہیرو معمررانا کو متعارف کروایا گیا جو شان کے بعد دوسرے کامیاب ترین ہیرو ثابت ہوئے۔ فلم چوڑیاں (1998) سب سے بڑی فلم تھی۔
    فلم گھونگھٹ (1996) میں معروف پشتو اداکار آصف خان کے بیٹے ارباز خان کو متعارف کروایا گیا تھا۔ وہ پشتو فلموں کے چوٹی کے اداکار ثابت ہوئے اور اداکارہ خوشبو کے شوہر ہیں۔

    1996 میں دیگر اداکار

    نرما فلم بازی گر (1996)

    1996 کے مرحوم اداکار

    سلطان راہی ، خالدہ ریاست ، بالی جٹی ، زرین ، قربان جیلانی
1997

شبنم کی آخری فلم

    اردو فلموں کی عظیم ہیروئن ، شبنم کی آخری فلم اولاد کی قسم (1997) ریلیز ہوئی۔ اس فلم بھی شبنم کے ساتھ ندیم ، ثانوی کرداروں میں تھے جبکہ ریما اور بابر علی روایتی جوڑی تھے۔

    1997 کے اداکار

    نیر اعجاز فلم چاند گرہن (1997)

    کے مرحوم اداکار

    سدھیر ، حمید وائن ، خان عطاالرحمان ، نورمحمد لاشاری
1998

طالش اور ساون کا انتقال ہوا

    1998ء میں پاکستانی فلموں کے دو ہیوی ویٹ اداکاروں ، طالش اور ساون کے علاوہ پہلی ہیروئن آشا پوسلے کا انتقال ہوا۔

    1998ء کے نئے اداکار

    جاناں ملک فلم محافظ (1998) ، فخرعالم فلم ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ (1998)

    1998ء کے مرحوم اداکار

    طالش ، ساون ، آشا پوسلے ، مزلہ ، عرش منیر ، مہاراج غلام حسین کتھک ، ڈئر اصغر ، محسن رضوی
1999

ہمایوں سعید کی آمد

    فلم جوانی پھر نہیں آنی (2015) اور پنجاب نہیں جاؤں گی (2017) سے شہرت حاصل کرنے والے ٹی وی اداکار ہمایوں سعید نے ربع صدی کے فلمی کیرئر میں صرف 14 فلموں میں کام کیا ہے۔ ان کی پہلی فلم ہدایتکار ثمینہ پیرزادہ کی فلم انتہا (1999) تھی۔

    1999ء کے مرحوم اداکار

    عنایت حسین بھٹی ، ایس گل ، یاسمین خان
2000

ملکہ ترنم نورجہاں کا انتقال ہوا

    پاکستان میں 13 فلموں میں ہیروئن کے طور پر کام کرنے والی ملکہ ترنم نورجہاں کا 23 دسمبر 2000ء کو انتقال ہو گیا تھا۔

    2000ء کے اداکار

    زارا شیخ ، وینا ملک فلم تیرے پیار میں (2000)

    2000ء کے مرحوم اداکار

    ملکہ ترنم نورجہاں ، عابد خان
2001

شان کے انتہائی عروج کا دور

    شان نے ایک ایکشن ہیرو کے طور پر انتہائی عروج حاصل کیا اور سال کی ریلیز شدہ تقریباً آدھی فلموں میں ہیرو آئے۔ صائمہ بھی انتہائی عروج پر رہی۔

    2001ء کے مرحوم اداکار

    خورشید ، رانی کرن ، شمی ، فرید نواز بلوچ
2002

یوسف خان کی واپسی

    فلم بڈھا گجر (2002) کی زبردست کامیابی کے بعد یوسف خان ایک بار پھر فلموں کی ضرورت بن گئے تھے۔

    2002ء کے مرحوم اداکار

    نگہت سلطانہ ، انور حسین ، لطیف کپاڈیا ، یاسمین اسماعیل
2003

امداد حسین کا انتقال

    ایکسٹرا اداکاروں کے چیمپئن ، اداکار اور گلوکار امداد حسین کا انتقال ہوا۔ وہ زندگی بھر چھوٹے موٹے کرداروں سے آگے نہیں بڑھ سکے تھے۔

    2003ء کے مرحوم اداکار

    امداد حسین ، شوکی خان ، شہزادی
2004

سلطان راہی کی آخری فلم

    دستیاب معلومات کے مطابق سلطان راہی کی آخری ریلیز ہونے والی فلم دشمن دا کھڑاک (2004) تھی۔

    2004ء کے مرحوم اداکار

    البیلا ، سکندر شاہین ، ارسلان
2005

رنگیلا اور رحمان کا انتقال ہوا

    پاکستان کے عظیم مزاحیہ اداکار ، گلوکار ، فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف ، موسیقار اور تقسیم کار رنگیلا کے علاوہ مشرقی پاکستان کی اردو فلموں کے ممتاز ہیرو رحمان کا انتقال ہوا۔

    2005ء کے مرحوم اداکار

    رنگیلا ، رحمان ، خلیفہ نذیر ، سبحانی بایونس ، جمشید انصاری ، جمیل بسمل ، عشرت ہاشمی ، عذرا شیروانی ، اسلم لاٹر
2006

محمد علی کا انتقال ہوا

    پاکستان کے عظیم فلمی ہیرو ، محمد علی کا 19 مارچ 2006ء کو انتقال ہو گیا تھا۔

    2006ء کے مرحوم اداکار

    محمدعلی ، ادیب ، جگی ملک ، جمال ، سکیدار ، رومانہ ، ساجن ، پپو ظریف ، طارق جاوید
2007

فواد خان کی آمد

    ہدایتکار شعیب منصور کی فلم خدا کے لیے (2007) میں ایک معاون کردار سے فلمی کیرئر شروع کرنے والے فواد خان کی اب تک کی سب سے بڑی فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ (2022) تھی۔ انھوں نے ٹی وی ڈراموں کے علاوہ بھارتی فلموں میں بھی کام کیا ہے۔

    2007ء کے مرحوم اداکار

    راگنی ، الیاس کاشمیری ، زینت ، اظہار قاضی ، شفیع محمد ، منی باجی ، راشد
2008

بدرمنیر کا انتقال ہوا

    پشتو فلموں کے عظیم ہیرو ، بدرمنیر کا 11 اکتوبر 2008ء کو انتقال ہوا۔

    2008ء کے مرحوم اداکار

    بدرمنیر ، سورن لتا ، ملک انوکھا ، انور سولنگی ، نمی ، نجمہ بیگم ، اکبر ، محمود علی
2009

3 بڑے ہیرو فوت ہوئے

    اردو فلموں کے پہلے شوخ ہیرو سید کمال ، پنجابی فلموں کے سپرسٹار یوسف خان اور پاکستان کے پہلے کامیاب ترین ہدایتکار اور ہیرو کیفی کا انتقال ہوا۔

    2009ء کے مرحوم اداکار

    کمال ، یوسف خان ، کیفی ، حمید چوہدری ، ظہور احمد ، جاوید حسن ، کومل ، نصراللہ بٹ
2010

سلونی اور چکوری کا انتقال

    ماضی کی ممتاز اداکارہ سلونی کے علاوہ مولا جٹ (1979) سے لازوال شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ چکوری کا انتقال ہوا۔
2011

مائرہ خان اور عاطف اسلم

    ہدایتکار شعیب منصور کی فلم بول (2011) سے فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والی ٹی وی اداکارہ مائرہ خان نے ایک دھائی میں ایک درجن فلموں میں کام کیا ہے۔ اب تک کی سب سے بڑی فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ (2022) ہے۔
    اسی فلم میں نامور گلوکار عاطف اسلم نے بھی اداکاری کی تھی۔

    2011ء کے دیگر اداکار

    حمائمہ ملک فلم بول (2011) ، آمنہ شیخ فلم لو میں گم (2011)

    2011ء کے مرحوم اداکار

    معین اختر ، طارق شیخ ، ناظم ، عقیل ، زاہد خان ، لطیف چارلی ، جمیل فخری ، ببو برال ، مستانہ ، لیاقت سولجر ، رضوان واسطی ، خیام سرحدی
2012

لہری کا انتقال ہوا

    اردو فلموں کے ممتاز کامیڈین لہری کا طویل علالت کے بعد انتقال ہوا۔

    2012ء کے مرحوم اداکار

    لہری ، سلمیٰ ممتاز ، مجید ظریف ، الطاف خان ، تمنا ، مشتاق چنگیزی ، طاہرہ واسطی ، سلطانہ زمانہ ، ابراہیم نفیس
2013

حمزہ علی عباسی کی آمد

    فلم میں ہوں شاہد آفریدی (2013) سے فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والے حمزہ علی عباسی کی اب تک کی سب سے بڑی فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ (2022) ہے۔

    2013ء کے اداکار

    عائشہ خان فلم شرابی (2013) ، ماہ نور بلوچ فلم لمحہ (2013) ، سمیعہ ممتاز فلم زندہ بھاگ (2013)

    2013ء کے مرحوم اداکار

    زبیدہ خانم ، آسیہ ، عابد بٹ ، جہانگیر خان ، انور حسین
2014

مہوش حیات کی آمد

    صرف سات فلموں بعد "تمغہ امتیاز" حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے والی ٹی وی اداکارہ مہوش حیات نے فلم نامعلوم افراد (2014) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ پنجاب نہیں جاؤں گی (2017) کامیاب ترین فلم تھی۔

    2014ء کے دیگر اداکار

    فہد مصطفیٰ ، محسن عباس حیدر ، عروا حسین فلم نامعلوم افراد (2014) ، مہرین راحیل فلم پیاسا (2014)

    2014ء کے مرحوم اداکار

    منیر ظریف ، خلیل ، غیور اختر
2015

بشریٰ انصاری کی فلموں میں آمد

    ٹی وی کی ممتاز فنکارہ بشریٰ انصاری نے فلم جوانی پھر نہیں آنی (2015) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ اب تک صرف دو فلموں میں کام کیا ہے۔

    2013ء کے اداکار

    بشریٰ انصاری فلم جوانی پھر نہیں آنی (2015) ، صبا قمر فلم منٹو (2015)
2016

شمیم آرا اور حبیب کا انتقال ہوا

    ماضی کی فلمی جوڑی شمیم آرا اور حبیب کا 2016ء میں انتقال ہوا۔

    2016ء کے اداکار

    صنم سعید فلم بچانا (2016) ، عثمان مختار فلم جنان (2016)

    2016ء کے مرحوم اداکار

    شمیم آرا ، حبیب ، عمردراز ، رتن کمار ، لاڈلا
2017

رزاق کا انتقال ہوا

    "مشرقی پاکستان کی اردو فلموں کے آخری فلمی ہیرو" رزاق کا 21 اگست 2017ء کو انتقال ہوا۔

    2017ء کے اداکار

    شہروز سبزواری فلم چین آئے نہ (2017)

    2017ء کے مرحوم اداکار

    رزاق ، خواجہ اکمل ، ظاہر شاہ ، تنظیم حسن ، دلجیت مرز
2018

علی ظفر بطور ہیرو

    معروف گلوکار علی ظفر کو فلم طیفا ان ٹربل (2018) میں ہیرو کے طور پر کاسٹ کیا گیا۔ مایا علی ہیروئن تھی۔

    2018ء کے مرحوم اداکار

    علی اعجاز ، چکرم ، قاضی واجد ، اختر شاد
2019

روحی بانو اور عابد علی کا انتقال ہوا

    ٹی وی کے لیجنڈری فنکار روحی بانو اور عابد علی کا انتقال ہوا۔

    2019ء کے مرحوم اداکار

    روحی بانو ، عابد علی ، سیما ، فیصل منورظریف ، لیاقت میجر ، گلاب چانڈیو
2020

صبیحہ اور فردوس کا انتقال ہوا

    دو عظیم ادکاراؤں ، صبیحہ خانم اور فردوس کا انتقال ہوا۔

    2020ء کے مرحوم اداکار

    صبیحہ ، فردوس ، طارق عزیز ، مہ پارہ ، اسد بخاری ، اطہر شاہ خان ، ریحان ، امان اللہ خان ، ریشماں
2021

نیلو اور اعجاز کا انتقال ہوا

    پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم زرقا (1969) کی جوڑی ، نیلو اور اعجاز کا 2021ء میں انتقال ہوا۔

    2021ء کے مرحوم اداکار

    نیلو ، اعجاز ، عمر شریف ، شوکت علی ، سہیل اصغر ، طلعت اقبال ، دردانہ بٹ ، طلعت صدیقی ، انور اقبال
2022

افضال احمد کا انتقال ہوا

    سٹیج سے فلم میں آنے والے دو بڑے فنکاروں ، افضال احمد اور مسعود اختر کا انتقال ہوا۔

    2022ء کے مرحوم اداکار

    افضال احمد ، مسعوداختر ، نیلوفر ، رشید ناز ، سجاد کشور
2023

قوی کا انتقال ہوا

    ممتاز اداکار قوی کا 2023ء میں انتقال ہوا۔

    2023 کے مرحوم اداکار

    قوی ، ضیاء محی الدین

(پاکستانی اداکاروں کی ٹائم لائن کے اس مضمون کی طوالت اور فائل کے انتہائی وزنی ہونے کی وجہ سے عبارت میں اندرونی لنکس نہیں لگائے جا رہے البتہ تصاویر کو کلک کیا جا سکتا ہے۔ اداکاروں کے علاوہ دیگر سبھی فنکاروں اور فلموں پر جملہ معلومات پاکستان فلم میگزین کے فلم ہسٹری کے سالانہ صفحات پر اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہیں)۔





241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.