A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
مسعودرانا کے گائے ہوئے اس شاہکار گیت نے مقبولیت کے تمام اگلے پچھلے ریکارڈز توڑ دیے تھے۔ پاکستانی فلموں میں ایسا دلکش مردانہ گیت اس سے پہلے کبھی نہیں گایا گیا تھا اور کوئی دوسرا گلوکار اس گیت کو مسعودرانا سے بہتر گا بھی نہیں سکتا تھا۔
بابا چشتی جیسے جوہرشناس موسیقار نے مسعودرانا جیسے گوہر نایاب سے ان کے میعار کے مطابق گیت گوا کر انھیں ایک ورسٹائل گلوکار بنا کر تاحیات فلموں کی ضرورت بنا دیا تھا۔
حزیں قادری کا لکھا ہوا یہ لازوال گیت فلم کی ریلیز سے قبل ہی اتنا مقبول ہو چکا تھا کہ جب فلم میں لالہ سدھیر پر فلمایا گیا تھا تو اس کے فلم ورژن میں چوتھے انترے کا اضافہ کر دیا گیا تھا تاکہ اس گیت کی بے مثل مقبولیت کو مزید کیش کروایا جا سکے۔
مسعودرانا کے اس سدا بہار گیت نے فلم کے دیگر گیتوں کو پس منظر میں دھکیل دیا تھا حالانکہ سبھی گیت زبردست تھے۔ ان میں سے خاص طور پر مالا بیگم کا ٹانگے ہی کے بارے میں گایا ہوا ایک بڑا دلکش گیت تھا جسے اکثر سننے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ ایک تو حزیں قادری صاحب کے لکھے ہوئے عوامی بول اور اوپر سے مالا کی دلکش گائیکی اور نیلو کی معصوم اداکاری کیا سماں پیدا کرتی ہے۔ خاص طور پر اس گیت کے آخری انترے میں دل موہ لینے والے یہ بول کیا کمال کے ہیں:
اس گیت کے دوران لالہ سدھیر کو کوچوان کے روپ میں جس شان کے ساتھ دکھایا گیا ہے ، اس سے مجھے اپنے ایک مرحوم دوست یاد آ جاتے ہیں جو یہاں ڈنمارک میں نہ صرف ٹیکسی ڈرائیور تھے بلکہ اس کے مالک بھی تھے۔
ان سے ایک بار ملاقات ہوئی تو بے خیالی سے میرے منہ سے نکل گیا تھا "ٹانگے والا خیر منگدا۔۔" انھیں بڑا محسوس ہوا تھا کہ میں نے ایک تانگے کو ڈنمارک کی ٹیکسی سے تشبیہ دی ہے جو شاید دنیا میں سب سے زیادہ لگژری سروس ہے کیونکہ یہاں عام طور ٹیکسیاں مرسڈیز گاڑیوں پرمشتمل ہوتی ہیں جو زیادہ سے زیادہ دو سال پرانا ماڈل ہوتی ہیں۔
میں نے فلم ڈاچی (1964) پہلی بار پاکستان میں اپنے دوسرے دور 1977/82ء میں اپنے آبائی شہر کھاریاں کے سنگم سینما میں دیکھی تھی۔
اس دور میں سینماؤں پر پرانی فلمیں اکثر ریلیز ہوتی تھیں جو مجھ جیسے فلم بینوں کے لیے نئی فلموں سے زیادہ اہم ہوتی تھیں۔
یہ فلم جب بھی چلی ، پسند کی گئی اور ہمیشہ "ٹانگے والے خیر منگدا۔۔" کے لیبل سے چلتی تھی۔ فلموں کے اشتہارات ہوں یا بل بورڈ ، اس گیت کے ذکر کے بغیر فلم کی پبلسٹی نہیں ہوتی تھی۔
عام طور پر فلم بین ، ناچتی گاتی عورتوں اور ماردھاڑ کے شاہکار دیکھنے کے لیے فلم دیکھتے تھے اور ناچ گانوں کے دوران نعرہ اور ہلڑ بازی ، سیٹیاں اور دیگر شورشرابا کرنا ایک معمول ہوتا تھا لیکن جب مسعودرانا کا یہ بے مثل گیت "ٹانگے والا خیر منگدا۔۔" سکرین پر آیا تھا تو بھرے ہال میں سناٹا چھا گیا تھا اور لوگوں نے یہ گیت اتنی محویت سے سنا تھا کہ سانس لینے کی آواز بھی نہیں آرہی تھی۔ جب گیت ختم ہوا تھا تو کسی منچلے نے آواز لگائی تھی "کوئی ہے۔۔؟" تو پورا ہال کشت زعفران بن گیا تھا۔
اس شو کے دوران ایک اور دلچسپ واقعہ یہ بھی ہوا تھا کہ ایک فلم بین ، فلم کا پوسٹر دیکھ کر اپنے ساتھی کو بتا رہا تھا کہ
"نیلو نے اس فلم میں ڈاچی کا رول کیا ہے۔۔"
یاد رہے کہ پنجابی زبان میں ایک قد بت والی لیکن سست و کاہل اور بے وقوف لڑکی کو طنزیہ ڈاچی کہتے ہیں لیکن فلم ڈاچی (1964) میں صورتحال بالکل مختلف ہوتی ہے جہاں نیلو ، ایک انتہائی ذہین اور سمجھدار لڑکی ہوتی ہے جو بڑے داناؤں کے انداز میں اپنے لائی لگ باپ (ایم اسماعیل) کو سمجھاتی بجھاتی رہتی ہے۔
حزیں قادری جیسے عجوبہ روزگار مصنف کی لکھی ہوئی کہانی ، مکالمے ، سکرین پلے اور گانے انتہائی اعلیٰ پائے کے تھے اور ان میں سے اس فلم کا ایک مکالمہ میری دلچسپی کا حامل تھا جو ایم اسماعیل اور نیلو کے درمیان ہوتا ہے اس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح سے تھا:
ایم اسماعیل: "تمہاری ماں بڑی سادہ عورت ہے ، جس دن سے روپیہ ، سو پیسے کا ہوا ہے ، اسے حساب کرنا نہیں آیا۔۔"
نیلو: "اسی لیے تو خدا نے اسے بے حساب دے رکھا ہے۔۔!"
فلم ڈاچی ، عید الفطر کے دن 15 فروری 1964ء کو ریلیز ہوئی تھی اور زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ یکم جنوری 1961ء سے پاکستان میں سکوں کا اعشاری نظام رائج کر دیا گیا تھا جس سے ایک روپیہ ، 100 پیسے کے برابر ہو گیا تھا۔
اس سے قبل ایک روپیہ ، 64 پیسے یا 16 آنے کا ہوتا تھا اور ایک آنہ ، 4 پیسے کا ہوتا تھا اور ایک پیسہ میں 3 پائیاں بھی ہوتی تھیں۔ وہ جو ایک اٹھنی ، آٹھ آنوں یا 32 پیسوں کی ہوتی تھی وہ 50 پیسے کا سکہ بنا دیا گیا تھا اور ایک چونی میں 4 آنے یا 16 پیسوں کی بجائے 25 پیسے ہو گئے تھے۔ ایک آنہ ، 4 پیسے کا اور 2 پیسے کا ٹکا بھی ماضی کا حصہ بن گیا تھا۔
آجکل بیچارہ روپیہ جو بڑی بے دردی سے بے حال کر دیا گیا ہے ، کبھی اس ایک روپے میں 16 آنے ، 32 ٹکے ، 64 پیسے ، 128 دھیلے ، 192 پائیاں ، 264 دمڑیاں ، 2640 کوڑیاں اور 7920 پھوٹی کوڑیاں ہوتی تھیں۔
یاد رہے کہ ہماری روزمرہ بول چال میں اب بھی ان پرانے سکوں کی بات ہوتی ہے حتی کہ چند فلمی گیت ایسے بھی گائے گئے ہیں کہ جن میں ان متروکہ سکوں کا ذکر ملتا ہے مثلاَ مسعودرانا ہی کے گیت
اور احمدرشدی اور آئرن پروین کا گیت
کے علاوہ پرانے سکوں کے بارے میں سب سے بہترین ذکر فلم یار مار (1967) کے اس گیت میں ملتا ہے
نسیم بیگم اور آئرن پروین کے گائے ہوئے اس خوبصورت گیت میں بتایا جاتا ہے کہ ایک پیسہ ، 2 دھیلوں اور 3 پائیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
تاریخ کا ایک طالبعلم ہونے کے ناطے میرے لیے ایسی فلموں اور گیتوں کی بڑی اہمیت رہی ہے۔
مسعودرانا کا یہ شاہکار گیت "ٹانگے والا خیر منگدا۔۔" ایک سٹریٹ سانگ تھا جو گلی گلی گونجتا تھا اور ایک ضرب المثل بن گیا تھا۔
پنجابی زبان میں "خیر" کو بھیک بھی کہتے ہیں اور بچپن میں ہم سمجھتے تھے کہ تانگے والا بھیک مانگتا ہے۔
اس وقت ریڈیو ان لوگوں کے لیے تفریح کا سب بڑا ذریعہ ہوتا تھا جو فلمیں نہیں دیکھتے تھے۔
میرے بچپن میں ہمارا گھر "وڈکا گھر" ہوتا تھا یعنی میرے دادا جان مرحوم اور دادی جان مرحومہ خاندان کے بڑے ہوتے تھے۔ ہمارے محلہ میں زیادہ تر ایک ہی خاندان کے لوگ آباد تھے جن میں سے بیشتر افراد روزانہ شام کی چائے ہمارے گھر کے بڑے صحن میں پیتے تھے جہاں ٹرانسسٹر ریڈیو کے گرد بچھی چارپائیوں پر بیٹھ کر حقہ اور چائے کا دور چلتا تھا اور ساتھ میں ریڈیو پاکستان لاہور کا دیہاتی پروگرام "نظام دین یا جمہور دی آواز" بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا۔
میرے ذہن پر آج بھی نقش ہے کہ جب اس مقبول عام پروگرام میں ہر بدھ اور اتوار کی شام کو فرمائشی فلمی نغموں کا پروگرام ہوتا تھا تو ہمارے بزرگ عام طور پر عشق و محبت اور ہلا گلا ٹائپ گیتوں پر ریڈیو کی آواز کم کر کے اپنی باتیں شروع کر دیتے تھے لیکن جیسے ہی مسعودرانا کا کوئی گیت آتا تھا تو بڑے انہماک سے ریڈیو سننا شروع کر دیتے تھے اور چائے یا حقہ کا کش تک لینا بھول جاتے تھے۔
ان دنوں اس لازوال گیت "ٹانگے والا خیر منگدا۔۔" کے علاوہ
جیسے بامقصد اور سوشل و سماجی موضوعات پر گائے ہوئے مسعودرانا کے سپر ہٹ گیت زبان زدعام تھے جو اکثر ریڈیو پر بجتے تھے۔
مسعودرانا کو قدرت نے انتہائی دلکش اور خبردار قسم کی ایک آئیڈیل مردانہ آواز دی تھی اور ناقدین انھیں آواز کا بے تاج بادشاہ بھی کہتے تھے۔ ان کے گیتوں پر جہاں ریڈیو پر نظام دین (مرزا سلطان بیگ) اور قائم دین (رشید حبیبی) وغیرہ مسعودرانا کی تعریفیں کرتے اور گیت کی مناسبت سے کئی ایک یادگار واقعات سناتے تھے وہاں سامعین میں سے بھی کئی ایک آوازیں آتی تھیں کہ "کیا آواز ہے۔۔!" اور اس کے بعد یہ دعائیں بھی سننے کو ملتی تھیں کہ "جیوندا رو ، گان والیا۔۔"
میں نے اپنے بچپن سے اپنے اردگرد کے ماحول میں مسعودرانا سے زیادہ کسی اور گانے والے کی تعریف نہیں سنی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کے دیہاتی لوگ مسعودرانا کو مقصودرانا کہتے تھے ، میری والدہ محترمہ آج بھی انھیں اسی نام سے یاد کرتی ہیں۔
1964ء میں مسعودرانا کو جہاں فلم ڈاچی (1964) سے بریک تھرو ملا تھا وہاں اسی سال اپنا پہلا پنجابی تھیم سانگ
فلم بھرجائی (1964) اور اردو تھیم سانگ
فلم بیٹی (1964) میں گایا تھا۔
پاکستانی فلمی تاریخ میں ٹائٹل اور تھیم سانگ گانے میں کبھی بھی کوئی گلوکار مسعودرانا کا ہم پلہ نہیں تھا۔
اسی سال مسعودرانا نے مشرقی پاکستان کی پہلی فلم مالن (1964) کے لیے بھی نغمہ سرائی کی تھی۔
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.