مظفروارثی
کی بطور فلمی گیت نگار
فلم ہمراہی ایک شاہکار فلم تھی
مظفروارثی ، ایک انتہائی قابل احترام شاعر اور ایک ممتاز نعت خواں تھے۔۔!
فلمی دنیا میں وہ فلم ہمراہی (1966) کے سپرہٹ گیتوں کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔
پاکستان فلم ڈیٹابیس کے غیر حتمی اعدادوشمار کے مطابق انھوں نے 15 فلموں میں 60 کے قریب گیت لکھے تھے۔
پہلی فلم فرشتہ (1961) میں رشید عطرے کی موسیقی میں ان کا لکھا ہوا پہلا گیت "دل کی دھڑکن ، تیری آواز ہوئی جاتی ہے۔۔" ملکہ ترنم نورجہاں نے گایا تھا جو اداکارہ یاسمین پر فلمایا گیا تھا۔
اس کے بعد انھوں نے فلم قیدی (1962) ، شکاری ، شطرنج ، باغی سپاہی اور لنڈابازار (1964) کے متعدد گیت لکھے لیکن اصل شہرت فلم ہمراہی (1966) کے سپرہٹ گیتوں سے ملی جن پرمضمون کے آخر میں بات ہوگی۔
فلم میرا سلام (1966) دوسری فلم تھی جس کے سبھی گیت انھوں نے لکھے تھے۔ یہ ایک مذہبی فلم تھی جس میں ایک آدھ کے سوا سبھی نعتیں اور قوالیاں تھیں۔
فلم میں چپ رہوں گی (1966) ، نادرہ اور بے رحم (1967) کے بعد فلم عدالت (1968) کے سبھی گیت بھی ان کے لکھے ہوئے تھے جن میں ملکہ ترنم نورجہاں کا گایا ہوا ایک گیت سپرہٹ ہوا تھا:
- دکھائے دل جو کسی کا ، وہ آدمی کیا ہے۔۔
اس کے بعد ان کے گیت کمانڈر (1968) ، سی آئی ڈی (1969) اور ہملوگ (1970) میں ملتے ہیں لیکن ان سبھی فلموں میں کوئی قابل ذکر گیت نہیں ملتا۔ شاید اسی ناکامی کی وجہ سے انھوں نے فلمی دنیا چھوڑ دی تھی اور نعت خوانی میں بڑا نام پیدا کیا تھا۔
نصرت فتح علی خان کی گائی ہوئی مشہور زمانہ حمد
- وہ کون ہے جو یہ نظام ہستی چلا رہا ہے۔۔
بھی مظفروارثی صاحب کی لکھی ہوئی تھی۔
وہ خود بھی بڑے ترنم سے اپنی نعتیں گایا یا پڑھا کرتے تھے۔ ہمارے ہاں مذہبی حلقے گانا بجانا حرام سمجھتے ہیں اور نعتیں گانے کو بھی نعت خوانی یعنی نعت پڑھنا کہتے ہیں حالانکہ ہر وہ کلام جو ترنم کے ساتھ سر اور لے میں ہو ، وہ ایک گیت یا گانا ہی ہوتا ہے۔ اس پر بڑا تفصیلی لکھا جا سکتا ہے لیکن یہاں یہ موضوع نہیں ہے۔
مظفر وارثی کی شاہکار فلم ہمراہی (1966)
فلم ہمراہی (1966) پہلی فلم تھی جس کے سبھی گیت مظفروارثی صاحب نے لکھے تھے جو امر سنگیت میں شامل ہیں۔
فلمساز میاں شفیق اور ہدایتکار راجہ حفیظ کی یہ سپرہٹ فلم ایک بھارتی فلم دوستی (1964) کی نقل تھی جس پر تفصیل سے بات ان شاء اللہ ، اگلے مضمون میں ہوگی۔
بھارتی فلم دوستی (1964) میں مجروح سلطان پوری کے لکھے ہوئے چھ گیتوں کے مقابلے میں مظفروارثی نے فلم ہمراہی (1966) میں آٹھ گیت لکھے گئے تھے جن میں سے چھ سپرہٹ ہوئے تھے جو ایک بہت بڑی بات تھی۔
بھارتی فلم کے موسیقار لکشمی کانت پیارے لال کی جوڑی تھی جن کی معاونت آر ڈی برمن نے کی تھی۔ ان کے مقابلے میں فلم ہمراہی (1966) کی موسیقی ماسٹر تصدق حسین نے دی تھی جنھوں نے نقل کرنے کے بجائے مقابلے کے گیت تخلیق کیے تھے جو سپرہٹ ہوئے اور یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔
مسعودرانا بمقابلہ محمدرفیع
بھارتی فلم دوستی (1964) کے چھ میں سے پانچ گیت عظیم گلوکار محمدرفیع نے گائے تھے جو سبھی سپرہٹ تھے۔ پاکستان میں مسعودرانا کے سوا کوئی دوسرا گلوکار ایسا نہیں تھا جو محمدرفیع کے مقابلے کے گیت گا سکتا تھا۔ مسعودرانا نے فلم ہمراہی (1966) کے آٹھ میں سے سات گیت گائے تھے جن میں سے چھ سپرہٹ تھے۔
پاکستان کی فلمی تاریخ میں کبھی کسی گلوکار (یعنی مرد گانے والے) نے کسی ایک فلم میں اتنے متنوع اور سپرہٹ گیت نہیں گائے تھے۔ ان گیتوں میں ایک نعت ، ایک ترانہ ، ایک غزل ، ایک طربیہ اور تین المیہ گیت تھے۔ فلم دوستی (1964) اور فلم ہمراہی (1966) کے گیتوں کا ایک تقابلی جائزہ کچھ اس طرح سے تھا:
فلم دوستی (1964) میں محمدرفیع کا پہلا گیت ان کے مخصوص دھیمے اور دلکش انداز میں تھا:
- جانے والو ذرا ، مڑ کے دیکھو مجھے ، ایک انساں ہوں ، میں تمہاری طرح۔۔
اس گیت کے مقابلے میں
ماسٹر تصدق حسین نے
مظفروارثی سے بڑے آسان اور عام فہم انداز میں یہ بول لکھوائے تھے:
- کیا کہوں اے دنیا والو ، کیا ہوں میں ، دیکھ لو مجھ کہ تم جیسا ہوں میں۔۔
مسعودرانا کا اپنے مخصوص انداز میں ہائی پچ میں گایا ہوا یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا جو سننے والوں پر بڑا گہرا اثر کرتا تھا۔
فلم دوستی کا دوسرا گیت ایک المیہ گیت تھا جو رفیع صاحب کے شاہکار گیتوں میں شمار ہوتا ہے:
- راہی منوا دکھ کی چنتا کیوں ستاتی ہے ، دکھ تو اپنا ساتھی ہے۔۔
فلم
ہمراہی (1966) میں اس گیت کی جگہ
مظفروارثی کی لکھی ہوئی پہلی مشہور زمانہ فلمی نعت تھی:
- کرم کی اک نظر ہم خدارا ، یا رسول اللہ ﷺ ، تمہی ہو بے سہاروں کا سہارا ، یا رسول اللہ ﷺ
عام طور پر نعتیہ کلام دھیمی سروں میں گایا جاتا ہے لیکن یہ غالباً پہلی نعت تھی جو فلمی صورتحال کے مطابق اونچی سروں میں گائی گئی تھی اور ایک لازوال نعت ثابت ہوئی تھی۔
فلم دوستی (1964) کا تیسرا گیت ایک طربیہ گیت تھا جو رفیع صاحب کا ایک اور روایتی گیت تھا:
- کوئی جب راہ نہ پائے ، میرے سنگ آئے کہ پگ پگ دیپ جلائے ، میری دوستی میرا پیار۔۔
یہ واحد گیت تھا جس کے آغاز میں جو ساز بجتا ہے وہ فلم ہمراہی (1966) کے مقابلے کے اس گیت میں نقل کیا گیا تھا لیکن باقی گیت کی دھن مختلف تھی جسے مسعودرانا نے بڑی بے ساختگی اور آسانی سے گایا تھا اور یہ گیت بھی سپرہٹ ہوا تھا:
- ہوگئی زندگی مجھے پیاری ، مل گئے جب سے غم گسار مجھے ، دوستی شمع بن کے جلتی ہے ، راہ دکھلائے میرا پیار مجھے۔۔
فلم دوستی (1964) کا چوتھا گیت محمدرفیع کا گایا ہوا فلم کا سب سے مقبول ترین گیت تھا:
- چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے ، پھر بھی کبھی اب نام کو تیرے ، آواز میں نہ دوں گا۔۔
دلچسپ بات ہے کہ فلم ہمراہی (1966) میں اس گیت کے مقابلے میں مسعودرانا کی ایک غزل تھی جو سپرہٹ ہوئی تھی:
- مجھے چھوڑ کر اکیلا ، کہیں دور جانے والے ، نہ بھلا سکوں گا تجھ کو ، مجھے یاد آنے والے۔۔
اس شاہکار غزل میں مسعودرانا کی آواز کی اٹھان ایسی تھی کہ ناقدین حیران رہ گئے تھے۔ اس دور میں کہا جاتا تھا کہ اونچی سروں میں مسعودرانا ، محمدرفیع سے بھی بہتر گاتے تھے اور مبینہ طور پر اس کا اعتراف رفیع صاحب نے خود بھی کیا تھا۔ میرا اپنا مشاہدہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
فلم دوستی کا پانچواں گیت جو محمدرفیع کی ایک غزل تھی:
- میرا تو جو بھی قدم ہے ، وہ تیری راہ میں ہے ، کہ تو کہیں بھی رہے ، تو میری نگاہ میں ہے۔۔
اس کے مقابلے کا مسعودرانا کا گایا ہوا یہ گیت حیرت انگیز طور پر ہٹ نہیں ہوا تھا لیکن سنیں تو انتہائی متاثر کن گیت تھا:
- قدم قدم پہ نئے دکھ ہیں زندگی کے لیے ، میں جی رہا ہوں جہاں میں تیری خوشی کے لئے۔۔
اس گیت کی شاعری بھی مظفروارثی نے کیا خوب کی تھی۔ اس کا ایک مصرعہ ناقابل فراموش تھا "یہ کس مقام پہ اے دوست آ گیا ہوں میں ، پڑی ہے تجھ پہ مصیبت ، تڑپ اٹھا ہوں میں ، یہاں تو کوئی تڑپتا نہیں کسی کے لئے۔۔"
فلم ہمراہی (1966) میں موسیقار ماسٹر تصدق حسین نے کل آٹھ گیت کمپوز کیے تھے جن میں سے مسعودرانا نے سات گیت گائے تھے۔ مندرجہ بالا پانچ مقابلے کے گیتوں کے علاوہ دو گیت اور بھی تھے۔ ان میں ایک ترانہ تھا:
- یاد کرتا ہے زمانہ ہے انھی انسانوں کو ، روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو۔۔
یہ سپرہٹ ملی ترانہ 1965ء کی پاک بھارت کے تناظر میں گایا گیا تھا۔ اونچی سروں میں گایا گیا یہ یادگار ترانہ ، مظفروارثی صاحب کا ایک خراج تحسین تھا جو جنگ کے شہیدوں اور اس وقت کی قیادت کو پیش کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ فلم ہمراہی (1966) کا ساتواں گیت بڑے کمال کا تھا:
- نقشہ تیری جدائی کا زخم جگر میں ہے ، دل میں ہے تیرا غم ، تیری صورت نظر میں ہے۔۔
اس گیت کے دونوں انتروں سے پہلے مسعودرانا کے الاپ بڑے کمال کے ہیں۔ جب کبھی لمبی ڈرائیو پہ نکلتا ہوں تو گلا صاف کرنے کے لیے خاص طور پر اس گیت کو گاتا ہوں اور فرق صاف محسوس ہوتا ہے۔
بھارتی فلم دوستی (1963) میں محمدرفیع کے پانچ گیتوں کے علاوہ ایک گیت ، لتا منگیشکر کا گایا ہوا تھا "گڑیا ، ہم سے روٹھی رہو گی ، کب تک نہ ہنسو گی۔۔" اس کے مقابلے میں فلم ہمراہی (1966) میں مسعودرانا کے سات گیتوں کے علاوہ یہ اکلوتا نسوانی گیت تھا "گڑیا رانی مان بھی جاؤ ، نہیں روٹھنا اچھا۔۔" اس گیت کو آئرن پروین نے گایا تھا جسے ساٹھ کے عشرہ کی "پاکستانی لتا" بھی کہا جاتا تھا۔ اس کی آواز بڑی باریک تھا اور حیران کن حد تک اس نے بڑی تعداد میں گیت گائے تھے۔
مظفروارثی نے فلم ہمراہی (1966) کے گیت لکھ کر تاریخ میں اپنا نام امر کروا لیا تھا۔ 1933ء میں میرٹھ ، بھارت میں پیدا ہوئے اور 28 جنوری 2011ء کو لاہور میں انتقال ہوا تھا۔
11 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت