اداکارہ نبیلہ کو پنجابی فلموں کی 'ملکہ جذبات' کہا جاتا تھا۔۔!
نبیلہ کو کلاسک اردو فلم بدنام (1966) سے بے پناہ شہرت ملی تھی۔ معروف ادیب سعادت حسن منٹو کے ایک مشہور افسانے 'جھمکے' سے ماخوز اس شاہکار فلم میں نبیلہ کا ایک ایسی شوقین مزاج عورت کا مرکزی کردار تھا جو قیمتی زیورات اور لگژری لائف کی خواہش رکھتی ہے لیکن غریب کوچوان شوہر اپنی حلال کی کمائی سے اس کی امنگوں کی تکمیل نہیں کرپاتا۔
بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے
اپنی بچی کو سنائی جانے والی اس لوری میں اس کی ادھوری خواہشات کی ترجمانی ہوتی ہے "آ تجھ کو سناؤں لوری ، حالات سے چوری چوری۔۔" مہنگے زیورات کی طلب میں غیر ارادی طور پر ایک مالدار شخص کے ہاتھوں اپنی عزت گنوا دیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسی آبرو باختہ عورتوں کا آخری ٹھکانہ کوٹھا ہی رہ جاتا ہے جہاں اس پر فلمائی ہوئی مشہور زمانہ غزل "بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے ، کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا۔۔" فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوتی ہے۔
مسرورانور کی لکھی ہوئی یہ سدابہار غزل ، ریڈیو پر چل چکی تھی۔ موسیقار دیبو بھٹاچاریہ نے فلمساز اور ہدایتکار اقبال شہزاد کی فرمائش پر اس غزل کو فلم کے لیے دوبارہ گلوکارہ ثریا ملتانیکر ہی کی آواز میں ریکارڈ کیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ صرف اس ایک غزل کی رائیلٹی سے فلم بدنام (1966) کے جملہ اخراجات پورے ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ نبیلہ کی اس یادگار فلم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسے سترہ روسی زبانوں میں ڈب کر کے نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا جو پاکستان کی فلمی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے۔
نبیلہ کی بطور ہیروئن واحد فلم
فلم بدنام (1966) کی کامیابی سے متاثر ہو کر نبیلہ کو پہلی اور آخری بار فلم چودہ سال (1968) میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر یوسف خان کے ساتھ کاسٹ کیا گیا تھا۔ فلمساز اور ہدایتکار اشرف خان کی یہ ایک بڑی ہی کمزور فلم تھی جس میں ہیروئن کو قتل کے جرم میں 14 سال کی جیل ہوجاتی ہے۔
نبیلہ ، ملکہ جذبات
نبیلہ کو اپنے پہلے دور میں فلموں میں سیکنڈہیروئن ، معاون ادکارہ ، ویمپ اور مزاحیہ کرداروں میں بھی دیکھا گیا تھا۔ اس پر تین درجن کے قریب گیت بھی فلمائے گئے تھے جن میں پس منظر میں گائے ہوئے گیت بھی شامل ہیں۔ نبیلہ کو اپنے دوسرے دور میں کیریکٹرایکٹر رولز میں ایسی شہرت ملی کہ بہت سی فلموں میں ہیروئن پر بھاری ہوتی تھی۔ خاص طور پر ماں کے کرداروں میں اس کی شہرت مسلمہ تھی۔ اس کے جاندار جذباتی مکالمے بڑے مشہور ہوتے تھے جس کی وجہ سے اسے 'ملکہ جذبات' بھی کہا جاتا تھا۔
نبیلہ کی پہلی فلم
نبیلہ کی پہلی فلم دلہن (1963) تھی جس میں ایک بڑا خوبصورت گیت تھا جو مالا اور آئرن پروین کی آوازوں میں تھا اور فلم میں شمیم آرا اور نبیلہ پر فلمایا گیا تھا "جان من ، جانان من ، یہ خط نہیں ، نذرانہ ہے۔۔" رشیدعطرے کی دھن میں بول فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے تھے۔ اس دور کی فلموں کی شاعری ، موسیقی ، گائیکی اور رقص کے علاوہ فلمبندی بھی بڑی مہذب ہوتی تھی جو سنجیدہ فلم بینوں کے لیے ناقابل فراموش ہوتی تھی۔
نبیلہ پر فلمائے ہوئے چند گیت
فلم بہوبیگم (1965) میں مالا اور احمدرشدی کا یہ گیت "میں نے کہا جی سنو ، پیار کیا ہے بھلا۔۔" نبیلہ کے علاوہ اعجاز اختر نامی اداکار پر فلمایا گیا تھا۔ یہ صاحب ایک انتہائی خوبرو جوان تھے لیکن فلموں میں چھوٹے موٹے کرداروں تک محدود رہے۔
فلم بھائی جان (1966) میں نبیلہ کی کامیڈی جوڑی منورظریف کے ساتھ تھی اور ان پر یہ دوگانا فلمایا گیا تھا "شکریہ ، جان من تیرا ، ہوگیا آباد گھر میرا۔۔" ناہیدنیازی کے ساتھ دوسری آواز سلیم شہزاد کی تھی جو ایک اچھے گلوکار تھے لیکن انھیں زیادہ موقع نہیں ملا تھا۔
نبیلہ کی پہلی پنجابی فلم پیداگیر (1966) تھی جس میں وہ ایک سٹیج ایکٹریس ہوتی ہے۔ اس کی جوڑی اکمل کے ساتھ ہوتی ہے جو اس فلم میں ڈبل رول کررہے ہوتے ہیں ، ایک انتہائی سنگدل ولن کا اور دوسرا ہلکے پھلکے مزاحیہ ہیرو کا۔ ان دونوں پر آئرن پروین اور احمدرشدی کے یہ دو گیت فلمائے گئے تھے "کیخو جئی لگنی آں تیرا کی خیال اے۔۔" اور "چھنکدی جھانجھرچاندی دی۔۔"
نبیلہ پر مسعودرانا کا پہلا گیت
نبیلہ پر مسعودرانا کا پہلا گیت جو فلمایا گیا تھا وہ فلم کافر (1967) میں ایک جنگی ترانہ تھا "حق کا پرچم لے کر اٹھو ، باطل سے ٹکراؤ۔۔" نسیم بیگم کی نمایاں آواز تھی۔
اس سے اگلے سال کی ایک انتہائی بامقصد فلم بابل دا ویڑا (1968) میں مسعودرانا کا تھیم سانگ "اک دھی لیکھاں ہاری ، کیویں روندی اے وچاری۔۔" نبیلہ کے پس منظر میں گایا گیا تھا۔
اسی سال کی فلم جگ بیتی (1968) میں نبیلہ کا ایک سگھڑ گھریلو بیوی کا کردار بھی بڑا جاندار تھا ، یہ ایک انتہائی اعلیٰ پائے کی سماجی موضوع پر بنائی گئی فلم تھی۔
اداکارہ نبیلہ پر متعدد مقبول عام گیت بھی فلمائے گئے تھے۔ فلم رن مرید (1969) میں ملکہ ترنم نورجہاں کا گایا ہوا یہ سپرہٹ گیت "ڈاھڈا بھیڑا عشقے دا روگ۔۔" نبیلہ پر فلمایا گیا تھا۔ اسی سال کی فلم جگو (1969) میں نبیلہ نے ماں کا کردار کیا تھا اور اس کے پس منظر میں مسعودرانا کا یہ تھیم سانگ فلمایا گیا تھا "اک پتھر نوں پتر لگا ، پُتر جس دا ناں۔۔" ایسا ہی ایک گیت فلم لچھی (1969) میں تھا "ماں دی اکھ توں اج وچھڑ گیا جے ، ماں دا اے نور تے ماں اج رہ گئی کلی۔۔" فلم محلے دار (1970) میں نبیلہ کی جوڑی اسدبخاری کے ساتھ تھی اور اس پر میڈم کا گایا ہوا یہ خوبصورت گیت فلمایا گیا تھا "سجن رُس بہندے نیں ، خورے کی کہندے نیں۔۔" فلم چراغ کہاں روشنی کہاں (1971) میں نبیلہ نے ندیم کی ماں کا رول کیا تھا اور اس کے پس منظر میں مسعودرانا کا یہ گیت فلمایا گیا تھا "دنیا والے کیسا نرالا تیرا یہ سنسار ہے۔۔" فلم وچھڑیا ساتھی (1973) میں میڈم نورجہاں کا یہ گیت بھی بڑا شاندار تھا "وچھڑیا ساتھی ، اوکھی منزل ، رحم کریں تقدیرے۔۔"
فلم نگری داتا دی (1974) میں بھی میڈم کا یہ گیت نبیلہ پر فلمایا گیا تھا "سجنوں ، اے نگری داتا دی ، ایتھے آندا کل زمانہ۔۔" یہ گیت صرف دھن میں مسعودرانا کے مشہور زمانہ گیت سے ملتا تھا ، باقی بول بالکل مختلف تھے۔ نبیلہ کے پس منظر میں مسعودرانا کا آخری گیت جو ملتا ہے وہ فلم بدمعاش پتر (1974) میں تھا "ماں تے اولاد دا رشتہ عجیب اے۔۔"
نبیلہ کے عروج کا دور
نبیلہ کو سپرہٹ فلم ماں پتر (1970) میں سدھیر کے ساتھ ٹائٹل رول میں بڑی مقبولیت ملی تھی اور وہ پنجابی فلموں کی ضرورت بن گئی تھی۔
فلم ضدی (1973) ، کارکردگی اور کامیابی کے لحآظ سے نبیلہ کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس فلم میں وہ ایک ایسی جاگیردارنی کے کردار میں تھی جو انصاف کی خاطر اپنے اکلوتے جوان بیٹے کو گولی تک مار دیتی ہے۔ اسی فلم سے یوسف خان کو سپرسٹار کا درجہ ملا تھا جو گزشتہ دو عشروں سے جدوجہد کر رہے تھے۔
نبیلہ کا زوال
نبیلہ کا اصل نام شیریں گل تھا۔ اس نے سو کے قریب فلموں میں اداکاری کی تھی جن میں سے ایک چوتھائی اردو فلمیں تھیں۔ اس کی آخری فلم محبت اور مجبوری (1981) تھی جو اس کے انتقال کے دو سال بعد ریلیز ہوئی تھی۔ نبیلہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ نشے کی عادی ہو گئی تھی اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہوا تھا۔
نبیلہ کی فلم شادو (1973) سے وابستہ چند یادیں
نبیلہ کی ایک فلم شادو (1973) بھی تھی جس میں اس نے ٹائٹل رول کیا تھا اور جس کے فلمساز اور ہدایتکار فاضل بٹ تھے۔ اس فلم کے ریڈیو کمرشلز میں یہ جملہ سننے کو ملتا تھا "اج ای ویکھو ، فاضل بٹ دی رنگین ، شادو۔۔"
میرے شریر ذہن کو ایک نئی شرارت سوج گئی تھی۔ اتفاق سے میرے محلے میں میری اس چچی کا نام شادو اور اس کے خاوند کا نام فاضل تھا ، جسے میں بڑا تنگ کیا کرتا تھا۔ پورے محلے میں صرف اسے ہی چھیڑتا تھا اور چونکہ وہ چھڑتی تھی اور بہت زیادہ چھڑتی تھی ، اس لیے اسے چھیڑنے کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا۔
جب بھی اس کے گھر کے سامنے سے گزرتا ، جھانک کر دیکھتا کہ چچی گھر میں ہے کہ نہیں۔ اگر نظر آجاتی تو اونچی آواز میں یہ جملہ کستا "اج ای ویکھو ، فاضل بٹ دی رنگین ، شادو۔۔!!!"
وہ مجھے پکڑنے میں ناکامی کے بعد شکایت لے کر میرے گھرجاتی۔ دادا جان مرحوم و مغفور بڑے محظوظ ہوتے اور مجھے ڈانٹ کر جواب طلبی کرتے۔ میں بڑی معصومیت سے پوچھتا کہ آخر اس جملے میں غلط ہی کیا ہے۔۔؟ کیا شادو ، فاضل کی نہیں ہے۔۔؟ اس جواب پر وہ سوچتی ، شرماتی اور لاجواب ہو کر مجھے گھورتے ہوئے بڑبڑاتی ہوئی واپس چلی جاتی۔
اتفاق سے اس فلم کی ریلیز کے چند ماہ بعد نبیلہ ہی کی فلم وچھڑیا ساتھی (1973) ، پاکستان میں پہلے دور میں دیکھی ہوئی میری آخری فلم ثابت ہوئی تھی۔
(2 اردو گیت ... 4 پنجابی گیت )