A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
کراچی سٹیج کے بے تاج بادشاہ ، عمرشریف ، پاکستان کی شوبز کی تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ بن گئے۔۔!
2 اکتوبر 2021ء کو جرمنی میں انتقال کر جانے والے پاکستان کے ہردلعزیز مزاحیہ اداکار عمرشریف کی سرکاری دستاویزات کے مطابق تاریخ پیدائش 2 جنوری 1960ء تھی۔
کراچی کے علاقے 'رام سوامی' میں 'محمدعمر' کے نام سے پیداہوئے اور صرف چار سال کی عمر میں یتیم ہوگئے تھے۔
مزاج میں مزاح کی عادت پیدائشی تھی اور ہر کسی کی نقل اتارنا من پسند مشغلہ تھا۔ بچپن ہی سے بذلہ سنجی، جملے بازی اورطنزومزاح کی عادت پختہ ہو گئی تھی۔ چھ سال کی عمرمیں کیا ہوا اپنا پہلا مزاح انھیں یاد تھا۔
فلم بینی کے جنونی شوق میں ایک مصری اداکار عمرشریف کی ایک برطانوی فلم لارنس آف عریبیا (1962) دیکھی تو اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنا نام ، 'محمدعمر' سے عمرشریف رکھ لیا تھا۔
عمرشریف نے پہلا سٹیج ڈرامہ صرف چودہ سال کی عمر میں کیا تھا۔ سولجربازار کراچی کے آدم جی ہال میں جاری سٹیج ڈرامے کے ایک اداکارکی اچانک غیرحاضری کی وجہ سے ایک جوتشی کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا تھا ۔ پہلی ہی پرفارمنس پر پانچ ہزار روپیہ ، ایک موٹرسائیکل اور سال بھر کا مفت پٹرول بھی ملا تھا جو اس وقت کا بہت بڑا انعام تھا۔
عمرشریف ، بچپن ہی سے کامیڈی میں برصغیر کے بےمثل مزاحیہ اداکار منورظریف سے بے حد متاثر تھے۔ باقی دنیا ، عمرشریف کی دیوانی تھی لیکن عمرشریف ، منورظریف کے دیوانے تھے اور انھیں اپنا روحانی استاد مانتے تھے۔ ان کی فلمی اداکاری پر منورظریف کی گہری چھاپ بھی تھی۔ پہلی بار جب لاہور گئے تو داتا دربار پر حاضری کے بعد سیدھے منورظریف مرحوم کے گھر پہنچ گئے تھے اور فرط جذبات سے ان کے کمرے کی دیوار کو چوم لیا تھا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں تو وہ منورظریف کے ذکر پر رو بھی پڑے تھے۔
عمرشریف نے 1974ء میں کراچی کے سٹیج ڈراموں سے فنی کیرئر کا آغاز کیا تھا لیکن بریک تھرو کے لیے خاصی جدوجہد کرنا پڑی تھی۔
1989ء میں 'بڈھا گھر پہ ہے' اور 'بکرا قسطوں پر' جیسے شاہکار اور مقبول عام ڈراموں نے انھیں کراچی سٹیج کا بے تاج بادشاہ یا 'کنگ آف کامیڈی' بنا دیا تھا۔
ان کے بیشتر ڈرامے 'ون مین شو' ہوتے تھے جن میں ہرطرف عمرشریف ہی عمرشریف ہوتا تھا۔ وہ اداکاری سے زیادہ لطیفہ گوئی ،جگت بازی اور طنزومزاح کیا کرتے تھے۔
ستر سے زائد ڈراموں کے سکرپٹ لکھے جن کے ہدایتکار اور اداکار بھی ہوتے تھے۔ ٹی وی کے ایک مزاحیہ سلسلے 'ففٹی ففٹی' میں بھی کام کیا لیکن ریڈیو اور ٹی وی جیسے سرکاری اداروں کی بے اعتنائی کا بے حد رنج اور شکوہ رہا۔ ان کا ایک قول تھا کہ سینئر اور سانپ میں سے سینئر کو ماردو اور سانپ کو چھوڑدو۔
وہ ، ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے تھے جب آئیڈیو کے بعد ویڈیو کیسٹوں کا دور دورہ تھا۔ 'بنے گا نیا پاکستان۔" اور " اچھے دن آئے ہیں۔۔" جیسے بدنام زمانہ اور مضحکہ خیز گیت گانے والے لوک گلوکار عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی طرح عمرشریف نے بھی انھی کیسٹوں سے بھرپور فائدہ اٹھا یا اور اپنے ڈراموں سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی۔
عمرشریف کی ملک گیر پہچان فلم حساب (1986) میں ایک کامیڈین کے طور پر ہوئی تھی۔ متعدد فلموں میں چھوٹے موٹے کرداروں کے بعد 1992ء کی فلم مسٹر420 سے انھیں بریک تھرو ملا تھا۔ اس سپرہٹ فلم کے وہ ہدایتکار ، مصنف اور ہیرو بھی تھے اور ٹرپل رول بھی کیا تھا۔ روبی نیازی اور مدیحہ شاہ کے علاوہ شکیلہ قریشی بھی ان کی ہیروئن تھی جس کے ساتھ انھوں نے شادی بھی کی تھی۔ اس فلم میں وہ عظیم مزاحیہ اداکار رنگیلا سے بے حد متاثر نظر آئے تھے۔
اس فلم کی ملک گیر کامیابی نے انھیں فلموں کی ضرورت بنا دیا تھا۔ فلم مسٹر420 (1992) کے علاوہ بطور ہدایتکار انھوں نے تین مزید فلمیں بنائی تھیں ، مسٹرچارلی (1993) ، مس فتنہ (1994) اور چاند بابو (1999) جس کے وہ فلمساز بھی تھے۔
عمرشریف پر مسعودرانا کا پہلا گیت فلم جھوٹے رئیس (1993) میں فلمایا گیا تھا جس میں اعجاز نامی ایک گلوکار کے ساتھ یہ دوگانا عمرشریف اور جاوید شیخ پر فلمایا گیا تھا:
دوسرا گیت فلم نہلا دہلا (1994) میں ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ مسعودرانا کا یہ دلکش دوگانا تھا جو روبی نیازی اور عمرشریف پر فلمایا گیا تھا :
دستیاب معلومات کی حد تک عمرشریف پر مسعودرانا کا آخری گیت فلم لاٹ صاحب (1994) میں فلمایا گیا تھا:
عمرشریف کا فلمی کیرئر بڑا مختصررہا۔ پھر بھی صرف 1992ء سے 1999ء تک کے آٹھ برسوں میں ان کی تین درجن کے قریب فلمیں ریلیز ہوئیں جس سے ان کی مقبولیت اور مصروفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ زیادہ تر فلموں میں وہ معاون ہیرو یا کامیڈین کے طور پر کاسٹ کیے گئے تھے۔ فلموں میں اوورایکٹنگ کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔
فلموں میں کام کرنے کی وجہ سے وہ لاہور شفٹ ہوگئے تھے جہاں سٹیج کا شوق بھی جاری رکھا۔ انھوں نے شمع سینما کو تھیٹر میں تبدیل کرکے کئی سال تک کامیابی کے ساتھ ڈرامے پیش کیے اور لاہوریوں کو متبادل تفریح کے مواقع فراہم کیے جہاں ایکشن پنجابی فلموں کے علاوہ لاہور سٹیج کے بے تاج بادشاہ ، امان اللہ خان اوران کے ساتھیوں کی اجارہ داری ہوتی تھی۔
عمرشریف کی آدھی فلمیں ڈبل ورژن تھیں۔ ایسی فلمیں بنیادی طور پر پنجابی زبان میں بنائی جاتی تھیں جنھیں اردو میں ڈب کرکے کراچی سرکٹ میں ریلیز کیا تھا۔ اس طرح سے فلمساز کو پچیس سے تیس فیصد تک زیادہ منافع ہوتا تھا۔
اردو فلموں کے شائقین ایسی فلموں سے جلد ہی اکتا گئے تھے کیونکہ ان فلموں کے گیت عام طور پر پنجابی زبان میں ہوتے تھے اور اگر فلمساز کسی گیت کو اردو میں گوا بھی لیتا تھا تو وہ بھی کسی پنجابی گیت کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہوتا تھا جو اردو میں انتہائی بے تکی شاعری بن جاتی تھی۔
پنجابی اور اردو زبانوں کا اپنا اپنا انداز اور مزاج ہے اور ان کا لفظ بہ لفظ ترجمہ کرنا اور وہ بھی گیتوں کی صورت میں ممکن نہیں۔
ڈبل ورژن فلموں کے خلاف کراچی میں ایک باقاعدہ مہم بھی چلائی گئی تھی۔ ایک فلم ڈاکو ، چور ، سپاہی (1993) کو کراچی میں صرف 'چورسپاہی' کے نام سے ریلیز کیا گیا تھا کیونکہ اہل کراچی ، سلطان راہی کو پسند نہیں کرتے تھے جنھوں نے اس فلم میں ڈاکو کا ٹائٹل رول کیا تھا جبکہ عمرشریف اور اظہارقاضی نے 'چوراورسپاہی' کے رولز کیے تھے۔
سلطان راہی کے قتل کے بعد جہاں پنجابی فلموں کا جنازہ نکلا وہاں ڈبل ورژن فلموں کا دور بھی ختم ہوگیا تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری پھر کبھی ویسا عروج نہیں دیکھ پائی۔
گو اس کے بعد اردو فلموں کا ایک نیا مگر مختصر دور شروع ہوا تھا لیکن ایک دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ڈبل ورژن فلموں کے زوال کے بعد اردو فلموں کے وقت کے مقبول فنکار ، ندیم ، اظہارقاضی ، غلام محی الدین اور عمرشریف وغیرہ بھی زوال پذیر ہوگئےتھے۔
صفر کی دھائی میں عمرشریف ، زیادہ تر ٹی وی پر ایک اینکر کے طور پر نظرآئے۔ ٹی وی چینلوں کے عروج کے اس دور میں وہ پڑوسی ملک کے ایک ٹی وی چینل کے ایک میوزک پروگرام کے مستقل جج بھی تھے۔
دس کی دھائی میں ایک فلم بنا رہے تھے جومکمل نہ ہوسکی تھی۔
جون 2019ء میں عرصہ دس سال بعد آرٹس کونسل کراچی میں 'واہ واہ عمرشریف' کے نام سے ایک ڈرامہ پیش کیا گیا تھا جس میں عمرشریف نے بیٹھ کر پندرہ منٹ کا ایک سین مکمل کیا تھا۔ عارضہ قلب میں مبتلا ہونے اور زبان میں تھوڑی لکنت کی وجہ سے ان کے لیے مکالموں کی ادائیگی مشکل ہو گئی تھی لیکن ٹائمنگ اور سٹائل میں فرق نہیں آیا تھا۔ ان کی صحت، مزاج اور اداکاری دیکھ کر لگتا تھا کہ کراچی سٹیج کے اس بے تاج بادشاہ کے کیرئیر کا سورج غروب ہوا چاہتا ہے۔
عمرشریف ، 'سٹینڈ اپ کامیڈی' کے بھی ماہرتھے۔ اپنے اس فن سے انھوں نے دنیا بھر میں بے شمار قدردان پیداکیے تھے۔
خواتین کے بارے میں لطائف ، ان کا پسندیدہ ترین موضوع ہوتا تھا۔ ان کا سب سے مشہور چٹکلا عورتوں کی درازی عمرکےراز کے بارے میں تھا کہ چونکہ وہ ، دن بھر میک اپ میں ہوتی ہیں اور جب رات کو منہ دھو کرسوتی ہیں تو ملک الموت انھیں پہچان نہیں پاتا ، اسی لیے بچ جاتی ہیں۔
ایک اور لطیفہ بھی زبان زدعام ہوا تھا کہ فوجی جوان اپنے افسران بالا کو متاثر کرنے کے لیے دشمن کے ٹینک پر کیسے قبضہ کرکے لاتے ہیں۔
اپنے متعدد ڈراموں اور مکالموں کی وجہ سے وہ متنازعہ بھی بنے لیکن ایک سادہ ، سچے اور کھرے انسان تھے۔ وہ بخیل اور بددیانت نہیں تھے اورجہاں دیگر سینئر اور ہم عصر فنکاروں کی عظمت کا اعتراف کرتے تھے وہاں یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ 'سٹینڈ اپ کامیڈی' کا فن ، انھوں نے اور معین اختر نے خالدعباس ڈار سے سیکھا تھا جو لاہور سٹیج کا ایک بہت بڑا اور قابل احترام نام تھا۔
عمرشریف نے پہلی شادی اپنی ایک پڑوسن سے کی تھی جس سے ان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔ اپنی ساتھی اداکاراؤں ، شکیلہ قریشی اور زرین غزل سے بھی شادیاں کی تھیں۔
فروری 2020ء میں اپنی بیٹی کے گردوں کی پیوندکاری کے دوران انتقال نے انھیں ہلا کررکھ دیا تھا۔ وہ خود کافی عرصے سے عارضۂ قلب ، گردوں اور دیگر امراض میں مبتلا تھے۔ علاج کے لیے انھیں امریکہ لے جایا جارہا تھا لیکن 2 اکتوبر 2021ء کو جرمنی میں دارفانی سے کوچ کرگئے تھے۔
اللہ تعالیٰ ، مرحوم کی مغفرت کرے (آمین)۔
1 | ذرا لک نوں ہلارا دے کڑیئے نی تیرا تنبا وجدا..فلم ... جھوٹے رئیس ... پنجابی ... (1993) ... گلوکار: مسعود رانا ، اعجاز ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: ؟ ... اداکار: جاویدشیخ ، عمرشریف |
2 | آجا ، پیار پیار پیار پیار ، پیار کرئیے ، پر لا کے بدلاں نوں اُڈ چلیے..فلم ... نہلا دہلا ... پنجابی ... (1994) ... گلوکار: نورجہاں ، مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: ؟ ... اداکار: روبی نیازی ، عمرشریف |
3 | تینوں میرے لئی رب نے بنایا ، جی کرے ویخدا رہواں..فلم ... لاٹ صاحب ... پنجابی ... (1994) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ایم اشرف ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: عمرشریف |
1 | ذرا لک نوں ہلارا دے کڑیئے نی تیرا تنبا وجدا ...(فلم ... جھوٹے رئیس ... 1993) |
2 | آجا ، پیار پیار پیار پیار ، پیار کرئیے ، پر لا کے بدلاں نوں اُڈ چلیے ...(فلم ... نہلا دہلا ... 1994) |
3 | تینوں میرے لئی رب نے بنایا ، جی کرے ویخدا رہواں ...(فلم ... لاٹ صاحب ... 1994) |
1 | تینوں میرے لئی رب نے بنایا ، جی کرے ویخدا رہواں ...(فلم ... لاٹ صاحب ... 1994) |
1 | ذرا لک نوں ہلارا دے کڑیئے نی تیرا تنبا وجدا ...(فلم ... جھوٹے رئیس ... 1993) |
2 | آجا ، پیار پیار پیار پیار ، پیار کرئیے ، پر لا کے بدلاں نوں اُڈ چلیے ...(فلم ... نہلا دہلا ... 1994) |
1. | 1993: Jhootay Rais(Punjabi/Urdu double version) |
2. | 1994: Nehla Dehla(Punjabi/Urdu double version) |
1. | 1993: Paidagir(Punjabi/Urdu double version) |
2. | 1993: Jhootay Rais(Punjabi/Urdu double version) |
3. | 1994: Nehla Dehla(Punjabi/Urdu double version) |
4. | 1994: Khandan(Punjabi/Urdu double version) |
5. | 1994: Laat Sahb(Punjabi/Urdu double version) |
6. | 1994: Bala Peeray Da(Punjabi) |
1. | Punjabi filmJhootay Raisfrom Wednesday, 2 June 1993Singer(s): Masood Rana, Ejaz, Music: Wajahat Attray, Poet: ?, Actor(s): Javed Sheikh, Umer Sharif |
2. | Punjabi filmNehla Dehlafrom Friday, 21 January 1994Singer(s): Noorjahan, Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: ?, Actor(s): Rubi Niazi, Umer Sharif |
3. | Punjabi filmLaat Sahbfrom Friday, 12 August 1994Singer(s): Masood Rana, Music: M. Ashraf, Poet: Khawaja Parvez, Actor(s): Umer Sharif |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.