A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
فلم بینوں کی اکثریت یہ تو جانتی ہے کہ پنجابی فلموں کے سب سے کامیاب اداکار سلطان راہی کے لیے بریک تھرو بننے والی فلم بشیرا (1972) تھی اور اردو فلموں کے کامیاب ترین اداکار ندیم کو بام عروج پر پہنچانے والی فلم دل لگی (1974) تھی لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان سپرہٹ فلموں کے کردار تخلیق کرنے والے مصنف عزیز میرٹھی تھے۔۔!
عزیز میرٹھی نے پانچ درجن کے قریب فلموں کی کہانیاں ، مکالمے اور منظرنامے لکھے تھے۔ تین درجن فلموں کے مکمل مصنف جبکہ متعدد فلموں کے گیت لکھنے کے علاوہ بطور ہدایتکار آٹھ فلمیں بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں۔
عزیز میرٹھی نے فلمی کیرئر کا آغاز فلم دو کنارے (1949) میں مکالمہ نگار کی حیثیت سے کیا تھا۔ اپنی دوسری فلم کندن (1950) میں مکمل مصنف یعنی کہانی نویس ، مکالمہ نگار اور منظرنامہ نگار ہونے کے علاوہ ایک گیت کے شاعر بھی تھے۔ وہ گیت بھی کیا کمال کا لکھا گیا تھا
اس فلم کے ہدایتکار ایم ایس ڈار تھے جو معروف ہدایتکار اسلم ڈار کے والد گرامی تھے اور جن کے ساتھ عزیز میرٹھی کا بڑا زبردست ساتھ رہا تھا۔
عزیز میرٹھی کو پاکستان کی پہلی سپرہٹ گولڈن جوبلی فلم سسی (1954) کے جملہ گیت لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس ریکارڈ ساز فلم کا مقبول ترین گیت
تھا۔ اس خوبصورت گیت کو بابا چشتی نے کوثرپروین اور پپوپکھراج کی آوازوں میں ریکارڈ کیا تھا۔ اسی سال ریلیز ہونے والی بھارتی فلم شرط (1954) میں ایک گیت اسی مکھڑے اور طرز کے ساتھ شامل تھا جو ہیمنت کمار کی دھن اور گائیکی میں ساتھی گلوکار گیتادت کے ساتھ تھا ، شاعر کے طور پر شمس الہدا بہاری کا نام ملتا ہے۔ اب نجانے کس نے کس کی نقل کی تھی البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے بعد عزیز میرٹھی کی بطور نغمہ نگار صرف تین فلموں میں تین گیت ہی ملتے ہیں۔
ہدایتکار کے طور پر عزیز میرٹھی نے کل آٹھ فلمیں بنائی تھیں جن کے مصنف بھی خود تھے۔
ان کی پہلی فلم حسن و عشق (1962) تھی جس میں نیلو اور رتن کمار روایتی جوڑی تھی۔ یہ ایک جادوئی فلم تھی۔
ان کی اگلی فلم ہزار داستان (1965) بھی ایسی ہی ایک فلم تھی جس میں محمدعلی اور رانی مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم میں رشیدعطرے کی دھن میں فیاض ہاشمی کا لکھا ہوا اور مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا:
ان کی اگلی فلم عالیہ (1967) میں شمیم آرا اور کمال کی جوڑی تھی اور مہدی حسن کا یہ گیت بھی پسند کیا گیا تھا:
فیاض ہاشمی کے اس گیت کی دھن ماسٹرعنایت حسین نے بنائی تھی۔
عزیز میرٹھی کی بطور ہدایتکار فلم ستمگر (1967) میں پہلی بار مسعودرانا کا کوئی گیت ملتا ہے جو مالا کے ساتھ گایا ہوا ایک دلکش دوگانا تھا:
تنویرنقوی کی شاعری اور ماسٹرتصدق حسین کی موسیقی تھی۔ اسی فلم میں ایک تھیم سانگ بھی مسعودرانا کی آواز میں تھا:
رانی ، درپن ، یوسف خان اور صبیحہ اہم کردار تھے۔ فلم لالہ رخ (1968) بھی ایک الف لیلوی داستان تھی جس میں نیلو اور محمدعلی اہم کردار تھے۔ سلیم اقبال کی موسیقی میں مسعودرانا کا یہ تھیم سانگ تھا:
جبکہ آئرن پروین کے ساتھ یہ مزاحیہ گیت بھی تھا "دنیا تو جھکی ہے میرے یار کے آگے۔۔"
عزیز میرٹھی پر جادوئی فلمیں بنانے کا لیبل لگ گیا تھا لیکن پرستان (1968) اس سلسلے کی آخری فلم ثابت ہوئی تھی جس میں نیلو کے ساتھ محمدعلی تھے۔ اس فلم میں رشیدعطرے کی دھن میں تنویرنقوی کا لکھا ہوا یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا:
نسیم بیگم کے سپرہٹ گیتوں میں سے یہ ایک ناقابل فراموش گیت تھا۔ ان کی اگلی دونوں فلمیں مختلف انداز کی تھیں جن میں فلم یادیں (1971) ایک رومانٹک اور نغماتی فلم تھی۔ رجب علی اور میڈم نورجہاں کا یہ دوگانا بڑا مقبول ہوا تھا:
زیبا اور محمدعلی پر فلمائے گئے اس گیت کے شاعر تسلیم فاضلی اور موسیقارایم اشرف تھے۔ بطور ہدایتکار ان کی آخری فلم پیاسی (1988) ایک گمنام فلم تھی۔
عزیز میرٹھی کی اصل پہچان مصنف کے طور پر تھی۔ ان کی پانچ درجن فلموں میں سے تین درجن فلموں کے وہ مکمل مصنف تھے جن میں ناگن (1959) ، سلطنت (1960) ، خیبرپاس (1964) ، ہزارداستان (1965) ، بشیرا (1972) زرق خان ، بنارسی ٹھگ (1973) ، دل لگی ، بابل صدقے تیرے (1974) اور زبیدہ (1976) اہم ترین فلمیں تھیں۔ آخری فلم شیردل (2012) ریکارڈ پر ہے۔
مسعودرانا کے ساتھ بطور مصنف ، عزیز میرٹھی کی 13 فلموں میں سے پہلی یادگار ترین فلم بشیرا (1972) تھی۔ اس فلم کی ہائی لائٹ کمال احمد کی دھن میں مشیر کاظمی کی لکھی ہوئی یہ قوالی تھی:
مجھے کبھی نہیں بھولتا کہ ایک فلم بین اپنے ساتھی کو یہ بتا رہا تھا کہ سلطان راہی ایک برا آدمی ہوتا تھا (یعنی ولن تھا) لیکن یہ قوالی سن کر اس نے گناہوں سے توبہ کر لی تھی اور نیک ہوگیا تھا (یعنی ہیرو بن گیا تھا)۔ فلمی کہانی اور سلطان راہی کی فلمی داستاں بھی کچھ ایسی ہی تھی۔
فلم زرق خان (1973) میں بھی سلطان راہی ہیرو تھے۔ اس فلم میں رنگیلا پر فلمایا ہوا مسعودرانا کا ایک کلاسیکل گیت فلم کی ہائی لائٹ تھا:
یہ دونوں فلمیں ان دس فلموں میں شامل تھیں جو عزیز میرٹھی اور ہدایتکار اسلم ڈار کی شراکت میں بنی تھیں۔
عزیز میرٹھی کی بطور مصنف ایک اور سپرہٹ فلم بنارسی ٹھگ (1973) بھی تھی۔ یہ کئی لحاظ سے ایک یادگار فلم تھی۔ پنجابی فلموں کی کلاسیک جوڑی ، فردوس اور اعجاز کی یہ آخری سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم کے میڈم نورجہاں کے گائے ہوئے گیت "اکھ لڑی بدو بدی۔۔" نے ممتاز کو ایک ڈانسر سے صف اول کی ہیروئن بنا دیا تھا۔ ایک چوٹی کے کامیڈین منورظریف کو ایک چوٹی کا کامیڈی ہیرو بنانے والی فلم بھی یہی تھی جن پر مسعودرانا کا یہ سپرہٹ گیت فلمایا گیا تھا :
اس فلم کے ہدایتکار اقبال کاشمیری تھے جن کے ساتھ بھی عزیز میرٹھی کی دس فلمیں ملتی ہیں۔
عزیز میرٹھی کی ایک اور یادگار فلم دل لگی (1974) تھی جس نے شبنم اور ندیم کو اردو فلموں کی ضرورت بنا دیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اس جوڑی کی جتنی بھی فلمیں کامیاب ہوتی تھیں ، وہ کراچی سرکٹ کی ہوتی تھیں۔ کراچی میں کامیاب ہونے والی فلم کا مطلب یہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ باقی ملک میں بھی کامیاب فلمیں تھیں۔ کراچی میں ملک کی دس فیصد آبادی ہے اور وہاں کل سینماؤں کا بھی صرف دس فیصد ہوتا تھا۔
ہمارے میڈیا پر چونکہ اردو بولنے والوں کی اجارہ داری رہی ہے ، اس لیے ہمیں پڑھنے ، سننے اور دیکھنے کو وہی کچھ ملتا ہے ، جو انھیں پسند ہوتا ہے یا جس کا انھیں علم ہوتا ہے۔ عام آدمی کے پاس چھان پھٹک کا وقت نہیں ہوتا اور وہ اسی کو سچ سمجھتا ہے جو وہ دیکھتا ، سنتا یا پڑھتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ نوے فیصد پاکستانیوں کی میڈیا پر نمائندگی نہیں ہوتی اور جس پاکستان کا تصور میڈیا پر پیش کیا جاتا ہے ، وہ دیوار پر لٹکے ایک نقشے کے علاوہ چند کتابوں اور نظریات تک محدود ہوتا ہے۔
شبنم اور ندیم کی جوڑی کی پہلی بڑی فلم دل لگی (1974) تھی جس کے دونوں سپرہٹ گیت گانے کا اعزاز بھی مسعودرانا کو حاصل تھا۔ پہلا گیت تھا:
آگ لگا کر چھپنے والے ، سن میرا افسانہ ،
میں گیتوں میں تجھے پکاروں ، لوگ کہیں دیوانہ۔۔
اس آخری گیت سے میری بڑی گہری یادیں وابستہ ہیں۔ مئی 1982ء میں دوبارہ ڈنمارک آنے کا موقع ملا تھا تو پاکستان سے روانگی کے وقت یہ گیت میرے لبوں پر مچل رہا تھا۔ اس کا پس منظر البتہ بڑا تلخ تھا۔۔!
1970ء میں صرف آٹھ سال کی عمر سے روزانہ کی اخبار بینی کے علاوہ ریڈیو ، ٹی وی اور فلم سے دلچسپی نے مجھے بزرگوں میں بیٹھ کر سیاسی بحث و مباحثہ میں حصہ لینے کا موقع دیا۔ پاکستان کے پہلے انتخابات ، سیاسی بحران ، سانحہ مشرقی پاکستان ، جنگ دسمبر 1971ء کے علاوہ پاکستان کی تاریخ کے عظیم ترین لیڈر اور واحد عوامی لیڈر جناب ذوالفقارعلی بھٹو کا دورحکومت اور کئی ایک انقلابی اقدامات وغیرہ آج تک ذہن سے چپکے ہوئے ہیں۔
بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت نے ایسا پختہ سیاسی شعور دیا تھا کہ میں ایک جنونی پاکستانی بن گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب دسمبر 1973ء میں جبراً ڈنمارک بھیجا گیا تھا تو تمام تر مادی وسائل کے باوجود یہاں کے ماحول کو قبول نہیں کیا تھا اور پاکستان واپس جانے کی ضد کرتا تھا جہاں میرا بچپن انتہائی غیر معمولی طور پر گزرا تھا۔
دسمبر 1976ء میں جب تین سالہ قیام کے بعد دوبارہ پاکستان گیا تو میری پاکستانیت اپنے جوبن پرتھی۔ جتنی مادی سہولیات ڈنمارک میں میسر تھیں ، پاکستان جیسے غریب ترین ملک میں ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا لیکن وطن کی محبت میں سب کچھ قربان کر کے پاکستان چلا گیا تھا۔
میرا ارادہ ایک سرگرم پاکستانی کے طور زندگی گزارنے کا تھا جو تعلیم مکمل کرکے قلمی جہاد سے جہالت کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پاکستان میں اپنے ساڑھے پانچ سالہ قیام نے اتنے تلخ تجربات سے دوچار کیا کہ پچھتانا پڑا کہ یہاں آنے کی حماقت کیوں کی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ دن رات دعائیں مانگنے لگا کہ کسی طرح سے دوبارہ واپس جا سکوں۔
مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ دادا جان کا انتقال ہوگیا تھا ، والدصاحب واپس چلے گئے تھے لیکن مجھے اپنی والدہ صاحبہ اور چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے رکنا پڑا جو اکیلے رہ گئے تھے۔ ارادہ تھا کہ پوری فیملی ایک ساتھ ڈنمارک جائیں گے۔ ویزے اپلائی کیے گئے جو رد ہوگئے تھے۔ وجہ یہ بنی کہ سرکاری دستاویزات میں دو چھوٹی بہنوں کی عمروں میں فرق صرف چھ ماہ کا لکھا ہوا تھا جو ظاہر ہے کہ انتہائی مشکوک تھا۔
اس غیرمعمولی غلطی کی وجہ یہ تھی کہ جب 1974ء میں پاکستان میں پہلی بار شناختی کارڈ سسٹم کا اجراء ہوا تھا تو ہر شہری کو اپنے نام کے ساتھ تاریخ پیدائش بھی لکھنا پڑتی تھی۔ اکثریت ان پڑھ تھی جنھیں اپنی پیدائش کی تاریخ تک معلوم نہ تھی۔ اوپر سے سہل پسندی اور ہڈحرامی ہمارے ہاں معمول ہے۔
دادا جان مرحوم نے اپنے ایک دوست کی معرفت شناختی کارڈز بنوائے جن پر متعلقہ دوست نے اپنی صوابدید پر اندازاً نام اور تاریخ پیدائشیں لکھوا دی تھیں۔ بعد میں پاسپورٹ بھی انھی دستاویزات کے مطابق بنے جس کی وجہ سے ویزہ اپلائی کرنے پر رد ہوگیا تھا۔ اس سنگین غلطی کا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑا کیونکہ بغیر ویزے کے واپس ڈنمارک جانا ممکن نہیں تھا۔
کاتب تقدیر کی یہ حکمت تھی کہ جب میں تاریخ و سیاست کا طالبعلم تھا تو میرے لیے ان عملی تجربات سے گزرنا بھی ضروری تھا جو مستقبل قریب میں ہونے والے تھے۔ دسمبر 1976ء میں میرے پاکستان جانے کے بعد سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوئے۔ جناب ذوالفقارعلی بھٹو ، ایک انتہائی مقبول اور مضبوط وزیراعظم تھے لیکن ان کا زوال شروع ہوگیا تھا۔
وغیرہ ، میں ان سب تاریخی واقعات کا عینی شاہد تھا جنھیں بڑی تفصیل سے اپنی ڈائریوں میں رقم کیا کرتا تھا۔
ڈنمارک جیسے ایک مثالی اور جمہوری ملک میں رہ چکا تھا جہاں پچھلے ڈیڑھ سو سال سے جمہوری نظام بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ یہاں کوئی فرد یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں ہے اور ہر کام قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی آمر یا آمرانہ سوچ کو قبول کرنا بڑا مشکل تھا جہاں کوئی جاہ طلب شخص محض طاقت کے بل بوتے پر وقت کا فرعون بن جائے اور خلق خدا کو بھیڑ بکریاں سمجھے۔
جولائی 1977ء میں جدید تاریخ کا سب سے بڑا منافق ، ڈکٹیٹر جنرل ضیاع مردود ، پاکستان پر مسلط ہوگیا تھا۔ اس مردود کا نام لیتے ہوئے زبان ناپاک ہو جاتی ہے کیونکہ کسی غلیظ ترین گالی کے بغیر اس لعنتی کردار کا نام لینا ممکن ہی نہیں۔
اس دور میں عوام الناس میں یہ احساس بڑا شدید ہوگیا تھا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ غاصبوں ، جابروں اور طاقتور مفادپرستوں کا ٹولہ ہے جو اس ملک پر کسی وباء کر طرح مسلط ہوجاتا ہے۔
میری طرح جو لوگ سوچنے ، سمجھنے اور پرکھنے کے عادی ہوتے ہیں ، ان کے لیے ایسی گھٹن میں زندہ رہنا محال ہوجاتا ہے۔ ضمیر کی موت ، روح کی موت ہے اور یہی فرق ، انسان کو حیوان سے ممتاز کرتا ہے۔
ان دنوں ٹی وی پر ایک گیت بڑا مشہور ہوا تھا:
امجدحسین نامی گلوکار کے گائے ہوئے اس گیت کی پیروڈی بڑی مشہور ہوئی تھی جو اسوقت کے حالات کی مکمل تصویر تھی:
میرا زندگی بھر کسی سیاسی پارٹی سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ، نہ کبھی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہا ہوں اور نہ کبھی کسی قسم کے سیاسی عزائم رہے ہیں لیکن بھٹو صاحب کی شخصیت اور ان کا سیاسی کردار ہمیشہ غیر متنازعہ رہا۔ بچپن سے ان کے بڑے بڑے ناقدین کو پڑھنے ، سننے اور دیکھنے کے باوجود کبھی متاثر نہیں ہوا۔
تاریخ کو اس کے اصل سیاق و سباق میں دیکھتا ہوں اور دکھانا بھی چاہتا ہوں جو پاکستان جیسے ملک میں ممکن نہیں تھا جہاں لکیر کے فقیر خلاف مزاج تحریر و تقریر برداشت نہیں کر سکتے۔ جہالت ، تنگ نظری ، غلامانہ اور فرسودہ سوچ کا دور دورہ ہے اور غنڈہ گردی اور بدمعاشی سے مخالف آوازیں دبا دی جاتی ہیں۔
ساڑھے پانچ سال کی ذہنی اذیت کے بعد مایوسی کے بادل بالآخر چھٹ گئے اور دوبارہ ڈنمارک آنے کا موقع مل گیا تھا۔
ہوا یوں کہ ڈنمارک کے چند اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ایک گروپ ہمارے تعلیمی نظام اور کلچر کے بارے میں ایک جائزے یا سروے کے لیے پاکستان گیا۔ گائیڈ اور ترجمان کے طور پر ایک پاکستانی ساتھ تھے جو اتفاق سے والدصاحب مرحوم کے قریبی دوست تھے۔ وہ اس گروپ کو اچانک ہمارے گھر لے آئے جہاں انھوں نے رات بسر کی۔ حسب توفیق ان کی خاطر و مدارت کی گئی۔ دوسرے دن وہ ہمارے خاندان کے کئی افراد کے گھروں میں گئے اور ہماری مہمان نوازی اور رہن سہن کا قریبی مشاہدہ کیا۔
میں نے کئی سال بعد ان سے ڈینش زبان میں بات کی تو وہ بڑے متاثر ہوئے۔ یہ جان کر کہ ہمارے ویزے رد ہوگئے تھے تو انھوں نے ہمارا کیس لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ایک سال کے اندر اندر ہمارے ویزے لگ گئے تھے اور ایک طویل اور صبر آزما امتحان ختم ہوگیا تھا۔ بلاشبہ یہ ایک غیبی مدد تھی۔۔!
پاکستان کے حالات سے اس قدر دل برداشتہ ہوچکا تھا کہ فیصلہ کر لیا تھا کہ دوبارہ کبھی اس مقبوضہ سرزمین پر قدم نہیں رکھوں گا۔ اس وقت "مرجھائے ہوئے پھولوں کی قسم ، اس دیس میں پھر نہ آؤں گا۔۔" جیسا شاہکار گیت میرے جذبات کی مکمل طور پر ترجمانی کررہا تھا۔
عرصہ چودہ سال بعد دوبارہ 1996ء میں پاکستان گیا ، تب بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی لیکن اختیارات کا منبع پھر بھی آمر مردود کی باقیات تھیں۔ آخری بار 2002ء میں ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں جانا پڑا اور اپنے مادر وطن جانے کی رہی سہی خواہش بھی ختم ہوگئی تھی۔
گو گزشتہ دو عشروں سے پاکستان نہیں گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اور ہر وقت اس خیالی پاکستان میں رہتا ہوں ، جو میرا اور ہر اس غیور پاکستانی کا ہے جو اس سرزمین پر پیدا ہوا اور خود کو پاکستانی سمجھتا ہے۔
یہی خواہش ہے کہ جس طرح ڈنمارک ایک مثالی جمہوری اور فلاحی ریاست ہے ، کاش میرا آبائی وطن پاکستان بھی بن جائے۔
یہ مشکل تو ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ لیکن یہ ایک خواب ہے جو ابھی ایک مدت تک شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا اور لگتا ہے کہ اپنے باپ کی طرح مجھے بھی مایوسی کی حالت میں ڈنمارک کی مٹی ہی میں دفن ہونا پڑے گا۔۔!
1 | فلم ... ستمگر ... اردو ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: درپن ، رانی |
2 | فلم ... ستمگر ... اردو ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: فیاض ہاشمی ... اداکار: (پس پردہ، صبیحہ ، درپن) |
3 | فلم ... لالہ رخ ... اردو ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: سلیم اقبال ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: (پس پردہ) |
4 | فلم ... لالہ رخ ... اردو ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین ... موسیقی: سلیم اقبال ... شاعر: ریاض الرحمان ساغر ... اداکار: ننھا |
5 | فلم ... بشیرا ... پنجابی ... (1972) ... گلوکار: مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: کمال احمد ... شاعر: مشیر کاظمی ... اداکار: امداد حسین مع ساتھی |
6 | فلم ... میں اکیلا ... اردو ... (1972) ... گلوکار: مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: مشیر کاظمی ... اداکار: اسد بخاری |
7 | فلم ... میں اکیلا ... اردو ... (1972) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: مشیر کاظمی ... اداکار: (پس پردہ، اسد بخاری ) |
8 | فلم ... میں اکیلا ... اردو ... (1972) ... گلوکار: سائیں اختر ، عنایت حسین بھٹی ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: ؟ ... اداکار: بخشی وزیر مع ساتھی |
9 | فلم ... میں اکیلا ... اردو ... (1972) ... گلوکار: مسعود رانا ، نسیم بیگم ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: ؟ ... اداکار: شاہد ، آسیہ |
10 | فلم ... زرق خان ... اردو ... (1973) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: کمال احمد ... شاعر: فیاض ہاشمی ... اداکار: رنگیلا |
11 | فلم ... خدا تے ماں ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: (پس پردہ، ٹائٹل سانگ ، تھیم سانگ ، نیئر سلطانہ) |
12 | فلم ... خدا تے ماں ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: آئرن پروین ، مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: شایدہ ، منور ظریف |
13 | فلم ... بنارسی ٹھگ ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: منور ظریف |
14 | فلم ... رنگیلا عاشق ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: وارث لدھیانوی ... اداکار: رنگیلا |
15 | فلم ... رنگیلا عاشق ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: ؟ ... اداکار: رنگیلا |
16 | فلم ... دل لگی ... اردو ... (1974) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر رفیق علی ... شاعر: مشیر کاظمی ... اداکار: ندیم |
17 | فلم ... دل لگی ... اردو ... (1974) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر رفیق علی ... شاعر: مشیر کاظمی ... اداکار: ندیم |
18 | فلم ... سہاگ میرا لہو تیرا ... پنجابی ... (1974) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عنایت حسین ... شاعر: حامد دارد ... اداکار: ؟ |
19 | فلم ... چترا تے شیرا ... پنجابی ... (1976) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عنایت حسین ... شاعر: ؟ ... اداکار: منور ظریف |
20 | فلم ... تقدیر کہاں لے آئی ... اردو ... (1976) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: منظور ... شاعر: روبی ... اداکار: ؟ |
21 | فلم ... الہ دین ... اردو ... (1981) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: کمال احمد ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: فیصل |
1. | 1967: Sitamgar(Urdu) |
2. | 1968: Lala Rukh(Urdu) |
3. | 1972: Basheera(Punjabi) |
4. | 1972: Main Akela(Urdu) |
5. | 1973: Zarq Khan(Urdu) |
6. | 1973: Khuda Tay Maa(Punjabi) |
7. | 1973: Banarsi Thug(Punjabi) |
8. | 1973: Rangeela Ashiq(Punjabi) |
9. | 1974: Dillagi(Urdu) |
10. | 1974: Suhag Mera Lahu Tera(Punjabi) |
11. | 1976: Chitra Tay Shera(Punjabi) |
12. | 1976: Taqdeer Kahan Lay Ayi(Urdu) |
13. | 1981: Aladdin(Urdu) |
1. | Urdu filmSitamgarfrom Friday, 10 November 1967Singer(s): Masood Rana, Music: Tasadduq Hussain, Poet: , Actor(s): (Playback - Sabiha, Darpan) |
2. | Urdu filmSitamgarfrom Friday, 10 November 1967Singer(s): Masood Rana, Mala, Music: Tasadduq Hussain, Poet: , Actor(s): Darpan, Rani |
3. | Urdu filmLala Rukhfrom Tuesday, 2 January 1968Singer(s): Masood Rana, Irene Parveen, Music: Saleem Iqbal, Poet: , Actor(s): Nanha, Husn Ara |
4. | Urdu filmLala Rukhfrom Tuesday, 2 January 1968Singer(s): Masood Rana, Music: Saleem Iqbal, Poet: , Actor(s): (Playback) |
5. | Punjabi filmBasheerafrom Friday, 21 April 1972Singer(s): Masood Rana & Co., Music: Kemal Ahmad, Poet: , Actor(s): Imdad Hussain & Co. |
6. | Urdu filmMain Akelafrom Friday, 23 June 1972Singer(s): Masood Rana, Naseem Begum, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Shahid, Asiya |
7. | Urdu filmMain Akelafrom Friday, 23 June 1972Singer(s): Sain Akhtar, Inayat Hussain Bhatti, Masood Rana & Co., Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Bakhshi Wazir & Co. |
8. | Urdu filmMain Akelafrom Friday, 23 June 1972Singer(s): Masood Rana, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Asad Bukhari |
9. | Urdu filmMain Akelafrom Friday, 23 June 1972Singer(s): Masood Rana, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): (Playback - Asad Bukhari) |
10. | Urdu filmZarq Khanfrom Tuesday, 16 January 1973Singer(s): Masood Rana, Music: Kemal Ahmad, Poet: , Actor(s): Rangeela |
11. | Punjabi filmKhuda Tay Maafrom Friday, 22 June 1973Singer(s): Irene Parveen, Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): Shahida, Munawar Zarif |
12. | Punjabi filmKhuda Tay Maafrom Friday, 22 June 1973Singer(s): Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): (Playback - Nayyar Sultana) |
13. | Punjabi filmBanarsi Thugfrom Sunday, 28 October 1973Singer(s): Masood Rana, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Munawar Zarif |
14. | Punjabi filmRangeela Ashiqfrom Friday, 23 November 1973Singer(s): Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): Rangeela |
15. | Punjabi filmRangeela Ashiqfrom Friday, 23 November 1973Singer(s): Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): Rangeela |
16. | Urdu filmDillagifrom Friday, 15 February 1974Singer(s): Masood Rana, Music: Master Rafiq Ali, Poet: , Actor(s): Nadeem |
17. | Urdu filmDillagifrom Friday, 15 February 1974Singer(s): Masood Rana, Music: Master Rafiq Ali, Poet: , Actor(s): Nadeem |
18. | Punjabi filmSuhag Mera Lahu Terafrom Friday, 6 December 1974Singer(s): Masood Rana, Music: Master Inayat Hussain, Poet: , Actor(s): ? |
19. | Punjabi filmChitra Tay Sherafrom Friday, 16 July 1976Singer(s): Masood Rana, Music: Master Inayat Hussain, Poet: , Actor(s): Munawar Zarif |
20. | Urdu filmTaqdeer Kahan Lay Ayifrom Friday, 17 December 1976Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Manzoor, Poet: , Actor(s): ? |
21. | Urdu filmAladdinfrom Sunday, 2 August 1981Singer(s): Masood Rana, Music: Kemal Ahmad, Poet: , Actor(s): Faisal |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.