Pakistan Film History
An Urdu/Punjabi article on the timeline of Pakistani actors.
1948 | پہلی فلمی ہیروئن
پہلا فلمی ہیرو
فلمی ہیروز میں سے نذیر ، سدھیر ، سنتوش ، مسعود ، نجم الحسن ، ظہور راجہ ، صادق علی ، سریش اور رضا میر کی موجودگی میں ناصر خان کو پاکستان کے پہلے فلمی ہیرو ہونے کا منفرد حاصل ہوا تھا۔ وہ اپنے دوست ہدایتکار لقمان کی فلم شاہدہ (1949) میں کام کرنے کے لیے لاہور آئے تھے۔ اس دوران سیٹھ دل سکھ پنچولی نے اپنی فلم تیری یاد (1948) میں ہیرو لیا اور ریکارڈ ٹائم میں مکمل کر کے اس فلم کو پہلے ریلیز کر دیا تھا۔
ناصر خان کا منفرد ریکارڈناصر خان کی بڑی پہچان تو اپنے عظیم بھائی دلیپ کمار تھے لیکن پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے ہیرو ہونے کے علاوہ انھیں ، بھارت کی پہلی فلم شہنائی (1947) کے ہیرو ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ یہ فلم جمعہ 15 اگست 1947ء کو ریلیز ہوئی جو پاکستان اور بھارت کی آزادی کا پہلا دن تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کی ہیروئن ریحانہ تھی جو بعد میں پاکستان چلی آئی اور فلم رات کے راہی (1960) اس کی یادگار فلم تھی۔ پہلے سائیڈ ہیرو/ہیروئن
فلم تیری یاد (1948) میں اداکار جہانگیرخان کو پہلے سائیڈ ہیرو اور اداکارہ نجمہ کو پہلی سائیڈ ہیروئن کے کردار ملے تھے۔جہانگیر خان نے چند فلموں میں کام کیا جن میں فلم چن وے (1951) میں سنتوش کی موجودگی میں نورجہاں کے ہیرو تھے لیکن کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ اداکار شامل خان کے والد تھے۔ اداکارہ نجمہ ، تقسیم سے قبل کی اداکارہ تھی۔ پاکستان میں چند فلموں میں کام کیا۔ پہلی فلم ہچکولے (1949) تھی جو پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر کی پہلی فلم بھی تھی۔ فلمساز باری ملک سے شادی کر کے فلمی دنیا چھوڑ دی تھی۔ پہلا مزاحیہ اداکار
نذر کو پاکستان کا پہلا مزاحیہ اداکار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے بھی تقسیم سے قبل اپنے فلمی کیریر کا آغاز کیا اور لاہور کے مستقل فنکار ہونے کی وجہ سے پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) میں کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ تقسیم کے بعد مزاحیہ فنکاروں میں اے شاہ ، نورمحمد چارلی اور غوری بھی پاکستان چلے آئے تھے جبکہ ظریف بھی تقسیم سے قبل لاہور ہی میں اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کر چکے تھے۔
پہلی معاون اداکارہ
اداکارہ رانی کرن کو پاکستان کی فلموں میں پہلی معاون اداکارہ کا رول ملا تھا۔ وہ ، فلم تیری یاد (1948) کی ہیروئن آشا پوسلے کی بہن تھی۔ اس نے زیادہ فلموں میں کام نہیں کیا تھا۔تقسیم سے قبل کی دیگر معاون اداکاراؤں میں ببو ، بیگم پروین ، نفیس بیگم ، کلاوتی ، مایہ دیوی ، ریکھا ، کملا اور زینت وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔ فلم تیری یاد (1948) کے دیگر اداکاراداکارہ شعلہ اور لاہور کی پہلی فلم ڈاٹرز آف ٹوڈے (1927) کے ہیرو غلام قادر |
1949 | پہلی سپرہٹ فلمی جوڑی
اس سے قبل پاکستان میں اپنی پہلی فلم سچائی (1949) میں فلم کی مرکزی جوڑی ہونے کے علاوہ سورن لتا کو پاکستان کی پہلی خاتون فلمساز اور نذیر کو پہلے ہدایتکار/اداکار ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ یہ دونوں میاں بیوی ، 1940 کی دھائی میں بمبئی کی فلموں کے نامور فنکار تھے۔ پاکستان کی دوسری گولڈن جوبلی سپرہٹ اردو فلم نوکر (1955) بھی ان کی ایک یادگار فلم تھی۔ سوال (1966) آخری مشترکہ فلم تھی۔ پہلے سپرسٹار ہیرو
پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو ، سدھیر کی پہلی فلم ہچکولے (1949) تھی۔ تقسیم سے قبل ، لاہور ہی میں پہلی فلم فرض (1947) میں کام کر چکے تھے۔سدھیر ، پاکستان کے ابتدائی دور کے سب سے کامیاب ہیرو تھے۔ 1950 کی دھائی کی کل پانچ اردو گولڈن جوبلی فلموں میں سے چار کے ہیرو ہونے کے علاوہ تینوں بلاک باسٹر پنجابی فلموں کے ہیرو کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پاکستان کے واحد اداکار ہیں جنھیں اپنے چالیس سالہ فلمی کیرئر میں ہمیشہ مرکزی کرداروں میں کاسٹ کیا گیا تھا۔ اپنی آخری فلم سن آف ان داتا (1987) میں بھی مرکزی کردار میں تھے۔ پہلے کامیاب ولن اداکار
ہمالیہ والا ، پاکستان کے پہلے نامور ولن اداکار تھے۔ یہ اعزاز انھیں ، غلام محمد ، اجمل ، سلیم رضا ، شاہ نواز ، علاؤالدین ، طالش اور الیاس کاشمیری کی موجودگی میں حاصل ہوا تھا۔ فلم شاہدہ (1949) ، پاکستان میں پہلی فلم تھی جبکہ فلم انارکلی (1958) میں شہنشاہ اکبر کا کردار بڑا یادگار تھا۔ دو درجن سے زائد فلمیں کریڈٹ پر ہیں۔ آخری فلم یہودی کی لڑکی (1963) تھی۔ تقسیم سے پہلے کے اداکار تھے اور درجن بھر فلموں میں کام کر چکے تھے۔
پہلے معاون اداکار
پاکستان کے سب سے سینئر اداکار ایم اسماعیل نے تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی پہلی فلم ڈاٹرز آف ٹوڈے (1927) میں کام کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد ان کی پہلی فلم ہچکولے (1949) تھی۔ آخری فلم مان جوانی دا (1976) تھی۔تقسیم سے قبل کے دیگر معاون اداکاروں میں غلام قادر ، ظہور شاہ ، گل زمان ، مجید ، آزاد ، شیخ اقبال ، جی این بٹ ، کمار ، ریحان اور شاکر وغیرہ شامل تھے۔ الیاس کاشمیری
فلم مندری (1949) سے ہیرو کے طور پر فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والے الیاس کاشمیری نے طویل فلمی سفر میں معاون اداکاری کے علاوہ منفی کرداروں میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ اپنے قدبت اور رعب و دبدبے کی وجہ سے ایک ظالم جاگیردار کے روپ میں ایک آئیڈیل اداکار تھے۔ فلم ضدی (1973) سے عروج حاصل کیا۔ چار سو سے زائد فلموں میں نظر آئے۔ آخری فلم طوفان (2002) تھی۔
1949 کے دیگر اداکارشمیم ، شاکر ، جی این بٹ ، بیگم پروین ، نفیس بیگم فلم شاہدہ (1949) ، اجمل ، ظہورشاہ ، اختری فلم ہچکولے (1949) ، مجید ، محمدحنیف آزاد فلم سچائی (1949) ، ظریف ، کلاوتی ، امداد حسین فلم دو کنارے (1949) ، علاؤالدین ، زینت ، شیخ اقبال ، مایہ دیوی فلم پھیرے (1949) ، راگنی ، غلام محمد ، نورمحمد چارلی ، آغا سلیم رضا فلم مندری (1949) |
1950 | صبیحہ اور سنتوش
صبیحہ خانم کی اپنے شوہر سنتوش کے ساتھ پاکستان کی پہلی کامیاب رومانٹک فلمی جوڑی بنی تھی جس نے بہت سی کامیاب فلموں میں کام کیا تھا۔ اتفاق سے ان دونوں کی پہلی مشترکہ فلم بیلی (1950) تھی جبکہ پہلی سلور جوبلی اردو فلم دو آنسو (1950) کی روایتی جوڑی بھی تھے۔ اس جوڑی کی واحد گولڈن جوبلی فلم دامن (1963) تھی۔ سنتوش نے تقسیم کے قبل بھی بمبئی کی دو فلموں میں کام کیا تھا اور 1950 کی دھائی میں سدھیر کے بعد دوسرے سپرسٹار فلمی ہیرو تھے۔ بطور ہیرو آخری کامیاب فلم لوری (1966) تھی۔ اداکارہ شمی کا اعزاز
اداکارہ شمی ، پاکستان کی پہلی اداکارہ تھی جس نے اپنے ہی نام کی فلم شمی (1950) میں ٹائٹل رول کیا تھا۔ یہ اس کی پہلی فلم بھی تھی۔ سنتوش روایتی ہیرو تھے۔ ہدایتکار منشی دل کی اس اردو/پنجابی فلم کی فلمساز ملکہ پکھراج تھیں جو گلوکارہ طاہرہ سید کی والدہ تھیں۔ درجن بھر فلموں میں کام کیا۔ آخری بار اپنے شوہر سدھیر کی فلم بغاوت (1963) میں نظر آئی تھی۔
پہلے پاکستانی ہیرو
اداکارہ درپن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد دریافت ہونے والے پہلے بڑے فلمی ہیرو تھے۔ فلم امانت (1950) پہلی فلم تھی۔ تین فلموں میں کام کرنے کے بعد بھارت چلے گئے تھے لیکن ناکامی کے بعد پاکستان واپس چلے آئے اور چھ درجن کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔ لاابالی طبیعت کے مالک تھے۔ سہیلی (1960) کامیاب ترین فلم تھی۔ بطور ہیرو آخری فلم جواب دو (1974) تھی۔
1950 کے دیگر اداکارظہورراجہ فلم جہاد (1950) ، یاسمین فلم بیلی (1950) ، ریکھا اور شاہ نواز فلم ہماری بستی (1950) ، آصف جاہ فلم دو آنسو (1950) ، صادق علی فلم جدائی (1950) ، ایس گل فلم بے قرار (1950) ، ببو اور غوری فلم شمی (1950) |
1951 | نورجہاں کی واپسی
روایت ہے کہ اس فلم کے اصل ہدایتکار ان کے شوہر شوکت حسین رضوی تھے لیکن انھیں ایک پنجابی فلم کے ہدایتکار کے طور پر اپنا نام دینے میں توہین محسوس ہوتی تھی۔ اس نغماتی فلم میں نورجہاں کے ہیرو سنتوش کی بجائے جہانگیرخان تھے۔ پاکستان کے پہلے ناکام ہیرو/ہیروئن
اداکار مسعود ، پاکستان کے پہلے ناکام ترین ہیرو تھے جنھوں نے دس فلموں میں کام کیا جو سبھی ناکام رہیں۔ تقسیم سے قبل کے فنکار تھے۔ پاکستان میں پہلی فلم غیرت (1951) تھی۔ اپنی آخری فلم زنجیر (1960) کے فلمساز اور ہدایتکار بھی تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تقسیم سے قبل کی لاہور کی سپرسٹار ہیروئن ، راگنی کی بطور ہیروئن بھی یہ آخری فلم تھی اور وہ بھی پاکستان میں ایک ناکام ہیروئن ثابت ہوئی تھی۔ مندری (1949) پہلی فلم تھی جبکہ نوکر (1955) واحد کامیاب فلم تھی لیکن ایک ویمپ کے طور پر۔ 1951 کے دیگر اداکارنینا فلم اکیلی (1951) ، نجم الحسن فلم عید (1951) اور ساحرہ فلم ہم وطن (1951) |
1952 | پہلے غیر مسلم ہیرو
فلم دوپٹہ (1952) ، پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر کی پہلی بڑی فلم تھی جس میں سائیڈ ہیرو ہونے کے باوجود پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔ اس فلم نے بھارتی شہروں میں بھی دھوم مچا دی تھی اور پاکستان کی پہلی سپرہٹ اردو فلم ثابت ہوئی تھی۔ طالش کی آمد
پاکستان کے عظیم آل راؤنڈ اداکار آغا طالش نے پنجابی فلم نتھ (1952) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ تقسیم سے قبل کے فنکار تھے۔ پاکستانی فلموں میں بھاری بھر کم بین الاقوامی معیار کے کرداروں کے لیے مشہور تھے۔ فلم شہید (1962) ، فرنگی (1964) اور زرقا (1969) ، ان کے کریڈٹ پر بہت بڑی بڑی فلمیں تھیں۔
1952 کے دیگر اداکارابو شاہ فلم شعلہ (1952) اور ریحان فلم نویلی (1952) |
1953 | عنایت حسین بھٹی
فریدہ خانم کی فلم
فلم سیلاب (1953) میں ملکہ غزل فریدہ خانم نے ایک ثانوی رول کیا اور ان پر زینت بیگم اور نذیر بیگم کے گائے ہوئے گیت فلمائے گئے تھے۔1953 کے دیگر اداکارسلطان کھوسٹ فلم برکھا (1953) ، نگہت سلطانہ فلم محبوبہ (1953) |
1954 | یوسف خان کی آمد
1954 کے دیگر اداکارنسرین فلم گمنام (1954) ، گل زمان فلم سسی (1954) |
1955 | مسرت نذیر اور اسلم پرویز
ظریف ، ٹائٹل رول میں
اداکار ظریف کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھوں نے ایک کامیڈین سے ترقی کرتے ہوئے فلم پاٹے خان (1955) کا ٹائٹل رول کیا۔ ان کی ہیروئن مشہور گلوکارہ زبیدہ خانم تھیں۔ مرکزی جوڑی نورجہاں اور اسلم پرویز کی تھی۔ظریف ، پہلے نامور فنکار تھے جو عین عروج کے دور میں انتقال کر گئے تھے۔ پہلے صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار تھے۔ دو کنارے (1949) پہلی فلم تھی۔ چار درجن فلموں میں کام کیا تھا۔ آخری فلم مفت بر (1961) تھی۔ 1955 کے دیگر اداکاراے شاہ فلم نوکر (1955) ، ایمی مینوالا فلم سوہنی (1955) ، رخسانہ فلم ہماری زبان (1955) ، رخشی فلم جلن (1955) ، نصرت کاردار فلم انتقام (1955) ، ساقی فلم التجا (1955) اور جمیلہ رزاق ، صبا فلم انتخاب (1955) |
1956 | سدھیر ، پہلے ایکشن ہیرو
ہدایتکار اشفاق ملک کی باغی (1956) پہلی فلم تھی جس کو چین میں بھی ریلیز کیا گیا تھا اور بے حد پسند کی گئی تھی۔ مسرت نذیر ، ہیروئن تھی۔ پاکستان کی فلمی تاریخ میں لڑائی مار کٹائی کی فلمیں پسند کرنے والوں میں سدھیر کی مقبولیت کا ریکارڈ صرف سلطان راہی ہی توڑ سکے تھے جو اتفاق سے پہلی بار اسی فلم میں ایک ایکسٹرا کے طور پر نظر آئے تھے۔ اے شاہ شکار پوری کا اعزاز
اے شاہ شکار پوری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھوں نے بطور فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف اور نغمہ نگار فلم حقیقت (1956) بنائی تھی۔ نسرین اور مسعود مرکزی کردار تھے۔اے شاہ ، تقسیم سے پہلے کے فنکار تھے۔ ایک فلم شکارپوری (1947) کی کامیابی سے "اے شاہ شکارپوری" کہلانے لگے تھے۔ پاکستان میں پہلی فلم نوکر (1955) اور آخری فلم اک نکاح ہور سہی (1982) تھی۔ مینا شوری کی آمد
1956ء میں پاکستانی فلمی تاریخ میں پہلی بار بڑی تعداد میں نئے فنکاروں کی آمد ہوئی تھی۔ ان میں بھارت سے آئی ہوئی تین اداکارائیں بھی تھیں جن میں سینئر اداکارہ اور گلوکار خورشید (فلم فنکار) کے علاوہ اداکارہ ریحانہ (فلم وحشی) اور مینا شوری بھی تھی جو اپنے ہندو شوہر روپ کے شوری کے ساتھ فلم مس 56ء (1956) میں کام کرنے کے لیے آئی اور یہیں کی ہو کر رہ گئی تھی۔ اس نے دو دھائیوں تک ہیروئن ، سائیڈ ہیروئن ، ویمپ اور کیریکٹرایکٹر کرداروں میں کام کیا تھا۔
بہار کی آمد
اداکارہ بہار کو انور کمال پاشا کی سپرہٹ نغماتی پنجابی فلم چن ماہی (1956) میں اسلم پرویز کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ فرسٹ ہیروئن کے طور پر بہار کی یہ اکلوتی کامیاب فلم تھی۔ 1968ء تک 40 فلموں میں یہ ملا جلا دور چلا۔ 1973ء میں بہار کی واپسی ماں کے کرداروں میں ہوئی اور 1980 کی دھائی میں "سلطان راہی کی ماں" کے کرداروں میں بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ چار سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔
شمیم آرا کی آمد
اسی سال شمیم آرا کو فلم کنواری بیوہ (1956) میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا گیا تھا۔ بریک تھرو فلم سہیلی (1960) سے ملا۔ ساٹھ کی دھائی میں اردو فلموں کی مقبول ترین اداکارہ تھی۔ فلم نائیلہ (1965) سب سے بڑی فلم تھی۔ 1970 کی دھائی سے ایک خاتون ہدایتکارہ کے طور پر بڑی کامیابی ملی۔ لاہور اور کراچی میں بیک وقت ڈائمنڈ جوبلی کرنے والی اردو فلم منڈا بگڑا جائے (1995) بنانے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔
اعجاز اور حبیب کی آمد
ایک بھارتی فلم کی نقل میں بنائی جانے والی فلموں ، حمیدہ (1956) میں اعجاز اور فلم لخت جگر (1956) میں حبیب کو ایک جیسا کردار ملا تھا۔ دونوں کے فلمی کیرئر میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ ابتدائی دور میں دونوں اردو فلموں کے مصروف اداکار تھے لیکن 1967ء میں اکمل کی موت کے بعد پنجابی فلموں کے مقبول ترین ہیرو ثابت ہوئے۔
اکمل بطور ہیرو
متعدد فلموں میں ایکسٹرا کردار کرنے کے بعد اداکار اکمل کو فلم جبرو (1956) میں ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ یاسمین ، ہیروئن تھی۔اکمل کو بریک تھرو فلم ہتھ جوڑی (1964) سے ملا جبکہ ملنگی (1965) سب سے بڑی فلم تھی۔ سدھیر کے بعد پنجابی فلموں کے دوسرے سپرسٹار تھے اور عین عروج کے دور میں انتقال کر گئے تھے۔ دیگر بڑے اداکاروں کی آمد
1956 کے دیگر اداکارفضل حق فلم دلا بھٹی (1956) ، حامد فلم حمیدہ (1956) ، چن چن اور تایا برکت فلم ماہی منڈا (1956) ، بٹ کاشر فلم فنکار (1956) ، فیضی فلم سوتیلی ماں (1956) ، رضیہ فلم گڈی گڈا (1956) اور رجنی فلم چن ماہی (1956) |
1957 | نیلو اور کمال
1957 کے دیگر اداکارلیلیٰ فلم وعدہ (1957) ، رتن کمار فلم بیداری (1957) ، اسد جعفری فلم وعدہ (1957) ، قاضی واجد فلم بیداری (1957) اور پنڈت شاہد فلم نوراسلام (1957) |
1958 | مظہر شاہ اور اسد بخاری
فلم بے گناہ (1958) میں ایک اور نامور ولن اداکار اسد بخاری کی آمد بھی ہوئی تھی۔ ان کا آغاز ہیرو کے طور پر ہوا تھا لیکن بعد میں ایک ولن کے طور پر مشہور ہوئے تھے۔ مصطفیٰ قریشی کی آمد
اسی سال ، سندھی فلم پردیسی (1958) ، مصطفیٰ قریشی کی پہلی فلم تھی جنھوں نے 1980 کی دھائی میں بے مثل کامیابی حاصل کی تھی اور فلم مولا جٹ (1979) میں نوری نت کا کردار اور مکالمہ "نواں آیا ایں سوہنیا۔۔؟" ایک روایت بن چکا ہے۔ مصطفیٰ قریشی کی پہلی اردو فلم لاکھوں میں ایک (1967) اور پہلی پنجابی فلم چار خون دے پیاسے (1973) تھی۔ رنگیلا کی آمد
روایت ہے کہ مزاحیہ اداکار رنگیلا پہلی بار فلم چن ماہی (1956) میں نظر آئے لیکن ہدایتکار ایم جے رانا کی فلم جٹی (1958) میں پہلی بار رنگیلا کو اداکاری کرنے کا موقع ملا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب رنگیلا پر عروج آیا تو انھوں نے بھی اپنی فلم دو رنگیلے (1972) میں ہدایتکار ایم جے رانا سے ایک فلم ڈائریکٹر کا رول کروایا تھا۔رنگیلا نے ایک مزاحیہ اداکار کے علاوہ فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف ، موسیقار اور گلوکار کے طور پر بھی بے مثل شہرت حاصل کی تھی۔ بریک تھرو فلم ہتھ جوڑی (1964) سے ملا تھا۔ ایک اور لو سٹوری (1999) آخری فلم تھی۔ سلمیٰ ممتاز کی آمد
پاکستانی فلموں میں ماں کے روایتی کردار میں سلمیٰ ممتاز کو ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ فلم دربار (1958) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا۔ ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ پیسہ ناچ نچاوے (1990) آخری فلم تھی۔
1958 کے دیگر اداکارحسنہ فلم جان بہار (1958) ، عباس نوشہ فلم رخسانہ (1958) ، ناصرہ فلم توحید (1958) ، زمرد فلم حسرت (1958) ، سلطان فلم گھرجوائی (1958) |
1959 | علاؤالدین کے عروج کا دور
1959 کے دیگر اداکارنسیمہ خان فلم جاگو ہوا سویرا (1959) اور ماہ رخ فلم گمراہ (1959) |
1960 | نیر سلطانہ اور درپن
نیر سلطانہ نے پونے دو سو کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بطور ہیروئن ، نیرسلطانہ کی جوڑی حبیب کے ساتھ زیادہ کامیاب رہی تھی۔ اولاد (1962) سب سے کامیاب فلم تھی۔ درپن کی جوڑی زیادہ تر شمیم آرا کے ساتھ پسند کی گئی تھی۔ نائیلہ (1965) سب سے بڑی فلم تھی۔ درپن نے چھ درجن کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔ لہری بطور ہیرو
اردو فلموں کے ممتاز مزاحیہ اداکار لہری کو فلم رات کے راہی (1960) میں شمیم آراء کے ساتھ سیکنڈ ہیرو کاسٹ کیا گیا تھا اور ان پر متعدد گیت بھی فلمائے گئے تھے۔لہری صاحب ، جملہ بازی میں بڑے مشہور تھے لیکن اداکاری میں خاصے کمزور تھے ، اسی لیے زندگی بھر کامیڈین ہی رہے اور کبھی ہیرو نہ بن سکے تھے۔ دو سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔ نغمہ کی آمد
پنجابی فلموں کی سپرسٹار ہیروئن نغمہ ، پہلی بار فلم رانی خان (1960) میں سلور سکرین پر نظر آئی تھی۔ درجن بھر فلموں میں ثانوی کرداروں کے بعد فلم انسپکٹر 1964) میں فرسٹ ہیروئن کا رول ملا اور ہیرو مزاحیہ اداکار نذر تھے۔ فلم ہتھ جوڑی (1964) سے بریک تھرو ملا اور ایک دھائی تک پنجابی فلموں کی چوٹی کی اداکارہ کے طور پر کام کیا۔ بعد میں معاون اداکارہ کے طور پر بھی کام کیا۔ ساڑھے تین سو سے زائد فلمیں کریڈٹ پر ہیں۔
1960 کے دیگر اداکارزریں پنا ، ڈئر اصغر فلم غریب (1960) ، نینا فلم کلرک (1960) ، صابرہ سلطانہ فلم انصاف (1960) چھم چھم فلم عزت (1960) ، نرالا فلم اور بھی غم ہیں (1960) |
1961 | فردوس کی آمد
منورظریف کی آمد
فلم ڈنڈیاں (1961) میں پاکستان کے عظیم مزاحیہ اداکار منورظریف کو متعارف کروایا گیا تھا۔ مرکزی کامیڈین ان کے بڑے بھائی ظریف مرحوم تھے۔منور ظریف کو رنگیلا کی طرح ، فلم ہتھ جوڑی (1964) سے بریک تھرو ملا تھا۔ ساٹھ کی دھائی میں پنجابی فلموں کے مقبول ترین کامیڈین تھے۔ فلم اج دا مہینوال (1973) میں پہلی بار ہیرو آئے۔ نوکر ووہٹی دا (1974) کامیاب ترین فلم تھی۔ آخری فلم لہو دے رشتے (1980) تھی۔ پاکستانی فلم میں انگریز اداکارہ
ہدایتکار خلیل قیصر کی تاریخی فلم عجب خان (1961) میں ایک مارگریٹ نامی انگریز اداکارہ نے اداکاری کی تھی۔ سدھیر ، حسنہ اور طالش اہم کردار تھے۔
1961 کے دیگر اداکارعرش منیر اور سیٹھی فلم انسان بدلتا ہے (1961) ، فومی فلم ہابو (1961) ، گرج بابو فلم بارہ بجے (1961) اور ایم ڈی شیخ فلم فرشتہ (1961)1961 کے مرحوم اداکارغلام محمد اور علی بابا |
1962 | زیبا اور محمدعلی کی آمداسی فلم میں طلعت حسین اور کمال ایرانی بھی پہلی بار سلور سکرین پر نظر آئے تھے۔ رانی اور وحید مراد کی آمد
فلم اولاد (1962) میں وحیدمراد ایک معاون اداکار اور فلم محبوب (1962) میں رانی بطور ہیروئن سامنے آئی تھی۔رانی کو ابتدائی دور میں خاصی جدوجہد کرنا پڑی لیکن فلم چن مکھناں (1968) پہلی سپرہٹ فلم تھی۔ نیلو کے بعد دوسری اداکارہ تھی جو اردو اور پنجابی فلموں میں یکساں طور پر کامیاب رہی تھی۔ شبنم اور رحمان کی آمد
مشرقی پاکستان کی پہلی کمرشل اردو فلم چندا (1962) میں شبنم ، رحمان ، سلطانہ زمان ، شوکت اکبر ، مصطفیٰ ، سبھاش دتہ اور جلیل افغانی کی آمد ہوئی تھی۔ اس فلم نے کراچی میں گولڈن جوبلی منائی تھی۔
1962 کے دیگر اداکارترانہ فلم سکھ کا سپنا (1962) ، زلفی فلم حسن و عشق (1962) ، حمید وائن فلم مہتاب (1962) ، محمود علی فلم بنجارن (1962) ، خلیفہ نذیر فلم جمالو (1962) ، ادیب فلم دل میں کالا (1962) |
1963 | ہیرو سے ولن تک
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سال فلم ہمیں بھی جینے دو (1963) میں حنیف نامی اداکار کو ہیرو کے طور پیش کیا گیا تھا۔ چند فلموں میں ہیرو آئے ، پھر معاون اداکاری اور ولن کرداروں سے ہوتے ہوئے ایکسٹرا کرداروں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ علاؤالدین بطور ہیرو
ہدایتکار حیدرچوہدری کی پہلی ہی سپرہٹ نغماتی فلم تیس مار خان (1963) میں علاؤالدین کو پہلی بار ایک سولو ہیرو کے طور پیش کیا گیا تھا۔ وہ پہلے ولن اور معاون اداکار تھے جو ہیرو کے طور پر بھی کاسٹ ہوئے تھے۔
شیریں کی آمد
فلم تیس مار خان (1963) میں ہیروئن کے طور پر ایک نئی اداکارہ شیریں کو متعارف کروایا گیا جس کو اپنی پہلی ہی فلم سے زبردست کامیابی ملی تھی۔ اس نے رقص کے دوران ہرنی کی طرح چھلانگیں لگانے کا ایک نیا طریقہ متعارف کروایا تھا جو فلم بینوں کو بے حد پسند آیا تھا۔ تین درجن فلموں میں کام کیا۔ خزانچی (1971) آخری فلم تھی۔
ساون کا بریک تھرو
فلم تیس مار خان (1963) ہی اداکار ساون کی بطور ولن پہلی بڑی فلم تھی۔ اردو فلم کارنامہ (1956) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا اور فلم گونگا (1966) سے ٹائٹل رول ملنا شروع ہوئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب پنجابی فلمیں ساون کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھیں۔ پھر زوال پذیر ہوئے اور ایک طویل عرصہ تک ولن اداکار کے طور کام کرتے رہے۔ شیرپتر (2003) آخری فلم تھی۔
عالیہ اور اقبال حسن کی آمد
اسی سال فلم اونچے محل (1963) میں عالیہ اور فلم کالا پانی (1963) میں اقبال حسن ، ایکسٹرا کرداروں میں نظر آئے۔ اتفاق سے دونوں کبھی صف اول کے ہیرو ہیروئن نہیں بن سکے لیکن سیکنڈ پیئر کے طور پر 1970 کی دھائی میں ان کی جوڑی بڑی مقبول ہوئی تھی۔ عالیہ کی بطور ہیروئن پہلی فلم دھی رانی (1969) کے ہیرو بھی اقبال حسن ہی تھے۔
تمنا کی آمد
اردو فلموں میں ویمپ کے طور پر سب سے زیادہ شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ تمنا کی پہلی فلم دامن (1963) تھی۔ کامیڈین ننھا کے ساتھ جوڑی بڑی مقبول ہوئی تھی۔ ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ آخری فلم دنیا سے کیا ڈرنا (1999) تھی۔
1963 کے دیگر اداکارروزینہ ، طلعت صدیقی فلم ہمیں بھی جینے دو (1963) ، جگی ملک فلم بغاوت (1963) ، البیلا فلم رشتہ (1963) ، راج ملتانی فلم چوڑیاں (1963) ، فریدہ ، گلریز فلم تیس مار خان (1963) ، انورحسین فلم ناچ گھر (1963) ، نبیلہ فلم دلہن (1963) ، خلیل فلم پریت نہ جانے ریت (1963) |
1964 | محمد علی کو بریک تھرو ملا
اسی سال محمدعلی صاحب کی بطور سولو ہیرو اکلوتی پنجابی فلم شیردی بچی (1964) بھی ریلیز ہوئی تھی۔ نیلو ہیروئن تھی۔ محمدعلی کو سپرسٹار کا درجہ فلم آگ کا دریا (1966) سے ملا تھا۔ پونے تین سو فلموں کے قریب کام کیا اور دم مست قلندر (1995) آخری فلم تھی۔ اکمل کی اکلوتی کامیاب اردو فلم
اکمل کی بطور ہیرو اکلوتی کامیاب اردو فلم خاندان (1964) بھی اسی سال ریلیز ہوئی تھی۔ اس ملٹی کاسٹ فلم میں حبیب اور محمدعلی کے علاوہ نغمہ اور فردوس بھی تھیں جبکہ بہار مرکزی کردار میں تھیں۔
طارق عزیز کی آمد
26 نومبر 1964ء کو پہلی بار لاہور سے پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات شروع ہوئیں۔ پہلا چہرہ طارق عزیز کا تھا جو ہمیشہ ٹی وی کے حوالے سے جانے جاتے تھے لیکن ان کی پہلی فلم خاموش رہو (1964) اس سے قبل ریلیز ہو چکی تھی۔ اس فلم میں ان کا معمولی سا رول تھا لیکن باقاعدگی سے فلم انسانیت (1967) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ تین درجن فلموں میں کام کیا اور آخری فلم ماں بنی دلہن (1988) تھی۔
1964 کے دیگر اداکارحنا فلم خاندان (1964) ، ہارون فلم سنگم (1964) ، سیما فلم لاڈلی (1964) ، نگو فلم عشرت (1964) ، مرزا شاہی فلم شادی (1964) ، سنتوش رسل فلم بیس دن (1964) ، گل رخ فلم (خاموش رہو) ، چنگیزی فلم بیٹی (1964) ، ترنم فلم ماں کا پیار (1964) ، عظیم فلم پیسے (1964) ، سلطانہ اقبال فلم ولایت پاس (1964) ، نصرت آراء فلم چنگاری (1964) ، عرفان کھوسٹ فلم واہ بھئی واہ (1964) اور سلونی فلم غدار (1963) |
1965 | علاؤالدین کی 100 فلمیں
ندیم کی آمد
اردو فلموں کے سپرسٹار ہیرو ندیم کی آمد ایک پلے بیک سنگر کے طور پر ڈھاکہ میں بننے والی فلم کیسے کہوں (1965) سے ہوئی تھی۔ شہرت کا باعث مشرقی پاکستان کی سب سے کامیاب اردو/بنگالی فلم چکوری (1967) بنی جس میں بطور اداکار/ہیرو نظر آئے۔ کراچی میں باکس آفس کے کامیاب ترین اداکار تھے۔ دو سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔
1965 کے دیگر اداکاراعجاز اختر فلم بہو بیگم (1965) ، ناہید اور طاہرہ فلم ہڈحرام (1965) ، قوی فلم رواج (1965) ، لاڈلا فلم پھنے خان (1965) ، مینا چوہدری فلم عیدمبارک (1965) ، تانی ، مصطفیٰ ٹنڈ فلم ملنگی (1965) ، ریشماں فلم آخری سٹیشن (1965) ، زاہد خان فلم زمین (1965)1965 کے مرحوم اداکاراداکار آغا سلیم رضا اور سلطان کھوسٹ |
1966 | وحید مراد ، سپرسٹار بنے
سپرسٹارز کی اس فہرست میں اگلے سال ندیم کا اضافہ بھی ہوا جس سے ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ اردو فلموں کے پرانے ہیروز میں سے سنتوش ، درپن اور کمال کو نظرانداز کر دیا گیا جبکہ سدھیر ، اعجاز اور حبیب پنجابی فلموں کے سپرسٹارز بن گئے تھے۔ اداکاراؤں میں شمیم آرا ، زیبا اور دیبا ، اردو فلموں کی جبکہ نیلو ، نغمہ اور فردوس ، پنجابی فلموں کی مقبول ترین ہیروئنیں تھیں۔ کیفی اور غزالہ کی آمد
اداکار کیفی نے فلم منہ زور (1966) سے بطور ہدایتکار فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ انھیں پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی پنجابی فلم ظلم دا بدلہ (1972) بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سال اداکارہ غزالہ نے بھی فلم باغی سپاہی (1966) سے آغاز کیا تھا۔ 1970 کی دھائی میں ان دونوں نے شادی کر لی تھی۔
ننھا کی آمد
اسی سال فلم وطن کا سپاہی (1966) میں مزاحیہ اداکار ننھا نے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ ایک عام مزاحیہ اداکار سے ہیرو بنے اور علی اعجاز کے ساتھ ان کی جوڑی بڑی مقبول ہوئی تھی۔ رنگیلا اور منورظریف کے بعد یہ دوسری جوڑی تھی جو مزاحیہ اداکاروں سے ہیرو بنے۔ 1980 کی دھائی میں ایکشن فلموں کے دور میں زبردستی کامیابی حاصل کی تھی۔ پاکستان کے پہلے اداکار تھے جس نے خودکشی کی تھی۔
1966 کے دیگر اداکارصوفیہ بانو فلم آزادی یا موت (1966) ، لطیف چارلی فلم جوکر (1966) ، چکرم فلم وطن کا سپاہی (1966) ، ماسٹر مراد فلم پردہ (1966) ، شکیل فلم ہونہار (1966) ، خالد اور حیدر فلم ہمراہی (1966)1966 کے مرحوم اداکارخلیل قیصر |
1967 | شبانہ کی آمد
علی اعجاز کی آمد
اسی سال فلم انسانیت (1967) میں مزاحیہ اداکار علی اعجاز سامنے آئے۔ اتفاق سے ان کی جوڑی پہلی ہی فلم میں اداکار ننھا کے ساتھ بنی تھی جن کے ساتھ انھوں نے 1980 کی دھائی میں بطور ہیرو بڑا عروج دیکھا تھا۔ فلم دبئی چلو (1979) سے بریک تھرو ملا اور بطور ہیرو سب سے بڑی فلم سالا صاھب (1981) تھی۔ دو سو سے زائد فلموں میں کام کیا اور آخری بار فلم محبتاں سچیاں (2007) میں نظر آئے تھے۔
1967 کے اداکارعطیہ شرف اور کٹھانا فلم وقت کی پکار (1967) ، رشید ظریف فلم دل دیوانہ (1967) ، قربان جیلانی فلم دوراہا (1967) اور ریحانہ صدیقی فلم ہمدم (1967)1967 کے مرحوم اداکاراکمل اور مایہ دیوی |
1968 | مسٹر پاکستان ، فلمی ہیرو بنا
مسعود رانا ، بطور ہیرو
1960 کی دھائی میں پاکستانی فلموں میں گلوکار مسعودرانا ، مقبولیت کے سوا نیزے پر تھے۔ انھیں "پاکستانی رفیع" بھی کہا جاتا تھا۔ اسی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے فلمی ہیرو بننے کا شوق بھی پورا ہوا اور ہدایتکار وحیدڈار نے فلم دو مٹیاراں (1968) میں سلونی کے مقابل سیکنڈ ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ فلم شاہی فقیر (1970) میں غزالہ کے مقابل فرسٹ ہیرو بھی آئے۔ متعدد فلموں میں چھوٹے موٹے کردار کیے لیکن اداکاری کے شعبہ میں ناکام رہے تھے۔
1968 کے اداکارفرزانہ فلم ناخدا (1968) ، مسعود اختر ، صاعقہ اور زرقا فلم سنگدل (1968) ، سہیل فلم چن مکھناں (1968) ، افضال احمد ، خورشید شاہد اور جمیل بسمل فلم دھوپ اور سائے (1968) ، اطہر شاہ خان فلم جگنو (1968) ، فاضل بٹ فلم میرا بابل (1968) ، مہ پارہ ، مشتاق چنگیزی اور ملک انوکھا فلم شیرو فیروز (1968) ، خالد سلیم موٹا فلم کنجوس (1968) ، عقیل فلم پڑوسی (1968) ، الطاف خان فلم شاہی محل (1968) اور منیرظریف فلم سجن پیارا (1968) |
1969 | نغمہ اور حبیب
ابتدائی دور میں اردو فلموں کے مقبول ترین ہیرو تھے لیکن اکمل کے انتقال کے بعد پنجابی فلموں کے مصروف ترین اداکار بن گئے اور پونے تین سو کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔ پنجابی فلموں کی سپرسٹار اداکارہ نغمہ کے ساتھ حبیب کی جوڑی بڑی مقبول ہوئی اور دونوں نے شادی بھی کر لی تھی۔ نغمہ نے اپنے طویل فنی کیرئر میں ساڑھے تین سو سے زائد فلموں میں کام کیا جن میں سے چھ درجن کے قریب فلمیں صرف حبیب کے ساتھ تھیں۔ ات خدا دا ویر (1970) ، ان دونوں کی یادگار ترین نغماتی فلم تھی۔ رنگیلا کا کارنامہ
مزاحیہ اداکار رنگیلا نے بطور فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف اور گلوکار کے اردو فلم دیا اور طوفان (1969) بنا کر فلمی دنیا کو چونکا دیا تھا۔ بیشتر اداکار اسے ایک مذاق سمجھتے رہے اور اس کی ڈائریکشن میں کام کرنے سے انکاری تھے لیکن فلم کی سپرہٹ کامیابی کے بعد انگشت بدنداں رہ گئے تھے۔ رنگیلا کا گایا ہوا گیت "گا میرے منوا گاتا جا رے۔۔" بھی ایک سدا بہار گیت ثابت ہوا۔ نغمہ کی بطور ہیروئن یہ واحد کامیاب اردو فلم تھی۔ اعجاز ہیرو تھے۔
سنگیتا کی آمد
اداکار اور ہدایتکار رحمان نے ڈھاکہ میں بنائی گئی فلم کنگن (1969) میں اداکار سنگیتا کو متعارف کروایا تھا۔ اس سے قبل فلم کوہ نور (1966) میں چائلڈ سٹار کے طور پر نظر آنے کی روایت بھی ہے۔ سولو ہیروئن کے طور پر کامیابی نہیں ملی اور سائیڈ ہیروئن ہی رہی البتہ بطور ہدایتکارہ زبردست کامیابی ملی۔ فلم سوسائٹی گرل (1976) سے عروج کا دور شروع ہوا۔ مٹھی بھر چاول (1978) یادگار ترین فلم تھی۔
1969 کے دیگر اداکارخالد عباس ڈار فلم دلبر جانی (1969) ، منورسعید ، محمد یوسف فلم گھر داماد (1969) ، افضل خان فلم دلاں دے سودے (1969) ، شکیل فلم کونج وچھڑ گئی (1969) ، نجمہ محبوب فلم جیو ڈھولا (1969) ، جمیل فلم سزا (1969)1969 کے مرحوم اداکارمزاحیہ اداکار زلفی ، لندن میں انتقال کر گئے۔ |
1970 | فردوس اور اعجاز
پنجابی فلموں کی اس کامیاب ترین جوڑی کی پہلی مشترکہ فلم لائی لگ (1964) اور آخری فلم نادرخان (1975) تھی۔ فردوس اور اعجاز کی حسین و جمیل جوڑی نے 34 فلموں میں ایک ساتھ کام کیا اور بیشتر فلمیں کامیاب رہیں۔ ایک مختصر عرصہ کے لیے شادی بھی کی تھی۔ اتفاق سے دونوں کا انتقال بھی آگے پیچھے ہوا تھا۔ بدرمنیر کا منفرد ریکارڈ
1970ء میں پاکستان میں پشتو فلموں کا آغاز ہوا اور پہلی ہی فلم یوسف خان شیربانو (1970) سے اداکار بدرمنیر کو ایسی مرکزی حیثیت حاصل ہوئی کہ تین دھائیوں تک ساڑھے چار سو فلموں میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اسی فلم سے آغاز کرنے والی اداکارہ یاسمین خان کے ساتھ سو اور نعمت سرحدی کے ساتھ بدرمنیر نے دو سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا جبکہ آصف خان کے ساتھ ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔ رنگیلا بطور ہیرو
رنگیلا نے ایک بار فلمی حلقوں کو حیران کرتے ہوئے بطور فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف ، اپنے ہی نام کی فلم رنگیلا (1970) میں خود کو ہیرو کے رول میں پیش کر کے ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا تھا۔
نشو کی آمد
ہدایتکار اقبال شہزاد نے فلم بازی (1970) میں ایک نئی اداکارہ نشو کو محمدعلی اور ندیم کے مقابل متعارف کروایا تھا۔ پہلی ہی کامیاب فلم سے 1970 کی دھائی میں اردو فلموں کی مقبول ترین ہیروئن تھی لیکن پہچان فلم رنگیلا (1970) میں اس پر فلمایا ہوا مشہور زمانہ گیت "وے سب توں سوہنیا۔۔" رہا۔ آخری فلم انوکھا پیار (1994) تھی۔
آسیہ کی آمد
اداکارہ آسیہ نے فلم انسان اور آدمی (1970) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ دو سو فلموں کے قریب کام کیا۔ ابتدائی دور میں اردو فلموں میں چھوٹے موٹے رول کیے لیکن رنگیلا کی دو فلموں دل اور دنیا (1971) اور دو رنگیلے (1972) سے مقبولیت ملی۔ 1974ء کے بعد سے پنجابی فلموں کی ہو کر رہ گئی تھی۔ سلطان راہی کے ساتھ پچاس سے زائد فلموں میں کام کیا اور مولاجٹ (1979) جیسی تاریخ ساز فلم کی ہیروئن بھی تھی۔
1970 کے دیگر اداکارناظم فلم شمع پروانہ (1970) ، ضیاء محی الدین اور نمو فلم مجرم کون (1970) ، رزاق فلم پائل (1970) ، وسیم فلم گھونگھٹ لائیو کنوار (1970) ، سبحانی بایونس فلم آشنا (1970) ، جمشید انصاری فلم سوغات (1970) ، شائستہ قیصر فلم ماں تے ماں (1970)1970 کے مرحوم اداکارماسٹر غلام قادر (لاہور کی پہلی فلم ڈاٹر آف ٹوڈے (1927) کے ہیرو) |
1971 | وحیدمراد کی پہلی پنجابی فلم
ممتاز اور شاہد کی آمد
آصف خان کی آمد
بدرمنیر کے بعد پشتو فلموں میں ، آصف خان ، دوسرا بڑا نام تھے جو ایک ورسٹائل اور ویسٹرن سٹائل اداکار تھے اور بیک وقت پشتو ، اردو اور پنجابی فلموں میں مقبول تھے۔ ہیرو کے علاوہ ولن اور معاون اداکار کے طور پر بھی کام کیا تھا۔ فلم درہ خیبر (1971) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا اور ساڑھے چار سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ ارباز خان کے والد ہیں۔
ہمایوں قریشی کی آمد
ہمایوں قریشی نے فلم کیریر کا آغاز پشتو فلم بہادر خان (1971) سے بطور ہیرو کیا تھا۔ پہلی اردو فلم بلیک کیٹ (1977) تھی اصل شہرت پنجابی فلموں سے ملی۔ دو چور (1977) پہلی پنجابی فلم تھی۔ 1980/90 کی دھائیوں میں مصطفیٰ قریشی کے بعد پنجابی فلموں میں ولن کے طور پر سب سے مقبول ترین اداکار تھے۔ اداکارہ سنگیتا سے شادی کی تھی۔
1971 کے دیگر اداکاراورنگزیب فلم کبڑا عاشق (1971) ، ثریا خان ، عشرت چوہدری ، عمردراز فلم درہ خیبر (1971) ، سلیم ناصر ، آصفہ فلم العاصفہ (1971) ، عاصم بخاری ، ظفر مسعود فلم خاموش نگاہیں (1971) ، ببیتا فلم جلتے سورج کے نیچے (1971) ، مینا داؤد ، بدیع الزمان فلم یار بادشاہ (1971) ، چکوری فلم محبوب مٹھا (1971) ، جمال فلم گرہستی (1971) ، مجید ظریف فلم سیاں (1971) ، رضوان واسطی فلم انصاف اور قانون (1971)1971 کے مرحوم اداکارشاہ نواز |
1972 | سلطان راہی کا عروج
1972 کے دیگر اداکاروحیدہ خان فلم خلش (1972) ، افشاں قریشی فلم جانور (1972) ، خانم فلم بازار (1972) ، تنظیم حسن فلم بدلے گی دنیا ساتھی (1972) ، بادل فلم دولت اور دنیا (1972) ، رینوکا دیوی (بیگم خورشید مرزا) فلم محبت (1972) ، شاہ نواز گھمن فلم من کی جیت (1972) ، امروزیہ فلم علاقہ غیر (1972) ، نازلی فلم انتقام (1972)1972 کے مرحوم اداکارنگو (قتل) ، ببو ، ریاض شاہد |
1973 | رنگیلا اور منورظریف
ان دونوں عظیم مزاحیہ فنکاروں کو بریک تھرو فلم ہتھ جوڑی (1964) سے ملا تھا۔ سو کے قریب فلموں میں ایک ساتھ نظر آئے۔ واحد فلمی جوڑی ہے جس کے نام پر ایک کامیاب فلم رنگیلا اور منورظریف (1973) بھی بنائی گئی تھی۔ اسی سال ایک اور معروف مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر بھی ایک اردو فلم مستانہ (1973) میں ہیرو آئے لیکن ناکام رہے تھے۔ ہیروئن آسیہ تھی۔ 1973 کے دیگر اداکارانتیا فلم مسٹربدھو (1973) ، مزلہ فلم آرپار (1973) ، فخری احمد فلم خواب اور زندگی (1973) ، محبوب عالم فلم سورٹھ (1973) ، عشرت ہاشمی فلم نام کے نواب (1973) ، ظاہر شاہ ، لیاقت میجر فلم جوارگر (1973) ، ساجن فلم انہونی (1973)1973 کے مرحوم اداکارکٹھانا |
1974 | بابرہ شریف کی آمد
کویتا کی آمد
فلم دو بدن (1974) سے فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والی اداکارہ کویتا ، اداکارہ سنگیتا کی چھوٹی بہن تھی۔ ستر سے زائد فلموں میں کام کیا۔ اردو فلموں میں شبنم اور بابرہ شریف کے بعد تیسری مقبول ترین ہیروئن ہوتی تھی۔ 1990 کی دھائی میں پنجابی فلموں میں بھی کام کیا۔ میاں بیوی راضی (1982) کامیاب ترین فلم تھی۔ آخری فلم جنگلی میرا نام (1994) تھی۔
جاوید شیخ کی آمد
فلم دھماکہ (1974) سے فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والے جاوید شیخ کو کامیابی کے لیے ٹی وی ڈرامہ "ان کہی" کا انتظار کرنا پڑا۔ ہدایتکا نذر شباب کی فلم کبھی الوداع نہ کہنا (1983) سے کامیابیوں کا سفر شروع ہوا اور گولڈن جوبلی منانے کے قریب ہیں۔ 1980 کی دھائی میں اردو فلموں کے زوال کے بعد پنجابی فلموں میں بھی بڑے مقبول رہے۔
اردو فلموں کے تینوں سپرسٹارز
1974ء کے دیگر اداکارغلام محی الدین فلم دل والے (1974) ، معین اختر فلم تم سا نہیں دیکھا (1974) ، خالد نظامی فلم حقیقت (1974)1974ء کے مرحوم اداکاررفیق غزنوی ، ناصر خان ، رشید ظریف |
1975 | بابرہ شریف اور غلام محی الدین کا اعزاز
بطور سولو ہیرو ، غلام محی الدین کی یہ اکلوتی کامیاب فلم تھی۔ پہلی فلم دل والے (1974) تھی۔ دو سو سے زائد فلموں میں کام کرنے کے باوجود ایک معاون ہیرو سے آگے نہ بڑھ سکے۔ 1980/90 کی دھائیوں میں پنجابی فلموں میں بڑے مقبول تھے۔ 1975ء کے دیگر اداکارجمیل فخری فلم بے اولاد (1975) ، رومانہ فلم اصلی تے نقلی (1975) ، نجمہ فلم خانزادہ (1975) ، مسرت شاہین فلم اج دی گل (1975) ، شجاعت ہاشمی فلم چھڈ برے دی یاری (1975) ، روحی بانو فلم پالکی (1975) ، دلدار پرویز بھٹی فلم بلونت کور (1975) ، نمی فلم دلہن ایک رات کی (1975) ، سویٹی فلم زنجیر (1975)1975ء کے مرحوم اداکارایم اسماعیل |
1976 | ٹی وی اداکاروں کی آمد
راحت کاظمی کی پہلی فلم آج اور کل (1976) ، ایک ڈائمنڈ جوبلی ہوئی تھی ، ہیروئن شبنم تھی۔ عثمان پیرزادہ کی فلم سازش (1976) ، سری لنکا کے ساتھ بنائی جانے والی پہلی مشترکہ فلم تھی جس کی ہیروئن بھی وہیں سے لی گئی تھی۔ ان کے علاوہ طلعت اقبال ، معاون ہیرو کے طور پر فلم آگ اور آنسو (1976) میں کاسٹ ہوئے تھے۔ 1976ء کے دیگر اداکاردردانہ رحمان فلم راجہ جانی (1976) ، زبیر فلم شگناں دی مہندی (1976)1976ء کے مرحوم اداکارمنور ظریف ، نعیم ہاشمی |
1977 | شبنم اور ندیم کی جوڑی
اعجاز بطور ولن
فلم اپریل فول (1977) میں ممتاز فلمی ہیرو اعجاز ، مکمل ولن کے طور پر نظر آئے۔ ہیرو طارق شاہ اور ہیروئن آسیہ تھی۔
1977 کے دیگر اداکاربندیا فلم بیگم جان (1977) ، طارق شاہ فلم اپریل فول (1977) ، نوین تاجک فلم اج دیاں کڑیاں (1977) ، شہلا گل فلم بلیک کیٹ فلم (1977)1977 کے مرحوم اداکارصادق علی |
1978 | وحید مراد بطور ولن
دوسری نسل کے فنکار
فلم دشمن کی تلاش (1978) میں پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر نے اپنے بیٹے زمان خان کو بابرہ شریف کے ساتھ ہیرو کے طور پر پیش کیا لیکن ناکام رہے تھے۔ اس فلم میں پاکستان کی پہلی سپرسٹار ہیروئن ، صبیحہ خانم نے ویمپ کا رول کیا تھا۔
1978 کے دیگر اداکارسجاد کشور فلم دل کے داغ (1976) ، شفیع محمد فلم کورا کاغذ (1978) ، آصف رضا میر فلم پرنس (1978)1978 کے مرحوم اداکارنصرت کاردار |
1979 | سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی جوڑی
ننھا اور علی اعجاز کی جوڑی
اسی جٹ دور میں علی اعجاز اور ننھا کی جوڑی نے متبادل تفریح کی صورت پیدا کر دی تھی۔ فلم دبئی چلو (1979) نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ اس جوڑی کی 85 فلموں کا ریکارڈ ملتا ہے۔ انسانیت (1967) پہلی اور پسوڑی بادشاہ (1991) آخری فلم تھی۔
انجمن کی آمد
اداکارہ انجمن کی بطور ہیروئن پہلی فلم وعدے کی زنجیر (1979) ریلیز ہوئی تھی۔ اصل میں فلم خوفناک (1974) میں پہلی بار نظر آئی تھی۔ ابتدائی چند اردو فلموں کے بعد وہ پنجابی فلموں میں ایسی مقبول ہوئی کہ دو سو کے قریب فلموں میں کام کیا جن میں سے آدھی سے زائد فلمیں صرف سلطان راہی کے ساتھ تھیں۔ 1981ء کی عید پر انجمن کی پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے تین ڈائمنڈ جوبلی فلمیں تھیں۔
1979 کے دیگر اداکارعابد علی فلم خاک و خون (1979) ، عابد کاشمیری فلم دبئی چلو (1979) ، انور اقبال فلم دوستاں جو پیار (1979) ، ناصر چن فلم مس ہانگ کانگ (1979)1979 کے مرحوم اداکارنبیلہ |
1980 | فیصل اور ایاز کی آمد
1980 میں دیگر اداکاربازغہ فلم صائمہ (1980) ، طاہرہ نقوی فلم بدلتے موسم (1980) ، فردوس جمال فلم رشتہ (1980) ، آرزو فلم نہیں ابھی نہیں (1980) ، نورمحمد لاشاری فلم حاضر سائیں (1980)1980 میں مرحوم اداکاردرپن |
1981 | وسیم عباس اور آغا سکندر
1981 کے دیگر اداکارخیام سرحدی فلم منزل (1981) ، نگہت بٹ فلم ریشم (1981) ، انور خان فلم شیر میدان دا (1981) ، زینت یاسمین فلم کرن اور کلی (1981) ، اورنگزیب لغاری ، اسماعیل تارا ، ماجد جہانگیر فلم فاصلے (1981) ، کوکب ڈار فلم یہ زمانہ اور ہے (1981)1981 کے مرحوم اداکارآصفہ ، ظفر مسعود |
1982 | ایک باڈی بلڈر ہیرو کے طور پر
1982 کے دیگر اداکاراسلم لاٹر فلم آس پاس (1982) ، گوری فلم ذرا سی بات (1982) ، شاہدہ منی فلم مرزا جٹ (1982)1982 کے مرحوم اداکارسنتوش ، شمیم ، نجم الحسن ، کمار ، طاہرہ نقوی |
1983 | سبیتا کی آمد
امان اللہ خان کی آمد
لاہور سٹیج کے بے تاج بادشاہ امان اللہ خان کو پہلی بار فلم وڈا خان (1983) میں موقع ملا لیکن متاثر نہیں کر سکے تھے۔ اس فلم کا ٹائٹل رول اردو فلموں کے عظیم ہیرو محمدعلی صاحب نے کیا تھا اور وہ بھی ناکام رہے۔
1983 کے دیگر اداکارسونیا ، وکی فلم دو بھیگے بدن (1983) ، شیری ملک فلم ٹینا (1983) ، سیمی زیدی فلم کائنات (1983) ، روحی خان فلم دہلیز (1983)1983 کے مرحوم اداکاروحید مراد ، علاؤالدین ، نذیر ، نجمہ محبوب ، فضل حق ، آغا دلراج ، نورمحمد چارلی |
1984 | شبانہ اور ندیم کا ملاپ
اعجاز کی واپسی
لندن کی جیل یاترا سے واپسی پر اداکار اعجاز نے بطور فلمساز ایک سپرہٹ پنجابی فلم شعلے (1984) بنائی جس میں خود انھوں نے ایک پولیس آفیسر کا رول کیا تھا جبکہ اس وقت کی پنجابی فلموں کی ضرورت سلطان راہی ، مصطفیٰ قریشی اور انجمن مرکزی کردار تھے۔
1984 کے دیگر اداکاربہروز سبزواری فلم خوش نصیب (1984) ، عارفہ صدیقی فلم ایسا بھی ہوتا ہے (1984) ، بابر فلم بارود (1984) ، سکندر شاہین فلم بوبی (1984) ، شہباز اکمل ، ستارہ فلم دل ماں دا (1984)1984 کے مرحوم اداکاراقبال حسن ، اسلم پرویز ، ہمالیہ والا |
1985 | غیر ملکی اداکاروں کی مقبولیت
سلمیٰ آغا کی آمد
سلمیٰ آغا ، ماضی کی اداکارہ شاہینہ کی بیٹی اور رفیق غزنوی کی نواسی تھی جس نے فلم ہم اور تم (1985) سے پاکستانی فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ قبل ازیں ، وہ ایک بھارتی فلم نکاح سے بڑی شہرت حاصل کر چکی تھی۔ دو درجن فلموں میں کام کرنے کے علاوہ اداکار جاوید شیخ سے شادی بھی کی تھی۔ بازارحسن (1988) کامیاب ترین فلم تھی۔ آخری فلم گھنگھرو و کلاشنکوف (1993) تھی۔
ریما کی آمد
ہدایتکار اقبال کاشمیری کی فلم قسمت (1985) میں اداکارہ ریما نے ایک چائلڈ سٹار کے طور پر فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ بطور ہیروئن پہلی فلم بلندی (1990) تھی جو شان کی بھی پہلی فلم تھی۔ نوے کی دھائی میں خاصی کامیابی حاصل کی تھی۔ ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ منڈا بگڑا جائے (1995) کامیاب ترین فلم تھی۔ اب تک کی آخری فلم صنم (2015) تھی۔
عرفان کھوسٹ ہیرو بنے
پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور زمانہ ڈرامہ وار سیریل "اندھیرا اجالا" سے بے مثل شہرت حاصل کرنے والے مزاحیہ اداکار عرفان کھوسٹ نے بطور ہدایتکار اور اداکار پہلی فلم ڈائریکٹ حوالدار (1985) بنائی جو بڑی کامیاب رہی۔ اپنی دوسری فلم چن ماہی (1987) میں ممتاز کے ساتھ ہیرو بھی آئے لیکن ناکام رہے۔ ان کی پہلی فلم واہ بھئی واہ (1964) تھی۔
1985 کے دیگر اداکارعابد بٹ فلم ڈائریکٹ حوالدار (1985) ، عرفان ہاشمی فلم باہو جھلا (1985) ، سپنا فلم جگاور (1985)1985 کے مرحوم اداکارچنگیزی ، عیدن بائی |
1986 | نیلی اور نادرہ کی آمد
اسماعیل شاہ اور اظہار قاضی کی آمد
اسی سال دو نئے ہیرو اسماعیل شاہ (فلم باغی قیدی) اور اظہار قاضی (فلم روبی) بھی سامنے آئے جبکہ کراچی سٹیج کے بے تاج بادشاہ عمر شریف (فلم حساب) بھی کامیڈین کے طور پر فلموں میں آئے تھے۔
ننھا کی خودکشی
ننھا ، پہلے پاکستانی اداکار تھے جنھوں نے خودکشی کی تھی۔
1986 کے دیگر اداکارثمینہ پیرزادہ فلم شادی میرے شوہر کی (1986) ، منزہ شیخ فلم مس بنکاک (1986)1986 کے مرحوم اداکارچن چن ، ساقی ، محمد حنیف آزاد |
1987 | سدھیر اور وحیدمراد کی آخری فلمیں
دلچسپ اتفاق ہے کہ اسی سال پاکستان کے پہلے سپرسٹار اور ایکشن ہیرو ، سدھیر کی آخری فلم بھی ریلیز ہوئی جو سن آف ان داتا (1987) تھی۔ سدھیر صاحب اپنی اس آخری فلم میں بھی مرکزی کردار میں تھے اور سلطان راہی نے منفی کردار کیا تھا۔ 1987 کے دیگر اداکارجہانزیب فلم چوروں کی بارات (1987) ، محمدعلی شہکی فلم سن آف ان داتا (1987) ، کنول فلم چن ماہی (1987) ، محمود اسلم فلم دنیا (1987) ، فرید نواز بلوچ فلم گریبان (1987)1987 کے مرحوم اداکارمینا شوری |
1988 | 1988 کے اداکار1988کے دیگر اداکارخوشبو فلم ماں بنی دلہن (1988) ، راشد محمود فلم ڈاکو کی لڑکی (1988) ، ندا ممتاز فلم برداشت (1988)1988کے مرحوم اداکاراجمل |
1989 | زیبا کی آخری فلم
شفقت چیمہ کی آمد
پاکستانی فلموں کے آخری بڑے ولن اداکار شفقت چیمہ نے فلم کالکا (1989) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ سلطان راہی ہیرو تھے۔
1989کے دیگر اداکارشکیلہ قریشی فلم دشمنوں کے دشمن (1989) ، عجب گل فلم قیامت سے قیامت تک (1989) ، گلاب چانڈیو فلم دشمن (1989)1989کے مرحوم اداکارمظہرشاہ ، اے آر کاردار ، ممتاز شانتی ، رینوکا دیوی (بیگم خورشید مرزا) ریکھا ، کمال ایرانی ، سلیم ناصر ، زرقا |
1990 | صائمہ اور شان کی آمد
1990 کے دیگر اداکارسہیل احمد فلم گوری دیاں جھانجھراں (1990) ، سہیل اصغر فلم جنگجو گوریلے (1990)1990 کے مرحوم اداکارحنیف ، نرالا ، نینا ، رفیق ٹنگو ، شیخ اقبال |
1991 | البیلا ٹائٹل رول میں
شان کے بھائی سروش نے بھی فلموں میں قسمت آزمائی کی لیکن ناکام رہے۔ 1991ء میں نئے اداکارحنا شاہین فلم ریاض گجر (1991) ، رستم فلم عشق (1991) ، سروش فلم پیار ہی پیار (1991)1991 کے مرحوم اداکاراے شاہ شکار پوری ، نظام دین ، شاہ نواز گھمن |
1992 | عمر شریف بطور ہیرو
صاحبہ اور جان ریمبو کی آمد
اداکارہ نشو کی بیٹی ، صاحبہ نے فلم عشق رہنا سدا (1992) اور ایک ٹی وی ڈرامہ سے شہرت حاصل کرنے والے ڈانسر اداکار ، جان ریمبو نے فلم ہیرو (1992) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا۔ منڈا بگڑا جائے (1995) سب سے بڑی فلم تھی۔ دو درجن سے زائد مشترکہ فلمیں ہیں۔ دونوں نے آگے چل کر شادی بھی کی۔
شاہد خان کی آمد
پشتو فلموں میں بدرمنیر کے بعد جس اداکار کو بے پناہ شہرت ملی وہ شاہد خان ہیں جو پہلی بار فلم قیامت شپہ (1992) میں آئے تھے۔ دو سو سے زائد فلموں میں کام کرچکے ہیں۔ چند اردو اور پنجابی فلموں میں بھی کام کیا۔ 2007ء میں پہلی بار اردو فلم جھومر اور پنجابی فلم مرشد بادشاہ میں بھی نظر آئے تھے۔
1992 کے دیگر اداکارحیدر سلطان فلم ببرا (1992) ، سلیم شیخ فلم دنیا دس نمبری (1992)1992 کے مرحوم اداکاراسماعیل شاہ ، نیرسلطانہ ، نذر |
1993 | معین اختر بطور ہیرو
پتر منور ظریف دا
"زندہ ہاتھی لاکھ کا ، مردہ سوا لاکھ کا" کے مصداق عظیم کامیڈین منور ظریف اپنے انتقال کے بعد سب سے زیادہ یاد کیے گئے۔ ان کی زندگی ہی میں فلم کے ٹائٹل پر ان کا نام استعمال ہوا جو رنگیلا کے بعد دوسرا موقع تھا لیکن موت کے بعد اگر کسی اداکار کا نام فلم کے ٹائٹل میں استعمال ہوا ہے تو وہ صرف منور ظریف ہی ہیں۔حاجی عبدالرشید شیرا نے پرانی فلموں کو نئے لیبل سے چلایا اور خوب کمایا۔ منورظریف کے بیٹے فیصل کو ہیرو لے کر فلم پتر منورظریف دا (1993) بھی بنا ڈالی۔ ایک اور فلمساز نے پتر جیرے بلیڈ دا (1994) میں بھی فیصل کو ہیرو لیا لیکن وہ اپنے عظیم باپ کو کاپی نہ کر سکا اور گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو کر اپنے باپ اور تایا کی طرح جوانی ہی میں فوت ہو گیا تھا۔ 1991 کے دیگر اداکارنرگس فلم ڈنڈا پیر (1993) ، ثنا ، زیبا شہناز فلم واہ کیا بات ہے (1993) ، سعود فلم گناہ (1993)1993 کے مرحوم اداکاررانی ، گل زمان ، ابو شاہ |
1994 | عابد کاشمیری بھی ہیرو
1994 کے مرحوم اداکارآصف جاہ ، دلدار پرویز بھٹی ، محبوب عالم |
1995 | عدنان سمیع خان
ریشم اور بابر علی کی جوڑی
ہدایتکار سید نور کی فلم جیوا (1995) میں ریشم اور بابر علی کی جوڑی بے حد پسند کی گئی تھی۔ ریشم کو بعد میں اپنی جذباتی ادکاری کی وجہ سے پسند کیا گیا اور بابرعلی کو پنجابی فلموں میں ولن کے رول قبول کرنا پڑے۔
محمدعلی کی آخری فلم
اردو فلموں کے عظیم ہیرو محمدعلی کی آخری فلم دم مست قلندر (1995) ریلیز ہوئی تھی۔
1995 کے دیگر اداکارمیرا فلم مشکل (1995) ، عتیقہ اوڈھو فلم جو ڈر گیا وہ مر گیا (1995)1995 کے مرحوم اداکارنادرہ ، مسعودرانا ، اسد جعفری ، اقبال یوسف ، فخری احمد ، محمد یوسف |
1996 | پنجابی فلموں کا جنازہ
معمر رانا اور ارباز خان کی آمد
فلم کڑیوں کو ڈالے دانہ (1996) میں ایک نئے ہیرو معمررانا کو متعارف کروایا گیا جو شان کے بعد دوسرے کامیاب ترین ہیرو ثابت ہوئے۔ فلم چوڑیاں (1998) سب سے بڑی فلم تھی۔فلم گھونگھٹ (1996) میں معروف پشتو اداکار آصف خان کے بیٹے ارباز خان کو متعارف کروایا گیا تھا۔ وہ پشتو فلموں کے چوٹی کے اداکار ثابت ہوئے اور اداکارہ خوشبو کے شوہر ہیں۔ 1996 میں دیگر اداکارنرما فلم بازی گر (1996)1996 کے مرحوم اداکارسلطان راہی ، خالدہ ریاست ، بالی جٹی ، زرین ، قربان جیلانی |
1997 | شبنم کی آخری فلم
1997 کے اداکارنیر اعجاز فلم چاند گرہن (1997)کے مرحوم اداکارسدھیر ، حمید وائن ، خان عطاالرحمان ، نورمحمد لاشاری |
1998 | طالش اور ساون کا انتقال ہوا
1998ء کے نئے اداکارجاناں ملک فلم محافظ (1998) ، فخرعالم فلم ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ (1998)1998ء کے مرحوم اداکارطالش ، ساون ، آشا پوسلے ، مزلہ ، عرش منیر ، مہاراج غلام حسین کتھک ، ڈئر اصغر ، محسن رضوی |
1999 | ہمایوں سعید کی آمد
1999ء کے مرحوم اداکارعنایت حسین بھٹی ، ایس گل ، یاسمین خان |
2000 | ملکہ ترنم نورجہاں کا انتقال ہوا
2000ء کے اداکارزارا شیخ ، وینا ملک فلم تیرے پیار میں (2000)2000ء کے مرحوم اداکارملکہ ترنم نورجہاں ، عابد خان |
2001 | شان کے انتہائی عروج کا دور
2001ء کے مرحوم اداکارخورشید ، رانی کرن ، شمی ، فرید نواز بلوچ |
2002 | یوسف خان کی واپسی
2002ء کے مرحوم اداکارنگہت سلطانہ ، انور حسین ، لطیف کپاڈیا ، یاسمین اسماعیل |
2003 | امداد حسین کا انتقال
2003ء کے مرحوم اداکارامداد حسین ، شوکی خان ، شہزادی |
2004 | سلطان راہی کی آخری فلم
2004ء کے مرحوم اداکارالبیلا ، سکندر شاہین ، ارسلان |
2005 | رنگیلا اور رحمان کا انتقال ہوا
2005ء کے مرحوم اداکاررنگیلا ، رحمان ، خلیفہ نذیر ، سبحانی بایونس ، جمشید انصاری ، جمیل بسمل ، عشرت ہاشمی ، عذرا شیروانی ، اسلم لاٹر |
2006 | محمد علی کا انتقال ہوا
2006ء کے مرحوم اداکارمحمدعلی ، ادیب ، جگی ملک ، جمال ، سکیدار ، رومانہ ، ساجن ، پپو ظریف ، طارق جاوید |
2007 | فواد خان کی آمد
2007ء کے مرحوم اداکارراگنی ، الیاس کاشمیری ، زینت ، اظہار قاضی ، شفیع محمد ، منی باجی ، راشد |
2008 | بدرمنیر کا انتقال ہوا
2008ء کے مرحوم اداکاربدرمنیر ، سورن لتا ، ملک انوکھا ، انور سولنگی ، نمی ، نجمہ بیگم ، اکبر ، محمود علی |
2009 | 3 بڑے ہیرو فوت ہوئے
2009ء کے مرحوم اداکارکمال ، یوسف خان ، کیفی ، حمید چوہدری ، ظہور احمد ، جاوید حسن ، کومل ، نصراللہ بٹ |
2010 | سلونی اور چکوری کا انتقال
|
2011 | مائرہ خان اور عاطف اسلم
اسی فلم میں نامور گلوکار عاطف اسلم نے بھی اداکاری کی تھی۔ 2011ء کے دیگر اداکارحمائمہ ملک فلم بول (2011) ، آمنہ شیخ فلم لو میں گم (2011)2011ء کے مرحوم اداکارمعین اختر ، طارق شیخ ، ناظم ، عقیل ، زاہد خان ، لطیف چارلی ، جمیل فخری ، ببو برال ، مستانہ ، لیاقت سولجر ، رضوان واسطی ، خیام سرحدی |
2012 | لہری کا انتقال ہوا
2012ء کے مرحوم اداکارلہری ، سلمیٰ ممتاز ، مجید ظریف ، الطاف خان ، تمنا ، مشتاق چنگیزی ، طاہرہ واسطی ، سلطانہ زمانہ ، ابراہیم نفیس |
2013 | حمزہ علی عباسی کی آمد
2013ء کے اداکارعائشہ خان فلم شرابی (2013) ، ماہ نور بلوچ فلم لمحہ (2013) ، سمیعہ ممتاز فلم زندہ بھاگ (2013)2013ء کے مرحوم اداکارزبیدہ خانم ، آسیہ ، عابد بٹ ، جہانگیر خان ، انور حسین |
2014 | مہوش حیات کی آمد
2014ء کے دیگر اداکارفہد مصطفیٰ ، محسن عباس حیدر ، عروا حسین فلم نامعلوم افراد (2014) ، مہرین راحیل فلم پیاسا (2014)2014ء کے مرحوم اداکارمنیر ظریف ، خلیل ، غیور اختر |
2015 | بشریٰ انصاری کی فلموں میں آمد
2013ء کے اداکاربشریٰ انصاری فلم جوانی پھر نہیں آنی (2015) ، صبا قمر فلم منٹو (2015) |
2016 | شمیم آرا اور حبیب کا انتقال ہوا
2016ء کے اداکارصنم سعید فلم بچانا (2016) ، عثمان مختار فلم جنان (2016)2016ء کے مرحوم اداکارشمیم آرا ، حبیب ، عمردراز ، رتن کمار ، لاڈلا |
2017 | رزاق کا انتقال ہوا
2017ء کے اداکارشہروز سبزواری فلم چین آئے نہ (2017)2017ء کے مرحوم اداکاررزاق ، خواجہ اکمل ، ظاہر شاہ ، تنظیم حسن ، دلجیت مرز |
2018 | علی ظفر بطور ہیرو
2018ء کے مرحوم اداکارعلی اعجاز ، چکرم ، قاضی واجد ، اختر شاد |
2019 | روحی بانو اور عابد علی کا انتقال ہوا
2019ء کے مرحوم اداکارروحی بانو ، عابد علی ، سیما ، فیصل منورظریف ، لیاقت میجر ، گلاب چانڈیو |
2020 | صبیحہ اور فردوس کا انتقال ہوا
2020ء کے مرحوم اداکارصبیحہ ، فردوس ، طارق عزیز ، مہ پارہ ، اسد بخاری ، اطہر شاہ خان ، ریحان ، امان اللہ خان ، ریشماں |
2021 | نیلو اور اعجاز کا انتقال ہوا
2021ء کے مرحوم اداکارنیلو ، اعجاز ، عمر شریف ، شوکت علی ، سہیل اصغر ، طلعت اقبال ، دردانہ بٹ ، طلعت صدیقی ، انور اقبال |
2022 | افضال احمد کا انتقال ہوا
2022ء کے مرحوم اداکارافضال احمد ، مسعوداختر ، نیلوفر ، رشید ناز ، سجاد کشور |
2023 | قوی کا انتقال ہوا
2023 کے مرحوم اداکارقوی ، ضیاء محی الدین(پاکستانی اداکاروں کی ٹائم لائن کے اس مضمون کی طوالت اور فائل کے انتہائی وزنی ہونے کی وجہ سے عبارت میں اندرونی لنکس نہیں لگائے جا رہے البتہ تصاویر کو کلک کیا جا سکتا ہے۔ اداکاروں کے علاوہ دیگر سبھی فنکاروں اور فلموں پر جملہ معلومات پاکستان فلم میگزین کے فلم ہسٹری کے سالانہ صفحات پر اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہیں)۔ |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.